عشق کا قاف (قسط نمبر 15)

 ishq ka qaaf novel pdf download

عشق کا قاف (قسط نمبر 15)

کرنل رائے کسی زخمی درندے کی طرح فرش کی سینہ کوبی کر رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں آتش فشاں دہک رہا تھا۔ رہ رہ کر اسے ریحا کی باتیں یاد آتیں اور وہ اس سوکھی لکڑی کی طرح چٹخ اٹھتا جسے آگ کے الاؤ میں پھینک دیا جائے۔
اسے کوئی ایسا راستہ نہ سمجھ آ رہا تھا کہ وہ ریحا کی بلیک میلنگ سے بچ سکی۔ اگر ایک بار وہ اس کی بات مان لیتا تو پھر بار بار اس کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے اسے کون بچاتا؟ وہ جب چاہتی اس کی شہ رگ پر انگوٹھا رکھ کر اپنی منوا لیتی اور یہ بات اسے کسی حال میں بھی منظور نہ تھی۔ ایک تو وہ اونچے عہدے کا فوجی تھا اوپرسے ہندو۔ منصب اور خباثت نے مل کر اس کی شخصیت میں جو حرامی پن انڈیل دیا تھا، اس کا تقاضا تھا کہ وہ ریحا کو ایسا سبق سکھائے کہ آئندہ کے لئے وہ اس کے سامنے دم نہ مار سکے۔ اور اس کے لئے وہ کسی بھی انتہا تک جا سکتا تھا کیونکہ ریحا کون سی اس کی سگی بیٹی تھی؟ بلکہ اب تو وہ اسے اپنے رقیب کی نشانی ہونے کے ناطے دشمن لگنے لگی تھی۔ اگر سوجل اور ریحا مل کر اس کے خلاف محاذ کھڑا کر لیتیں تو اس کی عزت بھی خاک میں مل جاتی اور کورٹ مارشل کی تلوار الگ سر پر لٹکنے لگتی۔ اس نے راکیش کا کیس اپنے اثر و رسوخ سے دبا دیا تھا، ورنہ اگر کوئی ذرا سی بھی کوشش کرتا تو اس کے لئے اس کیس کا مصیبت بن جانا کوئی مشکل نہ تھا۔
آٹھ بجے تو اس کے قدم رک گئے۔ ٹارچر سیل میں سٹاف کی تبدیلی کا یہی وقت تھا۔ اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر انٹر کام کا بٹن دبایا۔
"یس سر۔ " دوسری جانب سے کیپٹن آدیش الرٹ آواز میں بولا۔
" آدیش۔ ڈیوٹی آف کر کے مجھ سے مل کر جانا۔ "
"یس سر۔ " آدیش نے ادب سے جواب دیا۔
اس نے انٹر کام سے رابطہ ختم کر دیا۔ بجھے ہوئے سگار کو سلگایا اور پھر ٹہلنے لگا۔ اسی وقت ریحا نے کمرے میں قدم رکھا۔ وہ چونک کر رکا اور اس کی جانب بڑی سرد نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
"لگتا ہے پاپا۔ آپ ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں۔ " وہ اس کے قریب چلی آئی۔
"کیا خوش ہونا چاہئے مجھے؟" وہ عجیب سے لہجے میں بولا۔
"نہیں۔ " ریحا اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔ "میری صبح کی باتیں واقعی آپ کو خفا کرنے والی تھیں مگر پاپا۔ مجھے اب تک آپ نے جس انداز میں پالا ہے۔ میرے جتنے لاڈ دیکھے ہیں۔ کیا ان کا اثر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں اپنی بات منوانے کے لئے بدتمیز ہو جاؤں ؟"
"ریحا۔ " کرنل رائے نے اسے بے اختیار گلے لگا لیا۔ "میری بچی۔ تم نہیں جانتیں تم نے مجھے کس مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میرا آرام حرام ہو گیا ہے۔ نیند اڑ گئی ہے۔ چین کی بانسری بجانے والا کرنل رائے کیا اس وقت بیچارہ نہیں لگتا تمہیں ؟"
"پاپا۔ " ریحا اس کے سینے سے لگے لگے بولی۔ "ایسی فرمائش تو نہیں کر دی میں نے کہ آپ پوری نہ کر سکیں۔ "
"یہ تو تم کہتی ہو ناں بیٹی۔ " اس نے ریحا کو الگ کیا اور میز کے کونے پر ٹک گیا۔ "مگر میرے لئے یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ "
" آسان نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے مشکل ہے، ناممکن نہیں۔ ہے ناں پاپا؟" وہ اس کی جانب شوخی سے دیکھ کر بولی۔
" لفظوں سے کھیلنا آ گیا ہے تمہیں۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرایا۔
"تو پھر میں کیا سمجھوں پاپا؟" وہ مرضی کا جواب سننے کے لئے بیتاب تھی۔
"مجھے تھوڑا وقت دو ریحا۔ " جنرل نے کھڑے ہو کر کہا۔ "ایک تو وہ آتنک وادی ہے دوسرے مسلمان۔ تیسرے اسے جنرل نائر نے میری طرف ریفر کیا ہے جو بال کی کھال نکالنے میں مشہور ہے۔ "
"کچھ بھی ہو پاپا۔ اب اسے ٹارچر نہیں کیا جانا چاہئے۔ " ریحا نے ضدسے کہا۔
"اس کے لئے تو میں منع کر چکا ہوں مگر مجھے اس الجھن کو سلجھانے کے لئے دم لینے کی فرصت تو دو بیٹی۔ "
"ٹھیک ہے پاپا۔ مگر فیصلہ میرے حق میں ہونا چاہئے۔ " وہ خوش ہو گئی۔
"اگر ایسا نہ کرنا ہوتا تو میں تم سے مہلت کیوں مانگتا پگلی۔ کوئی راستہ نکالنے کے لئے ہی تو وقت چاہتا ہوں۔ "
"پاپا۔ " اچانک اس نے نظر جھکا کر کہا اور خاموش ہو گئی۔ کرنل رائے نے اس کی جانب دیکھا۔ جان لیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔
"کہو ریحا۔ کیا کہنا چاہتی ہو بیٹی؟" کرنل نے رسٹ واچ پر نظر ڈالی۔
"پاپا۔ کیا میں۔۔۔ کیا میں اس سے مل سکتی ہوں ؟" اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
"ہرگز نہیں۔ " کرنل رائے کے لہجے میں درشتی اتر آئی۔
"پاپا۔ میں اسے دور سے دیکھ۔۔۔ " تڑپ کر ریحا نے کہنا چاہا۔
"میں اس کی بھی اجازت نہیں دے سکتا ریحا۔ " کرنل نے حتمی اور بڑے کڑوے لہجے میں کہا۔ "میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایسا سکینڈل کھڑا ہو، جو میری ساکھ اور میرے خاندان کے لئے تباہی کا باعث بنے۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے۔ میں نے کہا ناں کہ میں جلد ہی کچھ کرتا ہوں۔ تب تک تم اپنے آپ پر قابو رکھو اور ایک بات ذہن میں بٹھا لو۔ تمہیں اس سے ملنے کی اجازت میں کسی صورت نہیں دے سکتا اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ تم اسے دیکھ کر خود پر کنٹرول نہ رکھ سکو گی اور بات جس کے علم میں نہیں ہے، وہ بھی جان جائے گا۔ تب تم اپنے ساتھ مجھے بھی لے ڈوبو گی۔۔۔ "
اسی وقت بیرونی دروازے پر دستک ہوئی اور ایک آواز ابھری۔
"مے آئی کم ان سر؟"
"یس آدیش۔ کم ان" جنرل نے جواب دیا اور ریحا کو جانے کا اشارہ کیا۔ ریحا نے بڑی اداس نظروں سے اسے دیکھا اور پلٹ کر کمرے سے نکل گئی۔ آدیش نے کمرے میں داخل ہو کر کرنل رائے کو سیلوٹ کیا۔
"بیٹھو کیپٹن۔ " جنرل نے اسے اپنے سامنے والی کرسی آفر کی اور دونوں بیٹھ گئے تو جنرل تھوڑا سا اس کی جانب جھکا۔ "کیا حال ہے اس آتنک وادی کا؟ اس نے زبان کھولی یا نہیں ؟"
"نو سر۔ " کیپٹن آدیش نے نفی میں سر ہلایا۔ "اب تو اس کی حالت بہت خراب ہے۔ "
"اسی لئے میں نے تمہیں اس پر مزید ٹارچر سے منع کر دیا تھا۔ اور اب میں چاہتا ہوں کہ اس کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ "
کیپٹن آدیش نے اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔
"اور ہاں۔ تم نے اسے نہلا دھلا کر کپڑے چینج کرائے یا نہیں ؟" بڑی نرمی سے کرنل رائے نے پوچھا۔
"یس سر۔ اس کی شیو کرا دی گئی ہے۔ کپڑے چینج کرا دیے گئے ہیں۔ البتہ نہلایا نہیں گیا۔ " آدیش نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
"وہ کیوں ؟" کرنل کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
"زخموں پر پانی پڑنے سے خرابی کا اندیشہ ہے سر۔ "
"اوہ۔ " مطمئن انداز میں کرنل نے سر ہلایا۔ " ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب ایک خاص بات دھیان سے سن لو۔ "
"وہ کیا سر؟" آدیش الرٹ ہو گیا۔
"کل رات ٹارچر سیل میں صرف تمہاری ڈیوٹی ہو گی۔ باقی سب کو چھٹی دے دینا۔ میں اب یہ قصہ ختم کر دینا چاہتا ہوں۔ لگتا ہے یہ لڑکا آتنک وادی نہیں ہے۔ جنرل نائر کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھیان رہے کہ کل وہاں جو کچھ ہو گا وہ میرے اور تمہارے درمیان رہے گا اور تمہاری اس راز داری کی قدر کی جائے گی۔ "
کیپٹن آدیش نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولی۔ اسے کرنل رائے کے الفاظ پر حیرت ہوئی تھی مگر جب اس کی نظریں کرنل سے ملیں تو نجانے اسے وہاں کیا دکھائی دیا کہ وہ محض "یس سر" کہہ کر رہ گیا۔
"بس۔ اب تم جا سکتے ہو۔ " کرنل نے کہا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"سر۔ میں دو گھنٹے کے لئے شہر جانا چاہتا ہوں۔ "
"تو جاؤ بھئی۔ منع کس نے کیا ہے۔ " کرنل نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ "ویسے تمہیں اب شادی کر لینی چاہئے۔
"سر۔۔۔ " کیپٹن آدیش جھینپ گیا۔
"او کے او کے۔ جاؤ۔ عیش کرو۔ " کرنل رائے نے ہنس کر کہا اور کیپٹن آدیش سیلوٹ کر کے کمرے سے نکل گیا۔
کرنل رائے نے کنکھیوں سے اندرونی دروازے کی طرف دیکھا، جس کے باہر بائیں طرف دیوار سے لگی کھڑی ریحا ان کی باتیں سن رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
سرمد پر پچھلے کچھ گھنٹوں سے تشدد روک دیا گیا تھا۔
اسے حیرت ہوئی۔ پھر اس نے سوچا کہ شاید وہ لوگ اسے کچھ وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ اس کاجسم دوبارہ ٹارچر برداشت کرنے کے قابل ہو جائے۔ یقیناً یہی بات ہے۔ اس نے دل میں سوچا اور فرش پر پڑے پڑے گھسٹ کر دیوار کے قریب ہو گیا۔ پھر بڑی مشکل سے سیدھا ہو کر دیوار سے ٹیک لگائی اور نیم دراز ہونے کی کوشش میں ، ٹانگیں پسار کر بیٹھ گیا۔ اس کا رواں رواں درد سے کانپ رہا تھا۔ اس نے سر دیوار سے ٹکا دیا اور سوچوں میں گم ہو گیا۔
اب تک اس نے اپنی زبان نہیں کھولی تھی اور اس کا امکان بھی نہیں تھا کہ اس کے لبوں سی" عشاق "کے بارے میں کچھ نکل جاتا۔ حمزہ کی شہادت تو اسے یاد تھی۔ داؤد اور حسین کا کیا بنا؟ اس کا خیال آیا تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ بھی شہادت کا جام پی چکے ہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس کے ساتھ یہیں ہوتی۔ تاہم اس بات کا امکان بھی تھا کہ انہیں کسی اور جگہ رکھا گیا ہو۔
سوچ کا دھارا بہنا شروع ہوا تو کمانڈر کی شبیہ ذہن کے پردے پر ابھری۔ خانم کا چہرہ یاد آیا اور اپنے عہد کے الفاظ صدا بن کر کانوں میں گونجی:
"میں اپنے معبودِ واحد اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اپنے سارے جذبے آج سے اللہ اور اپنے آقا و مولا کے نام کرتا ہوں۔ اب میرا جینا اللہ کے لئے اور مرنا اللہ کے لئے ہے۔
اب میری زندگی جہاد اور موت شہادت کی امانت ہے۔ میری سانسوں پر وحدانیت اور رسالت کے سوا کسی کا حق نہیں۔
"عشاق "کا نام میرے سینے میں دھڑکن کی طرح محفوظ رہے گا۔ میری زبان پر کبھی اس کے حوالے سے کوئی ایسا لفظ نہیں آئے گاجو دشمنوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔
اب میری ایک ہی شناخت اور زادِ راہ ہے۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد الرسول اللہ۔ "
سوچ کا سورج یہاں تک چمکا تو اجالے کی لپک سے اس کی آنکھوں میں نمی سی چھا گئی۔ اسے بے طرح اپنے والد ڈاکٹر ہاشمی یاد آ گئی۔ وہ ان سے وعدہ کر کے آیا تھا کہ بہت جلد پاکستان چلا آئے گا مگر ۔۔۔ باپ کی محبت، والہانہ پن، پیار، سب کے سب خیال اس کے آنسوؤں میں ڈھلتے چلے گئے۔ وہ اسے تلاش کرنے کے لئے کہاں کہاں نہ پہنچے ہوں گے؟ کیا کیا جتن نہ کئے ہوں گے؟ اور یہ سب کس کے سبب ہوا؟ اس کے سارے جسم میں پھیلی درد کی اذیت، ایک لذت میں سمٹ گئی۔ ایک چہرہ۔ ایک خوبصورت چہرہ۔ جس پر کشش کی قوس قزح نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جو اس کے لئے آج بھی اتنا ہی محترم تھا جتنا پہلے دن۔ اسے لگا، ساری تکلیف، سارا دُکھ ایک مستی میں بدل گیا ہے۔ وہ ایک سرور کے دامن میں جا پڑا۔ ایک کیف کے سینے سے جا لگا۔ اس نے بے اختیار پلکیں موند لیں۔ وہ اس کیفیت کو دل میں اتار لینا چاہتا تھا۔ جذب کر لینا چاہتا تھا۔۔۔ مگر ۔۔۔ یہ کیا ہوا؟اشکوں کے موتی رخساروں پر ٹوٹ بہی۔ پلکوں کا در بند ہوا اور سکون کا منبع سامنے آ گیا۔ شادابی نے اس پر سایہ کر دیا۔ اس کا اندر ایک دم سرسبز ہو گیا۔ اس کے آقا و مولا کا مسکن۔ اس کے ربِ واحد و اکبر کی رحمتوں اور محبتوں کا محور و مرکز۔ گنبدِ خضریٰ۔۔۔ اس کی بصارت سے ہوتا ہوا بصیرت کی چوٹی پر جھلملانے لگا۔ عشقِ مجازی نے عشقِ حقیقی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ وہ جو خود اپنے حبیب پر ہر دم درود و سلام بھیجتا ہے، اس کا حکم ہے کہ اس کے بندے بھی اپنے آقا پر درود و سلام بھیجیں۔ بے اختیار اس کے لبوں پر اپنے معبود کی سنت جاری ہو گئی:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
ٹارچر سیل میں پھیلا اندھیرا دمک اٹھا۔ لو دے اٹھا۔ خوشبوؤں کے جھونکے یوں کمرے میں چکرانے لگے جیسے اس ورد کو پلکوں پر اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہوں۔ جیسے انہیں اس مقدس امانت کو سنبھال رکھنے کے لئے کوئی پاکیزہ تر جگہ نہ مل رہی ہو۔ پھر ان پر ادراک کا در کھلا اور خوشبو ہلکورے لیتی ہوئی سرمد کے رگ و پے میں اترتی چلی گئی۔ اسے لوریاں دیتی مہک کے لئے سرمد کے دل سے زیادہ متبرک جگہ اور کون سی ہوتی جہاں وہ اس ورد کو چوم کر دھڑکنوں کے سپرد کر دیتی۔
کیپٹن آدیش ڈیوٹی ختم کر کے کرنل رائے کے بلاوے پر اس کے آفس میں جا رہا تھا کہ رک گیا۔ ایک عجیب سی مہک کے احساس سے اس کے قدم کاریڈور میں رک گئی۔ ذرا غور کرنے کے بعد وہ سرمد والے کمرے میں چلا آیا۔ اندر داخل ہونے کی دیر تھی کہ وہ خوشبو سے لبالب ہو گیا۔ حیرت زدہ نظروں سے وہ دیوار سے ٹیک لگائے، پلکیں موندے نیم دراز سرمد کی جانب تکے جا رہا تھا۔ پھر وہ دبے پاؤں آگے بڑھا۔ جھکا اور کان سرمد کے ہونٹوں کے قریب کر دیا، جس کے ہونٹوں پر وہی ورد تھا، جو کیپٹن آدیش کے جسم میں کرنٹ دوڑا دیتا تھا۔ مگر یہ خوشبو۔ یہ مہک۔ یہ نئی چیز تھی جس نے اس کے حواس پر نشہ سا طاری کر دیا۔ اس کے لئے سرمد کے آنسوؤں سے تر چہرے پر نگاہ جمانا مشکل ہو گیا۔ اس کا دل سینے میں کسی زخمی پنچھی کی طرح پھڑکا تو گھبرا کر وہ الٹے پاؤں کمرے سے نکلا اور دروازہ بند کر دیا۔ شیشے کی دیوار کے پار سرمد اب بھی اسی طرح بیٹھا تھا۔ چند لمحے وہ اسے دیکھتا رہا پھر خاموشی سے چل پڑا۔ اس کا دل قابو میں نہ تھا۔ سارا جسم لرز رہا تھا اور پاؤں کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے۔
کاریڈور کے موڑ پر رک کر اس نے ایک بار پھر گردن گھما کر سرمد کی طرف نگاہ ڈالی۔ اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی اور خوشبو تھی کہ اب بھی کیپٹن آدیش کے سر پر چکرا رہی تھی۔ وہ بے خودی کے عالم میں سیل سے نکل آیا۔
باہر نکلتے ہی سرشاری کی اس کیفیت نے دم سادھ لیا۔ خودکار دروازے کے بند ہونے پر وہ چند لمحے کھڑا رہ کر لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔ پھر کرنل رائے کے آفس کی جانب چل پڑا۔ اب اس کے ذہن میں تقریباً ایک گھنٹہ قبل ریحا کے فون پر کہے ہوئے الفاظ چکرا رہے تھے:
"کیپٹن۔ ہوٹل کشمیر پوائنٹ کے کمرہ نمبر دو سو ایک میں تمہاری کزن مس مانیا تم سے آج ہی رات ملنا چاہتی ہیں۔ "
٭٭٭٭٭٭٭٭
آدیش۔۔۔ " مانیا نے اس کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ دونوں گلے ملے۔ پھر وہ اسے لئے ہوئے صوفے پر آ بیٹھی۔ "میرا پیغام مل گیا تھا؟"کہتے ہوئے مانیا نے غیر محسوس انداز میں اپنے اور طاہر کے کمرے کے مشترکہ دروازے کی طرف دیکھا، جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔
"ہاں۔ " وہ پھیل گیا۔ "مس ریحا نے بتایا تھا مگر ۔۔۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ " وہ گدی پر ہاتھ باندھتے ہوئے بولا۔
"وہ کیا؟ مگر پہلے یہ بتاؤ کیا چلے گا؟"
"ابھی کچھ نہیں۔ ذرا دیر بعد۔۔۔ " آدیش نے اسے روک دیا۔
"او کے۔ " مانیا مسکرائی۔ "ہاں اب پوچھو۔ کیا کہہ رہے تھے تم؟"
"یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ مس ریحا کے ساتھ کیا تعلق ہے تمہارا؟چند دن پہلے تم نے فون پر اس کے بارے میں مجھ سے پوچھا اور آج اس کے ہاتھ مجھے تمہارا پیغام ملا۔ آخر چکر کیا ہے یہ؟"
"میں جانتی تھی تم یہ سب جاننے کے لئے بے چین ہو گی۔ " مانیا نے ایک طویل سانس لے کر اس کی طرف دیکھا۔ "میں تمہیں سب کچھ بتا سکتی ہوں آدیش۔ مگر پہلے مجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ میں تم پر کس حد تک اعتماد کر سکتی ہوں ؟"
"میں سمجھا نہیں۔ " وہ اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔ "کس معاملے میں اور کیسا اعتماد چاہتی ہو تم؟"
" آدیش۔ " مانیا کے لہجے میں سنجیدگی اتر آئی۔ "بات بہت نازک ہے اور ایسی بھی کہ جس کا اظہار شاید میرے لئے نقصان دہ ہو جائے۔ "
"میں سیدھا سادہ فوجی ہوں۔ سسپنس میرے اعصاب پر بوجھ بن جاتا ہے۔ جو کہنا ہے کھل کر کہو۔ "
"اچھا یہ بتاؤ آدیش۔ اگر تمہیں یہ پتہ چلے کہ میں کسی ایسے کام میں تمہاری مدد چاہتی ہوں جو تمہاری جاب کے حوالے سے، تمہارے محکمے کے حوالے سے تمہیں مناسب نہ لگے تو۔۔۔ "
اور ایک دم آدیش سیدھا ہو بیٹھا۔ اس نے مانیا کو بڑی ناپ تول بھری نظروں سے دیکھا جیسے اس کی بات کی گہرائی میں جانا چاہتا ہو۔ پھر سرسرایا۔
"غداری؟"
"نہیں۔ " مانیا نے ایک دم ہاتھ اٹھا کر کہا۔ "میں اسے غداری نہیں کہہ سکتی۔ "
"اور میں بات سنے بغیر کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ نہ تمہاری بات کے بارے میں نہ اپنے تعاون کے حوالے سے۔ " اس نے صاف صاف کہا۔
"مگر اس بات کی گارنٹی تو دے سکتے ہو کہ اگر تم مجھ سے متفق نہ ہوئے تو یہ بات اسی کمرے میں دفن ہو جائے گی۔ ہمیشہ کے لئے۔ "
"اس پر بھی مجھے سوچنا پڑے گا۔ "
"تب میں مجبور ہوں آدیش۔ " مانیا نے حتمی لہجے میں کہا۔ "میں اپنے ہاتھ کاٹ کر تمہیں نہیں دے سکتی۔ ویری سوری کہ میں نے تمہارا وقت برباد کیا۔ "
"مطلب یہ کہ میں جا سکتا ہوں ؟" عجیب سے لہجے میں آدیش نے کہا۔
"اب میں اس قدر بد اخلاق بھی نہیں ہوں کہ تمہیں چائے کافی نہ پوچھوں۔ " پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انٹر کام تک جانے کے لئے اس نے اٹھنا چاہا۔
"رہنے دو۔ " آدیش ایک دم اٹھا اور اس کے قدموں میں جا بیٹھا۔ پھر رخ پھیرا۔ نیچے سرک کر اپنا سر مانیا کی گود میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ یوں لگا جیسے ابھی وہ کہے گا۔ "ذرا میرے سر میں تیل کی مالش کر دو۔ " مگر اس کے بجائے اس کے لبوں سے جو نکلا، اس نے مانیا کو بیحد جذباتی کر دیا۔
"دیدی بنتی ہو۔ ہر سال راکھی باندھتی ہو میری کلائی پر اور حکم دینے کے بجائے مجھ سے گارنٹیاں مانگتی ہو۔ کہتی ہو آدیش۔ کیا میں تم پر اعتماد کر سکتی ہوں ؟ یہ کیوں نہیں پوچھتیں کہ آدیش۔ کیا میں تمہارے سینے میں خنجر اتار سکتی ہوں ؟"
"بکو مت۔ " مانیا نے اس کا سر باہوں کے حلقے میں لے کر سینے میں چھپا لیا۔ "تھپڑ مار دوں گی۔ " اس کی آواز بھرا گئی۔
"گولی مار دو تو زیادہ اچھا ہے۔ " آدیش نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ " آج اس جسم پر یہ وردی کس کی دین ہے ؟ جانتی ہو ناں۔ میں سماج میں سر اٹھا کر چل سکتا ہوں تو کس کی وجہ سے؟ یہ بھی تمہیں علم ہے۔ مجھے اپنے باپ کے نام کا پتہ نہیں۔ ماں کون تھی، یہ بھی نہیں جانتا۔ صرف یہ جانتا ہوں کہ اگر تم مجھے ریل کی پٹڑی سے کھینچ کر زندگی کی پگڈنڈی پر گامزن نہ کر دیتیں تو میں کبھی کا ٹکڑوں میں بٹ کر اس دنیا سے ناپید ہو چکا ہوتا۔ اپنے ماں باپ کا نام دے کر تم نے مجھے حرامی ہونے کے الزام سے بچا لیا۔ اور آج۔۔۔ آج تم جاننا چاہتی ہو کہ تم مجھ پر اعتماد کر سکتی ہو یا نہیں ؟"
" آدیش۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔ " مانیا نے کہا
"معاف کر دوں۔ کیوں معاف کر دوں ؟" وہ سسک کر بچوں کی سی ضد کے ساتھ بولا۔ "جاؤ۔ نہ میں تمہیں معاف کروں گا نہ تم سے بات کروں گا۔ "
" آدیش۔۔۔ " مانیا اس کے روٹھنے کے انداز پر قربان سی ہو گئی۔ "اب بھی نہیں۔ "
اس نے اس کے چہرے کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔
آدیش نے تڑپ کر اس کے ہاتھ تھامے۔ پاگلوں کی طرح بار بار انہیں چوما اور پھر وہ ہاتھ اپنے رخساروں پر رکھ لئے۔
"اب بس بھی کرو بے وقوف۔ کیا رلا رلا کر مار دو گے مجھے؟"
"ہاں۔ " آدیش نے اس کے بازو اپنے گرد حمائل کر لئے۔ "دوبارہ ایسی بات کی ناں ، تو میں اپنی اور تمہاری جان ایک کر دوں گا۔ "مانیا نے اس کے شانے پر ماتھا رکھ کر اپنی نم آنکھیں بند کر لیں۔ "بس یہ یاد رکھنا دیدی۔ اس ملک، اس دنیا، اس دھرم سے بھی اونچا اگر کوئی ہے تو میرے لئے تم ہو۔ صرف تم۔ "
"جانتی ہوں۔ غلطی ہو گئی بابا۔ اب ختم بھی کر دو۔ " مانیا نے پیار سے کہا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے اٹھا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ پھر اپنی ساڑھی کے پلو سے اس کا آنسوؤں سے تر چہرہ خشک کیا۔
"اب ذرا سنبھل کر بیٹھو۔ چہرے پر جو بارہ بج رہے ہیں ، انہیں سوا نو کی مسکراہٹ میں بدلو۔ میں تم سے ایک خاص شخص کو ملوانے جا رہی ہوں۔ "
"کہاں ہے وہ؟" آدیش نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"یہیں ہے۔ " مانیا نے پردے کی جانب رخ کر کے کہا۔ " آ جائیے مسٹر طاہر۔ "
دوسرے ہی لمحے پردہ ہٹا اور طاہر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ وہ گزشتہ کافی گھنٹوں سے نہیں سویا مگر وہ یہ اندازہ نہ لگا سکا کہ اس کیفیت میں اس کے اور مانیا کے درمیان ہونے والی چند لمحے قبل کی گفتگو کا بھی بہت ہاتھ تھا، جس کا اس نے ایک ایک لفظ سنا تھا۔
آدیش اور مانیا کھڑے ہو گئے۔
"مسٹر طاہر۔ یہ میرا بھائی ہے کیپٹن آدیش۔ اور آدیش یہ ہیں مسٹر طاہر۔ "مانیا نے تعارف کرایا۔
طاہر اور آدیش نے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ سب لوگ بیٹھ گئے تو مانیا نے انٹر کام پر کافی اور دوسرے لوازمات کا آرڈر دینا چاہا۔ طاہر نے اسے روک دیا۔ "ایسا نہ کیجئے۔ اس طرح کیپٹن آدیش کے ساتھ میرا آپ کے کمرے میں پایا جانا اچھا تاثر نہ دے گا۔ "
بات سب کی سمجھ میں آ گئی اس لئے کھانے پینے کا پروگرام ترک کر دیا گیا۔ پھر مانیا نے آدیش کی جانب دیکھا۔
" آدیش۔ بات گھما پھر ا کر بتانے کی میں ضرورت نہیں سمجھتی۔ ذرا اس تصویر کو دیکھو۔ " اس نے پرس سے ایک پاسپورٹ سائز فوٹو نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
"یہ۔۔۔ " آدیش اچھل پڑا۔ "یہ تو۔۔۔ یہ تو۔۔ " وہ ہکلا کر رہ گیا۔
"یہ تمہارے سیل میں ہے۔ اتنا تو میں جانتی ہوں۔ اب اس سے پہلے کی بات سن لو۔ " مانیا نے اسے ریلیکس ہونے کا اشارہ کیا اور سرمد اور ریحا کا نام لئے بغیر طاہر کی فراہم کردہ معلومات اس کے گوش گزار کر دیں۔
"یہ شخص۔۔۔ " آدیش نے اس کی تصویر سامنے پڑی میز پر ڈال دی۔ " جنرل نائر کی چھاؤنی پر اٹیک کے دوران اس کے ہاتھ لگا۔ اس کے سارے ساتھی مارے گئے۔ صرف یہ زندہ بچا۔ ہم اس کے بارے میں کچھ بھی جاننے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔۔۔ لیکن۔۔۔ " ایک دم ذہن میں جنم لینے والے کسی سوال نے اسے چونکا دیا۔ اس نے طاہر کی جانب دیکھا۔ پھر اس کی نظر مانیا پر جم گئی۔ " آپ لوگ کیسے جانتے ہیں کہ یہ کرنل رائے کے سیل میں ہے؟"
"سب سے پہلے پوچھا جانے والا سوال تم اب پوچھ رہے ہو۔ " مانیا نے کہا۔ "بہرحال اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کے بارے میں ریحا نے بتایا ہے۔ "
"مس ریحا نے؟" آدیش اس بار اور بری طرح چونکا۔ " اس کا اس شخص سے کیا تعلق؟"
"وہی۔۔۔ جو سانس کا جسم سے، خوشبو کا صبا سے اور بہار کا گلاب سے ہوتا ہے آدیش۔ " مانیا نے شاعری کر ڈالی۔
"یعنی۔۔۔ " آدیش کے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔
"ہاں۔ " مانیا نے اس کی نظروں میں ابھرتی حیرت پڑھ لی۔ " وہ سرمد کو اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہے۔ "
اور آدیش کا سارا جسم سُن ہو گیا۔ دماغ سرد ہوتا چلا گیا۔ رگ و پے میں خون کی جگہ درد کی لہریں دوڑنے لگیں۔ وہ بے اختیار پیچھے ہٹا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ مانیا نے اس کی کیفیت کو اچانک انکشافات سے تعبیر کیا مگر طاہر۔۔۔ وہ بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ وہ ایسی وارداتوں سے ایک سے زیادہ بار دو چار ہو چکا تھا۔ اس نے زبان کو خاموش رکھا مگر سوچ کے لبوں سے پہرے ہٹا لئے۔ اس کا دماغ کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے پر تولنے لگا۔
"کیا ہوا؟" مانیا نے اسے فکرمند نظروں سے دیکھا۔
"کچھ نہیں دیدی۔ " آدیش نے سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں۔ "بس۔ حیرت سے یہ حال ہو گیا ہے۔ "
"محبت کرنے والے جھوٹ بولیں تو فوراً پکڑ ے جاتے ہیں کیپٹن آدیش۔ " آہستہ سے طاہر نے کہا تو آدیش کے ایک دم اتر جانے والے چہرے پر زردی گہری ہو گئی۔
"کیا مطلب؟" مانیا نے حیرت سے طاہر اور پھر آدیش کی جانب دیکھا۔
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " طاہر نے نگاہوں کا محور مانیا کو بنایا۔ "شاید نہیں ، یقیناً مس ریحا سے محبت کرتے ہیں مس مانیا۔ "
"کیا واقعی؟" اس کے لہجے میں حیرت ہی حیرت تھی۔ " آدیش۔۔۔ ؟" مانیا نے نظر اس کے چہرے پر جما دی۔
"پیار پر بس تو نہیں ہے میرا لیکن۔۔۔ " آدیش نے مصرع ادھورا چھوڑ دیا۔ "مسٹر طاہر ٹھیک کہہ رہے ہیں دیدی۔ مجھ پر اس انکشاف سے جو اثر ہوا وہ قدرتی ہے مگر ظالم وقت نے مجھے بڑا حقیقت پسند بنا دیا ہے۔ میں جانتا تھا کہ مس ریحا کا میرا ہو جانا ایک ایسا خواب ہے جسے دیکھنا بھی میرے لئے جرم ہے۔ اسی لئے میں انہیں دل ہی دل میں پوجتا رہا اور شاید زندگی کے آخری سانس تک پوجتا رہوں گا لیکن آج یہ جان کر کہ مس ریحا کسی اور کو چاہتی ہیں مجھے ایک عجیب سے دُکھ کی لذت نے گھیر لیا ہے۔ اب میں چاہتا ہی نہیں کہ مس ریحا میری ہو جائے۔ میں اسے حاصل کر لوں۔ بلکہ ایک انوکھی سی کسک دل میں آنکھ کھولے میرے ہونٹوں سے یہ سننا چاہتی ہے کہ تم مجھے یہ بتاؤ، میں مس ریحا اور سرمد کے کس کام آ سکتا ہوں ؟"
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " طاہر نے اس کا ہاتھ بڑی گرمجوشی سے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ حیرت سے منہ پھاڑے مانیا سب کچھ سن رہی تھی۔ دیکھ رہی تھی۔ صورتحال ذرا نارمل ہوئی تو طاہر نے مانیا کی اجازت سے آدیش سے بات چیت شروع کی۔
"کیپٹن آدیش۔ سرمد اس وقت کس حال میں ہے؟"
"اچھے حال میں نہیں ہے۔ " آدیش نے صاف گوئی سے کہا۔ " سب جانتے ہیں کہ ٹارچر سیلز میں کسی بھی ملزم سے کیا سلوک ہوتا ہے۔ مگر وہ شخص عجیب مٹی سے بنا ہوا ہے۔ اس کی زبان سے آج تک اپنے یا اپنے گروپ کے بارے میں ایک لفظ ادا نہیں ہوا۔ ہاں۔ ایک خاص بات، جو یہاں آنے سے پہلے مجھ سے کرنل رائے نے کی، وہ سن لیں شاید وہ ہمیں کسی پلان کے لئے مدد دے سکی۔ " اس کے بعد کیپٹن آدیش نے انہیں اپنی اور کرنل رائے کی تقریباً دو گھنٹے قبل کی گفتگو سے آگاہ کیا۔
"اس کا مطلب ہے کہ کل کی رات سرمد کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ "
"جی ہاں۔ " آدیش نے طاہر کی بات کے جواب میں کہا۔ "میں یہ تو اندازہ نہیں لگا سکا کہ کل رات کرنل رائے کیا کرنا چاہتا ہے اور اس کے کسی بھی اقدام کے بارے میں کوئی بھی پہلے سے کچھ نہیں کہہ سکتا تاہم یہ بتا سکتا ہوں کہ کل سرمد کا قصہ آر یا پار۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ "
"ہوں۔ " مانیا، اس کی بات پر کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ طاہر اور آدیش کی نظر ملی اور جھک گئی۔ صورتحال ان کے لئے خاصی گمبھیر تھی۔ یہ بڑا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی گھڑی تھی۔
"اچھا مسٹر طاہر۔ ایک بات تو بتائیے۔ " اچانک آدیش نے پُر خیال لہجے میں کہا۔ پھر جیسے اس نے ارادہ بدل دیا۔ "مگر نہیں۔ پہلے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ پھر آپ میرے بیان کی روشنی میں وضاحت کیجئے گا۔ "
"جی جی۔ " طاہر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ مانیا نے بھی ان دونوں کی طرف کان لگا دئیے۔
"مسٹر طاہر۔ " آدیش نے بڑے خوابناک انداز میں کہنا شروع کیا۔ "چند دن پہلے تک میں کرنل رائے کے ساتھ سرمد پر تشدد میں پوری طرح شامل تھا مگر ایک دن عجیب بات ہوئی۔ سرمد غشی کے عالم میں فرش پر پڑا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے ہیں۔ یہ سوچ کر میں نے کان اس کے ہونٹوں سے لگا دیا کہ شاید اس کے بارے میں کسی ایسی بات کا علم ہو جائے جو ہم پر اس کا نام، پتہ یا کسی آتنک وادی تنظیم سے تعلق آشکار کر دے مگر اس کے لبوں سے نکلتے الفاظ نے میرے سارے جسم میں کرنٹ سا دوڑا دیا۔ میں اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ میری حالت ایسی ہو گئی جیسے کسی جادو نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ میرا دل پسلیاں توڑ کر سینے سے نکل جانے کو تھا۔ اور شاید ایسا ہی ہوتا اگر میں سرمد سے پرے نہ ہو جاتا۔ اس دن سے آج تک میں اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکا۔ میرا دل ہی نہیں چاہا کہ میں اسے اذیت دوں۔ بلکہ نجانے کس جذبے کے تحت میں نے اپنی ڈیوٹی مسلسل اس پر لگوائے رکھی تاکہ میری جگہ کوئی دوسرا آ کر اسے تشدد کا نشانہ نہ بنائے۔ اس دن کے بعدسے آج تک یہ میرا معمول ہے کہ جب وہ آنکھیں بند کئے دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑا ہو، روزانہ ایک دو بار میں اس کے ہونٹوں کے ساتھ کان لگا کر وہ خوبصورت الفاظ ضرور سنتا ہوں۔ میرا جی چاہتا تھا میں اس کے زخموں پر مرہم لگاؤں۔ اسے آرام پہنچاؤں مگر میں ایسا کر نہ سکا۔ میں ایسا کرتا تو غدار کہلاتا اور عتاب کا شکار ہو جاتا۔ اس پر کئے ہوئے اپنے تشدد کے لمحات یاد آتے تو میں خود پر شرمندگی محسوس کرتا۔۔۔ اور آج۔۔۔ " اس نے بات روک دی۔ آنکھیں بند کر کے سر اوپر اٹھایا اور فضا میں کچھ سونگھنا چاہا۔ محسوس کرنا چاہا۔ پھر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ تینوں یہ دیکھ کر چونک پڑے کہ اس کی آنکھوں میں نیند کی سی کیفیت انگڑائیاں لے رہی تھی۔ ا س کا لہجہ بھاری ہو گیا۔ یوں جیسے وہ بولنا چاہتا ہو اور بول نہ پا رہا ہو۔ اس کی آواز میں شبنم سی گرنے لگی۔ اس کے لہجے کو بھگونے لگی۔ غسل دینے لگی۔
" آج۔۔۔ آج وہ ہوا جس کے سبب میں ابھی تک ایک سرشاری کے سفر میں ہوں۔ میں اپنی ڈیوٹی ختم کر کے کرنل رائے کے آفس میں جا رہا تھا کہ مجھے رک جانا پڑا۔ سرمد کمرے میں دیوار سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئے نیم دراز ہے۔ اس کا چہرہ آنسوؤں میں تر ہے اور ہونٹ ہولے ہولے ہل رہے ہیں۔ میں رکا تو محسوس ہوا کہ ایک عجیب سی مست کر دینے والی خوشبو وہاں چکرا رہی ہے۔ میں حیرت زدہ سا اندر داخل ہوا اور اس کے قریب چلا گیا۔ کان اس کے ہونٹوں سے لگا دئیے۔ وہ اپنا مخصوص ورد کر رہا تھا۔ میں نے صاف محسوس کیا کہ وہ خوشبو، وہ مہک جس نے سرمد کے گرد حصارسا باندھ رکھا ہے، مجھ پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ میرے حواس نشے میں ڈوبتے چلے گئے۔ دل کو بے قراری نے جکڑ لیا۔ جب میں اس کیفیت کو برداشت نہ کر سکا تو خوشبو میں نہایا ہوا کمرے سے نکل آیا۔ کسی مے نوش کی طرح لڑکھڑاتا ہوا سیل سے باہر پہنچا۔ یخ بستہ فضا میں چند گہرے گہرے سانس لئے تو ہوش کا دامن ہاتھ آیا۔ یہاں آنے تک میری حالت دگرگوں ہی رہی۔ دیدی اور آپ لوگوں سے ملا۔ گفتگو کی تو حالت سنبھلی مگر میرا دل سینے ہی میں ہے، اس میں اب بھی مجھے کسی کسی لمحے شک ہوتا ہے۔ لگتا ہے میں اب بھی وہیں ہوں۔ سرمد کے پاس۔ وہ خوشبو اب بھی میری دھڑکنوں اور آتما میں چکرا رہی ہے۔ وہ الفاظ اب بھی مجھے لوریاں دے رہے ہیں۔ مجھے اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔ مجھے کچھ سمجھا رہے ہیں۔ مگر کیا ؟ یہ میں نہیں جانتا"۔
کیپٹن آدیش خاموش ہو گیا اور سر جھکا لیا۔ وہ تینوں بُت بنے اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے جس پر ایک عجیب سی معصومیت چھائی ہوئی تھی۔
"کیپٹن آدیش۔۔۔ " آہستہ سے طاہر نے اسے پکارا تو وہ چونکا۔ مانیا نے جھرجھری لے کر اسے متوحش نظروں سے دیکھا۔
"یس مسٹر طاہر۔ " وہ تھکے تھکے سے لہجے میں بولا۔
"کیا آپ کو۔۔۔ وہ الفاظ یاد ہیں۔۔۔ جو سرمد کا ورد ہیں ؟" طاہر نے ٹھہر ٹھہر کر، رک رک کر جما جما کر الفاظ ادا کئے۔
"وہ الفاظ۔۔۔ " کیپٹن آدیش یوں مسکرایا جیسے طاہر نے اس سے کوئی بچگانہ بات پوچھ لی ہو۔ "وہ تو میری آتما پر ثبت ہو گئے ہیں مسٹر طاہر۔ میں چلتے پھر تے ان الفاظ کو اپنے لہو کے ساتھ جسم میں گردش کرتے محسوس کرتا ہوں۔ "
"کیا آپ انہیں ہمارے سامنے دہرائیں گے کیپٹن آدیش؟پلیز۔ " طاہر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کے لہجے میں التجا سی تھی۔
"ضرور۔ " آدیش نے کہا۔ پھر وہ کہتے کہتے رک گیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ میز پر پڑا جگ اٹھایا۔ گلاس میں پانی ڈالا۔ گھونٹ بھرا اور اٹھ گیا۔ باتھ روم کا دروازہ کھول کر اس نے کلی کی اور رومال سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے لوٹ آیا۔ وہ تینوں اس کی حرکات کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
"مسٹر طاہر۔ پتہ نہیں کیوں میرا جی نہیں چاہا کہ میں کلی کئے بغیر وہ الفاظ زبان سے نکالوں۔ ظاہر ہے اگر وہ الفاظ آپ کے مذہب سے متعلق ہیں تو آپ کے عقیدے کے مطابق پاکیزہ ہی ہوں گے مگر میرے دل میں ان کا احترام جس وجہ سے ہے، میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔ بس میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان الفاظ کو اپنی زبان پاک کر کے ادا کروں۔ "
"اب دیر نہ کیجئے کیپٹن آدیش۔ " طاہر بیتاب ہو گیا۔ رہ گئی مانیا تو وہ سانس روکے کسی ایسے انکشاف کی منتظر تھی جو اسے حیرت کے کسی نئے جہاں میں اتار دیتا۔
صوفے پر بیٹھ کر کیپٹن آدیش نے ایک نظر ان تینوں کو مسکرا کر دیکھا۔ پھر اس کی نظر طاہر کے چہرے پر آ جمی۔
"وہ الفاظ جو سرمد کا ہمہ وقت ورد ہیں مسٹر طاہر۔ وہ ہیں۔ "دھیرے سے اس نے آنکھیں بند کیں اور کہا:
"صلی اللہ علیہ وسلم۔ "
ایک دم جیسے کمرے میں ہوا ناچ اٹھی۔ فضا جھوم اٹھی۔ لمحات وجد میں آ گئی۔ گھڑیاں رقصاں ہو گئیں۔ خوشبو نے پر پھیلا دئیے۔ مہک ان کے بوسے لینے لگی۔ ان کے دل دھڑکنا بھول گئے۔ پلکوں نے جھپکنا چھوڑ دیا۔ ہوش و حواس ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہلکورے لینے لگے۔

سرمدچند لمحے کرنل رائے کو دیکھتا رہا۔ ساری تکلیف، ساری اذیت، سارا درد جیسے اس کے حواس کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔
"زیادہ مت سوچو۔ سوچو گے تو بہک جاؤ گے۔ ہاں کر دو۔ ہاں کہہ دو۔ تمہارا صرف "ہاں "کا ایک لفظ تمہاری ساری اذیتوں کا خاتمہ کر دے گا۔ اور ایک "نہ " کا لفظ تم پر نرک کے دروازے کھول دے گا، یہ مت بھولنا۔ " کرنل اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سمجھانے کے انداز میں کہے جا رہا تھا۔
"کیا کہا تم نے؟" اچانک سرمد نے اس کی جانب کانپتی ہوئی انگلی اٹھائی۔
کرنل نے اس کے طرزِ تخاطب پر اسے چونک کر دیکھا۔ کیپٹن آدیش کا بھی یہی حال ہوا۔ جب سے وہ ان کے ہاتھ لگا تھا، تب سے آج وہ پہلی بار بولا تھا۔۔۔ اور یوں بولا تھا کہ کیپٹن آدیش حیرت زدہ رہ گیا اور کرنل رائے کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔
"بہرے نہیں ہو تم۔ میں نے جو کہا تم نے اچھی طرح سنا ہے۔ " کرنل رائے نے اسے گھورتے ہوئے دانت بھینچ لئے۔
"ہاں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ تم بار بار یہ ناپاک الفاظ دہراؤ اور میں بار بار انکار کروں۔ تم اپنے باطل دھرم کا لالچ دو اور میں اپنے سچے اللہ کی وحدانیت بیان کرتے ہوئے، اس کے پسندیدہ دین کے اظہار کے لئے اپنی زبان پر وہ الفاظ بار بار سجاؤں جو اسے سب سے زیادہ پسند ہیں۔ قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد۔ ولم یکن لہ، کفواً احد۔ "
الفاظ کیا تھy۔ پگھلا ہوا سیسہ تھا جو کرنل رائے کے کانوں میں اترتا چلا گیا۔ آتش فشاں کا لاوا تھا جواسے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ بھڑکتا ہوا الاؤ تھا جس میں اس کی ساری نرمی، سارا فریب، سارابطلان جل کر خاک ہو گیا۔
"کیا کہا تم نے؟" آگ بگولہ ہوتے کرنل رائے کے ہونٹوں سے پاگل کتے کی طرح کف جاری ہو گیا۔
"قل ھو اللہ احد۔ " سرمد نے اس طرح مسکرا کر جواب دیا، جیسے کسی بچے کی ضد پر اسے دوبارہ بتا رہا ہو۔ "اس نے اپنے حبیب کریم سے فرمایا کہ آپ ان کافروں اور مشرکوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اسے کسی نے جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا۔ اور اس "احد "کا کوئی ہمسر نہیں۔ "
"بکو مت۔۔۔۔ " کرنل رائے غصے میں دیوانہ ہو کر سرمد پر پل پڑا۔ لاتیں ، ٹھوکریں ، گھونسے، مغلظات۔ ایک طوفان غیظ و غضب تھا سرمد جس کی لپیٹ میں آ گیا۔ کیپٹن آدیش جو سرمد کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ کے سحر میں گرفتار تھا، ایک دم کرنل رائے کے چیخنے چلانے اور سرمد پر ٹوٹ پڑنے پر گھبرا کر ہوش میں آ گیا۔ اسے اور تو کچھ نہ سوجھا، ایک دم اس نے اوپری جیب میں پڑے موبائل کا بٹن دبا دیا۔
"اللہ ایک ہے۔ " سرمد مسکرائے جا رہا تھا۔ اس پر جیسے کرنل رائے ٹھوکریں ، لاتیں اور گھونسے نہیں ، پھول برسا رہا تھا۔ اذیت جیسے محسوس ہی نہ ہو رہی تھی۔ اس کی ہر چوٹ کے جواب میں سرمد ایک ہی بات کہتا:
"قل ھواللہ احد۔ اللہ ایک ہے۔ "
اس کے ہر بار کہے ہوئے یہ الفاظ کرنل رائے کے غصے اور دیوانگی میں مزید اضافہ کر دیتی۔ وہ اور بھی شدت سے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیتا۔ کیپٹن آدیش بے بسی سے ادھر ادھر قدم پھینک رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ کسی طرح سرمد کو بچا لیتا مگر اس وقت تو کرنل پاگل کتے کی طرح قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ اس کے راستے میں آنا خود کو عتاب کے حوالے کر دینے والی بات تھی۔
"سر۔۔۔ " اچانک اس نے آگے بڑھ کر کرنل رائے سے کہا۔ "سر۔۔۔ یہ بیہوش ہو چکا ہے۔ " اور کرنل رائے کے ہاتھ پاؤں اور زبان ایک دم یوں رک گئی جیسے کسی نے اس کا بٹن آف کر دیا ہو۔
"مگر۔۔۔ اس کی زبان۔۔۔ اس کی زبان۔۔۔ " وہ ہانپتے ہوئے بولا۔ "وہ تو۔۔۔ وہ تو چل رہی ہے۔ "
کیپٹن آدیش نے کرنل کے سرمد کی طرف دراز بازو کے ہدف کو تاکا۔ واقعی سرمد کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ سرگوشی کے انداز میں آواز ابھر ری تھی۔
"قل ھو اللہ احد۔۔۔ قل ھو اللہ احد۔۔۔ قل ھواللہ احد۔ "وہ ہولے ہولے پکار رہا تھا۔ بتا رہا تھا۔ سنا رہا تھا۔ سمجھا رہا تھا۔
"یہ اپنے ہوش میں نہیں ہے سر۔ " آدیش نے دزدیدہ نگاہوں سے شیشے کے پار دیکھا۔ کاریڈور خالی تھا مگر کسی بھی لمحے طاہر اور مانیا وہاں نمودار ہو سکتے تھی۔ اس نے کنکھیوں سے کرنل کے ہولسٹر پر نظر ڈالی، جس کا بٹن کھلا ہوا تھا۔
"اسے ہوش میں لاؤ۔ " کٹکھنے کتے کی طرح کرنل غرایا۔
"یس۔۔۔ یس سر۔ " آدیش نے ہکلا کر کہا اور میز پر پڑے پانی کے جگ کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
"یہ کون لوگ ہیں ؟" نیم روشن میدان میں دو سایوں کو ٹارچر سیل کی جانب بڑھتے دیکھ کر سوجل چونکی۔ ریحا پہچان چکی تھی۔
"ماما۔ یہ مسٹر طاہر اور مس مانیا ہیں۔ اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ ماما۔ "
"کیا ہوا ریحا؟ بات کیا ہے؟" سوجل نے اسے بے چین دیکھ کر پوچھا۔
"ماما۔ " ریحا نے ہاتھ جھٹکی۔ "میں نے بتایا تو تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ اگر اندر خطرہ ہوا تو کیپٹن آدیش مس سونیا کو الرٹ کرے گا اور وہ اس کا دیا ہوا انٹری پاس دکھا کر ٹارچر سیل میں داخل ہو جائیں گی۔ خطرہ ماما۔۔۔ خطرہ۔ "
"تو چلو۔ جلدی کرو بیٹی۔ " سوجل نے اپنے پاس رکھا ہوا ریوالور اٹھا لیا۔ " آؤ۔ ہمیں بھی وہاں چلنا چاہئے۔ "
"مگر ماما۔ گارڈز۔۔۔ " اس نے کہنا چاہا۔
" آ جاؤ۔ یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ گارڈز کی نظروں سے بچ کر ہمیں وہاں پہنچنا ہو گا۔ " سوجل کچن کے دروازے کی جانب لپکی۔ ریحا اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
"سر۔ اس میں پانی نہیں ہے۔ " کیپٹن آدیش نے خالی جگ اٹھا کر کرنل رائے کو دکھایا۔ "میں پانی لے کر آتا ہوں۔ " وہ جلدی سے کمرے کے کونے میں بنے باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
"ڈیم فول۔ " کرنل اسے قہر سے گھورتا رہ گیا۔ پھر بجھا ہوا سگار دیوار پر کھینچ مارا۔
"قل ھواللہ احد۔ " اچانک سرمد کی آواز بلند ہو گئی۔ وہ کراہتا ہوا ان الفاظ کا جیسے ورد کر رہا تھا۔ اٹھنے کی کوشش میں بار بار فرش پر گر پڑتے سرمد کے لہو لہان جسم کو دیکھ کر کرنل رائے کا پارہ ایک بار پھر چڑھ گیا۔
"ملیچھ۔ " اس نے سرمد کے زخمی گھٹنے پر ایک زور دار ٹھوکر رسید کر دی۔ جواب میں چیخ یا کراہ کے بجائے سرمد کے لبوں سے رک رک کر نکلا۔
"قل۔۔۔ ھواللہ۔۔۔ احد۔۔۔ لا الٰہ۔۔۔ الا اللہ۔۔۔ محمد۔۔۔ رسول اللہ۔ " اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"تو تیری زبان بند نہیں ہو گی۔ " غصے میں کھولتے ہوئے کرنل رائے نے ہولسٹر سے ریوالور کھینچ لیا۔ سیفٹی کیچ ہٹایا اور سرمد کے سینے کا نشانہ لیا۔
"قل۔۔۔ ھو اللہ۔۔۔ احد۔ " سرمد کے لبوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ ابھری۔
" آخری بار کہہ رہا ہوں مُسلے۔ " کرنل رائے کے دل میں نجانے کیا آئی۔ "ہماری طرف لوٹ آ۔ میں تیری سب سزائیں ختم کر دو ں گا۔ "اس کی انگلی ٹریگر پر جم گئی۔
"قل ھو اللہ احد۔ " سرمد اب بھی مسکرا رہا تھا۔ "اللہ الصمد۔ "اس کی آواز بلند ہو گئی۔
کرنل رائے کی انگلی ٹریگر پر دب گئی۔
دو بار۔
مگر دھماکے تین ہوئے۔
پہلے دو دھماکوں نے سرمد کا سینہ چھلنی کر دیا۔
تیسرے دھماکے نے کرنل رائے کا ہاتھ اڑا دیا۔ اس کا ریوالور ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا۔
ایک ہچکی لے کر سرمد کا جسم جھٹکے سے ساکت ہو گیا مگر اس کے ہونٹ اب بھی ہل رہے تھے۔ "قل ھو اللہ احد۔ قل۔۔۔ ھو اللہ۔۔۔ احد۔۔۔ "
کرنل رائے کے ہونٹوں سے بڑی مکروہ چیخ خارج ہوئی اور وہ اپنا خون آلود ہاتھ دوسرے ہاتھ سے دبائے تڑپ کر پلٹا۔
"تم۔۔۔ " اس نے دروازے سے اندر داخل ہوتے طاہر اور مانیا کو دیکھا جو تیزی سے فرش پر بے سدھ پڑے سرمد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پھر اس کی نظر باتھ روم کے دروازے کے پاس کھڑے آدیش پر جم گئی جو اس پر ریوالور تانے کھڑا بڑی سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم نے مجھ پر گولی چلائی۔۔۔ ؟" اسے کیپٹن آدیش پر یقین نہ آ رہا تھا۔
جواب میں کیپٹن آدیش نے پاؤں کی ٹھوکر سے اس کا ریوالور دور پھینک دیا۔ مگر نہیں۔ دور نہیں۔ ریوالور شیشے کے دروازے سے اندر داخل ہوتی سوجل کے پاؤں سے ٹکرا کر رک گیا جسے اس نے اٹھا لیا۔
اسی وقت ریحا ماں کو ایک طرف ہٹاتی ہوئی اندر آئی اور فرش پر پڑے سرمد کی طرف بھاگتی چلی گئی، جس کا سر طاہر نے گود میں لے رکھا تھا اور مانیا جسے وحشت آلود نگاہوں سے تک رہی تھی۔
"سرمد۔۔۔ "ریحا گھٹنوں کے بل اس کے قریب جا بیٹھی اور اس کے زخم زخم جسم کو دیکھ کر بلکنے لگی۔ اس کے لبوں سے سوائے "سرمد۔ سرمد" کے کچھ نہ نکل رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو دھاروں دھار بہہ رہے تھے۔
سوجل نے کرنل رائے کا ریوالور تھام لیا اور کیپٹن آدیش اسے کور کئے ہوئے تھا۔ کرنل اس طرح کمرے میں پیدا ہو جانے والی صورتحال کو جانچ رہا تھا جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کے خون آلود چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے لیا۔ اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔ سرمد کی یہ حالت اس سے برداشت نہ ہو رہی تھی۔ سینے کا زخم اتنا گہرا تھا کہ خون مانیا کے روکے نہ رکا۔
"مسٹر طاہر۔ " اس نے گھبرائی ہوئی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ " لگتا ہے بارود نے سینہ چیر کر رکھ دیا ہے۔ خون رک ہی نہیں رہا۔ " مانیا نے اپنی شال پھاڑ کر زخم پر پٹی باندھتے ہوئے اسے بتایا۔
"سرمد۔۔۔ " ریحا سرمدکو والہانہ دیکھے جا رہی تھی اور روئے جا رہی تھی۔ "میرے سرمد۔ آنکھیں کھولو۔ آنکھیں کھولو سرمد۔ "
پھر اسے محسوس ہوا جیسے سرمد کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی ہو۔ اس نے وحشت بھری نظروں سے طاہر اور مانیا کی جانب دیکھا۔ " یہ۔۔۔ یہ کچھ کہہ رہا ہے مسٹر طاہر۔ " اور طاہر نے جلدی سے اس کے لبوں کے ساتھ اپنا کان لگا دیا۔
"قل۔۔۔ ھواللہ۔۔۔ احد۔۔۔ قل ھو اللہ۔۔۔ احد۔ " سرمد کے ہونٹ ہل رہے تھے۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کا خون آلود ماتھا چوم لیا اور اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ گرم گرم آنسو سرمد کے چہرے پر گرے تو ایک دو لمحوں کے بعد اس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں۔
"تم۔۔۔ ؟" بمشکل دھندلائی ہوئی نظروں سے اس نے طاہر کو پہچانا تو اس کے لہجے میں حیرت سے زیادہ مسرت نمایاں ہوئی۔ "یہاں۔۔۔ مگر کیسے؟"
"کچھ مت بولو سرمد۔ " طاہر نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر مانیا کی جانب دیکھا۔ "مس مانیا۔ اسے فوری طور پر طبی امداد۔۔۔ " اس کے الفاظ پورے ہونے سے پہلے مانیا نے کرنل رائے پر ریوالور تانے کیپٹن آدیش کی طرف نظر اٹھائی۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، سرمد کی نگاہ روتی ہوئی ریحا پر پڑ گئی۔
"ارے تم۔۔۔ ریحا۔۔۔ " وہ مسکرایا۔ "چلو اچھا ہوا۔ سب اپنے اکٹھے ہو گئے۔ " اس کی آواز میں نقاہت بڑھتی جا رہی تھی۔
"یہاں سے انہیں اس حالت میں باہر لے جانا ممکن نہیں ہے دیدی۔ " کیپٹن آدیش نے بیچارگی سے کہا۔
"ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ " اسی وقت کرنل رائے کے حلق سے قہقہہ ابل پڑا۔ "یہاں سے تم لوگ زندہ واپس نہیں جا سکو گے۔۔۔ اور کیپٹن آدیش۔۔۔ تمہیں تو میں کتے کی موت ماروں گا۔ "اس کی قہر آلود نظریں آدیش پر چنگاریاں برسانے لگیں ، جس نے اسے ریوالور کے اشارے پر دیوار سے لگ کر کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔
جواب میں آدیش خاموش رہا تو اس نے نظروں کا ہدف سوجل کو بنا لیا۔ " تم ریوالور ہاتھ میں لئے چپ چاپ کھڑی ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے تم بھی ان کے ساتھ ہو۔ ایک ہندو پتنی اپنے پتی کے دشمنوں سے مل کر اسے مارنے کے درپے ہے۔ بچ تم بھی نہیں سکو گی سوجل۔ " وہ دانت پیستے ہوئے خاموش ہو گیا۔ سوجل اسے سرد نظروں سے گھورتی رہ گئی۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر بے چین ہوا جا رہا تھا۔ "کچھ کرو مس مانیا۔ کیپٹن آدیش۔ "
"ماما۔ " اچانک ریحا اٹھی اور ماں کی طرف بڑھی۔ "ماما۔ اسے بچا لو ماما۔ اسے بچا لو۔ میرے سرمد کو بچا لو۔ "
"مجھے کچھ سوچنے دو ریحا۔ " سوجل نے اسے سینے سے لگا لیا۔
"گھبراؤ نہیں طاہر۔ " سرمد نے اس کے ہاتھوں میں دبا اپنا ہاتھ سینے پر رکھ لیا۔ اس کی بار بار بند ہوتی آنکھیں اور چھل چھل بہتا خون طاہر کو اس کی لمحہ بہ لمحہ قریب آتی موت کی خبر دے رہے تھے۔ "میں جانتا ہوں میرے جانے کا وقت آ چکا ہے۔ " وہ ہولے ہولے بولا۔ "یہ تو پگلی ہے۔ میری تکلیف سے دیوانی ہوئی جا رہی ہے۔ نہیں جانتی، میں نے کس مشکل سے اپنی منزل پائی ہے۔ اب تم لوگ مجھے دوبارہ کانٹوں میں مت گھسیٹو یار۔ "
"سرمد۔۔۔ " طاہر سسک کر بولا۔ اسی وقت ریحا ان کے قریب لوٹ آئی۔ مانیا نے پرے ہو کر اسے جگہ دی تو وہ سرمد کا دوسرا ہاتھ تھام کر فرش پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی اور اسے پاگلوں کے انداز میں تکنے لگی۔ بار بار وہ ہچکی لیتی اور معصوم بچوں کی طرح سسکی بھر کر رہ جاتی۔
"اچھا طاہر۔۔۔ میرے بھائی۔ میرے دوست۔۔۔ اب جانے کا لمحہ آن پہنچا۔ میرے پاپا کا خیال رکھنا۔ اگر ہو سکے تو مجھے پاکستان لے جانا۔ اور اگر ایسا ہو سکا تو میرے پاپا سے کہنا کہ میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ میں عمرے کے بعد لندن واپس نہیں گیا۔ پاکستان آیا ہوں۔ بس ذرا سفر طویل ہو گیا۔ میں نے انہیں دُکھ دیا ہے طاہر۔ بہت دُکھ دیا ہے۔ میری طرف سے ان سے معافی مانگ لینا۔ " وہ آنکھیں بند کر کے ہانپنے لگا۔
طاہر اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگائے خاموشی سے سنتا رہا۔ اس کی برستی آنکھیں اس کے جذبات کا آئینہ تھیں۔
"ریحا۔۔۔ " ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ "میں تم سے کیا ہوا کوئی وعدہ نبھا نہیں سکا۔ برا نہ ماننا۔ وقت ہی نہیں ملا۔ "
"سرمد۔۔۔ " ریحا پچھاڑ کھا کر رہ گئی۔ کیسی بے بسی تھی کہ وہ اسے بچا نے کی اک ذرا سی بھی کوشش نہ کر سکتے تھی۔ بیچارگی نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ زخمی ہاتھ بغل میں دبائے کرنل رائے ان کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اسے اپنے انجام کی کوئی فکر نہ تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ جلد یا بدیر وہ سب اس کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
"کچھ اور کہو سرمد۔ " اچانک طاہر نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس کا لہجہ بیحد عجیب ہو رہا تھا۔ مانیا نے چونک کر اسے دیکھا۔
"کیا کہوں طاہر۔ کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں۔ " نقاہت سے اس کی آواز ڈوب گئی۔ "ہاں۔ ایک کام ہے اگر تم کر سکو۔ "
"کہو سرمد۔ میری جان۔ " طاہر بیتاب ہو گیا۔
"یہ۔۔۔ " اس نے اپنی اوپری جیب کی طرف اشارہ کیا۔ " اس جیب میں میرے آقا کے دیار کی خاک ہے۔ اسے میری قبر کی مٹی میں ملا دینا۔ جنت کی مہک میں سانس لیتا رہوں گا قیامت تک۔ کر سکو گے ایسا؟"
"کیوں نہیں سرمد۔ " طاہر نے اس کے سر کے بالوں کو چوم لیا۔ " ایسا ہی ہو گا۔ مگر کچھ اور بھی ہے سرمد جو تم بھول رہے ہو۔ " طاہر نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ دیا۔ "ایک ہستی اور ہے جس کے لئے تمہارا پیغام میں امانت کی طرح پلکوں پر سجا کر لے جا سکتا ہوں۔ "
"شش۔۔۔ " سرمد نے اس سے ہاتھ چھڑایا اور ہونٹوں پر رکھ دیا۔ "کبھی ایسا خیال دل میں بھی نہ لانا طاہر۔ میرے لئے وہ نام اتنا پرایا ہے کہ میں اسے زبان پر لاؤں گا تو اللہ کا مجرم ٹھہروں گا۔ اتنا محترم ہے کہ اس کے باعث اللہ نے مجھے اپنے حضور طلب فرما لیا۔ اور کیا چاہئے؟ کچھ نہیں۔ کچھ نہیں۔ " پھر اس نے نظروں کا محور کرنل رائے کو بنا لیا۔ " شرک کے اس پتلے نے مجھے اپنے اللہ سے برگشتہ کرنے کے لئے ریحا سے لے کر آزادی اور دولت کا جو لالچ دیا، وہ کسی بھی سرمد کو بہکانے کے لئے کافی تھا مگر میں اس پکار کا کیا کروں طاہر جو میرے رگ و پے میں خون بن کر دوڑتی ہے۔ قل۔۔۔ ھواللہ۔۔۔ احد۔ " اچانک سرمد کی سانس اکھڑ گئی۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر اور ریحا اس پر جھک گئی۔ " بس طاہر۔ بس ریحا۔ الوداع۔۔۔ " اس کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔ جسم میں ایک دم تیز حرارت کی لہر دوڑ گئی۔ "میرے اللہ گواہ رہنا۔ میں نے عشاق کا نام بدنام نہیں ہونے دیا۔۔۔ یہ تیری دی ہوئی توفیق ہے۔ تیرے حبیب پاک اور میرے آقا کا صدقہ ہے۔ قل ھواللہ احد۔ " اس کی آنکھیں مند گئیں۔
"سرمد۔۔۔ " طاہر نے اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لے کر دبایا۔
"سرمد۔۔۔ " ریحا اس کے چہرے پر جھک گئی۔
"قل ھواللہ احد۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔ " اس کی آواز بلند ہوئی۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ " سرمد کے ہونٹ مسکرانے کے انداز میں وا ہوئی۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ " مسکراہٹ مہک اٹھی۔ ایک دم کمرے میں خوشبو کے جھونکوں داخل ہوئی۔ سرمد کی نظریں اپنے سامنے دیوار کی جانب یوں جم گئیں جیسے وہ کسی کو دیکھ رہا ہو۔ مگر کسی؟ کسے دیکھ رہا تھا وہ جس کے دیدار نے اس کی آنکھوں میں مشعلیں روشن کر دی تھیں۔ چہرے پر عقیدت و احترام کی سرخیاں جھلملا دی تھیں۔ ایک گہرا سانس اطمینان بھرا سانس اس کے ہونٹوں سے خارج ہوا۔ لرزتے ہوئے دونوں ہاتھ آپس میں کسی کو تعظیم دینے کے انداز میں جُڑ ی۔۔۔ "صلی اللہ علیہ و سلم " لبوں پر مہکا اور سرمد کے مسکراتے ہونٹ ساکت ہو گئے۔
خوشبو ان کے گرد لہراتی رہی۔ سرمد کو لوریاں دیتی رہی۔ اور وہ سو گیا۔ کسی ایسے معصوم بچے کی طرح جسے اس کا من پسند کھلونا مل جائے اور وہ اسے باہوں میں لے کر نیند کی وادیوں میں اتر جائے۔
٭٭٭٭٭٭
کمرے میں عجیب سا سکوت طاری تھا۔
کرنل رائے اس انوکھی مہک کے آنے، کمرے میں پھیلنے اور پھر آہستہ آہستہ ناپید ہو جانے کا گواہ تھا مگر ذہنی کج روی اور فطری ہٹ دھرمی اسے اس کے اقرار سے روک رہی تھی۔
طاہر نے دھیرے سے سرمد کو باہوں میں اٹھایا اور میز پر لٹا دیا۔ کیپٹن آدیش اب بھی کرنل رائے کو کور کئے کھڑا تھا، مگر اس کے رخساروں پر آنسو کیوں بہہ رہے تھے۔ وہ خود نہ جانتا تھا۔ یا شاید جانتا تھا، بتا نہ سکتا تھا۔
دل گرفتہ مانیا نے ریحا کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ ہاتھ چھڑا کر لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھی اور میز سے نیچے لٹکتے سرمد کے پیروں سے جا لپٹی۔ خون آلود، زخم زخم پیروں کو بوسے دیتی دیتی وہ میز کے ساتھ ماتھا ٹکا کر یوں بے سدھ ہو گئی کہ سرمد کے دونوں پاؤں اس کے سینے کے ساتھ بھنچے ہوئے تھے۔
سوجل ویرا ن ویران آنکھوں سے ریحا اور سرمد کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کی نظر کرنل رائے پر آ کر جم گئی۔
"بہت دیر ہو گئی کرنل رائے۔ " اچانک اس نے بڑی سرد آواز میں کہا تو کرنل رائے اس کی جانب متوجہ ہوا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ نجانے کیا ہوا کہ کرنل نے گھبرا کر نظریں پھیر لیں۔
"نظریں نہ چراؤ کرنل۔ میں صرف ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔ راکیش کا قتل تم نے کرایا تھا؟ہاں یا نہیں۔ "
کرنل رائے نے پھر چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
"ہاں یا نہیں ؟" سوجل نے اس کا ریوالور اسی پر تان لیا۔
"تم پاگل ہو سوجل۔ " گھبرا کر کرنل رائے نے کہا۔
"ہاں یا نہیں کرنل۔ " سوجل نے ٹریگر پر انگلی رکھ دی۔
"میں اسے کیسے قتل کرا سکتا تھا سوجل۔ میری اس سے کیا دشمنی تھی؟" اس کی آواز میں خوف ابھر آیا۔
"دشمنی کا نام سوجل ہے کرنل رائے۔ آج میں اس دشمنی ہی کو ختم کر دوں گی مگر اپنے راکیش کے پاس جانے سے پہلے جاننا چاہتی ہوں کہ تم گناہ گار ہو یا بے گناہ؟"
"میں بے گناہ ہوں سوجل۔ " زخمی ہاتھ اٹھا کر حلف دینے کے انداز میں کرنل رائے نے جلدی سے کہا۔
"بہت بزدل ہو تم کرنل رائے۔ " سوجل کے ہونٹوں پر بڑی اجڑی اجڑی مسکراہٹ ابھری۔ " آخری وقت میں بھی جھوٹ بول رہے ہو۔ "
" آخری وقت؟" ہکلا کر کرنل رائے نے کہا۔
"ہاں۔ " تم راکیش کے قاتل ہو، یہ بات تم مان لیتے تو شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر ۔۔۔ "
"اگر ایسی بات ہے تو میں اقرار کرتا ہوں سوجل کہ میں نے راکیش کا قتل کرایا تھا مگر صرف تمہاری محبت کے سبب۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا تھا سوجل۔ اسی لئے میں نے راکیش کو راستے سے ہٹا دیا۔ "
"شکر ہے بھگوان کا۔ " سوجل نے ایک پل کو آنکھیں بند کیں اور دھیرے سے کہا۔ پھر آنکھیں کھولیں اور کرنل رائے کی جانب بڑی سرد نگاہی سے دیکھا۔
"اب تو تم مجھے نہیں مارو گی سوجل؟" اس نے لجاجت سے پوچھا۔
"تم نے میری پوری بات سنے بغیر ہی اپنے جرم کا اقرار کر لیا رائے۔" سوجل بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔ " میں کہہ رہی تھی کہ شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر ۔۔۔ تم نے میرے راکیش کی نشانی، میری بیٹی ریحا کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی چھین کر اپنا قتل مجھ پر لازم کر لیا ہے۔ "
پھر اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ سکتا، پے در پے چھ دھماکے ہوئے۔ کرنل رائے کا گول مٹول جسم اچھل اچھل کر گرتا رہا۔ چوتھے فائر پر اس نے دم توڑ دیا مگر سوجل نے ریوالور خالی ہونے پر ہی انگلی کا دباؤ ٹریگر پر ختم کیا۔ حیرت زدہ، ڈرے ہوئے، فرش پر آڑے ترچھے لہولہان پڑی، کرنل رائے کی بے نور آنکھیں سوجل پر جمی ہوئی تھیں ، جس کا ریوالور والا ہاتھ بے جان ہو کر پہلو میں لٹک گیا تھا۔ کسی نے اپنی جگہ سے حرکت کی نہ اسے روکنا چاہا۔
دھماکوں کی بازگشت ختم ہوئی تو کیپٹن آدیش نے بھی غیر شعوری انداز میں ریوالور ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ لڑکھڑایا اور دیوار سے جا لگا۔
طاہر میز پر دونوں ہاتھ ٹیکے سر جھکائے سسک رہا تھا۔ پھر مانیا آئی اور اس کے شانے پر سر رکھ کر رو دی۔ سوجل تھکے تھکے انداز میں آگے بڑھی اور ایک کرسی پر گر کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بیٹھ گئی۔ کیپٹن آدیش کی سسکیاں ، طاہر اور مانیا کا ساتھ دے رہی تھیں اور ریحا، سرمد کے پیروں سے لپٹی خاموش بیٹھی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
کتنی دیر گزری، کسی کو اس کا احساس نہیں تھا۔
وہ سب چونکے تو اس وقت جب اچانک سیل کی سیڑھیاں بھاری اور تیز تر قدموں کی دھڑدھڑاہٹوں سے گونج اٹھیں۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتی، کتنی ہی لوہے کی نالیاں انہیں اپنے نشانے پر لے چکی تھیں۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ ساکت رہ گئے۔
طاہر نے ان کی جانب دیکھا۔ وہ تعداد میں بیس سے کم نہ تھے۔ کچھ کمرے میں اور باقی کاریڈور میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے جسموں پر فوجی وردیاں اور سرو ں پر سفید رومال بندھے تھے۔ وہ یقیناً بھارتی فوجی نہیں تھے۔
سب سے اگلا شخص، جو اُن کا لیڈر لگتا تھا، اس کی عقاب جیسی نگاہوں نے ایک ہی بار میں پورے کمرے کا جائزہ لے لیا۔ مردہ کرنل رائے کو دیکھ کر وہ ایک پل کو حیران ہوا، پھر اس کی نگاہیں میز پر پڑی سرمد کی لاش پر آ کر جم گئیں۔ ایک پل کو اس کی نظروں میں اضطراب نے جنم لیا پھر وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ سرمد کو بے حس و حرکت پا کر اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔
"ہمیں دیر ہو گئی۔ " آہستہ سے وہ بڑبڑایا۔ پھر اس کی نگاہوں میں آگ سی دہک اٹھی۔
"یہ۔۔۔ " اس نے سرمد کی جانب اشارہ کیا اور تھرتھراتی آواز میں کہا۔ " کس نے جان لی اس کی؟"اس کا سوال سب سے تھا۔
"سب کچھ بتایا جائے گا۔ پہلے تم بتاؤ۔ تم کون ہو؟"طاہر نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
"تم مجھے ان میں سے نہیں لگتے۔ " وہ طاہر کی طرف پلٹا۔
"تم بھی مجھے اپنوں میں سے لگتے ہو۔ میرا نام طاہر ہے۔ اب تم بتاؤ۔ کون ہو تم؟" طاہر اس کے قریب چلا آیا۔
"یہ بتانے کا حکم نہیں ہے۔ تم کہو اس کے کیا لگتے ہو؟"
"یہ بھائی ہے میرا۔ " طاہر نے سرمد کی طرف بڑے درد بھرے انداز میں دیکھا۔ " اسے ڈھونڈ تو لیا مگر بچا نہ سکا۔ "
"غم نہ کرو۔ " اس نے طاہر کے شانے کو گرفت میں لے کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ "وہ شہید ہوا ہے۔۔۔ شہید۔۔۔ " آنکھیں بند کر کے اس نے ایک گہرا سانس لیا۔ "کاش اس کی جگہ میں ہوتا۔ " اس کے لہجے میں حسرت در آئی۔
"یہ باقی سب کون ہیں اور اس کتے کو کس نے مارا؟"اس نے نفرت سے فرش پر پڑے کرنل رائے کو دیکھا۔
"یہ سب اپنے ہیں۔ " طاہر نے کیپٹن آدیش سمیت سب کی گواہی دی۔ " اور اسے۔۔۔ " اس کی نظر کرنل رائے کی لاش تک پہنچی۔
"میں نے مارا ہے اسے۔ " اچانک سوجل بول اٹھی۔ "اس کی بیوی ہوں میں۔ "
"مگر تم تو کہہ رہے تھے یہاں سب اپنے ہیں۔ " وہ حیرت سے طاہر کی جانب مڑا۔
"ہاں۔ میں نے سچ کہا ہے۔ " طاہر نے پھر کہا۔ "صرف ایک ہی بیگانہ تھا یہاں۔ " اس نے کرنل رائے کی جانب اشارہ کیا۔
"ہمارے پاس بحث کرنے کا وقت ہے نہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ہمارا مسلک ہے۔ ہم سرمد کو لینے آئے تھے۔ لے کر جا رہے ہیں۔ تم میں سے جو ساتھ چلنا چاہے، چل سکتا ہے۔ " وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔ "مگر کسی غیر مسلم کو ہم ساتھ نہیں لے جا سکیں گے۔"
"سرمد کا کوئی رشتہ دار غیر مسلم نہیں ہو سکتا۔ " طاہر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ "میں اس کا بھائی ہوں۔ یہ۔۔۔ " اس نے ریحا کی جانب اشارہ کیا جو سرمد کے پیروں سے لپٹی ویران ویران نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔ " یہ اس کی منگیتر ہے۔۔۔ اور یہ۔۔۔ " اس نے کیپٹن آدیش کی طرف ہاتھ اٹھایا۔
"میں سرمد کا دوست ہوں۔ یہ وردی ان میں شامل ہونے کے لئے ضروری تھی۔ " اس نے سر سے کیپ اتاری اور دور پھینک دی۔ پھر شرٹ بھی اتار ڈالی۔ اب وہ سیاہ جرسی اور خاکی پینٹ میں تھا۔
بے اختیار طاہر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے بازو دراز کیا۔ آدیش لپک کر آیا اور اس کے پہلو میں سما گیا۔ وہ بچوں کی طرح سسک رہا تھا۔
"اور یہ میری دوست ہیں۔ مس مانیا۔ ان کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچ پائے۔ " طاہر نے کہا تو مانیا اس کے دوسرے بازو سے آ لگی۔
"رہی میں تو میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جا رہی۔ " اسی وقت سوجل نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کہا۔ "میں اپنے انجام سے بے خبر نہیں ہوں۔ تم لوگ سرمد کی منگیتر کو لے جاؤ۔ "
آہستہ سے ریحا اٹھی اور ماں کے سینے سے لگ گئی۔
"ستی ہو جانا اگر ان کے مذہب میں جائز ہوتا ریحا تو میں خود تجھے اس کے لئے سجا سنوار کر تیار کرتی مگر یہ بڑا پیارا دین ہے۔ تجھے یہ لوگ زندہ بھی رکھیں گے تو اس طرح جیسے پلکوں میں نور سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ چلی جا۔ سرمد کی سمادھی پر روزانہ پھول چڑھاتے سمے مجھے یاد کر لیا کرنا۔ میں جس حال میں بھی ہوئی، تیرے لئے پرارتھنا کرتی رہوں گی۔ " سوجل کی طویل سرگوشی نے اسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔ وہ ماں سے الگ ہوئی تو سوجل نے اس کے ماتھے اور گالوں کے پے در پے کتنے ہی بوسے لے ڈالے۔ پھر بھیگی آنکھوں سے طاہر کی طرف دیکھا۔ مانیا آگے بڑھی اور اسے باہوں میں لے لیا۔
"تو چلیں ؟" لیڈر نے طاہر کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ "اوکے۔ " اس نے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔
دو جوانوں نے سرمد کی لاش کو بڑی احتیاط سے کندھوں پر ڈالا اور سب سے پہلے باہر نکلے۔ پھر باقی کے لوگ بھی تیزی سے چل پڑی۔ چند لمحوں کے بعد سیل کے کھلے دروازے سے سیٹی کی آواز سنائی دی۔ سب سے پہلے طاہر، مانیا، ریحا اور آدیش باہر نکلے۔ آخر میں لیڈر نے باہر قدم رکھنے سے پہلے پلٹ کر دیکھا۔ شیشے کے کمرے میں سر اٹھائے کھڑی سوجل اسے ایسی قابل احترام لگی کہ اس نے بے اختیار اسے ماتھا چھو کر سلام کیا۔ جواب میں سوجل کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ ابھری، اس میں صرف اور صرف آسودگی کروٹیں لے رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
جس ٹرک میں سرمد کی لاش پوری احتیاط سے رکھی گئی وہ کوٹھی کے مین گیٹ سے کچھ ہٹ کر اندھیرے میں کھڑا تھا۔ ٹرک انڈین آرمی کا تھا اس لئے کسی خطرے کا امکان نہیں تھا۔
"اوکے دیدی۔ " آدیش اس سے گلے ملا۔ " زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ "
"راکھی باندھنے خود آیا کروں گی تجھے۔ میرا انتظار کیا کرنا۔ " وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔ آدیش جواب میں ہونٹ دانتوں میں داب کر رہ گیا۔
ریحا سے گلے مل کر اس نے سوائے اس کا ماتھا چومنے کے کچھ نہ کہا۔ آخر میں وہ طاہر کی طرف بڑھی۔ دونوں نے ہاتھ ملایا۔
"اپنا پاسپورٹ مجھے دے دیں مسٹر طاہر۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کسی بھی طرح قانون کی زد میں آئیں۔ میں آپ کے باضابطہ پاکستان روانہ ہونے کی کارروائی کے بعد اسے آپ تک پہنچا دوں گی۔ "
کچھ کہے بغیر طاہر نے جیب سے اپنا پاسپورٹ نکالا اور اسے تھما دیا۔ پھر ہوٹل کے کمرے کی چابی بھی اس کے حوالے کر دی۔
"میں شکریہ اد کر کے تمہاری توہین نہیں کرنا چاہتا مانیا۔ " وہ آپ اور مس، دونوں تکلفات سے دور ہو کر بولا۔ "ہاں۔ میری کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو۔۔۔ "
"میں کبھی جھجکوں گی نہیں طاہر۔ " وہ بھی مسکرائی۔ دیواریں گریں تو اپنائیت کا چہرہ صاف صاف دکھائی دینے لگا۔
"او کے۔ گڈ بائی۔ "طاہر نے اس کا ہاتھ دوبارہ تھاما اور دبا کر چھوڑ دیا۔
"گڈ بائی۔ " ان کے ٹرک میں سوار ہو جانے کے بعد وہ تب تک وہاں کھڑی رہی جب تک ان کا ٹرک نظر آتا رہا۔ پھر تھکے تھکے قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
"میرا نام جاوداں صدیقی ہے۔ " اس نے ٹرک میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے طاہر کو بتایا۔ "کمانڈر کا حکم تھا کہ آج رات سرمد کو اس ٹارچر سیل سے بہر صورت نکال لیا جائے۔ دراصل ہمیں بڑی دیر میں پتہ چلا کہ سرمد یہاں ہے ورنہ۔۔۔ " وہ ہونٹ کاٹنے لگا۔ "مگر شہادت اس کی قسمت میں تھی۔ خوش نصیب تھا وہ۔ کاش ہم بھی یہ مقام پا سکیں۔ "
" آپ کچھ بتا رہے تھے۔ " وہ کچھ دیر خاموش رہا تو طاہر نے اسے یاد دلایا۔
"ہاں۔ " وہ آہستہ سے چونکا۔ " ہمیں گارڈز پر قابو پانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ کل ملا کر دس بونے تو تھے وہ۔ ہم نے ایک ہی ہلے میں انہیں موت کی نیند سلا دیا۔ ٹارچر سیل کا دروازہ بھی توڑنا نہ پڑا۔ کھلا مل گیا مگر آپ لوگوں کو وہاں دیکھ کر حیرت ضرور ہوئی۔ "
"بس۔ یہ ایک طویل قصہ ہے۔ " طاہر نے بات گول کر دی۔ "اب ہم جا کہاں رہے ہیں ؟ کیا آپ بتانا پسند کریں گے؟"
"جہاں کمانڈر کا حکم ہو گا وہاں آپ کو پہنچا دیا جائے گا۔ " جاوداں نے محتاط لہجے میں کہا۔ "ابھی کچھ دیر میں اس کی کال آنے والی ہے۔ "
جونہی ٹرک نے کشمیر روڈ کا ساتواں سنگ میل عبور کیا، جاوداں صدیقی کی جیب میں پڑے سیٹ پر بزر نے اشارہ دیا۔ اس نے فوراً سیٹ نکالا اور رابطہ قائم کیا۔
"یس۔ جاوداں بول رہا ہوں خانم۔ "
"کیا رہا؟" دوسری جانب سے بڑی شیریں مگر تحکم آمیز آواز سنائی دی۔
"سرمد شہید ہو گیا خانم۔ " جاوداں نے اداسی سے جواب دیا۔
"تو اداس کیوں ہو پگلے ؟ کل ہمارے حصے میں بھی یہ اعزاز آئے گا۔ "خانم نے بڑے جذبے سے کہا۔
"انشاءاللہ خانم۔ " جاوداں نے جلدی سے کہا۔ پھر اس نے ٹارچر سیل کی ساری کارروائی خانم کو بتائی۔
"اس کی لاش کہاں ہے؟"
"ہم ساتھ لا رہے ہیں خانم۔ "
"کمانڈر کا حکم ہے کہ سرمد اور اس کے ساتھیوں کو مظفر آباد کے راستے پاکستان پہنچا دیا جائے مگر اس سے پہلے دریائے نیلم کے دوسرے گھاٹ پر سرمد کی لاش کو پورے اہتمام کے ساتھ تابوت کیا جائے۔ "
" جی خانم۔ ایسا ہی ہو گا۔ "
"اوکے۔ تم خود رابطہ اس وقت کرو گے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ "
"میں سمجھتا ہوں خانم۔ "
"عشاق۔ " دوسری جانب سے کہا گیا۔
"عزت کی زندگی یا شہادت۔ " جاوداں کے لبوں سے نکلا اور دوسری طرف سے بات ختم کر دی گئی۔ طاہر ہمہ تن گوش بنا سن رہا تھا کہ اسے آخری لفظ نے چونکا دیا۔ "عشاق " کا لفظ سرمد کے ہونٹوں سے بھی نکلا تھا۔
"جاوداں۔ آپ پلیز بتائیں گے کہ یہ عشاق کیا ہے؟" اس نے جاوداں کی طرف دیکھا جو ونڈ سکرین سے باہر اندھیرے میں گھور رہا تھا۔
"عشاق۔۔۔ " وہ بڑبڑایا۔ " ہمیں کسی باہر کے فرد پر یہ راز کھولنے کی اجازت نہیں ہے مسٹر طاہر لیکن آپ کے ساتھ سرمد شہید کا ایک ایسا رشتہ ہے جسے میں نظرانداز نہیں کر سکتا۔ " وہ چند لمحے خاموش رہا پھر کہا۔ "عشاق۔۔۔ سرفروشوں کی ایک ایسی تحریک ہے جس کا کمانڈر، خانم اور ہر رکن، جذبہ شہادت سے سرشار ہے۔ ہم لوگ سر پر یہ سفید رومال کفن کی علامت کے طور پر پہن کر نکلتے ہیں۔ اس کا رکن بننے کے لئے لازم ہے کہ پہلے عمرہ کیا جائے۔ بس اس سے زیادہ میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔ "
"سرمد بھی تو عمرہ کرنے کے بعد ہی انڈیا آیا تھا۔ تو کیا۔۔۔ ؟" طاہر کے دماغ میں ایک سوال نے سر اٹھایا۔ پھر وہ جاوداں سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
"میں اس بارے صرف یہ جانتا ہوں مسٹر طاہر کہ سرمد شہید نے عمرہ پہلے کیا اور تحریک کا رکن بننے کے بارے میں اس شرط کا اسے بعد میں پتہ چلا۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اسے اللہ اور رسول نے قبولیت کے بعد اس تحریک تک پہنچایا۔ تبھی تو وہ سالوں کا فاصلہ دنوں میں طے کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ "جاوداں نے ا س کے پوچھنے پر کہا۔
طاہر کے لئے اب کوئی بھی دوسرا سوال کرنا بے معنی تھا۔ اسے سرمد کے آخری الفاظ یاد آئے اور بے اختیار اس کا دل دھڑک اٹھا۔
"صلی اللہ علیہ و سلم۔ "
ہاں۔ یہی الفاظ تو تھے اس کے لبوں پر۔ عجیب سی رقت طاری ہو گئی اس پر۔ سر سینے پر جھکتا چلا گیا۔ آنکھیں بند ہوئیں تو تصور میں گنبدِ خضریٰ مہک اٹھا۔ غیر اختیاری طور پر اس کے لبوں کو حرکت ہوئی اور "صلی اللہ علیہ و سلم " کے الفاظ یوں جاری ہو گئے جیسے برسوں کا بھولا ہوا سبق اچانک یاد آ جائے۔
ٹرک رات کے اندھیرے میں پوری تیزی سے انجانے راستوں پر رواں تھا اور ایک انجانی خوشبو ٹرک کے ساتھ ساتھ محوِ سفر تھی۔ درود کی خوشبو۔ حضوری کی خوشبو۔ قبولیت کی خوشبو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح ہونے سے پہلے دریائے جھیلم کے دوسرے گھاٹ پر ٹرک چھوڑ دیا گیا۔ وہاں پہلے سے ایک بڑی کشتی میں ساگوان کی لکڑی کا تابوت لئے چار عشاق موجود ملے۔ سرمد کی لاش کو سبز کشمیری شال میں لپیٹ کر تابوت میں رکھا گیا۔ اکیس رائفلوں کی سلامی دی گئی۔ پھر جاوداں صدیقی اور ا س کے ساتھی تو وہیں رہ گئے اور چار نئے ساتھیوں کے ساتھ وہ رات ہونے تک وہیں جنگل میں چھپے رہے۔
رات کے پہلے پہر اگلا سفر شروع ہوا۔ یہ سفر اسی کشتی میں تھا۔ ان چار عشاق کا کام ہی کشتی کھینا تھا۔ کشتی میں پھل اور خشک میوہ جات موجود تھے جن سے وہ جب چاہتے لذتِ کام و دہن کا کام لے سکتے تھے مگر بھوک کسے تھی جو ان کی طرف نظر اٹھاتا۔
ریحا تابوت پر سر رکھے آنکھیں بند کئے پڑی رہتی۔ چار دن میں وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ آدیش سر جھکائے نجانے کس سوچ میں ڈوبا رہتا۔ ہاں طاہر اس کے ہونٹ ہلتے اکثر دیکھتا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کیا پڑھتا رہتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کی طرح آدیش بھی "صلی اللہ علیہ و سلم" کا اسیر ہو چکا ہے۔
وہ رات کو سفر کرتے اور دن میں کشتی کنارے پر روک کر لمبی لمبی گھاس میں ، یا گھنے درختوں تلے چھپ کر پڑ رہتی۔ سات دن گزر گئی۔ آٹھویں دن صبح کاذب نمودار ہو رہی تھی جب کشتی کنارے پر لگا دی گئی۔ ایک ساتھی نصیر نے بتایا کہ یہاں سے آگے کا سفر انہیں پیدل کرنا ہو گا۔
تابوت کو دو د و ساتھیوں نے باری باری کندھوں پر لیا اور وہ سب ایک خشک برساتی نالہ عبور کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہو گئی۔ طاہر اور آدیش نے تابوت اٹھانا چاہا تو ان چاروں نے منت بھرے لہجے میں کہا کہ ان سے یہ سعادت نہ چھینی جائے۔ مجبوراً طاہر نے تابوت ان چاروں کے حوالے کر دیا اور خود ریحا اور آدیش کے ساتھ ان کے پیچھے ہو لیا۔
"ہم اس وقت کہاں ہیں ؟" چلتے چلتے طاہر نے نصیر سے پوچھا۔
"مظفر آباد کے آخری حصے میں۔ یہاں سے ہم وسطی آبادی کی طرف جا رہے ہیں۔ شام تک پہنچیں گے۔ وہاں سے آپ کو سواری مل سکے گی۔ "
"ذرا رکئے۔ " اس نے نصیر سے کہا۔ اس کے کہنے پر انہوں نے تابوت ایک ٹیلے پر رکھ دیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
طاہر نے اپنے دماغ میں جنم لینے والے خیال پر ایک بار پھر غور کیا۔ پھر نصیر سے پوچھا۔
"نصیر بھائی۔ یہ بتائیے یہاں سے نور پور کس طرف ہے؟"
"نور پور۔ " نصیر چونکا۔ "یہ کیوں پوچھ رہے ہیں آپ؟"


عشق کا قاف (آخری قسط  نمبر 16)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font, ishq ka qaaf novel pdf download
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں