پرستان کی شہزادی - پارٹ 5

 urdu stories

Sublimegate Urdu Font Stories

پرستان کی شہزادی - پارٹ 5


کیوں آئیں ہیں یہاں حوریہ نے خفا ہوتے ہوۓ کہا میرا ایک بہت پیارادوست ناراض تھا سوچا معافی مانگ آؤں کیا پتا معاف کر دے عدیل نے کان پکڑتے ہوے کہا سوری حوریہ ۔
حوریہ اس کے اس انداز پر کھلکھلا دی عدیل اس منظر میں کھو سا گیا حوریہ نے چٹکی بجائ اور کہا اب دروازہ کھو لیں مجھے جانا ہیں حوریہ نے آنکھیں ٹمٹا کر معصومیت سے کہا عدیل تو فدا ہی ہو گیا ۔۔۔
اس طرح بو لوگی تو جان بھی دے دوں گا اللہ اللہ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ حوریہ نے منہ بنا۔کر کہا اور عدیل ہنس دیا ۔۔۔
حوریہ میں آخرری بار پوچھ رہی تم شادی کرو گی یا نہیں ارے میری پیاری امی کب انکار کر رہی میں بس اتنا کہ رہی کہ ابھی نہیں کرنی ۔۔۔۔
کیا ابھی نہیں ابھی نہیںلگائ ہوئ ہۓ آلینے دو تمہارے چچا کو انہوں نے سر پر چڑھیا ہو تمہیں میں دیکھ لوں گی تم دونوں چاچو بھتیجی کو امی حوریہ منہ بسورتے ہوۓ بولی ۔۔۔
کوئ امی نہیں اور اس کمرے کو ٹھیک کرو میں پانچ منٹ میں آرہی صاف چاہئے کمرہ مجھے ہاۓ چل حوری شروع ہو جا حوری نے جلدی جلدی کمرہ صاف کیا ورنہ پھر سے عطیہ سے ڈانٹ سنتی ۔۔۔جو ہمیشہ شادی پر جا کر رکتی ۔۔۔
واہ میری بیٹھی نے تو سارا کمرہ صاف کر دیا عطیہ کی تعریف پر حوریہ خوش ہو گی حوریہ چلو اب ذرا کچن بھی صاف کر دو آؤکیا۔۔۔۔۔۔
حوریہ کی تو چکر ہی آگیے کہاں وہ صفائسے بھاگنے والی لڑکی ۔۔امی میں کیا آپ کو کام والی ماسی لگتی کیا کہا۔۔۔۔۔
اتاروں جوتا بیٹیاں گھر کے کام کرنے ماسیاں نہیں بنتی بے وقوف لڑکی اففف امی ایک تو بات بات پر جوتے سے ڈراتی اچھا ڈراتی ہوں آ جا آج ایک دو لگا بھی دو۔۔۔۔۔۔۔
حوریہ کو عطیہ کے ارداے ٹھیک نا لگے اس لۓ بھاگ کر کچن میں چلی گئ صفائ کرتے ہوۓ اسے کسی نے آواز دی وہ مڑنے لگی اور سر کھڑی سے ٹکرا گیا۔۔۔
تم۔انسانوں کی طرح نہیں آسکتے حوریہ نے ماتھا سہلاتے ہوۓ کہا میں جن ہو اس لیۓ انسانوں کی طرح نہیں آسکتا حوریہ نے منہ بسورتے ہوۓ چیئر پر بیٹھ کر ماتھا سہلانے لگی کیا ہوا درد ہو رہا ہیں عدیل نے فکر مندی سے پوچھا نہیں مزہ آرہا بےوقوف ۔۔۔۔۔۔
حوریہ نے طنز پرہنس دیا کہیں دماغ تو نہیں ہل گیا چوٹ سے جی نہیں عدیل تھوڑی دیر بعد کچھ سوچتے ہوۓ بولا ویسے دماغ ہوتا تو ہلتا ہیں نا عدیل نے بائیں آنکھ دبا کر جس کے نتیجے میں حوریہ تپ گئ۔۔۔۔۔
آپ اپنی شکل گم کریں ورنہ ورنہ کیا ورنہ ۔۔۔میں رودوں گی حوریہ نے منہ بناتے ہوے آنکھیں مٹکا کر کہا عدیل کو حور کا اس طرح کہنا اچھا لگا ہاۓ یہ اتنی حوبصورت کیوں ہیں۔۔۔
جانے کیا ہۓ اس لڑکی میں جو مجھے خود کے قریب کر دیتی میں چاہ کر بھی اس سے دور نہیں ہو سکتا یہ جانتے ہوے بھی یہ انسان ہے ۔۔۔۔پر کیا کروں دلپر کس کا بس چلتا ہے عدیل نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوے سوچا۔۔۔
کیا ہوا امی حوریہ نے عطیہ سے پوچھا جو سر باندے بیٹھی تھی کچھ نہیں سر دکھ رہا ہے میرا لو جی کام۔سارا میںنےکیا اور سر ان کا دکھ رہا حوریہ نہ منہ ٹہراکرتے ہوے بولا کیا بولی عطیہ بیگم نے گھورتے ہوے کہا میں نے کیا بولنا حور نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوۓ کہا نارنجی پیٹیالہ شلوار اور دوپٹے کے ساتھ سفید قمیض اس پر خوب جچ رہی تھی ۔۔۔
اچھا جا کھانے کی تیاری کر عطیہ نے پانی گلاس میں ڈالتے ہوۓ بولا کیا حوریہ تو سدمے میں چلی گئ جاتی ہۓ یا عطیہ نے گھورتے ہوئے کہا حوریہ منہ بسورتے ہوے کچن میں آگئ کچن میں آتے ہی اس سے پیتلی گر گئ ابھی اٹھانے ہی لگی کہ عطیہ کی آواز گونجی اے شیطان کی خالہ آرام سے برتن توڑے گئ کیا ایک کام جو کر لے یہ کم عقل عطیہ نے ناک منہ چڑھاتے ہوے کہا۔۔۔۔۔۔۔
اسد جو حوریہ کی عزت افزایدروازے سے سن چکھے تھے اس لیۓ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور قدم کمرے کی طرف بڑھا دئیے مبادا عطیہ کی توپوںکا رخ انکی جانب نہ مڑ جاۓ ۔۔۔۔
کھانا بنا کر حوری باہر آئ تو عطیہ اسد حوریہ کے لۓ رشتہ ڈھونڈ نے کا بول رہی تھی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی حوریہ نے کہا بلکل ویسےبھی ابھی میری بیٹی چھوٹی سی تو ہیں بولنے دو اپنی امی کو بولنے سے کیا ہوتا ہیں اسد نے سرگوشی کی۔۔۔۔۔
حوری ہنس دی مگر جوں ہی نظر عطیہ کے چہرے پر موجود سخت تاثرات پر پڑی وہ دھیرے دھیرے پیچھے کھسکنے لگی عطیہ جو ہمیشہ کی طرح ان کی کھسر پھسر سن چکی تھی اب گھور رہی تھی رک ذارا توں انہوں نے جھک کر جوتی اٹھائ وہ امی ۔۔۔۔وہ میں حوریہ نے اسد کے پیچھے چھپنے لگی چاچو ۔۔۔
حوریہ نے مددکے لیۓ پکارا وہ بیٹا سوری میں کچھ نہیں کر سکتا حماتی کو بھی پڑنے کے امکانات ہیں وہ بیچارگی سے بولے حوری ان کو دھکیل کر سڑھیاں چڑھنے لگی عطیہ کے جوتے نے اسکا پیچھا کیا اس نے جوتی کیچ کرتے زبان چڑھائ اور عطیہ کو دوسرا جوتا اٹھاتے دیکھ کر اوپر بھاگ گئ۔۔۔
بھائ آپ کیوں حوریہ کا ساتھ دیتے ہیں آپ واقف ہیں اچھے سے اگر حور کی شادی اس کے ۲۲سال پورے ہونے سے پہیلے نا ہوی تو کیا ہوگا عطیہ نے پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔
باجی آپ ایسے ہی ان بابا کی باتوں میں نا آئیں یہ ایسے ہی فراڈ ہوتا سب اسد نے ان کو سمجھاتے ہوۓ بولے اسد ایک پل کو مان لے فراڈ ہے پر دیکھو نا جو جو باتیں اہنوں نے بتائ تھی وہ سچ ہو رہی ہیں ۔۔۔
اسد تم کیوں نہیں سمجھ رہۓ اگر ان کو پتا چلا تو وہ حوریہ کو لے جائیں گے ہم میں آج ہی اس مسلے کاحل نکالتا باجی اس مسلے کا حل ایک ہی ہے حوریہ کی شادی بس اور جلد سے جلد حوریہ کی شادی کروانا چاہتی ۔۔باجی میرا ایک دوست کا بیٹا ہیں اپنا بیزنس ہیں دیکھنے میں بھی اچھا خاصا ہیں آپ کہیں تو میں بات کروں ۔۔۔۔۔
اسد اس سے اچھی تو کوئ بات ہی نہیں تم آج ہی بات کرو جی ٹھیک ہیں میں بات کر کے بتاتا آپ کو حوریہ کمرے میں بیٹھی تھی تبھی اس کا فون بجا ہیلو۔۔۔۔۔
ہاں یار بنالی آسائمنٹ حوریہ کو جھٹکا لگا ہاں کال ہی تو سر عمر نے دی تھی یہ نا کہنا کے بھول گئ یار قسم سے بھول گئ تھی میں شٹ حوریہ نے ہونٹ کاٹتے ہوۓ کہا۔۔۔
ساباش میں نے سوچا تم سے کہو اپنی بنالی تو میری بھی بنا دی عروسہ نے منہ بنا کر کہا ہاں ہاں پوری کلاس کی نابنا لاؤ ہنہ حوری نے منہ کہ زاویہ بگاڑتے ہوۓ کہا اچھا چل تو بھی بناتی عروسہ نے کہا۔۔۔۔۔
ہم اففف یہ سر بھی نا اتنا کام دیتے اسائمنٹ لکتھے لکتھے حوریہ کے ہاتھ دکھنے لگے تبھی وہاں عدیل آگیا کیا ہورہا میڈم عدیل نے اس پاس بیٹھتے ہوۓ کہا وہ جو سر کو دوہائیاں دینے میں مصروف تھی عدیل کے اچانک بولنے پہ ڈرگی اففف ایک تو تم نا انسان نا بننا عدیل ہنس دیا۔۔۔۔۔
حوریہ نے کچھ سوچتے ہوۓ عدیل کی طرف دیکھا اور بولی عدیل تم کتنے اچھے ہو نا میرے سب سے اچھے دوست ہو میرا کتنا خیال رکھتے ہو ہیں نا حوریہ نے عدیل کی آنکھوں میں دیکتھے ہوۓ کہا کیا کام ہےعدیل نے پوچھا وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔نا۔۔ہم یہ اسائمنٹ کمپیلیٹ کر دو پلیز حوریہ نے ساری دنیا کی معصومیت چہرے پر بیکھرتے ہوۓ کہا ۔۔۔
جی نہیں یہ آپ کو خود کرنا ہوگا عدیل نے اس کی گال کھنتچے ہوۓ کہا ہنہ کسی کام کے نہیں ہو تم عدیل حوریہ نے گھوری سے نوازا اور دوبارہ کام میں مصرف ہوگئ ۔۔۔
رانی رانیا شہلا کے ساتھ پرستان میں ٹہل رہی تھی کے اچانک ان کی نظر آسمان پر پڑی یا خدایا یہ کیا ہو رہا ہیں کیا ہوا رانی رانیا شہلا نے ان کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا شہلا اوپر آسمان دیکھوں کالے بادل چھا رہے ہیں جیسے کچھ ہونے والا ہیں رانی رانیا کے لہجے سےپریشانی صاف جھلک رہی تھی ۔۔۔۔۔
شہلا حاکم کو بلاؤ جلدی جی رانی صاحبہ کچھ پل میں حاکم ان کے دربار میں حاضر تھا حاکم یہ کیا ہو رہا ہیں رانی رانیا لگتا ہیں کوی شیطانی طاقت جاگ اٹھی ہۓ۔۔۔۔۔
کیا پر کون حاکم کیا آپ بتا سکتے ہیں کیا ہمارے پرستان کو تو کوئ خطرہ نہیں ہیں نا اس سے رانی رانیا نے ایک سانس میں سوال کر دئیۓ رانی صاحبہ دو منٹ میں ابھی آپ کو جادوئ شیشے سے دیکھ کر بتاتا ہو جی ٹھیک ہیں ۔۔
رانی صاحبہ چھایا آذاد ہوگئ ہے حاکم صاحب نے ان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا کیا رانی رانیا کو جھٹکا لگا پر کیسے رانی رانیا صاحبہ یہ پتا نہیں چل سکا لیکن اس سے ہمارے پرستان کو کوئ خطرہ نہیں ۔۔
کیوں کے اتنے سالوںسے قید ہونے کی وجہ سے وہ اپنی طاقتیں کھو چکی ہۓ ہم اور رانی رانیا کچھ کہنے ہی لگی تھی کے پرستان کے پہرے دار حاضر ہوۓ رانی صاحبہ کا اقبال بلند ہو ہم کلیم رانی رانیا نے پوچھا رانی رانیا کچھ دیر پہلے کالی پری کو پرستان سے نکلتے دیکھا گیا ہے کلیم نے سر جھکا کر کہا ۔۔۔۔۔
ہم تم جاؤ حاکم صاحب آخر یہ ہو کیا رہا ہے ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا رانی رانیا نی تخت پر بیٹھتے ہوے بولی رانی صاحبہ اصل مین کالی پری اور زاکا نے بہت پہلے ہاتھ ملا لیا تھا اور کالی پری کی مدد کے ہی ذاکا نے شیطان کو خوش کیا اور مجھے لگتا ہین کہ کہیں نہ کہیں چھایا کو آزاد کراانے میں انہیں کا ہاتھ ہیں۔۔۔۔۔
ہم کچہ بہت بڑا منصوبا بنایا جا رہا ہے حاکم صاحب ہمیں کچھ کرنا ہو گا رانی رانیا اگر آپ برانا مانیں تو ایک بات کہوں انہوں نے جھجھکتے ہوۓ پوچھا جی جی ضرور۔۔۔۔۔۔
رانی صاحبہ ہمیں لگتا ہے اب وقت آگیا ہیں اس لڑکی کو ڈھونڈنے کا وہ وہیں أجاۓ گی تو پرستان سے ہر بری طاقت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی ٹھیک کہ رہے ہیں آپ ۔۔ہم آج ہی اس کی تلاش جاری کرواتے ۔۔۔۔
حوریہ چھت پر بیٹھی چاۓ پی رہی تھی عطیہ نے اسے بلایا تو اٹھ کھڑی ہوئ حوریہ دروازے کے قریب آئ تو کوئ کالا سایہ اس کے پاس سے بڑی ہی تیزی سے گزرا اس کی چیخ نکلتی نکلتی رہ گئ ایک دم تیزی سے پھیچے ہوئ یہ کیا تھا ۔۔۔۔
پر کچھ نظر نا آیا اپنا خیال سمجھ کر جھٹک دیا اور نیچھے چلی گی ہر جگہ اندھیرا ہی اندھیرا تھا اس آندھیرے کو پار کر کے چل رہی تھی جب ایک جگہ داخل ہوئ جہاں ہر طرف آئنیے تھے اس آن آئنیے میں حوریہ کو اپنا عکس نظر آرہا تھا اس نے سفید رنگ کا لیس گاون پہنا ہوا تھا ایک پری لگ رہی تھی اب یہ جھکٹے والی بات تھیں حوریہ نے کنفرم کرنے کے لیے اپنے جسم کو دیکھا تو اس میں سفید لیس میں مبلوس نیہں تھی جبکہ کے آئینہے میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آئینہ مجھے دھوکہ دیں رہے ہیں مجھے یہ جگہ بھی ٹھیک نہیں لگ رہی حور یہاں سے جانے کا راستہ تلاش کرنے لگی لیکن یہ کیا اب راستہ کہاں گیا وہ گھوم کر دیکھنے لگی لیکن ہر طرف آئنے کے سوا کچھ نہیں تھا اف اللہ کہاں پھنس گی....
حوریہ ایک آئینہ کے قریب آئ اسے چھوا تو اس سے جھٹکا لگا وہ ایک دم پیچھے ہوئ ہاتھوں میں ایک دم درد لہراٹھی اس نے اپنے لب سختی سے بھینچ لیں کے چیخے نا اس نے اپنے ہاتھ کو پکڑا اور زمین پہ بیٹھ گی افف اتنا درد کیا تھا اس آئینے میں میں آئ کہاں سے حوریہ نے سوچا وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن تکلیف سے آنکھوں میں میں آنسو آنے لگے پھر ایک سایہ قریب آیا اس نے تکلیف سے سر اٹھایا وہاں کوئ نہ تھا لیکن ان آئینے میں اسے کوئ نظر آرہا تھا ۔۔۔حور کھڑی ہوئ تو اسے آئینے میں عدیل دیکھا عدیل اس کی طرف ہاتھ بڑھاۓ کھڑا تھا جیسے ہی اس نے ہاتھ بڑھایا عدیل دور ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔
تبھی حوریہ کی آنکھ کھل گئ یا اللہ یہ کیسا خواب تھا کہیں عدیل مجھ سے بچھڑ نے والا تو نہین اسد آجاؤ کھانا تیار ہیں عطیہ نے ان کے کمرے کا دروازہ بجاتے ہوۓ کہا باجی اسد عطیہ کو بلایا جو جانے کے لیۓ مڑی ہی تھی جی کچھ کام ہۓ اسد!!!!!
انہوں نے اندر داخل ہوتے ہوے پوچھا باجی میں نے اپنے دوست سے بات کی ہیں حوریہ کے رشتے کے لیۓ اسد نے ہاتھوں کے ساتھ کھیلتے ہوۓ کہا سچ میں بھائی پھر انہوں نے کیا کہا عطیہ خوشی سے بولی انھوں نے کہا ہیں وہ کل آئیں گے حوریہ کو دیکھنےکے لیۓ اسد نے کہا ۔۔۔۔
یا اللہ تیرا شکر تو نے میری سن لی بس اب وہ میری حوریہ کو پنسد کر لے عطیہ نے مسکرا کر کہا ہم اسد کے چہرے پر پریشانی کے اثار تھے کیا ہوا اسد پریشان لگ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نہیں بس سوچ رہا ہوں کے حوریہ کو کیسے منائیں گے اگر اس نے انکار کر دیا تو آپ فکر نہ کریں میں اس بار اس سے بات منوا کر ہی رہو گی چاہئے جو ہو جائے خیر کل کس وقت آئیں گے وہ لوگ باجی میں نے انہیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی ہۓ اسد نے کہا ہم۔۔۔۔۔
امی میں کتنی مرتبہ کہوں کے مجھے ابھی شادی نہیں کرنی آخر آپ اور چچا کیوں نہیں سمجھتے کہ شادی کے بغیر میری زندگی نہیں گزر سکتی حوریہ ابھی کھانا کھا کر کالج کا کامکھول کر بیٹھی ہی تھی کہ عطیہ بیگم اسے دودھ دینے آئیں اور ساتھ ہی ان کے کہ ان کے آنے والے رشتے کی بات شروع کر دی ۔۔۔۔
حلانکہ وہ جانتی تھی کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انکار ہی آۓ گا مگر پھر بھی وہ حوریہ سے بات شروع کر چکی تھی ۔۔بیٹا یہ بہت ضروری ہیں ایک عورت مرد کے بغیر اس معاشرے میں تنہا زندگی نہیں گزار سکتی وہ لاچاری سے اسے ہر دفعہ کی طرح اس مرتبہ بھی سمجھانے بیٹھ گیی یہ سب فرسودہ باتیں ہیں آج عورت سب کچھ کر سکتی ہے اس نے ماں کی بات کو خاطر میں لاۓ بغیر کہا۔۔
عورت ہر دور میں عورت ہی رہتی ہیں یہ چار کتابیں پڑھ کر تم لوگ سمجتھے ہو باہر پھر نے والے ہر گدھ کا مقابلہ کر لو گی تم مجھے اتنا بتاؤ تمہارے جب ابو تھے تب تم کیوں بلا خوف ہر کہیں چلی جاتی تھی ہہہہم حوریہ نے بنا کچھ بولے ان کی آنکھوں میں دیکھا نہیں ہیں جواب ؟میں بتاتی ہوں کیوں کے تم جانتی تھی کوئ تمہارے ساتھ کھڑا ہونا ہو تمہارا باپ ہوگا ساتھ ہو گا ۔۔۔
میرا بیٹا ایک مرد کا بہت آسرا ہوتا ہۓ مرد کی وجہ سے عورت دنیا کے جانوروں سے بچی رہتی ہے تم اتنی بڑی بھی نہیں ہو کے اکیلے دنیا کا مقابلہ کر سکو بیٹاسر باپ بھائی کا سایہ نا ہو تو یہ دنیا بہت ظالم لگتی ہے۔۔۔
ہر موڑ پر وحشی اپنے شکار کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں انہوں نے حوریہ کا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا کل آرہے ہیں کڑکے والے تیار رہنا ہم عطیہ حوریہ کو پیار دے کر نیچے چلی گی کتنے لمحے وہ کچھ بول نہ پائ۔۔شوہر ہی ہوتا ہیں جو بیوی کو عزت دیتا ہے محبت دیتا ہے عورت کا محافظ بن کے اسکو تحفظ کا احساس بخششاہے اسے ہر برے اور غلط کام سے روکتا ہیں اس کا رہبر بن کے رہمنائ کرتا ہیں۔۔۔۔۔۔
اسکی کی عزت پہ اپنی زندگی فنا کر دیتا ہیں اس کے ایک آنسو پہ زمانے سے الجھ جاتا ہیں اسکی کی ہنسی کو اپنی زندگی سمجھ کے ہمیشہ اسے ہنستا ہوا رکھتا ہیں کتنا صحیح کہا تھا انہون نے عدیل حوریہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگی عدیل کو میری شادی سے کیا عتراض ہو گا حوریہ نے سوچا ۔۔۔۔
وہ تو صرف دوست ہیں میرا اس نے خود سے سوال کیا صرف دوست تو نہیں شاید دوست سے ذیادہ بہت ذیادہ پر وہ تو جن ہیں تو کیا ہوا جنوں سے محبت ہو سکتی ہیں جب جن انسان سے محبت کر سکتا ہین تو ایک انسان جن سے کیوں نہیں افففففف میں یہ کیا سوچ رہی ہو حوریہ نے خود کو ڈانٹا۔۔۔۔۔
کہتے ہیں نا انسان جتنا محبت سے انکار کرے یہ انتا اس پر حاوی ہوتی انسان کی انا کو توڑ دیتی ہیں محبت اندھی ہوتی ہیں ہی نہیں دیکھتی کے محبوب کو ہم پا سکتے ہیں یا نہیں محبوب معیار کا ہیں یا نہہیں یہ تو بس ہو جاتی ہے اور جب ہوتی ہیں تو انسان دنیا بھول جاتا ہیں اور اپنا آپ بھول جاتا ہیں وہ صرف چاہتا محبوب اس کے سامنے ہو ہر پل ہر لمحہ محبت امتحان لیتی ہیں جو جیت جاتا ہیں یہ اس کے قدم چومتی ہیں اور جو ہار جاتا وہ واپس نہیں جا سکتا ہاں مگر خاک ہو ضرور جاتا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوریہ کو محبت ہو گی تھی تو اب امتحان بھی لازم تھا محبت ازل سے قائم ہیں اپنے اصولوں پے امتحان جس کا بھی ہے رعایت نہیں کرتی کیا مجھے عدیل سے محبت ہو گی ہۓ حوریہ بڑبڑائ ہاں بلکل کسی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی پیچھے مڑی تو عدیل سامنے چیئر پر بیٹھا مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔
تو تو تم حوریہ کنفیوز ہوگئ ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں عدیل نے اس کی نقل اتارتے ہوۓ کہا اور مسکرا کر اس گے پاس آیا کہیں عدیل نے سن تو نہیں لیا حوریہ نے سوچا جی بلکل سن لیا ہیں میں نے عدیل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تم نا ہنہ لوگوں کی باتیں سنا غلط ہوتا ہیں حوریہ نے خفا ہوتے ہوے کہا ۔۔۔
اچھا لو بابا معاف کر دو عدیل نے کان پکڑتے ہوے کہا حوریہ اس کی حرکت پر کھلکھلائ حوریہ کا چہرہ چاند کی روشنی میں دمک رہا تھا عدیل اس میں کھو سا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوریہ نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ حوش میں آیا تمہیں پتا ہیں عدیل کل حوریہ کی بات پوری نہیں ہوئ کے عدیل بولا کل تمہیں دیکھنے کے لیے لوگ آرہے ہیں نا عدیل نے اس کے چہرے پر آتے بال کو پیچھے کرتے ہوئے کہا حوریہ کو غصہ آیا۔۔۔۔۔
تو تمہیں کوئ فرق نہیں پڑتا حوریہ نے گھورتے ہوئے پوچھا دیکھنے آرہۓ ہیں تو دیکھنے دو عدیل نے پر اسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا دفعہ ہو جاؤ تم تمغے أگ لگے تمہیں حوریہ نے پیلو عدیل کی طرف اچھالا عدیل نے کیچ کر لیا اور مسکرا کر غائب ہو گیا اور حوریہ مٹھیاںبھینچ کر رہ گئ۔۔۔۔
بدتمیز حوریہ بڑبڑائ ہاہا!!!!!بری بات حوریہ عدیل بولاحوریہ جو بیڈ پر بیھٹی تھی یکدم عدیل کے بولنے پر دھڑم سے نیچھے گر گی ہاہاہاہاہا کتنی ڈر پوک ہو یار تم عدیل نے ہنستے ہوے کہا افففففففف تم ایک دفعہ چلے گے تھے تو دوبارہ کیوں آۓ حوریہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم وہ میں جا ہی رہا تھا تو میں نے سوچا تمہیں برگر ہی کھلادوں عدیل نے آنکھ دباتے ہوئے ایک شاپر اس کی طرف بڑھایا حوریہ نے کھنینچے کے انداز میں لے لیااور کہا اب جاؤ عدیل جو مزے سے بیڈ پر لیٹ چکا تھا اٹھ کر حور کو گھورا اور بولا کوئ نہیں جارہا میں ۔۔۔۔۔
جہنم میں جاو حوریہ نے برگر کا بائیٹ لے کر کہا ہاں اس لیۓ تو تمہارے گھر ہوں عدیل نے مسکرا کر کہا سو ڈھیٹ مرے ہوں گے تو تم پیدا ہوۓ ہو گے نمونے حوریہ نے منہ بنا کر کہا ۔۔۔۔۔
حوریہ کیچن میں داخل ہوئ تو سامنے عطیہ پھرتی سے کٹنگ بورڈ پر پیاز کاٹتی کھانے کی تیاری کر رہی تھی اٹھ گیا میرا بچہ عطیہ نے حوریہ کو دیکھد تو اس کی طرف بڑھ کر پیار سے کہا جی۔۔۔۔۔۔۔اچھا بتاتیں کیا بنانا ہیں میں کچھ کروا دوں حوریہ نے ان کا گال چوم کر کہا بریانی تو بنا لی ہیں ساتھ ہی مڑ قیمہ بنا رہی ہوں ۔کباب اس وقت پر تل لوں گی ۔پڈنگ میں بنا چکی ہوںچکن کو مسلہ لگا دیا ہیں روسٹ بنا لوں گی۔
عطیہ چولہا جلاتے ہوۓ بولی اففف اتنا کچھ سال بھر کے بھوکے ہیں کیا حوریہ نے کوفت سے کہا ایسے نہیں بولتے ایک اچٹتی نظر اس پہ ڈالی اچھا لو یہ سلاد کاٹوں عطیہ نے ٹرے حوریہ کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا امی ایک بات پوچھو ۔حوریہ نے کھیرے ایک سائیڈ پر کرتے ہوۓ بولا جی پوچھو عطیہ نے اسکے پاس چیئر پر بیٹھتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
کیا جن کو کسی انسان سے عشق ہو سکتا ہیں کیا حوریہ کے عجیب سوال پر وہ ایک دم ٹہر گی وہ اس سے پہلے کچھ کہتی حور ایک دم پھر بول پڑی ۔۔۔
ارے یہ بات تو بتا ہیں آپ ہی بار بار کہتی تھی جن عاشق ہو جاتے ہیں مگر کیا اچھے جن ہوتے ہیں کیا ان کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں مطلب اچھے بھی نہیں مسلمان بھی تو ہو سکتے ہیں کیا شادی کر سکتے ہیں امی ۔۔۔۔
عطیہ کا ہاتھ تھم گیا حوریہ کی بات نے انھیں اتنا جٹھکا نہیں دیا تھا جتنا اس کا انداز نے حوریہ یہ کیا اوفول بول رہی ہو اور اس وقت جنوں کا کیا ذکر امی اچھے والے بالکل کچھ نہیں کہیے گۓ اب اتنا ڈر کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ اب بالکل نارمل ماں کو دیکھتے ہوے سیدھا ہو کر بیٹھی عطیہ نے ڈر کر چار بار اس پر آیت الکرسی پھونک دی ہۓ فل حل وہ نہیں چاہتی تھی کچھ ہو وہ جلد سے جلد حوریہ کو اپنے گھر کا کرنا چاہتی تھی کچھ ہوا حوریہ تمھارے کمرے میں کوئ سایہ تو نہیں یا وہ جن تو نہیں آگیا واپس مجھے یاد ہۓ کل تمھاری چیخنے کی آواز آئ تھی۔۔۔۔
حوریہ کا ہاتھ تھم گیا سانسیں رک گئ پھر خود کو سنبھال کر سر جھٹکتے ہوے انتہائی آرام سے بولی آپ کو تو پتا ہۓڈرنے کی عادت چپکلی دیکھ کر ایسے ہی گبھرا گئ اور رہی بات جنوں کی تو ویسے ہی خیال آیا کہ کیا انسان اور جن شادی کر سکتے ہیں ویسے امی آپ کا خیال ہۓ اس بارے میں۔۔۔۔۔
بے حد فضول ترین خیال ہۓ ہاں جن جو ہیں وہ آپ پر فدا ہو جاتے ہیں کھبی تو زور زبردستی کرتے ہیں کھبی آپ کو بھی اپنی محبت میں متبلا کر کے یہ دلاتے ہیں کہ شادی ہو سکتی ہۓ اور کروا بھی لیتے ہیں مگر ایسا مکمن نہیں ہۓ ان کی بات پر حوریہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا دل جیسے ڈوب گیا امی ایسا کیوں کہہ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
کیوں نہیں مکمن ہو سکتا امی اگر جن مسلمان ہو اور سچا مومن ہو پھر حوری کیسی باتیں کر رہی ہو مجھے تو تمہاری باتوں سے ہول اٹھ رہۓ ہیں کیا ہوا آج تمھیں میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہۓ امی جس چیز کا انسان کا نہ علم ہو تو وہ اپنے بڑوں سے پوچھتا میں آپ سے صرف پوچھ رہی ہوں وہ اسے دیکتھتی رہی پھر بول اٹھی ۔۔۔۔۔
نہیں کیونکہ انسان مٹی سے اور جن آگ سے بنا ہے اور ان کا جوڑ نہیں بن سکتا بس لاودو فضول کا ٹاپک اٹھا دیتی ہو جاؤ تیار ہو جاؤ جا کے حوریہ ان کو دیکتھی رہی پھر گہرا سانس لے کر اٹھ پڑی حوریہ اس کو اپنا جواب نہیں ملا تھا ۔۔۔۔
حوریہ آف وائٹ سوٹ پر گولڈن کام کے ساتھ لال دوپٹہ سیٹ کیے ہوے ہلکا پلکا میک اپ وہ پرستان کی پری لگ رہی تھی معمول سے سنگھار نے ہی بے حد دلکش بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حسن وہ تو خدا نے ہی اسے کھول کے دیے رکھا تھا عطیہ حوریہ کو نیچیے لائ حوریہ سب سے مل کر صوفے پر بیٹھ گئ ان سب نے حوریہ کو پنسد کر لیا تھا اور منگنی کی ڈیٹ فون کر کے بتانے کا کہ کر چلے گے ۔۔۔۔۔۔۔
شام میں ان کا فون آیا اور انہوں نے رشتے سے انکار کر دیا عطیہ کو دھچکا لگا اسد وہ ایسے کیسے انکار کر سکتے ہیں عطیہ نے سردونوں ہاتھو میں تام لیا پتا نہیں باجی جس طرح وہ گے تھے منگنی کا بول کر مجھے تو لگا تھا پر کیا کر سکتے باجی اسد نے عطیہ کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں بند ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔
باجی باجی۔۔۔۔ حوریہ جلدی آہ دیکھو باجی کو کیا ہوا حوریہ آئ تو کارپٹ پر عطیہ بے سود پڑی تھی اور اسد ان پر پانی چھڑک رہا تھا امی امی چاچو یہ یہ امی کو کیا ہوا حوریہ نے روتے ہوے پوچھا بیٹا صبر کرو میں نے کال کی ہے امیبولیس آتی ہو گی اسد نے حوریہ کو سمجھایا عطیہ کو وہسپٹل لایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوریہ نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا حوری بیٹا بس کرو روتے نہیں ہیں دعا کرو اللہ سب بہتر کرے گا اسد نے حوصلہ دیتے ہوہوئے کہا چاچو میں کیا کروں گی اگر امی کو کچھ ہو گیا تو ۔۔تو میں تو مر جاو گی حوریہ نے روتے ہوئے کہا نہیں حوریہ ایسا نہیں کہتے بیٹا تبھی ڈاکٹر آیا اور کہا۔۔۔۔
مس حوریہ آپ کو اندر مریض بولا ذہی ہیں اور ہاں ان کے پاس وقت بہت کم ہیں ڈاڈاکٹر نے پیشے وارانا انداز میں کہا اور ایک طرف چلا گیا حوریہ اپنی جگہ جم گی آنسوں تھے کے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اسد نے سمجھیا اور کہا بیٹا ان کے سامنے رونا نہیں ہم جاو مل لو حوریہ نے ہاں میں سر ہلاتی ہوئ اندر چلی گی عطیہ سامنے میشنوں میں جکڑی ہوی بیڈ پر لیٹی ہوئ تھی حوریہ نے ایک لمبا سانس لیا اور آنسوں صاف کرتے ہوۓ ان کی طرف بڑھی ۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

پرستان کی شہزادی اردو کہانی - پارٹ 6

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

اردو کہانیاں اخلاقی کہانیاں، خوفناک کہانیاں، ہندی کہانیاں، سچی کہانیاں، بچوں کے لیے کہانیاں، پیغمبر کی کہانیاں، اسلامی کہانیاں، سبق آموز کہانیاں
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں