عشق کا قاف (قسط نمبر 14)

 ishq ka qaaf novel pdf download

عشق کا قاف (قسط نمبر 14)

پندرہ دن کا وقت پر لگا کر اُڑ گیا۔
داؤد نے سرمد کو ٹریننگ کیمپ میں زین خان کے حوالے کیا۔ اسے کمانڈر کے حکم سے آگاہ کیا اور خود تین ساتھیوں کے ساتھ لوٹ گیا تھا۔
ٹریننگ کیمپ کشمیر کی اترائی میں ایک ایسی جگہ قائم تھا جہاں سے آزاد کشمیر کو جانے والا ایک محفوظ تر خفیہ راستہ موجود تھا۔ بھارتی افواج کی نگاہوں سے یہ مقام اس لئے بھی پوشیدہ تھا کہ اوپر سے یہ گہری کھائی لگتا تھا، جس میں اترنا بظاہر محال مگر بباطن بیحد آسان تھا۔ آسان ان کے لئے جو اس اترائی میں جانے والی قدِ آدم گھاس میں چھپی اس پگڈنڈی سے واقف تھے جو اپنے مسافروں کے قدموں کے نشان اس طرح اپنی آغوش میں چھپا لیتی تھی جیسے کوئی ماں اپنے بیٹے کے عیب پر پردہ ڈال لیتی ہے۔
زین خان نے پندرہ دن میں سرمد کو کلاشنکوف، ریوالور اور راکٹ لانچر چلانے میں طاق کر دیا۔ گوریلا ٹریننگ کے باقی مراحل میں اس نے سرمد کو خاص خاص باتوں سے واقف کرایا اور سولھویں دن رات کو وہ پھر شکارے پر کمانڈر کے سامنے موجود تھا۔
"بیٹھو سرمد۔ " کمانڈر نے زین خان کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ سیلوٹ کر کے کمرے سے نکل گیا۔ سرمد کمانڈر کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا۔ آج وہ گوریلا یونیفارم میں تھا۔ سر پر سفید رومال بندھا تھا جو سر پر کفن باندھ کر راہِ خدا میں نکل پڑنے کی علامت تھا۔ کمانڈر کچھ دیر فرش کو گھورتے سرمد کی جانب بڑی گہری نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر اس کے لبوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ ابھری۔
"کوئی الجھن؟ کوئی پچھتاوا؟ کوئی بے چینی سرمد؟"
"نہیں کمانڈر۔ " سرمد نے نفی میں سر ہلایا۔ "بس یوں لگتا ہے جیسے میں کہیں جانا چاہتا ہوں۔ کوئی مجھے بلا رہا ہے۔ یہ مرحلہ طے نہیں ہو رہا۔ "
"ہاں۔ " کمانڈر کے چہرے پر سنجیدگی نے جنم لیا۔ "یہ ہوتا ہے۔ جب تم جیسے سچے جذبوں والے سر پر کفن باندھ لیتے ہیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلاوا آ جاتا ہے تو انتظار مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک بات ذہن میں بٹھا لو سرمد۔ جس مشن کے لئے میں نے تمہیں چُنا ہے، اس کی کامیابی اور ناکامی سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ تم اس میں کیا کردار ادا کرتے ہو؟ کشتیاں جلا کر جانا ہو گا تمہیں۔ واپسی کس روپ میں ہو گی، کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن یہ طے ہے کہ تم جس پکار پر جا رہے ہو، اس کے لئے جان لینا اور جان دینا، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ "
"مجھے صرف اس بات کی پروا ہے کمانڈر کہ میں جس تڑپ کے ہاتھوں بے حال ہو رہا ہوں اسے قرار کب ملے گا؟کیسے ملے گا؟" سرمد نے نظر اٹھائی۔ اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈوروں سے مستی سی چھلک رہی تھی۔
"عشاق میں شامل ہوئے ہو سرمد۔ عشق تم پر نازل ہو چکا ہے۔ فصل پک چکی ہے۔ اب تو پھل پانے کا موسم ہے۔ اپنی بے قراری کو مہمیز کرتے رہو۔ یہ ضروری ہے۔ تمہارے لبوں پر جو ورد جاری ہوا ہے اس کا کوئی مقصد ہے۔ کوئی اشارہ ہے اس میں۔ کوئی رمز ہے اس کے اندر۔ "
سرمد نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ کمانڈر کیسے جانتا ہے کہ وہ ہر وقت درود پڑھتا رہتا ہے؟ اس کے ذہن میں سوال ابھرا۔
"سوالوں میں نہ الجھو سرمد۔ جواب کی طرف دھیان دو۔ میں نہیں کہہ سکتاکہ تم اس مہم سے زندہ لوٹو گے یا شہادت کا جام تمہارا منتظر ہے لیکن اتنا بتا سکتا ہوں کہ جہاں سے تمہاری ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا حکم جاری ہوا ہے، وہاں سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں آیا۔ تم بھی لوٹو گے تو کامیاب ہو کر۔ انشاء اللہ۔ "
"انشاء اللہ۔ " بے اختیار سرمد کہہ اٹھا۔
"داؤد، حمزہ، حسین اور تم سمیت بیس سرفروش اس مہم پر آج رات جا رہے ہیں۔ " کمانڈر نے اپنی جگہ چھوڑ دی تو سرمد بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ "میں تمہیں کوئی ہدایت نہیں دوں گا۔ تم عشق کا سبق پڑھ چکے ہو۔ اب تو اسے سنانے کا وقت ہے۔۔۔ اور سنانے میں کہیں اٹکنا مت سرمد۔ کہیں زبان کو لڑکھڑانے مت دینا۔ جاؤ اور سرخرو ہو جاؤ۔ "۔ کمانڈر نے دونوں ہاتھ اس کے سر پر رکھ دئیے۔ پھر پیشانی پر بوسہ دیا اور کھینچ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ "ان سے کہنا۔ میں تمہارا کوئی ناز نہیں اٹھا سکا۔ مجھے معاف فرما دیں۔ " اس نے سرمد کے کان میں سرگوشی کی۔
ایک دم جیسے سرمد کا سارا جسم جھنجھنا اٹھا۔ ایک کیف سا رگ و پے میں دوڑ گیا۔ اسے لگا کہ اس کا جسم ایک بار پھر ہوا سے ہلکا، بے وزن ہو گیا ہے۔ کمانڈر نے کس کے بارے میں یہ بات کہی؟ اس نے سوچنا ہی نہ چاہا۔ جیسے اسے سمجھ آ گیا ہو۔ جیسے اس نے سب جان لیا ہو مگر اس کا بولنے کو جی ہی نہ چاہا۔ وہ بے زبان ہو گیا۔ سبق یاد ہو جانے کی بات اس کے دل سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔ کمانڈر کا پیغام اسے لوریاں دے رہا تھا۔
کمانڈر نے اسے خود سے الگ کیا۔ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لے کر اس کے چہرے کو اپنی برق لٹاتی نم آنکھوں سے دیکھا اور بے اختیار اس کے دائیں گال پر پیار کر لیا۔ پھر ایک قدم پیچھے ہٹا اور سرمد کی مست نگاہی نے دیکھا کہ دونوں پاؤں جوڑ کر کمانڈر نے اسے ایک زوردار سیلوٹ کیا۔ جواب میں وہ بھی ایک قدم پیچھے ہٹا اور کمانڈر کو سیلوٹ کر کے واپسی کے لئے پلٹ گیا۔
وہ جا چکا تھا مگر کمانڈر اسی طرح اپنی تین انگلیوں سے پیشانی چھوئے ہوئے دروازے کو گھور رہا تھا۔ بھیگی ہوئی دھند تھی کہ آنکھوں میں بڑھتی جا رہی تھی۔ لو دیتی شبنم تھی کہ تن من کو بھگو رہی تھی اور جھومتا ہوا دل تھا کہ ایک ہی ورد الاپ رہا تھا۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
رات کا آخری پہر شروع ہو چکا تھا۔
داؤد کی کمان میں وہ انیس سرفروش تاروں کی باڑ کاٹ کر زمین پر رینگتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ چھاؤنی نمبر سینتالیس کے اندر اپنے اپنے ٹارگٹ پر ریموٹ کنٹرول بم نصب کئے۔ پھر سانپ کی سی تیزی سے اپنا کام ختم کر کے اپنی اپنی جگہ دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ سرچ لائٹ سے بچ بچا کر کام کرنا بہت مشکل تھا مگر وہ مشکل کو نہیں ، ناممکن کو ممکن کر دکھانے آئے تھے۔
مشن کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا تو اپنی اپنی جگہ سے انہوں نے بڑی ترتیب کے ساتھ چھاؤنی کے اندر مختلف جگہوں کو تاک لیا۔ داؤد، حسن اور سرمد کے حصے میں ٹارچر سیل سے قیدیوں کو رہا کرانے کی ذمہ داری آئی۔ حمزہ نے سات ساتھیوں کے ساتھ ایمونیشن ڈپو اڑانے کا کام سنبھالا۔ قاسم اور اس کے چار ساتھیوں کو چھاؤنی کا دایاں اور خالد اور اس کے چار ساتھیوں کو بایاں حصہ تباہ کرنا تھا۔
سب سے پہلے قاسم نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنے ساتھیوں سمیت سامنے آ گیا۔ ریموٹ کا بٹن دباتے ہی چھاؤنی کی سرچ لائٹ والا حصہ دھماکوں کی زد میں آ گیا۔ چیخیں ، شور، دھماکے، فائرنگ۔ ایک قیامت برپا ہو گئی۔ بیس سیکنڈ بعد ان کی تقلید میں خالد نے بایاں حصہ اڑا دیا اور اب وہ دس کے دس سرفروش، بھارتی فوجیوں کے لئے جہنم کے دہانے کھولے میدان میں پھیلے ہوئے انہیں گولیوں سے بھون رہے تھے۔
اس افرا تفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے داؤد، سرمد اور حسن ٹارچر سیل کے قریب پہنچ گئے۔ ہر طرف دھول اڑ رہی تھی۔ اپنے پرائے کی تمیز ختم ہو چکی تھی۔ سرچ لائٹ کی تباہی نے بھارتی فوجیوں کے لئے بڑی مشکل کھڑی کر دی تھی۔ اندھیرے میں انہیں اچانک شب خون نے دوہری تباہی سے دوچار کر دیا تھا۔ ان کے اکثر فوجی ان کی اپنی ہی فائرنگ کا شکار ہو رہے تھے۔ پھر کسی کو عقل آئی اور اس نے چیخ کر جگہ جگہ کھڑی جیپوں اور دوسری فوجی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس آن کرنے کے لئے کاشن دیا۔ مگر انہیں دیر ہو چکی تھی۔ خالد اور قاسم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرعت کے ساتھ حرکت کی اور ساری چھاؤنی میں بھاگتے دوڑتے ہوئے گاڑیوں پر راکٹ لانچروں کی برسات کر دی۔ تب وہاں روشنی کا سیلاب آ گیا۔ ہاں۔ بھارتی فوجیوں کی اپنی ہی جلتی ہوئی گاڑیوں سے اٹھتے شعلوں نے ہر طرف چراغاں کر دیا مگر یہ چراغاں انہیں بہت مہنگا پڑا۔ پٹرول بموں نے انہیں زندہ جلانے کا کام شروع کر دیا اور وہ جوابی حملے کے بجائے چیختے چلاتے اپنی جانیں بچانے کے لئے دوڑنے لگے۔ بھاگنے لگے۔ تب خالد، قاسم اور ان کے ساتھیوں کے لئے ان کا شکار اور بھی آسان ہو گیا۔
داؤد، سرمد کے ساتھ فائرنگ کرتا ہوا ٹارچر سیل کی سیڑھیاں اترتا جا رہا تھا اور وہاں موجود بھارتی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کام بڑی تیزی سے مکمل کر رہا تھا۔ حسن تہ خانے کے گیٹ کے اندر کھڑا رہ کر دشمنوں کی خبر لینے لگا۔ اس کی کلاشنکوف کے برسٹ بھارتیوں کے لئے موت کا راگ الاپ رہے تھے۔
بمشکل ڈیڑھ منٹ میں وہاں موجود تمام درندوں کا صفایا ہو گیا۔ تب انہیں اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لینا پڑے۔
انہوں نے ادھر ادھر سے چادریں ، پتلونیں اور قمیضیں اٹھا اٹھا کر تباہی و بربادی کی ان داستانوں پر ڈالنا شروع کیں جو انہیں ویران ویران نظروں سے گھور رہی تھیں۔ ان کے برہنہ جسم اَن کہی کہانیاں سنا رہے تھے۔ جسموں پر نشتروں ، سگریٹوں اور بھنبھوڑنے کے نشانات درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ زنجیروں اور لوہے کے حلقوں میں جکڑے دیواروں کے ساتھ بازوؤں کے سہارے اور الٹے لٹکائے گئے زخمی نوجوانوں کو آزاد کرانے میں انہیں تین چار منٹ لگ گئی۔ نوجوانوں میں سے جو تھوڑا بہت بھی ہوش رکھتے تھی، انہوں نے کتوں کی طرح مرے پڑے بھارتی فوجیوں کی کلاشنکوفیں ، رائفلیں اور دوسرا اسلحہ اٹھایا اور گرتے پڑتے باہر کو بھاگے۔ حسن نے انہیں قطعاً نہ روکا۔ ان کے انتقام کی آگ میں بھارتی درندوں کو جل جانے دینا اس وقت بہت ضروری تھا۔
سات بیحد نازک حالت میں زخمی آدمی تھے جنہیں باری باری حمزہ اور سرمد نے باہر پہنچایا جہاں انہیں ان کے ایک ساتھی نے ایک بڑی جیپ میں ڈالا اور چھاؤنی کے خارجی راستے کی طرف طوفانی رفتار سے روانہ ہو گیا۔
تیرہ لڑکیاں اور عورتیں تھیں جو اپنے عریاں جسموں کو چیتھڑوں ، فوجی وردیوں اور چادروں میں سمیٹے باہر نکلیں اور دوسری جیپ میں سوار کر کے انہیں بھی پہلی جیپ کے تعاقب میں روانہ کر دیا گیا۔ اس وقت تک بھارتیوں کو سنبھلنے کا کچھ موقع مل گیا۔ انہوں نے دونوں جیپوں کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر جیپوں کے عقبی حصے میں سوار خالد اور قاسم نے ان پر وہ دھواں دھار فائرنگ کی کہ انہیں جان بچانے کے لئے بھاگتے ہی بنی۔ ہوا یہ تھا کہ اچانک حملے اور اندھیرے کے باعث ایک تو بوکھلاہٹ میں انہوں نے اپنے بے شمار فوجی مار ڈالے۔ دوسرے ان کے نقصان کا ایک بڑا سبب یہ بنا کہ ایک دن پہلے وہاں سے تقریباً تیس ہزار فوجیوں کی نفری چھاؤنی نمبر انتیس میں منتقل کی گئی تھی۔ ان کی جگہ نئے فوجی دستے پہنچنے میں ابھی بارہ گھنٹے باقی تھے کہ ان پر یہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ بیالیس ہزار کی جگہ اس وقت وہاں صرف بارہ ہزار فوجی تھے جن کا صفایا ایسے شبخون میں ذرا سی سمجھداری سے مشکل تو تھا، ناممکن نہیں۔
ٹارچر سیل سے فارغ ہو کر سرمد، داؤد اور حسن بھی حمزہ کے ساتھ آ ملے۔ دھماکوں ، چیخوں اور فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جوبن پر تھا۔ وہ لوگ ایک گڑھے نما مورچے میں چھپے بیٹھے باہر پھیلتی تباہی کا نظارہ کر رہے تھے۔
"اپنے کتنے ساتھی کام آئے؟" داؤد نے آواز دبا کر حمزہ سے پوچھا۔
"سات۔ " اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ " ان کی لاشیں ابھی ابھی نکلوائی ہیں یہاں سے میں نے۔ "
"اب ہم یہاں کل کتنے لوگ ہیں ؟"
"چار۔ " حمزہ کے لبوں پر بڑی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ "باقی سب کو روانہ کر دیا ہے میں نے، جیپوں اور لاشوں کے ساتھ۔ "
سرمد بے چینی سے باہر جھانک رہا تھا۔ اس کی نظریں سامنے ایمونیشن ڈپو پر پڑیں تو اس نے چونک کر داؤد کی توجہ اس طرف دلائی۔ تین چار بھارتی فوجی ڈپو کا بڑا سا لوہے کا گیٹ کھول رہے تھے۔
"یہ کیا کرنے جا رہے ہیں ؟" داؤد سرسرایا۔
"میرا خیال ہے اسلحے کے ساتھ ریزرو گاڑیاں بھی اندر ہوں گی۔ باہر موجود تقریباً تمام گاڑیاں تو بیکار ہو چکی ہیں۔ " حمزہ نے جواب دیا۔
"ایمونیشن ڈپو کے گرد کتنے بم نصب کئے گئے ہیں ؟"
"ایک بھی نہیں۔ " حمزہ نے جواب دیا تو داؤد کے ساتھ ساتھ سرمد اور حسن بھی چونک پڑی۔
"وہ کیوں ؟" داؤد نے تیزی سے پوچھا۔
"بم نوید کے پاس تھے اور وہ سب سے پہلے شہید ہوا۔ اس کی لاش روانہ کر دی گئی تو خیال آیا۔۔۔ "
"اوہ۔۔۔ " داؤد چکرا کر رہ گیا۔ " اب کیا کریں ؟"
موجود اسلحے کا جائزہ لیا گیا تو ایک اور خوفناک انکشاف ہوا۔ ان کے پاس راکٹ لانچر بھی نہ تھا۔ کل ملا کر چار کلاشنکوفیں ، دو ریوالور، چالیس کے قریب راؤنڈ اور ایک دستی بم ان کے پاس بچا تھا۔
"دستی بم دھماکہ تو کر سکتا ہے مگر ایک فرلانگ میں پھیلے اس ایمونیشن ڈپو کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتا۔ " داؤد نے کچھ سوچتے ہوئے بیتابی سے کہا۔
"پھر اب کیا کیا جائے؟ ہم اس ڈپو کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ " حسن نے زبان کھولی۔
"ایسا تو سوچو بھی مت۔ " حمزہ نے فوراً کہا۔ "ہم مٹ جائیں گے مگر مشن کو ادھورا چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ "
داؤد جواب میں اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔ اس کا دماغ تیزی سے کسی حل کی تلاش کر رہا تھا۔ اسی وقت ڈپو کا گیٹ پوری طرح کھل گیا اور باہر کھڑے کرنل رینک کے آفیسر نے ڈپٹ کر اپنے ارد گرد جمع فوجیوں سے کہا۔
"فوراً گاڑیاں نکالو اور ان کے تعاقب میں نکل جاؤ۔ یہاں سے بیس میل تک سڑک پر کوئی موڑ نہیں ہے۔ ابھی وہ اتنا فاصلہ طے نہیں کر سکے ہوں گے۔ جلدی کرو۔ "
فوجی اپنی گنیں سنبھالتے ہوئے اندر کو بھاگے۔ داؤد کسی زخمی شیر کی طرح غرایا اور پہلو بدل کر رہ گیا۔
"داؤد بھائی۔ میں کچھ کر سکتا ہوں۔ " اچانک سرمد بولا تو وہ تینوں چونکے۔
"کیا؟" بے اختیار داؤد نے پوچھا۔
" آپ یہیں میرا انتظار کیجئے۔ " کہتا ہوا سرمد ایک دم اٹھا اور گڑھے سے نکل گیا۔
"سرمد۔۔۔ " داؤد نے بڑی تیز سرگوشی کی۔ پھر ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر آواز دبا لی۔ تب تک سرمد نیچا نیچا دوڑتا ہوا ایک مردہ بھارتی فوجی کے پاس رکا۔ اسے پرے دھکا دے کر اس کے نیچے سے راکٹ لانچر نکالا اور آہستہ سے ان کی طرف لڑھکا دیا۔ حمزہ نے ذرا سا اونچا ہو کر ہاتھ بڑھایا اور اسے گڑھے میں کھینچ لیا۔ اسی وقت سرمد زمین پر گرا اور سانپ کی طرح رینگتا ہوا پچیس تیس قدم دور ایک دوسرے فوجی کے پاس جا رکا۔ اس کے پاس پڑا ایمونیشن بیگ تھاما اور واپسی کے لئے رخ بدل لیا۔ دو منٹ کے اندر اندر وہ اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا۔ اس کے ہاتھ میں جو بیگ تھا اس میں پانچ راکٹ موجود تھے۔
"شاباش سرمد۔ میرے شیر تم نے تو کمال کر دیا۔ " داؤد نے اسے خودسے لپٹا لیا۔ حمزہ اور حسن بھی اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
داؤد نے راکٹ، لانچر میں لاؤنج کیا۔ تقریباً چھ انچ اوپر اٹھ کر لانچر کو گڑھے کے کنارے پر رکھ دیا اور نشانہ لینے لگا۔ باقی سب لوگ اپنی اپنی جگہ کانوں پر ہاتھ رکھے ایمونیشن ڈپو کے گیٹ کو دیکھ رہے تھے۔
جونہی پہلی جیپ کی ہیڈلائٹس آن ہوئیں اور روشنی کی لکیر نے گیٹ سے باہر قدم رکھا، داؤد نے راکٹ فائر کر دیا۔
دوسرے پل ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا اور گیٹ اپنے ساتھ وہاں موجود فوجیوں کے پرخچے اڑاتا ہوا تباہی کے گھاٹ اتر گیا۔ پھر جب تک انہیں کسی بات کی سمجھ آتی، داؤد نے دوسرا راکٹ فائر کر دیا اور اب کے بار اس کا نشانہ ڈپو کا اندرونی حصہ تھا۔ بس اس کے بعد تیسراراکٹ فائر کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ایمونیشن نے آگ پکڑ لی اور زمین یوں لرزنے لگی جیسے ان کے نیچے کوئی آتش فشاں کروٹیں لے رہا ہو۔ دھماکوں ، چیخوں اور اندھا دھند چاروں طرف فائرنگ کا ایک سلسلہ جو شروع ہوا تو بھارتیوں کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیسے خود کو اس قیامتِ صغریٰ سے محفوظ رکھیں۔
اس دوران ایک بات ایسی ہوئی جس کی طرف مورچے میں چھپے ان چاروں کا دھیان ہی نہ گیا۔ پہلے راکٹ نے ان کی سمت کی نشاندہی کر دی تھی، اس کا انہیں احساس ہی نہ ہوا۔ جنرل نائر گاڑیوں میں مجاہدین کا پیچھا کرنے کا حکم دے کر وہاں سے چل پڑا تھا۔ اسے دوسری جگہوں پر تباہی کا جائزہ لینا تھا۔ اس کے خیال میں تمام مجاہدین تباہی پھیلا کر انہی کی جیپوں پر فرار ہو چکے تھے مگر جونہی پہلا راکٹ فائر ہوا، وہ چونک کر رک گیا۔ اس وقت وہ ایک سلگتی ہوئی جیپ کے پاس تھا اور اس کے دائیں بائیں اور پیچھے پچیس تیس سپاہی گنیں سنبھالے چل رہے تھے۔ ایک دم اس نے ان سب کو نیچے بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور خود بھی جھک کر بھویں سکوڑ کر اس طرف دیکھنے لگا جس طرف سے راکٹ فائر کیا گیا تھا۔ دس سیکنڈ کے وقفے سے جب دوسرا راکٹ فائر ہوا تو اسے داؤد اور اس کے ساتھیوں کی پناہ گاہ کا پتہ چل گیا۔ اسی وقت ایمونیشن ڈپو دھماکوں اور چیخوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ جنرل نائر اس وقت وہاں سے تقریباً ایک سو گز دور تھا۔ زمین اس کے پیروں تلے کانپ رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ اسلحے کے نام پر اب ان کے پاس سوائے بربادی کے نشانات کے کچھ نہیں بچا۔
اس نے دانت اتنے زور سے بھینچے کہ جبڑوں کی ہڈیاں ابھر آئیں۔ بیحد ہلکی آواز میں اس نے اپنے پاس موجود فوجیوں کو ہدایات دیں اور خود ان کی کمان کرتا ہوا اس مورچے کی پچھلی طرف چل پڑا جس میں داؤد اور اس کے ساتھی چھپے بیٹھے تھے۔ چند منٹ بعد مورچے کو عقب اور دائیں بائیں سے اس خاموشی کے ساتھ گھیرے میں لیا گیا کہ ان لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکا کہ دشمن ان کے گرد اپنا جال مضبوط کر چکا ہے۔ پتہ تو اس وقت چلا جب جنرل نائر کی چیختی ہوئی آواز نے فضا کا سینہ چیر ڈالا۔
"ہاتھ اٹھا لو۔ تم لوگ گھیر لئے گئے ہو۔ "
تڑپ کر وہ چاروں پلٹے اور یہ دیکھ کر ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کہ نیم دائرے میں تیرہ چودہ بھارتی فوجی اپنی گنوں کی زد پر لئے انہیں بھون ڈالنے کے لئے تیار کھڑے ہیں اور سب سے آگے جنرل نائر ان کی طرف ریوالور تانے موجود ہے۔
ایک سیکنڈ کے وقفے میں ان سب کی نظروں نے ایک دوسرے سے سوال جواب کئے اور فیصلہ ہو گیا۔ سر پر باندھے کفن کا مول چکانے کا لمحہ آن پہنچا تھا۔ ان سب کے لبوں پر ایک ہی جیسی بڑی جاندار مسکراہٹ ابھری۔
"اللہ اکبر۔ " ایک فلک شگاف نعرے نے سامنے کھڑے دشمن کا دل دہلا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی گنوں کا رخ بھارتیوں کی جانب ہوا اور بابِ جہنم کھل گیا۔
سب سے پہلے حیرت زدہ جنرل نائر کا جسم چھلنی ہوا جس پر داؤد کی کلاشنکوف غرا رہی تھی۔ حسین، سرمد اور حمزہ نے باقی فوجیوں کو نشانے پر رکھ لیا مگر گرتے گرتے جنرل نائر کے ریوالور سے دو فائر ہوئے اور حمزہ کی پیشانی پر مہر شہادت ثبت ہو گئی۔ اسی وقت داؤد نے دشمنوں کی فائرنگ سے بچانے کے لئے حسین اور سرمد کو پرے دھکیل دیا اور خود اوپر اٹھ کر اللہ اکبر کے گرجدار نعرے کے ساتھ آگ برساتی کلاشنکوف کو نیم دائرے میں گھما دیا۔ سات آٹھ فوجیوں کو کھیت کرتا ہوا داؤد مسلسل "اللہ اکبر اللہ اکبر"کا اعلان کرتا ہوا مورچے سے نکلا اور چھلنی ہوتا چلا گیا۔ پہلے فوجیوں کے عقب میں موجود فوجیوں کی دوسری قطار نے اس وقت تک اس پر فائرنگ جاری رکھی جب تک اس کا جسم زمین پر گر کر بے حس و حرکت نہ ہو گیا۔ اور گرا وہ ایسے زاویے سے کہ اس کا چہرہ مورچے میں موجود حسین اور سرمد کی جانب ہو گیا۔ اس کے لبوں سے جو آخری الفاظ نکلی، وہ تھی۔
" لبیک اللھم لبیک۔ "
داؤد نے انہیں دشمن کی گولیوں سے بچانے کے لئے جو ایک طرف دھکا دیا تھا اس کے باعث سرمد کا سر مورچے کی سیمنٹڈ دیوار سے بڑے زور سے ٹکرایا اور وہ کوشش کے باوجود اپنے ذہن میں چھاتی تاریکی سے بچ نہ سکا۔ اس کی بیہوشی سے بے خبرحسین نے اپنے لڑھکتے جسم کو سنبھالا اور کسی زخمی شیر کی طرح اچھل کر گرجتا ہوا دشمن کی طرف لپکا۔ مورچے سے باہر نکلتے نکلتے اس کی کلاشنکوف تقریباً چھ بھارتیوں کو چاٹ گئی مگر شدید زخمی جنرل نائر نے اس وقت بھی فوجی ہمت کا مظاہرہ کیا اور آخری تین گولیاں حسین کا سینہ ادھیڑتی ہوئی نکل گئیں۔
"اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کی سرگوشی حسین کے لبوں پر ایک ابدی مسکراہٹ بن کر منجمد ہوئی اور وہ اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو گیا۔
ڈرے ہوئی، بزدل اور موت کے خوف سے لرزہ بر اندام فوجیوں کے برسٹ اس کے ساکت جسم کو چھلنی کرنے میں مصروف تھے جب زخموں سے چور جنرل نائر کو دو تین سپاہیوں نے اٹھنے میں مدد دی۔ اس کی نظر داؤد، حمزہ اور پھر حسین پر سے ہوتی ہوئی مورچے میں بے حس و حرکت پڑے سرمد پر آ ٹھہری۔ ایک دم اس نے اپنا بایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا۔
"بس۔۔۔ " وہ زور سے چیخا۔ "بے وقوفو۔ وہ مر چکے ہیں۔ لاشوں پر گولیاں برسانا تمہاری عادت بنتی جا رہی ہے۔ "
ایک دم فائرنگ کا سلسلہ رک گیا۔ خاموشی کی چادر تن گئی۔ خون میں نہایا ہوا جنرل نائر بڑی مشکل سے اٹھا اور دائیں بائیں دو فوجیوں کے سہارے کھڑا ہو گیا۔
"دیکھو۔ یہ زندہ ہے یا۔۔۔ "
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ کوئی فوجی آگے نہ بڑھا۔ سب ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔
"سنا نہیں تم نے۔ " کرنل ان پر برس پڑا۔ "نامردو۔ حرامزادو۔ نیچے اتر کر دیکھو اسے۔ " اس نے ایک فوجی کی طرف آتشیں نگاہوں سے دیکھا۔ "تم اسے کور کرو۔ " اس نے باقی فوجیوں سے کہا اور ان سب نے گنیں مورچے کی جانب سیدھی کر لیں۔
فوجی نے تھوک نگلا اور گن بے حس و حرکت سرمد کی جانب تانے کانپتے قدموں سے مورچے میں اترنے لگا۔ اس کی جھجک سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ساکت پڑے سرمد سے بھی خوفزدہ ہے۔ مبادا وہ اس پر جھپٹ نہ پڑے۔
مورچے میں اتر کر سب سے پہلے اس نے پاؤں زمین پر پڑی کلاشنکوف پر جمایا۔ پھر جلدی سے بیٹھ کر سرمد کے نتھنوں کے نیچے ہاتھ رکھا۔
"یہ زندہ ہے سر۔ " اس نے تیزی سے کہا اور کھڑے ہو کر بیہوش سرمد پر گن تان لی، جس کا چہرہ سر کے زخم سے لہو لہان ہو رہا تھا۔
فوراً ہی جنرل نائر کے اشارے پر تین اور فوجی مورچے میں اترے اور ہوش و حواس سے بیگانہ سرمد کو قابو کر لیا۔
"اسے میرے سیل میں لے جاؤ۔ " خون بہت بہہ جانے کے باعث غنودگی کا شکار ہوتے جنرل نائر نے کہا۔ " اسے ہر حال میں زندہ رہنا چاہئے۔ یہ ہمیں اپنے ساتھیوں تک لے جا سکتا ہے۔ "
فوجیوں نے سرمد کو نہتا کیا اور مورچے سے باہر اچھال دیا۔ پھر خود باہر نکلے اور اس کے ہاتھ پیچھے باندھ کر گھسیٹتے ہوئے لے چلی۔ جبکہ جنرل نائر دو فوجیوں کے سہارے طبی امداد کے لئے چھاؤنی کے مشرقی حصے کی جانب روانہ ہو گیا۔ آنکھوں میں چھاتی ہوئی بے خبری کے عالم میں اس نے آخری بار ایمونیشن ڈپو سے اٹھتے شعلوں کو دیکھا۔ ہلکے ہوتے ہوئے دھماکوں کی آوازیں سنیں اور اس کا سر سینے پر ڈھلک گیا۔ حواس نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭
طاہر، ایک ایسی این جی او کی سربراہ کی دعوت پر دہلی پہنچا تھا، جو انٹر نیشنل ایمنسٹی سے ربط رکھتی تھی۔ اس نے طاہر کی سرمد کے بارے میں بات سن کر اسے انڈیا آنے کو کہا اور اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انسانی حقوق کی حامی مس مانیا نے طاہر کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ طاہر اسے ایک بار پہلے ایک انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کانفرنس میں مل چکا تھا۔ وہ تبھی سے اس کی شیدائی تھی۔
اٹھائیس سالہ مانیا حسن کا شاہکار تھی۔ ابھی تک کنواری تھی اور بائیس تئیس سے زیادہ کی نظر نہ آتی تھی۔ اس کی نظروں میں طاہر کے لئے ایک خاص قسم کا والہانہ پن تھا۔
ہوٹل آگرہ ویو میں مانیا نے طاہر کے قیام کا انتظام و انصرام اپنی این جی او کی طرف سے کیا تھا۔ اپنے سوٹ میں پہنچ کر طاہر نے وقت ضائع کیے بغیر مانیا کے سامنے اپنا مسئلہ دوبارہ دہرایا۔ مانیا نے ساری بات سنی۔ چند لمحے غور کیا۔ پھر اپنی ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے طاہر کی جانب دیکھا۔
"مسٹر طاہر۔ اس کے بارے میں مکمل معلومات کے لئے مجھے تھوڑا وقت درکار ہو گا۔ " وہ بولی تو جلترنگ سے بج اٹھی۔
"کتنا وقت؟" طاہر نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا۔
"دو سے تین دن۔ کام اس سے بہت کم وقت میں بھی ہو سکتا ہے مسٹر طاہر۔ " اس نے سنجیدگی سے کہا۔ "مگر میں کم وقت کے ٹارگٹ کا رسک نہیں لینا چاہتی۔ "
"تو ٹھیک ہے۔ آپ کم سے کم وقت میں ریحا اور سرمد کے بارے میں ممکنہ معلومات حاصل کر کے مجھے بتائیے۔ "طاہر نے نرمی سے کہا۔ "میں آپ کا احسان مند رہوں گا۔ "
"میں یہ کام آؤٹ آف دی وے جا کر کروں گی مسٹر طاہر اور صرف اس لئے کہ آپ مجھے اپنے خاص دوستوں کی فہرست میں شامل کر لیں۔ " اس نے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ "ورنہ تو یہ کام انڈین ایجنسیوں کے لئے بڑی دلچسپی کا حامل ہے کہ وہ اسے اپنا ٹارگٹ بنا کر معاملے کو سیاسی اور فوجی رنگ دے دیں۔ "
"میں سمجھتا ہوں۔ " طاہر نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔ " اور میں دوستی کے ناطے ہی آپ سے یہ درخواست کر رہا ہوں۔ "
"تو پھر احسان مندی کیسی مسٹر طاہر۔ " وہ ہنسی۔ "دوستی میں صرف حکم دیا اور مانا جاتا ہے۔ کیا نہیں ؟" اس نے طاہر کی نظروں میں جذب ہونے کی کوشش کی۔
" آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مس مانیا۔ تو اس حکم کو مان کر آپ مجھے اپنی دوستی سے نوازئیے۔ یہ تو ٹھیک ہے؟" وہ مسکرایا۔
"بالکل۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ " وہ کھل کر ہنسی۔ " تو اب مجھے اجازت دیجئے۔ میں ابھی سے یہ کام شروع کر رہی ہوں۔ ہاں۔ " وہ کھڑی ہو کر بولی۔ "مسٹر سرمد کا کوئی فوٹو ہے آپ کے پاس، تو مجھے دے دیں۔ "
جواب میں طاہر نے اپنے پرس سے پاسپورٹ سائز کا سرمد کا ایک فوٹو نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
"کیا میں امید رکھوں کہ معاملات مکمل راز داری میں رہیں گے مس مانیا؟"طاہر نے مانیا کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
"یہ کہنے کی نہیں ، آزمانے کی بات ہے مسٹر طاہر۔ اور مجھے آزمایا جانا اچھا لگتا ہے۔ " وہ فوٹو تھام کر مسکرائی۔ پھر ہاتھ ہلاتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ "اپنا سیٹ آن رکھئے گا۔ ہمارا رابطہ صرف موبائل پر رہے گا۔ " وہ کہہ باہر نکل گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کرنل رائے چھاؤنی نمبر سینتالیس کی تباہی کی رپورٹ پر یوں آگ بگولہ ہو رہا تھا جیسے کسی نے اسے دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی پر بٹھا دیا ہو۔
گٹھے ہوئے بدن، قابل رشک صحت اور سرخ و سفید رنگت کا مالک ناٹے قد کا کرنل رائے یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ چھاؤنی جو ان کے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتی تھی، یوں بربادی کے گھاٹ اترے گی کہ وہاں موجود بارہ ہزار میں سے صرف نو سو چھپن فوجی زندہ بچیں گے۔ ایمونیشن ڈپو کی تباہی اس پر مستزاد تھی۔ انکوائری کمیشن بٹھا دیا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کی رپورٹ بھی ٹائیں ٹائیں فش کا راگ الاپتی نظر آئے گی۔
وہ سگار دانتوں میں دبائے اپنے نجی آفس کا قالین روند رہا تھا۔ بار بار اس کی نظر میز پر پڑے ٹیلیفون سیٹ سے ٹکراتی اور مایوس ہو کر لوٹ آتی۔ اسے انتظار تھا ایک فون کا۔ بے چینی جب انتہائی حدوں کو چھونے لگی تو رک کر بجھے ہوئے سگار کو دوبارہ سلگایا۔ لائٹر جیب میں ڈال کر اس نے دو تین گہرے کش لئے اور پھر ٹہلنے لگا۔
اچانک فون کی بیل نے اسے چونکا دیا۔ لپک کر وہ میز کے قریب پہنچا اور تیزی سے ریسیور اٹھایا۔
"ہیلو۔ کرنل رائے اسپیکنگ۔ " کٹکھنے کتے کی طرح وہ غرایا۔
"سر۔ میں کیپٹن آدیش بول رہا ہوں۔ جنرل نائر کا بھیجا ہوا آتنک وادی سیل میں پہنچ گیا ہے سر؟"
"میں آ رہا ہوں۔ " اس نے کہا اور ریسیور کریڈل پر پٹخ کر اضطراب کے عالم میں کمرے سے نکل گیا۔
اس نے اپنی ہی کوٹھی کے تہہ خانے میں تفتیشی سیل بنا رکھا تھا۔ خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کی زبان کھلوانے کے لئے اس کا ٹارچر سیل پوری فوج میں مشہور تھا۔ سب جانتے تھے کہ اس سیل کو فوجی سرپرستی حاصل ہے۔ یہاں ٹارچر کے ساتھ ساتھ علاج کے لئے بھی چار کمروں کا مختصر سا جدید ترین منی ہاسپٹل موجود تھا جہاں ان زخمیوں کی بہترین دیکھ ریکھ ہوتی تھی جنہیں مزید کچھ دیر زندہ رکھا جانا مقصود ہوتا تھا۔ یہاں قائم کسی ایک شعبے کا دوسرے سے براہ راست کوئی تعلق تھا۔ ہر کارکن کرنل رائے کے بعد کیپٹن آدیش کو جواب دہ تھا جو وہاں کا انچارج آفیسر تھا۔
اس سیل میں حسین ترجسمانی رشوت سے لے کر اذیت دینے کے جدید ترین طریقوں سے کھل کھلا کر کام لیا جاتا تھا اور کہیں نہ کہیں مجرم ضرور اپنا آپ ہار دیتا تھا لیکن یہ تجربہ بھی اسے ہو چکا تھا کہ کچھ دیوانے ایسے بھی ان کے ہاتھ لگتے تھے جو جان دے دیتے تھے مگر زبان کھولتے تھے نہ ہار مانتے تھے۔ ایسے لوگوں کو وہ بال آخر ہاتھ پاؤں باندھ کر تیزاب کے ٹب میں ڈبو دینے پر مجبور ہو جاتا تھا مگر تب بھی ان کے لبوں سے اللہ اکبر کے نعروں اور کلمہ طیبہ کے سوا کچھ ادا نہ ہوتا تھا۔ اس وقت اس کا جی چاہتا کہ اپنے سر پر موجود گنے چُنے بال بھی نوچ ڈالے۔ اس کی بے بسی اس کے ماتحتوں کو منہ چھپا کر ہنسنے پر مجبور کر دیتی، جس کا غصہ وہ گالیاں بک کر نکالتا۔
اپنے دماغ میں خیالاتی کھچڑی پکاتا وہ کوٹھی کی انیکسی کے ساتھ تہہ خانے میں قائم سنٹرلی ساؤنڈ پروف ٹارچر سیل کے دروازے پر پہنچا۔ دیوار میں دائیں ہاتھ ایک خانے میں لگی چمکدار میٹل پلیٹ پر انگوٹھا رکھ کر دبایا۔ اس کے انگوٹھے کی لکیریں شناخت میں آتے ہی دروازہ بے آواز کھل گیا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اترا۔ اس کے پیچھے خود کار سسٹم کے تحت دروازہ بند ہو گیا۔ تین جگہ کھڑے گن مینوں نے اسے زوردار سیلوٹ کیا جنہیں نظر انداز کرتا ہوا وہ کاریڈور کا موڑ گھوم گیا۔ سامنے شیشے کی دیوار کے پار نیم اندھیرے کمرے کے عین درمیان کرسی کے بازوؤں اور پایوں کے ساتھ بندھا وہ آتنک وادی خون میں نہایا نظر آ رہا تھا جس کا سینے پر جھکا سر بتاتا تھا کہ وہ بیہوش ہے۔ اس کے عین اوپر چھت سے لٹکتا بے پناہ تیز روشنی دیتا مرکری بلب اپنے شیڈ سمیت ہولے ہولے آگے پیچھے ہل رہا تھا۔
"سر۔ " وہ کمرے میں داخل ہوا تو کیپٹن آدیش کے ساتھ موجود تین فوجی سپاہیوں کی ایڑیاں بھی بج اٹھیں۔ ان کے سیلوٹ کا جواب سر کی ہلکی سی جنبش سے دیتا ہوا وہ آتنک وادی کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا۔
"اس نے کچھ بتایا؟" وہ نفرت سے چنچنایا۔
"نو سر۔ " کیپٹن آدیش نے کھٹ سے کہا۔ "ہم نے اسے اسی حالت میں وصول کیا ہے۔ جنرل نائر نے اس پر تشدد کی انتہا کر دی ہے مگر یہ تو جیسے گونگا ہے۔ "
"یہاں گونگے بھی بول اٹھتے ہیں ، تم جانتے ہو۔ " نخوت سے کرنل رائے نے کہا۔ "اسے ہوش میں لاؤ۔ "
فوراً ہی ایک فوجی نے کونے میں رکھی میز سے جگ اٹھایا اور پانی آتنک وادی کے سر پر دور ہی سے اچھال دیا۔
لرز کر سرمد نے حرکت کی اور ورم آلود پپوٹوں کو زور لگا کر کھولنے کی کوشش کی۔ ایک کراہ اس کے پھٹے ہوئے خون آلود ہونٹوں سے خارج ہوئی اور سر اٹھتے اٹھتے پھر ڈھلک گیا۔ تاہم اب وہ ہوش میں تھا۔
اسی وقت کیپٹن آدیش نے آگے بڑھ کر اس کے سر کے بال مٹھی میں جکڑ کر ایک جھٹکے سے چہرہ اوپر اٹھایا اور بلب کی برمے جیسی تیز روشنی اس کی آنکھوں میں گھستی چلی گئی۔
"کیا نام ہے تمہارا؟" کرنل رائے اس کے سامنے آ گیا۔
جواب میں سرمد نے کراہتے ہوئے سر کے بال چھڑانے کی ناکام کوشش کی مگر کیپٹن آدیش نے اسے سختی سے قابو کئے رکھا۔
"جواب دو۔ کیا نام ہے تمہارا؟" جنرل کی آواز میں غراہٹ ابھری۔ ساتھ ہی اس کا دایاں ہاتھ گھوم گیا۔ تھپڑ اس قدر زوردار تھا کہ سرمد کے خون آلود ہونٹوں کے زخم پوری طرح کھل گئی۔ "بولو۔ " اب کے جنرل کا بایاں ہاتھ حرکت میں آیا۔ پھر وہ مسلسل اس پر تھپڑ، گھونسے اور لاتیں برسانے لگا۔ بالکل پاگلوں کے انداز میں وہ اس پر پل پڑا تھا۔
"یہ بیہوش ہو چکا ہے سر۔ " منہ سے کتوں کی طرح کف چھوڑتے اور ہانپتے جنرل کو جب کیپٹن آدیش نے بتایا تو وہ ہوش میں آ گیا۔
"جنرل نائر نے کچھ بتا بھیجا ہے اس کے بارے میں ؟" ایک طرف ہٹ کر اپنے خون آلود ہاتھ ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"یہ فارم ساتھ آیا ہے سر۔ " کیپٹن آدیش نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
جنرل نے اس کاغذ پر نظر دوڑائی۔ نام سے لے کر پتے تک کے آگے "نامعلوم" کا لفظ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ غصے سے اس نے کاغذ کے پرزے اڑا دئیے۔ پھر کیپٹن کی طرف دیکھا۔
"اسے ہوش میں لاؤ۔ خوب پیٹ بھر کر کھلاؤ اور سونے مت دو۔ سمجھے۔ " کرنل نے سرمد کے بیہوش سراپے پر نفرت آلود نگاہ ڈالی اور واپسی کے لئے مڑ گیا۔ "میں اپنے آفس میں موجود ہوں۔ پل پل کی خبر دیتے رہنا۔ "
"یس سر۔ " کیپٹن آدیش نے فوجی انداز میں کہا اور سیلوٹ کے لئے اس کے ساتھ باقی تینوں فوجیوں نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے۔
٭٭٭٭٭٭٭
دوسرے دن شام تک طاہر نے اپنے طور پر فون پر کچھ لوگوں سے رابطہ کر کے معلومات حاصل کرنا چاہیں مگر کوئی امید افزا بات سامنے نہ آئی۔ وہ ہوٹل کا فون قطعاً استعمال نہ کر رہا تھا۔ اس کی پوزیشن بڑی نازک تھی۔ بار بار سوچتا کہ ایک دم مانیا پر اعتماد کر لینے کا اقدام کہیں اسے کسی مشکل میں نہ ڈال دے مگر طاہر کے پاس رسک لینے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ تاہم اس کی چھٹی حس اسے بتا رہی تھی کہ اس نے مانیا کے بارے میں جو اندازہ لگا کر اس پر اعتماد کیا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔
اس وقت وہ ٹی وی پر ایک نیوز چینل دیکھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
"یس۔ " طاہر نے ریموٹ سے ٹی وی کی آواز بند کر دی اور دروازے کی جانب دیکھا، جو اندر سے لاک نہیں تھا۔ "کم ان۔ "
دروازہ کھلا اور ہنستی مسکراتی مانیا اندر داخل ہوئی۔
"گڈ ایوننگ مسٹر طاہر۔ "
"گڈ ایوننگ مس مانیا۔ " طاہر نے خوش اخلاقی سے جواب دیا اور بیڈ سے اٹھ گیا۔ اس نے طاہر کا ہاتھ جو تھاما تو خود طاہر ہی کو واپس کھینچنا پڑا۔ "بیٹھئے۔ " طاہر اس کے ساتھ صوفے تک چلا آیا۔
" آپ نے تو رابطہ نہ کرنے کی قسم کھا لی شاید۔ میں انتظار کرتی رہی کہ آپ کنٹیکٹ کریں گے۔ " وہ مسکرا کر بولی۔
"اعتماد کرنا آتا ہے مجھے مس مانیا۔ آپ جب تک رابطہ نہ کرتیں میں اسی اعتبار کے سہارے ٹیک لگا کر وقت گزارتا رہتا کہ آپ میرے کام میں مصروف ہیں۔ " طاہر نے مانیا کو مکھن میں غوطہ دیا۔
"اوہ نو۔ " وہ حیرت سے آنکھیں پٹ پٹا کر بولی۔ "اتنی بلندی سے مت نوازیے مسٹر طاہر کہ میں نیچے دیکھنا ہی بھول جاؤں۔ "
"ایسی کوئی بات نہیں مس مانیا۔ بہر حال اب میں آپ کی طرف سے کسی اچھی خبر کے لئے بیتاب ہوں۔ "اس نے انٹر کام پر لوازمات کا آرڈر دیا اور مانیا کے سامنے آ بیٹھا۔
" خبر نہیں۔ خبریں مسٹر طاہر۔ اب وہ اچھی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہو گا۔ " مانیا نے اپنے کندھے سے بڑا نازک سا شولڈر بیگ اتارا۔ کھولا اور اس میں سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر اپنے سامنے پڑی میز پر پھیلا لیا۔ "میں ترتیب سے بتاتی ہوں۔ "
طاہر کے جسم میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ وہ اضطراب آلود نگاہوں سے مانیا کو دیکھنے لگا جس نے سسپنس سے پرہیز کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

" خبر نہیں۔ خبریں مسٹر طاہر۔ اب وہ اچھی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہو گا۔ " مانیا نے اپنے کندھے سے بڑا نازک سا شولڈر بیگ اتارا۔ کھولا اور اس میں سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر اپنے سامنے پڑی میز پر پھیلا لیا۔ "میں ترتیب سے بتاتی ہوں۔ "
طاہر کے جسم میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ وہ اضطراب آلود نگاہوں سے مانیا کو دیکھنے لگا جس نے سسپنس سے پرہیز کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
"بیس جنوری کو سرمد سعودی عرب سے دہلی پہنچا۔ اس نے اپنے قریبی پولیس سٹیشن میں اپنی آمد کا کوئی اندراج نہیں کرایا۔ وہ کہاں گیا؟ کہاں ٹھہرا؟ کس سے ملا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ہاں۔ اس کے حلئے کا ایک آدمی اکیس جنوری کو ٹاٹا بس سروس سے سرینگر کے لئے روانہ ہوا۔ سرینگر سے وہ کہاں گیا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ "
سانس لینے کے لئے مانیا رکی اور اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جو ہمہ تن گوش ہو کر اسے سن رہا تھا۔
"ریحا لندن سے واپس آئی۔ واپسی کے تقریباً تین ہفتے بعد وہ ایک دن کے لئے دوبارہ لندن گئی۔ سرمد کے فلیٹ سے اس کے ڈاکومنٹس لے کر پاکستان پارسل کئے اور اگلے دن انڈیا لوٹ آئی۔ اس کی لندن جانے کی ڈیٹ تئیس جنوری اور واپس لوٹنے کی چوبیس جنوری ہے۔ اس کے بعد سے اب تک وہ سرینگر میں اپنے گھر پر موجود ہے۔ اس نے باہر آنا جانا بہت کم کر دیا ہے۔ ہر وقت ہنسنے کھیلنے والی ریحا اب چُپ چُپ رہتی ہے۔ سہیلیوں سے بھی کم کم ملتی ہے۔ ینگسٹرز کلب کی رکن ہے مگر وہاں جانا بھی تقریباً چھوڑ چکی ہے۔ اس کے والدین اس کی اداسی سے پریشان ہیں مگر وہ اس کی کوئی وجہ نہیں بتاتی۔ ہاں۔ ایک معمول بنا لیا ہے اس نے کہ ہر شام سیتا مندر جا کر دیا جلاتی ہے جو اس کے گھر سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ "
"حیرت انگیز۔ " طاہر نے تحسین آمیز نظروں سے مانیا کی طرف دیکھا تو وہ کھل اٹھی۔ "اتنے کم وقت میں ایسی امید افزا معلومات حاصل کر لینا آپ ہی کا کام ہے مس مانیا۔ "
"تھینکس مسٹر طاہر۔ " وہ مسکرا کر بولی۔ اس کی نظروں میں جلتے دیپ طاہر کے چہرے پر لو دے رہے تھے۔
"لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان معلومات سے ہمارا مسئلہ تو حل نہیں ہوا۔ " طاہر نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
"بالکل درست۔ " مانیا نے اس کی جانب دیکھا۔ " آپ غلط نہیں کہہ رہے مسٹر طاہر۔ تاہم میں ایک راستے کی نشاندہی کر سکتی ہوں جس پر چل کر ہم سرمد کے بارے میں مزید کچھ معلوم کر سکتے ہیں۔ "
"وہ کون سا راستہ ہے مس مانیا؟" طاہر نے اس کی جانب بغور دیکھا۔
"ہمیں سرینگر جانا پڑے گا۔ ریحا سے ملنا ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ "
"ہاں۔ یہ خیال تو میرے ذہن میں بھی آ رہا تھا۔ " طاہر نے پُر خیال لہجے میں کہا۔
"بس۔ تو وہاں چلتے ہیں۔ اگر میں واقعات اور صورتحال کے ڈانڈے ملانے بیٹھوں تو نجانے کیوں مجھے سرمد اور ریحا میں ایک انجانا سا تعلق محسوس ہوتا ہے۔ شاید ریحا سے مل کر ہمیں کوئی سِرا ہاتھ آ جائے۔ "
"مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے مس مانیا۔ " طاہر نے اس کی تائید کی۔
"تو پھر طے رہا کہ کل صبح ہم سرینگر چل رہے ہیں۔ " مانیا نے جیسے فیصلہ سنایا۔ " آپ اپنا پاسپورٹ مجھے دے دیں۔ تاکہ میں ضروری کاغذی کارروائی مکمل کرا لوں۔ "
طاہر نے اپنا پاسپورٹ مانیا کے حوالے کر دیا جسے اس نے اپنے شولڈر بیگ میں ڈال لیا۔ اسی وقت دونوں کی نظریں ملیں۔ طاہر کی نگاہوں میں نجانے کیا تھا کہ مانیا کا دل یکبارگی زور سے دھڑک اٹھا۔
"مس مانیا۔" طاہر نے جیسے ماحول کا تناؤ کم کرنا چاہا۔ "ہمیں ریحا سے ملنے میں کس قسم کی دشواری ہو سکتی ہے؟ اس پر بھی غور کر لینا چاہئے۔ "
"کوئی دشواری نہیں ہو گی مسٹر طاہر۔ " وہ بھی سنبھل گئی۔ "ایک بات جس کا میں نے پہلے آپ سے ذکر نہیں کیا، یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے ریحا کا ایڈریس دیا تھا میں تبھی ایک حد تک مطمئن ہو گئی تھی اور مجھے لگا تھا کہ ہمیں سرینگر جانا پڑے گا۔ "
"وہ کیوں ؟" طاہر چونکا۔
"اس لئے کہ میں تھوڑا بہت ریحا کے باپ کو جانتی ہوں۔ "
"شیام رائے کو؟" طاہر حیران ہوا۔
"شیام رائے نہیں۔ کرنل شیام رائے کو۔ ریحا کرنل رائے کی اکلوتی بیٹی ہے۔ "
"کیا؟"طاہر اچھل پڑا۔ پھر اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اس نے سنبھالا لیا۔ "میرا مطلب ہے آپ کس طرح اسے جانتی ہیں ؟" اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی۔
"کرنل شیام رائے کے نجی سیل میں میرا ایک دور کا کزن ملازم ہے۔ اب تک کی معلومات میں اسی سے حاصل کر پائی ہوں۔ "مانیا نے بتایا۔
"اوہ۔۔۔ " طاہر بظاہر مطمئن سا ہو گیا۔
"اور میں چاہوں گی کہ اس سے ملاقات ہم کرنل رائے کی لا علمی میں کریں۔ یہی ہمارے لئے بہتر ہو گا۔ وہ فوجی آدمی ہے اور آپ مسلمان۔ شاید وہ اسے پسند نہ کرے۔ بات کوئی اور رنگ اختیار نہ کر جائے، اس لئے ہمیں محتاط رہنا پڑے گا۔ "
"مس مانیا۔ آپ میرے لئے خطرہ مول لے رہی ہیں۔ " طاہر نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"جی نہیں۔ " اس نے طاہر کی جانب نظر اٹھائی۔ " میں صرف آپ کی دوستی جیتنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ "
"وہ تو آپ جیت چکیں مس مانیا۔ " طاہر کی نظروں میں ا س کے لئے کوئی پیغام تھا۔
"تو میں اس کا ثبوت چاہوں گی مسٹر طاہر۔ "اس نے نگاہوں کی کمند طاہر کی جانب اچھالے رکھی۔
" ثبوت آپ کو سرینگر سے واپسی پر مل جائے گا مس مانیا۔ "
"شرط ہے کیا؟" وہ بڑے دل آویز انداز میں مسکرائی۔
"بالکل نہیں۔ " طاہر نے دھیرے سے کہا۔ "ذہنی فراغت چاہتا ہوں اور بس۔ "
"میں انتظار کروں گی اس پل کا مسٹر طاہر جب۔۔۔ "
اسی وقت ویٹر نے دروازے پر دستک دی اور مانیا کی بات ادھوری رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اذیتوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔
سرمد کو زبردستی حلق تک مرغن غذا کھلا کر بٹھا دیا جاتا۔ جونہی اسے غنودگی ہونے لگتی، نیند کی زیادتی اس کی پلکوں پر بوجھ ڈالتی تو سر کے بال کھینچ کھینچ کر، تھپڑوں اور گھونسوں سے اسے جاگنے پر مجبور کیا جاتا۔ کبھی اسے فاقے کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا۔ مسلسل فاقہ اسے ضعف کے مارے ہلنے جلنے سے معذور کر دیتا مگر اسے کھانے کے نام پر ایک کھیل اور پینے کے لئے پانی کا ایک قطرہ نہ دیا جاتا۔ کئی بار کرنل رائے نے فضلے سے بھرا ڈبہ اس کی ناک کے عین نیچے لٹکا کر کئی کئی گھنٹے تک غیر انسانی حالت میں رکھا۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ لگایا گیا ہو۔ ان زخموں میں نمک چھڑکا جاتا۔ مرچیں بھر دی جاتیں۔ زخموں پر بھوری چیونٹیاں چھوڑ دی جاتیں جو اس کا گوشت نوچتیں تو اس کی چیخیں ٹارچر سیل میں پورا پورا دن گونجتی رہتیں۔ کراہیں رات رات بھر اس کے لبوں سے خارج ہوتی رہتیں۔ سگریٹ سے اس کا سارا جسم داغ دیا گیا۔ پیروں کے ناخن کھینچ دیے گئے۔ تپتے لوہے کی پلیٹوں پر پہروں کھڑا رکھا گیا۔ برف کی سلوں پر گھنٹوں لٹایا گیا۔ جسم کے نازک حصوں پر الیکٹرک شاک دیا گیا۔ اور ان سب اذیتوں سے چھٹکارے کا لالچ دے کر اس سے پوچھا جاتا۔
"تمہارا نام کیا ہے؟"
"تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟"
"اپنے ساتھیوں کے نام اور پتے بتاؤ۔ "
"اپنے گروپ کا نام بتاؤ۔ "
کرنل رائے کے ہر سوال کے جواب میں سرمد کے لبوں پر ایک مسکراہٹ ابھرتی اور وہ اپنے ورم آلود ہونٹوں کو بمشکل حرکت دیتے ہوئے کہتا۔
"میرا نام غلام ہے۔ میں اپنے آقا کا غلام ہوں۔ میرا ٹھکانہ میرے اللہ کی رضا اور محبت ہے۔ میرے ساتھی اللہ اور اس کا رسول ہیں۔ میرے گروپ کا نام عشقِ رسول ہے۔ "
یہ جواب کرنل رائے کے تن بدن میں آگ لگا دیتی۔ اب تک اس کا واسطہ بڑے بڑے سخت جان مجاہدین سے پڑا تھا مگر جس قسم کی باتیں سرمد کرتا تھا وہ اسے سر تا پا شعلہ بنا دیتیں۔ پھر وہ جتنا بھی ضبط کرنا چاہتا، سب بیسود ثابت ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ سرمد پر دن بدن اس کے ستم بڑھتے ہی جا رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اس سخت جان آتنک وادی کا کیا حال کرے کہ اس کی زبان مطلوبہ معلومات کے لئے کھل جائے۔
کوئی اور ہوتا تو اب تک جان سے گزر گیا ہوتا مگر سرمد تھا کہ جیسے اس کے جسم میں ہر روز ایک نئی طاقت عود کر آتی تھی۔ کیپٹن آدیش نے اکثر محسوس کیا تھا کہ ہوش میں ہو یا نہ ہو، سرمد کے نیم متحرک ہونٹوں سے کچھ پڑھنے کا احساس ہوتا ہے۔ ایک روز اس نے کان لگا کر سنا اور جو الفاظ اس کے کانوں میں اترے ان کے اثر سے اس کے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا۔ اس کا رنگ فق ہو گیا۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہو گئی۔ اسے لگا جیسے وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ رہ سکے گا۔ اس کے سارے جسم پر جو لرزا طاری ہوا تو حالت سنبھلتے سنبھلتے کئی منٹ لگ گئی۔ وہ لڑکھڑا کر پرے پڑی کرسی پر گر سا پڑا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ اب بھی اس کے کانوں میں سرمد کی مستی میں ڈوبی ہلکی ہلکی آواز خوشبو انڈیل رہی تھی۔
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
سرمد کے ہونٹ یہی دہرا رہے تھے۔
یہ کیسے الفاظ تھے؟ کیا یہ اس مسلمان کا کوئی مذہبی اشلوک تھا؟ کوئی منتر تھا؟ وہ کچھ بھی سمجھ نہ پایا مگر اس دن سے اس میں ایک تبدیلی آ گئی۔ اس دن کے بعد اس کا ہاتھ سرمد پر نہ اٹھا۔ اس کا جی ہی نہ چاہتا تھا کہ اسے اذیت دے۔ اسے تکلیف پہنچانے کا خیال ہی کیپٹن آدیش کو لرزہ بر اندام کر دیتا۔ اب اس کی کوشش ہوتی کہ سرمد پر دوسرے فوجیوں کے بجائے اسی کی ڈیوٹی لگی رہے تاکہ وہ اسے عقوبت سے بچائے رکھے۔ دن میں کئی بار اس کا جی چاہتا کہ وہ سرمد کے لبوں سے وہی طلسمی الفاظ پھر سنے جنہوں نے اس کی کایا کلپ کر دی تھی۔ ایسا وہ اس وقت کرتا جب سرمد بیہوش ہوتا اور اس کے آس پاس دوسرا کوئی نہ ہوتا۔ تب وہ چوری چوری اس کے لبوں سے کان لگا دیتا اور ان الفاظ کی مہک اپنی سماعت میں اتارنے لگتا۔ اس کا جی نہ بھرتا مگر اسے اپنے ارد گرد والوں کا خوف زیادہ دیر یہ مزہ لینے نہ دیتا۔ کئی بار اسے خیال آیا کہ یہ کوئی جادوئی الفاظ ہیں جنہوں نے اس کا دل سرمد کی طرف سے موم کر دیا ہے۔ مگر پھر اسے اپنی سوچ پر خود ہی یقین نہ آیا۔ اس نے سر جھٹک کر اس خیال کو دور پھینک دیا۔ اگر یہ جادو ہوتا تو اب تک یہ آتنک وادی وہاں سے اڑنچھو ہو چکا ہوتا۔ اس کے ذہن میں اپنے دھرم کے حوالے سے جادو کا ایسا ہی تصور تھا۔
اس دن ٹارچر سیل کا فوٹو گرافر سرمد کی تصویریں ڈیویلپ کر کے لایا اور ایک لفافے میں بند کر کے کیپٹن آدیش کے حوالے کر گیا۔ یہ تصویریں کرنل رائے کو پاس کرنا تھیں۔ پھر انہیں آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی بھجوایا جاتا۔ تاکہ ان تصویروں کی خاص خاص مقامات پر تشہیر و ترسیل کے ذریعے سرمد کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتیں۔
کیپٹن آدیش نے لفافہ کھول کر دیکھا۔ اس میں کل آٹھ تصاویر تھیں۔ چار میں تو اس ٹارچر سیل کی درندگی اور بربریت عروج پر تھی اور چار تصویریں ایسے اینگل سے لی گئی تھیں کہ سرمد کا چہرہ بڑھے ہوئے شیو کے باوجود پہچانا جاتا تھا۔ تشدد کے آثار ان میں کم سے کم نمایاں تھی۔
اس نے تصویریں لفافے میں ڈالیں اور فرش پر بیڑیوں میں جکڑے پڑے بیہوش سرمد کی جانب دیکھا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر نجانے کس عالم میں سانس لے رہا تھا۔ ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے اور کیپٹن آدیش جانتا تھا کہ سرمد اب بھی انہی کیف اور الفاظ کا ورد کر رہا ہے جو اسے تبدیلی کی جانب کھینچے لئے جا رہے تھے۔
"پرسو رام۔ " اس نے دروازے کے باہر کھڑے سگریٹ پیتے فوجی کو آواز دی۔
"یس سر۔ " وہ سگریٹ مسل کر باسکٹ میں پھینکتا ہوا اندر چلا آیا۔
"میں یہ تصویریں جنرل صاحب کو دینے جا رہا ہوں۔ ڈیوٹی آنکھیں کھول کر دینا۔ " کہہ کر وہ لفافہ ہاتھ میں لئے باہر چلا آیا۔
کرنل رائے کی کوٹھی کے رہائشی حصے کی جانب جاتے ہوئے اس کے من میں سرور لہریں لے رہا تھا۔ ریحا کو دیکھنے کا خیال ہی اس کے لئے مستی بھرا تھا۔ وہ جب سے ٹارچر سیل میں ڈیوٹی پر آیا تھا، تب سے ریحا کے عشق میں مبتلا تھا۔ چونکہ جانتا تھا کہ یہ انگور کھٹے ہیں اس لئے دل ہی دل میں ریحا کی پوجا کیا کرتا۔ اسے کسی کسی دن ایک نظر دیکھ لینا ہی اس کے لئے کافی تھا۔
اس وقت بھی جب وہ کرنل رائے کے آفس کی طرف جا رہا تھا، اس کی نظریں ریحا کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ پھر وہ اسے دیکھ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ ریحا باغیچے میں ایک درخت کے نیچے کرسی ڈالے بیٹھی تھی۔ سرخ میکسی پر نیلی شال اوڑھے وہ نجانے کیا سوچ رہی تھی کہ روش سے گزرتے کیپٹن آدیش کے بھاری فوجی بوٹوں کی آہٹ سے بھی بے خبر رہی۔ وہ باغیچے کے باہر رک گیا۔ چند لمحے نظروں کی پیاس بجھاتا رہا۔ پھر بھی جب ریحا اس کی طرف متوجہ نہ ہوئی تو مایوس ہو کر چل پڑا۔ اس کا ریحا کی طرف یوں مائل ہونا اگر کسی کے علم میں آ جاتا تو اس کے لئے مصیبت ہو جاتی۔ کنکھیوں سے اپنے خیالوں میں گم ریحا کو دیکھتا اور یہ سوچتا ہوا وہ چلتا گیا کہ ریحا کس الجھن میں ہے جو اس کی مسکراہٹیں اور قہقہے کہیں گم ہو گئی۔ اس کے علم میں تھا کہ کچھ ہفتوں سے وہ ہر شام قریبی سیتا مندر دیا جلانے جاتی ہے اور باقی دلچسپیوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ خیالی گھوڑے دوڑاتا وہ کرنل رائے کے آفس تک پہنچ گیا جہاں دروازے پر دائیں بائیں دو گن مین مستعد کھڑے تھے۔ اسے سیلوٹ کر کے انہوں نے دروازہ کھول دیا۔
"کرنل صاحب آپ کے منتظر ہیں سر۔ " ایک گن مین نے کڑک دار آواز میں کہا، جبکہ دوسرا بُت بنا کھڑا رہا۔ وہ سر ہلاتا ہوا اندر داخل ہوا۔
کرنل رائے نے تصویروں کا لفافہ لے کر اسے واپسی کی اجازت دے دی اور خود تصویریں نکال کر شیشے کی ٹاپ والی میز پر پھیلا کر انہیں غور سے دیکھنے لگا۔ سگار اس وقت بھی اس کے ہونٹوں میں دبا ہوا تھا۔ تصویریں چھ ضرب آٹھ کے سائز میں تھیں اور خاصی واضح تھیں۔ وہ اپنی نشست پر بیٹھ کر انہیں دیکھتا ہوا کچھ سوچ رہا تھا کہ کمرے کا وہ دروازہ کھلا جو اندرونی رہائشی حصے میں کھلتا تھا۔
"ارے ریحا بیٹی۔ آؤ آؤ۔ " ریحا کو اندر آتے دیکھ کر وہ مسکرا پڑا۔
"پاپا۔ میں مندر جا رہی ہوں۔ " ریحا نے کمرے میں قدم رکھا۔
"جلدی لوٹ آنا بیٹی۔ شام ہونے کو ہے۔ ویر سنگھ کو ساتھ لے جاؤ۔ " وہ سگار منہ سے نکال کر بولا۔
"نہیں پاپا۔ میں گاڑی میں جا رہی ہوں۔ کسی کو ساتھ لے جانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ " ریحا نے کہا۔ اس کی جانب دیکھا پھر مڑتے مڑتے اچانک اس کی نظر میز پر بکھری تصویروں پر پڑ گئی۔ ایک دم اس کے قدم تھم گئی۔ آہستہ سے گردن گھما کر اس نے دوبارہ تصویروں کی جانب دیکھا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آنکھوں میں خوف سا اترا اور دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ وہ لپک کر میز کے قریب آ گئی۔
"کیا بات ہے بیٹی؟" کرنل رائے نے چونک کر اس کی جانب دیکھا جو سرمد کی تصویروں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
"پاپا۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کون ہے پاپا؟" وہ بیتابی سے بولی۔
"ایک آتنک وادی ہے بیٹی۔ " کرنل رائے نے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا اور اپنی سیٹ سے اٹھ گیا۔
"یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ آتنک وادی۔۔۔ نہیں پاپا۔ آپ کو کچھ دھوکا ہوا ہے۔ " ریحا کے لہجے میں چھپی بے قراری نے کرنل رائے کے کان کھڑے کر دئیے۔
"تم کہنا کیا چاہتی ہو ریحا۔ " جنرل اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ "کیا تم اسے جانتی ہو؟"
"میں۔۔۔ میں۔۔۔ " ریحا ہکلا کر رہ گئی۔ پھر جیسے اس نے زبان کو گانٹھ دے لی۔ "نہیں پاپا۔ میں اسے نہیں جانتی مگر اس کا چہرہ مہرہ آتنک وادیوں جیسا نہیں لگتا۔ "
"نظریں نہ چراؤ ریحا۔ " کرنل نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ " آتنک وادیوں کے چہرے ہم تم جیسے ہی ہوتے ہیں ، جن سے ہم فریب کھا جاتے ہیں مگر مجھے لگتا ہے تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔ "
"میں۔۔۔ میں آپ سے کیا چھپاؤں گی پاپا۔ " ریحا نے نظریں جھکائے جھکائے جواب دیا، جن کا ہدف اب بھی سرمد کی ایک تصویر تھا۔ کرنل کا ہاتھ شانے سے ہٹانا چاہا۔ اس کا کانپتا ہوا لہجہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھا رہا تھا اور کرنل نے بال دھوپ میں تو سفید نہیں کئے تھے جو اس کی بات پر یقین کر لیتا۔
"ریحا۔۔۔ " کرنل نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا اور جب اس نے کرنل سے نظر ملانے سے گریز کیا تو اسے اپنے شک پر یقین کے سائے لہراتے نظر آنے لگی۔ "مجھ سے نظر ملا کر بات کرو ریحا۔ " کرنل کا لہجہ سخت ہو گیا۔
"کیا بات کروں پاپا؟" ایک دم وہ سسک پڑی۔
"ریحا۔ " بھک سے کرنل کے دماغ کا فیوز اڑ گیا۔ آواز میں حیرت اور کپکپاہٹ ایک ساتھ ابھرے۔ پھر اس نے روتی ہوئی ریحا کو سینے سے لگا لیا۔ "کیا بات ہے میری جان۔ صاف صاف کہو۔ روؤ مت۔ تم جانتی ہو تمہارے آنسو مجھ سے برداشت نہیں ہوں گے۔ "
"پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔ " ریحا بلک رہی تھی۔ "یہ وہی تو ہے جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا۔ اسی کے لئے تو میں روز سیتا مندر میں دیا جلانے جاتی ہوں۔ پاپا۔ یہ آتنک وادی کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو کسی بچے کی طرح معصوم ہے پاپا۔ "
ریحا کہتی رہی اور حیرت زدہ کرنل اس کی کمر پر ہاتھ رکھے سنتا رہا۔ اس کے دل و دماغ میں بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ اسے ریحا نے یہ تو بتایا تھا کہ وہ لندن یونیورسٹی میں ایم بی اے کے کورس کے دوران کسی لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو گئی تھی اور جب تک اس کی طرف سے "ہاں نہ " کا صاف صاف اظہار نہ ہو جائے، اسے شادی کے فیصلے کے لئے وقت دیا جائے۔ تب کرنل اور اس کی پتنی سوجل نے اس معاملے کو مسئلہ نہ بنایا۔ بلکہ ریحا کو کچھ عرصے کے لئے اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ وہ لڑکا کون ہے؟یہ ریحا نے نہ بتایا۔ اور وہ کس مذہب سے ہے؟ اس بارے میں ان کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوا۔ ان کے وہم میں بھی نہ تھا کہ وہ لڑکا مسلمان ہو گا۔
کرنل کے سینے سے لگ کر ریحا نے کھل کر آنسو بہا لئے تو اس کا من ہلکا ہو گیا جبکہ کرنل رائے کے لئے سوچ اور الجھن کی کتنی ہی نئی راہیں کھل گئیں۔ بیٹی کے آنسو پونچھ کر اس نے اسے کرسی پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے میز کے کونے پر ٹک گیا۔ پھر اسے سرمد کے بارے میں اب تک کی ساری معلومہ باتیں بتائیں۔ مگر ریحا کے چہرے پر اول تا آخر بے اعتباری کے رنگ چھائے رہی۔
"اب تم بتاؤ بیٹی۔ میں تمہاری بات پر یقین کروں یا اس ساری صورتحال پر جس میں یہ لڑکا ہمارے ہاتھ لگا۔ ہاں۔۔۔ کیا نام بتایا تم نے اس کا؟" اچانک کرنل رائے نے ریحا کی جانب انگلی اٹھائی۔
"ابھی تک تو میں نے اس کا نام نہیں بتایا۔ " ریحا جیسے باپ کی چال سمجھ گئی۔ "اور معاف کیجئے گا پاپا۔ فی الحال میں آپ کو اس کا نام بتاؤں گی بھی نہیں۔ "
"یہ کوئی مشکل نہیں ہے ریحا۔ " اچانک کرنل رائے کے اندر کا ہندو فوجی باہر آ گیا۔ "میں چاہوں تو دس منٹ کے اندر اندر لندن یونیورسٹی سے اس لڑکے کے بارے میں مکمل معلومات منگوا سکتا ہوں مگر ۔۔۔ " وہ رک گیا۔ "میں چاہتا ہوں مجھے ایسا نہ کرنا پڑے۔"
ریحا کو ایک دم اپنی حماقت کا اب احساس ہوا کہ اس نے سرمد کے حوالے سے اپنے ہاتھ کاٹ کر باپ کے ہاتھ میں دے دیے ہیں۔
"تم نے میری پوزیشن بڑی نازک کر دی ہے ریحا۔ " جنرل اٹھا اور ہاتھ پشت پر باندھے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ "میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟"
"پاپا۔ " ریحا نے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "کچھ بھی ہو۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے اپنے سیل میں اس کا جو حشر کیا ہے، میں اسے سہہ نہیں پا رہی ہوں۔ "
"وہ اپنی جگہ ضروری تھا ریحا۔ " کرنل نے خشک لہجے میں کہا۔ "میں بتا چکا ہوں کہ وہ ہمیں چھاؤنی نمبر سینتالیس پر اٹیک کے دوران ملا۔ "
"ہو سکتا ہے آپ کی معلومات درست ہوں پاپا لیکن مجھے وہ چاہئے۔ زندہ سلامت اور بس۔۔۔ " ریحا کھڑی ہو گئی۔
"پاگل ہو گئی ہو تم۔ " کرنل رائے کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ بھارت ماتا کا دشمن ہے اور۔۔۔"
"سب کچھ ہو سکتا ہے پاپا۔ " ریحا کے لبوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ ابھری۔ "کیا میں نہیں جانتی کہ آپ کے ٹارچر سیل میں کیا کچھ ہوتا ہے؟ اگر کاکا ابراہیم کو پچیس لاکھ کے عوض جہادی تنظیم کے حوالے کیا جا سکتا ہے تو آپ کی بیٹی کی پسند اسے کیوں نہیں مل سکتی؟"
" آہستہ بولو۔۔۔ آہستہ۔ " کرنل رائے نے آگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کی آواز میں خوف سمٹا ہوا تھا۔ "تم یہ سب جانتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم شور مچا دینے کی دھمکی دے کر مجھے بلیک میل کرو۔ "
"دھمکی۔۔۔ " ریحا نے باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ "یہ دھمکی نہیں ہے پاپا۔ سودا ہے۔ میرے اور آپ کے بیچ۔ میں اپنی پسند حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ کسی حد تک بھی جا سکتی ہوں۔ اگر آپ ایک اچھے پاپا بنے رہے تو میں دنیا کی سب سے لاڈلی بیٹی ہوں اور اگر آپ کا سوتیلا پن جاگا تو میں اپنی ماما کی بیٹی بننے پر مجبور ہو جاؤں گی۔ "
کرنل رائے کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ بات جسے وہ وقت کی تہہ میں دفن کر چکا تھا، ریحا نے ایک ہی ٹھوکر سے اسے ماضی کی قبر سے باہر نکال لیا تھا۔ ریحا اس کی پتنی سوجل کے پہلے پتی راکیش سے تھی جس کے مرنے کے بعد کرنل رائے نے سوجل سے شادی کر لی تھی۔ سوجل کو آج بھی شبہ تھا کہ اس کے پتی راکیش کو کرنل رائے نے قتل کروایا تھا مگر ثبوت نہ ہونے کے باعث وہ خاموشی سے دن گزار رہی تھی۔ اگر اس سکینڈل کو اچھال دیا جاتا تو کرنل رائے کہاں ہوتا، اسی کی طرف اشارہ کر کے ریحا نے اسے خوف کی دلدل میں پھینک دیا تھا۔
کتنی ہی دیر وہ خالی خالی نظروں سے اس دروازے کو تکتا رہا جس سے نکل کر ریحا جا چکی تھی۔ پھر اس کی نظریں میز پر بکھری سرمد کی تصویروں پر جا پڑیں۔ اسے ہوش سا آ گیا۔ تھکے تھکے قدموں سے آگے بڑھ کر اس نے تصویریں سمیٹیں۔ لفافے میں ڈالیں اور لفافہ میز کے خفیہ خانے میں سرکا دیا۔
٭٭٭٭٭٭
"مس ریحا۔ " مندر میں پرارتھنا کر کے نکلتی، سوچوں کے بھنور میں چکراتے دماغ کے ساتھ ریحا اپنی گاڑی کی طرف چلی کہ ایک نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا۔ پلٹ کر دیکھا تو مندر کے سامنے چھوٹے سے پارک کے گیٹ پر سرخ کار کے پاس کھڑی ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر اس کے قدم رک گئی۔ وہ ریحا کے لئے بالکل اجنبی تھی، اس لئے حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھنا ایک قدرتی امر تھا۔
’میں نے آپ ہی کو پکارا ہے مس ریحا۔ " وہ اس کی طرف چل پڑی۔
ریحا نے ادھر ادھر دیکھا۔ نزدیک یا دور کوئی ایسی سرگرمی نہ دکھائی دی جس سے وہ شبے میں مبتلا ہوتی، اس لئے وہ اپنی گاڑی کے پاس رکی رہی۔ لڑکی اس کے قریب پہنچی۔ وہ بڑی قیمتی ساڑھی میں ملبوس تھی۔ کندھوں پر زرتار کشمیری شال اس کے سٹیٹس کا اعلان کر رہی تھی۔
"میرا نام مانیا ہے۔ مانیا سکسینہ۔ میں دہلی سے آئی ہوں آپ سے ملنے۔ " اس نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
"مجھ سے ملنے؟" ریحا اور حیران ہوئی تاہم اس نے مانیا کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔
"جی ہاں۔ ایک مہمان بھی ہے میرے ساتھ۔ " اس نے پلٹ کر اپنی گاڑی کی طرف دیکھا جس کے کھلے شیشوں سے لگتا تھا کہ گاڑی میں کوئی اور بھی موجود ہے۔ ایک لمحے کو اسے خطرے کا احساس ہوا۔
"گھبرائیے نہیں مس ریحا۔ اور کسی غلط سوچ کو بھی ذہن میں جگہ مت دیجئے۔ " مانیا نے اترتی شام کے سائے میں اس کے چہرے پر ابھرتے شکوک کو بھانپ لیا۔ "اگر آپ چند منٹ ہمارے لئے نکال سکیں تو ہم دوستانہ ماحول میں بات کرنا چاہیں گے۔ "
" آپ لوگ کون ہیں اور مجھے کیسے جانتے ہیں ؟" ریحا کا ذہن ابھی اس کی طرف سے صاف نہیں ہوا تھا۔
" آئیے۔ پارک میں بیٹھتے ہیں۔ " مانیا نے اس کا ہاتھ بڑی نرمی سے کھینچا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی۔ پار ک میں داخل ہوتے ہوئے ریحا نے دیکھا کہ گاڑی کے دروازے کھلے اور اس میں سے ایک بڑا وجیہہ مرد نکل کر ان کے پیچھے پارک کی طرف چل پڑا۔ اس کا جی چاہا، فوراً پلٹ کر دوڑ لگا دے مگر مانیا نے اس کا ہاتھ نہ چھوڑا اور اسے لئے ہوئے پارک میں ایک درخت کے نیچے بچھے ایک ایسے لمبے بنچ پر جا بیٹھی، جو پارک میں موجود دوسرے لوگوں سے کافی ہٹ کر تھا۔ ان کے بیٹھنے کے چند لمحوں بعد ہی وہ مرد بھی ان تک آن پہنچا۔
"گڈ ایوننگ ینگ لیڈی۔ " مرد نے بڑے تہذیب یافتہ لہجے میں کہا اور بنچ پر مانیا سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گیا۔ پارک کی مدھم لائٹس میں ریحا کو ان دونوں کے چہروں اور حرکات کا جائزہ لینے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور اس کے دل نے اسے یقین دلایا کہ وہ برے لوگ نہیں ہیں۔ ان کے نرم، شرافت میں گندھے ہوئے چہرے کسی لحاظ سے اسے فریبی نہ لگے۔
"جی۔ کہئے۔ آپ لوگ مجھے کیسے جانتے ہیں اور مجھے کیوں روکا؟" ریحا نے ان تینوں کے چہروں پر ایک بار پھر نظر دوڑائی۔
"ہم آپ کو کیسے جانتے ہیں ، اسے فی الحال رہنے دیجئے مس ریحا۔ " مانیا نے نرمی سے کہا۔ " آپ کے لئے اتنا جان لینا لازم ہے کہ میں دہلی سے اور مسٹر طاہر پاکستان سے ایک شخص کے سلسلے میں آپ سے ملنے آئے ہیں۔ آج شام جب آپ اپنے گھر سے نکلیں تو ہم آپ کے پیچھے پیچھے سیتا مندر تک آئی۔ آپ پوجا کر کے باہر نکلیں تب میں نے آپ کو آواز دی۔ "
ریحا کا دل سینے میں زور سے دھڑکا۔ اس نے مانیا کے خاموش ہوتے ہی طاہر کی جانب بیتابی سے دیکھا۔
"کس کے سلسلے میں ملنے آئے ہیں آپ مجھ سے؟"اس کی آواز میں تھرتھراہٹ چھلک رہی تھی۔
"مس ریحا۔ " طاہر نے ذرا آگے جھک کر اس کی نظروں کا احاطہ کر لیا۔ "لندن یونیورسٹی میں ایک لڑکا آپ کے ساتھ پڑھتا تھا۔ سرمد۔۔۔ "
اور ریحا کا خوف چہرے پر ابل پڑا۔ وہی ہوا جو اس کے دل میں تھا۔ طاہر کے نام نے اسے وہ سب یاد دلا دیا، جو سرمد نے اپنی داستانِ غم سناتے ہوئے اس پر ظاہر کیا تھا۔ ایک نام اور تھا صفیہ۔ اس کا جی چاہا کاش وہ بھی ان کے ساتھ ہوتی۔ وہ بھی اس بہار کا دیدار کر لیتی جس نے سرمد کو خزاں خزاں کر دیا تھا مگر اس کی جگہ امبر کا نام سن کر وہ مایوس سی ہو گئی۔ اس کی ایک دم دگرگوں ہوتی کیفیت نے ان دونوں کو ہوشیار کر دیا۔
"سرمد۔۔۔ " سرسراتے لہجے میں ریحا نے کہا اور ڈری ڈری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔
"جی ہاں مس ریحا۔ " طاہر نے پہلے جیسی نرمی ہی سے کہا۔ " سرمد۔ جس کے ڈاکومنٹس آپ نے لندن سے اس کے پتے پر پاکستان پارسل کئے تھے۔ وہ عمرے کے بعد انڈیا آیا اور غائب ہو گیا۔ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ ہم یہ سوچ کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ یقیناً آپ اس کے بارے میں کچھ ایسا بتا سکیں گی جو ہمیں اس تک رسائی دلا سکے۔ "
ریحا آنکھیں بند کئے گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ ان سب کے دل شدت سے دھڑک رہے تھے۔ ریحا سرمد کے بارے میں جانتی تھی۔ انہیں بتا سکتی تھی، مگر کیا؟ اس سوالیہ نشان کے پنجے ان کے دل و دماغ میں پوری شدت کے ساتھ اترتے جا رہے تھے۔
چند لمحے خاموشی کے گھاٹ اتر گئے۔ امید و بیم نے انہیں جکڑے رکھا۔ آخر مانیا نے آہستگی سے ریحا کا ہاتھ تھام کر اسے خودفراموشی کی کیفیت سے باہر نکالا۔
"مس ریحا۔ " ہولے سے اس نے کہا تو ریحا نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا۔ خشک ہونٹوں کو زبان پھیر کر تر کیا۔
"کیا جاننا چاہتے ہیں آپ لوگ سرمد کے بارے میں ؟" اس کی آواز جیسے کسی کھائی سے ابھری۔
"سب کچھ۔۔۔ وہ سب کچھ جو آپ اس کے بارے میں جانتی ہیں۔ "
"مگر اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ لوگ سرمد کے دوست ہیں۔ "وہ انہیں نظروں میں تولتے ہوئے بولی۔
جواب میں مانیا نے طاہر کا پاسپورٹ اسے تھما دیا۔ اس نے اسے کھول کر دیکھا۔ ایک حد تک اسے اطمینان ہو گیا۔ پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے اس نے سوالیہ نظروں سے مانیا کی طرف دیکھا۔ مانیا اس کا مطلب سمجھ گئی اور پرس سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اسے دیا۔ ریحا نے اس کا جائزہ لیا اور خاصی حد تک مطمئن نظر آنے لگی۔
"کیا میں پوچھ سکتی ہوں آپ کے ساتھ سرمد کا کیا رشتہ ہے؟"اس نے طاہر سے پوچھا جو خیالوں کے غبار میں گھرا بڑی باریک بینی سے ریحا کی پوچھ گچھ کو جانچ رہا تھا۔ اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ سرمد کے بارے میں اس قدر محتاط کیوں ہو رہی ہے۔
"جی مس ریحا۔ " طاہر نے ناپ تول کر الفاظ کا انتخاب کیا۔ "میں اس کا کزن ہوں۔ "
"ہوں۔۔۔ " ریحا ایک بار پھر کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ لگتا تھا وہ زبان کھولنے سے پہلے ان کی باتوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ ان پر اعتماد کرنے یا نہ کرنے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ آخر ان کا صبر رنگ لایا اور ریحا نے فیصلہ کر لیا۔
"میں جو کہنے جا رہی ہوں ، اسے بڑے حوصلے اور دھیان سے سنئے گا۔ " اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا اور طاہر کی جانب دیکھا۔ " آپ یہ تو جان ہی چکے ہیں کہ میں کرنل رائے کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ "
"جی جی۔ " طاہر اس کے رکنے پر بے چین سا ہو گیا۔ " رکئے مت مس ریحا۔ "
"لندن میں میری سرمد سے آخری ملاقات ہوئی تو میں نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ جواب میں اس نے مجھے جو کہانی سنائی، اس نے اس کے دُکھ اور زندگی سے گریز کا پردہ فاش کیا۔ " آہستہ سے اس نے طاہر کی جانب نظر اٹھائی، جو اسے گھبرائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر آئے ہوئے پسینے نے ریحا کے دل میں رشک سا جگا دیا۔ اس نے صفیہ کا نام لینے سے پرہیز کرتے ہوئے کہا۔ "وہ کسی لڑکی کے عشق میں دنیا سے کٹ گیا تھا۔ میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتی تھی مگر اس نے میری حوصلہ افزائی کی نہ کوئی وعدہ کیا۔ میں نے اپنے طور پراس کا انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اسے اپنے اس عزم سے آگاہ کر کے انڈیا چلی آئی۔ " وہ رکی تو طاہر نے رومال سے ماتھا خشک کیا۔ اس کی نظروں میں ریحا کے لئے تشکر کے جذبات تھی۔ ریحا نے اس بات کو محسوس کیا اور پھر کہنا شروع کیا۔
"کچھ عرصے بعداس نے سعودیہ سے مجھے کال کی کہ میں لندن جا کر اس کے ڈاکومنٹس پاکستان اس کے پاپا کے پتے پر ارسال کر دوں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور واپس آ کر اس کے انتظار کا جھولا جھولنے لگی۔ مجھے نجانے کیوں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن میرے سرمد سے ملاقات ضرور ہو گی۔ سیتا ماں مجھے اور اسے ضرور ملا دے گی۔ میں روزانہ اس کے نام کا دیپ جلانے اس مندر میں آتی ہوں۔ "
وہ خاموش ہو گئی۔
"تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد آپ کو اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی؟" مایوسی سے طاہر نے پوچھا۔
"یہ میں نے کب کہا؟" وہ اضطراب سے ہونٹ کاٹنے لگی۔ اس کی بھرائی ہوئی آواز نے ان دونوں کو چونکا دیا۔
"تو پھر۔۔۔ ؟" مانیا نے طاہر کے ہونٹوں کے الفاظ چھین لئے۔
" آج شام۔۔۔ یہاں آنے سے پہلے۔۔۔ مجھے اس کے بارے میں خبر ملی۔ " اس کی آواز حلق میں پھنسنے لگی۔ ر کے رکے الفاظ بھیگتے چلے گئی۔ " وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ " اس نے بے چینی کے عالم میں اپنے ہاتھ رانوں تلے دبا لئے اور سر جھکا کر بلک پڑی۔ " وہ میرے پاپا کے ٹارچر سیل میں قید ہے۔ "
"کیا۔۔۔ ؟" طاہر اور مانیا اگر اچھل نہ پڑتے تو حیرانی کو خود پر حیرت ہوتی۔ "یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ مس ریحا؟" طاہر بے قراری سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں مسٹر طاہر۔ " وہ روئے جا رہی تھی۔ "میرا سرمد ایک آتنک وادی کے روپ میں میرے پاپا کے ہاتھ لگا اور اب وہ اسے ٹارچر کر رہے ہیں۔ " آنسوؤں میں بھیگی آواز میں ریحا نے انہیں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس ساری بات سے آگاہ کیا جو کرنل رائے سے اس تک پہنچی تھی۔
"یہ کیسے ہو سکتا ہے؟" طاہر بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ "وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ وہ تو ایک بچے کی طرح معصوم ہے۔ "
"مگر پاپا اسے نہیں مانتی۔ " مانیا کی باہوں میں پڑی ریحا ہچکیاں لے رہی تھی۔
"یہاں مجاہدوں کو دہشت گرد ہی کہا جاتا ہے۔ " مانیا نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
"میں سمجھتا ہوں مس مانیا مگر سرمد کسی جہادی تحریک میں شامل ہوا تو کیسی؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ وہ تو اس راہ کا مسافر ہی نہیں تھا۔ "طاہر بے بسی سے بولا۔
شام، رات میں ڈھل رہی تھی۔ مانیا نے ریحا کو بڑی مشکل سے نارمل کیا۔ وہ اس کی حالت سے خاصی متاثر لگ رہی تھی۔
"مس ریحا۔ " اچانک طاہر اس کے قریب آ کر رکا اور گھٹنوں کے بل گھاس پر بیٹھ گیا۔ "یہ ٹارچر سیل کہاں ہے؟"
"ہماری رہائش گاہ میں انیکسی کے بالکل ساتھ بیسمنٹ میں۔ "ریحا نے آہستہ سے جواب دیا۔
" آپ سرمد کو وہاں سے نکالنے میں ہماری کیا مدد کر سکتی ہیں ؟"
"جان دے سکتی ہوں۔ " اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔ " آج سے پہلے میں بھی نہیں جانتی تھی کہ میں سرمد کو اس شدت سے چاہنے لگی ہوں مگر اب لگتا ہے اس کے بغیر سانس لینا مشکل ہے۔ "
"میرا خیال ہے ہمیں اس ملاقات کو یہیں روک دینا چاہئے۔ مسٹر طاہر، اٹھ جائے۔ لوگوں کی نظریں آپ پر مرکوز ہیں۔ "
طاہر کو اپنی حالت کا احساس ہوا تو وہ فوراً کھڑا ہو گیا۔ "سوری مس مانیا۔ " ہولے سے اس نے کہا۔
"اٹس او کے۔ میں سمجھ رہی ہوں۔ " مانیا نے اس کی جانب دیکھا۔ "میرا مشورہ یہ ہے کہ کل صبح مس ریحا سے میٹنگ رکھی جائے۔ اس وقت لائحہ عمل طے کیا جائے کہ ہم اس سلسلے میں کیا اور کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ وقت ایسی تفصیل کے لئے مناسب ہے نہ کافی۔ "
اس کی بات درست تھی۔ ریحا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے مانیا کے دیے ہوئے ٹشو پیپر سے آنکھیں اور رخسار خشک کئے۔ پھر طاہر کی جانب دیکھا۔
" آپ کہاں ٹھہرے ہیں ؟"
"ہوٹل کشمیر پوائنٹ میں۔ روم نمبر دو سو ایک اور دو سو دو۔ " طاہر نے بتایا۔
"میں کل صبح نو بجے آپ کے پاس ہوں گی۔ رات بھر میں مزید جو بھی معلوم ہو سکا، میں اس کے لئے پوری کوشش کروں گی۔ "
"ٹھیک ہے۔ " طاہر نے اس سے اتفاق کیا۔ "وقت کا خیال رکھئے گا مس ریحا۔ آپ سمجھ سکتی ہیں کہ یہ رات ہم پر کیسی بھاری گزرے گی۔ "
"بتانے کی ضرورت نہیں مسٹر طاہر۔ " وہ اسے اداسی سے دیکھتے ہوئے بولی۔ " میں سانسوں میں کانٹوں کی چبھن سے آشنا ہو چکی ہوں۔ "
"تو یہ طے رہا کہ کل صبح نو بجے ہوٹل میں مس ریحا ہم سے آن ملیں گی۔ " مانیا جیسے اب وہاں سے رخصت ہو جانا چاہتی تھی۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا۔
"ہاں مس ریحا۔ جنرل صاحب کے سیل میں ایک شخص ہے کیپٹن آدیش۔ "
"جی ہاں۔ " وہ چونکی۔ " آپ اسے کیسے جانتی ہیں ؟"
"وہ میرا کزن ہے۔ اسی نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔ آپ اسے میرا ایک میسج دے سکیں گی؟"
"ضرور۔ مگر کیا اس پر بھروسہ کرنا مناسب ہو گا مس مانیا؟" ریحا نے پوچھا۔
"یہی تو مجھے جاننا ہے۔ " مانیا نے پُر خیال لہجے میں کہا۔ " اور اس سے ملے بغیر میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی۔ آپ اسے کہئے گا مجھے آج رات ہوٹل میں آ کر ملے۔ "
"ٹھیک ہے۔ میں اسے آپ کا میسج دے دوں گی۔ " ریحا نے دھیرے سے کہا۔ "ویسے وہ آدمی اتنا برا نہیں ہے۔ مجھ سے اس کا دو چار بار سابقہ پڑ چکا ہے۔ "
"تو آپ اسے میرا پیغام ضرور دیجئے گا۔ باقی جو بھگوان کرے۔ " مانیا نے کہا اور وہ سب پارک سے باہر جانے کے لئے چل پڑے۔

عشق کا قاف (قسط نمبر 15)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font, ishq ka qaaf novel pdf download
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں