عشق کا قاف (قسط نمبر 10)

 ishq ka qaaf novel pdf download

عشق کا قاف (قسط نمبر 10)

قرآن پاک کے الفاظ اس کی جانب سر اٹھائے مسکرا رہے تھے۔ قیامت ٹل گئی تھی۔ اسے توبہ کا وقت مل گیا تھا۔ زبان کی اینٹھن روانی میں بدل گئی۔ حافظ اسی مقام پر جا کھڑا ہوا جہاں پر وہ آیت سے جدا ہوا تھا۔
ہاتھ لو پر جلتا رہا۔ مگر اس جلن میں درد نہ تھا، ایک سرور تھا جو اسے لوریاں دے رہا تھا۔ زخم نہ تھا، گلاب تھا جو کھلتا ہی جا رہا تھا۔ منزل ہو رہی تھی یا منزل اس کی جانب خود چل پڑی تھی؟ کون جانے۔ جانے تو بس وہ جانے جو اوپر بیٹھا اپنے آدم کی آزمائش لے رہا تھا۔ فرشتوں کو دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:
"کیا میں نے کہا نہ تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ وہ دیکھو۔ میرا آدم میری طرف چل کر آ رہا ہے اور مجھے دوڑ کر اس کی طرف جانا ہے۔ اسے گرنے سے پہلے تھام لینا ہے۔ جاؤ۔ اس کے ہاتھ کا، اس کے جسم کا سارا درد سمیٹ کر اس میں وہ مستی بھر دو جس میں صرف میرا ذکر، میرا شکر اور میرا امر لو دے رہا ہو۔ "
کھڑکی کے دوسری جانب دم بخود کھڑی لڑکی کے حواس مختل ہو چکے تھے۔ اس کی آنکھوں میں وہ منظر سما ہی نہ رہا تھا۔ حافظ عبداللہ کا ہاتھ جل رہا تھا۔ گوشت پگھل کر قطرہ قطرہ گر رہا تھا مگر اسے جیسے اپنا ہوش ہی نہ تھا۔ وہ جھوم جھوم کر تلاوت کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ چہرہ اور اب جسم بھی پسینے میں یوں بھیگا جا رہا تھا جیسے کسی نے اس پر جگ بھر پانی انڈیل دیا ہو مگر وہ ہر احساس سے بے نیاز منزل کر رہا تھا۔ منزل اس کی جانب بھاگی چلی آ رہی تھی۔
اسی وقت باہر سے " اللہ اکبر" کی صدا ابھری۔
درویش لوٹ آیا تھا۔ وہ فجر کی اذان دے رہا تھا۔
امتحان کا وقت ختم ہو گیا تھا اور شاید امتحان بھی۔
یہ صدا اعلان تھی اس بات کا کہ حافظ عبداللہ کامیاب ہو گیا۔
لڑکی کے کانوں میں اللہ اکبر کی صدا پڑی تو وہ چونکی۔ گھبرا کر درز سے پیچھے ہٹی اور دروازے کی طرف لپکی۔ ایک پُر شور آواز کے ساتھ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلی۔ کمبل اس کے شانے پر لٹکا ہوا ساتھ ساتھ گھسٹتا آ رہا تھا۔ تقریباً بھاگتی ہوئی وہ دوسرے کمرے میں داخل ہوئی۔ دیوانہ وار آگے بڑھی اور نیم بیہوش مگر تلاوت میں محو حافظ عبداللہ کے پاس جا رکی۔
"حافظ صاحب۔ " ایک چیخ اس کے لبوں سے نکلی اور اس نے اس کا جلتا ہوا ہاتھ کھینچ کر چراغ کی لو سے پرے ہٹا دیا۔
ایک دم حافظ عبداللہ نے آنکھیں کھول دیں اور جیسے ہوش میں آ گیا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر لڑکی ایک پل کو دہشت زدہ ہوئی پھر اس کی طرف سے نگاہ ہٹا کر اس نے کمبل کے پلو میں حافظ عبداللہ کا چرر مرر ہاتھ لپیٹ لیا۔
"یہ آپ نے کیا کیا ؟" اس کی آواز میں درد ہی درد تھا۔
"کیا کیا؟" حافظ عبداللہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ حواس میں آتے ہی درد اس پر پوری شدت سے حملہ آور ہو گیا۔
"حی علی الفلاح۔ "
اچانک وہ باہر سے آتی ہوئی درویش کی آواز پر چونکا۔ "بابا۔ " اس نے سرسراتے لہجے میں کہا۔ " بابا لوٹ آئے۔ "
"کون بابا؟" لڑکی کی آواز اب بھی بھرائی ہوئی تھی۔ وہ کمبل میں لپٹا اس کا ہاتھ تھامے بیٹھی آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
مگر حافظ عبداللہ اس کے سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی غش کھا گیا۔ اب درد کی اذیت اس کی برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔
"حافظ صاحب۔۔۔ حافظ صاحب۔ " لڑکی اسے بے اختیار پکارے جا رہی تھی۔
"بس۔ " اچانک ایک آواز سن کر وہ چونکی۔ ایک جھٹکے سے گردن گھما کر اس نے اندر آتے ہوئے درویش کو دیکھا جو تین چار لمبے لمبے ڈگ بھر کر اس کے پاس پہنچا اور حافظ عبداللہ کا سر گود میں لے کر بیٹھ گیا۔
" آرام کرنے دے اسی۔ " وہ والہانہ حافظ عبداللہ کے چہرے کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس کے گالوں پر محبت سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔ " سونے دے اسے۔ ساری رات امتحان دیتا رہا ہے پگلا۔ تھک گیا ہے۔ سونے دے اسے۔ "
"بابا۔ " لڑکی نے اس سے پوچھنے کی کوشش ہی نہ کی کہ وہ کون ہے۔ وہ اسے اجنبی لگا ہی نہ تھا۔ بالکل ایسا لگا جیسے وہ برسوں سے اسے جانتی ہو۔ "بابا۔ ان کا ہاتھ۔۔۔ "
"کیا ہوا اس کے ہاتھ کو؟" درویش نے اس کا ہاتھ کمبل کے پلو سے باہر نکالا۔ پھر جلے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
"بابا۔ انہوں نے دیے کی لو پر اپنا ہاتھ رکھ چھوڑا تھا۔ ہاتھ جلتا رہا مگر انہیں خبر ہی نہ ہوئی۔ وہ تو میں نہ آ کر ہٹاتی تو نہ جانے کیا ہو جاتا۔ " وہ مزید سہہ نہ سکی اور سسک کر رو پڑی۔
"پگلی ہے تو بھی۔ " درویش نے اس کے سر پر تھپکی دی۔ " کچھ نہیں ہو گا اسے۔ میرا اللہ چاہے تو ابھی اس کا ہاتھ یوں ہو جائے جیسے اس پر کبھی کوئی خراش تک نہیں آئی مگر ۔۔۔ "
"مگر کیا بابا؟" لڑکی نے بیتابی سے پوچھا۔
"مگر میرا اللہ چاہتا ہے کہ حافظ عبداللہ کا ہاتھ دوا سے ٹھیک ہو۔ اس کا نقص باقی رہے۔ یہ عیب والا ہو جائے۔ "
"وہ کیوں بابا؟" وہ سوال پر سوال کئے جا رہی تھی اور درویش اس کے ہر سوال کا جواب یوں دے رہا تھا جیسے کوئی باپ اپنی بیٹی سے لاڈ کر رہا ہو۔
"اس لئے پگلی کہ اپنے اللہ سے محبت کا یہ نشان اس کے ہاتھ پر باقی رہے۔ اسے اور تجھے یاد رہے کہ یہ ہاتھ کیوں اور کیسے جلا تھا؟"
"میں سمجھی نہیں بابا؟" ایک دم لڑکی کا ذہن جیسے سلیٹ کی طرح صاف ہو گیا۔
"کیا تو نہیں جانتی کہ حافظ نے اپنا ہاتھ جلتے چراغ کی لو پر کیوں رکھ دیا تھا؟" اچانک درویش کا لہجہ عجیب سا ہو گیا۔ "شیطان آ گیا تھا اس کے پاس۔ شیطان جو آگ سے بنا ہے۔ نفس کی آگ کو حافظ عبداللہ نے اپنے اللہ کے حکم پر نور کے الاؤ میں دھکیل دیا۔ نفس جل گیا۔ شیطان خاک ہو گیا۔ نور باقی رہا۔ اب اس نور کا نشان تا عمر میرے حافظ کے ہاتھ پر باقی رہے، اس کے اللہ کی نشانی اس کے پاس رہے، یہی اس کے معبود کی رضا ہے۔ سمجھیں پگلی۔ " درویش نے اس کی جانب پیار سے دیکھا۔
"ہاں بابا۔ " لڑکی کی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آئی۔ "سب سمجھ گئی۔ " اس کی نگاہیں جھک گئیں۔ رات بھر کی ساری کیفیات ایک پل میں اس کی نظروں میں پھر گئیں۔ اس کی ساری بدگمانیاں شرمندگی کا پسینہ بن کر اس کی پیشانی سے بہہ نکلیں۔ وہ حافظ عبداللہ کی حرکات سے کیا اخذ کرتی رہی اور حقیقت کیا تھی؟ یہ جان کر اسے خود پر شرم آ گئی۔
"کمبل سے اپنا جسم ڈھانک لے پگلی۔ سردی لگ جائے گی۔ " درویش نے حافظ عبداللہ کو بازوؤں میں اٹھا تے ہوئے کہا تو وہ چونکی۔ کمبل کو جسم پر ٹھیک سے لپیٹا۔ پھر اس کے پیچھے پیچھے وہ بھی دوسرے کمرے میں آ گئی۔
درویش نے حافظ عبداللہ کو چارپائی پر لٹایا۔ جلتا ہوا چراغ اٹھا کر لایا اور چارپائی کے پاس نیچے کچے فرش پر رکھ دیا۔
"میں نماز پڑھ لوں۔ تم اتنی دیر اس کے زخم پر چراغ کا تیل چپڑتی رہو۔ باقی کا علاج صبح گاؤں جا کر ہو جائے گا۔ "
درویش کمرے سے نکل گیا۔
لڑکی نے ایک پل کو کچھ سوچا۔ پھر چارپائی کی پٹی سے لگ کر زمین پر بیٹھ گئی۔ حافظ عبداللہ کا جلا ہوا ہاتھ تھام کر اس نے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے چراغ سے تیل لیا اور زخم پر چپڑنے لگی۔ وقفے وقفے سے وہ اس کے چہرے پر بھی نظر ڈال لیتی، جہاں سکون کا ایک عالم آباد تھا۔ ایساملکوتی سکون اسے پہلے کہاں دیکھنا نصیب ہوا تھا؟
٭٭٭٭٭٭٭٭
"میرا نام سکینہ ہے جی۔ " لڑکی نے کہا۔ "میں سائیاں والا کے میاں اشرف کی بیٹی اور میاں نذرو کی بھتیجی ہوں۔ "
"اری۔ " چوہدری حسن دین چونکا۔ "پھر تو تُو میری بیٹی اور بھتیجی ہوئی۔ میاں نذرو تو میرے بڑا یار ہے۔ "
"چلئے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ یہ آپ کے جاننے والوں کی کچھ لگتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری ذمہ داری ختم ہوئی۔ اب آپ انہیں ان کے گھر بھجوانے کا انتظام کر دیں چوہدری صاحب۔ " حافظ عبداللہ نے مفلر کے ساتھ گلے میں لٹکے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے چھوتے ہوئے کہا جس پر کچھ دیر پہلے گاؤں کے اکلوتے ڈاکٹر جمع حکیم، مرزا امیر حسین نے ڈریسنگ کی تھی۔
پو پھٹتے ہی درویش نے ان دونوں کو گاؤں کے راستے پر خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ سورج نکل رہا تھا جب وہ دونوں چوہدری حسن دین کی حویلی جا پہنچی۔ اندر خبر کی گئی تو فوراً ان دونوں کو بیٹھک میں بٹھایا گیا۔ رفاقت اور چوہدری حسن دین آئے تو حافظ عبداللہ نے مختصر لفظوں میں انہیں ساری بات بتائی۔ مسجد سے غیر حاضری کی وجہ بھی سامنے آ گئی۔ اب آخر میں جب سکینہ نے اپنا نام اور پتہ بتایا تو سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔
"سکینہ بیٹی۔ تم اندر جاؤ۔ نہا دھو کر کپڑے بدلو۔ میں اتنی دیر میں تمہارے چچا کو خبر کرتا ہوں۔ ہاں ، یہ تو بتاؤ کہ تم کب سیلاب کے پانی میں گریں ؟"
"کل صبح چوہدری صاحب۔ " سکینہ نے جواب دیا اور جھرجھری لے کر رہ گئی۔ "میں اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ پُل پر کھڑی سیلاب کے پانی کا تماشہ دیکھ رہی تھی کہ پاؤں پھسل گیا۔ وہ دونوں شور مچاتی کسی کو مدد کے لئے بلانے بھاگیں۔ میں ڈوبتے ڈوبتے ایک درخت کے تنے سے جا چمٹی جو نجانے کہاں سے بہتا چلا آ ر ہا تھا۔ پانی نے میرے حواس چھین لئے اور میں بے سدھ ہو گئی۔ ہوش آیا تو بابا شاہ مقیم کے مزار پر تھی۔ "
"بس بیٹی۔ یہ اللہ والوں کی کرامتیں ہیں۔ ایک تو تیری جان بچ گئی اوپر سے حافظ عبداللہ جیسے نیک بندے کے ہاتھ لگ گئیں۔ اگر کہیں غلط ہاتھوں میں پڑ جاتیں تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ "چوہدری حسن دین نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔ " اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ "
"جی۔ " سکینہ نے کرسی پر سر جھکائے بیٹھے حافظ عبداللہ کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"نادرہ کو بلاؤ۔ " چوہدری حسن دین نے رفاقت سے کہا۔
"جی ابا جان۔ " رفاقت اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے ساتھ چودہ پندرہ سالہ صحتمند اور ہنستی کھیلتی نادرہ کو لئے واپس آیا۔
"سلام حافظ صاحب۔ " اس نے اندر داخل ہو کر حافظ عبداللہ کو سلام کیا۔ حافظ عبداللہ نے جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
"نادرہ پتر۔ سکینہ بہن کو اندر لے جا۔ اسے نہلا دھلا کر اس کے کپڑے بدلوا۔ ناشتہ واشتہ کرا اور آرام کرنے کے لئے بستر میں گھسا دے۔ یہ بہت تھکی ہوئی ہے۔ "
"جی ابا۔ " نادرہ نے اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں مٹکائیں۔ "مگر یہ ہیں کون؟"
"میرے ایک مرحوم دوست کی بیٹی ہے۔ یہ کل سیلاب کے پانی میں بہہ گئی تھی۔ تیرے استاد صاحب نے اسے بچا لیا۔ "
"بچانے والی تو اللہ کی ذات ہے چوہدری صاحب۔ " حافظ عبداللہ نے جلدی سے کہا۔
"ہاں جی۔ مگر کوئی حیلہ وسیلہ بھی تو ہوتا ہے ناں۔ " چوہدری حسن دین نے زور دے کر کہا۔ " اب وہ خود تو نیچے اتر کر اسے پانی سے نکالنے سے رہا۔ آپ کو بھیج دیا کہ جا بھئی۔ اپنا فرض ادا کر۔ "
حافظ عبداللہ مسکرا کر خاموش ہو رہا۔ نادرہ، سکینہ کو اندر لے گئی۔
"رفاقت۔ یار سائیاں والا تک کا راستہ تو سارا سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہاں فون کی سہولت بھی موجود نہیں۔ اب نذرو کو خبر کیسے کی جائے؟"
"ابا جان۔ " رفاقت نے کمرے میں داخل ہوتے ملازم کے ہاتھ سے ناشتے کی ٹرے تھام کر حافظ عبداللہ کے آگے تپائی پر رکھی اور چوہدری حسن دین سے مخاطب ہوا۔ "وجاہت آباد کے راستے سائیاں والا پہنچا جا سکتا ہے۔ "
"یار۔ بڑا لمبا ہو جائے گا راستہ۔ " چوہدری حسن دین نے سوچ میں ڈوبے لہجے میں کہا۔
"اب کا م تو یہ کرنا ہے ابا جان۔ راستہ لمبا ہو یا چھوٹا۔ جانا تو پڑے گا۔ "رفاقت کہہ کر حافظ عبداللہ سے مخاطب ہوا۔ " حافظ صاحب۔ آپ ناشتہ شروع کیجئے۔ سوچ کیا رہے ہیں ؟"
"کچھ نہیں یار۔ سوچنا کیا ہے؟" حافظ عبداللہ نے بایاں ہاتھ آگے بڑھایا۔ پھر واپس کھینچ لیا۔ "یہ بائیں ہاتھ سے کھانا کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ "
"اب یہ تو مجبوری ہے حافظ صاحب۔ " چوہدری حسن دین نے ہمدردی سے اس کی جانب دیکھا۔ " ہاں۔ اگر آپ کی شادی ہو گئی ہوتی تو اور بات تھی۔ پھر آپ کی بیگم لقمے بنا بنا کر آپ کو کھلاتیں اور آپ دعا کرتے کہ آپ کا ہاتھ ذرا دیر سے ٹھیک ہو۔ " مزاح کی عادت سے مجبور چوہدری حسن دین رہ نہ سکا اور گوہر افشانی کرنے لگا۔ بات ختم کر کے وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ حافظ عبداللہ جھینپ کر رہ گیا۔ رفاقت نے استاد کو شرمندہ ہوتے دیکھا تو مسکرا کر منہ پھیر ا اور ذرا پرے جا بیٹھا۔ "مگر آپ نے کیسی لاپروائی دکھائی کہ سوتے میں ہاتھ جلتے چراغ پر دے مارا۔ اگر کہیں چراغ کپڑوں پر آگر تا تو۔۔۔ "
"بس چوہدری صاحب۔ سوتے میں کیا پتہ چلتا ہے۔ " حافظ عبداللہ نے کہا اور بائیں ہاتھ سے بہ امر مجبوری پراٹھا توڑنے لگا۔ اس نے ہاتھ جلنے کے بارے میں یہی بتایا تھا کہ سوتے میں پتہ نہ چلا اور ہاتھ جلتے چراغ پر جا پڑا۔ پھر جب تک وہ سنبھلتا آگ نے ہاتھ جلا ڈالا۔ مرزا امیر حسین نے زخم دیکھ کر کہنا چاہا تھا کہ لگتا ہے بہت دیر تک ہاتھ آگ پر پڑا رہا ہے۔ تاہم حافظ عبداللہ نے بات کو ہوں ہاں میں ٹال دیا۔
ناشتہ کر کے حافظ عبداللہ نے اجازت لی اور مسجد کو چل دیا۔ کچھ دیر بعد چوہدری حسن دین نے اپنے ایک ملازم شفیق مصلی کو میاں نذرو کی طرف روانہ کرتے ہوئے کہا۔
"وجاہت آباد کے ملک بلال کو تم خوب جانتے ہو۔ میں دیر سے اس کا فون ٹرائی کر رہا ہوں مگر رابطہ نہیں ہو رہا۔ شاید بارش کی وجہ سے لائنیں ڈسٹرب ہو گئی ہیں۔ تم اس سے جا کر ملنا۔ اگر آگے راستہ صاف نہ ہوا تو وہ تمہاری ہر ممکن مدد کرے گا۔ اور اگر صاف ہوا تو وہاں زیادہ ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔ جتنی جلدی ہو سکی، میاں نذرو سے جا کر ملو اور اسے بتاؤ کہ اس کی بھتیجی یہاں ہمارے پاس ہے اور بالکل خیر خیریت سے ہے۔ جب چاہیں آ کر لے جائیں۔ وہاں فون کی لائن ابھی تک بچھی نہیں ، ورنہ میں جناب کو تکلیف نہ دیتا۔ راستہ رکا ہوا نہ ہوتا تو میں خود ہی سکینہ بیٹی کو چھوڑ آتا۔ سمجھ گیا یا سب کچھ لکھ کر دوں دُن وٹی؟" چوہدری حسن دین نے اس کے چہرے پر بکھری حماقت سے بیزار ہو کر کہا۔
"سمجھ گیا ہوں جی۔ " شفیق مصلی بولا تو ساری حماقت اس کے چہرے سے چھٹ گئی۔ معلوم ہوا کہ جب تک چپ رہتا احمق لگتا تھا مگر زبان کھلتے ہی وہ سمجھدارلگنے لگتا تھا۔ " آپ فکر نہ کریں۔ جیسا آپ نے کہا ہے، ویسا ہی ہو گا۔ "
"تو بس۔ اب چل دے میرے ٹٹو۔ تجھے سائیکل پر جانا ہے اور راستہ کافی طویل ہے۔ " چوہدری حسن دین کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ " ویسے تو وجاہت آباد کب تک پہنچے گا، اس وقت بارہ بجے ہیں دن کے۔ "
"ڈیڑھ دو گھنٹے کا راستہ تو ہے جی۔ بس زیادہ سے زیادہ دو بجے تک پہنچ جاؤں گا۔ "
"ٹھیک ہے۔ اگر کوئی خاص بات ہوئی تو مجھے فون پر آگاہ کرنا۔ بس اب روانہ ہو جا اللہ کا نام لے کر۔ "
"جی چوہدری صاحب۔ " شفیق مصلی نے سلام کیا اور باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭
دوپہر کے کھانے کے بعد طاہر حویلی سے کچھ دور ڈیرے میں بیٹھا بلال ملک اور چند دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا۔ موضوع بحث عادل اور زبیدہ تھے جن کی شادی کا معاملہ ایسے احسن انداز میں طے ہو ا تھا کہ سب لوگوں پر طاہر کی معاملہ فہمی اور فراخ ذہنی کی دھاک بیٹھ گئی۔
"ملک صاحب۔ نور پور سے چوہدری حسن دین کا آدمی آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ " دروازے سے اندر داخل ہوتے ایک ملازم نے کہا۔
"اوہو۔ " ملک سیدھا ہو بیٹھا۔ " خیر تو ہے۔ "
"پتہ نہیں جی۔ بس آپ سے ملنے کو کہتا ہے۔ "
"تو بھیجو اسے اندر۔ سوچ کیا رہے ہو؟" ملک نے ڈپٹ کر کہا۔
"جی ملک صاحب۔ " ملازم لوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد شفیق مصلی نے اندر داخل ہو کر بلند آواز میں سب کو سلام کیا۔ جواب میں سب نے وعلیکم السلام کہا۔ طاہر خاموشی سے صوفے پر نیم دراز سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔
" آؤ بھئی شفیقی۔ خیریت تو ہے؟" ملک نے اسے پہچان لیا۔ ملک نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"جی ملک صاحب۔ سب خیر ہے اور چوہدری صاحب بھی خیریت سے ہیں۔ ایک ضروری کام سے آیا ہوں جی۔ " وہ ایک موڑھے پر ٹک گیا۔
"ہاں ہاں۔ کہو۔ کیا بات ہے؟"
جواب میں شفیق مصلی نے اسے چوہدری حسن دین کے پیغام سے آگاہ کیا۔ طاہر اس کی بات سنتا رہا اور غور کرتا رہا۔
"راستہ تو آگے کا صاف ہی ہے شفیقی۔ پھر بھی کسی قسم کی مدد درکار ہو تو بتاؤ۔ "
"نہیں جی۔ آپ کو چوہدری صاحب کا سلام دینا تھابس۔ اگر راستہ صاف ہے تو پھر مجھے چلنا چاہئے۔ "
"او نہ بھئی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تو ہمارے بابا جی کے گاؤں سے آیا ہے۔ " عقیدت سے ملک نے سر خم کر کے کہا۔ "لسی پانی کے بغیر کیسے جائے گا تو۔ اوئے کرامت۔ " ملک نے دور بیٹھے ایک آدمی کو پکارا۔
"جی ملک صیب۔ " وہ اٹھ کر قریب چلا آیا۔
"شفیقے کو ساتھ لے جا۔ اس کی خوب ٹہل سیوا کر کے جانے دینا اسے۔ کوئی کسر رہ گئی تو بابا شاہ مقیم کو جانتا ہے ناں ؟" ملک نے اسے خوف دلایا۔
"فکر نہ کریں۔ آپ کو کوئی شکایت نہیں ملے گی ملک صیب۔ " کرامت نے ڈرے ڈرے لہجے میں کہا اور شفیق سب کو سانجھا سلام کر کے اس کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
"ملک۔ بابا شاہ مقیم کے مزار پر اپنا کوئی بندہ ہی جڑ دینا تھا۔ وہاں کی دیکھ بھال سے ہمارا بھی اندر دھلتا رہتا۔ " طاہر نے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"اب اس کی ضرورت نہیں رہی چھوٹے مالک۔ ایک اللہ والے نے وہاں کا چارج سنبھال لیا ہے۔ "
" یہ کب کی بات ہے؟"طاہر نے حیرت سے پوچھا۔
"کافی عرصہ ہو گیا جی۔ بس وہاں کا ذکر نہیں آیا تو آپ کو خبر نہ ہوئی۔ "
"اچھا۔ کیسا اللہ والا ہے وہ، جس نے بابا کے دل میں گھر کر لیا۔ وہ تو کسی کو اپنے مزار پر ٹکنے ہی نہیں دیتے۔ "
"بس جی۔ یہ کوئی ان کا دُلارا لگتا ہے جو دھونی رمائے بیٹھا ہے وہاں۔ "
"اچھا۔ پھر تو ملنا چاہئے اسے۔ " طاہر کے لہجے میں دلچسپی عود کر آئی۔
"جب حکم کریں ، چلے چلیں گے جی۔ "
"کل صبح چلیں ؟" طاہر نے فراغت کے وقت کا بہترین استعمال سوچ لیا۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ جب سے آیا ہے اسے بابا شاہ مقیم کے مزار پر جانے کا خیال کیوں نہ آیا۔ پچھلے تین چار سال سے مصروفیت کے باعث وہاں نہ جانے کی کوتا ہے تو ہو رہی تھی اس سی، مگر اس بار تو وہ بالکل فارغ تھا۔ اسے آتے ہی وہاں جانا چاہئے تھا۔
"ٹھیک ہے جی۔ میں انتظام کرا لیتا ہوں۔ " ملک نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ "صبح سات آٹھ بجے نکل چلیں گے۔ سہ پہر تک لوٹ آئیں گے۔ "
"ٹھیک ہے۔ تم تیاری کر لو۔ اور ہاں۔ سالانہ عرس پر تو ہمارا حصہ جا رہا ہے ناں وہاں ؟"
"یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے چھوٹے مالک۔ " ملک مسکرایا۔ " بڑے صاحب کے زمانے سے جو معمول بندھا تھا، برابر جاری ہے۔ بیگم صاحبہ نے کبھی اس میں کوتا ہے آنے دی ہے نہ کمی۔ "
"ایسا ہی ہونا چاہئے۔ " اس نے سر ہلایا۔ " بہت بڑی ہستی ہیں بابا شاہ مقیم۔ "
"ہاں جی۔ اس میں کیا شک ہے؟" ملک نے تائید کی۔
پھر بابا شاہ مقیم کی باتیں چھڑیں تو وقت گزرنے کا احساس اس وقت ہوا جب حویلی سے سہ پہر کی چائے کا پیغام آ گیا۔
طاہر حویلی چلا گیا اور ملک چند ملازموں کے ساتھ اپنے آفس نما کمرے میں ، جو ڈیرے کی حدود میں ہی واقع تھا۔ اسے صبح کے سفر کی تیاری کرنا تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
میاں نذرو اپنے بیٹے سلیم اور سکینہ کی ماں تاج بی بی کے ساتھ اگلے دن چوہدری حسن دین کے ہاں پہنچ گیا۔ شفیق مصلی انہیں حویلی چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔ وہ لوگ اپنے شاہی تانگے پر آئے تھے۔ شفیق مصلی سائیکل پر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا تھا۔
تاج بی بی کی بے چینی کے پیش نظر وہ تو رات ہی کو پہنچ جاتے مگر شفیق مصلی نے انہیں خوب تسلی دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ صبح نور کے تڑکے نکلنا چاہئے۔ رات کا سفر خراب راستے کے باعث مناسب نہیں ہے۔ رات جیسے تیسے گزار کر وہ فجر کی نماز کے فوراً بعد ناشتہ کر کے چل پڑے اور آٹھ بجے کے قریب یہاں آن پہنچے۔
ان کے ملنے کا منظر بڑا دلگداز تھا۔ سکینہ، ماں اور چچا کے گلے لگ کر بچوں کی طرح روئی۔ تاج بی بی اسے پیار کرتے نہ تھکتی تھی۔ سلیم نے بھی سر پر پیار دیا اور اسے سینے سے لگا کر آبدیدہ ہو گیا۔
"مر جانئے۔ اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو تیرا یہ بھائی کس کی ماں کو ماسی کہتا۔ " اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور روتے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں کھیل گئیں۔
"واہ بھئی واہ۔ " چوہدری حسن دین نے سلیم کی جانب دیکھ کر قلقاری ماری۔ " تم تو اپنی برادری کے لگتے ہو۔ روتے بھی ہو تو سُر میں۔ "
"بس چاچا۔ یہ رونق ہے ہمارے گھر کی۔ " اس نے سکینہ کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ "اسے کیا پتہ، ہم نے کل رات تک کا وقت کیسے گزارا ہے؟ اس کی تلاش میں دریا کی تہہ کہاں کہاں تک نہیں کھنگالی ہم نے۔ وہ تو آپ کا بندہ پہنچا تو جان میں جان آئی۔ "
"شکر کرو بھائی رب سوہنے کا کہ اللہ نے حافظ عبداللہ کو رحمت کا فرشتہ بنا کر وہاں بھیج رکھا تھا۔ ورنہ یہ پتہ نہیں کہاں جا کر رکتی۔ درخت تو اس نے کرائے پر لے ہی لیا تھا۔ "
"چاچا۔ " سب کے قہقہے پر سکینہ نے شرما کر چوہدری حسن دین کی طرف شکایتی نظروں سے دیکھا۔
"ارے بیٹی۔ انہیں ہنس لینے دے۔ پتہ نہیں تیرے لئے کتنا روئے ہیں ؟" چوہدری حسن دین نے نرمی سے اسے سمجھایا تو وہ ایک بار پھر ماں سے لپٹ گئی۔
"اور سنا بھئی چوہدری۔ کیسی گزر رہی ہے؟" میاں نذرو اس کی طرف سیدھا ہوا۔
"بتاتا ہوں۔ پہلے تم لوگ کچھ اَن پانی چھک لو۔ " چوہدری حسن دین نے رفاقت اور نادرہ کے ساتھ ملازم کو کھانے پینے کی اشیا لے کر اندر آتے دیکھ کر کہا۔
"بھابی کہاں ہے؟ " میاں نذرو نے ذرا دیر بعد پوچھا۔
" میکے گئی ہے۔ " چوہدری حسن دین نے منہ بنا کر کہا۔ " بوڑھی ہو گئی پر اس کا میکے کا چسکا نہ گیا۔ ایک دو دن کا کہہ کر جاتی ہے اور سات دن بعد لوٹتی ہے۔ "
"ناراض نہ ہوا کر یار۔ " میاں نذرو نے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ " اب تک تو تجھے اس کا عادی ہو جانا چاہئے تھا۔ "
"عادی تو ہو گیا ہوں یار مگر اکثر یہ ہوتا ہے کہ بڑے اہم موقع پر وہ گھر میں موجود نہیں ہوتی۔ اب یہی دیکھ لو کہ تم لوگ آئے ہو اور وہ۔۔۔ "
"اچھا چھوڑ۔ یہ بتا، رفاقت کی شادی کب کر رہا ہے؟اب تو یہ ماشاءاللہ جوان ہو گیا ہے۔ " میاں نذرو نے بات کا رخ بدلنا چاہا۔
"میں اس کے لئے ایسی لڑکی ڈھونڈ رہا ہوں جس کے میکے والے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے مہمان ہو چکے ہوں۔ تاکہ یہ میری طرح بیوی کی راہ نہ تکتا رہے۔ " اس نے بیزاری سے کہا۔
"خیر کی بات نکال منہ سے۔ " میاں نذرو نے اسے سرزنش کے انداز میں کہا۔ "ہنستے بستے گھروں میں جانا آنا لگا ہی رہتا ہے۔ تو تو بالکل ہے۔۔۔ "
"اچھا اچھا۔ " چوہدری حسن دین نے اس کی بات کاٹ دی۔ " اب بس۔ تم لوگ آئے کس کام سے ہو اور لگ کس کام میں گئے ہو۔ چلو۔ کھانا پینا ہو جائے تو ذرا تم لوگوں کو گاؤں کی سیر کراؤں۔ "
"گاؤں کی سیر؟" میاں نذرو حیرت سے بولا اور چائے کا کپ ہاتھ سے رکھ دیا۔ "بھائی۔ ہم کیا کراچی سے آئے ہیں جو ہمیں گاؤں کی سیر کرائے گا؟ جیسا ہمارا گاؤں ہے ویسا ہی یہ گاؤں ہے۔ پھر کون سی خاص چیز ہے یہاں ، جسے دیکھنے کے لئے۔۔۔ "
"ایک خاص چیز تو حافظ عبداللہ ہے ابا جی۔ ہمیں سب سے پہلے اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس کے پاس جانا چاہئے۔ " اچانک سلیم نے کہا تو وہ سب اپنے آپ کو مجرم سا محسوس کرنے لگے۔ یہ کام تو انہیں آتے ہی کر لینا چاہئے تھا۔
"خوش کیتا ای پُتر۔ " چوہدری حسن دین نے اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ " واقعی۔ یہ بات تو میرے بھی ذہن سے نکل گئی۔ میں تو تم لوگوں کو بابا شاہ مقیم کے مزار پر لے جانا چاہتا تھا، جن کی دعا برکت سے سکینہ بیٹی کی جان بچی۔ یہ میرا اپنا خیال ہے۔ آپ لوگوں کا میرے مراسلے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ "
"ہم اس سے بالکل اتفاق کرتے ہیں بھائی جی۔ " تاج بی بی نے پہلی بار زبان کھولی۔ "ایسے اللہ والوں ہی کی وجہ سے تو دنیا آباد ہے۔ ہمیں وہاں ضرور جانا چاہئے۔ "
"مگر پہلے حافظ عبداللہ۔۔۔ " سلیم نے اشتیاق سے کہا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے جس نے اس کی بہن کی جان بچائی۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔
"تو ٹھیک ہے۔ " چوہدری حسن دین اٹھ گیا۔ "چلو۔ اس کی مسجدمیں چلتے ہیں۔ "
"کس کی مسجد میں جا رہے ہیں ابا جان؟" رفاقت نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
"حافظ عبداللہ کی مسجد میں بیٹی۔ "
"مگر وہ تو مسجدمیں نہیں ہیں۔ " رفاقت نے بتایا۔
"تو پھر کہاں ہیں ؟"
"بابا شاہ مقیم کے مزار پر۔ میں فجر پڑھنے گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ظہر کے وقت تک لوٹ آئیں گے۔ "
"چلو۔ یہ بھی ٹھیک ہے۔ وہاں تو ہمیں جانا ہی تھا۔ وہیں مل لیں گے۔ کیوں میاں گھگو؟" اس نے میاں نذرو کا پھلکا اڑایا۔
"ہاں ہاں۔ وہیں چلے چلتے ہیں۔ " میاں نذرو نے اس کی بات اَن سنی کر دی تاکہ اور زیادہ مذاق کا نشانہ نہ بننا پڑی۔ تاج بی بی بھی کھڑی ہو گئی۔
"سکینہ۔ " اس نے کسی سوچ میں ڈوبی بیٹی کا شانہ ہلایا۔ "تو بھی چل۔ "
" آں۔۔۔ ہاں۔ " وہ جیسے کسی خواب سے چونکی۔ "کہاں اماں ؟"
"کہاں کھوئی ہوئی ہے دھی رانی؟ " میاں نذرو نے پیار سے اسے مخاطب کیا۔ "ہم بابا شاہ مقیم کے مزار پر جا رہے ہیں۔ حافظ عبداللہ سے بھی وہیں مل لیں گے۔ "
"ٹھیک ہے چاچا۔ میں بھی چلتی ہوں۔ " وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ تاج بی بی نے صاف محسوس کیا کہ وہ اب بھی کسی سوچ میں ہے۔ مگر کس سوچ میں ؟ یہ تو شاید سکینہ کو خود بھی معلوم نہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد تاج بی بی، سکینہ، سلیم اور چوہدری حسن دین میاں نذرو کے شاہی تانگے میں سوار بابا شاہ مقیم کے مزار کی طرف جا رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭
دن تو جیسے تیسے گزر گیا مگر رات کا اکثر حصہ حافظ عبداللہ نے جاگ کر گزارا۔
پچھلی رات جو کچھ اس کے ساتھ پیش آیا تھا، وہ ایسا انہونا تھا کہ وہ اب تک خود کو خواب کی کیفیت میں محسوس کر رہا تھا۔ درویش تو ایسا اس کے خیالوں پر سوار ہوا کہ ایک پل کو وہ اس کی طرف سے دھیان ہٹاتا، دوسرے پل وہ پھر آ دھمکتا۔ رہ گئی سکینہ، تو اس کے تصور میں آتے ہی اس کے ہاتھ کا زخم دل میں ٹیس سی دوڑا دیتا۔ اس کا جی چاہتا وہ آنکھیں بند کئے پڑا "سکینہ سکینہ " کا ورد کرتا رہے۔
فجر کی اذان کا وقت ہو ا تو وہ آدھا جاگا آدھا سویا ایک دم اٹھ بیٹھا۔ لاحول پڑھ کر جسم پر پھونک ماری اور رفع حاجت کے بعد وضو کے لئے مسجد کے چھوٹے سے وضو خانے میں آگیا۔ مرزا امیر حسین نے اسے زخم پر پانی ڈالنے سے منع کیا تھا۔ ویسے بھی ہاتھ میں حرکت دینے سے درد جاگ اٹھتا تھا۔ اس نے دائیں ہاتھ کا مسح کیا اور باقی وضو مکمل کر کے اذان کے لئے مسجد کی چھت پر چلا گیا۔
اذان کے بعد دعا مانگ کر وہ نیچے آنے کے لئے سیڑھیوں کی طرف چلا تو ٹھٹک کر رک گیا۔ دور، نور پور سے باہر بابا شاہ مقیم کا مزار جیسے اسے صدا دے رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ درویش نے بھی وہاں اذان دی ہو گی۔ درویش کا خیال آتے ہی اس کا جی چاہا کہ وہ سب کام چھوڑ کر اس کے پاس چلا جائے۔ اس کی انوکھی، اسرار سے لبالب باتیں جسم میں سنسنی سی پیدا کر دیتی تھیں۔ ایک بار پھر تصور ہی تصور میں وہ کمرہ امتحان میں پہنچ گیا۔ جہاں چارپائی پر سکینہ پڑی تھی، دروازے میں درویش کھڑا تھا اور وہ خود سراپا حیرت بنا درویش کی باتیں سن رہا تھا۔
اسی وقت بڑی مدھم سی "اللہ اکبر" کی ندا اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس کا سارا جسم لرز گیا۔ درویش اذان دے رہا تھا۔ حافظ عبداللہ کا دل سینے میں کسی پنچھی کی طرح پھڑپھڑایا اور سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ اذان ختم ہونے تک وہ آنکھیں بند کئے کھڑا کانپتا رہا۔ پھر جونہی درویش نے آخر میں "لا الہٰ الا اللہ" کہا، حافظ عبداللہ بیدِ مجنوں کی طرح لرزتا کانپتا چھت سے نیچے اتر آیا۔
فجر کی نماز میں بمشکل سات آٹھ نمازی تھی، جن میں رفاقت بھی شامل تھا۔ نماز کے بعد وہ لوگ اس کی خیریت دریافت کرتے ہوئے رخصت ہو گئی۔ اس نے کسی کو نہ بتایا کہ کل رات وہ کہاں تھا۔ بس ایک ضروری کام کا کہہ کر ٹال دیا۔ ہاتھ جلنے کے بارے میں اس کی جگہ رفاقت نے سب کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ جلتے چراغ پر ہاتھ جا پڑا تھا۔
پو پھٹ رہی تھی جب رفاقت نے اس سے اجازت چاہی۔
"رفاقت۔ میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر جا رہا ہوں۔ ظہر تک لوٹ آؤں گا۔ اگر مجھے دیر ہو گئی تو اذان دے دینا، جماعت میں خود آ کے کراؤں گا۔ "
"ٹھیک ہے حافظ صاحب لیکن آپ اتنی صبح صبح۔۔۔ ذرا دن چڑھے چلے جائے گا۔ " رفاقت نے روا روی میں کہا۔
"نہیں یار۔ " حافظ عبداللہ نے سر پر ٹوپی درست کرتے ہوئے جواب دیا۔ " بس۔ دل اکھڑ سا گیا ہے۔ وہاں جاؤں گا تو سکون ملے گا۔ "
"جیسے آپ کی مرضی جی۔ اور ناشتہ؟" اچانک رفاقت کو یاد آ گیا۔
"وہ میں کر لوں گا۔ رات کا کھانا بچا پڑا ہے۔ " حافظ عبداللہ نے جلدی سے کہا۔
"میں ابھی دس منٹ میں لے آتا ہوں جی۔ "
"نہیں بھئی۔ " حافظ نے ہاتھ اٹھا کر اسے حتمی طور پر روک دیا۔ "میں کر لوں گا۔ تم جاؤ۔ ابا جی کو میرا سلام دینا۔ اور ہاں۔۔۔ " وہ کہتے کہتے رک گیا۔
"جی حافظ صاحب۔ کچھ کہہ رہے تھے آپ؟" جب وہ خاموش ہی رہا تو رفاقت نے جیسے اسے یاد دلایا۔
"کچھ نہیں۔ " حافظ عبداللہ نے آہستہ سے کہا۔ "تم جاؤ۔ "
رفاقت اس سے مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا۔ اب وہ اسے کیسے بتاتا کہ وہ اس سے سکینہ کا حال پوچھنا چاہتا تھا۔ الفاظ اس کی زبان تک آ کر رک گئی۔ اس نے خدا کا شکر اد ا کیا کہ کوئی ایسی بات اس کی زبان سے نہ نکل گئی جس سے ا س کے دل کا چور پکڑا جاتا۔ اور یہ تو شاید اسی کے دل کا چور تھا، سکینہ کو اس کی خبر ہو گی، اسے اس بات کا قطعاً یقین نہ تھا۔
سورج نکل آیا تھا جب وہ بابا شاہ مقیم کے مزار پر پہنچا۔ حسب معمول درویش اسے باہر کہیں دکھائی نہ دیا۔ وہ مزار کے اندر چلا گیا۔ سلام کر کے بابا کے سرہانے، ان کے چہرے کے عین سامنے دو زانو بیٹھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور درود شریف کے بعد ذرا بلند آواز میں سورہ محمد کی تلاوت شروع کر دی۔ سرور کی ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ پھر درود شریف ہی کا ورد کر رہا تھا۔ سورہ محمد کی تلاوت کے بعد اس نے درود شریف کا ورد کب شروع کیا، اسے کچھ خبر نہ تھی۔ بس یہ احساس ہو رہا تھا کہ اس کا اندر شفاف ہو گیا ہے۔ دھُل گیا ہے۔ بے تابی کا کہیں نام و نشان نہیں ہے اور سکون ہے کہ اس پر سایہ فگن ہے۔
اس نے دعا مانگی اور آمین کہتے ہوئے جب چہرے پر ہاتھ پھیرے تو پتہ چلا، اس کا چہرہ اور داڑھی آنسوؤں میں تر تھی۔ سر جھکائے چند لمحے بیٹھا رہا پھر ایک طویل سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ جھک کر مزار کا ماتھا چوما۔ سلام کیا اور الٹے پاؤں باہر نکل آیا۔
باہر قدم رکھا تو بائیں ہاتھ کھڑے درویش نے آنکھیں کھول دیں۔
" آ گیا حافظ۔ " وہ اس کی طرف بڑھا۔ " میں کب سے کھڑا تیرا انتظار کر رہا ہوں۔ " اس نے محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"بابا۔۔۔ آپ۔ " حافظ نے جلدی جلدی چپل پاؤں میں ڈالی اور اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لے کر چوم لیا۔
"اوں ہوں۔۔۔ " درویش نے سرزنش کی۔ " آج کیا ہے۔ آئندہ ایسا نہیں کرنا۔ کیوں مجھے ابلیس کے حوالے کرنے پر تُلا ہے تو۔ " وہ حافظ عبداللہ کو سینے سے لگاتے ہوئے بولا۔ "اسے بھی فخر اور تکبر لے ڈوبا تھا۔ جس کے ہاتھ پاؤں چومے جائیں اسے وہ بڑی جلدی آن لیتا ہے۔ اسے سمجھاتا ہے کہ وہ دوسروں سے افضل ہے۔ اور یہ سوچ ہی وہ تازیانہ ہے جو انسان کے اندر سے عاجزی کو مار مار کر بھگا دیتی ہے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ " میں یہیں آپ کے پاس نہ آ جاؤں ؟"
"سیانا ہے تو۔ " درویش مسکرایا۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ٹبے کی طرف چل پڑا۔ "میرے پاس کیا رکھا ہے۔ سوائے تنہائی، اداسی اور جلی بھنی باتوں کی۔ تجھے بھری پُری جگہ پر رہنا ہے۔ پھلنا پھولنا ہے۔ یہاں آ کر کیا کرے گا ؟"
"بس میرا جی چاہتا ہے بابا۔ میں ہر وقت آپ کے پاس رہوں۔ " حافظ عبداللہ کے لبوں سے نکلا۔
"جی تو بہت سی باتوں کو چاہتا ہے حافظ۔ سبھی پوری تو نہیں ہو جاتیں۔ " درویش اس کے ساتھ ٹبے پر چڑھا اور دونوں پیپل تلے بیٹھ گئی۔ " تو یہ بتا۔ اس پگلی کا کیا حال ہے؟"
"کس کا بابا؟" حافظ عبداللہ کا دل زور سے دھڑکا اور نظر جھک گئی۔
درویش نے سر نیچا کئے، گھاس کے تنکے توڑتے حافظ عبداللہ کی طرف چند لمحوں تک دیکھا۔ پھر ہنس دیا۔
"اچھا ہے۔ " اس نے سر ہلایا۔ " اچھا ہے، جو تو اسے بھول جانا چاہتا ہے۔ نیکی کو نسیان کے دریا میں ڈال دینا ہی اچھا ہے۔ "
حافظ عبداللہ نے سر اٹھایا نہ درویش کی بات پر کوئی تاثر ظاہر کیا۔ وہ اب ایک تنکا دانتوں میں دبائے خاموش بیٹھا تھا۔
"چل۔ اشراق پڑھ لیں۔ وقت نہ نکل جائے۔ " اچانک درویش نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے حافظ کے کندھے سے چادر کھینچی اور ٹبے پر بچھا دی۔ دونوں قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور اپنے اللہ کے دربار میں حاضر ہونے کے لئے عبادت کے دروازے پر اس کی دی ہوئی توفیق سے دستک دینے لگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
دن کے ساڑھے نو بجے تھے جب میاں نذرو کا شاہی تانگہ بابا شاہ مقیم کے مزار کے باہر آن رکا۔ وہ سب لوگ نیچے اترے اور مزار کے اندر سلام کے لئے چلے گئے۔
سکینہ نے اندر جاتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔ درویش اور حافظ عبداللہ میں سے کوئی نظر نہ آیا۔ "شاید کمرے میں ہوں گے۔ " اس نے سوچا اور گھر والوں کے ساتھ مزار کے اندر چلی گئی۔
پھولوں کی چادر چڑھائی گئی جو میاں نذرو نے رستے میں گاؤں کے پھلیرے سے لے لی تھی۔ دعا مانگی گئی۔ اللہ کا شکر ادا کیا گیا جس نے انہیں سکینہ صحیح سلامت لوٹا دی تھی۔
سکینہ نے سر جھکایا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسے خود پر قابو نہ رہا۔ نہ زبان سے کوئی لفظ نکل رہا تھا نہ دل سے کوئی دعا۔ بس اشک تھے کہ بہتے چلے جا رہے تھے۔ سسکی تک اس کے لبوں تک نہ آئی۔ چہرے کو ڈھانپتا دوپٹہ بہت بڑی ڈھال بن گیا۔ کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ اشک اشک کیوں ہو رہی ہے؟
دعا کے بعد وہ نذرانہ مزار کے اندر دروازے کے پاس رکھے بکس میں ڈال کر باہر نکلے تو حیران ہوئی۔ سامنے برگد کے درخت تلے دھاری دار دو تین دریاں بچھی تھیں اور درویش ان سے کچھ دور ایک بڑے سے مسطح پتھر پر کھڑے گھٹنے بازوؤں کے کلاوے میں لئے بیٹھا تھا۔ جبکہ میاں نذرو کا کوچوان دری کے کونے پر سر جھکائے حافظ عبداللہ کے پاس بیٹھا تھا۔ انہیں حیرت یہ تھی کہ جب وہ پہنچے تھے تو وہاں ایسی کسی چیز کا نام و نشان نہ تھا مگر اب یوں لگتا تھا کہ یہ سارا اہتمام ہی ان کے لئے کیا گیا ہے۔
انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر درویش اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ سکینہ نے اسے دیکھا اور جیسے بھاگ کر اس کے قریب چلی گئی۔
" آ گئی تو۔ "درویش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ "جیون جوگئی۔ رو کیوں رہی ہے؟" اس نے آہستہ سے کہا اور اسے ساتھ لگا لیا۔ "کیا اپنا بھید سب کو بتائے گی۔ چُپ ہو جا۔ روک لے اس نمکین پانی کو۔ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ "

انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر درویش اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ سکینہ نے اسے دیکھا اور جیسے بھاگ کر اس کے قریب چلی گئی۔
" آ گئی تو۔ "درویش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ "جیون جوگئی۔ رو کیوں رہی ہے؟" اس نے آہستہ سے کہا اور اسے ساتھ لگا لیا۔ "کیا اپنا بھید سب کو بتائے گی۔ چُپ ہو جا۔ روک لے اس نمکین پانی کو۔ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ "
سکینہ نے اس کے کندھے سے لگے لگے بڑے غیر محسوس انداز میں پلو سے آنکھیں خشک کر لیں اور الگ ہو گئی۔
" آؤ جی بھاگاں والیو۔ " درویش نے ان سب کو دونوں ہاتھ اٹھا کر دور سے کہا اور ساتھ ہی اپنے گھٹنے چھونے سے صاف منع کر دیا۔ اس طرح اس نے ان سے مصافحہ کرنے سے بھی جان بچا لی۔
"بابا۔ " چوہدری حسن دین نے اس سے دو قدم دور رک کر ہاتھ جوڑ دئیے۔ "ہم آپ کا اور حافظ عبداللہ کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔ "
"شکر ادا کر اس کا چوہدری۔ جس نے یہ سارا کھیل رچایا ہے۔ " درویش نے آسمان کی جانب انگلی اٹھا دی۔ " میں نے کیا ہی کچھ نہیں تو شکریہ کس بات کا قبول کروں۔ باقی رہا حافظ، تو وہ بیٹھا ہے۔ وہ جانے اور تم جانو۔ تم جتنا چاہو اسے شرمندہ کر لو۔ "
"نہیں بابا۔ شرمندہ کیوں کریں گے ہم اسی؟ ہم تو اس کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے۔ ہماری بیٹی کی جان بچا کر اس نے ہمیں خرید لیا ہے۔ " میاں نذرو نے ممنونیت سے کہا۔
"تو کیا کہتا ہے میاں ؟" درویش نے سلیم کا رخ کیا جو کبھی اسے اور کبھی حافظ عبداللہ کو دیکھ رہا تھا۔
"میں۔۔۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں جی۔ میرے لئے تو وہ دنیا کا سب سے عظیم انسان ہے جس نے میری بہن کو مرنے سے بچا لیا۔ "
"بس۔ " اچانک درویش بھڑک اٹھا۔ "مرنے سے تیری بہن کو میرے اللہ نے بچایا ہے، حافظ عبداللہ کون ہوتا ہے اسے بچانے والا۔ تم لوگ شرکیہ الفاظ زبان سے نکالتے ہوئے ذرا نہیں سوچتے۔ "
"معافی چاہتا ہوں بابا۔ " سلیم سہم سا گیا۔ "میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ "
"پتہ ہے۔ پتہ ہے۔ " درویش ایک دم ٹھنڈا ہو گیا اور بیزاری سے بولا۔ "شرک کی نیت نہیں ہوتی، اسی لئے بچ جاتے ہو تم لوگ۔ پھر بھی بولنے سے پہلے سوچا کرو۔ سوچا کرو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ "
"جی بابا۔ " سلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ بھی متاثر نظر آ رہے تھے۔
"لے بھئی حافظ۔ بابا شاہ مقیم نے تیرے مہمان بھیجے ہیں۔ ان سے باتیں کر۔ میں ان کے لئے تبرک لے آؤں۔ " درویش نے وہیں سے کہا اور سکینہ کے سر پر پیار دے کر پلٹ گیا۔
وہ سب لوگ حافظ عبداللہ کی طرف چل پڑے جو اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا تھا۔ میاں نذرو، سلیم اور چوہدری حسن دین نے اس سے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ اس کا حال چال پوچھا۔ تاج بی بی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں۔ سکینہ، ماں کے عقب میں سر جھکائے کھڑی کنکھیوں سے بار بار حافظ عبداللہ کے پٹی میں ملفوف ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ سب اس کے پاس ہی دری پر بیٹھ گئے۔
"حافظ صاحب۔ ہم آپ کا شکریہ ادا کر کے اس نیکی کا درجہ نہیں گھٹانا چاہتے جو آپ نے سکینہ ہمیں زندہ سلامت لوٹا کر ہمارے ساتھ کی ہے۔ " سلیم نے حافظ عبداللہ کا بایاں ہاتھ بڑی محبت سے تھام کر کہا۔ "میں سکینہ کا بھائی ہوں جی۔ زندگی میں کبھی میری جان کی ضرورت بھی پڑ جائے تو مانگ لینا۔ رب کی قسم۔ انکار کروں تو کافر ہو کر مروں جی۔ "
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔ " حافظ عبداللہ نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ "میں نے کیا کیا ہے۔ یہ تو میرے سوہنے اللہ کا کرم ہے کہ سکینہ بی بی کی جان بچ گئی۔ میں تو ایک حیلہ بن گیا اور بس۔ میں نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا میری جگہ۔ سکینہ بی بی پھر بھی بچ جاتیں۔ "
"سچ ہے بیٹا۔ " میاں نذرو نے سر ہلا کر کہا۔ " مگر اب تو تم ہی ہمارے لیے اس نیکی کا سبب بنے ہو ناں۔ زبان سے تمہارے شکریے کے الفاظ ادا کر نے سے دل کو ذرا تسلی ہو جائے گی۔ باقی اس نیکی کا نہ کوئی بدل ہے نہ انعام۔ "
"بس کرو یار اَب۔ " ایک دم چوہدری حسن دین بول پڑا۔ "تم تو اپنے شکریے کے بوجھ تلے میرے حافظ صاحب کا سانس روک دو گی۔ بس اب مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ " اس نے حافظ عبداللہ کو مزید مشکل میں پڑنے سے بچا لیا۔
"پھر بھی ابا جی۔ ہمیں حافظ صاحب کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ زبانی جمع خرچ سے کیا فائدہ۔ " سلیم نے باپ کی طرف دیکھا۔
"کیا کریں پتر۔ تو بتا ؟" میاں نذرو بیٹے کی طرف متوجہ ہوا۔
"دیکھئے۔ آپ لوگوں نے میرا شکریہ ادا کر لیا۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کے بارے میں آپ لوگ سوچیں بھی مت۔ اس سے مجھے تکلیف ہو گی۔ " حافظ عبداللہ نے ان کی نیت بھانپ کر جلدی سے کہا۔ اسی وقت اس کی نگاہ سکینہ پر پڑی جو اسے بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے فوراً ہی چہرہ دوسری جانب پھیر لیا۔
"اماں۔ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ " اچانک سکینہ نے زبان کھولی تو سب لوگ چونک پڑی۔ اس کے وجود سے تو وہ جیسے بے خبر ہی ہو گئے تھی۔
"ہاں ہاں بیٹی۔ تو کہہ۔ " تاج بی بی کے ساتھ میاں نذرو بھی بول اٹھا۔ " شاید تیری ہی بات کچھ ایسی ہو کہ ہمارے دل اطمینان پا سکیں۔ "
"رک جا ؤ بیٹی۔ " چوہدری حسن دین نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ "ادھر آ۔ پہلے چاچا بھتیجی صلاح کر لیتے ہیں۔ پھر انہیں بتائیں گے۔ آ جا۔ " وہ دری سے اٹھا اور جوتے پہننے لگا۔
سکینہ نے ایک پل کو کچھ سوچا۔ ایک نگاہ بھر حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ لگتا تھا وہ اسے کچھ بھی کہنے سے روکنا چاہتا ہے مگر پھر نجانے کیوں اس نے سکینہ سے نظر ملتے ہی نچلا ہونٹ دانتوں میں داب کر سر جھکا لیا۔ سکینہ، چوہدری حسن دین کے ساتھ ان لوگوں سے تیس پینتیس قدم دور کھیتوں کے کنارے چلی آئی۔
"اب بتا بیٹی۔ کیا کہنا چاہتی ہے تو؟" چوہدری حسن دین یوں کھڑا ہو گیا کہ اس کا رخ باقی لوگوں کی طرف تھا اور سکینہ کی پشت۔
"چاچا۔ " سکینہ نے زبان پھیر کر اپنے ہونٹوں کو تر کیا۔ " میں۔۔۔ میں۔۔۔ " اس نے نظر جھکا لی۔
"دیکھ بیٹی۔ بات تو حافظ عبداللہ کا شکریہ ادا کرنے کی ہے۔ وہ اسے روپیہ پیسہ، مکان وغیرہ دے کر ادا کیا جا سکتا ہے۔ اب تیرے ذہن میں کیا ہے، تو وہ بتا دے۔ "
"کسی کی جان بچانے کی قیمت کیا یہی کچھ ہے چاچا؟" سکینہ نے اس کی جانب دیکھا۔
"نہیں۔ " خلاف معمول چوہدری حسن دین اس وقت بالکل سنجیدہ تھا۔ "مگر ہم اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں بیٹی؟"
"جان میری بچائی ہے اس نے چاچا۔ تو کیا اس کا شکریہ ادا کرنے کا موقع مجھے نہیں ملنا چاہئے؟" اچانک سکینہ نے جیسے حوصلہ پکڑ لیا۔
"بالکل ملنا چاہئے بیٹی۔ " چوہدری حسن دین نے اس کی آنکھوں میں بڑے غور سے دیکھ کر کہا اور اس بار سکینہ نے نظر نہ جھکائی بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی۔ "تو بتا۔ کیا کرنا چاہتی ہے تو؟"
اور جواب میں اس نے جو کہا اسے سن کر چوہدری حسن دین کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ اس نے جیسے لڑکھڑانے سے بچنے کے لئے دونوں ہاتھ سکینہ کے شانوں پر رکھ لئے۔ اس کا رنگ فق ہو گیا اور دل سینے میں دھڑکنا بھول گیا۔
"ہاں چاچا۔ " سکینہ نے پُرسکون لہجے میں کہا۔ "یہی میرا شکریہ ہے حافظ عبداللہ کے حضور۔ "
"مگر کیوں بیٹی؟ اتنا بڑا فیصلہ۔۔۔ "
"میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے چاچا۔ نہ یہ اچانک ہے اور نہ کسی دباؤ کے تحت۔ یہ حتمی ہے۔ اس میں کوئی لچک ممکن نہیں۔ " اس نے چوہدری حسن دین کی بات کاٹ دی۔
اس کی آواز میں نجانے کیا تھا کہ چوہدری حسن دین کا سانس سینے میں رک سا گیا۔ اس نے پلکیں زور سے جھپک کر نظر میں اڑتی دھول صاف کرنے کی کوشش کی۔ پھر آہستہ سے سکینہ کے کندھوں سے ہاتھ ہٹا لئے۔
"سکینہ بیٹی۔ میں تجھے وہاں ، ان لوگوں کے پاس سے یونہی اٹھا کر نہیں لے آیا تھا۔ جب سے ہم یہاں آئے ہیں ، میں محسوس کر رہا تھا کہ تو حافظ عبداللہ کو بار بار کنکھیوں سے دیکھ رہی ہے۔ میری بات کا برا نہ منانا۔ میں نے اس بات کو اچھا نہ سمجھا اور دل میں بدگمانی کا شکار بھی ہوا، کیونکہ حافظ عبداللہ کی میرے دل میں بڑی عزت ہے۔ وہ میرے بچوں کا استاد ہے۔ اس کی شرم مارتی ہے مجھے۔ جب تو نے کہا کہ تو حافظ عبداللہ کے لئے کچھ کہنا چاہتی ہے تو میں یہ سوچ کر تجھے وہاں سے اٹھا لایا کہ تو نادانی میں کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکال دے جسے بھگتنا ہمارے لئے مشکل ہو جائے مگر مجھے یہ اندازہ قطعی نہیں تھا کہ تو اتنی بڑی بولی لگا دے گی اپنی جان بچانے کی۔ ابھی تک میں یہ بھی نہیں جان پایا کہ تو نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟"
"وہ میں سب کے سامنے بتاؤں گی چاچا۔ " سکینہ نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
"سب کے سامنے؟" چوہدری حسن دین چونکا۔ "مگر کیوں ؟ دیکھ بیٹی۔ مجھے یہیں بتا دے تاکہ میں وہاں بات کو سنبھال سکوں۔ "
"ایسی کوئی بات نہیں ہے چاچا، جس کے لئے مجھے کسی کی سفارش کی ضرورت پڑی۔ بات بالکل صاف، سیدھی اور سچی ہے جو میں سب کو ایک ساتھ بتانا چاہتی ہوں۔ "
"بیٹی۔۔۔ " چوہدری حسن دین نے کہنا چاہا۔
"بس چاچا۔ اور کچھ نہیں۔ " سکینہ نے جیسے بات ختم کر دی۔ " آئیے چلیں۔ سب لوگ نجانے کیا کیا سوچ رہے ہوں گے۔ " وہ سر جھکائے آہستہ سے پلٹی۔ چوہدری حسن دین نے اسے روکنا چاہا، مگر وہ قدم اٹھا چکی تھی۔ بیچارگی سے ہونٹ کاٹتے اور دماغ میں اٹھتے بگولوں سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔ آنے والے لمحات میں کیا طوفان جنم لینے والا تھا، اس کا احساس اسے بخوبی ہو رہا تھا۔
سکینہ لوٹی اور سر جھکائے اس طرح آ کر دری پر بیٹھ گئی کہ اب اس کے سب لوگ اس کے سامنے اور حافظ عبداللہ کچھ فاصلے پر بائیں ہاتھ پر تھا۔ چوہدری حسن دین لمبے لمبے ڈگ بھرتا آیا اور سکینہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سب حیران تھے کہ سکینہ ان کے پاس بیٹھنے کے بجائے ان کے سامنے کیوں آ بیٹھی ہے؟ درویش ابھی تک نہ لوٹا تھا۔
التحیات پر جیسے عورتیں بیٹھتی ہیں ، اس انداز میں بیٹھ کر سکینہ نے بائیں ہتھیلی زمین پر بچھا کر جسم کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا اور دوپٹہ سر پر ٹھیک کر لیا۔
"چاچا۔ آپ بات کریں گے یا میں بولوں ؟" اس نے اپنے ساتھ بیٹھے چوہدری حسن دین سے آہستہ آواز میں پوچھا، جس کی ساری شگفتگی ہوا ہو چکی تھی۔
"نہیں۔ تم ابھی خاموش رہو۔ " چوہدری حسن دین نے بھی آہستہ سے جواب دیا اور کھنکار کر گلا صاف کیا۔
سب لوگ انہیں اشتیاق بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ آخر میاں نذرو رہ نہ سکا اور بول پڑا۔ "کیا بات ہوئی بھئی تم چاچے بھتیجی میں۔ اب بتا بھی دو۔ کیوں ہمارا ضبط آزما رہے ہو۔ "
"میاں۔ " چوہدری حسن دین نے بجھی بجھی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ "سکینہ بیٹی۔۔۔ " وہ رک گیا۔ اس کا حوصلہ نہ پڑ رہا تھا کہ بات ایک دم سے زبان سے نکال دی۔
"سکینہ بیٹی۔ " اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔ " وہ چاہتی ہے کہ۔۔۔ "
"ارے بابا۔ کہہ دے جلدی سے۔ میرا دل تو ہول کھانے لگا ہے کہ نجانے کیا بات کہنے والا ہے تو؟" میاں نذرو کی بیتابی شدید ہو گئی۔
" تو سن میاں۔ " چوہدری حسن دین نے سر جھٹک کر کہا۔ اس نے سوچ لیا کہ اب جو ہو سو ہو، اسے بات کر دینی چاہئے۔ " مگر میری بات سننے سے پہلے یہ جان لے کہ اگر بات تم لوگوں کی عقل اور سمجھ سے اوپر کی ہوئی تو فوری طور پر کوئی جوابی اقدام کرنے سے گریز کرنا۔ بات اتنی ہی نازک ہے کہ میں بھی بڑی مشکل سے سمجھ پایا ہوں۔ "
سب لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ حافظ عبداللہ نے گھبرا کر سکینہ اور چوہدری حسن دین کی جانب دیکھا۔ سکینہ تو سر جھکائے بیٹھی تھی اور چوہدری حسن دین نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ضرور مگر وہاں اس کے لئے کوئی پیغام تھا نہ تسلی۔
"سکینہ بیٹی چاہتی ہے کہ اس کی شادی حافظ عبداللہ سے کر دی جائے۔ "
چوہدری حسن دین کے الفاظ تھے یا بجلی کا کڑاکا۔ انہیں یوں لگا جیسے ان کی سماعتیں انہیں دھوکا دے رہی ہوں۔ وہ کچھ اور سننا چاہتے تھے مگر سنائی کچھ اور دے رہا تھا۔
"کیا کہہ رہے ہو چوہدری؟" میاں نذرو ایک دم ہتھے سے اکھڑ گیا۔ اس نے گھور کر حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا جو اپنی جگہ پر دم بخود بیٹھا تھا۔ اسے خود سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اس نے جو سنا وہ غلط تھا، یا جو سکینہ کی نظریں کہہ رہی تھیں ، وہ سچ تھا۔ سکینہ نے اسے ایک بار بھرپور نگاہوں سے دیکھا، پھر سر جھکا لیا۔
"میں درست کہہ رہا ہوں۔ مجھ سے سکینہ بیٹی نے یہی کہا ہے۔ " چوہدری حسن دین نے سنبھالا لیا۔ " اور میاں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تمہیں بات کی باریکی کو سمجھنے سے پہلے کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ "
"اور بات کی باریکی کو سمجھا کیسے جائے گا چاچا؟" اچانک سلیم کی زہریلی آواز ابھری۔ وہ اپنے غصے کو ضبط کی لگام دینے کی کوشش کر رہا تھا۔
"سکینہ بیٹی کی بات سن کر۔ اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ یہ جاننے کے بعد ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ہمیں اس کی بات ماننا چاہئے یا نہیں ؟"
"مگر بھائی صاحب۔ یہ کیسے ممکن ہے؟" تاج بی بی کی کمزور سی آواز ابھری۔ اسے سکینہ سے ایسے اقدام کی امید ہی نہ تھی۔ ویسے بھی وہ اپنے دیور کے رحم و کرم پر تھی۔ اسے زندگی کی ہرسہولت ضرور میسرتھی مگر ہر فیصلے کا اختیار صرف میاں نذرو کے پاس تھا۔ اب اسے یہ خوف ستا رہا تھا کہ سکینہ کی اس بات کے رد عمل کے طور پر ان ماں بیٹیوں کے ساتھ جوسلوک ہو گا، اس کی ابتدا کس ستم سے ہو گی۔
"ممکن اور ناممکن کا فیصلہ کرنے سے پہلے اگر آپ لوگ مجھے کچھ کہنے کا موقع دیں تو شاید میں آپ کو سمجھا سکوں۔ " سکینہ نے بڑی مشکل سے بوجھل پلکیں اٹھائیں اور حافظ عبداللہ کی جانب دیکھاجس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن کے مصداق وہ اپنی جگہ جیسے گڑ کر رہ گیا تھا۔
" پہلی بات یہ ہے کہ میں نے یہ فیصلہ اپنی ذات میں رہ کر، اپنے طور پر کیا ہے۔ اس میں حافظ صاحب کا کوئی دخل نہیں ہے، اس لئے انہیں کسی بھی طرح قصوروار نہ سمجھا جائے۔ "
"اور دوسری بات؟" شعلہ بار انداز میں سلیم نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔
"دوسری بات یہ کہ میرے اس فیصلے کی، ایک عورت ہونے کے ناطے، میرے پاس بڑی معقول وجہ موجود ہے۔ "
"وہ بھی کہہ ڈالو۔ " سلیم کا لہجہ اب بھی بڑا تلخ تھا۔
"ایک عورت کے لئے سب سے محترم وہ مرد ہوتا ہے جو سب سے پہلے اس کے جسم کو چھوتا ہے۔ "
"کیا مطلب؟" ایک دم سلیم اور میاں نذرو کے ہونٹوں سے نکلا اور وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ ان کے نظروں کا ہدف حافظ عبداللہ بنا مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتے، سکینہ کی آواز نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
"میری بات کا غلط مطلب نہ لو سلیم بھائی۔ مجھے اپنی بات پوری کرنے دو۔ "
"یہ ٹھیک کہہ رہی ہے سلیم۔ " چوہدری حسن دین نے دونوں باپ بیٹے کو تنبیہ کرنے کے انداز میں کہا۔ "اس کی بات پوری سن تو لو۔"
"سننے کے لئے رہا کیا ہے اب چاچا۔ سب کچھ تو صاف ہو گیا ہے۔ " سلیم بھڑکا۔
"کچھ صاف نہیں ہوا۔ کچھ نہیں سنا ابھی تم نے۔ " سکینہ کی آواز بلند ہو گئی۔ " مجھے بات پوری کر نے دو۔ غصہ نکالنے کے لئے تمہیں بہت وقت مل جائے گا۔ "
سلیم اور میاں نذرو نے اسے بڑی کڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے بادل نخواستہ خاموشی اختیار کر لی اور حافظ عبداللہ نے ایک بار پھر امید بھری نظروں سے بابا شاہ مقیم کے مزار کی جانب دیکھا۔ ابھی تک درویش باہر نہیں آیا تھا۔ اس کے ہوتے شاید حالات وہ خراب رخ اختیار نہ کرتے، جس کی طرف وہ اب جا رہے تھے۔
"مجھے جب سیلاب سے حافظ صاحب نے نکالا تو یہ شام کے قریب کا وقت تھا اور میں اس وقت بیہوش تھی۔ میرے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھی۔ وہ مجھے چادر میں لپیٹ کر اپنے کندھے پر اٹھا کر اس کمرے میں لے گئے اور چارپائی پر ڈال دیا۔ " سکینہ نے اس کمرے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جس میں اس نے رات گزاری تھی۔ سب نے پلٹ کر اس جانب دیکھا اور پھر اس کی طرف متوجہ ہو گئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔
"میں جب ہوش میں آئی تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ مجھے بتایا کہ میں بابا شاہ مقیم کے مزار پر ہوں۔ مجھے کھانے کو روٹی دے کر وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے اور قرآن پاک کی تلاوت میں محو ہو گئی۔ "میرے ساتھ میرا اللہ موجود ہے۔" یہ بات مجھے بے خوف کرنے کے لئے حافظ صاحب نے کہی تھی، مگر ایک اجنبی جوان مرد کے ساتھ انجان جگہ پر موجود ہونے کا احساس مجھے پلک نہ جھپکنے دیتا تھا۔ میرا جسم پانی کے تھپیڑے کھا کھا کر چور ہو چکا تھا۔ میں تھکن سے بے حال تھی۔ سو جانا چاہتی تھی۔ جاگ جاگ کر جب حواس میرا ساتھ چھوڑنے لگے تو میں نے کمرہ اندر سے بند کیا اور لیٹ گئی۔ تب، حافظ صاحب چپکے سے آئے۔ مجھے سوتا دیکھ کر چند لمحے کھڑے رہے پھر لوٹ گئی۔ میں نے ان کے جانے کے بعد اٹھ کر کھڑکی کی درز سے دیکھا۔ وہ بے تابی سے کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ شاید وہ بھی اسی کیفیت کا شکار تھے جو مجھے نہ سونے دے رہی تھی۔ میں گھبرا گئی اور اپنے اللہ سے رو رو کر مدد مانگنے لگی۔ "
سکینہ رکی۔ اس نے سر جھکائے بیٹھے حافظ عبداللہ پر ڈالی۔ پھر میاں نذرو، سلیم اور اپنی ماں کی جانب دیکھا، جو خاموشی سے اس کی بات سن رہے تھے۔ ان کی حالت میں ایک ٹھہراؤ تو آیا تھا مگر ماتھے اب بھی شکن آلود تھے۔
"کافی دیر بعد میں نے دوبارہ ڈرتے ڈرتے کھڑکی کی درز سے جھانک کر دیکھا اور میرا سانس رک گیا۔ میرے حواس میرا ساتھ چھوڑ گئی۔ جب صورت حال میری سمجھ میں آئی تو مجھے لگا، میں کسی اور ہی دنیا میں ہوں۔ حافظ صاحب مجھے اس دنیا کے فرد نہ لگے۔ میں ان کے سامنے خود کو حقیر ترین محسوس ہوئی۔ آپ جانتے ہیں ، میں نے کیا دیکھا؟"
سکینہ نے بات روک کر دھندلائی ہوئی نظروں سے ان سب کو باری باری دیکھا۔ وہ سب اس کی بات مکمل ہونے کے انتظار میں اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کوئی جواب دیتا بھی تو کیا، خود چوہدری حسن دین تک تو حیرت میں گم یہ قصہ عجب شب سن رہا تھا۔
"میں نے دیکھا۔ " سکینہ کی آواز بھیگتی چلی گئی۔ " حافظ صاحب تلاوت میں اس طرح منہمک ہیں کہ انہیں یہ تک ہوش نہیں کہ شیطان کو اپنے خیالوں سے، اپنی سوچوں سے نکال پھینکنے کے لئے انہوں نے اپنا جو ہاتھ جلتے چراغ کی لو پر رکھا تھا، وہ خشک لکڑی کی طرح آگ پکڑ چکا ہے۔ جل رہا ہے۔ پگھل رہا ہے۔ میں بھاگی۔ ان کے کمرے میں پہنچی۔ ان کے قریب پہنچی تو درویش بابا نے مزار کے باہر اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ میں نے حافظ صاحب کا ہاتھ جلتے چراغ سے ہٹایا۔ وہ سر سے پاؤں تک پسینے میں ڈوبے ہوئے تھی۔ درد اور تکلیف کا احساس انہیں تب ہوا جب میں نے ان کا ہاتھ کمبل کے پلو میں لپیٹا اور انہوں نے مجھے دیکھا۔ ایک کراہ کے ساتھ وہ غش کھا گئے۔ اسی وقت درویش بابا اذان ختم کر کے اندر آئے اور انہوں نے حافظ صاحب کو لے جا کر اسی چارپائی پر ڈال دیا جس پر ساری رات میں کروٹیں بدلتی رہی تھی۔ یہ ہاتھ۔۔۔ " سکینہ نے سسکی لی اور حافظ عبداللہ کے جلے ہوئے ہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔ " خود بخود جلتے ہوئے چراغ پر نہیں جا پڑا تھا۔ حافظ صاحب نے اسے خود آگ کے حوالے کر دیا تھا، تاکہ ان کے خیالوں میں بار بار نقب لگاتا شیطان جل کر خاک ہو جائے۔ درد اور اذیت کی جس منزل سے وہ گزرے ہیں ، میں اور آپ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ اور یہ سب انہوں نے صرف اس لئے کیا کہ ان کا دھیان میری طرف سے ہٹا رہے۔ میں ان کی نفسانی گمراہی سے محفوظ رہوں۔ سکینہ کی عزت بچی رہی۔ سکینہ اپنے پچھلوں تک پہنچے تو اس کا دامن پاک ہو۔ "وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے اپنی لرزتی آواز پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔ آنسو بہنے کا اسے کوئی ہوش نہ تھا۔
چوہدری حسن دین بُت بنا سب کچھ سن رہا تھا تو باقی لوگوں کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا۔ ان کے اذہان میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ وہ سب کچھ سن رہے تھے اور تصور میں فلم سی چلتی دیکھ رہے تھے۔
"ایک جوان لڑکی کو اپنے نفس کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لئے حافظ صاحب نے خود کو جس امتحان میں ڈالا، کیا وہ کسی عام انسان کے بس کی بات ہے؟" سکینہ نے چند لمحوں کے بعد آنکھیں خشک کرتے ہوئے ان سب سے سوال کیا۔ " ان کا ہاتھ زندگی بھر کے لئے ناکارہ ہو گیا۔ ایک دن میری شادی ہونا ہی ہے۔ جس طرح ہر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا ہونے والا شوہر خوبصورت ہو۔ خوبیوں میں ایسا ہو کہ دوسری لڑکیاں اس پر رشک کریں۔ اسی طرح میں بھی اپنے لئے ایسا ہی شوہر چاہتی ہوں۔۔۔ لیکن کیا مجھے حافظ صاحب جیسا مرد ملے گا؟ ایسا مرد جس نے اپنے نفس کو پچھاڑ کر ثابت کر دیا کہ مردانگی عزت لوٹنے کا نام نہیں ، عزت کی حفاظت کرنے کا نام ہے۔ میرے جسم کو صرف ایک غیر مرد نے اب تک چھوا اور وہ حافظ صاحب ہیں۔ انہوں نے جن حالات میں مجھے چھوا، وہ ان کی مجبوری تھی لیکن انہوں نے میری مجبوری سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ میرا جسم میرے شوہر کی امانت ہے۔ میں چاہتی ہوں ، چار کلمے پڑھ کر جس انسان کو میرے جسم کا مالک بننا ہے، وہ وہی ہو جس نے پہلی اور آخری بار میرے جسم کو چھُوا اور اس میں اس کی بدنیتی کو کوئی دخل نہ تھا۔۔۔ ہاں مگر اس کے لئے میں حافظ صاحب کی رضا کی مکمل پابند ہوں۔ اگر وہ نہیں چاہتے تو میں انہیں اس کے لئے مجبور نہیں کروں گی کہ وہ مجھ سے شادی کے لئے ہاں کریں۔ "
سکینہ خاموش ہو گئی۔
چوہدری حسن دین نے ہاتھ بڑھایا اور اسے بازو کے کلاوے میں لے کر اس کا ماتھا چوم لیا۔ وہ سسکتی ہوئی اس کے سینے سے لگ گئی۔
سب لوگ سر جھکائے بیٹھے تھے۔ انہیں فیصلہ کرنے میں دقت ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ یہ کوئی گڈے گڑیا کا بیاہ نہیں تھا جس کے لئے بغیر سوچے سمجھے ہاں کر دی جاتی۔ حافظ عبداللہ نے ایک بار پھر مزار کی طرف نظر اٹھائی اور یہ دیکھ کر چونکا کہ مزار کے بجائے درویش گاؤں کی طرف سے آنے والے رستے پر چلا آ رہا تھا۔ اس کے سر پر مٹھائی کی ٹوکری تھی جسے وہ ایک ہاتھ سے سنبھالے ہوئے تھا۔
اسے آتا دیکھ کر حافظ عبداللہ نے بڑا حوصلہ محسوس کیا۔ درویش نے چوہدری حسن دین کے قریب پہنچ کر مٹھائی کی ٹوکری اسے تھما دی۔
"بابا۔ یہ کیا ہے؟" وہ حیرت سے بولا۔
"بابے شاہ مقیم کی طرف سے تبرک بھی ہے اور منہ میٹھا کرنے کے لئے مبارک بھی۔ " درویش نے دھیرے سے کہا۔ پھر باقی لوگوں کی طرف متوجہ ہوا جو اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے تھے۔
"بیٹھو بیٹھو اللہ والیو۔ کھڑے کیوں ہو گئے۔ بیٹھ جاؤ۔ لگتا ہے ابھی بات تم لوگوں کے حلق سے نہیں اتری۔ میرے حافظ کو تول رہے ہو ابھی۔ " وہ رکا تو حافظ عبداللہ اٹھا اور تیزی سے چلتا ہوا اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ سکینہ اب درویش کے دائیں اور حافظ عبداللہ بائیں طرف تھا۔ باقی سب لوگ اس کے سامنے تھے۔ حافظ عبداللہ نے کچھ کہنا چاہا مگر درویش نے اسے ہاتھ اٹھا کر خاموش کرا دیا۔ اس کے بیٹھنے پر سب لوگ پھر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔
"ہاں۔ تو ابھی تک حافظ کا تول پورا نہیں ہوا۔ یہی بات ہے ناں ؟" درویش نے میاں نذرو اور سلیم کی طرف دیکھا۔
"بات یہ ہے بابا۔۔۔ " میاں نذرو نے زبان کھولی۔
"حافظ عبداللہ کا رنگ سانولا ہے۔ چہرہ مہرہ بھی واجبی سا ہے۔ مال دولت پلے ہے نہیں۔ مسجد کے حجرے میں رہتا ہے۔ آگے پیچھے رونے والا بھی کوئی نہیں۔ سکینہ جیسی پڑھی لکھی، خوبصورت، اچھے اور اونچے گھرانے کی لڑکی کے قابل نہیں ہے وہ۔ یہی بات ہے ناں میاں ؟" درویش نے میاں نذرو کی بولتی بند کر دی۔ "مگر اس سے شادی کا فیصلہ تو سکینہ نے کیا ہے۔ وہ بالغ ہے۔ اپنی پسند کا نکاح کر سکتی ہے۔ پھر تم لوگوں کو کیا اعتراض ہے اس پر؟"
"اعتراض ہے بھی اور نہیں بھی بابا۔ " اس بار سلیم نے کہا۔
"جو میں نے گِنوائے ہیں ، ان کے علاوہ کوئی اور اعتراض ہو تو کہو۔ " درویش نے اسے مسکراتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
"لڑکی کی ماں سے بھی تو پوچھ لینا چاہئے۔ "
"ہاں۔ یہ جائز بات ہے۔ " درویش نے تاج بی بی کا رخ کیا۔ "تو بول۔ تو کیا کہتی ہے بی بی۔ تجھے کیا اعتراض ہے اس انہونی پر؟"
"مجھے؟" تاج بی بی نے گھبرا کر میاں نذرو اور پھر سلیم کی طرف دیکھا جو اسے سرد سی نظروں سے تک رہے تھے۔ "مجھے کیا اعتراض ہو گا بابا جی۔ جو فیصلہ کرنا ہے سکینہ کے چاچا اور سلیم پتر نے کرنا ہے۔ "
"مطلب یہ ہے کہ تجھے اس نکاح پر کوئی اعتراض تو نہیں ناں ؟"
"میں کیا کہہ سکتی ہوں جی؟" تاج بی بی نے بیچارگی سے کہا اور سر جھکا لیا۔
"ہاں۔ تو کیا کہے گی بیچارئیے۔ تیری زبان پر تو بیوگی نے تالا ڈال رکھا ہے۔ بولے گی تو بے گھر ہو جائے گی اس عمر میں۔ اپنا کیا ہے تیرے پاس، سوائے سکینہ کی۔۔۔ " درویش نے طنز بھری نگاہوں سے میاں نذرو اور سلیم کی جانب دیکھا جنہوں نے سر جھکا لئے تھی۔
" آپ ہماری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں بابا۔ " سلیم نے آہستہ سے کہا۔ "لوگ کیا کہیں گے۔ برادری کیا کیا باتیں نہ بنائے گی؟ہم کس کس کا منہ بند کرتے پھریں گے۔ "
"باقی سب کی فکر چھوڑ۔ صرف اپنا منہ بند کر لے۔ " درویش نے اس کی جانب انگلی اٹھائی۔ "تو نہ چاہے گا تب بھی یہ نکاح تو ہو گا۔"
"کوئی زبردستی ہے؟" سلیم ہتھے سے اکھڑ گیا۔
"نہیں۔ " درویش مسکرایا۔ "زبردستی نہیں۔ فیصلہ ہے اس کا۔ " اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ " اور اس کے فیصلے تیرے میرے چاہنے سے نہیں بدلتے۔ تو زور لگا کر دیکھ لے۔ ہو گا وہی جو اس کی مرضی ہے۔ "
"ابا۔ اٹھ جا۔ چلیں اب۔ بہت ہو گئی۔ چل تائی۔ سکینہ کو ساتھ لے اور گھر چل۔ " سلیم نے اچانک اپنی جگہ چھوڑ دی۔
میاں نذرو نے اس کی جانب دیکھا۔ پھر دوپٹے میں منہ چھپائے بیٹھی آنسو بہاتی تاج بی بی پر نگاہ ڈالی۔ آخر میں اس کی نظر سر جھکائے بیٹھی سکینہ پر جم گئی۔ چند لمحے وہ انگلیاں مروڑتی سکینہ کو دیکھتا رہا۔ پھر حافظ عبداللہ کی طرف نگاہ اٹھائی، جو اپنے جلے ہوئے ہاتھ کو گھور رہا تھا۔
"ابا۔۔۔ " سلیم نے اس کا شانہ ہلایا۔
میاں نذرو نے آہستہ سے اس کا ہاتھ شانے سے ہٹا دیا اور درویش کی طرف متوجہ ہوا۔ "بابا۔ آپ نے فیصلہ تو سنا دیا مگر اب تک حافظ عبداللہ سے نہیں پوچھا کہ اس کی کیا مرضی ہے؟"
"تواب پوچھ لیتے ہیں اللہ والیا۔ " درویش نے حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا۔ "کیوں حافظ۔ تجھے سکینہ سے نکاح منظور ہے یا نہیں ؟ دل سے جواب دینا۔ کوئی زبردستی ہے نہ دباؤ۔ تو اپنے فیصلے میں آزاد ہے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے ایک نظر سکینہ پر ڈالی جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا کہ حافظ عبداللہ ان میں کھو کر رہ گیا۔ پھر چند لمحوں کے بعد اس نے سر جھکا لیا۔ " میں خود کو اس قابل نہیں پاتا۔ "
"سیانا نہ بن۔ " درویش نے اسے جھڑکی سی دی۔ "جو نعمت اللہ تجھے دے رہا ہے اس کا کفران کر رہا ہے۔ شرم کر شرم۔ "
"بابا۔۔۔ میں۔۔۔ " حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
"سکینہ۔ پگلئے، یہ تو بڑا بزدل نکلا۔ ڈرتا ہے۔ امتحان سے نہیں ڈرا۔ نتیجے سے ڈر گیا۔ " درویش نے سکینہ کی جانب گردن جھکائی۔ " اب بول۔ کیا کرے گی تو؟"
"کچھ نہیں بابا۔ " سکینہ نے بڑے سکون سے کہا۔ " میں نے کہا ناں۔ مجھے جس نے ایک بار چھو لیا، وہی میرا صاحب ہے۔ یہ میرے قابل نہیں ، بات یہ نہیں۔ اصل میں ، مَیں ان کے قابل نہیں ہوں۔ یہ مجھے نہ اپنائیں۔ ان کی مرضی۔ میں ساری زندگی ان کے نام پر بیٹھ کر گزار دوں گی۔ لوگوں کے سائیں پردیس بھی تو چلے جاتے ہیں بابا۔ "
"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟" حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔
"ٹھیک کہہ رہی ہوں حافظ صاحب۔ " اس کے لبوں پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔ "میں نے آپ کا رنگ ڈھنگ، آپ کا نام نسب، آپ کا خاندان اور مال و دولت نہیں دیکھی۔ آپ نے یہ سب کچھ دیکھا۔ فیصلہ آپ کا رہا۔ آپ نے مجھے ٹھکرا دیا مگر میں نے آپ کو اپنا لیا ہے۔ اپنا مان لیا ہے۔ "
" آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ " حافظ کا لہجہ بھرا گیا۔ " میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کو کوئی سُکھ دے سکوں۔ لوگوں کے دیے ہوئے پر دو وقت کی روٹی چلتی ہے۔ مسجد کے حجرے میں رہتا ہوں۔ آپ نازوں کی پلی میرے ساتھ رُل جائیں گی۔ "
"رُل جانے دیجئے مجھے۔ میں مرضی سے رُل جانے کو تیار ہوں۔ آپ مجھے نہ رُلنے پر مجبور کرنے والے کون ہوتے ہیں ؟" سکینہ کی آواز ڈوب گئی۔
"بابا۔ " اچانک چوہدری حسن دین نے درویش کی جانب دیکھا۔ "مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے۔ "
"ہاں ہاں۔ سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ تو بھی بول۔ مجھے پتہ ہے تو اچھا ہی بولے گا۔ بول۔ "
"اگر بات اتنی ہی سی ہے تو۔۔۔ " اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا۔ اس میں سے ایک چابی نکالی اور دری پر رکھ دی۔ "یہ میرے آبائی مکان کی چابی ہے۔ میں ابھی اسی وقت یہ مکان اور اپنے چار کھیت جو اس مکان کے ساتھ جڑے ہیں ، حافظ عبداللہ کے نام کرتا ہوں۔ میرا خیال ہے اب انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ "
سب لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سلیم کا حال سب سے برا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہے۔
"یہ کی ناں پگلوں والی بات۔ " درویش قلقاری مار کر ہنسا۔ " اب بول حافظ۔ اب کیا کہتا ہے۔ اب تو تو بھی ساہوکار ہو گیا۔ اب کیسے ہچر مچر کرے گا؟"
"بابا۔ " حافظ عبداللہ کی آواز حلق میں پھنس گئی۔ درد کی ایک لہر آنسوؤں میں بھیگ کر پلکوں سے اتری اور رخساروں پر پھیل گئی۔ وہ بایاں ہاتھ چہرے پر رکھ کر سسک پڑا۔
"مبارک ہو سکینہ۔ تیرا پگلا پن کام آ گیا۔ " درویش نے مسکراتے ہوئے سکینہ کی جانب دیکھا۔ وہ سرخ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ کر ہولے سے ہنس دی۔
"پگلے۔ اٹھا لے یہ رسید۔ اس پر قبولیت کے دستخط ہو گئے ہیں۔ " درویش نے چابی کی طرف اشارہ کیا تو چوہدری حسن دین نے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں بابا۔ میں نے خالی خولی صلح نہیں ماری تھی۔ یہ سب اب حافظ۔۔۔ "
"پتہ ہے۔ پتہ ہے۔ " درویش نے چابی اٹھا کر اس کی جیب میں ڈال دی۔ " تو نے جس نیت سے کہا تھا، وہی تو قبول ہوئی ہے پگلے۔ رہے یہ دونوں۔ تو ان کے لئے میرا اللہ اور اس کا پیارا حبیب کافی ہیں۔ "
چوہدری حسن دین خاموش ہو گیا۔
" ہاں بھئی چھوٹے میاں۔ اب کیا خیال ہے تیرا؟" درویش نے سلیم کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ جواب میں وہ خاموشی سے اٹھا اور ایک طرف سر جھکا کر جا بیٹھا۔
"بابا۔ " چوہدری حسن دین کی آواز پر وہ سب ایک دم چونکی۔ "اگر اجازت ہو تو میں حافظ عبداللہ کے لئے میاں نذرو سے سکینہ بیٹی کا ہاتھ باقاعدہ مانگ لوں۔ "
"تو بھی مانگنا چاہتا ہے چوہدری۔ " درویش بڑے اچھے موڈ میں تھا۔ " مانگ لے۔ مانگ لے۔ تو بھی نام لکھوا لے۔ جلدی کر۔ "
اور چوہدری حسن دین نے آگے سرک کر اپنی اچکن کا پلہ میاں نذرو کے سامنے پھیلا دیا۔ "میاں۔ اپنی بیٹی میرے حافظ صاحب کے لئے میری جھولی میں ڈال دے یار۔ "
"اس کا اختیار میری بھوجائی کو ہے چوہدری۔ " میاں نذرو نے تاج بی بی کی طرف اشارہ کر دیا۔
چوہدری نے اس کی طرف رخ کیا تو تاج بی بی نے گردن گھما کر نم آنکھوں سے سلیم کی طرف دیکھا۔ "سلیم پتر۔ تیری بہن کا ہاتھ مانگ رہے ہیں چوہدری صاحب۔ کیا ہاں کر دوں بیٹا؟"
"تائی۔ " سلیم اٹھ کر آیا اور تاج بی بی سے لپٹ گیا۔ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
"واہ بھئی واہ۔ آج تو یہاں سب ہی اللہ والے اکٹھے ہو گئے۔ " درویش جھومتے ہوئے بولا۔ " آج تو سب کے اندر دھوئے جا رہے ہیں۔ سب کا میل نکالا جا رہا ہے۔ واہ میرے مالک۔ آج تو کیا دکھانا چاہتا ہے؟" وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
"میری ایک درخواست ہے چوہدری صاحب۔ " حافظ عبداللہ نے جھجکتے ہوئے چوہدری حسن دین سے کہا۔
" آپ حکم دیں حافظ صاحب۔ درخواست کیوں کرتے ہیں آپ۔ " وہ بڑے خلوص سے بولا۔
"اگر یہ بات طے ہو ہی گئی ہے تو میں چاہوں گا کہ نکاح بڑی سادگی اور خاموشی سے ہو۔ کوئی ہلا گلا نہ کیا جائے۔ "
"مگر۔۔۔ " سلیم نے کہنا چاہا۔
"حافظ صاحب ہمارے سر کے صاحب ہیں سلیم پتر۔ یہ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی کرو۔ " میاں نذرو نے سلیم کی جانب دیکھ کر کہا۔ " اگر ہم اسے روایتی شادی کے طور پر کریں گے تو شرعی پابندیوں کا تماشا ضرور بنے گا اور میرا خیال ہے، حافظ صاحب چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔ "
"جی ہاں۔ " حافظ عبداللہ نے نظر اٹھائی۔ "میرا یہی مطلب تھا۔ "
"تو ٹھیک ہے۔ " چوہدری حسن دین نے دخل دیا۔ "اگر معاملہ اسی طرح توڑ چڑھنا ہے تو دیر کس بات کی۔ ابھی نکاح پڑھاؤ اور دھی رانی کو وداع کر دو۔ "
"اتنی جلدی اور اس حالت میں ؟" اب کے تاج بی بی بولی۔
"ارے بہن میری۔ نیک کام میں دیر کی جائے تو شیطان سو سو حیلے رکاوٹیں پیدا کر دیتا ہے۔ یہاں داج وری کا جھگڑا تو ہے کوئی نہیں۔ اللہ کا دیا میرے پاس حافظ صاحب کے لئے سب کچھ موجود ہے۔ میں تو کہتا ہوں بابا شاہ مقیم کی دعاؤں کی چھاؤں میں یہ کام آج ابھی کر کے سرخرو ہو جاؤ۔ "
بابا شاہ مقیم کا نام آیا تو سب کے منہ بند ہو گئے۔ حافظ عبداللہ کے سر پر چوہدری حسن دین نے اپنا پٹکا ڈالا اور سکینہ کا گھونگھٹ نکال کر اس کی ماں کے پاس بٹھا دیا گیا۔ حافظ عبداللہ نے اپنا نکاح خود پڑھایا۔ حق مہر کی ادائیگی اسی وقت چوہدری حسن دین نے اپنی انگلی سے سونے کی انگوٹھی اتار کے کر دی۔ حافظ عبداللہ نے خود سکینہ کو انگوٹھی پہنائی۔
نکاح ہو گیا تو درویش نے مبارک مبارک کا شور مچا دیا۔
"لاؤ بھئی لاؤ۔ مٹھائی لاؤ۔ بابا شاہ مقیم انتظار میں ہو گا۔ چلو چوہدری۔ سب کا منہ میٹھا کراؤ بھئی۔ " وہ بچوں کی طرح خوش تھا۔ سب سے پہلے اس نے مٹھائی کا ٹکڑا اٹھا کر سکینہ کے منہ سے لگایا۔ پھر حافظ عبداللہ کو برفی کھلائی۔ اس کے بعد ہاتھ چوہدری حسن دین کے آگے پھیلا دیا۔
"لاؤ چوہدری۔ میرا حصہ؟"
"بابا۔ " چوہدری حسن دین حیرت سے بولا۔ " آپ کا حصہ کیسا؟ یہ سب آپ ہی کا تو ہے۔ " اس نے مٹھائی کا ٹوکرا درویش کے آگے کر دیا۔
"نہیں بھائی۔ میرا حصہ دیتا ہے تو دے۔ ورنہ میں چلا۔ " وہ جیسے ناراض ہو گیا۔
چوہدری حسن دین نے جلدی سے ایک بڑا گلاب جامن اٹھا کر درویش کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
"میرے پگلے کا حصہ بھی دے۔ " اس نے دوسرا ہاتھ آگے کر دیا۔
"پگلا؟" چوہدری حسن دین کے ساتھ باقی سب بھی حیران ہوئی۔ " وہ کون ہے بابا؟"
"تجھے اس سے کیا کہ وہ کون ہے؟ تو اس کا حصہ دے دے۔ لا جلدی کر۔ "
چوہدری حسن دین نے اس کی ناراضگی کے ڈر سے فوراً ہی دوسرا گلاب جامن اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
درویش ایک دم پلٹا اور یوں تیز تیز قدموں سے مزار کی جانب چل دیا، جیسے وہ ان میں سے کسی کا واقف ہی نہ ہو۔ پھر مزار کے اندر جا کر اس نے دروازہ بند کر لیا۔
سکینہ اور حافظ عبداللہ نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور ان کے سر جھک گئے۔ خاموشی۔ سناٹا۔ چُپ۔ ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔ انہیں صرف اپنے اپنے دل دھڑکنے کی صدا سنائی دے رہی تھی اور بس۔

عشق کا قاف (قسط نمبر 11)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font, ishq ka qaaf novel pdf download
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں