عشق کا قاف (قسط نمبر 11)

 ishq ka qaaf novel pdf download

عشق کا قاف (قسط نمبر 11)

دن کے گیارہ بجے تھے جب طاہر، ملک بلال اور اس کے چند ملازم بابا شاہ مقیم کے مزار کے باہر پجارو سے اتری۔
اگر دس پندرہ منٹ پہلے آتے تو وہ حافظ عبداللہ، سکینہ اور باقی سب لوگوں سے بھی مل لیتے۔ نکاح کے فوراً بعد جو درویش مزار کے اندر گیا تو پھر باہر نہ آیا۔ وہ کچھ دیر اس کا انتظار کرتے رہی۔ پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ جلد باہر نہ آئے گا تو باہم مشورے سے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ طے یہ ہوا کہ سب لوگ پہلے نور پور چلیں۔ وہاں چوہدری حسن دین کے ہاں قیام کیا جائے۔ آج کا باقی دن اور آنے والی رات وہاں گزاری جائے۔ اگلے دن وہ سکینہ کو ساتھ لے کر سائیاں والے کو لوٹ جائیں گے۔ دو دن بعد چوہدری حسن دین سکینہ کو باقاعدہ جا کر سائیاں والا سے واپس نور پور لے آئے گا۔
تانگے میں وہ سب لوگ کسی نہ کسی طرح پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے اور ایک چھوٹی سی بارات کی شکل میں نور پور کی طرف روانہ ہو گئی۔
برگد تلے بچھی دریاں دیکھ کر ملک بلال نے آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا کیا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دونوں کمرے دیکھے۔ کوئی نہ ملا تو وہ سب مزار کی طرف چلے۔
مزار کے باہر رک کر طاہر نے کھسہ اتارا۔ پھر کرتے کی جیب سے رومال نکال کر سر پر باندھا۔ ملک نے اپنی ٹوپی سر پردرست کی۔ ملازموں نے تب تک گاڑی سے اجناس کی دو بوریاں اور مٹھائی کا ٹوکرا اتار لیا تھا۔ مزار کا دروازہ اندر سے بند پا کر وہ رک گئے۔ پھر اس سے پہلے کہ ملک کچھ کہتا، ایک دم دروازہ کھلا اور درویش ان کے سامنے آ گیا۔
" آ گیا پگلے۔ " اس نے اپنی چمکدار آنکھوں سے طاہر کی جانب دیکھا۔
طاہر، جیسے مسحور ہو گیا۔ اس کی زبان سے کچھ نکلا نہ ہونٹ ہلے۔ وہ تو بُت بنا درویش کی آنکھوں میں گم ہو گیا تھا۔
"بابا۔ " ملک نے کہنا چاہا۔ " یہ میرے چھوٹے مالک۔۔۔ "
"جانتا ہوں۔ " درویش نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید بولنے سے روک دیا۔ "تو یہیں رک ابھی۔ اور تو آ جا میرے ساتھ۔ " اس نے طاہر کا ہاتھ تھام کر اسے اندر کھینچ لیا۔ دروازہ پھر بند ہو گیا۔ ملک اور باقی سب لوگ منہ پھاڑے رہ گئے مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ کہتا یا اندر جانے کی کوشش کرتا۔
طاہر اپنے حواس سے بیگانہ، کسی بے وزن شے کی طرح درویش کے ساتھ کھنچا چلا جا رہا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ہی لفظ ریت اڑا رہا تھا۔ "پگلے۔ پگلے۔ پگلے۔ "
درویش اسے لئے ہوئے بابا شاہ مقیم کے سرہانے اسی جگہ آ رکا، جہاں حافظ عبداللہ بیٹھا کرتا تھا۔
"بیٹھ جا۔ " درویش نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
طاہر کسی معمول کی طرح اس کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا اور کھوئی کھوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
"بابا کو سلام کر لے۔ " پیار سے درویش نے کہا تو وہ چونکا۔ حواس میں آ گیا۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے بابا شاہ مقیم کے مزار کی جانب نظر جمائی اور سلام کیا پھر دعا میں محو ہو گیا۔ چند منٹ بعد آمین کہتے ہوئے اس نے ہاتھ چہرے پر پھیرے اور درویش کی جانب متوجہ ہوا جو سر جھکائے، آنکھیں بند کئے جیسے مراقبے میں گم تھا۔
طاہر کا جی چاہا، اس پُرسکون چہرے کو دیکھتا رہی۔ اسے درویش کے چہرے میں عجیب سا سحر دکھائی دے رہا تھا۔ دل کو مٹھی میں لے کر دھیرے دھیرے مسلنے والا سحر۔ جس کی لذت دل کو درد سہنے پر اکسائی۔ رگ و پے میں سرور بن کر تیر جانے والا درد۔ اس کا دل ہولے ہولے جیسے آہیں بھرنے لگا۔ وہ اس کیفیت میں ڈوب جانے کو تھا کہ درویش کی آواز نے اس کی سماعت میں خوشبو اتار دی۔
"عشق کا جام ہونٹوں تک نہیں پہنچا۔ یہی دُکھ لئے پھر تا ہے ناں تو؟" آہستہ سے درویش نے سر اٹھایا اور آنکھیں کھول دیں۔
طاہران سرخ سرخ ڈوروں سے لبریز آنکھوں کی چمک سے خیرہ ہو گیا۔ اس کے ہونٹ کانپی، آواز نہ نکلی۔ نظر میں غبار سا پھیل گیا۔ درویش کا دمکتا چہرہ اس کی بصارت کے حلقے میں دھندلا گیا۔
"کوئی اَن چھُوا تجھے چاہے، یہی تمنا تجھے کُو بکو خوار کرتی پھر تی ہے ناں اب تک۔ "
"بابا۔ " بمشکل طاہر کے لبوں سے نکلا اور اس سرگوشی کے بعد وہ بے زبان ہو گیا۔ کوشش کے باوجود کچھ اور نہ کہہ سکا۔ حلق میں اُگتے کانٹوں کا درد پیاس میں شدت پیدا کرتا چلا گیا۔
"پگلا ہے تو۔ " درویش اس کی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا۔ " شرط لگا رکھی ہے کہ اس سے عشق کرے گا جو پہلے تجھ سے عشق کرے، جو پہلے تجھے چاہے۔ جس نے تجھ سے پہلے کسی کو نہ چاہا ہو۔ اَن چھوا ہو۔ جس کے خیالوں میں سب سے پہلے تیرا عکس ابھرا ہو۔ تو خود کسی کے لئے ایساکیوں نہیں بن جاتا۔ اَن چھوا۔ سب سے پہلا تصور۔ سب سے پہلا خیال۔ سب سے پہلا عکس۔ "
طاہر بے جان بُت کی طرح سن رہا تھا۔ سمجھ رہا تھا۔ بولنے سے معذور نہیں تھا۔ بولنا نہیں چاہتا تھا۔ صرف سننا چاہتا تھا۔ اس پر ادراک کے در وَا ہو رہے تھے۔ پرت کھل رہے تھے۔ حقیقتیں بے نقاب ہو رہی تھیں۔ اس بے حجابی میں ایک اور ہی لطف تھا۔ ایک اور ہی مزا تھا جو اس کو بے صدا کئے ہوئے تھا۔
"عشق شرطوں سے نہیں کیا جاتا۔ عشق تو اس سے بھی ہو جاتا ہے جو ہر رات کسی نئے مرد کا بستر بنتی ہے مگر جو اس پر عاشق ہوتا ہے، اسے صرف وہ نظر آتی ہے، اس کے گاہک نظر نہیں آتے۔ وہ بستر بھی نظر نہیں آتا جس پر پڑی سلوٹیں شمار نہیں ہو پاتیں۔ اس کے لئے تو وہ اَن چھوئی ہو جاتی ہے۔ عشق، اسے ایسا بینا کرتا ہے کہ اس کے سوا سب کچھ دِکھنا ختم ہو جاتا ہے۔ جانتا ہے کیوں ؟"
درویش رکا۔ طاہر کی آنکھوں میں سوال ابھرا، زبان نہ ہلی۔ تب جواب نے پر کھولے۔
"اس لئے کہ عشق کا پہلا حرف عین، عاشقِ صادق پر نازل ہو جاتا ہے۔ عین، عبادت۔ عشق کا پہلا حرف عین، عبادت سے منور ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ عجز۔ عبودیت۔ عشق کا بندہ عاجز ہو جاتا ہے۔ عجز نہ ہو تو عبادت نہیں ہو سکتی۔ عجز نہ ہوتا تو عشق کا پہلا حرف نہ ہوتا۔ وہ جو سب سے پہلا عشق کرنے والا ہے ناں۔ " درویش نے شہادت کی انگلی چھت کی طرف اٹھا دی۔ " اس نے جب آدم میں عشق کا عین ودیعت کیا تو ایک ایسی صفت کی شکل میں کیا، جسے اس نے اپنے لئے ممنوع قرار دے دیا۔ عجز۔ عبودیت۔ یہ آدم کے خمیر میں ڈالا۔ خود تکبر کے تخت پر بیٹھا اور استکبار کو آدم کے لئے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا۔ آدم کو بندہ، بنایا۔ اسے عبد کیا۔ اپنا عبد۔ عبداللہ۔ عین، عشق کا پہلا حرف۔ عبد میں عجز ہو گا تو وہ عبادت کے لئے عبودیت کے مرتبے پر فائز ہو گا اور عبادت جب عجز سے عبارت ہوتی ہے تو عشق کا پہلا حرف سمجھ میں آتا ہے پگلی۔ عبادت کر۔ عجز میں ڈوب کر۔ جیسے۔۔۔ "
درویش خاموش ہو گیا۔
طاہر کا سانس سینے میں رک سا گیا۔ بیتابی نے اسے شدت سے جکڑ لیا۔
"کہتے رہئے بابا۔ " وہ نشے میں ڈوبی آواز میں بولا۔ اس نے پورا زور لگا دیا تب جا کر وہ یہ چند الفاظ کہہ پایا تھا۔ اسے لگا جیسے اس کی طاقت لڑکھڑا رہی ہو۔ بے خود ہو کر اپنا آپ چھوڑ گئی ہو۔
"جیسی۔۔۔ " درویش نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ " کسی کو چاند کے داغ دکھائی نہ دئیے۔ اپنا عجز یاد رہا۔ چاند کا گرہن نظر نہ آیا۔ اپنی عبادت کے آگے سب کچھ ہیچ لگا۔ یاد آیا کچھ؟"
طاہر کے دماغ میں ریگستان سا جاگا۔ تصور میں امبر اور قمر کے ہیولے ابھرے اور معدوم ہو گئے۔
"ہاں بابا۔ " وہ شرابیوں کے انداز میں جیسے کسی کنویں کی تہہ سے بولا۔ "یاد آگیا۔ "
"عشق کا پہلا حرف۔ عین عبادت۔ یاد رکھنا۔ عبادت میں عجز لازم ہے۔ عجز نہ ہو تو عبادت نہیں ہوتی۔ عجز نہ ہو تو انسان کو خود پر عبد کے بجائے معبود ہونے کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ اپنے آپ کو چاہنا تو اس متکبر کے لئے ہے اور بس۔ کسی اور کے لئے یہ روا نہیں ہے۔ اس نے اپنے نور کو خود چاہا۔ اپنے نور سے عشق کیا۔ اپنے نور کو اپنا حبیب بنایا۔ اپنا محبوب بنایا۔ پھر ساری مخلوق کو اپنے حبیب سے عشق کا حکم دیا۔ کہا، جو مجھے پانا چاہے، وہ میرے حبیب کو چاہے۔ جو اس تک جانا چاہے۔ اسے اس کے حبیب کا منظورِ نظر ہونا پڑتا ہے۔ اس وسیلے کے بغیر وہ ہاتھ نہیں آتا۔۔۔ اور جو اس کی" اپنے آپ کو چاہنے کی صفت " سے متصف ہونا چاہتا ہے ناں ، اس پر استکبار کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ تکبر سے جُڑتے ہی انسان مشرک ہو جاتا ہے۔ اور وہ کہتا ہے کہ اس کے ہاں ہر گناہ کی معافی ہے، شرک کی معافی نہیں ہے پگلی۔ "درویش نے اس کی جانب تنبیہ کے انداز میں انگلی اٹھائی۔
"بابا۔ " طاہر ساری جان سے لرز کر رہ گیا۔
"ہاں۔ " درویش نے سر ہلا کر کہا۔ " پگلا بن کر رہ۔ سیانا بننے میں جان کانٹوں پر گھسیٹی جاتی ہے۔ پگلے پن میں معافی مل جاتی ہے۔ آسانی پگلا بن کر رہنے میں ہے۔ سیانا وہ ہے جو چاہے جانے کی خواہش کا اسیر ہو جائے۔ پگلا وہ ہے جو کسی کو چاہنے لگے۔ عبد ہو جائے۔ ایک سیانا حافظ عبداللہ ہے جو چاہا گیا۔ ایک پگلی سکینہ ہے جس نے حافظ عبداللہ سے عشق کر لیا۔ اس کی عبادت میں محو ہو گئی۔ "
"بابا۔ عبد کی عبادت۔۔۔ ؟" طاہر نے حیرت سے کہا۔
"نہ نہ پگلے۔ " درویش نے کانپ کر کانوں کو چھوا۔ " عبادت تو صرف اس کی ہے جو معبود ہے۔ مگر مجاز میں خدائی بھی تو چھپا رکھی ہے اس نے۔ خود ہی تو کہتا ہے کہ اگر اپنے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورت اپنے مجازی خدا کو سجدہ کرتی۔ کہتا ہے کہ ماں کو ایک بار محبت سے دیکھنے کا ثواب بیٹے کو ایک حجِ مقبول کے برابر دیتا ہوں۔ عبادت نہیں کی، مگر کی ہے۔ حج نہیں کیا مگر ہو گیا۔ یہ استعارے ہیں۔ تشبیہیں ہیں۔ مثالیں ہیں۔ انہیں اسی طرح لینا چاہئے۔ عجز پیدا ہوتا ہے عبادت کی طرف رغبت سے۔ پگلی سکینہ نے حافظ عبداللہ کے سامنے عاجزی سے اقرار کیا کہ وہ اسے چاہتی ہے۔ سیانا حافظ عبداللہ اکڑ گیا کہ وہ اس کے قابل نہیں ہے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر اس سیانے کو سمجھایاکہ پگلا بن۔ سیانا نہ بن۔ اللہ کی نعمت کا کفران نہ کر۔ شکر ہے اسے سمجھ آ گئی۔ اب سکینہ کو رغبت کے لئے راستہ مل گیا۔ عبادت میں عجز کے لئے چن لیا اس نے حافظ عبداللہ کو۔ وہ اس کی خدمت کرے گی اور عبادت کا ثواب پائے گی۔ یہ ہے عشق کے عین کی حقیقت۔ "
"بابا۔ " طاہر کے اندر چراغ سے جل اٹھے۔
"اسی لئے کہتا ہوں تو پگلا ہے۔ " درویش نے اس کی جانب پیار سے دیکھا۔ "اتنی جلدی پگلے ہی بات سمجھ بھی لیتے ہیں اور مان بھی لیتے ہیں۔ "
"اور عشق کا دوسرا حرف۔۔۔ "
"شین کی بات کر رہا ہے۔ " درویش ہولے سے ہنسا۔ " ابھی نہیں۔ پہلے عین کو تو دیکھ لے۔ جان لے۔ "
"کیسے بابا؟" طاہر اتاولے پن سے بولا۔
"صبر پگلے۔ صبر۔ " درویش نے اس کے گال کو چھوا۔ "دکھائیں گے تجھی۔ چند دن ٹھہر جا۔ ابھی لوٹ جا۔ تیرے گھر میں بھی ایک پگلی ہے۔ ابھی اس کے پاس لوٹ جا۔ تجھے چند دن بعد دکھائیں گے کہ عین کے پرت کیسے کھلتے ہیں ؟"
"تب تک میرا کیا حال ہو جائے گا بابا؟" طاہر نے درویش کے دونوں ہاتھ تھام کر سینے سے لگا لئے۔ اس کا دل یوں دھک دھک کر رہا تھا جیسے کوئی دھان کوٹ رہا ہو۔
"اچھا ہے۔ " درویش نے مسکرا کر کہا۔ ایک اطمینان اس کی آنکھوں سے جھلکا۔ "بہت اچھا ہے۔ جوت جگ گئی ہے۔ اسے انتظار کی ہوا دے۔ اس الاؤ کو بھڑکنے دے۔ اس پر ہاتھ تاپ۔ اپنی آگ پر ہاتھ تاپنے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے پگلے۔ اپنے الاؤ پر ہاتھ تاپ۔ کباب ہونے سے پہلے کی سوندی سوندی خوشبو لے۔ اشتہا کو بڑھنے دے۔ خوب چمک جائے تو بھوک لذت دیتی ہے۔۔۔ لذت۔۔۔ " درویش نے سسکاری بھر کر آنکھیں بند کر لیں۔ " لذت سے عشق کا شین شروع ہوتا ہے پگلی۔ عشق کا شین۔۔۔ "
درویش ایک سلگتی ہوئی آہ بھر کر خاموش ہو گیا۔
طاہر کے سارے جسم میں پھریریاں سی چکر ا رہی تھیں۔ اسے لگ رہا تھا ابھی کے ابھی اس کے جسم میں پھلجھڑیاں چھوٹنے لگیں گی۔ وہ درویش کے چہرے میں گم ہو کر رہ گیا جہاں زردی چھا گئی تھی۔ سرسوں کے پھولوں جیسی۔ شفق کی ابتدا جیسی۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ تب آہستہ سے درویش نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اور بڑھ گئی تھی۔ طاہر اس سرخی کی لپک کو سہہ نہ سکا اور گھبرا کر نظر ہٹا لی۔
"ارے۔ میں تو بھول ہی گیا۔ " اچانک درویش کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر قبر کے تعویذ پر رکھے دو میں سے ایک گلاب جامن اٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر ہاتھ طاہر کی جانب دراز کر دیا۔ "لے۔ یہ تیرا حصہ ہے۔ "
طاہر نے بسم اللہ کہہ کر ایک گلاب جامن اٹھا لیا۔
"کھا لے۔ یہ بابے شاہ مقیم کا تبرک ہے جو سکینہ اور حافظ عبداللہ کے ایک ہو جانے کی خوشی میں تیرے لئے آیا رکھا ہے۔ "
طاہر نے آہستہ آہستہ گلاب جامن کھانا شروع کیا۔ اسے لگا، اس نے ایسی لذیذ مٹھائی آج سے پہلے کبھی نہیں کھائی۔ جوں جوں وہ گلاب جامن حلق سے اتارتا گیا، اس کے جسم میں تیرتی بے چینی دم توڑتی چلی گئی۔ اس کے رگ و پے میں ایک سکون اور صبر سا پر پھیلاتا چلا گیا۔
"اور یہ لے۔ اپنی پگلی کے لئے لے جا۔ یہ صرف اسی کو دینا۔ میں اپنا حصہ اسے بھجوا رہا ہوں۔ " درویش نے دوسرا گلاب جامن ایک کاغذ میں لپیٹ کر اسے تھما دیا۔ طاہر نے سر سے رومال کھولا۔ کاغذ اس میں رکھ کر گانٹھ ماری اور کرتے کی جیب میں ڈال لیا۔
"اب جا۔ باہر وہ بونے تیرا انتظار کر رہے ہیں۔ جا۔ اللہ تیرا اندر آباد رکھے۔ " درویش نے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے کہا۔
طاہر اٹھ کھڑا ہوا۔ قبر کے تعویذ کو پیروں کی طرف سے چھوا۔ درویش کی جانب جھکا تو اس نے ہاتھ اٹھایا اور اسے خم ہونے سے روک دیا۔
"یہ صرف اس کا حق ہے۔ " چھت کی جانب شہادت کی انگلی اٹھا کر مسکراتے ہوئے وہ بولا۔ " اس کے سوا کسی کے آگے سر جھکانا شرک ہے۔ "
سر اثبات میں ہلاتے ہوئے طاہر ایک دم سیدھا ہو گیا۔
"اللہ حافظ بابا۔ " اس نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر آنکھیں جھکائیں۔
"اللہ حافظ۔ " درویش نے ہاتھ کھڑا کیا۔
طاہر الٹے پاؤں باہر نکلا۔ چوکھٹ پر ایک پل کو رکا پھر دروازے پر چلا آیا۔ پٹ کھلے تو باہر بیتابی سے ٹہلتا ملک بلال نظر آیا۔
طاہر نے باہر قدم رکھا۔ مگر نہیں۔ یہ طاہر تو نہیں تھا۔ یہ اس کا چھوٹا مالک تو نہیں تھا۔ یہ تو کوئی اور تھا۔ کوئی اور۔۔۔ جس کے چہرے پر زردی اور آنکھوں میں آگ سی آباد تھی۔ طاہر کا چہرہ ایک عجیب سے جلال کے ہالے میں دمک رہا تھا۔ یہ کیسی زردی تھی جس پر سرخیاں نثار ہو رہی تھیں۔ یہ کیسی آگ تھی، جس میں خنکی کروٹیں لے رہی تھی۔
ملک بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ باقی کے ملازم بھی طاہر کی بدلی ہوئی حالت کو حیرت سے جانچ رہے تھے۔
"ملک۔ تم سب بھی سلام کر لو۔ میں گاڑی میں تم لوگوں کا انتظار کر رہا ہوں۔ " طاہر کہہ کر پجارو کی طرف بڑھ گیا۔
ملک نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کا حوصلہ نہ ہوا۔ آہستہ سے وہ ملازموں کی جانب مڑا۔ پھر انہیں اجناس کی بوریاں اور مٹھائی کا ٹوکرا اٹھا لانے کا کہتے ہوئے وہ مزار کی طرف چل دیا۔ اس کے آہستہ آہستہ اٹھتے ہوئے قدم اس کے کسی سوچ میں ڈوبے ہونے کے غماز تھے اور اس سوچ کا تعلق صرف اور صرف طاہر کی موجودہ حالت سے تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
"کیا بات ہے؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟" طاہر کمرے میں داخل ہوا تو صفیہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔
"ہاں۔ " طاہر مسکرایا۔ "کیا ہوا میری طبیعت کو۔ "
"ٹھیک نہیں لگتی۔ " وہ بیتابی سے اس کا ماتھا چھوتے ہوئے بولی۔ " رنگ دیکھئے کیسا زرد ہو رہا ہے اور جسم بھی تپ رہا ہے۔ " اس نے اس کے رخسار پر ہاتھ کی پشت رکھ دی۔
"ارے نہیں۔ تمہیں وہم ہو رہا ہے۔ " طاہر نے لاپروائی سے کہا۔ "میں بالکل ٹھیک ہوں۔ "
" آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ " صفیہ بے قرار ہو رہی تھی۔ اس کی آواز میں فکر عود کر آیا۔ "ٹھہرئیے۔ میں آپ کا ٹمپریچر چیک کرتی ہوں۔ ابھی پتہ چل جائے گا۔ "وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف لپکی۔ دراز کھولا۔ اس میں سے تھرمو اسٹک نکالی اور واپس اس کی طرف آ گئی۔ طاہر تب تک بیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔
صفیہ نے آتے ہی اسٹک اس کے ماتھے پر چپکا دی اور کسی ماہر نرس کی طرح رسٹ واچ پر ٹائم نوٹ کرنے لگی۔ طاہر نے اسے روکنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک تو اسے یاد آ گیا کہ بابا نے صفیہ کے بارے میں پگلی کا لفظ استعمال کیا تھا اور دوسرے اسے علم تھا کہ صفیہ اس کے بارے میں کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہیں لے گی۔ جب تک اس کا اطمینان نہ ہو جائے وہ اپنا کام جاری رکھے گی۔
"ارے۔ " ایک منٹ بعد اسٹک ہٹا کر جب اس نے اس پر ٹمپریچر چیک کیا تو حیرت بھری آواز اس کے لبوں سے نکلی۔ "یہ کیا؟"
"کیا ہوا؟" طاہر نے نیم دراز ہوتے ہوئے پوچھا۔
"ٹمپریچر تو نارمل ہے۔ " وہ سوچ میں ڈوب گئی۔ "مگرجسم اب بھی گرم ہے آپ کا۔ " اس نے دوبارہ اس کی گردن چھو کر دیکھی۔
"کہہ تو رہا ہوں ، میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ تمہیں وہم ہو رہا ہے۔ "
"ہو سکتا ہے یہ اسٹک خراب ہو گئی ہو۔ " وہ اب بھی یقین نہ کر رہی تھی۔ " میں بازار سے تھرمامیٹر منگواتی ہوں۔ " اس نے اسٹک تپائی پر ڈالی اور قالین پر اکڑوں بیٹھ کر طاہر کے پاؤں سے کھسہ اتارنے لگی۔ " آپ آرام سے لیٹ جائیں۔ میں آپ کے لئے کوئی ہلکی سی گولی اور چائے لے کر آتی ہوں۔ "
"پستول کی گولی کے بارے میں کیا خیال ہے؟" طاہر نے اسے ستانے کے انداز میں کہا۔
تڑپ کر صفیہ نے اس کی جانب دیکھا۔ پھر اس کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ پا کر اس کا چہرہ نارمل ہو گیا۔ "میں جانتی ہوں ، آپ مجھے ایسی باتوں سے دُکھ دے کر خوش ہوتے ہیں طاہر۔ لیکن پلیز، کچھ اور کہہ لیا کیجئے۔ مجھے تھپڑ مار لیا کیجئے، اپنے بارے میں ایسی بات نہ کہا کیجئے۔ " سر جھکا کر وہ اس کی جرابیں اتارتے ہوئے دھیرے سے بولی۔
"میں تو مذاق کر رہا تھا۔ " طاہر ہنس پڑا۔
"جانتی ہوں۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔ " آپ کا مذاق کسی دن میری جان لے لے گا۔ تب آپ کو یقین آئے گا کہ۔۔۔ " وہ خاموش ہو گئی۔ جرابیں اور کھسہ بیڈ کے نیچے سرکا کر اس نے طاہر کے پاؤں دونوں ہاتھوں سے سہلائے، پھر اس سے پہلے کہ طاہر کچھ سمجھ پاتا اس نے اس کے دونوں پیروں کو باری باری چوم لیا۔
"ارے ارے۔ " اس نے پاؤں کھینچ لئے۔ " یہ کیا دیوانگی ہے بھئی۔ " وہ گھبرا گیا۔
"عقیدت ہے یہ۔ " صفیہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔ " اس سے آپ مجھے کبھی مت روکئے گا طاہر۔ " وہ اٹھ گئی۔ "میں آپ کے لئے ڈسپرین اور چائے لاتی ہوں۔ "
"رکو۔ " طاہر نے اٹھتے ہوئے کہا۔ "اپنا تحفہ تو وصول کر لو۔ "
"یہ کیا ہے؟" طاہر نے جیب سے نکال کر رومال کا گولہ صفیہ کے ہاتھ پر رکھا تو اس نے اشتیاق سے پوچھا۔
"کھول کر دیکھو۔ " طاہر نے کہا۔
صفیہ نے رومال کی گانٹھ کھولی۔ اندر سے کاغذ میں لپٹا ہوا خوشبو دیتا گلاب جامن نکلا تو اس نے حیرت سے طاہر کی جانب دیکھا۔
"بابا شاہ مقیم کے دربار کا تبرک ہے۔ وہاں کے درویش بابا نے خاص طور پر تمہارے لئے بھیجا ہے۔ کہہ رہے تھے کہ یہ صرف تمہیں دوں۔ یہ ان کا اپنا حصہ ہے جو انہوں نے تمہارے لئے رکھ چھوڑا تھا۔ "
"بسم اللہ۔ " صفیہ نے ادب سے آنکھیں بند کر کے کہا۔ " میں قربان اس تحفے کی۔ " ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو ان میں نمی سی چمک رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور قالین پر، طاہر کے قدموں میں گھٹنے موڑ کر بیٹھ گئی۔
"لیجئے۔ ذرا اسے جھوٹا کر دیجئے۔ " اس نے گلاب جامن انگلیوں میں تھام کر طاہر کے ہونٹوں کی جانب بڑھایا۔
"اوں ہوں۔ " طاہر نے نفی میں سر ہلایا۔ " میں اپنا حصہ وہاں کھا آیا ہوں۔ "
"جانتی ہوں۔ " وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔ " مگر میں اپنا حصہ آپ کے بغیر کیسے کھا سکتی ہوں۔ لیجئے۔ ذرا سا ہی لے لیجئے۔ "
"مگر۔۔۔ " طاہر نے کہنا چاہا۔
"طاہر۔ " صفیہ نے گلاب جامن اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ " آپ اسے جھوٹا کر دیں گے تو میرا حصہ مجھ پر حلال ہو جائے گا۔ مجھے حرام کھانے سے بچانا آپ پر فرض ہے یا نہیں ؟"اور بے اختیار طاہر کے ہونٹ وَا ہو گئی۔ اس نے ذرا سا گلاب جامن دانتوں سے کاٹ لیا۔
"شکریہ۔ " وہ کھل اٹھی۔ پھر اس نے ہاتھ واپس کھینچا اور بچوں کی طرح گلاب جامن کھاتی ہوئی اٹھ کر چل دی۔
"پگلی۔ " بے ساختہ طاہر کے دماغ میں درویش بابا کی آواز گونجی۔ اسے بے طرح صفیہ پر پیار آ گیا، جو دروازے سے باہر قدم رکھ چکی تھی۔
اس کے جانے کے بعد طاہر بستر پر دراز ہو گیا اور ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر آنکھیں موند لیں۔ اس کے ذہن میں صبح کے واقعے کی فلم سی چلنے لگی۔ درویش کی ایک ایک بات اسے ازبر تھی۔ راستے بھر بھی وہ خاموش رہا۔ ملک بلال نے ایک دو بار کوئی بات کرنا چاہی مگر جب اس کی طرف سے کوئی خاص توجہ نہ ملی تو وہ بھی خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔
حویلی پہنچ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا آیا اور اب بستر پر لیٹا پھر انہی سوچوں میں ڈوب گیا جن سے رستے بھر اس کا دل اور دماغ الجھے رہے تھے۔۔
عشق کا فلسفہ آج ایک عجیب رنگ میں اس پر کھلا تھا۔ عشق کا ہر حرف اپنے اندر کیا وسعت رکھتا تھا، یہ تو اس کے لئے ایک اچنبھا تھا۔ ایک اسرار کا عالم تھا، جس میں اسے درویش نے داخل کر کے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ تھا اور درویش کی باتیں۔ ہر ہر بات ہشت پہلو تھی۔ وہ جتنا ان پر غور کرتا گیا، اس کا ذہن فراخ ہوتا چلا گیا۔ سوچوں میں روشنی پھیلتی چلی گئی۔ حیرت کا ایک جہان تھا، جو اس کے لئے اپنی باہیں پسارے اسے عشق کا مفہوم سمجھانے کے لئے جھوم رہا تھا۔ عین سے عاشقِ صادق۔ عین عجز سے عبادت، عبودیت اور عبد کے بعد اب عین سے عقیدت نے اس کی سوچوں کو اور بہت کچھ عطا کر دیا تھا۔ کہیں امبر اور قمر تھے تو کہیں حافظ عبداللہ اور سکینہ۔ اور کہیں صفیہ اور۔۔۔
صفیہ پر آ کر اس کا دماغ رک گیا۔ صفیہ۔۔۔ جس نے اسے عین عقیدت کا احساس دلایا تھا۔۔۔ اس کے ساتھ طاہر کا نام جوڑا جاتا یا سرمد کا؟ وہ الجھ کر رہ گیا۔ سرمد کے بقول وہ صفیہ کے لئے دنیا تیاگ دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔۔۔ اور وہ خود صفیہ کو دل کے تخت پر جو مقام دے کر بٹھا چکا تھا، کیا وہ سرمد کے جذبے سے کمتر نہیں تھا؟ اس کے لئے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہو گیا۔ درویش نے صفیہ کو پگلی اور اسے پگلا کہا تھا۔ یعنی ایک پگلی کے لئے ایک سیانا درکار تھا۔ کہیں وہ سیانا سرمد تو نہیں تھا؟وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے کر مسل دیا ہو۔
اسی وقت صفیہ ایک منی ٹرے میں چائے کا کپ اور ڈسپرین کی گولیاں رکھے اندر داخل ہوئی۔ طاہر نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی جانب دیکھا جو مسکراتے ہوئے اس کے قریب آ چکی تھی۔
"کیا بات ہے طاہر؟" وہ جیسے اس کے دل تک پہنچ گئی۔ " دل گھبرا رہا ہے تو ڈاکٹر کو بلوا لیں۔ " اس نے ٹرے تپائی پر رکھی اور اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا جو برف کی طرح سرد ہو رہا تھا۔
"ارے۔ " اب بالکل ہی ٹھنڈا ہو گیا آپ کا جسم۔ " وہ پریشانی سے بولی۔ " یہ ہو کیا رہا ہے؟"اس نے طاہر کی طرف تشویش سے دیکھا۔
"کچھ نہیں۔ " طاہر نے سر کو ہلکاسا جھٹکا دیا۔ "تم چائے دو مجھے۔ میرا خیال ہے، ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ " اس نے بہانہ بنایا۔
"چائے تو پی لیں آپ۔ " اس نے کپ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ " مگر میں ڈاکٹر کو بلوا رہی ہوں۔ اسے چیک کر لینے دیجئے۔ "
"کیا ضرورت ہے۔ " طاہر نے اسے روکا۔ "میں نے کہا ناں ، معمولی ٹھنڈ کا اثر ہے۔ چائے پینے سے دور ہو جائے گا۔ اگر فرق نہ پڑا تو پھر ڈاکٹر کو بلوا لیں گے۔ "
"چلئے۔ یونہی سہی۔ آپ چائے پی کر آرام کریں۔ میں آپ کے لئے یخنی بنواتی ہوں۔ " صفیہ نے کمبل کھول کر اس کی ٹانگوں پر پھیلا دیا اور اس کی جانب فکر مندی سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔
تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ کمرے میں لوٹی تو طاہر سینے تک کمبل اوڑھے بے خبر سو رہا تھا۔ وہ دبے پاؤں اس کے پاس آئی۔ آہستہ سے اس کا ماتھا چھو کر دیکھا۔ حرارت نارمل محسوس ہوئی تو بے اختیار اس کے لبوں سے " یا اللہ تیرا شکر ہے" کے الفاظ نکل گئے۔ اس نے لائٹ آف کی اور چائے کا خالی کپ ٹرے میں رکھ کر کمرے سے نکل گئی۔ دروازہ بیحد آہستگی سے بند کر کے جاتی ہوئی صفیہ کب جانتی تھی کہ طاہر اب بھی جاگ رہا تھا اور اسکی محبت نے طاہر کی روح تک میں ایک سرشاری سی بھر دی تھی۔ سرمد کا خیال ایک دم اس کے دل و دماغ سے یوں محو ہو گیا جیسے اس کا کہیں وجود ہی نہ رہا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭
ایک ہفتہ اور گزر گیا۔
عادل اور زبیدہ کی شادی ہو گئی۔ طاہر اور صفیہ خاص طور پر ان کی شادی میں شریک ہوئے۔ صفیہ بہت خوش تھی۔ گاؤں کی شادی اس نے پہلی بار دیکھی تھی۔ وہاں کے رسم و رواج اس کے لئے جہاں اچنبھے کا باعث تھے، وہیں دلچسپی بھی رکھتے تھے۔
زبیدہ کی رخصتی تک وہ دونوں ماسٹر محسن کے ہاں موجود رہے۔ پھر جب وہ اپنے ماں باپ، بھائی اور سہیلیوں کو آنسوؤں کے حوالے کر کے بلکتی ہوئی پیا کے گھر کو سدھار گئی تو اداس اداس صفیہ نم آنکھیں لئے طاہر کے ساتھ حویلی لوٹ آئی۔
رات وہ کتنی ہی دیر تک جاگتی رہی۔ اس کا جی چاہا وسیلہ خاتون سے بات کری۔ وقت دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ اس وقت سو گئی ہوں گی، اس نے سوچا۔ پھر صبح ان سے بات کرنے کا خیال دل میں لئے وہ سو گئی، طاہر آنکھیں موندے نجانے کیاسوچ رہا تھا۔
صبح اٹھ کر اس نے سب سے پہلے وسیلہ خاتون کو فون کیا۔ وہ اس کی طرف سے فکرمند تھیں۔ جب اس نے انہیں اپنے بارے میں خیریت کا بتایا تو ان کی جان میں جان آئی۔ دوپہر کے قریب بیگم صاحبہ کا فون آ گیا۔ وہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی اس وقت مدینہ منورہ میں تھے اور خوش تھی۔ طاہر نے ان کی واپسی کا جان بوجھ کر نہ پوچھا۔ ایسی مقدس جگہ سے لوٹ آنے کو کس کا جی چاہتا ہے؟ وہ ان سے واپسی کا پوچھ کر گستاخی کا مرتکب نہ ہونا چاہتا تھا۔ صفیہ اور طاہر کو بہت سی دعائیں دے کر انہوں نے فون بند کیا تو صفیہ کے ساتھ ساتھ طاہر کا موڈ بھی بہت اچھا ہو چکا تھا۔
"طاہر۔ آپ بتا رہے تھے کہ آپ کو پھر بابا شاہ مقیم کے مزار پر جانا ہے۔ " وہ موبائل تپائی پر ڈالتے ہوئے بولی۔
"ہاں۔ جانا تو ہے مگر کل۔ " دن کا حساب لگاتے ہوئے اس نے بتایا۔
"میں بھی آپ کے ساتھ چلوں ؟" وہ اشتیاق سے بولی۔
"تم؟" وہ سوچ میں پڑ گیا۔
"کیوں ؟ کیا کوئی دقت ہے؟" اسے غور سے دیکھتے ہوئے صفیہ نے پوچھا۔
"نہیں۔ دقت کوئی نہیں۔ " طاہر نے صاف گوئی سے کہا۔ "دراصل بابا نے مجھے اکیلے آنے کو کہا تھا۔ "
"اچھا اچھا۔ " وہ مطمئن ہو گئی۔ "تو اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے۔ آپ اکیلے چلے جائیں مگر لوٹ جلدی آئیے گا۔ پھر ٹھنڈ نہ لگوا بیٹھئے گا۔ "
"تمہیں برا تو نہیں لگا؟" طاہر نے اس کی جانب دیکھا۔
"اری۔ " وہ ہنسی۔ " برا کیوں لگے گا۔ آپ نے کہہ دیا، میں نے مان لیا۔ بس۔ "
طاہر کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ اتنا عجز۔ اتنی فرمانبرداری۔ اتنا خلوص۔ وہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔
اسی وقت موبائل بول پڑا۔ طاہر نے جیب سے سیٹ نکالا اور سکرین پر امبر کا نمبر دیکھ کر جلدی سے بٹن دبا دیا۔
"ہیلو سر۔ مارننگ۔ میں بول رہی ہوں امبر۔ " دوسری طرف سے وہ چہکی۔
"مارننگ۔ مارننگ۔ " طاہر ہنسا۔ "کیا حال ہے لیڈی ؟"
"بالکل ٹھیک سر۔ آپ سنائیے۔ کیسی گزر رہی ہیں چھٹیاں ؟"
"فسٹ کلاس۔ " وہ صفیہ کی جانب دیکھ کر بولا جو اس کے قریب کھڑی اشارے سے پوچھ رہی تھی کہ کس کا فون ہے۔
"امبر کا فون ہے۔ " طاہر نے ہولے سے بتایا۔
"اچھا اچھا۔ " صفیہ بھی مسکرائی اور اس کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ کر سر اس کے سر کے ساتھ جوڑ لیا۔ اب وہ بھی امبر کی باتیں سن سکتی تھی۔
"کیسا جا رہا ہے آفس؟" طاہر نے پوچھا۔
"میں نے آپ کو کسی قسم کی رپورٹ دینے کے لئے فون نہیں کیا سر۔ " امبر نے خوش گفتاری سے کہا۔ " آپ کی رپورٹ لینے کے لئے کیا ہے۔ "
" وہ تو میں نے بتا دیا لیڈی۔ " طاہر پھر ہنسا۔ امبر سے بات کرتے ہوئے اس کے ذہن میں درویش کا اس کے بارے میں "پگلی " کا لفظ گونج رہا تھا۔ وہ اسی تناظر میں اسے دیکھ اور سن رہا تھا۔ "تم سناؤ۔ تمہارے پروفیسر صاحب کیسے ہیں ؟"
"بالکل ٹھیک سر۔ THE POROUD کے معاملات میں میرا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ "
"مفت کام نہ لیتی رہنا ان سے۔ گھر کے مرغے کو دال برابر سمجھو گی تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ "
"اس کی آپ فکر نہ کریں سر۔ " امبر اس کے کمنٹ پر ہنس ہنس کر بے حال ہو گئی۔ " آپ کی اس بات پر میں آپ کی چھٹی مزید کتنی ایکسٹنڈ کر دوں ؟"
"ابھی پہلی چھٹی ختم ہونے میں تین دن باقی ہیں بھئی۔ " طاہر نے جلدی سے کہا۔
"اسی لئے تو کہہ رہی ہوں سر کہ آج میرا موڈ بہت اچھا ہے، فائدہ اٹھا لیجئے۔ "
"تو پھر یہ بھی تم پر رہا کہ تم ہمیں اور کتنی چھٹی دے سکتی ہو۔ " طاہر شگفتگی سے بولا۔
"اگر میری مرضی پر بات ٹھہری ہے تو سر، آپ جب جی چاہے لوٹئے گا۔ آپ کے لئے کھلی آفر ہے۔ "
"واقعی؟" طاہر نے حیرت سے پوچھا۔
"یس سر۔ جب جی چاہے آئیے گا۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ "
"مگر امبر۔۔۔ "
"پروفیسر صاحب کو کالج سے تین ماہ کی چھٹی مل گئی ہے سر۔ اب میرے پاس وقت ہی وقت ہے۔ "
"اوہ۔ تو یہ بات ہے۔ میں بھی کہوں اتنی نوازش کا سبب کیا ہے؟"
"شکریہ امبر۔ " اچانک بیچ میں صفیہ بول پڑی۔ " آپ نے بہت اچھا کیا جو انہیں مزید کچھ عرصے کے لئے ٹینشن فری کر دیا۔ "
"ارے۔ آپ بھی وہیں ہیں صفیہ جی۔ " امبر کا موڈ اور خوشگوار ہو گیا۔ "بہرحال میں نے اکیلے سر کو نہیں ، آپ کو بھی ان کے ساتھ مزید انجوائے کرنے کا وقت دیا ہے۔ " اور صفیہ نے جھینپ کر سر پیچھے ہٹا لیا۔ "اوکے۔ آلویز بی ہیپی اینڈ بائی۔ " امبر نے ہنستے ہوئے رابطہ ختم کر دیا۔
طاہر نے موبائل جیب میں ڈالا اور انگڑائی لی۔ ایک نظر اس کی جانب دیکھا اور دروازے کی جانب چل پڑا۔
"میں ڈیرے پر جا رہا ہوں۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھاؤں گا۔ " کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭
صبح کے نو بجے تھے جب مقررہ دن طاہر اکیلا ہی پجارو میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر جا پہنچا۔ اس نے ملک یا کسی اور ملازم کو ساتھ نہ لیا۔ ہاں ملک بلال کو اتنا بتا دیا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ ساتھ ہی منع کر دیا کہ کوئی اس کے پیچھے نہ آئے۔
درویش اسے مزار کے باہر ہی مل گیا۔ وہ گاڑی سے اترا اور اس کے پاس چلا آیا۔
" آ گیا پگلے۔ " وہ اسے دیکھ کر معصومیت سے مسکرایا۔
"جی بابا۔ " اس نے ادب سے جواب دیا۔
"چلیں ؟" درویش نے پوچھا۔
"ضرور بابا۔ " یہ پوچھنے کو اس کا جی ہی نہ چاہا کہ کہاں جانا ہے؟ "مگر۔۔۔ " اس نے مزار کی طرف دیکھا۔
"سلام کرنا چاہتا ہے؟" درویش مسکرایا۔ " بابا شاہ مقیم وہاں۔۔۔ " درویش نے مزار کی جانب اشارہ کیا۔ " اندر موجود نہیں ہے۔ کہیں گیا ہوا ہے۔ اینٹ روڑوں کو سلام کرنا ہے تو یہیں سے کر لے۔ کیا خیال ہے؟ " وہ ہنسا۔ " آ جا۔ چلیں۔ "اور وہ سر جھکائے اس کے ساتھ چل پڑا۔ ان کا رخ نور پور گاؤں کی جانب تھا۔
گاؤں میں داخل ہوئے تو جگہ جگہ لوگوں نے درویش کو سلام کیا۔ وہ جواب دیتا ہوا، طاہر کو ساتھ لئے نور پور کی اکلوتی مسجد پر چلا آیا۔ مسجد کا دروازہ بھڑا ہوا تھا۔
درویش نے دروازہ کھول دیا۔ دونوں اندر داخل ہوئے۔ اب وہ جہاں کھڑے تھے وہ ڈیوڑھی نما جگہ تھی جو نمازیوں کے جوتیاں اتارنے کے لئے تھی۔ اس کے بعد سامنے مسجد کا صحن اور اس کے بعد مسجد کی عمارت۔ صحن میں دائیں ہاتھ وضو خانہ بنا ہوا تھا۔ جس کے آخر پر طہارت خانے کے بعد چھوٹی سی کھوئی کے اوپر چرخی اور اس میں رسی سے بندھا چمڑے کا ڈول دکھائی دے رہا تھا۔ بائیں ہاتھ حافظ عبداللہ کا حجرہ تھا، جس کی دیوار آگے کی جانب مسجد کے ساتھ جا ملی تھی۔ حجرے کی مسجد کے صحن میں کھلنے والی کھڑکی کے پٹ وَا تھے۔
"پگلے۔ " درویش نے اپنے دائیں ہاتھ کھڑے طاہر کی طرف دیکھا۔ " عشق کے عین کا نظارہ کرنے کے لئے تیار ہو جا۔ "
طاہر کا دل زور سے دھڑکا اور رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ نجانے اس کے سامنے کیا آنے والا تھا۔ درویش نے قدم آگے بڑھایا اور کھلی کھڑکی کے قریب جا کھڑا ہوا۔ طاہر اس کے ساتھ تھا۔
اندر کا منظر دیکھ کر طاہر کو پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ پھر نجانے کیوں اسے لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ ایسا خواب جو دھند بن کر اس کی آنکھوں میں غبار اڑا رہا ہے۔ چمکیلا، رگوں میں سنسناہٹ دوڑاتا، دماغ کے بند دریچوں کو پُر شور آواز کے ساتھ کھولتا ہوا خواب۔
دلہن کے لباس میں ملبوس جواں سال خوبصورت گوری چٹی سکینہ، اپنے سامنے چٹائی پر بیٹھے باریش، سانولے اور واجبی سی شکل کے حامل حافظ عبداللہ کو اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرا رہی تھی۔ وہ روٹی کا لقمہ توڑتی۔ اسے سالن لگاتی اور حافظ عبداللہ کے ہونٹوں کی طرف بڑھا دیتی۔ بچوں کی طرح حافظ عبداللہ منہ کھول کر لقمہ لے لیتا۔ پھر وہ گود میں پڑے اپنے لنجے ہاتھ سے ہونٹ صاف کرنا چاہتا تو وہ بڑی نرمی سے اسے روک دیتی۔ پھر اپنے گوٹے کناری سے سجے سرخ دوپٹے کے پلو سے اس کے ہونٹوں کو ارد گرد سے صاف کرتی۔ طاہر نے صاف دیکھا کہ حافظ عبداللہ کی آنکھوں میں شبنم لبالب تھی۔ لگتا تھا وہ کسی وقت بھی چھلک پڑے گا۔ نجانے کیوں ؟
طاہر کو لگا جیسے اس کے سامنے جنت کے باسیوں کا کوئی منظر چل رہا ہو۔ ایک حور اپنے مالک کی خدمت کر رہی تھی۔
"یہ ہے عشق کا عین پگلے۔ عبادت، عجز، عقیدت۔ " درویش کی بیحد آہستہ سی آواز نے طاہر کو ہوش و حواس کی دنیا میں کھینچ لیا۔ " وہ پگلی ایسا کیوں کر رہی ہے اور وہ سیانا کیوں اندر سے بلک رہا ہے؟ آ۔ تجھے عین کے ہجے کر کے بتاؤں۔ "
کھڑکی سے ہٹ کر وہ حجرے کے دروازے پر آ گئے۔ درویش نے ایک پل کو کچھ سوچا پھر آہستہ سے دستک دی۔
"کون؟" اندر سے حافظ عبداللہ کی آواز ابھری۔
"اللہ والیا۔ تیرے ہاں مہمان آیا ہے۔ " درویش نے جواب میں کہا اور کوئی جیسے بڑی جلدی میں اٹھ کر دروازے کی طرف لپکا۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور درویش کے پیچھے کھڑے طاہر نے دیکھا، ان کے سامنے حافظ عبداللہ حیران حیران کھڑا تھا۔ پھر اس نے جلدی سے اپنی آستین سے آنکھیں خشک کر ڈالیں۔
"ارے بابا آپ۔۔۔ " اسے جیسے یقین نہ آ رہا تھا۔ نظر طاہر پر پڑی تو وہ اور کھل گیا۔ " آئیے ناں بابا۔ آئیے۔ آپ بھی آئیے جی۔ باہر کیوں کھڑے ہیں۔ " وہ انہیں راستہ دیتا ہوا ایک طرف ہٹ گیا۔

"ارے بابا آپ۔۔۔ " اسے جیسے یقین نہ آ رہا تھا۔ نظر طاہر پر پڑی تو وہ اور کھل گیا۔ " آئیے ناں بابا۔ آئیے۔ آپ بھی آئیے جی۔ باہر کیوں کھڑے ہیں۔ " وہ انہیں راستہ دیتا ہوا ایک طرف ہٹ گیا۔
درویش اور طاہر آگے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ کھلی کھڑکی سے آتی سورج کی روشنی سے منور کمرہ جیسے ان کے استقبال کے لئے مسکرا رہا تھا۔
"سلام بابا۔ " چٹائی پر بیٹھی سکینہ اٹھ کھڑی ہوئی اور درویش کے آگے سر جھکا دیا۔
"کیسی ہے تو اللہ والیے؟" درویش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"نہال ہوں بابا۔ سُکھ میں ہوں۔ " وہ ہنس کر بولی۔
"سُکھی رہے گی تو۔ میرے رب کے حکم سے۔ " وہ پیار سے بولا۔ "لگتا ہے تم لوگ کھانا پینا کر رہے تھے۔ " درویش نے چٹائی پر برتن پڑے دیکھ کر کہا۔
"ہاں بابا۔ ناشتہ کر رہے تھے۔ آپ بیٹھئے ناں۔ میں آپ کے لئے بھی ناشتہ بناتی ہوں۔ " اس نے اب تک ایک بار بھی طاہر کی جانب نہ دیکھا تھا۔
"بیٹھتے ہیں۔ بیٹھتے ہیں۔ " درویش نے چپل اتار دی اور طاہر اس کی تقلید میں چٹائی پر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ سکینہ کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔ سہاگ کی چادر سے خود کو ڈھکے، وہ اسے کوئی ایسا محل نظر آ رہی تھی جس میں غلیظ ہوا کے کسی جھونکے کے داخلے کے لئے کوئی روزن موجود نہ ہو۔ حافظ عبداللہ بھی دروازہ بھیڑ کر ان کے پاس آ بیٹھا۔
"لے بھئی پگلے۔ یہ ہے حافظ عبداللہ۔ اس کی کہانی تو تجھے ہم بعد میں سنائیں گے پہلے اپنی بیٹی سے یہ کہہ دیں کہ ہمارے لئے صرف چائے بنائے۔ "
" اچھا بابا۔ " سکینہ مسکرا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
حافظ عبداللہ نے کھانے کے برتنوں پر رومال دے کر انہیں ایک طرف سرکا دیا۔ درویش نے اس کے ہاتھ پر نظر ڈالی۔
"کیا حال ہے حافظ اس نشانی کا؟"
"بس۔ ٹھیک ہو گیا ہے بابا۔ اب اس سے تھوڑا بہت کام لینے لگ گیا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے اپنے چُرمرائے ہوئے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"جانتا ہے، اس ہاتھ کے ساتھ کیا کیا میرے اوپر والے نے؟" درویش نے اچانک طاہر کا رخ کر لیا۔
"کیا بابا؟" حافظ عبداللہ کے ہاتھ کو دیکھتا ہوا طاہر ہمہ تن گوش ہو گیا۔
اور حافظ عبداللہ کا سر جھک گیا۔ درویش نے کہنا شروع کیا تو طاہر کے اندر روزن کھلتے چلے گئے۔ روشنی اور رنگوں کے فوارے چھوٹنے لگی۔ اس کی حیرت فزا آنکھیں حافظ عبداللہ کے چہرے کا طواف کرتی رہیں جہاں سوائے حیا کے کچھ نہ تھا۔ شاید وہ داستان میں اپنی تعریف پر خود کو شرمندہ شرمندہ محسوس کر رہا تھا۔
"یوں میری پگلی نے اس سیانے کو اپنے پلو سے باندھ لیا۔ اس کا یہ ہاتھ، جو بظاہر دیکھنے میں لنجا لولا لگتا ہے، میرے رب کی مہر کی وہ نشانی ہے، جس کے آگے دنیا کی ساری خوبصورتیاں ہیچ ہیں۔ کیوں پگلے، ٹھیک کہا ناں میں نے؟" درویش نے اسے چمکتی آنکھوں سے دیکھا۔
"ہاں بابا۔ " طاہر کے حلق سے بڑی چھلکتی ہوئی آواز نکلی۔ "ایسے ہاتھ نصیبوں والوں کے ہوتے ہیں۔ "
"ہاں۔ " درویش بچوں کی طرح خوش ہو کر بولا۔ "یہی تو میں کہتا ہوں۔ ایسے ہاتھ نصیبوں والے کے ہوتے ہیں جنہیں کوئی دم دم بوسے دیتا رہے۔ چومتا رہے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے آبدیدہ ہو کر سر جھکا لیا۔ " سکینہ تینوں وقت مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی ہے۔ ہر نماز کے لئے وضو کراتی ہے۔ میرے اس ناکارہ ہاتھ کو سو سو بوسے دیتی ہے۔ مجھے ہر وہ کام کرنے سے روک دیتی ہے جو مجھے اس ہاتھ سے کرنا ہوتا ہے۔ وہ میرا دایاں ہاتھ بن گئی ہے بابا۔ " حافظ عبداللہ کی آواز بھرا گئی۔
"وہ بھی تو اپنے اس بندے کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ زبان بن جاتا ہے۔ کان بن جاتا ہے۔ آنکھ بن جاتا ہے جو اس کے لئے اپنا آپ تیاگ دیتا ہے۔ عاجز ہو جاتا ہے۔ عبودیت کی سیڑھی پر پاؤں رکھ دیتا ہے۔ عشق کے عین کے رستے پر چل پڑتا ہے۔ " درویش نے وجد میں آ کر کہا۔
"کیا میں غلط کرتی ہوں بابا؟" اسی وقت سکینہ چائے کے تین پیالے پلاسٹک کے پھولدار ٹرے میں رکھے آ گئی اور ٹرے ان کے سامنے چٹائی پر رکھ دی۔
درویش نے طاہر کی جانب نظر کی، جو حیران حیران سا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں دیے سے جل رہے تھے۔ لو دے رہی تھیں اس کی آنکھیں۔
" کیا مجھے عبادت نہیں کرنی چاہئے ؟"
"کرنی چاہئے میری پگلی بیٹی۔ کرنی چاہئے۔ " درویش کا حلق آنسوؤں سے بھرا ہوا تھا۔ " یہ اگر کبھی تجھے روکے ناں۔ تو اس کی بات کبھی نہ ماننا۔ اپنی سی کرتی رہنا۔ یہ سیانا ہے۔ کبھی اسے خیال آ گیا ناں کہ تیری نیکیاں بڑھتی جا رہی ہیں ، تیری عبادت پہ رنگ آ رہا ہے تو شاید رشک کے مارے تجھے روکنا چاہے مگر اس وقت اس کی نہ ماننا۔ اپنے اللہ کی کہی کرنا۔ وہ کہتا ہے ناں کہ جس کا مالک اس سے راضی، وہ بھی اس سے راضی۔ تو اپنے دونوں مالکوں کو راضی کرتی رہنا۔ ایک کی خدمت اور دوسرے کی عبادت میں بڑا گہرا تعلق ہے پگلی۔ تو نے یہ جان لیا ہے۔ بس اس بھید کا دامن نہ چھوڑنا۔ مضبوطی سے پکڑ ے رکھنا اسے۔ "
"جی بابا۔ "
"کیوں پگلے۔ عشق کے عین کی حقیقت پلے پڑی؟" درویش نے چائے کا پیالہ اس کے آگے سرکایا۔
"ہاں بابا۔" وہ جلتی ہوئی آواز میں بولا۔
"تو پھر اس کی خدمت کو قبول کر کے بھی کیوں انجان بنا رہتا ہے؟ کیوں اس کی عبادت کو صبر کے کانٹوں پر ڈال دیتا ہے؟ وہ جو تیرا ماتھا چوم کر کمرے سے نکل جاتی ہے، اسے آنسوؤں سے وضو کرا کے تیرے من کو سکون ملتا ہے کیا؟"
"نہیں بابا نہیں۔ "وہ جلدی سے بول اٹھا۔ "بس۔ اندر ایک پھانس سی چبھ گئی ہے۔ وہ نہیں نکلتی۔ " وہ بے بسی سے بے حال ہو گیا۔
"نکل جائے گی۔ نکل جائے گی۔ " درویش نے اس کے کندھے پر ہاتھ پھیرا۔ "ابھی یہ تبرک حلق سے اتار۔ "
بڑے ضبط سے کام لیتے ہوئے طاہر نے آنکھوں کو چھلکنے سے روکا۔ پھر آستین سے چہرہ صاف کیا اور چائے کا پیالہ اٹھا لیا۔ حافظ عبداللہ اور سکینہ بھی چٹائی کے ایک کونے پر بیٹھ گئے۔
"سکینہ بیٹی۔ ایک بات تو بتا۔ " درویش نے طاہر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"جی بابا۔ " اس نے پلکیں اٹھائیں۔
"تو نے میرے ساتھ آئے اس مشٹنڈے سے پردہ کیوں نہیں کیا؟" درویش کا اشارہ طاہر کی طرف تھا۔
"میں نے انہیں دیکھا ہی نہیں بابا۔ " وہ سادگی سے بولی۔ " اور جو نظر ہی نہ آئے اس سے پردہ کیسا؟"
"اللہ۔۔۔۔ " درویش نے بے اختیار ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور یوں جھومنے لگا جیسے اس پر جذب طاری ہو گیا ہو۔ "ٹھیک کہتی ہے پگلی۔ جو دکھائی نہ دے اس سے پردہ کیسا؟ وہ بھی تو دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لئے تو اس سے بھی پردہ نہیں کیا جاتا۔ اس سے پردہ کیسا؟ اس سے پردہ کیسا؟" وہ بڑبڑائے جا رہا تھا۔
"چل پگلے۔ آ جا۔ چلیں۔ " ایک دم درویش اٹھ کھڑا ہوا۔ " یہ تو بہت آگے چلی گئی۔ اسے تو حافظ کے سوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ آ جا۔ چلیں۔ اس نے عبادت کی منزل کو چھو لیا ہے۔ عشق کا عین اس پر کھل گیا ہے بابا۔ عین کا در اس پر وَا ہو گیا ہے۔ " درویش کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
طاہر اس کے پیچھے لپکا۔ درویش بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر نکل چکا تھا۔ طاہر نے پلٹ کر دیکھا۔ حافظ عبداللہ اور سکینہ اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑے اسی کی جانب دیکھ رہے تھے۔ اس کی نظریں حافظ عبداللہ سے ملیں تو دونوں بے اختیار مسکرا دئیے۔ لرزتا ہوا نچلا ہونٹ دانتوں میں داب کر اس نے حافظ عبداللہ کی جانب ہاتھ ہلایا۔ جواب میں اس نے بھی اپنے جلے ہوئے ہاتھ سے اس کی جانب اشارہ کیا تو وہ جلدی سے مسجد کا دروازہ پار کر گیا۔ آنکھوں میں چھا جانے والی دھند کے پار دیکھا تو درویش اس سے کتنی ہی دور بھاگتا ہوا گلی کا موڑ مڑ رہا تھا۔ طاہر نے خود کو تیز قدموں سے اس کی آواز کے تعاقب میں ڈال دیا، جو ہوا کے دوش پر لہرا لہرا کر رقص کر رہی تھی۔
"اس سے پردہ کیسا؟
اس سے پردہ کیسا؟
اس سے پردہ کیسا؟"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
طاہر اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا مگر درویش کو زمین نگل گئی تھی یا آسمان، اس کا پتہ نہ چلا۔ وہ پاگلوں کی طرح اسے تلاش کرتا ہوا بابا شاہ مقیم کے مزار پر آیا۔ درویش وہاں بھی نہیں تھا۔ طاہر کا حال عجیب ہو رہا تھا۔ اس کا دل اس کے قابو میں نہ تھا۔ جی چاہتا تھا وہ کپڑے پھاڑ کر جنگلوں میں نکل جائے۔ اس کا رنگ ایک دم سرخ ہو گیا۔ لگتا تھا ابھی رگیں پھٹ جائیں گی اور خون ابل پڑے گا۔ سینے میں ایک الاؤ سا دہکنے لگا تھا جس کی لپٹیں اسے جھلسائے دے رہی تھیں۔ سکون کس چڑیا کا نام ہے؟ وہ بھول گیا تھا۔ قرار کسے کہتے ہیں ؟ اسے یاد نہ تھا۔ بے کلی تھی کہ اسے آگ کے پالنے میں جھُلا رہی تھی۔
"بابا۔۔۔۔ " اس نے بے بس ہو کر پورے زور سے صدا دی اور چررر چررر کی آواز کے ساتھ اس کا گریبان لیر لیر ہو گیا۔ چیتھڑے اڑ گئے۔ اس نے اپنے بال نوچ لئے۔ گھٹنوں کے بل وہ کچی زمین پر گرا اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر ہچکیاں لینے لگا۔
وہ دیوانوں کی طرح رو رہا تھا۔ آہیں بھر رہا تھا۔ اس کی سسکیوں میں کوئی فریاد بار بار سر اٹھاتی اور دم توڑ دیتی۔ وہ کیا کہہ رہا تھا؟ کس سے کہہ رہا تھا؟ کون جانے۔ ہاں ، ایک بابا شاہ مقیم کا مزار تھا جو روشن دھوپ میں سر اٹھائے اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی اس حالت کا گواہ ہو رہا تھا۔
دوپہر سے شام ہوئی اور شام سے رات۔ درویش نے آنا تھا نہ آیا۔
وہ کسی بے آسرا، بے سہارا، بے زبان کی طرح اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے خاک کے فرش پر سر جھکائے بیٹھا رہا۔ اس کا ذہن سفید لٹھے کی طرح کورا ہو چکا تھا۔ کوئی سوچ، کوئی خیال، کوئی شبیہ اس پر ابھر ہی نہ پا رہی تھی۔ بالکل خالی الذہنی کے عالم میں وہ وہاں یوں بیٹھا تھا جیسے دنیا اور دنیا والوں سے اس کا تعلق ٹوٹ چکا ہو۔
گھٹنے کھڑے کئے، ان کے گرد دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے سے تھامے، سر جھکائے، آنکھیں بند کئے وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر بیٹھا تھا کہ ایک آہٹ نے اسے اپنا سُتا ہوا چہرہ اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
آہستہ سے اس نے سر گھمایا۔ دائیں دیکھا۔ کچھ نہ تھا۔ بائیں دیکھا۔ خاموشی مہر بہ لب تھی۔ مگر یہ اس کا وہم نہیں تھا۔ اس نے کسی کے تیز تیز قدموں سے پتوں اور گھاس پر چلنے کی آواز سنی تھی۔ اسی وقت وہ آواز پھر ابھری۔ اب اس کے ساتھ کسی کی صدا بھی ابھری۔
وہ تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔ اس آواز کو تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔
"اس سے کیسا پردہ؟" درویش کی آواز اب کے صاف سنائی دی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اسے آواز کی سمت کا اندازہ ہو گیا۔ بابا شاہ مقیم کے مزار کے عقب میں ایک چھوٹا سا قبرستان تھا، آواز اسی طرف سے آ رہی تھی۔ وہ دیوانہ وار اس طرف بھاگا۔
درویش قبرستان میں تیز تیز قدموں سے ٹہل رہا تھا۔ اسے کوئی ہوش نہ تھا کہ اس کے پاؤں تلے آنے والے کانٹے اسے زخم زخم کئے دے رہے ہیں۔ اس کے کپڑے تار تار ہو چکے تھے۔ بالوں میں خاک اور جسم پر مٹی نے تہہ جما دی تھی۔ وہ جذب کے عالم میں قبرستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہر شے سے بیگانہ ٹہل رہا تھا۔ کبھی کبھی آسمان کی طرف دیکھ لیتا۔ پھر اس کے ٹہلنے میں اور شدت آ جاتی۔ ہونٹوں پر ایک ہی فقرہ تھا جو کبھی نعرہ بن جاتا اور کبھی سرگوشی۔
"اس سے پردہ کیسا؟ اس سے پردہ کیسا؟ اس سے پردہ کیسا؟"
طاہر گرتا پڑتا اس کے قریب پہنچا اور پھر ایک بار جب وہ پلٹ کر قبروں کے درمیان سے دوسری جانب جانے کو تھا کہ وہ اس کے قدموں سے جا لپٹا۔
"بابا۔ "
"ارے۔۔۔ " ایک دم درویش کی زبان تھم گئی۔ " پگلے۔ تو ابھی یہیں ہے؟" وہ اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ "
"بابا۔ " طاہر نے اس کے ہاتھ تھام کر اپنا ماتھا ان پر ٹکا دیا۔ "میں کہاں جاؤں اب؟" اس کا بھیگا ہوا لہجہ تھکان سے لبریز تھا۔
"کہاں جاؤں سے کیا مطلب؟" سسکتے ہوئے طاہر پر درویش کی نظریں جم سی گئیں۔ "ارے۔ واپس جا۔ "
"واپس کہاں بابا؟" طاہر نے برستی ہوئی آنکھیں درویش کی جانب اٹھائیں۔ چٹکی ہوئی چاندنی میں وہ دونوں قبرستان کے خاموش ماحول میں دو روحوں کی طرح ہمکلام نظر آ رہے تھے۔ "مجھے تو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ کوئی راستہ سامنے نہیں ہے جس پر چل کر میں جہاں سے آیا تھا وہاں لوٹ کر جا سکوں۔ "
"پگلا ہوتا جا رہا ہے تو واقعی۔ " درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ "اور یہ تو نے اپنا حال کیا بنا لیا ہے؟"
"پتہ نہیں بابا۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہونے والا ہے؟"
"چل۔ ادھر چلتے ہیں۔ یہ تیری جگہ نہیں ہے۔ چل۔ " درویش نے اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالی۔ اسے اٹھایا اور دونوں ایک دوسرے کے سہارے کمرے میں چلے آئے۔ وہاں تک آتے آتے طاہر کی حالت کافی سنبھل گئی۔ طبیعت میں ٹھہراؤ سا آ گیا اور الاؤ کی دہک میں کمی بھی۔
کمرے میں داخل ہو کر چٹائی پر بیٹھتے ہی ایک دم طاہر گھبرا گیا۔ اس کی نظر درویش کے پیروں پر پڑی جو لہو لہان ہو رہے تھے۔ کانٹوں نے اس کی پنڈلیوں تک کو خون میں نہلا رکھا تھا۔ خون اور مٹی میں لتھڑے اس کے پاؤں دیکھ کر وہ تھرا گیا۔
"بابا۔ آپ تو زخمی ہیں۔ " اس نے بے اختیار اس کے پاؤں چھو لئے۔
"اچھا۔ " درویش نے حیرت سے اپنے پیروں کی جانب دیکھا۔ "یہ کیسے ہو گیا؟"
" آپ یہیں بیٹھئے۔ میں پانی لاتا ہوں انہیں دھونے کے لئے۔ "طاہر اٹھا اور درویش کے روکتے روکتے کمرے سے نکل گیا۔ دوسرے کمرے میں بھی کچھ نہ ملا تو وہ مزار کے صحن میں چلا آیا۔ دروازے کے پاس ہی ایک میلا سا سٹیل کا جگ پڑا تھا۔ اس نے اس میں ہینڈ پمپ سے پانی نکالا اور واپس لوٹ آیا۔
درویش سرہانے بانہہ دھرے چٹائی پر آنکھیں بند کئے لیٹا تھا۔ طاہر نے اپنے پھٹے کرتے کے دامن سے ایک ٹکڑا پھاڑا اور درویش کے پاس بیٹھ گیا۔ کپڑے کو جگ کے پانی میں بھگو بھگو کر وہ درویش کے زخم صاف کرنے لگا اور بڑی نرمی سے تلووں سے کانٹے نکالنے لگا۔ درویش یوں بے حس و حرکت پڑا تھا جیسے بڑے آرام سے سو رہا ہو۔ طاہر اس کے کانٹے نکالتا رہا۔ خون اور مٹی صاف کرتا رہا۔ زخم برہنہ ہوتے چلے گئی۔ جگہ جگہ سے گوشت اڑ گیا تھا۔ اذیت کا احساس ہوا تو طاہر کا دل بھر آیا۔
"پگلے۔ " اچانک درویش نے آنکھیں کھول دیں۔ " رات بہت جا چکی۔ اب گھر جا۔ "
"نہیں بابا۔ " طاہر نے نفی میں سر ہلایا اور اس کے پیروں میں بیٹھ گیا۔ " اب کسی گھر کی یاد دل میں باقی رہی ہے نہ کہیں جانے کو جی چاہتا ہے۔ مجھے یہیں اپنے قدموں میں پڑا رہنے دیں۔ "
"نہیں رے۔ " درویش نے پاؤں سمیٹ لئے اور اٹھ بیٹھا۔ "تو اکیلا نہیں ہے۔ کوئی اور بھی بندھا ہے تیرے نام سے۔ اس کا حق مارے گا تو وہ ناراض ہو جائے گا۔ " درویش نے اوپر کی جانب دیکھا۔
"میں اسے آزاد۔۔۔ "
"بس۔ " درویش نے سختی سے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ "ایک لفظ اور نکالا تو راندہ درگاہ ہو جائے گا۔ " وہ بھڑک اٹھا۔ " اپنی مستی کے لئے اسے خود سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ پگلے۔ اس کی تو اجازت ہی نہیں ہے۔ "
"تو پھر میں کیا کروں بابا؟" وہ بے بسی سے نم دیدہ ہو گیا۔ " میں کیا کروں ؟ ایک پھانس ہے جو اس دل میں اٹک گئی ہے۔ نکلتی ہی نہیں۔ "
"نکالنا ہی پڑے گی۔ " درویش آنکھیں موند کر بڑبڑایا۔ "تو نے ہمارے کانٹے نکالے ہیں۔ اب تیری پھانس بھی نکل ہی جانی چاہئے۔ "اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول دیں۔
"ادھر دیکھ۔ " وہ تحکم سے بولا۔
بے اختیار طاہر کی نظریں اٹھیں اور درویش کی نظروں میں مدغم ہو گئیں۔
"یہ جو تیرے اندر پھانس اٹکی ہوئی ہے ناں۔ یہ پھانس نہیں ہے، عشق کا دوسرا حرف ہے۔ شین۔ کیا سنا تو نے؟ عشق کا دوسرا حرف شین ہے یہ۔ جانتا ہے شین کس کی علامت ہے؟ مگر نہیں تو کیسے جانے گا؟ تو تو بس اسے دل میں اتار کر بے خبر ہو گیا۔ یہ نہ سوچا کہ یہ حرف تیرے دل میں اترا کیسے؟ کیوں اترا؟"
طاہر بُت بنا درویش کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ اس کے اندر ایک عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ عشق کے عین نے اس کا یہ حال کر دیا تھا جو اس کے ساتھ بیتا بھی نہ تھا۔ اور عشق کا شین اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا جو اس کے اندر پھانس بن کر اٹکا ہوا تھا۔ اس کے دل میں اندر تک اترا بیٹھا تھا۔
اس کا جی چاہا، درویش سے کہے۔ "بابا، رکو مت۔ بولتے رہو۔ بولتے رہو۔ " اس کے بولنے میں سُکھ تھا۔ سکون تھا۔ ٹھہراؤ تھا۔ فیض تھا۔ ایسا فیض جو طاہر کی بے کلی کو تسلی کی چادر سے ڈھانپ لیتا تھا۔ تشفی کے دامن میں سمیٹ لیتا تھا۔
"شین۔۔۔ " درویش نے آنکھیں بند کر لیں اور ایک سسکی لی۔ " عشق کے پہلے حرف عین سے عبادت۔ عجز میں ڈوبے عبد کی عبادت اور عقیدت ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ عبادت، جیسی سکینہ کر رہی ہے۔ جیسی تیرے گھر میں ہو رہی ہے۔ جیسی تیرے شہر میں داغدار قمر کے دامن میں پھول کھلا رہی ہے۔ اور اب عشق کادوسرا حرف شین۔ " درویش ایک لمحے کو رکا۔ پھر اس کی آواز ابھری تو نشے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خمار آلود، بھرائی ہوئی۔ طاہر اپنے آپ سے بے خبر ہوتا چلا گیا۔ اسے صرف درویش کی خوشبو سے بوجھل، تپش سے لبریز آواز سنائی دے رہی تھی۔ نہیں۔ سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بے خودی کا شہد تھا جو قطرہ قطرہ اس کے کانوں میں ٹپک رہا تھا۔ اس کے دل پر شبنم بن کر اتر رہا تھا۔
"عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے عشق مجازی ضروری ہے۔ جیسے کسی چھت تک پہنچنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھت پر پہنچ کر سیڑھی سے الگ ہو جانا ایک قدرتی امر ہے۔ سیڑھی کے بغیر چھت پر پہنچنا غیر فطری ہے۔ ہاں جو پیدا ہی چھت پر ہوا ہو اس کے لئے سیڑھی کی ضرورت نہیں پڑتی مگر ہم عام اور بے حیثیت انسانوں کے لئے وسیلہ اور حیلہ دونوں ضروری ہیں۔ کبھی سیڑھی کا وسیلہ۔ کبھی کمند کا حیلہ۔ عشق مجازی کے لئے ضروری ہے کہ کوئی دل کے دروازے پر آ کر دستک دے۔ اس میں آ کر مکین ہو جائے۔ دل کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قابض ہو جائے۔ اس میں اپنی مرضی کی دھڑکنیں جگائے۔ کبھی اسے توڑے۔ کبھی اسے جوڑے۔ کبھی اچانک غائب ہو جائے اور رلا رلا کر دل والے کو عاجز کر دے۔ کبھی ایسا مہربان ہو کہ نہال کر دے۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب دل میں ایسا گداز پیدا ہو جاتا ہے کہ دل والا بات بے بات آبگینے کی طرح پھوٹ پڑتا ہے۔ آنسو اس کی پلکوں کی نوکوں پر موتیوں کی طرح اٹکے رہتے ہیں۔ وہ غم ملے تو روتا ہے۔ خوشی پائے تو روتا ہے۔ سوئے تو روتا ہے۔ جاگے تو روتا ہے۔ سوچے تو روتا ہے۔ سمجھے تو روتا ہے۔ یہ رونا اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ اس وقت۔۔۔ " درویش نے دھیرے سے پلکیں وَا کیں۔ طاہرسر جھکائے، بے حس و حرکت بیٹھا، ہر شے سے بیگانہ اس کی بات سن رہا تھا۔ اس نے طاہر کے چہرے پر نگاہیں جما دیں اور پھر گویا ہوا۔
"اس وقت اس کے دل میں اس قدر نرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہاں رحمان آن بسیرا کرتا ہے اور اگر ذرا سا۔۔۔ " درویش نے انگلی کی پور کے کونے پر انگوٹھے کا ناخن رکھ کر کہا۔ "اتنا سا بھی شیطان کو موقع مل جائے تو وہ چھلانگ مار کر دل کے سنگھاسن پر آ بیٹھتا ہے۔ تب گداز پر غیریت کا پردہ پڑ جاتا ہے۔ رحمانیت رخصت ہو جاتی ہے اور شیطانیت لوریاں دینے لگتی ہے۔ دوئی لپک کر آتی ہے اور وحدانیت سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ پھر انسان، انسان صرف اس حد تک رہ جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر انسانوں جیسے ہیں اور بس۔ اس کے اندر دہکتا عشق کا الاؤ ہوس کی آگ بن جاتا ہے۔ لوگ اس کے ہاتھ پیر چومنے لگتے ہیں۔ اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ جوانیاں اس کے انگ لگتی ہیں تو وہ اسے نفس پر غلبے کا نام دے کر خوش ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ خود شیطان کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔ عشق کے نام پر بھڑکنے والے شعلے پر ہوس کے چھینٹے پھوار بن کر برسنے لگتے ہیں اور پھوار میں بھیگنے کا تو ایک اپنا ہی مزا ہوتا ہے ناں۔ یہ مزا انسان کو عشق کی کسک سے دور لے جاتا ہے۔ اس چبھن سے دور لے جاتا ہے جس کا نام مجاز ہے۔ وہ دھیرے دھیرے اس رنگ میں ایسا رنگا جاتا ہے کہ اس کا اپنا رنگ، عشق کا رنگ ناپید ہو جاتا ہے۔ ہوش اسے تب آتا ہے جب آخری لمحہ اس کے سامنے اس کا کچا چٹھا لئے آن کھڑا ہوتا ہے۔۔۔ مگر اس وقت اس کا ہوش میں آنا بیکار ہو جاتا ہے۔ عشق کے نام پر پھیلائی ہوئی بربادی اسے اپنے پیروں تلے روندتی ہوئی گزر جاتی ہے اور اس کا وجود تو مٹ جاتا ہے تاہم اس کا نام ابد الآباد تک عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ اور اگر۔۔۔ " درویش نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا لہجہ گمبھیر ہو تا چلا گیا۔ آواز میں ایک عجیب سی نرمی پر کھولنے لگی۔۔۔ " اگر یہ گداز رحمانیت کو چھو لے تو عشق مجازی کا ہاتھ عشق حقیقی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ دل، اس کا گھر بن جاتا ہے جو ہر کافر کے دل میں بھی کبھی نہ کبھی پھیرا ضرور ڈالتا ہے۔ پھر جسے وہ چُن لے، وہ کافر رہتا ہے نہ مشرک، بس اس کا بندہ بن جاتا ہے اور جس کا دل اسے پسند نہ آئے وہ اس کے آنے کو یوں بھول جاتا ہے جیسے جاگنے پر خواب یاد نہیں رہتا۔۔۔ عشقِ مجازی کی پہلی منزل عشق کے پہلے حرف عین سے شروع ہوتی ہے۔ عبادت جہاں پھل پانا شروع کرتی ہے، وہاں سے عشق کے دوسرے حرف شین کے رخ سے پردہ اٹھتا ہے۔ شین۔۔۔ " درویش نے ایک مستی بھری سسکی لی۔ "شین۔۔۔ شین سے شک ہوتا ہے پگلے۔ "
"شک۔۔۔ ؟" ایک دم طاہر کا ذہن جھنجھنا اٹھا۔ سارے بدن میں ایک پھریری سی دوڑ گئی۔ لرز کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"ہاں پگلے۔ " درویش کی نگاہیں اسی کی جانب مرکوز تھیں۔ وہ درویش کی لو دیتی آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ زبان کو مزید کچھ کہنے کا یارا ہی نہ رہا۔ وہ ایک بار پھر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گیا۔ درویش کہہ رہا تھا۔
"شک۔۔۔ عشق کو مہمیز کرتا ہے۔ اسے ایڑ لگاتا ہے۔ انسان جس سے عشق کرتا ہے اس کے بارے میں ہر پل، ہر لمحہ شک کا شکار رہتا ہے۔ کبھی اسے یہ شک چین نہیں لینے دیتا کہ اس کا محبوب کسی اور کی طرف مائل نہ ہو جائے تو کبھی یہ شک نیندیں اڑا دیتا ہے کہ کوئی اور اس کے محبوب پر کمند نہ ڈال رہا ہو۔ کبھی یہ شک بے قراری کی آگ کو ہوا دینے لگتا ہے کہ اس کے عشق میں کوئی کمی نہ رہ جائے کہ اس کا محبوب ناراض ہو جائے تو کبھی یہ شک کانٹوں پر لوٹنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کسی اور کے جذبے کی شدت میرے محبوب کو متاثر نہ کر لے۔ شک کے یہ ناگ جب انسان کو ڈسنے لگتے ہیں تو وہ درد کی اذیت سے بے چین ہو ہو جاتا ہے۔ شک اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے محبوب کے آس پاس رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رہے۔ اس پر کسی دوسرے کا سایہ نہ پڑنے دے۔ اسے دل میں یوں چھپا لے کہ کسی کی اس پر نظر نہ پڑے۔ کھو دینے کا یہ خوف اسے کچھ پا لینے کی منزل کی طرف ہانک دیتا ہے۔ جتنی شدت سے یہ شک کا خوف اس پر حملہ آور ہوتا ہے، اتنی ہی جلدی وہ عشق کی یہ دوسری منزل طے کر لیتا ہے۔ جب صدیق کو یہ شک ستاتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے محبوب کے حضور اس سے بڑھ نہ جائے تو گھر کی سوئی تک نچھاور کر دی جاتی ہے۔ جب عمر کو یہ شک مس کرتا ہے تو صدیق سے آگے بڑھ جانے کے لئے رشک کی آخری منزل تمنا بن کر دل میں جنم لیتی ہے۔ جب عبداللہ کو یہ شک بے قرار کرتا ہے تو وہ اپنے سگے باپ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ جب تک وہ اس کے محبوب سے معافی نہ مانگ لے گا وہ اسے مدینہ میں داخل نہ ہونے دے گا۔ جب یہ شک زید کی جان کو آتا ہے تو وہ اپنے باپ کے ساتھ عیش و آرام کی زندگی کو ٹھکرا کر اپنے آقا کے در پر ابدی غلامی کے لمحات کو چُن لیتا ہے۔ قیس کو یہ شک لیلیٰ کے کتے کو چومنے پر مائل کر لیتا ہے کہ وہ اس کتے سے بھی پیار کرتی ہے۔ یہ شک رانجھے کو کان پھڑوا کر جوگی بنا دیتا ہے تاکہ وہ کسی اور کو حالتِ ہوش میں ویسے دیکھ ہی نہ سکے جیسے ہیر کو دیکھتا تھا۔ یہ شک مہینوال کو ران کے کباب بنا کر سوہنی کے حضور پیش کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے اور۔۔۔ یہی شک ہے جو اپنے پر پھڑپھڑاتا ہے تو ساری ساری رات سونے نہیں دیتا۔ انسان کروٹیں بدلتے بدلتے چپکے سے اٹھتا ہے۔ یخ بستہ پانی سے وضو کرتا ہے اور محبوبِ حقیقی کی آرزو میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ میرے علاوہ اور کس کس کی طرف مائل بہ لطف ہے؟ کون کون اس کی مِہر سے فیض یاب ہو رہا ہے؟ کس کس طرح کوئی اس کے حضور آہ و زاری کے نذرانے پیش کر رہا ہے؟ جن سے متاثر ہو کر وہ رونے والوں پر کیا کیا مہربانیاں کر رہا ہے؟ کیا کیا ناز دکھا رہا ہے کہ اپنے عشق کے مبتلاؤں کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا؟ بندہ یہ سبب ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ناپید ہو جاتا ہے کہ جس کے باعث اس کا رب اوروں پر مہربان اور اس خام و ناکام کی طرف سے لاپروا ہوا بیٹھا ہے۔ بندہ اس شک میں مبتلا رہتا ہے کہ اس کا خالق، اس کا مالک اس کے علاوہ باقی سب پر مہربان ہے۔ اور ایسا ہے تو کیوں ؟ یہ "کیوں "اسے اپنے مالک کے حضور لرزہ بر اندام رکھتا ہے۔ اس "کیوں " کا جواب پانے کے لئے یہ شک اسے ایسے قیام میں ڈبو دیتا ہے کہ اپنی خبر بھی نہیں رہتی۔ ایسے رکوع میں گم کر دیتا ہے کہ اس کی طوالت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ سُوہ لینے کی اس حالت میں یہ شک رات رات بھر سجدے کراتا ہے۔ ایسے سجدے کہ سر اٹھانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ لگتا ہے کہ ابھی سجدے میں سر رکھا تھا کہ فجر کی اذان ہو گئی۔ محبوبِ حقیقی کی دبے پاؤں یہ تلاش اس شک ہی کی دین ہوتی ہے جس میں انسان یہ سوچ کر نکل کھڑا ہوتا ہے کہ:
کوٹھے تے پِڑ کوٹھڑا ماہی، کوٹھے سُکدیاں توریاں
ادھی ادھی راتیں جاگ کے میں نپیاں تیریاں چوریاں "
بڑی پُرسوز آواز میں درویش نے تان لگائی۔
طاہر کا دل ایک دم کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ اس کی حالت ایسی غیر ہوئی کہ وہ بیقراری کے عالم میں سر مار کر رہ گیا۔ دونوں ہتھیلیاں پہلوؤں میں چٹائی پر ٹیکے وہ ہلکورے لے رہا تھا۔ جھوم رہا تھا۔ لوہا جانے کیسا گرم تھا کہ ایک ہی چوٹ نے اسے سانچے میں ڈھال دیا۔
"وہ جو سب کا محبوبِ حقیقی ہے۔ محبوبِ ازلی ہے۔ اسے اپنے علاوہ کسی اور کی طرف مائل دیکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ " درویش نے ایک سرد آہ بھری۔ "مگر۔۔۔ " اس کے ہونٹوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ نے جنم لیا۔ " وہ تو سب کا محبوب ہے ناں۔ سوائے ایک کے کسی اور ایک کا ہو کر رہنا اس کی سرشت ہی میں نہیں۔ جس ایک کا وہ ہے، اسے اس نے اپنا محبوب بنا لیا ہے۔ باقی سب کا وہ مشترکہ محبوب ہے۔ اسی لئے تو وہ ہر جگہ مل جاتا ہے۔ ہرجائی جو ہے۔۔۔ ہرجائی۔۔۔ ہر جگہ مل جاتا ہے۔ " درویش کی آنکھوں کے سوتے ابل پڑے۔ "ہرجائی۔۔۔ وہ تیرا بھی ہے اور میرا بھی۔ اس کا بھی ہے اور اُس کا بھی۔ یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔۔۔ وہ سب کا ہے اور کسی کا بھی نہیں۔۔۔ ہرجائی۔ " وہ بچوں کی طرح سسک پڑا۔ "مگرکیسا ہرجائی ہے وہ کہ ہر جگہ ہے اور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ پھڑائی نہیں دیتا۔ لکن میٹی کھیلتا ہے ہمارے ساتھ۔ خود چھپا رہتا ہے اور ہمیں ڈھونڈنے پر لگا دیا ہے۔ پھر کہتا ہے میں تو تمہاری شہ رگ کے قریب ہوں۔ سرجھکاؤ اور مجھے پا لو۔ میں تمہارے دل میں رہتا ہوں۔ دل۔۔۔ جس میں اس کے عشق کے تینوں حرف اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ شک ان میں سب سے زیادہ لاڈلا ہے۔ اسے کھل نہ کھیلنے دو تو یہ روٹھ جاتا ہے۔ منہ پھیر کر چل دیتا ہے۔ اسے کبھی دل سے جانے نہ دینا پگلے۔ اس کے ہونے سے ہی عشق کی سج دھج ہے۔ عشق کا الاؤ اسی چنگاری سے دہکتا ہے۔ یہ چنگاری سلگنا بند کر دے تو عشق کا شعلہ سرد پڑنے لگتا ہے۔ دم توڑنے لگتا ہے۔ یہ شک ہی ہے جو انسان کا ہاتھ پکڑ کر عشقِ مجازی کے راستے سے عشقِ حقیقی کی منزل تک لے جاتا ہے۔ محبوب کی نظروں میں ہلکا پڑ جانے کا شک انسان کو کبھی بے وزن نہیں ہونے دیتا۔ اسے محبوب سے دور نہیں جانے دیتا۔ دل میں پھانس بن کر اٹک جانے والا یہ شک۔۔۔ " درویش رک گیا۔
"بولتے رہئے بابا۔ رکئے مت۔ " طاہر نے مچل کر درویش کی جانب دیکھا۔ جان سمٹ کر جیسے لبوں پر آ گئی۔
طاہر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے درویش کے لبوں پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔ طاہر اس مسکراہٹ سے اور بے قرار ہو گیا۔
"یہی وہ شک ہے۔ وہ پھانس ہے۔ عشق کے شین کی یہی وہ شدت ہے جس نے کسی تیسرے کا خوف تیرے دل میں بٹھا دیا ہے۔ "درویش نے اس کی جانب انگلی سے اشارہ کیا۔
طاہر کے دل کا بھید آشکار ہوا تو وہ حیرت سے سُن ہو گیا۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے ہونٹ کھولے۔
"نہ۔۔۔ " درویش نے انگلی اس کی جانب اٹھا دی۔ اسے بولنے سے روک دیا۔ "تجھے یہ شک نہیں ہے کہ تیری پگلی اور اس تیسرے میں کوئی واسطہ ہے۔ نہ نہ۔ تجھے تیرے عشق کی شدت نے ا س شک میں مبتلا کر دیا ہے کہ کسی روز وہ سامنے آ گیا تو اس کے عشق کی شدت تیری پگلی کو تجھ سے دور نہ لے جائے۔ وہ ایک پل کو بھی اگر اس کے بارے میں کچھ سوچ لے گی تو تیرا کیا حال ہو گا؟ اس کا خیال بھی تیرے اور تیری پگلی کے درمیان نہ آ جائے، یہ شک تجھے تیری پگلی کے قریب نہیں جانے دیتا۔ ایساہی ہے ناں پگلے؟" درویش نے اس کی جانب مسکرا کر دیکھا۔
بے بسی سے ہونٹ کاٹتے ہوئے طاہر نے سر جھکایا اور اثبات میں ہلا دیا۔
"اسی لئے تو میں تجھے پگلا اور اسے پگلی کہتا ہوں جو دن رات تیری پوجا کرتی ہے۔ پگلا ہونے میں بڑا فائدہ ہے۔ سیانا ہو جائے ناں بندہ تو اس کے ہر ہر فعل کی جانچ ہوتی ہے۔ اس کا امتحان لیا جاتا ہے جیسے حافظ عبداللہ کا لیا گیا۔ اسے تو اس کی پگلی نے بچا لیا۔ تو بول۔ تیرے پاس کوئی پگلی ہے جو تجھے بچا لے؟"
جواب میں طاہر درویش کو درد بھری نظروں سے دیکھ کر رہ گیا۔ اس کے پاس درویش کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
" ہے۔ تیرے لئے ہونی تو سیانی چاہئے تھی مگر اس کے رنگ نیارے ہیں۔ اس نے تجھ جیسے پگلے کو سیانی نہیں دی، پگلی ہی دی۔ وہ جو تیرے گھر میں پڑی ہے ناں۔ تیرے جیسی ہی پگلی ہے۔ پگلا اور پگلی۔ دونوں کو سمجھانے کے لئے میری جان عذاب میں آئی ہوئی ہے۔ اسے تو کیا سمجھاؤں گا، تو ہی اکیلا کافی ہے میرے لئے۔ " وہ بگڑ گیا۔
"بابا۔ " طاہر نے لجاجت سے کہتے ہوئے اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔
"دیکھ۔ " درویش نرم پڑ گیا۔ " دیکھ پگلے۔ سیانے جو ہوتے ہیں ناں۔ انہیں سب معلوم ہو جاتا ہے اور یہ پھنس جاتے ہیں۔ جو جتنا سبق یاد کرتا ہے اسے اتنا ہی قابل سمجھا جاتا ہے۔ اور جو جتنا قابل ہوتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ذمے داری نبھانا پڑتی ہے۔ پھر ان سیانوں کی کمر دوہری ہو جاتی ہے ذمے داری کے بوجھ سے۔ آزمائش اور امتحان کے کانٹوں بھرے طویل راستے پر احتیاط کا دامن پھٹنے نہ پائی، یہ احساس انہیں اس اکیلے کی طرح تنہا کر دیتا ہے جس کا عشق ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ پھر بھی یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کب ان کا نتیجہ فیل ہونے کی صورت میں نکل آئے۔ اس کے مقابلے میں تجھ جیسے پگلے بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ اتنا ہی جانتے ہیں جس سے گزارا ہو جائے۔ بس خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ سر جھکائے عشق کے سفر پر چل دیتے ہیں۔ دنیا بھی نبھ جاتی ہے اور مقصود بھی ہاتھ آ جاتا ہے۔ جہاں غلطی ہو جائے، کوتا ہے ہو جائے، وہاں معافی بھی مل جاتی ہے، پگلا ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔ جبکہ سیانا بیچارہ معافی کے لفظ سے ہی نا آشنا ہو جاتا ہے۔
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا "
کہہ کر درویش قلقاری مار کر ہنسا۔ طاہر اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کی ہر ہر بات ایک نیا بھید، ایک نیا راز آشکار کر رہی ہو اور اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ ان رازوں کو ان بھیدوں کو کہاں سنبھال کر رکھے کہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔
"اسی لئے کہا تھا میں نے کہ اس پگلی کو چھوڑنے کا خیال بھی کبھی دل میں مت لانا۔ اس پر، اپنے جذبے پر شک کر تو صرف اس لئے کہ تو اسے جی جان سے چاہتا ہے۔ اسے کھو دینے کا ڈر اس کے ساتھ کسی کا بھی نام آتا دیکھنا نہیں چاہتا، یہ اچھا ہے۔ اس طرح تیرا اس سے عشق کا تعلق "دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی "جیسا ہو جائے گا۔۔۔ مگر کبھی اس پر شبہ نہ کرنا۔ شک اور شُبے میں یہی بنیادی فرق ہے پگلی۔ عشق میں شک جائز بھی ہے اور ضروری بھی، اگر کھوٹ درمیان میں نہ آئے اور شُبہ۔۔۔ الامان الحفیظ۔۔۔ " درویش نے کانوں کو لووں کو چھوتے ہوئے کہا۔ "عشق میں شُبہ در آئے تو پاک دامن بیوی بیسوا نظر آتی ہے۔ بستر کی شکنوں میں کسی باہر والے کا جسم لپٹا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا بناؤ سنگھار کسی دوسرے کے لئے لگتا ہے۔ کاجل کی دھار، گناہ آلود راتوں کی طرح خیالات پر بال کھولے بین کرنے لگتی ہے۔ شُبے سے ہمیشہ بچنا۔ اسے کبھی دل میں جگہ نہ دینا۔ پھر تو بچا رہے گا برباد ہونے سی۔ "
" آپ روشن ضمیر ہیں بابا۔ " طاہر کے حواس لوٹ رہے تھے۔ " آپ جانتے ہیں میں نے صفیہ کو کبھی شبے کی نظر سے نہیں دیکھا۔ جو پھانس تھی وہ کسی حد تک نکال دی ہے آپ نے۔ "
"یعنی ابھی اس کی ٹیس کچھ باقی ہے دل میں ؟" درویش نے بھویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
"بس اتنی سی بابا کہ اگر کبھی سرمد لوٹ آیا تو۔۔۔ ؟" اس نے سر جھکا لیا۔
"تو۔۔۔ " درویش نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ " تو کیا ہو گا؟

عشق کا قاف (قسط نمبر 12)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font, ishq ka qaaf novel pdf download
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں