جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 2

 Urdu Story

Sublimegate Urdu Font Stories

جنات کی دشمنی - اردو کہانی پارٹ 2


اتنی زور سے چیخنے کی آواز آئی کہ سب کمرے کی طرف دوڑ پڑے (یہ آواز اعجاز احمد کی تھی) اعجاز احمد کی آنکھیں اوپر کو لگی ھوئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے سانس رکی ہو ئی ھو جیسے ہی پیر صاحب کی نظر اوپر اٹھی تو ان کے چہرے کے رنگ بدل گئے ان کہ تعاقب میں جب سب کی نظریں اوپر چھت کو اٹھی تو چار سال کا آصف چھت پر الٹا چل رہا تھا اسکی آنکھیں بھی لال تھی اور وہ سب کو دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا روقیہ بیگم تو چیختے ہوئے رونے لگی اور پیر صاحب سے کہنے لگی پیر صاحب میرے بیٹے کو بچا لو ۔ صبر کرو بیٹی انجانے میں ہی سہی غلطی بہت بڑی ھوئی ھے اعجاز احمد سے یہ کہہ کر پیر صاحب شاہ لطیف کی طرف مخاطب ھو کر بولے آپ جاؤ دیکھو ثانیہ بیٹی کدھر ھے اسے اکیلے نہ چھوڑنا روقیہ بیگم کو ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم کے کسی نے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ھو انکی نگاہ اپنے شوہر کی طرف اٹھی انکی آنکھوں سے آنسوں نکل رہے تھے جیسے اپنی بے بسی پر رو رہے ہو 

روقیہ بیگم نے اس ایک رات اور دن میں اتنا کچھ دیکھ لیا تھا کہ وہ اب ھوش کھونے لگی تھی اتنے میں گھر کے اندر کچھ لوگ داخل ھوئے یہ آغا صاحب ثانیہ کے دادا اور دادی تایا اور تائی تھے اور ساتھ علی بھی تھا جیسے ہی روقیہ بیگم نے ان سب کو دیکھا وہ انکی طرف دوڑی مگر آدھے رستے میں ہی بے ھوش ھوکر گر گئی ان سب نے مل کر انہیں اٹھایا اور چارپائی پر لٹا دیا دادی جان نے بہو کو ایسے دیکھا تو بہت غمگین ہو گئ انھوں نے بہو کا ماتھا چوما اور رو نے لگی اور کہنے لگی
حاکم پتر میرا پتر اعجاز کتھے اے

تو حاکم چچا نے دادو کو اشارا کرکے کمرے کا بتایا مگر پیر صاحب نے سب کو روک دیا کہ کمرے میں کوئی نہیں جائگا اتنے میں شاہ لطیف حاکم چچا کے گھر سے ثانیہ کو بلا لائے جو چائے بنوارہی تھی حاکم چچا کی بیوی نے بولا ثانیہ بیٹا آپ جاؤ میں ابھی چائے دے جاؤنگی ثانیہ جیسے ہی گھر میں داخل ھوئی سب اپنوں کو دیکھا اور دوڑ کر دادو کے گلے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی دادو نے اسے چپ کروایا تو اس کی نظر اپنی ماں پر پڑی جو بے ھوش تھی تائی امی انہیں ھوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی وہ دوڑ کر ماں کے پاس آئی امی آپ کو کیا ھوا ھے پہلے ہی بابا ہم سے بات نہیں کر رہے اب آپ بھی چپ کرگئی ھو امی آنکھیں کھولیں دیکھیں آپکی ثانیہ آپکو بلا رہی ہیں پلیز میری طرف دیکھے نا آپ اگر بات نہیں کرے گی تو میں آپ سے ناراض ہو جاؤنگی وہاں پر جتنے لوگ تھے سبھی کا دل ثانیہ کی باتوں سے بھر آیا

اور ادھر پیر صاحب نے سب کو منا کیا کے اعجاز احمد کے کمرے میں کوئی نہیں جائے گا
پیر صاحب کمرے میں بیٹھ کر بچے پر دم کررھے تھے کہ کسی طرح وہ مخلوق بچے کو چھوڑ دے بہت مشکل تھا بچے کی جان بچانا کیونکہ جو وہ جننات چاہتے تھے وہی ان کو حاصل ھو چکا تھا وہ اعجاز احمد کی آنکھوں کے سامنے انکی نسل ختم کرنا چاہتے تھے اور اب آصف ان کے بس میں تھا
۔
۔
اتنے میں شاہ لطیف گاؤں کے چھوٹے سے کلینک سے کمپاؤنڈر کو بلا لائے جس نے روقیہ بیگم کو چیک کیا تو بتایا انہیں ھارٹ اٹیک ھوا ھے جلدی سے شہر لے جاؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔
دادو نے علی سے کہا بیٹا ثانیہ کو یہاں سے لے جاؤ ورنا وہ اپنی ماں کو نہیں لے جانے دے گی تو شاہ لطیف نے اسے گھر سے باہر جانے سے منا کیا اور انہیں لے کر ایک کمرے میں چلے آئے ثانیہ کو اپنے پاس بلاکر اس کے گلے میں ایک تاویز ڈال دیا اور بولے بیٹی اسے کبھی بھی گلے سے نا اتارنا چاہے کوئی بھی اتارنے کو کہے سمجھیں۔ اور اسے بتایا کہ یہ خاص آپ کے لئے پیر صاحب نے بنایا تھا اتنے میں کمرے سے آصف کی آواز آئی آپی مجھے بچا لو یہ لوگ مجھے مار رھے آپی آپ کدھر ھو ثانیہ نے آصف کی آواز سنی اور اس کمرے کی طرف دوڑی جیسے ہی کمرے میں پاؤں رکھا وہ اتنی زور سے باہر صحن میں جا گری کہ اسے ایسا لگا جیسے اس نے کسی بجلی کی ننگی تار کو چھو لیا ھو۔ لیکن وہ اتنے آرام سے زمین پر بیٹھی تھی جیسے کچھ ھوا ہی نہیں (کسی نے اسے گرنے سے بچایا تھا لیکن جیسے ہی مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا)

علی نے بھاگ کر اسے اٹھایا گڑیا تمہیں کوئی چوٹ تو نہیں لگی نہیں بھائی میں ٹھیک ھوں آپ بس میرے آصف کو بچا لو بھائی پلیز یہ کہہ کر ثانیہ علی کے کاندھے سے لگ کر رونے لگی
اتنے میں پیر صاحب نے آب زم زم پر کچھ پڑھ کر دم کیا اور پانی چھت کی طرف اچھال دیا جیسے ہی پانی بچے پر گرا وہ چیخنے چلانے لگا اور بولا پیر صاحب آپ نہیں جانتے اس آدمی نے ہمارے ساتھ بہت برا کیا ہے جو تکلیف اسنے ہمیں دی ہم بھی اسے دینگے۔ آپ چاہے جو کرلو بدلہ تو ہم لے کر ہی رھے گے لگ رہا تھا دو لوگ ایک ساتھ بول رھے ہیں پیر صاحب نے
کہا میں سب جانتا ہوں جو کچھ آپ کے ساتھ ھوا وہ انجانے میں ھوا مگر جو آپ لوگ کررہے ھو وہ جان بوجھ کر کررہے ھو دونوں باتوں میں بہت فرق ھے یہ سب کرکے کونسا آپ کو آپکا بچہ واپس مل جائے گا اس بچے کو چھوڑ دیں یہ کہہ کر تھوڑا اور پانی بچے پر ڈالا لیکن جیسے ہی بچے پر پانی گرا وہ جننات غزبناک ھوگئے اب آصف دیواروں سے ٹکرا رہا تھا اس کے سر سے خون نکل رہا تھا وہ رو رہا تھا اپنی ماں کو آپی کو بابا کو سب کو مدد کے لئے بلا رہا تھا ثانیہ دروازے کے باہر کھڑی سب دیکھ رہی تھی اسے بھول گیا تھا اسکی ماں بےھوش ھے اس کے بابا کو جننات نے توڑ کے رکھ دیا ہے اسے اس وقت بس آصف کی فکر ھو رہی تھی آصف کی حالت اس سے برداشت نہیں ھورہی تھی

دروازے پر کھڑے سب لوگوں کا دل غوطے کھا رہا تھا ثانیہ اندر آنا چاہتی تھی مگر علی نے اس کا بازو تھام رکھا تھا وہ رونے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی تھی
پیر صاحب بہت ھوا اب آپ وار سوچ سمجھ کر کرنا کیونکہ انہیں تو ہم چھوڑے گے نہیں کسی قیمت پر بھی اور اگر آپ نے اب باندھا ڈالی تو آپ بھی نہیں بچو گے پورا کمرہ جننات کی آواز سے گونجنے لگا
پیر صاحب کی زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کے کسی نے انکو للکارا تھا اب انہیں یقین ھوگیا تھا کے بات بہت بگڑ گئی ہے انھوں نے ہر طرح سے کوشش کرلی تھی مگر بے سود اور وہ ڈرنے والوں میں سے نہیں تھے انھوں نے کچھ دیر آنکھیں بند کی کچھ پڑھنے لگے پھر انکی طرف پھونک ماری اور آنکھیں کھولیں پھر دم کیا ھوا پانی آصف پر چھڑکا جیسے ہی پانی آصف پر گرا پیر صاحب کو کسی انجان قوت نے زور سے دھکا دیا وہ ہوا میں اڑتے ہوئے زور سے باہر آ گرے اور دروازہ بند ھوگیا
شاہ لطیف نے پیر صاحب کو اٹھایا جو کافی زخمی ہوچکے تھے ان کا سر دیوار سے ٹکرایا تھا جلدی سے ان کے سر پر پٹی کی گئی اب سب سوچ رھے تھے اگر پیر صاحب کا یہ حال ہے تو ۔مطلب یہ ان کے بس کی بات نہیں
اور یہ سچ بھی تھا مگر صرف اس لیے کیونکہ
ایک تو اعجاز احمد قصور وار تھے
اوپر سے آصف نے اندر جاکر حصار توڑ دیا
اور جننات بھی کافر پیر صاحب خد پریشان تھے کے آج تک جب بھی ایسا کوئی معاملہ ان کے پاس آیا انہوں نے سب کی مدد کی تھی اور اتنی مشکل صورتحال کبھی نہ ھوئی تھی

اچانک سے پیر صاحب کو وہ پرندہ یاد آیا جو آج صبح آتے ہی جھولے والے درخت پر انہیں دکھا تھا پیر صاحب کو دور سے ہی اس کی طاقت کا اندازہ ھوگیا تھا ان کو لگا کہیں یہ شامل نہ ھو اس سارے معاملے میں وہ اس درخت کے پاس چلے گئے اور انھوں نے کچھ پڑھ کر اس پر پھونکا وہ وہاں سے اڑا اور آکر پیر صاحب کے سامنے انسانی روپ میں کھڑا ھوگیا اور سلام کیا
انھوں نے سلام کا جواب دیا اور جان گئے کہ یہ مسلمان ھے کون ھو تم اور یہاں کیا کر رہے ھو پیر صاحب نے روب دار آواز میں پوچھا اسنے پہلے نظر اٹھا کے انہیں دیکھا اور پھر نظر جھکا کر بات شروع کی
میں آپ کی ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا
آپ نے مجھے میرے (آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم دی اس لئے مجھے آپ کے سامنے حاضر ھونا پڑا مگر میں آپ کا غلام نہیں ھوں اسکی آواز میں احترام اور ٹھہراؤ تھا بڑی دھیمی سی آواز تھی اسکی

پیر صاحب نے اسے بتایا کے وہ اعجاز احمد کے سلسلے میں ان کے گھر جارہے ہیں اور استخارے میں تم بھی اسی گھر سے منصوب نظر آتے ھو میں نہیں جانتا کیوں
اور تم کچھ بتانا نہیں چاہتے تو میں تمہیں تمہارے آقائے دو جہاں کی قسم دیتا ھوں جب تک میں جہاں ھوں تم کسی معاملے میں دخل نہیں دوگے ۔۔
اب پیر صاحب کو لگ رہا تھا شاید وہ کچھ کرسکتا ھے کیونکہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور آگ کو آگ مگر اس کے لیے انہیں اس کے پاس جاکر اسے قسم سے آزاد کرنا تھا
پیر صاحب اور شاہ لطیف دونوں جھولے والے درخت کے پاس چلے گئے
اور ثانیہ نے بند دروازہ باہر سے بجانا شروع کر دیا کچھ دیر کے بعد دروازہ خد ہی کھل گیا وہ جننات ایک دم سے بچے کے جسم سے نکلے اور اعجاز احمد کے جسم کو مسکن بنایا اور ننھا آصف ایک لمحے میں زمین پر گرا اس کا خون سارے کمرے میں پھیل گیا ثانیہ کی چیخے سارے گھر میں گونجنے لگی تھی اسکے قدم دروازے پر جیسے جم سے گئے تھے بے یقینی سے آصف کو دیکھے جارہی تھی

جب پیر صاحب درخت کے پاس گئے وہ وہی کھڑا تھا اور اسکی آنکھوں میں آنسوں تھے اب کیوں آئے ھے آپ جہاں جو ھونا تھا وہ ھوگیا میں کچھ نہیں کرسکا اور اس بات کا دکھ مجھے ہمیشہ رہے گا وہ چہرہ موڑ گیا
اور پیر صاحب بہت کچھ سمجھ گئے
تمہیں آزاد کرنے آئے ھیں ان جننات کو سبق سیکھانا ھے ہمیں علم ھوگیا ھے تم کون ھوں
پیر صاحب نے اسے قسم سے آزاد کیا اور وہ اسی پل غائب ھوگیا
(آصف کا خون کمرے میں گرنے سے سارے حصار ٹوٹ گئے تھے )ثانیہ کی چیخے سن کر سب لوگ دوڑ کر کمرے میں آئے لیکن کمرے کا حال دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار تھی ثانیہ اپنے بھائی کے پاس بیٹی اسکو ہلا رہی تھی اس کے ہاتھ اٹھا کر اپنے منہ پر لگا رہی تھی ثانیہ اس وقت کتنی عزیئت میں تھی اس کا اندازا کرنا مشکل تھا وہ چیخ رہی تھی رو رہی تھی کیونکہ اس نے جان لیا تھا آصف اب نہیں رہا لیکن یہ کیا اعجاز احمد کے بھی منہ ناک اور کانوں سے خون نکل رہا تھا ان جننات نے انہیں بھی مار ڈالا تھا ثانیہ بابا بابا پکارتی آکر اپنے بابا کہ اوپر گری اور جھول گئی اسے اٹھا کر ساتھ والے کمرے میں لے گئے سب جانتے تھے اس بچی نے چھوٹی سی عمر میں بہت بڑی قیامت دیکھی ھے ایسا لگتا تھا اک قیامت آ کے گزر گئی ھو ننھا آصف اور اعجاز احمد اب نہیں رھے تھے وہ گھر اب گھر نہیں لگ رہا تھا ہر طرف بین اور آھو پکا تھی۔

اعجاز احمد کے کمرے کا دروازا ایک بار پھر بند ھوچکا تھا اب کی بار کمرے سے بہت سی خوفناک آوازیں آتی رہی مگر اب سب جانتے تھے اندر کوئی نہیں ہے بس پیر صاحب جانتے تھے وہ اندر ہی ھے وہ پرندہ وہ محافظ جو اپنی جان کی فکر کئے بنا ثانیہ کے دشمنوں سے لڑرہا تھا۔
روقیہ بیگم کو بھی شہر کے ھاسپیٹل پہنچا دیا گیا تھا جہاں ان کا علاج چل رہا تھا۔
پیر صاحب اور شاہ لطیف جانتے تھے کہ کہانی ابھی ختم نہیں ھوئی ثانیہ تو محفوظ تھی اسکا محافظ اس کے ساتھ تھا
مگر روقیہ بیگم کا کچھ کہہ نہیں سکتے تھے پیر صاحب نے ثانیہ کے دادا جی کو بلا کر انہیں بتایا کہ وہ لوگ ابھی بھی خطرے میں ھے دادا جان اپنے بیٹے اور پوتے کو کھو چکے تھے اب اپنی پوتی اور بہو کو نہیں کھونا چھاپتے تھے دادا جی نے کہا آپ جو کر سکتے ھے کرے ہمیں بھی بتائے کہ ہمیں آگے کیا کرنا ھے تو پیر صاحب بولے سب سے پہلے یہ حفاظتی تعویز اپنی بہو تک پہنچا دے اس کے گلے میں ڈال دے یہ بہت ضروری ھے باقی سارا کام
کفن دفن کے بعد دیکھے گے

پھر آصف اور اعجاز احمد کو غسل وکفن دیا گیا اور میتیں صحن میں رکھی گئی دادی جان تو رو رو کر ادھمری ھوچکی تھی ثانیہ کو ھوش میں لانے کی کسی میں ہمت نہ ھو رہی تھی سب یہی سوچ رھے تھے اسے کیسے سنبھالے گے کیسے دلاسا دینگے
ایک 13 سال کی معصوم سی بچی اور چہرے پر اتنی عزیئتیں رقم تھی اسکی گوری شفاف رنگت پیلی پڑ چکی تھی نیلی آنکھوں کے ارد گرد آنسوؤں کے نشان تھے سیاہ بال بکھرے ہوئے تھے وہ اس کے پاس آیا اور ھولے سے دل میں عہد کیا آج سے تمہارے دشمن میرے دشمن ھے ثانی جو دکھ تمہیں ملنے تھے مل چکے اب میں کوئی دکھ تم تک پہنچنے ہی نہیں دونگا اس نے ہلکے سے اس کے چہرے کو چھوا ثانی اٹھو اپنے بابا اور بھائی کا آخری دیدار کر لو ثانیہ کو ایک جھٹکا لگا اس نے آنکھیں کھولیں تو سامنے علی کھڑا تھا گڑیا آؤ دادو بلا رہی ھے علی بھائی یہ سب کیا ھو گیا ھے آپ کہہ دو نہ یہ سب خواب ھے کوئی بھیانک خواب گڑیا کاش میں یہ کہہ پاتا کے یہ خواب ھے علی نے یہ کہہ کر بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا اور ثانیہ رو دی علی اسے سمبھال کر باہر لے آیا اور اپنی امی کو آواز دی تو وہ اپنے ساتھ ثانیہ کو سحن میں لے گئی جہاں ہر طرف سے رونے کی آوازیں آرہی تھی ثانیہ کا دل ڈوب کر ابھر رہا تھا اسے اپنی ماں کی فکر ھو رہی تھی امی کیسے دیکھے گی آصف کی یہ حالت پھر اس تائی سے امی کا پوچھا تو انہوں نے اسے سب سچ بتا دیا اور اس نے بھی اور کوئی بات نہیں کی بس جاکر ان دو مئیتوں کے پاس بیٹھ گئی سب آکر اسے گلے لگا رھے تھے اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رھے تھے اسے کچھ خبر نہیں تھی بس اسے اتنی خبر تھی کہ اسکا گھر اجڑ گیا جو اب پہلے کی طرح کبھی آباد نہیں ھوگا نہ اسکے بابا آئنگے نا آصف۔ اور امی ناجانے کس حال میں ھے اسے لگ رہا تھا وہ بلکل اکیلی ھوگئی ھے لیکن کوئی تھا جو ہر لمحہ ہر پل اس کے ساتھ رہنے کی قسم کھا چکا تھا مگر ثانیہ اس سب سے انجان اپنے غم میں ڈوبی ہوئی تھی جب میتوں کو تدفین کے لیے لے جانے لگے تو ثانیہ کو لگا اب اسکی سانس بھی ٹوٹ جائے گی مگر کہاں وہ بابا بابا روتی کرلاتی رہی اور لوگ اسکے جان سے پیارے بھائی اور بابا کو تدفین کے لیے لے گئےتائی چچی اور دادو نے اسے سمبھالا دادو نے سینے سے لگا کہ کہا

پتر تیرا او پئو سی تے میرے وی جگر دا ٹکرا سی سمبھال پتر اپنے آپ نوں اللہ دی مرضی ہی اینج سی اوندھی شے سی اس ہی واپس لے لئی
تدفین کے بعد باقی سب لوگ گھروں کو چلے گئے
دادی جان ثانیہ کو اس کے کمرے میں لے گئی اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر سر سہلانے لگی اور ثانیہ سے باتیں کرتی رہی کچھ ہی دیر بعد ثانیہ سو گئی دادی نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور وہی تسبیح لےکر بیٹھ گئی
سب لوگ جا چکے تھے بس ثانیہ کے دادا دادی اور تایا تائی رکے لائبہ اور علی بھی رک گئے اور چچا چچی چلے گئے کیونکہ انہیں روقیہ بیگم کو بھی دیکھنے جانا تھا
شام کو سب نے ایک دوسرے کو تھوڑا بہت کھانا کھلایا تائی امی نے لائبہ سے کہا ثانیہ کو بھی کچھ کھلا دو پتہ نہیں کب سے بھوکھی ھوگی تو علی اور لائبہ کھانا لے کر ثانیہ کے پیچھے گئے مگر وہ اپنے کمرے میں نہیں تھی.
ثانیہ سامان پیک کرکے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی تھی ۔
اور اسے ایسے بیٹھے پتہ نہیں کتنا وقت گزر گیا تھا اسے خد نہیں معلوم تھا چہرے پر آنسوؤں کے نشان تھے شاید وہ رو بھی رہی تھی مگر اسے ھوش کہا تھی وہ تو دور کہی اپنے ماضی میں کھوئی ہوئی تھی

لائبہ نے اسے ایسے بیٹھے دیکھا تو گھبرا گئی ثانیہ کیا ھوا تم ایسے کیوں رو رہی ھو اور کب سے ایسے بیٹھی ہوئی ھو؟
اس نے ثانیہ کو زور سے ہلایا تو جیسے ثانیہ کو ھوش آیا
ہمم۔۔ ثانیہ کہ منہ سے بے ساختہ نکلا تو لائبہ نے پوچھا کیا ھوا۔ اور پھر جیسے اسکی حالت کو دیکھتے ہوئے سمجھ گئی اور کہنے لگی کیوں اتنی عزیئت دیتی ھو خد کو ۔
یہ سب تو زندگی بھر کے لئے اب میرے ساتھ ہی ھے میں چاہ کر بھی نہیں بھولا سکتی وہ سب کچھ جو میرے ساتھ ھوا ھے ثانیہ نے بولتے ہوئے اک آہ بھری اور اپنا چہرہ صاف کیا تو اسے آذان کی آواز سنائی دی وہ اتنا وقت ایسے بیٹھی رہی اب ظہر کا وقت ھوگیا تھا وہ اٹھی لائبہ آپکو مجھ سے کوئی کام تھا کیا۔
نہیں کام تو نہیں تھا میں بس یہاں سے گزر رہی تھی تمہیں ایسے بیٹھے دیکھا تو اندر چلی آئی اور ہاں وہ تمہارا سلطان پنجرے میں پھڑپھڑا رہا تھا شاید تم نے اسے آج دانہ پانی نہیں ڈالا۔
اوہ میں بھول گئ
اچھا میں وضو کرنے جارہی ھو ابھی اسے بھی دیکھ لیتی ھوں۔
میں نے کچھ بکس رکھنی تھی اپنے بیگ میں وہ رکھ لو کہتی ھوئی لائبہ بھی کمرے سے نکل گئی تو
ثانیہ نے وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے لگی یا اللہ میری امی جان کو ٹھیک کردو پچھلے پانچ سال سے ہر روز وہ ایک یہی دعا مانگتی آئی تھی روتے ہوئے ثانیہ اپنے اللہ سے اپنے لئے صبر اور بابا کے درجات کی بلندی کی دعا کرنے لگی اسے پھر سے آصف کی یاد آ نے لگی تھی وہ اپنے بھائی سے بہت پیار کرتی تھی اسکی چھوٹی چھوٹی باتیں اسکی شرارتیں وہ دونوں مل کر جھولا جھولنے جاتے تھے اور سلطان کو دیکھ کر اکثر وہ کہتا تھا دل کرتا ہے اسے پکڑ لو کتنا پیارا ہے یہ

اسے یاد آیا سلطان کو دانہ ڈالنا تھا وہ اٹھی جائے نماز اٹھا کر الماری میں رکھی اور کمرے سے نکل کر باہر لان میں آ ئی تو اس نے سلطان کو بہت بے چین دیکھا وہ شرمندہ سی ھوئی اور سلطان کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی کیونکہ اس نے کل سے سلطان کو نا دانہ ڈالا تھا نہ اس سے کوئی بات کی تھی ورنہ تو وہ ہر روز اسے تین ٹائم وقت سے دانہ پانی ڈال دیتی تھی اور اس سے باتیں بھی کرتی تھی اور اسے لگتا تھا سلطان اسکی باتیں سنتا ھے اور سمجھتا بھی ھے "سوری سلطان"ثانیہ نے افسردگی سے کہا اور تازہ پانی اس کے برتن میں ڈالا اور ساتھ پڑے چھوٹے برتن میں دانے رکھے اور بڑے غور سے اسے دیکھنے لگی اسے اس خوبصورت پرندے سے بہت لگاؤ ھوگیا تھا وہ جب بھی پریشان یا دکھی ھوتی تھی تو سلطان سے بات کرتی تھی اب بھی وہ سلطان کو بتا رہی تھی کہ وہ آج گاؤں جانے والے ھیں اور سلطان نے کھانا کھانا چھوڑ دیا تھا۔ جیسے اسکی بات غور سے سن رہا ھو تم جاؤگے میرے ساتھ ثانیہ نے جیسے پوچھا تھا اس سے تو سلطان اپنی مخصوص آواز میں چہچہایا جیسے کہہ رہا ھو ہاں مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ تمہیں تو اپنے ساتھ ہی لے جاؤنگی ورنہ میں وہاں دل کی باتیں کس سے کرونگی یہ کہہ کر ثانیہ ہلکا سا مسکرائی ایسا لگا جیسے پت جھڑ میں پھول کھل گئے ھو کسی کی نظر ثانیہ پر ٹہر سی گئی اور ان نظروں نے اس اک پل کی مسکراہٹ کو آنکھوں میں قید کر لیا تھا اتنے میں صحن سے علی کی آواز آئی سب تیار ھو نا علی کی آواز سنتے ہی ثانیہ بھی صحن میں آگئی اپنا اپنا سامان لئے سب وہی موجود تھے وہ بھی کمرے سے اپنا سامان لینے چلی گئی جب وہ باہر آئی سب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے علی نے ثانیہ سے اسکا بیگ لیا تو ثانیہ لان سے سلطان کا پنجرہ بھی اٹھا لائی عبداللہ مسکرایا اب یہ جناب بھی ساتھ جائے گے مطلب وہاں بھی ہمیں کوئی منہ نہیں لگائے گا علی نے عبداللہ کو غورا وہ ہستا ھوا گاڑی میں بیٹھ گیا تو ثانیہ بھی گاڑی میں بیٹھ گئی دادو نے ثانیہ نے کہا
" پتر اپنا خیال رکھی "

تو وہ ھولے سے مسکرائی جی دادو آپ بھی اپنا خیال رکھنا دوائی ٹائم سے لینا ابھی اسکی بات پوری بھی نہیں ھوئی تھی کہ گاڑی گاؤں کی طرف جانے والے راستوں پر دوڑ پڑی۔
ثانیہ نے ایک نظر سلطان کو دیکھا جو اسکے سامنے اپنے پنجرے میں فرنٹ پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا ثانیہ نے آنکھیں بند کی اور سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا لی.
اور ایک بار پھر ماضی اس کی سوچو پر حاوی ھو گیا تھا
۔
۔
سب لوگ ایک کھلے ھال کمرے میں پیر صاحب کے پاس بیٹھے تھے
ثانیہ کی آنکھ ایک دم سے کھلی وہ کمرے میں اکیلی تھی اس کا دل بہت گھبرایا تو وہ چھت پر آگئی شام کا وقت تھا کچھ دیر ایسے ہی بیٹھی رہی اچانک ہی اس کی نظر اپنی چھت کے ایک کونے پر پڑی وہاں و ہی خوبصورت پرندہ بیٹھا تھا جس کا نام پیار سے اس نے سلطان رکھا ھوا تھا ثانیہ کو لگتا تھا اس کے پورے گاؤں میں سلطان جیسا کوئی پرندہ نہیں ہے وہ بہت پیارا تھا اور ثانیہ بچپن سے اسے دیکھتی آئی تھی وہ روز اسے دیکھتی تھی کبھی اپنی چھت پر تو کبھی اس درخت پر جس پر جھولا لگا تھا ثانیہ کو جولا جھولنا بہت پسند تھا اور اسے پتہ ھوتا تھا وہاں سلطان بھی ھوگا تو وہ اکثر اس کے لئے دانہ لے جاتی تھی۔

ثانیہ کو ایسا لگا جیسے وہ پرندہ بھی اس کے غم میں شریک ہونے آیا ھو وہ اٹھی اور اس کے پاس چلی گئی اتنے عرصے میں آج پہلی بار ثانیہ نے اس پرندے کو چھوا تھا اسکے پروں کو سہلایا تھا وہ پرندہ اڑا نہیں گردن جھکا کے پر سکون ھوگیا جیسے اسے بھی ثانیہ کا اسکو سہلانا اچھا لگا ھو ثانیہ کچھ دیر تو یونہی کھڑی رہی مگر پھر اسکی آنکھیں بھر آئیں شاید بابا اور بھائی کی باتیں یاد آ رہی تھی اور ثانیہ پھر سے اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئی اور وہ پرندہ بھی ایک بہت پردرد آواز نکال کر اڑ گیا اتنے میں علی اور لائبہ بھی چھت پر آگئے اور آکر ثانیہ کے پاس بیٹھ گئے ایک ٹرے میں کھانا بھی لے آئے
لائبہ اسے سمجھا رہی تھی کہ ان کی زندگی اتنی ہی تھی اللہ کی مرضی ایسے ہی تھی تم کچھ کھالو پلیز ۔
ثانیہ منہ دوسری طرف موڑ گئی تو علی نے کہا اچھا نہ کھاؤ پر اپنی امی کے بارے میں تو سوچو انکا خیال تم نے ہی تو رکھنا ھے اپنا خیال خد نہیں رکھوگی تو ان کو کیسے سمبھال پاؤگی بتاؤ گڑیا
ثانیہ نے ایک نظر علی کی طرف دیکھا اور ٹرے اٹھالی دو نوالے زہر مار کیئے اورکچھ دیر بعد وہ ان کے ساتھ ہی نیچے آگئی تھی
پیر صاحب نے ثانیہ کو بلوایا تھا تو ثانیہ ھال کمرے میں پہنچی پیر صاحب نے اسے اپنے پاس بیٹھایا اورکہا بیٹا اب ہمیں اجازت دیں بیٹا ہم آپ سے بہت شرمندہ ہیں ہم چاہ کر بھی آپ کے بابا اور بھائی کو نہیں بچا پائے بیٹے یہ سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ھوتا ھے زندگی موت کا فیصلہ وہی پاک زات کرتی ھیں ہم انسان تو کوشش ہی کرسکتے ھیں باقی اختیارات تو اسی کے پاس ھیں
اللہ آپکے نصیب اچھے کرے اور آپکی امی کو صحت والی زندگی عطاء فرمائے آمین
ابھی پیر صاحب اپنی بات مکمل ہی کر رہے تھے شاہ لطیف نے انہیں دوسرے کمرے میں آنے کا اشارہ کیا وہ کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ مڑ کر دروازے پر نگاہ پڑی
ایک خوبصورت نوجوان جو کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا دراز قد روشن چہرا بکھرے بال چمکدار آنکھیں اسنے کمرے میں داخل ھوتے ہی سلام کیا
پیر صاحب نے سلام کا جواب دیا
آپ جارہے ھیں مختصر سا سوال
ہاں اب یہاں رک کر اور کیا کرنا
آپ جانتے ھیں اب اگلا وار وہ آپ پر کریگا
زرا سمنبھل کر رہنا آپ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا
جانتا ھوں برخوردار اور اب تو تمہیں بھی کچھ کچھ جان چکا ھوں
یہ تو بہت اچھی بات ہے اس نے سر جھکاتے ہوئے کہا
تم ثانیہ کا خیال رکھنا میں اسی لئے جارہا ھوں کیونکہ مجھے پتہ ھے تم اسکی حفاظت کروگے اور مجھ سے بہتر کروگے
پیر صاحب کی بات پر وہ ایک بار پھر مسکرایا اور بولا
اس کے لیے مجھے اس کے ساتھ رہنا ھوگا آپ اسے شہر بھیج رہے ہیں اور میرے پاس ابھی اتنی طاقت نہیں کے میں اس کے پیچھے جاسکوں
آپ یہ بھی جانتے ھونگے مجھ سے میری طاقتیں کچھ وقت کے لیے چھین لی گئی ہیں میں جب تک اس کے ساتھ ھو۔ں اسکی حفاظت میری زماداری ھے یہ کہہ کر وہ پھر پرندہ بن کر اڑ گیا

ہمم پیر صاحب کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر کمرے سے باہر چلے آئے
وہ جننات کے ایک طاقتور قبیلے حنون کے سردار کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا آزر شاہ تھا اس کے ماں باپ کو دشمن قبیلے نے مروا دیا تھا کیونکہ ان کے پاس بہت طاقتیں تھی ان کی طاقتوں کو چھیننے کے لئے یہ سب کیا گیا مگر انکے قبیلے کی رسم کے مطابق ساری طاقتوں کا وارث سردار کا بیٹا تھا جس کا بہت سے جننات کو علم ہی نہیں تھا
۔
آزر طاقتوں سے بھر پور نوجوان جن تھا اپنے ماں باپ کے بے گناہ قتل کئے جانے پر آپے سے باہر ھوگیا اور دشمن قبیلے کے بہت سے جننات کو مٹی میں ملا دیا
بہت کوشش کے بعد حنون قبیلے کے کچھ بزرگ جننات نے اسے سمبھالا اور آئندہ اس سے کسی کا بھی خون نہ بہانے کا عہد لیا گیا اور عہد کو توڑنے پر اسکی طاقتیں چھین لینے کی سزا دی گئی تھی بزرگ جننات کا کہنا تھا آزر حنون قبیلے کا اگلا سردار ھے اس لئے آزر میں ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنے کی صلاحیت ھونی چاہیئے اسے ابھی صرف آگاہ کیا گیا تھا ان سب باتوں سے
بہت عرصے تک تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہا مگر پھر جب اعجاز احمد اور آصف کو بے دردی سے مار دیا گیا تو آزر کے اندر ایک لاوا ابلنے لگا اسکے ماں باپ کا غم تازہ ھوگیا تھا اور ثانیہ کا ایک ایک آنسوں آزر کے دل پر گررہا تھا ان سب میں وہ اپنا عہد بھول بیٹھا اس نے ان جننات میں سے ایک کو بہت بری مات دی اور دوسرا بری طرح زخمی ہو گیا تھا اور اس سے اسی پل اسکی طاقتیں چھین لی گئی تھی اگر اسے کچھ پل کی اور محلت ملی ھوتی تو دوسرا بھی اپنے انجام کو پہنچ چکا ھوتا
پیر صاحب ھال کمرے میں داخل ھوئے سب ان کے انتظار میں بیٹھے تھے ثانیہ بھی وہی بیٹھی تھی پیر صاحب اپنی مخصوص جگہ پر آکر بیٹھ گئے اتنے میں باہر سے ایک پرندہ اڑتا ھوا ھال کمرے میں داخل ھوا اور پیر صاحب کے ھاتھ پر جا بیٹھا انھوں نے ایک چھوٹا پنجرہ منگوایا اس پرندے کو اس پنجرے میں بند کرکے ثانیہ سے مخاطب ھوے بیٹا یہ ہماری طرف سے تحفہ ہے اسے اپنے ساتھ رکھنا ثانیہ نے پہلے پیر صاحب کی طرف دیکھا اور پھر پنجرے میں قید اس پنچھی کو یہ تو سلطان ھے وہ سلطان کو پہچانتی تھی مگر پیر صاحب سے کوئی سوال نہیں کرسکی
اب سے یہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا میری طرف سے تحفہ سمجھو یا قدرت کا تحفہ ثانیہ نے پیر صاحب کو دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا اور پنجرا ان سے لے لیا انھوں نے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا کچھ دیر بعد ثانیہ ھال کمرے سے باہر نکل آئی اور اپنے کمرے میں چلی گئی پیر صاحب بھی اجازت لے کر رخصت ہوگئے شاہ لطیف بھی ان کے ساتھ ہی گھر کو چل دیئے رات بہت ھو چکی تھی سب لوگ سونے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تائی نے ثانیہ اور لائبہ کو بھی سونے کا بولا اور کمرے سے چلی گئی لائبہ تو کچھ دیر بعد ہی سو گئی تھی مگر ثانیہ کافی دیر تک جاگتی رہی مگر اب وہ کسی کی حفاظت میں تھی وہ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا
چچی نے ثانیہ کو ہلایا بیٹا اٹھ جاؤ وہ سوئی ھوئی نہیں تھی ایک بار کے اٹھانے پر ہی اس نے آنکھیں کھول دی اور دیکھا سب گاڑی سے باہر نکل رہے ھے اس نے چچی سے پوچھا گاؤں آگیا نہیں بیٹا ابھی گاؤں نہیں آیا ہم سب نے سوچا جہاں ھوٹل سے چائے پی لیتے ھیں سفر بہت لمبا ھے میں تو تھک گئی بیٹھ بیٹھ کر چچی کہتے ھوئے گاڑی سے اترنے لگی تو وہ بھی گاڑی سے باہر نکل آئی

گاڑی ایک چھوٹے سے ھوٹل کے سامنے کھڑی تھی ہلکی ہلکی ھوا چل رہی تھی چائے کی خوشبو ھوا میں رچی ھوئی تھی چاند اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا ھوٹل سے کچھ دوری پر شاید کوئی قصبہ یا گاؤں تھا ثانیہ نے اپنے چاروں اطراف میں نظر دوڑائی اسے یہاں کا موسم اچھا لگ رہا تھا چچی نے اسے اپنی جانب کھینچا کیا کررہی ھو ثانیہ دھیان کہا ھے تمہارا پیچھے تو دیکھو گاڑیاں گزر رہی ہیں ثانیہ نے پیچھے دیکھا اور پھر ھوٹل کی طرف چل دی وہ بھی سب کے ساتھ ایک کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی۔

علی بھائی یہ جو پاس گاؤں نظر آرہا ھے نہ کہتے ھیں بہت خوبصورت ہے یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں بھی ھے اور اس گاؤں میں شہر جیسا ھوٹل بھی موجود ہے اور بہت ہی پیارا اور عالی شان ھوٹل ھے کیوں نا ہم وہاں بھی جائے عدیل نے بڑی تفصیل سے علی کو بتایا مگر علی نے مسکرا کر کہا عدیل ابھی تو وہاں نہیں جاسکتے ابھی سیدھا گاؤں جائے گے واپسی پر اس ھوٹل کو بھی دیکھ لیں گے عدیل منہ بنا کر رہ گیا۔ثانیہ چائے پی رہی تھی چائے کی خوشبو کہ ساتھ ساتھ ذائقہ بھی بہت اچھا تھا ثانیہ کو لگ رہا تھا جیسے مسلسل کوئی اسے دیکھے جا رہا ھو مگر ہر طرف دیکھنے پر بھی کوئی نظر نہیں آیا تو وہ سوچنے لگی کے یہ احساس اسے ہمیشہ ھوتا تھا شہر جانے سے پہلے بھی اور شہر جانے کے بعد بھی مگر آج یہ احساس کچھ زیادہ ہی تھا۔
وہ بڑا مسہور ھوکر اسے دیکھ رہا تھا آج اس نے کھلی ھوا میں سانس لیا تھا ثانیہ کے ہر دکھ ہر تکلیف میں ہمیشہ اس کے ساتھ سائے کی طرح رہنے والا ایک پل بھی نظر نہیں ہٹا پا رہا تھا ثانیہ کے ساتھ اس نے بھی یہ سزا 5 سال کاٹی تھی مگر اس سزا کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ چائے پی کر واپس سب گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی ایک بار پھر اپنی منزل کو چل پڑی۔
"ماضی" اعجاز احمد کے گھر سے نکلتے ہی شاہ لطیف نے پیر صاحب کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
جو کہنا چاہتے ھو کہو چپ کیوں ھوں پیر صاحب نے ان سے کہا۔ آپ نے اس بچی کو ایک طرح سے تو بچا لیا مگر۔۔۔۔
مگر کیا لطیف اپنی بات مکمل کرو
اگر کل کو اس بچی کو آزر سے کوئی خطرہ ھوا تو ؟
ھے تو وہ بھی ایک جن زاد ہی نہ ؟

وہ جننات ہمارے بس کے نہیں تھے ہم ان سے مقابلے میں ناکام رہے تھے اور ویسے بھی میں نے آزر کی آنکھوں میں سچائی کی چمک دیکھی ہے لطیف وہ ثانیہ کو کبھی کوئی تکلیف نہیں دے سکتا اللہ تعالیٰ نے آزر کو ہی ثانیہ کا محافظ بنا کر بیجھا ھے ورنہ ہم ثانیہ کو بھی نہ بچا پاتے آزر کی وجہ سے ہی ثانیہ آج زندہ ھے اللّٰہ کا شکر ہے تم آزر کے لئے ایسا نہ سوچو
پیر صاحب پھر بھی اگر کبھی ایسا ھوا تو ؟
تو اسے کیسے سنبھالنا ھے مجھے اچھے سے پتہ ھے
اور ابھی جو ہم سب کے لئے بہتر ہے وہی میں نے کیا ھے
شاہ لطیف بھی ان کی بات سمجھ گئے تھے اور مطمئن بھی ھوگئے تھے

"حال"
آغا صاحب کے تین بیٹے تھے اور تینوں شادی شدہ تھے اللہ تعالیٰ نے تینوں بیٹوں کو اولاد جیسی نعمت سے بھی نوازا ھوا تھا۔ بڑا بیٹا رحمٰن جن کے پاس دو بیٹے علی اور عبداللہ تھے اس سے چھوٹے ناظم صاحب کے پاس عدیل لائبہ فرحان اور مناہل چار بچے تھے اور سب سے چھوٹے تھے اعجاز احمد جن کی ایک بیٹی ثانیہ اور ایک بیٹا آصف دو بچے تھے
آغا صاحب کی صحت بہت خراب رہتی تھی انہیں دل کا مسلہ تھا جس کی وجہ سے بار بار شہر آنا جانا پڑتا تھا اوپر سے دادی جان کا بی پی بھی ٹھیک نہیں رہتا تھا اور گاؤں میں ابھی اتنی سہولتیں نہیں تھی کے گاؤں میں انکا علاج ھوپاتا اس لئے علی کے بابا نے ہی یہ فیصلہ کیا کے وہ اپنی زمینے بیچ کر شہر چلے جائے گے ناظم صاحب اور آغا صاحب بھی مان گئے تھے لیکن ثانیہ کے بابا نہیں مانے سب نے انہیں سمجھایا مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے کے اپنے گاؤں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا

رحمٰن صاحب اور ناظم صاحب نے اپنی اپنی زمینے بیچ دی اور اعجاز احمد نے اپنی زمین میں سے ایک حصہ رکھ کر باقی بیچ دی گھر کے حصے کے مطابق اپنی زمین کے پیسے بھائیوں کو دئے اور وہ سب لوگ شہر آگئے کیا پتہ تھا آغا صاحب کو کے جس بیٹے کی ضد کے آگے وہ ہار مان گئے تھے وہ بیٹا جو انہیں اپنی ساری اولاد میں سب سے زیادہ پیارا تھا اس کے گاؤں میں رہ جانے کی وجہ اس کی موت تھی اور اس کے گھر کی بربادی تھی جس نے انہیں وہاں روکے رکھا اگر آغا صاحب کو اس سب کا کچھ علم ھوتا تو اپنے بیٹے کو کبھی بھی تنِہا چھوڑ کر نہ آتے آغا صاحب ھاسپیٹل بہو کو دیکھنے آئے تھے اور اب بیٹے اور پوتے کی یاد نے انہیں تڑپا دیا تھا ویسے تو وہ روز ثانیہ کے ساتھ ہی آتے تھے اور جب بھی وہ ایسے پریشان ھوتے تھے تو ثانیہ انہیں کہتی تھی دادا جان موت تو برحق ھوتی ھے اور وہ کہیں بھی آسکتی ہے کیا گاؤں اور کیا شہر آپ کا یا کسی کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں بس اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی ہمیں تو ان کے لئے دعا کرنی چاہیے کے اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے آغا صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکلا آمین اور پھر اپنی بہو کی صحت کے لئے دعا مانگی روقیہ بیگم 5 سال سے کومہ میں تھی ڈاکٹروں کی بہت کوششوں کہ باوجود ابھی ان کی صحت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا آغا صاحب نے شفقت سے بہو کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اٹھ کر گھر کو چل دئے


گاڑی سیدھی اعجاز احمد کے گھر کے بڑے سے دروازے پر جاکر رکی سب سے پہلے علی اور عبداللہ گاڑی سے نکلے پھر باقی سب بھی باہر آگئے سب سے آخر پر ثانیہ گاڑی سے نکلی اور چل کر دروازے تک آئی اس کی آنکھوں میں پانی بھرآیا وہ آج پورے 5 سال بعد اپنے گھر آئی تھی ان سب سے پہلے ہی وہاں حاکم چچا دروازے کے باہر کھڑے تھے اور ان کے ہاتھوں میں اعجاز احمد کے گھر کی چابیاں تھی ثانیہ نے ان کو سلام کیا اور انھوں نے ثانیہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور چابیاں ثانیہ کے ہاتھ پر رکھ دی ثانیہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ثانیہ اندر چلتی گئی بنا کسی ڈر بنا کسی خوف کے حاکم چچا بھی اس کے پیچھے گئے اور سارے گھر کی لائٹس جلائی علی گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی گھر کے اندر لے گیا باقی سب گھر اندر انٹر ھوچکے تھے ثانیہ کچھ دیر یونہی کھڑی گھر کو دیکھتی رہی پھر سلطان کا پنجرہ اٹھایا اور اپنے پرانے کمرے کی جانب قدم بڑھائے لائبہ بھی اس کے پیچھے ھولی لائبہ کو دادی جان نے خاص ثانیہ کے ساتھ ہر وقت رہنےکو کہا تھا وہ دونوں کمرے میں داخل ھوئی کمرہ کسی بھینی بھینی خوشبو سے مہک رہا تھا اور صاف صفائی سے ایسا لگتا تھا جیسے اس میں کوئی رہتا ھو ہر چیز صاف شفاف تھی اور کمرے کی ہر چیز ویسے ہی پڑی تھی جیسے پانچ سال پہلے رکھی گئی تھی ثانیہ نے سلطان کا پنجرہ ایک سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بید پر لیٹ گئی سفر بہت لمبا تھا وہ بہت تھک گئی تھی اور اس سفر سے بھی لمبی گزرے وقت کی یادوں کی مسافت تھی جو وہ اس سفر میں کرتی آئی تھی باقی سب بھی بہت تھک گئے تھے اور رات بھی بہت ھو چکی تھی تو سب ہی اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے لائبہ فریش ھوکر روم میں آئی تو ثانیہ بیڈ پر پرسکون لیٹی ہوئی تھی لائبہ بھی أکر اس کے ساتھ لیٹ گئی پہلے تو لائبہ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی اور پھر کچھ دیر بعد دونوں گہری نیند سوگئ۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں 

جنات کی دشمنی اردو کہانی - پارٹ 3

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,ج, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے