Urdu Font Stories (مزے دار کہانیاں)
جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 5
حنون قبیلے کے سب بزرگ اس محفل میں شامل تھے یہ محفل آزر کے اپنے قبیلے واپس آنے کی خوشی میں رکھی گئی تھی اور ساتھ ہی سب نے مشترکہ فیصلہ یہ بھی کیا کہ آزر نے اپنی سزا پوری کر لی ھے تو اب اسکی طاقتیں اسے واپس کر دی جائے اور اسے سردار بھی مکرر کر دیا جائے کیونکہ وہ ہی اصلی حقدار بھی ہے اور اس نے اپنے استاد صاحب "خان بابا" کی بات کا مان بھی رکھا تھا خان بابا نے اسے کہا تھا جب تک لڑکی بالغ نہیں ھوجاتی تم اس کے سامنے نہیں جاؤ گے نہ اسے پتہ چلنے دو گے تم کون ہو اور اس کے بالغ ہونے کے بعد اس کی مرضی سے ہی تم اس کے ساتھ رہ سکتے ھو
اگر اس نے تمہیں خد سے دور رہنے کو کہا تو تم کوئی زور زبردستی نہیں کروگے نہ اسے ڈراؤ دھمکاؤ گے آزر کو خان بابا کی ایک ایک بات یاد تھی خان بابا بھی بہت خوش تھے آج سہی معنی میں وہ مکمل ھوا تھا ایک جن زاد سر پر سرداری کا تاج پہنے بے شمار طاقتیں لئے وہ اپنے بابا کی جگہ پر بیٹھا تھا اس کے دل میں بے پناہ سکون اترا تھا کیونکہ آج اس کے دل نے اسے خد غرض کہہ کر ملامت نہیں کیا تھا اس نے دل میں عہد کیا تھا کے اپنے قبیلے کی ہر زماداری اٹھائے گا کسی بھی حالت میں اپنی زماداریوں سے منہ نہیں موڑے گا
اب وہ سب سے مخاطب ھوا تھا
میں "محمد آزر شاہ سلطان"
سب سے پہلے آپ سب سے اپنے ہر برے رویے کے لئے معزرت خواہ ہوں اور ساتھ ہی آپ سب سے ایک عہد بھی کرتا ھوں کے میں آپ سب سے وفا کرونگا اپنے قبیلے کے لئے اگر کبھی جان بھی دینی پڑی تو پیچھے نہیں ہٹوں گا آج سے آپ سب میری زماداری ھیں
آپ کو کوئی بھی مسلہ یا شکائیت ھو آپ بے جھجھک مجھ سے بات کرسکتے ہیں
میں آپ سب کا سردار ہی نہیں بیٹا بھی ھوں میں قوم کا بیٹا ھوں یہ کہہ کر آزر خاموش ھوگیا سب بہت خوش تھے کہ آزر بہت سمجھدار اور سلجھی ہوئی باتیں کر رہا تھا اسکی آواز میں اک روعب اور دبدبا تھا اسکی شخصیت ان پانچ سال میں بہت سنور گئی تھی اب سب آزر کو باری باری مبارک باد اور دعائیں دے رہے تھے
خان بابا نے محفل برخاست کی اور سب وہاں سے چلے گئے خان بابا کچھ دیر آزر کو یونہی دیکھتے رہے کے وہ ہر طرح سے مکمل لگ رہا تھا بس آنکھوں میں بے چینی اور اضطراب تھا جسے وہ باقی سب سے تو چھپا گیا تھا مگر خان بابا سے نہیں چھپا سکا۔
آزر بیٹا اتنے بے چین کیوں ھو
خان بابا بات کرتے ہوئے ہلکا سا مسکرائے تھے
جب آپ سب کچھ جانتے ھیں پھر مجھ سے کیوں پوچھ رھے ھیں خان بابا آزر بھی مسکرا کہ بولا تھا
اور پھر وہ دھیمے لہجے میں بولے اب میں بہت ضعیف اور کمزور ھوگیا ھوں آزر تمہارے یہاں سے جانے کے بعد میں نے یہاں کے سب حالات بڑی مشکل سے سنبھالے ہوئے تھے میں نے سب کو یک جاں کرکے رکھا ہوا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا تم واپس ضرور آؤگے اور یہ سب تمہاری امانت تھی اور آج تمہیں سونپ دی ہے اب میں چاہتا ہوں تم یہی رھو اپنی دنیا میں ہم سب کے پاس وہ دنیا تمہارے لئے نہیں ھے اور نہ ہی وہ لڑکی تم کیوں بھٹک رھے ھو وہاں
تم ایک چلتا پھرتا لاوا ھو آزر وہ خاک ھے راکھ ہو جائے گی
اس خوشی کے موقع پر بھی میری بے قراری اور بے چینی دیکھ کر بھی آپ کہہ رھے ھو کے وہ دنیا میری نہیں وہی تو میری دنیا ھے خان بابا
اور یہ آپ بھی جانتے ھو کہ یہ سب نہ اس وقت میرے بس میں تھا اور نہ اب ھے میں خواب و خیال میں بھی اسے چھوڑنے کا نہیں سوچ سکتا میں نے بہت اتتظار کیا ھے اس وقت کا اور آپ کہہ رھے ھیں اسے چھوڑ دو مطلب اپنی سانسیں روک لوں۔
اب تو میری محبت ایک مظبوط درخت بن چکا ھے وہ میری رگ رگ میں سرائیت کرچکی ھے اب یہ ناممکن ہے خان بابا کے میں اسے چھوڑ دوں نہیں چھوڑ سکتا
اور اگر وہ خد ہی تم سے دور جانا چاہے تو ؟
ایسی بدعا تو نہ دیں مجھے خان بابا آزر کے دل کو کچھ ھوا تھا جیسے وہ تڑپ کر رہ گیا ھو
خان بابا نے بھی واضح اس کے چہرے سے یہ درد محسوس کیا تھا
بہت دیر ھو گئی ھے اب میں چلتا ہوں خان بابا
وہ خان بابا کو بتانے کے بعد وہاں پل بھی نہ رکا اور اب وہ جگہ بلکل خالی تھی جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا
خان بابا نے اس خالی جگہ کو دیکھا تو دل سے آزر کے لئے دعا کی
اے میرے پاک پروردگار آزر کے لئے جو بہتر ھے وہ اسے عطاء فرما اور جو اس کے لئے بہتر نہیں ہے اسے اس سے دور کر دے کے تو ہی سب کچھ جانتا ہے اور سب تیرے ہی اختیار میں ہے آمین
آزر ۔ سلطان کے روپ میں جھولے والے درخت پر آکر اترا تھا کچھ دیر تو وہ وہاں بیٹھا خان بابا کی باتیں سوچتا رہا
مگر اس بات پر آ کر رک گیا کے اگر وہ اسے خد سے دور کرنا چاہے تو ؟؟
نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ثانی
تم صرف میری ھو اور میری ہی رھو گی
اب اس کا رخ ثانیہ کے کمرے کی طرف تھا وہ کمرے میں پہنچا تو ثانیہ پرسکون نیند سورہی تھی اب آزر اس کے سامنے کھڑا تھا ثانیہ کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی وہ اسکے چاند چہرے پر آنے والے سیاہ بال ہٹانا چاہتا تھا
مگر ۔۔۔۔۔
پھر کچھ سوچ کراس نے اپنا آگے بڑھا ھوا ہاتھ روک لیا تھا
آزر نے اپنی جیب سے دو بہت خوبصورت اور نفیس سے کنگن نکالے جو کے اسکی ماں کے تھے جو آج گھر سےآتے ھوے وہ ساتھ لے آیا تھا اور آزر اب وہ کنگن ثانیہ کی کلائیوں میں دیکھنا چاہتا تھا
آزر نے بڑی آہستگی سے وہ کنگن اسکی نازک کلائیوں میں پہنا دئیے تھے جو کے بہت پیارے لگ رھے تھے ثانیہ کو اک نظر پیار سے دیکھ کر اب وہ گیسٹ روم کی طرف چلا آیا تھا کے اسے پتہ تھا اس کا کیا ھوا حصار توڑنا اب کسی کے بس کی بات نہیں تھی اب وہ حنون قبیلے کا سردار ہی نہیں بہت سی طاقتوں کا مالک بھی تھا جنکا مقابلہ کوئی عام جن کبھی نہیں کرسکتا تھا
آزر نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنے ارو ثانیہ کے زندگی بھر کے ساتھ کی دعا کی تمام امتحانوں میں کامیابی مانگی اور اپنے کمرے میں چلا گیا
آج لائبہ ثانیہ سے پہلے جاگ گئی تھی اس نے کمرے کی لائٹس جلائی اور پھر ثانیہ کو نماز کے لئے اٹھانے لگی لائبہ کی نظر ثانیہ کے ہاتھوں پر پڑی کتنے خوبصورت کنگن ھے مگر کل تو ثانیہ کے ہاتھوں میں نہیں دیکھے تھے میں نے شاید میری نظر نہ پڑی ھو خد ہی اپنی بات کا جواب دے کر اب پھر سے وہ ثانیہ کو اٹھانے لگی کے کہیں نماز کو لیٹ ہی نہ ھو جائے ثانیہ اٹھ کر بیٹھی تو لائبہ وضو کرنے چلی گئی اب ثانیہ اپنے سر پر ڈپٹہ لینے لگی تو اسے اپنے ہاتھوں میں کچھ محسوس ھوا اور کوئی مانوس سی خوشبو بھی اسے اپنے پاس سے آرہی تھی اب جو اس نے اپنی کلائیاں دیکھی وہ حیران رہ گئی یہ کہاں سے آئے میں نے تو پہنے ہی نہیں تھے اور یہ تو میرے ھیں بھی نہیں اتنے میں لائبہ بھی وضو کرکے آچکی تھی کیا ھوا تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں لگ رہی ھو لائبہ یہ دیکھوں ثانیہ نے اپنے ہاتھ اس کے سامنے کیے
ہاں کنگن ھے بہت پیارے ھیں مگر یہ کب لئے تم نے لائبہ نے جائے نماز اٹھاتے ہوئے کہا
ثانیہ کچھ دیر لائبہ کو دیکھتی رہی پھر بولی نماز کو لیٹ ھو رہی ھے آپ چلو میں بھی وضو کرکے آتی ھوں
پھر بعد میں بات کرے گے اس بارے میں
لائبہ سر ہلاتی ہوئی چھت پر چلی گئی۔
تو ثانیہ نے بڑی بے دردی سے اپنے ھاتھوں سے نوچ کر وہ کنگن اتارے اور چھت پر چلی آئی اور چھت سے وہ کنگن ثانیہ نے باہر کی طرف پھینک دیئے اور اب دونوں نماز پڑھ رہی تھیں۔
آزر کا دل بہت دکھا تھا اور کہیں نہ کہیں اس کے دل میں خان بابا کی بات بھی ٹہر گئی تھی
کہ اگر وہ خد دور جانا چاہے تو ؟؟؟
جب ثانیہ نے اسکے تحفے کو ایسے پھیکا تھا مگر اس نے کنگن زمین پر نہیں گرنے دئیے تھے
ثانیہ جلدی نیچے چلو پتہ ھے کل بھی امی پریشان ہوگئی تھی لائبہ نے جائے نماز اٹھاتے ہوئے کہا
ہمم۔ ثانیہ نے بھی اپنی جائے نماز اٹھائی اور لائبہ کی طرف بڑھا دی لائبہ آپ یہ بھی لیتی جاؤ میں ابھی کچھ دیر میں نیچے آجاؤنگی
لائبہ نے ثانیہ کے ہاتھ سے جائے نماز لے لی تو اسکی نظر اس کی کلائیوں پہ پڑی ارے وہ کنگن کدھر ھے کیوں اتار دئیے کتنے پیارے تو تھے
وہ ۔۔۔۔ وہ میرے نہیں تھے کسی کے تھے اور جس کے تھے اسے واپس کر دیئے ھیں ثانیہ نے اس سے نظرے چراتے ہوئے کہا۔
اچھا چلو ٹھیک ھے مگر مجھے تم کل سے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی کیا کوئی بات ھے جو تمہیں پریشان کررہی ھے تو تم مجھ سے کہہ سکتی ھو دل میں کچھ نہ رکھا کرو ورنہ انسان ہمیشہ دکھی رہتا ہے سمجھی لائبہ نے سمجھی پہ زور دیتے ھوئے بولا
ثانیہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر ایک لمبا سانس لے کر بولی مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی اور وہی بات شاید مجھے پریشان کررہی ہے
ہاں تو مجھے بتاؤ نا ایسی کیا بات ھے جو تمہیں تنگ کررہی ھے شاید کوئی حل نکل آئے لائبہ نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑا جو بہت ٹھنڈا تھا
وہ کل جب عبداللہ یہاں سے جانے لگا تھا تو اس نے بہت عجیب بات کی اس نے مجھے بولا کے "میرا انتظار کرنا"
اور یہ بات مجھے بہت پریشان کررہی ہے اس نے ایسا کیوں بولا ؟
لائبہ تو فورن سب سمجھ گئی مگر اس نے ثانیہ سے بولا کہ تم اس بات کو زیادہ مت سوچو ابھی نیچے چلو بہت کام ھے امی کل کی طرح اوپر ہی نہ آجائے اور میں تمہیں آرام سے بیٹھ کر ساری بات سمجھاؤنگی
مطلب لائبہ کچھ تو جانتی ہیں ثانیہ نے دل میں سوچا اور سر اسبات میں ہلا دیا لائبہ جلدی سے نیچے اتر گئی اور ثانیہ سوچنے لگی کہ آخر کیا بات ھو سکتی ھے اس کا دل اسے ایک ہی مسیج دے رہا تھا ۔۔۔۔۔ مگر وہ دعا کررہی تھی کہ اس کے دل کی پیشنگوئی غلط ثابت ھو
ابھی وہ نیچے اترنے ہی والی تھی کے سلطان اڑتا ھوا آکر اس کے سامنے بیٹھ گیا ثانیہ رک گئی
کہاں تھے آپ جناب ؟
آج کل تو بہت سیر کی جارہی ھے میرے پاس تو اب آپ دکھتے ہی نہیں ھو کھانا تک نہیں کھایا آپ نے کل سے اور چوٹ کیسی ھے اب آپ کی؟
ثانیہ نے معمول کے مطابق سلطان سے باتیں شروع کردی
اب آپ کے پاس ٹائم کہاں ہم سے بات کرنے کا کوئی جانی پہچانی سی آواز ثانیہ کے کانوں میں پڑی ثانیہ نے اپنے چاروں طرف گھوم کر دیکھا مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا
یہ کس کی آواز تھی ؟
ثانیہ نے سلطان کو دیکھا پھر ادھر ادھر دیکھا
کیسے ڈھونڈ رہی ہے آپ میں تو آپ کے سامنے ھوں
ثانیہ گھبرا کر پیچھے ھوئی
روکئیے آرام سے۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے میں وہی ھوں جس سے آپ روز باتیں کرتی ھیں
لیکن آپ بول سکتے ھو ثانیہ حیرانی سے پوچھ رہی تھی
آپ کے لئے لڑ سکتا ھوں تو آپ کے ساتھ بات نہیں کر سکتا کیا؟
آپ کون ھو؟
سلطان
یہ تو میں جانتی ھوں کے آپ کا نام سلطان ھے جو کے میں نے ہی رکھا تھا مگر آپ کی اصلیت کیا ھے ؟
ثانیہ نے اب خد کو کچھ سنبھال لیا تھا اور اس نے یہ بات بھی سوچی کے اگر سلطان نے اسے نقصان پہنچانا ہوتا تو 5 سال انتظار نہیں کرتا اور جننات کے حملے سے اسے نہ بچاتا اسی لئیے اب ثانیہ اس سے اسکی اصلیت پوچھ رہی تھی
بہت جلد آپ کو سب پتہ چل جائے گا یہ کہہ کر سلطان اڑ گیا تھا۔
ثانیہ پہلے ہی عبداللہ کی وجہ سے پھر ان کنگن کی وجہ سے اور اب سلطان کی باتوں سے کافی پریشان ھوچکی تھی
وہ بھی چھت سے اتر کر اپنے روم میں آکئی جہاں چچی جان اور لائبہ پہلے ہی موجود تھی
ثانیہ بیٹا یہ دیکھو یہ ڈریس کیسا ھے ریڈ کلر کا وہ انتہائی خوبصورت ڈریس ثانیہ کو پہلی نظر میں ہی بہت پسند آیا چچی جان یہ تو بہت ہی پیارا ھے اور اس پر یہ جو گولڈن کام ھے بہت نفیس طریقے سے کیا گیا ہے
تمہیں پسند آیا تمہاری دادی جان نے بھیجا ھے عدیل کے ہاتھ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آیا ھے عدیل
واؤ ثانیہ تمہیں تو دادی جان کو تھنکس بولنا چاہئے لائبہ نے ڈریس کو دیکھ کر کہا تو ثانیہ نے موبائل اٹھا کر دادی جان کو کال ملائی مگر نیٹ ورک نہیں مل رہا تھا تو وہ کمرے سے باہر آگئی سگنلز بار بار آ جا رھے تھے وہ چلتی چلتی گیسٹ روم تک آگئی
آج پھر محمد شاہ قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا بے اختیار ثانیہ کے قدم محمد شاہ کے کمرے کی طرف اٹھنے لگے مگر آج اس نے کمرے میں جانے کی غلطی نہیں کی بلکہ وہ باہر کھڑی بڑی چاہت سے سن رہی تھی اسے یہ بھی بھول گیا کے وہ تو دادی جان سے بات کرنے باہر آئی تھی ثانیہ کے دل میں سکون اتر رہا تھا جیسے کسی تپتے صحرا میں بارش کی ٹھنڈی پھوار پڑ رہی ھو
اب آواز آنا بند ھوگئی تھی جیسے کوئی صحر ٹوٹا تھا وہ اب اپنے کمرے میں جانے لگی کے دل نے شاہ کو دیکھنے کی حسرت کر دی مگر ثانیہ ایسے بنا بات کے اس کے کمرے میں نہیں جانا چاہتی تھی کچھ دیر ثانیہ کشمکش میں گھری رہی اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جب پیچھے سے اس نے پکارا
آپ ادھر ؟
ثانیہ نے پلٹ کر دیکھا اور سب بھول گئی یاد رہا تو بس اتنا کے شاہ کی آنکھیں بہت گہری ھیں جن میں ثانیہ آج پوری طرح سے ڈوب گئی تھی
محمد شاہ کی بھی یہی کیفیت تھی مگر وہ جانتا تھا کے وہ لوگ روم سے باہر کھڑے ھے اس لئے اس نے ثانیہ کو پھر سے پکارا
ثانی کیا ھوا ؟
ثانیہ کو جیسے ایک لمحہ لگا وہ ھوش میں آئی اب وہ سامنے کھڑے محمد شاہ کو اپنے خواب والے لڑکے سے ملا رہی تھی اسے آج تک کبھی کسی نے ثانی نہیں بلایا تھا سب ثانیہ ہی بلاتے تھے آپ نے مجھے کیا کہہ کر بلایا
اب محمد شاہ کو احساس ہوا کہ اس نے کیا بول دیا ھے
کیوں آپکا نام ثانیہ نہیں ہے کیا ؟
نہیں ۔۔۔ وہ۔۔۔میرا مطلب ہے ۔۔۔۔ جی میرا نام ثانیہ ہی ھے
تو پھر آپ اتنی حیران کیوں ھیں وہ اب بات گول کر گیا تھا
ایک بات کہوں ثانیہ نے سوالیہ انداز میں کہا
جی بولے محمد شاہ اب مسکرا کر کہہ رہا تھا
ثانیہ اسکی مسکراہٹ پر ایک بار پھر دل ہار بیٹھی تھی
آپ قرآن کریم کی تلاوت بہت خوبصورت انداز میں کرتے ہیں دل چاہتا ہے آپ پڑھتے رہے اور میں سنتی رھوں
شاہ کچھ بھی کہے بنا وہاں سے جانے لگا تو ثانیہ نے کہا اگر کوئی آپکی تعریف کرے تو اس کی توہین تو نہیں کی جاتی ۔
اور اگر کوئی سچے دل سے کوئی تحفہ دے تو اس کو بھی پھینکا نہیں جاتا شاہ نے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلتا ھوا اسکی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
ثانیہ کو صبح والے کنگن یاد آئے
کیا وہ شاہ نے رکھے تھے مطلب مجھے پہنائے تھے
لیکن کب اور کیسے وہ کھڑی سوچ رہی تھی جب لائبہ اس کو ڈھونڈتی ھوئی آئی
تم ادھر کتنے آرام سے کھڑی ھو اور سب لوگ تیار ھو رھے ھیں ایک گھنٹے کے بعد بارات جائے گی تم نے نہیں جانا کیا؟
اور بات ہوئی دادی جان سے
نہیں ھوئی نیٹ ورک ہی نہیں ھے یہاں ثانیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
اور کمرے کی طرف چلی آئی اب دونوں تیار ھونے لگی تھی لائبہ تو تیار ھوکر جا چکی تھی مگر ثانیہ جیولری پہن رہی تھی جب اس نے ثامنے ڈریسنگ پہ وہی کنگن پڑے ھوئے دیکھے اور ساتھ ایک کاغز بھی پڑا تھا جس پر لکھا تھا
کسی کا دل سے دیا تحفہ ایسے نہیں پھینکتے
ثانیہ نے کنگن اٹھائے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی تک وہ شاہ کے پاس ہی کھڑی ھے کیونکہ ان کنگن میں سے اسے شاہ کی خوشبو آرہی تھی
اب اسے یقین ھوگیا تھا کہ یہ کنگن شاہ نے ہی اسے پہنائے تھے مگر نہ جانے کیوں اسے برا نہیں لگا
اور اب ثانیہ وہ کنگن اپنی کلائیوں میں سجا چکی تھی شاہ کی خوشبو نے ثانیہ کے گرد حصار بنا لیا تھا
بارات بس تیار ہی تھی جب ثانیہ کمرے سے باہر آئی بہت سی نظریں ایک ساتھ اس پر اٹھی تھی اور پلٹی تھی مگر ایک نظر پلٹنا بھول گئی تھی
ماشاءاللہ نظر نہ لگ جائے میری بیٹیوں کو چچی جان نے لائبہ اور ثانیہ کو کان کہ پیچھے کالا ٹیکا لگایا دونوں ہی بہت پیاری لگ رہی تھی
سب لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھےثانیہ ایک سائیڈ پر کھڑی تھی جب کوئی اس کے کان کے قریب آکر بولا تھا
شکریہ ثانی
میرے دئیے تحفے کو عزت بخشنے کے لئے
ثانیہ نے اسکی طرف دیکھا
شاہ نے اسکی نظروں میں نظریں جمائی
بہت خوبصورت لگ رہی ھو
جی چاہ رہا ھے اپنی جان کا صدقہ اتار دوں کہ
کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے
ثانیہ کا چہرہ سرخ ھوگیا تھا اور وہ شرما کرمنہ موڑ گئی تھی جب لائبہ نے اسے کہا چلو بھی یہاں کیوں کھڑی ھو
وہ میں بات کررہی تھی
کس سے بات کررہی ھو؟
جہاں تو کوئی بھی نہیں ھے لائبہ کے کہنے پر ثانیہ نے دوسری سائیڈ دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا کیا یہ میرا وہم تھا ؟
وہ اب لائبہ کے ساتھ گاڑی میں جا بیٹھی تھی مگر نظر ابھی بھی اسی ایک کو تلاش رہی تھی جو ثانیہ کی نظر کے رستے اس کے دل میں گھر کر گیا تھا
شاہ ابھی گاڑی میں بیٹھنے ہی لگا تھا جب اس کی نظر گھر کی دیوار پر پڑی اسے وہاں قہوت دکھا جو یقیناً اس کے لئے ہی آیا تھا تو وہ گاڑی سے باہر نکل آیا آپ لوگ جاؤ میں کمرے میں کچھ بھول گیا ھوں بعد میں آجاونگا
اب سب لوگ جا چکے تھے
شاہ نے سلطان کا روپ لیا اور اڑکر جھولے والے درخت پر جا بیٹھا اس کے پیچھے قہوت بھی وہی آگیا
کیا بات ھے قہوت تمہارے چہرے کے آسار مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رھے ؟
آزر دشمن قبیلے نے ہمارے قبیلے پر حملہ کیا ھے قبیلے والوں کو تمہاری ضرورت ہے اور تم جہاں ھو ۔۔۔۔
قہوت تم ثانیہ کے ساتھ جاؤ سلطان بن کر اس کا خیال رکھنا اور ان دشمنوں کو میں دیکھ لیتا ھوں یہ کہہ کر آزر وہاں سے غائب ھو گیا اور قہوت بھی ثانیہ کے پیچھے چلا گیا
آزر قبیلے پہنچا تو دو قبیلوں کو آپس میں لڑتے دیکھا
رک جاؤ سب اب کوئی کسی پہ وار نہیں کرے گا
تم کون ھوتے ھو ھمیں روکنے والے ہم آج ان کو مٹا کر ہی دم لینگے دشمن قبیلے کا جن بولتے ہوئے حنون قبیلے کے ایک جن سے ٹکرا گیا
آزر نے سیدھا اسے اس کے گلے سے جا پکڑا
اور سب سے مخاطب ھوا رک جاؤ یہ فسادات بند کرو ورنہ ہر دشمن کا یہ انجام ھوگا سب غور سے دیکھ لو
دیکھتے ہی دیکھتے دشمن قبیلےکا جن جل کر راکھ ہو گیا دشمن قبیلے کے سب جن اب خاموش کھڑے اس جن کی جلی راکھ دیکھ رہے تھے اور آزر کی آنکھوں سے لہو چھلک رہا تھا اسکا سارا جسم آگ کی طرح دہک رہا تھا دشمن قبیلے والوں نے تو اسے ابھی تک بچہ ہی سمجھا ہوا تھا آج ان کا سامنا اس بچے سے ھوا تو بھاگ کھڑے ہوئے
لیکن آزر نے انہیں وہی رکنے کا بولا
میں اگر چاہتا تو تم سب کو ایک ساتھ راکھ کرسکتا تھا مگر میں یہ خون خرابہ اور فسادات نہیں چاہتا اس لئے آخری بار آپ سب سے کہہ رہا ہوں میرے قبیلے کی طرف بری نظر سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال دونگا اور اسے آخری بار ہی سمجھنا ورنہ تمہارا نام لینے والا بھی کوئی نہیں بچے گا
چلے جاؤ یہاں سے اب
دشمن قبیلے کے سب جن بھاگ چکے تھے اب بس حنون قبیلے کے جننات ہی وہاں کھڑے تھے
آزر واپس ثانیہ کے پاس جانے ہی لگا تھا کے خان بابا نے اسے روکا
آزر رک جاؤ تم سے کچھ بات کرنی ہے
یہ کہہ کر خان بابا حجرے میں چلے گئے تھے اور آزر بھی ان کے پیچھے چلا گیا ۔۔۔
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں
جنات کی دشمنی اردو کہانی - پارٹ 6
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے