Sublimegate Urdu Font Stories
جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 1
بہت دیر ھوئی ہم لوگ کہیں گھومنے نہیں گئے اس بار کیا پلائن ھے عبداللہ نے اپنے کزنز سے پوچھا یار میں تو کہتا ھوں مری چلتے ہیں بہت خوبصورت موسم ھے وہاں کا عدیل نے اپنی رائے دی۔ ثانیہ تم کہاں جانا پسند کرو گی اگر تم ساتھ گئی تو لائبہ نے یونہی اس سے پوچھا اسے پتہ تھا وہ کہیں نہیں جاتی مجھے سیف الملوک جھیل پسند ھے کیونکہ میں نے سنا ھے وہاں پریاں اترتی ہیں ثانیہ بات کرتے کرتے کہی کھوگئی تو لائبہ نے اسے کہنی مار کے احساس دلایا کے وہ ابھی گھر ہی بیٹھی ھے جس پہ سب نے زور سے کہکا لگایا تو ثانیہ کا منہ پھول گیا اسے لگا سب اس کا مزاق بنا رہے ہیں۔ ثانیہ چپ کرکے وہاں سے اٹھ گئی اور اپنے روم میں چلی گئی کہ اسے لگتا تھا یہاں اسے سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔
پھر سے ناراض کر دیا گڑیا کو علی بھائی نے آتے ہی سب کو گھوری سے نوازا کیا ھوا ھے یہاں کس بات پہ بہس ھو رہی تھی۔ بات تو کچھ بھی نہیں آپ کو تو پتا ھے نہ بھائی ثانیہ زرا سی بات پر ہی بگڑ جاتی ھے ۔ عبداللہ نے ساری بات بھائی کو بتاتے ھوے کہا اب رات بہت ھوگئ ھے آپ سب بھی اپنے رومز میں جاؤ صبح بات ھوگی علی بھائی نے جیسے ہی بولا سب اٹھ کر چل دیے سب کے جانے بعد علی سیدھا ثانیہ کے روم میں گیا تو دیکھا ثانیہ منہ پھلائے بیٹی تھی جیسے اسی کا انتظار کررہی ھو ثانیہ گڑیا آپ بھی زرا سی بات دل پر ہی لے لیتی ھو ہم سب آپ کہ اپنے ھے وہ لوگ بس مزاق کررھے تھے ہر بات دل پر نہ لیا کرو اور رہی بات سیف الملوک جھیل دیکھنے کی تو میں خد اپنی گڑیا کو لے جاؤنگا
ثانیہ کو بہت خوشی ھوئی تھنکس بھائی کچھ دیر کے لئے علی خاموش ہو گیا پھر ثانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا پر اس سے پہلے ہمیں گاؤں جانا ھے وہاں انکل حاکم کے بیٹے کی شادی ھے چلو گی نہ ثانیہ کے چہرے سے ایک دم جیسے خوشی غائب ہو گئی صاف نظر آرہا تھا کہ وہ گاؤں نہیں جانا چاہتی اور وجہ علی جانتا تھا لیکن علی چاہتا تھا وہ حالات سے مقابلہ کرنا سیکھے حالات سے بھاگنا نہیں ثانیہ علی بھائی کو منا نہیں کرسکتی تھی اس لئے اس نے گاؤں جانے کہ لئے ھاں بول دیا تو علی اسے گڈ نائٹ کہہ کے اپنے روم کو چل دیا ثانیہ جب سے آغا ھاؤس آئی تھی علی بھائی نے اسکا ہمشہ بہت خیال رکھا اسے کبھی احساس ہی نہیں ھوا کے علی اسکا کزن ھے بھائی نہیں ۔
4 اقساط |
یہ الگ بات تھی کہ وہ باقی سب سے اب تک گل مل نہیں پائی تھی
اسے آغا ھاؤس آئے 5 سال ھوچکے تھے مگر ایسا لگتا تھا جیسے اس کی زندگی وہی رک گئی ھو گھر کے سب لوگ اسے بہت پیار کرتے ھیں دادا دادی تایا تائی چاچو چاچی سب اس کا خیال رکھتے تھے مگر پھر بھی وہ گاؤں میں ھونے والے اس خوفناک واقعے کوبھول نہیں پائی تھی
وہ چاہ کر بھی بھول نہیں سکتی تھی ثانیہ ساری رات سو نہیں سکی اس کی آنکھوں میں سائے سے لہرانے لگے تھے آنکھیں دھندلی ھورہی تھی شاید وہ رو رہی تھی اپنے پیاروں کی جدائی نے اسے توڑ دیا تھا کیا ایسے اچانک بھی ایک پل میں سب بدل جاتا ھے اسکی زندگی بلکل ہی بدل گئی تھی مگر ثانیہ کو آج پھر ایک بار اس سیاہ اور دل دہلا دینے والی رات کی ہر بات یاد آرہی تھی
کبھی کسی کے رو نے کی آوازیں آتی تو کبھی چیکھنے کی کبھی زور زور سے دروازے بجتے بھیانک اور ڈراؤنی آوازیں اس کا دل ڈوب رہا تھا ان صداؤں پر جو اس کے بابا اسے دے رہے تھے ثانیہ چھت کو گھور رہی تھی آنکھوں میں آنسو ھو نے کی وجہ سے جسکی ٹائلیں اسے مدھم سی نظر آرہی تھی پتہ نہیں رات کا کون سا پہر تھا جب اس پر نیند مہربان ھوئی
صبح ناشتے کی ٹیبل پر علی نے سب کو بتایا کے وہ لوگ گاؤں جائیں گے
تو دادا جی نے ایک گہری نظر سے علی کو دیکھا اور پوچھا تو کیا ثانیہ بھی جائے گی
جی دادا جان
اس کا جانا بہت ضروری ہے
ایک بار پھر سوچ لو بیٹا
بس دادا جی اب آپ کی دعا چاہئے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے میں نے
گڑیا نہیں آئی ناشتے کے لئے علی نے لائبہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا؟؟
وہ بس آہی رہی ہے لائبہ نے نظرے اٹھائے بنا علی کو بتایا
وہ ہلکے سے مسکرا دیا اسے لائبہ کی یہ ہی ادا پسند تھی علی اور لائبہ کی منگنی کو تین سال ھو چکے تھے دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے علی لائبہ سے بہت محبت کرتا تھا اور محبت سے بڑھ کر اسکی نظر میں لائبہ کے لیے احترام تھا لائبہ کو علی سے محبت کرنے کے لئے یہ بات ہی کافی تھی اوپر سے اس کی اتنی اچھی پرسنیلٹی اتنا اچھا نیچر لائبہ کے تو من کی مراد جیسے اس کی جھولی میں ڈال دی گئی تھی
اور علی کی وجہ سے ہی لائبہ اور ثانیہ میں کچھ تھوڑی بہت انڈرسٹینڈنگ بھی تھی
جتنی محبت علی لائبہ سے کرتا تھا
اتنا ہی پیار بلکہ اس سے بڑھ کر پیار اور کیئر وہ ثانیہ کی کرتا تھا کیونکہ وہ اسکے مرحوم چاچو کی بیٹی تھی جو اسے بہت پیار کرتے تھے بہت لاڈ لڈاتے تھے اب ثانیہ علی کی زماداری تھی اس لیے لائبہ بھی ثانیہ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرتی تھی
پتر مینوں وی نال لے چل میرا بڑا دل کردا اے پنڈ جان نوں دادی جان علی سے کہنے لگی تو علی نے دادی جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دادو ابھی نہیں کیونکہ آپکی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی آپ پہلے ٹھیک ھوجاؤ پھر لے جاؤنگا علی نے مسکرا کہ کہا۔
اور علی بیٹا کون کون جارہا ھے رحمٰن صاحب نے پوچھا بابا جان عبداللہ اور عدیل بھی آج کل فری ھے اور لائبہ بھی انکے ساتھ کہیں پکنک پر جانے کی پلینگ کررہی تھی تو وہ بھی ہمارے ساتھ ہی آجائے اور ثانیہ میں چاچا جان اور چچی جان ہم سب جارہے ہیں بابا آپ اور ماما دادا اؤر دادی جان کا خیال رکھنا فرحان اور مناہل بھی یہی رکے گے ان کے کچھ اگزائمز رہتے ہیں ابھی
جنہوں نے گاؤں جانا ھے وہ سب اپنی تیاری کرلیں ہمیں عصر ٹائم نکلنا ھے اتنا کہہ کر علی اٹھ کر اوفس چلا گیا جبکہ عالیہ بیگم (علی کی ماما) اور کنیز بیگم (علی کی چاچی) برتن سمیٹنے لگی رحمٰن صاحب اور ناظم صاحب بھی اوفس کو چل دئیے ثانیہ بھی ناشتے کے نام پہ صرف جوس پی کے اپنے کمرے میں آگئی اور اپنا بیگ پیک کرنے لگی اور ساتھ ساتھ بیتے وقت کی یادیں اس کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنے لگی
04 اقساط |
امی بابا کب آئیں گے بہت دیر کر دی ھے آج تو بابا نے 13 سالہ ثانیہ اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی کیونکہ پہلے ہر روز ہی اس کہ بابا جلدی گھر آجاتے تھے کیونکہ انکو پتہ تھا اتنے بڑے گھر میں انکی بیوی اور بیٹی اور ایک چھوٹا بیٹا ہی ھے بس اور انکی حویلی نما گھر کے قریب کسی کا گھر بھی نہیں چھوٹا سا گاؤں تھا کم آبادی کی وجہ سے سنسان ہی لگتا تھا اعجاز احمد کی اپنی زمین تھی جسے وہ بوتے تھے اور فصل کاشت کرتے تھے اسی سے گزر بسر ھو رہی تھی۔
ایک دن جب عصر کہ ٹائم اعجاز احمد اپنی فصل کو پانی لگانے گئے تو پانی لگانے کے بعد وہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے کیونکہ وہ بہت تھک گئے تھے لیکن بیٹھتے ھوئے انہیں اپنے نیچے کوئی سخت سی چیز محسوس ھوئی تو انھوں نے وہ اینٹ کا آدھا حصہ اٹھا کہ دوسری طرف جھاڑیوں میں پھینکا لیکن جیسے ہی وہ آرام سے سیدھے ھو کہ بیٹھے زور زور سے رونے کی آوازیں آنے لگیں انکو ایسا لگا جیسے سب کچھ ہل رہا ھے اور درخت ان کے اوپر گرنے لگاھے ان کو نہیں پتہ تھا انکی یہ چھوٹی سی غلطی انکی زندگی اور فیملی کو تباہ کر دیگی
ایک دم سے کسی نہ نظر آنے والی مخلوق نے انکو گلے سے پکڑ لیا یہ سب اتنا اچانک ھوا کے کہ اعجاز احمد سمجھ ہی نہ پائے کہ یہ سب کیا ھوا ھے پھر ایک دم سے انکے سامنے ایک خوفناک صورت والا انسان نمودار ہوا جس نے انہیں گلے سے پکڑ رکھا تھا اسکو دیکھتے ہی اعجاز احمد کہ ھوش گم ھونے لگے بہت ہی بھیانگ لال سرج آنکھیں اور چہرے پر آڑھی ترچھی لکیریں جن سے خون بہہ رہا تھا ابھی وہ اپنی آواز۔نکالنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ وہ شور مچائے تو شاید کوئی انکی مدد کو آ پہنچے کہ دوسری طرف سے ایک اور خونخوار آنکھوں والی مخلوق ظاہر ھوئی اعجاز احمد کو لگا آج بس انکا بچنا ناممکن ہے اتنے میں اس خوفناک مخلوق کی آواز آئی تم نے ہمارے بچے کو کیوں مارا اس نے تمہیں کچھ نہیں کہا تھا مگر ہم اب تمہاری نسل ختم کر کہ ہی دم لینگے تم نے ہمیں جو دکھ دیا ھے ہم بھی تمہیں وہی دکھ دے گے اور تب تک تمہارا زندہ رہنا بہت ضروری ھے اعجاز احمد کو اپنی فکر نہیں تھی مگر اپنے بچوں کی فکر ستا رہی تھی انکی بات سنتے ہی اعجاز احمد بے ھوش ھوگئے اتنے میں بہت رات ھو چکی تھی کچھ شہر سے واپس آنے والے لوگوں نے انہیں کچی سڑک پر ایک درخت کے نیچے پڑے ھوئے دیکھا پہلے تو انھوں نے اعجاز احمد کو ھوش میں لانے کی کوشش کی مگر انہیں ھوش نہ آیا تو وہ لوگ انہیں اٹھا کہ ان کہ گھر لے آئے کیونکہ وہ لوگ اعجاز احمد کو پہچانتے تھے لیکن جب وہ لوگ انکو گھر لیکر آئے اور لٹایا تو پتہ چلا انکے ھاتھ پاؤں حتیٰ کہ گلہ بھی مڑا ھوا تھا
سب لوگ بہت ڈر گئے اور طرح طرح کی باتیں کرنے لگے اتنے میں ان میں سے ایک آدمی بولا کوئی جاکر لطیف شاہ کو بلا لاؤ مجھے یہ ڈاکٹری مسلہ نہیں لگ رہا دو آدمی گئے اور شاہ لطیف کو بلا کر لے آئے شاہ لطیف جیسے گھر میں داخل ھوئے انہیں زور سے جھٹکا لگا لیکن وہ ڈرے نہیں اور آگے بڑھے اور اعجاز احمد کے کمرے میں گئے انھوں نے سب سے کہا آپ سب لوگ جائیے یہاں سے بس فیملی کے لوگ ہی یہاں رکے تو سب لوگ چلے گئے بس حاکم چچا اور انکے بھائی رب نواز رک گئے
15 اقساط |
شاہ لطیف نے اعجاز احمد کو دم کیا آب زم زم پر کچھ پڑھ کر اعجاز احمد پر چھڑکا اور کمرے کہ کونوں میں بھی چھڑکا اور حاکم چچا اور رب نواز چچا کو اعجاز احمد کہ پاس رکنے کا بول کر کمرے سے باہر نکل آئے اور باہر آکر انھوں نے روقیہ بیگم کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر دوسرے کمرے میں رہے اور جتنا ہوسکے بچوں کو اعجاز احمد سے دور رکھے قرآن پاک کی تلاوت کرے نماز ادا کرتی رہے اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ھے سب ٹھیک ھو جائے گا۔
لیکن شاہ جی انکو ھوا کیا ھے ابھی جو بولا ھے اس پر عمل کریں صبح تک اسے ھوش آجائے گا اور صبح آکر آپ کو بتائنگے پورے مسلے کے بارے میں جی شاہ جی ٹھیک ھے اتنا کہہ کر شاہ جی چل دئیے تو وہ بھی بچوں کے پاس دوسرے کمرے میں آ گئی اور دروازہ اندر سے بند کرکے بیٹھ گئی دیکھا تو دونوں بچے رو رہے تھے پتہ نہیں ہمارے بابا کو کیا ھوا ھے آصف ثانیہ سے پوچھ رہا تھا اور رو رہا تھا ثانیہ تو خد کچھ نہیں جانتی تھی وہ کیا بتاتی وہ بھی رونے لگی
روقیہ بیگم نے دونوں بچوں کو سینے سے لگایا اور کہنے لگی آپ کے بابا کو کچھ نہیں ھوگا آپ لوگ دعا کرو اللہ تعالیٰ سے وہ سب ٹھیک کر دینگے کچھ دیر کے بعد آصف سو گیا تو روقیہ بیگم نے جائے نماز بچھائی اور اس پر بیٹھ کر قرآن پاک پڑھنے لگی ثانیہ نے جب دیکھا تو وہ بھی قرآن پاک لے کر ماں کہ ساتھ بیٹھ کر پڑھنے لگی اور اپنے بابا کے لئے دعائیں مانگنے لگی
مگر قدرت نے تو کچھ اور ہی لکھ دیا تھا اس کی قسمت میں جسے اس کی دعائیں اور آنسو بھی بدل نہیں پائے تھے
ابھی رات کے 12 بجنے والے تھے کے روقیہ بیگم نے ثانیہ سے کہا بیٹا زوال کا ٹائم شروع ھونے والا ھے قرآن پاک بند کرکے رکھ دو اور سو جاؤ تو ثانیہ نے قرآن پاک اٹھا کر شلف پر رکھا اور اپنے بھائی آصف کہ پاس لیٹ گئی جب کہ روقیہ بیگم بھی قرآن پاک بند کرکے وہی جائے نماز پر بیٹھی رونے لگی کہ اب نہ جانے کیا ھونے والا ھے ان کا دل بہت گھبرا رہا تھا
وہ دعائیں مانگ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اتنے میں کمرے میں رکھے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ایک دم سے گھنٹی کی آواز سے وہ چونک گئی پھر خد کو سمبھال کر فون تک آئی اور فون اٹھایا تو فون پر شاہ لطیف تھے وہ کہہ رہے تھے روقیہ بیگم میری بات غور سے سنے آپ نے آج رات کسی صورت کمرے کا دروازہ نہیں کھولنا چاہے خد اعجاز احمد بھی آپ کو پکارے اور دروازہ کھولنے کو کہے وہ لوگ آج رات باہر نہیں آئینگے کیونکہ انہیں میں نے سب سمجھا دیا تھا اور آپ کے اور اعجاز احمد کے کمرے کا حصار بھی کر دیا تھا اور مجھے صبح وہاں آنے میں کچھ دیر ھو جائے گی میں اپنے پیر صاحب کو ساتھ لے کر آؤنگا کیونکہ مجھے نہیں لگ رہا کہ مجھ سے یہ مسلہ حل ھو پائے گا آپ اپنے بچوں کا خیال رکھنا انہیں کمرے سے باہر نہ آنے دینا اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائیں۔ اللہ حافظ
27 اقساط |
روقیہ بیگم بہت گھبرا گئی تھی وہ پہلے ہی پریشان تھی اپنے شوہر کو اس حال میں دیکھ کر اب انہیں لگ رہا تھا ان کے بچے بھی خطرے میں ھے کوئی بھی تو نہیں تھا ان کا اس گاؤں میں نہ میکا نہ سسرال بس ایک اعجاز احمد کے دوست حاکم صاحب کے گھر والوں سے ان کی جان پہچان تھی انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا تو بے بس ھو کر پھر سے جائے نماز پر بیٹھ گئ اور کچھ دیر بعد روتے روتے انکی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ انہیں اپنے پاس کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی جب انھوں نے دیکھا تو ثانیہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازے کی طرف جارہی تھی اور اب دروازہ کھولنے لگی تھی وہ کرنٹ کی طرح اٹھی اور ثانیہ کو اپنی طرف کھینچ کر پیچھے کیا ثانیہ بیٹا دروازہ کیوں کھول رہی ھو امی وہ حاکم چچا بلا رہے ہیں انہیں پانی چاہئیے تھا لیکن بیٹا مجھے تو کوئی آواز نہیں آرہی آپ چپ کر کے بیٹھ جاؤ اور مجھ سےپوچھے بنا دروازہ مت کھولنا اتنے میں باہر صحن سے اعجاز احمد کی آواز آئی روقیہ بیگم دروازہ تو کھولو دیکھو میں بلکل ٹھیک ھو گیا ھوں ثانیہ بیٹا ادھر باہر آو نا ثانیہ بولنے ہی لگی کہ روقیہ بیگم نے اس کے منہ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اشارے سے کہا بولنا مت اتنے میں پھر سے آواز آئی روقیہ بیگم دروازہ کھولو مجھے یہ جانور کاٹ لینگے بہت بھیانک ھے یہ اور ساتھ اعجاز احمد کے چلانے کی اور کچھ عجیب سی جانوروں کی آوازیں آنا شروع ھو گئی اور اعجاز احمد بس اتنا ہی کہے جارہے تھے مجھے اندر آنے دو ورنہ یہ جانور مجھے نوچ نوچ کر کھا جائنگے یہ مجھے مار دینگے
روقیہ بیگم کا ایک بار تو دل کیا کہ وہ دروازہ کھول دے اعجاز احمد کی پکار میں اتنا درد تھا کہ وہ پگھل رہی تھی مگر پھر انہیں اپنے بچوں کا خیال آیا اور شاہ لطیف نےجو کچھ بتایا تھا کہ کمرے کا حصار کیا ھے تو دروازے کی طرف بڑھتے ھوے ان کے قدم رک گئے پھر باہر سے زور زور سے برتن گرنے اور دروازے بجنے کی اور چیکھنے چلانے کی بہت سی ملی جلی آوازیں آنے لگیں ثانیہ کو اپنے بابا پر بہت رحم آرہا تھا وہ رو رو کر ماں سے فریاد کرنے لگی کہ پلیز امی جان دروازہ کھول دو نا ورنہ بابا۔۔۔۔
کچھ نہیں ھوگا تمہارے بابا کو ثانیہ میری طرف دیکھو میری بات غور سے سنو ماں نے پھر شاہ لطیف کی کہی گئی ساری بات ثانیہ کو سمجھائی تو وہ کچھ حد تک سمبھلی لیکن اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے یہ تو میرے بابا کی ہی آواز ھے روقیہ بیگم نے ثانیہ سے وعدہ لیا کہ وہ ضد نہیں کرے گی اور اپنی امی کی بات مانے گی لیکن وہ رات دونوں ماں بیٹی نے کیسے کاٹی یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا اس ایک رات نے ثانیہ کو درد اور ڈر دکھ صبر عزیئت سب کچھ دیا تھا روقیہ بیگم کو لگ رہا تھا جیسے یہ انکی زندگی کی سب سے بھیانک رات ھے ایسا لگتا تھا اس رات کی صبح ہی نہیں ھوگی اتنی لمبی رات تھی پتہ نہیں کب دونوں ماں بیٹی جائے نماز پر بیٹھی روتے روتے دعائیں مانگتےھوئے ایک دوسرے کا ھاتھ تھامے سوگئی انہیں کچھ احساس نہ ھوا یا شاید قدرت کو ان پر رحم آگیا تھا فجر کی آذان ھو رہی تھی جب روقیہ بیگم کی آنکھ کھلی وہ اٹھی کمرے کے واشروم میں وضو کیا اور آکر نماز پڑھنے لگی اتنے میں ثانیہ کی بھی آ کھ کھل گئی وہ بھی وضو کرکے نماز پڑھنے لگی اور پھر دونوں ماں بیٹی نے صبح کہ اجالے تک قرآن کریم پڑھا کسی نے زور سے دروازہ بجایا
باجی روقیہ اٹھ کے باہر آجاؤ سویر ھوگئی اے
تے پیر صاحب وی آن والے نے
9 اقساط |
یہ حاکم چچا کی آواز تھی اور روقیہ بیگم نے شکر الحمدللّٰہ پڑھا اور اٹھ کر دروازہ کھولا حاکم بھائی آصف کے بابا اب کیسے ھے باجی اللہ بہتر کرسی پرشان نہ ھو وہ
حاکم بھائی کیا میں ان کو دیکھ سکتی ھوں
جی جی تسی جاؤ پر بچیاں نوں نا لے جانا شاہ جی نے منا کیتا سی
ا چھا بھائی ٹھیک ہے روقیہ بیگم جب اعجاز احمد کے کمرے میں گئی تو جیسے انکی جان ہی نکل گئی اعجاز احمد کی گردن الٹی ایک طرف ایسا لگ رہا تھا جیسے لٹکی ہوئی ھو ہاتھ پاؤ مڑے پڑے تھے روقیہ بیگم ان سے بات کرنا چاہتی تھی ان سے پوچھنا چاہتی کہ آخر یہ سب کیسے ھوا مگر جیسے ہی اعجاز احمد نے آنکھیں کھولیں روقیہ بیگم کی چیخ نکل گئی انکی آنکھیں اتنی لال تھی جیسے خون نکل رہا ھو اور وہ کچھ کہنا بھی چاہ رہے تھے پر آواز ہی نہیں نکال پا رہے تھے تو روقیہ بیگم کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی
اتنے میں حاکم چچا کمرے میں آئے اور روقیہ بیگم کو یہ کہہ کر چپ کروایا کہ
بچوں کو کون سنبھالے گا نالے بہن جی میں شہر فون کر دتا اے اعجاز احمد دے والد تے بھائیاں نوں او وی آ جان دے تسی اپنا دل نا ڈھاؤ
روقیہ بیگم کمرے سے باہر نکلی تو ثانیہ چھوٹے بھائی کو لئے کھڑی ساری بات سن اور سمجھ چکی تھی کے اسے اپنی امی کو اور زیادہ پریشان نہیں کرنا روقیہ بیگم نے ثانیہ کو بولا کے آصف کو ناشتہ کروا دو اور خد بھی کچھ کھا لو اور خد روقیہ بیگم پیر صاحب کے آنے کی تیاری کرنے لگی صبح کے 11 بجے پیر ناصر شاہ صاحب آئے نورانی چہرا سفید لباس سفید داڑھی نیچی نگاہ آتے ہی سب کہ سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی پھر چارپائی پر بیٹھ گئے اور شاہ لطیف سے ساری صورتحال پوچھی شاہ لطیف نے جو کچھ محسوس کیا وہ سب ناصر شاہ کو بتایا تو وہ تسبیح پر کچھ پڑھ کر استخارہ نکالنے لگے
ثانیہ نے آصف کو ناشتہ کروانا تھا حاکم چچا کے کہنے پر وہ انکے گھر چلی گئی تھی جو ثانیہ کے گھر سے کچھ ہی دوری پر تھا حاکم چچا کی بیوی نے انہیں پیار سے گلے لگایا اور بیٹھنے کو کہا کچھ دیر بعد وہ ایک ٹرے میں ناشتہ لے آئی تو ثانیہ نے آصف کو ناشتہ کروایا ناشتے کے بعد ثانیہ نے ان سے کہا کہ حاکم چچا نے چائے کا بولا تھا تو وہ سب کہ لئے چائے بنانے لگی اور ثانیہ بھی ان کے ساتھ کچن میں چلی گئی آصف حاکم چچا کے بیٹے کے ساتھ گھر واپس آگیا تھا
گھر آتے ہی پہلے ماں کو ڈھونڈا تو وہ پیر صاحب کے سامنے چارپائی پر بیٹھی تھی باقی سب بھی پیر صاحب کے ارد گرد بیٹھے تھے اور پیر صاحب انہیں بتا رھے تھے کہ اعجاز احمد پر جننات کا سایہ ھے اور سایہ کیسے آیا ان پر یہ بات بھی سب کو بتا رھے تھے سب حیران پریشان انکی باتیں سن رہے تھے ۔
اس کا کوئی حل تو ھوگا نہ پیر صاحب
روقیہ بیگم جلدی سے بولی
9 اقساط |
جی حل تو ہر مسلے کا ڈھونڈھنے سے مل جاتا ہے آپ تحمل سے پہلے میری بات سنے دیکھے یہ جننات مسلمان نہیں ہے ورنہ انکا حل تو جلد نکل آنا تھا یہ کافر جننات ھے کسی چیز کو نہیں مان رہے مجھے کچھ وقت دے میں اپنی پوری کوشش کرونگا آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ھو جائے گا۔
پہلے تو آصف انکی باتیں سنتا رہا جو اسے سمجھ نہیں آئی پھر وہ چلتا چلتا اپنے بابا کے کمرے میں چلا گیا پیر صاحب ایک دم سے اپنی جگہ سے اٹھے سب نے حیرانی سے انہیں دیکھا پیر صاحب بلد آواز میں بولے
میں نے کہا تھا بچوں کو اس کمرے سے دور رکھنا
آپ نے میری بات پر غور نہیں کیا اس کمرے کا حصار ٹوٹ گیا ہے آپ کا بیٹا کمرے کے اندر چلا گیا ھے
یہ سنتے ہی روقیہ بیگم کی جان ہلق میں آگئی
اس سے پہلے کے وہ کمرے میں جاتی کمرے سے ایک دل دہلانے والی چیخ سنائی دی پیر صاحب کا چہرہ بجھ گیا اور پھر وہ ھوا جو نہیں ھوناچاہئے تھا
روقیہ بیگم کی گود اور مانگ ایک ہی پل میں اجڑ گئی تھی
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں
جنات کی دشمنی اردو کہانی - پارٹ 2
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,ج, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے