عشق کا قاف (قسط نمبر 12)

 ishq ka qaaf novel pdf download

عشق کا قاف (قسط نمبر 12)

"بس اتنی سی بابا کہ اگر کبھی سرمد لوٹ آیا تو۔۔۔ ؟" اس نے سر جھکا لیا۔
"تو۔۔۔ " درویش نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ " تو کیا ہو گا؟"
"یہی تو میری سمجھ میں نہیں آتا بابا۔ " وہ اسی طرح بیٹھے ہوئے بولا۔ "تب کیا ہو گا؟"
"تب کیا ہو گا، یہ تو میں نہیں بتا سکتا تجھی۔ اجازت نہیں ہے مجھے۔۔۔ مگر ایک بات تجھے ابھی سمجھا سکتا ہوں میں۔ "
طاہر نے نظریں اٹھائیں۔ درویش اسے بڑی سرد نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
"ایک پارسا تھا۔ ، اس نے کہنا شروع کیا۔ " اس کے گھر سے کھانا آتا تو وہ سالن میں پانی ملا کر کھایا کرتا تھا۔ کسی نے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میں کھانے کی لذت ختم کر کے کھاتا ہوں تاکہ میرا نفس مزہ لینے کی عیاشی نہ کر سکے اور میں اس کے بہکاوے میں نہ آ جاؤں۔ میں نے سنا تو اتنے بڑے بڑے پھکڑ تولے میں نے۔ اسے گالیاں دیں میں نے۔ جانتا ہے کیوں ؟ "
درویش نے انگلی اس کی جانب اٹھائی اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر کہا۔
"اس لئے کہ وہ میرے مالک کی نعمت کا کفران کر رہا تھا۔ میں نے کہا ارے بھڑوے۔ اگر لذت نہ دے کر نفس کو مارنا چاہتا ہے تو کھانا ہی پھیکا، بدمزہ اور بے لذت کیوں نہیں پکواتا۔ میرا رب تجھے اچھی نعمت دے رہا ہے اور تو اس میں خرابی پیدا کر کے کھاتا ہے۔ اس کی دی ہوئی چیز میں اپنی طرف سے مین میخ نکال کر، خود کو پارسا ظاہر کر رہا ہے تاکہ لوگ تجھے نیکو کار سمجھیں یا کم از کم تیرا نفس تجھے اس بھول میں رکھے کہ تو بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔ اس سے تیرا رب تجھ سے راضی ہو گا لیکن اگر رب نے پوچھ لیا کہ پاگل۔ میں نے تجھے ایک نعمت دی کہ تو اس سے بہرہ ور ہو۔ اس سے لطف اٹھائے اور میرا شکر ادا کرے مگر تو نے اسے بد ہیئت اور بدمزہ کیوں کیا؟ تو تیرے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ تلا جائے گا یا نہیں اس وقت؟ تو بھی اس پارسا کی طرح اللہ کی بخشی ہوئی نعمت کو آنے والے، نادیدہ، مستقبل کی دھند میں لپٹے وقت کا پانی ڈال کر بد مزہ کرنے کا گناہ کر رہا ہے۔ یہ ریا کاری ہے میرے بچے۔ اللہ نے تجھے پاکیزہ لباس عطا کیا ہے، اسے وہم کا پیوند نہ لگا۔ اسے پہن۔ اسے کھونٹی پر ٹانگے رکھے گا تو وہ بوسیدہ ہو جائے گا۔ اس پر بے توجہی کا غبار جم جائے گا۔ گزرتے وقت کی ٹڈیاں اسے جگہ جگہ سے کتر ڈالیں گی۔ اور جب تجھے اس لباس کی اہمیت کا اندازہ ہو گا تب تک وہ اس قابل نہیں رہے گا کہ تو اسے پہن سکے۔ پھر تجھ سے کفرانِ نعمت کا حساب لیا جائے گا۔ دے سکے گا تواس کا حساب؟ سیانا نہ بن۔ پگلا بنا رہ۔ کوتاہی اور غلطی کی معافی مانگ کر لوٹ جا اپنی پگلی کے پاس۔ اسے پہن لے جا کر۔ اسے بوسیدہ ہونے سے پہلے پہن لے۔ ایسے پاکیزہ لباس کسی کسی کو نصیب ہوتے ہیں۔ "
درویش خاموش ہو گیا۔
طاہر کے اندر آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ اسے عشق کے عین نے چھو لیا تھا کہ صفیہ اسے کس بلندی پر رکھ کر دیکھتی ہے۔ عشق کے شین کا فہم عطا ہو گیا تھا۔ ادراک ہو گیا تھا اسے کہ اس کا عشق صفیہ کے لئے کس مقام پر پہنچا ہوا تھا۔ صفیہ کے بارے میں تو وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے لئے کیا جذبات رکھتی ہے مگر آج اسے اپنے بارے میں جو احساس ہوا تھا اس نے اس کے لئے ایک نئے جہان کے در وَا کر دیے تھی۔ خودشناسی کے در کھلے تو اسے پتہ چلا کہ عشق ہوتا کیا ہے؟ عشق کا عین اور شین اس پر ادراک کے نئے نئے عالم آشکار کر رہے تھے۔
"کیا سوچ رہا ہے؟ ابھی کوئی الجھن باقی ہے کیا؟" درویش نے اس کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر آہستہ سے پوچھا۔
"نہیں بابا۔ " اس کے لبوں سے سرگوشی آزاد ہوئی۔ "اب کوئی الجھن نہیں۔۔۔ بس ایک خواہش چٹکیاں لے رہی ہے۔ "
"خواہش۔۔۔ ؟" درویش نے اسے غور سے دیکھا۔
"ہاں بابا۔ " طاہر نے دونوں ہاتھوں میں اس کا ہاتھ تھام لیا۔ " عشق کا عین اور شین تو آپ نے سمجھا دئیے۔ عشق کا قاف ابھی باقی ہے۔ "
"توبہ کر توبہ۔ " درویش نے تڑپ کر ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک دم وہ خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزنے لگا تھا۔ چہرے پر زردی کھنڈ گئی اور آواز ایسی پست ہو گئی جیسے کسی کنویں سے آ رہی ہو۔
"بابا۔۔۔ " طاہر نے کہنا چاہا۔
"سبق یاد ہو گیا تو چھٹی نہیں ملے گی۔ باز آ جا۔ اس بھید کو بھید ہی رہنے دے۔ " درویش کانپے جا رہا تھا۔
"نہیں بابا۔ " طاہر پر ضد سی سوار ہو گئی۔ "میں اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کے بارے میں مکمل طور پر نہ جان سکوں ، یہ بات مجھے چین سے مرنے بھی نہ دے گی۔ "
"مکمل طور پر جاننا میرے تیرے لئے ممکن نہیں ہے پگلے۔ " درویش نے اٹھ جانا چاہا۔ "ضد نہ کر۔ "
"میں ضد کہاں کر رہا ہوں بابا۔ " طاہر بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ "میں تو عرض کر رہا ہوں۔ "
"مت بہکا مجھے۔ " درویش نے اسے جھڑک دیا۔ " یوں چاپلوسی کرے گا تو میں پھسل جاؤں گا۔ چُپ ہو جا۔ "
"بابا۔ " طاہر نے اس کا راستہ روک لیا۔ "اگر آپ نہیں بتائیں گے تو میں گھر نہیں جاؤں گا۔ "
"تو نہ جا۔ " وہ بھڑک گیا۔ "میرے باپ کے سر پر کیا احسان کرے گا جا کر۔ پوچھ تجھ سے ہو گی۔ جواب دینا پھر اسے۔ " اس نے کمرے سے باہر قدم رکھا۔ " میں تو کہہ دوں گا کہ میں نے اسے سمجھا دیا تھا۔ اب یہ جان بوجھ کر کفرانِ نعمت کرے تو اس میں میرا کیا قصور؟"
"میں بھی کہہ دوں گا کہ آپ نے مجھے آدھی بات بتا کر ٹال دیا تھا۔ "
"کیا۔۔۔ کیا۔۔ ؟" درویش نے کچی زمین پر اتر کر قدم روک لئے۔ "میں نے تجھے آدھی بات بتائی۔ یہ کہا تو نے؟" وہ غصے سے بولا۔
"ہاں تو اور کیا؟" طاہر بچوں کی طرح مچلا۔ " عشق کا تیسرا حرف کہاں سمجھایا آپ نے مجھے؟"
"تو سہہ نہیں پائے گا۔ " ایک دم وہ طاہر کو جیسے بہلانے پر آ گیا۔ " ہر چیز کا ایک وزن ہوتا ہے پگلے۔ تو اٹھا نہیں سکے گا اس بوجھ کو۔"
"تو کیا ہو گا؟" طاہر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ " زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ میں اس بوجھ تلے دب کر مر جاؤں گا۔ یہ منظور ہے مجھے مگر ۔۔۔ نہ جاننے کا ناسور دل میں پال کر میں زندہ نہیں رہنا چاہتا بابا۔ "
"تو پگلا کم اور سیانا زیادہ ہے۔ " درویش نے ایک آہ بھر کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں چاند مسکرا رہا تھا۔ چاروں طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ بابا شاہ مقیم کا مزار کسی بھید کی طرح ان کے سامنے بُکل مارے کھڑا تھا۔
" آپ جو بھی سمجھیں بابا۔ " طاہر نے امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
"ٹھیک ہے۔ " کچھ دیر بعد درویش نے آسمان سے نظریں ہٹائیں اور طاہر کی طرف دیکھ کر پھر ایک سرد آہ بھری۔ " میں تجھے عشق کے قاف سے بھی ملا دوں گا مگر ۔۔۔ " اس نے رک کر طاہر کی جانب ہاتھ کھڑا کیا۔ "ابھی نہیں۔ "
"ابھی کیوں نہیں بابا؟" طاہر جلدی سے بولا۔
"ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے پگلے۔ " درویش پھر جھلا گیا۔ "یہ امکانات کی دنیا ہے۔ مجھے یہ بھید تجھ پر کھولنے کا جب حکم ہو گا تو اس کے اسباب پہلے پیدا ہوں گے۔ اس کی تمثیل جنم لے گی۔ تیرے سامنے عین اور شین کی مثالیں موجود ہیں ناں۔ اسی لئے تجھے انہیں سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اب اس تیسرے بھید کے لئے بھی کچھ تو ایسا ہو جو تجھ پر فہم اور ادراک کے دروازے کھول سکی۔ جب بھی ایسا ہو گا۔ جب بھی مجھے حکم ہو گا، میں تجھے ضرور آگاہ کر دوں گا۔۔۔ یہ میرا وعدہ ہے تجھ سے۔ "
"ٹھیک ہے بابا۔ " کچھ دیر تک اس کی آنکھوں میں کھوئے رہنے کے بعد طاہر نے دھیرے سے کہا۔ "میں انتظار کروں گا۔ "
"بے صبرا نہ ہو۔ میں نے کہا ناں۔ وقت آنے پر تجھے ضرور بتاؤں گا۔ اب تو جا۔ رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو گئی ہے۔ کہیں وہ پگلی تیری تلاش میں نہ نکل پڑے۔ " درویش نے اس کے کندھے پر تھپکی دی۔
"اچھا بابا۔ " طاہر نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔ "میری گستاخی معاف کیجئے گا۔ "
"پگلا ہے تو۔ " درویش ہنس پڑا۔ "گستاخی کیسی؟ یہ تو تیرے نصیب کی بات ہے۔ اگر اس میں لکھا ہے کہ تو مکتبِ عشق میں داخلہ لے لے تو میں کون ہوتا ہوں تجھے روکنے یا چھٹی دینے والا۔ "
طاہر نے درویش کا دایاں ہاتھ تھاما۔ دل سے لگایا۔ ماتھے سے چھوا اور آہستہ سے چھوڑ دیا۔ پھر الٹے پاؤں اپنی گاڑی تک آیا۔ دروازہ کھول کر اندر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
درویش اسے وہیں کھڑا تب تک دیکھتا اور دایاں ہاتھ ہلاتا رہا جب تک اس کی گاڑی وجاہت آباد جانے والے راستے پر نہ مڑ گئی۔ پھر وہ آہستہ سے پلٹا اور مزار کی طرف چل پڑا۔
"عشق کا قاف۔ عشق کا قاف۔ پگلا ہے بالکل۔ " بڑبڑاتے ہوئے اچانک رک کر ایک دم اس نے مزار کی جانب نظر اٹھائی۔
"خود آرام سے تماشا دیکھتے رہتے ہو۔ ساری مصیبت میری جان پر ڈال دی ہے۔ " وہ جیسے بابا شاہ مقیم سے لڑنے لگا۔ "اسے یہاں رکنے ہی کیوں دیا تھا؟ آیا تھا تو اس کا رخ گھر کی طرف کر کے روانہ کر دیتے۔ مگر نہیں۔ تم ایسا کیوں کرو گے۔ تمہیں تو مزا آتا ہے مجھے تنگ کر کے۔ " اس نے پاؤں پٹخ کر کہا۔ پھر اس کی آواز بھرا گئی۔ "پگلا ہے وہ۔ بچوں کی طرح ضد کرتا ہے مجھ سے۔ کہتا ہے وہ اس سے کہہ دے گا کہ میں نے اسے پوری بات نہیں بتائی۔۔۔ پوری بات۔۔۔ " ایک دم وہ جیسے روتے روتے ہنس پڑا۔ "پوری بات جاننا چاہتا ہے۔۔۔ پوری بات۔ " اس کے حلق سے قہقہہ ابلا اور وہ ہنستے ہنستے بے حال ہو گیا۔ " پوری بات۔۔۔ "وہ کچی زمین پر گر پڑا۔ "پوری بات۔۔۔ دم نکل جائے گا اس پگلے کا پوری بات جان کر۔ "
وہ یوں خاک میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا جیسے پھولوں کے بستر پر مچل رہا ہو۔ رات کی تنہائی اس کی آواز سے گونج رہی تھی۔ سناٹا کان لگائے اسے سن رہا تھا۔ ہوا نے اپنے قدم آہستہ کر لئے کہ اس کی بات میں مخل نہ ہو۔ چاندنی اس کے گرد ہالہ بنائے ہاتھ باندھے دم بخود کھڑی تھی۔ ستاروں نے پلکیں جھپکنا چھوڑ کر دیا تھا اور چاند یوں ساکت ہو گیا تھا جیسے اپنا سفر بھول کر اس کے لبوں سے کسی انہونی واردات کا قصہ سننا چاہتا ہو۔
"پوری بات۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ " درویش بڑبڑا رہا تھا۔ مچل رہا تھا۔ ہنس رہا تھا۔ رو رہا تھا۔ ایک سیانا، پگلا ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح صادق طلوع ہو رہی تھی جب طاہر نے گاڑی حویلی کے پورچ میں روکی۔ گیٹ کھولنے والا ملازم گیٹ بند کر کے مڑا تو طاہر گاڑی سے اتر رہا تھا۔ ملازم اس کے پھٹے ہوئے کرتے اور مٹی میں اٹے جسم کو دیکھ کر حیران ہوا۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، مردانے سے ملک بلال نے باہر قدم رکھا۔
"چھوٹے مالک۔ کیا ہوا؟ " وہ گھبرا کر اس کے قریب چلا آیا۔
"کچھ نہیں۔ " طاہر نے مختصر سا جواب دیا اور اندر کو چلا۔
"مگر یہ۔۔۔ " ملک نے اس کے کپڑوں کی جانب حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ "کیا کسی سے جھگڑا ہو گیا؟"
"نہیں۔ " طاہر اس کے قریب سے گزر گیا۔
" آپ آ کہاں سے رہے ہیں چھوٹے مالک؟" سارے لوگ آپ کے انتظار میں جاگ رہے ہیں۔ مالکن اس قدر پریشان ہیں کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ آپ تو بابا شاہ مقیم کا کہہ کر گئے تھے۔۔۔ "
"میں وہیں سے آ رہا ہوں۔ " طاہر نے قدم برآمدے میں رکھا۔
"تو ساری رات آپ وہیں تھی؟" ملک کی حیرت دوچند ہو گئی۔
"ہاں۔۔۔ اور اب بس۔ " طاہر، ہال کمرے کے دروازے پر رکا۔ پلٹا اور ملک کی آنکھوں میں اس انداز سے دیکھا کہ ملک کو مزید کچھ کہنے کا یارا، نہ رہا۔ "اور کوئی سوال نہیں۔ تم نے جو دیکھا، سمجھو، نہیں دیکھا۔ سب کو سمجھا دو۔ دن میں ڈیرے پر ملاقات ہو گی۔ " وہ اندر داخل ہو گیا۔
ملک خاموش، منہ پھاڑے کھڑا رہ گیا۔ اس کے ذہن میں بے شمار سوال مچل رہے تھے مگر اسے زبان بندی کا حکم دے کر طاہر جا چکا تھا۔ اسی وقت وہ ملازم تیز تیز قدموں سے اس کے پاس چلا آیا جس نے گیٹ کھولا تھا۔
"ملک صیب۔ " وہ سرگوشی کے لہجے میں بولا۔ "کیا ہوا۔ چھوٹے مالک کا کسی سے جھگڑا ہو گیا کیا؟"
" آں۔۔۔ " ملک چونکا۔ اس کی نظر ملازم پر پڑی تو جیسے ہوش میں آ گیا۔ "کیا کہا تو نے؟"
ملازم نے اپنی بات دہرائی تو ملک ایک دو لمحے اس کی جانب خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا، پھر اس کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔
"گیٹ تو نے کھولا تھا؟" ملک کا لہجہ سخت پا کر ملازم گھبرا گیا۔
"ج۔۔ جی ہاں ملک صیب۔ " وہ ہکلایا۔
"اور کس نے چھوٹے مالک کو اس حال میں دیکھا ہے؟"
"کسی نے نہیں جی ملک صیب۔ باقی ملازم ڈیرے پر ہیں۔ "
"تو بس۔ " ملک نے ہاتھ اٹھا کر تحکم سے کہا۔ "چھوٹے مالک کو تو نے بھی نہیں دیکھا کہ وہ کس حال میں لوٹے ہیں۔ سمجھ گیا۔ "
"سمجھ گیا جی۔ بالکل سمجھ گیا۔ " ملازم نے زور زور سے سر ہلایا۔
"زبان کو گانٹھ دے کر رکھنا۔ مجھے بات دہرانی نہ پڑے۔ " کہہ کر ملک اندر جانے کے لئے پلٹا۔
"جی ملک صیب۔ " ملازم کا رنگ بدل گیا۔ ملک اس کی دگرگوں حالت کو نظر انداز کرتا ہوا ہال میں داخل ہو گیا، جہاں اس کی توقع کے مطابق طاہر موجود نہیں تھا۔ وہ زنان خانے میں جا چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
"میرے مالک۔ ان کو اپنی امان میں رکھنا۔ انہیں ہر بلا سے محفوظ فرمانا۔ مجھے ان کا کوئی دُکھ نہ دکھانا۔ میرے معبود۔ انہیں حفاظت کے ساتھ گھر لے آ۔ ان کی آئی مجھے آ جائے۔ ان کی بلا مجھ پر پڑے۔ انہیں کچھ نہ ہو میرے مالک۔ انہیں کچھ نہ ہو۔ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ۔ مجھے میرے حبیب سے خیر و عافیت کے ساتھ ملانا۔ "
سجدے میں پڑی صفیہ زار زار روئے جا رہی تھی۔ اس کی آواز ہچکیوں میں ڈوبی ٹوٹ ٹوٹ کر ابھر رہی تھی۔ اسے یوں بلکتا دیکھ کر دروازے میں کھڑا طاہر بے کل سا ہو گیا۔
کاریڈور میں قدم رکھا تو اس کی حالت پر حیرت زدہ فہمیدہ نے سلام کر کے کمرے کی طرف دوڑ لگانا چاہی۔ شاید وہ صفیہ کو طاہر کے آنے کی خبر سناناچاہتی تھی مگر طاہر نے اسے روک دیا۔ اسے خاموشی سے چلے جانے کا کہہ کر وہ کمرے کی جانب بڑھا اور آہستہ سے کھلے دروازے میں آ کھڑا ہوا۔ شاید وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کی گم خبری پر صفیہ کا کیا حال ہے؟اور اب اسے یوں تڑپتا پاکر اس کا دل ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا۔
"صفو۔۔۔ "
آواز تھی یا نوید حیات۔ صفیہ کا خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپتا جسم ایک دم ساکت ہو گیا۔ ایک پل کو اسے لگا کہ یہ اس کی سماعت کا دھوکا ہے مگر دوسرے ہی پل اس نے سر سجدے سے اٹھایا اور دروازے کی جانب دیکھا۔
"طاہر۔۔۔ " شبنم میں دھلتا ہوا اس کا چہرہ دودھ کی طرح سفید ہو رہا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ دروازے میں کھڑے طاہر کی حالت دیکھ کر وہ سُن ہو گئی۔
"صفو۔۔۔ "
اب شبے کی گنجائش کہاں تھی؟
"طاہر۔۔۔ " وہ تڑپ کر جائے نماز سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی اس کے پاس آگئی ۔ "طاہر۔۔۔ طاہر۔۔۔ " وہ سسک رہی تھی۔ "یہ آپ کو کیا ہوا؟ کہاں تھے آپ اب تک؟ کہاں تھے؟"
"شش۔۔۔ " "خاموش ہو جاؤ صفو۔ کچھ مت کہو۔ کچھ مت کہو۔ طاہر نے سرگوشی کی۔
بچوں کی طرح ہچکیاں لیتی ہوئی صفیہ اس کی باہوں میں جھول گئی۔ وہ غش کھا گئی تھی۔
"صفو۔۔۔ " طاہر گھبرا گیا۔ اسنے اسے بستر پر ڈالا۔ کمبل اوڑھایا اور بیڈ کی پٹی پر بیٹھ کر اس کے چہرے کو والہانہ دیکھنے لگا، جو یوں پُرسکون تھا جیسے پریاں اس پر کہانیوں کے رنگ لے کر اتر رہی ہوں۔ چہرے کی سفیدی، سرخی میں بدلتے پا کر اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ اس نے چاہا کہ فہمیدہ کو آواز دے۔ پھر نجانے کیوں اس کا جی چاہا کہ بس ایک ٹک صفیہ کو دیکھتا رہے۔ کسی بھی تیسرے کا اس وقت وہاں آنے کا خیال اسے اچھا نہ لگا۔ آنسوؤں نے صفیہ کا چہرے شبنم دھلے گلاب کا سا کر دیا تھا۔
یکبارگی صفیہ کا سارا جسم لرز گیا۔ اس نے ہولے سے حرکت کی۔
"طاہر۔۔۔ " ہونٹ لرزے تو آہ نکلی۔
"صفو۔۔۔ " طاہر نے اس کے ہاتھ تھام لئے جو برف کی طرح سرد ہو رہے تھے۔
"طاہر۔۔۔ " آہستہ سے پلکوں کو حرکت ہوئی۔
"صفو میری جان۔۔۔ "
"طاہر۔۔۔ " پلکیں وَا ہوئیں تو آنکھوں کے گوشوں سے آنسو ڈھلک پڑے۔
"بس۔۔۔ " بس۔ اب نہیں۔ کبھی نہیں۔ "اس کی دیوانگی صفیہ کو رُلا رہی تھی۔ کھلا رہی تھی۔ بتا رہی تھی کہ اس کا صبر رنگ لے آیا ہے۔ اس کا طاہر لوٹ آیا ہے۔ یہ وہ لمحے تھے جن کا وہ کب سے انتظار کر رہی تھی۔ بہار کے یہ پل جو اس کے لئے خواب ہو چکے تھے، خزاں ختم ہو جانے کی نوید لے کر لوٹے تو وہ سر تا پا گلاب ہو گئی۔ ایسا گلاب، جس کی شبنم قطرہ قطرہ، طاہر کا غبار دھو رہی تھی۔ یقین اور اعتماد کا غسل دے رہی تھی۔
عشق کا عین، عشق کے شین کا ہاتھ تھامے اپنی پوری وضاحتوں کے ساتھ طاہر پر نازل ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
غسل کر کے طاہر باتھ روم سے نکلا تو صفیہ میز پر ناشتہ سجا چکی تھی۔
"جلدی آ جائیے۔ ایک دم بھوک حملہ آور ہو گئی ہے۔ " وہ اس کے لئے کرسی سرکاتے ہوئے بولی اور گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا۔
"طاہر۔۔۔ " اس کے لبوں پر ایک لفظ مچلا اور وہ مسحور و حیراں اسے تکتی رہ گئی۔ سفید شلوار کرتے میں دھلا دھلایا طاہر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مگر نہیں۔ یہ وہ طاہر تو نہیں تھا جو کل تک اس کے سامنے رہتا تھا۔ یہ تو کوئی اور تھا۔ ایک عجیب سا نورانی ہالہ جس کے چہرے کو چوم رہا تھا۔ ایک ناقابلِ برداشت چمک جس کی آنکھوں میں لو دے رہی تھی۔ ایک ملکوتی مسکراہٹ جس کے لبوں پر مہک رہی تھی۔ اسے لگا جیسے طاہر اس کے سامنے نہیں ، بہت بلندی پر، بہت اونچی جگہ پر کھڑا اسے دیکھ رہا ہو۔ ایسی بلندی، جس کا اسے ادراک تو ہو رہا تھا، مگر جسے وہ کسی اور کو سمجھا نہ سکتی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟ کیسے ہوا؟ کب ہوا؟ اس کا ذہن ریشمی تاروں میں الجھ کر رہ گیا۔
"کیا دیکھ رہی ہو؟" طاہر اپنی جگہ سے اس کی طرف چل پڑا۔
"کچھ نہیں۔ " وہ گڑبڑا سی گئی۔ گھبرا کر نظریں اس کے چہرے سے ہٹا لیں۔ اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ مزید چند لمحے اسے یونہی دیکھتی رہی تو طاہر کو نظر لگ جائے گی۔ کرسی کی پشت پر ہاتھ ٹکا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور ایک گہرا سانس لیا۔ جیسے وہ طاہر کی اس شبیہ کو اپنے دل میں ، اپنی سانسوں میں ، اپنی روح میں اتار لینا چاہتی ہو۔
تینوں ویکھیاں صبر نہ آوی
وے چناں تیرا گھُٹ بھر لاں
اس کے اندر سے ایک صدا ابھری اور سارے وجود پر سرور بن کر چھا گئی۔
"کہاں کھو گئیں ؟" طاہر نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے پوچھا۔
"یہیں ہوں۔ آپ کے قدموں میں۔ " وہ نشے میں ڈوبی آواز میں بولی ۔
"میری طرف دیکھو۔ " طاہر نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا۔
" نہیں۔ " صفیہ نے مچل کر کہا اور چہرہ پھیر لیا۔
"کیوں ؟" طاہر ہولے سے ہنسا۔
"نظر لگ جائے گی آپ کو۔ " صفیہ نے اس کی جانب دیکھنے سے گریز کیا۔
"تمہاری نظر۔۔۔ " طاہر نے مسکراتے ہوئے حیرت سے کہا۔ " اور مجھے لگ جائے گی؟" وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
اثبات میں سر ہلاتے ہوئے صفیہ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گئی۔ " اور اب بس۔ خاموشی سے ناشتہ کیجئے۔ "
"جو حکم سرکار کا۔ " طاہر نے سر خم کیا اور دونوں ناشتے میں مصروف ہو گئے۔
ناشتہ واقعی خاموشی سے کیا گیا۔ پھر فہمیدہ آئی اور برتن لے گئی۔
صفیہ نے اس کے پیروں سے چپل نکالی اور اسے بستر میں گھس جانے کا اشارہ کیا۔ اس نے کوئی ہچر مچر نہ کی۔ صفیہ نے کمبل اسے خوب اچھی طرح اوڑھایا اور خود اس کے پاس پیروں کی جانب بیٹھ گئی۔
"میں جانتی ہوں آپ تھکے ہوئے ہیں اور اس وقت آپ کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز نیند ہے لیکن میرا ضبط اور صبر اب ختم ہو رہا ہے۔ مجھے بتائیے کہ کل کا سارا دن اور آج رات آپ کہاں رہے؟ جس حالت میں آپ لوٹے، وہ کوئی اچھی خبر نہ دے رہی تھی۔ مجھے ایک ایک بات بتائیے۔ "
"ایک ایک بات۔ " طاہر نے کہا اور اس کی جانب بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"کیوں ؟ بتانے کی بات نہیں ہے کیا؟" صفیہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہا۔ پھر نظر ہٹا لی۔ ان بلور آنکھوں کی چمک اس سے سہی نہ گئی۔
"نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں جو میں تم سے چھپاؤں۔ مگر صفو۔۔۔ "وہ ایک پل کو رکا۔ سر جھکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ پھر دائیں ہاتھ سے ماتھا سہلانے لگا۔
چند لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے تو صفو نے زبان کھولی۔
"کیا سوچ رہے ہیں ؟"
"سوچ رہا ہوں۔ " طاہر نے ایک گہرا سانس لیا اور ہاتھ ماتھے سے ہٹا لیا۔ " تمہیں کیا بتاؤں ؟ کیسے بتاؤں ؟ میں تو خود نہیں جانتا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ بس یوں لگتا ہے کہ میں کسی خواب میں گم ہو گیا تھا۔ جاگا ہوں تو سب کچھ یاد ہے مگر اسے بیان کرنا میرے لئے اتنا ہی مشکل ہے صفو، جتنا کسی کو یہ بتانا کہ ہم جس کی عبادت کرتے ہیں وہ کیسا ہے؟کہاں نہیں ہے؟"
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ " صفیہ نے اسے حیرت سے دیکھا۔ " آپ کل گھر سے بابا شاہ مقیم کے مزار پر گئے تھی۔ یہ کہہ کر کہ شام تک لوٹ آئیں گے۔ شام گئی۔ رات ہوئی۔ جب آدھی رات نے دم توڑا تو میرا حال برا ہو گیا۔ آپ کا موبائل بھی یہیں تھا۔ ملک نے بتایا کہ آپ سختی سے منع کر گئے ہیں کہ کوئی آپ کے پیچھے نہ آئے۔ حویلی کے سب لوگ پریشان تھی۔ سب جاگ رہے تھے۔ ملازم ڈیرے پر چلے گئے کہ جب بھی آپ لوٹے، وہ فوراً یہاں خبر کر دیں گے۔ ملک یہیں مردانے میں رک گیا۔ اس کی پریشانی میری وجہ سے دو چند ہو گئی تھی۔ جب مجھے کچھ نہ سوجھا تو میں نے مصلیٰ پکڑ لیا۔ پھر مجھے کچھ پتہ نہیں کہ کتنا وقت گزرا اور کیسے گزرا۔ آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے میرا بڑی شدت سے جی چاہ رہا تھا کہ میں آپ کی تلاش میں بابا شاہ مقیم کے مزار کی طرف چل پڑوں۔۔۔ "
"ہاں۔۔۔ تمہاری اس حالت کی خبر ہے مجھے۔ " طاہر نے اس کی جانب نظر اٹھائی۔
"کیسے؟" وہ حیران ہوئی۔
"اس نے بتایا تھا۔ " وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔ "اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اب تو گھر چلا جا ورنہ وہ تیری تلاش میں نکل پڑے گی۔ "
"کس کی بات کر رہے ہیں آپ؟" صفیہ نے اسے گھبرا کر دیکھا۔
"درویش کی۔ " طاہر ایک گہرا سانس لے کر بولا۔ " وہ بابا شاہ مقیم کے مزار پر رہتا ہے۔ میں کل سارا دن اور آج رات اسی کے ساتھ تھا۔ "
"درویش کے ساتھ؟" صفیہ اچنبھے سے بولی۔
"ہاں۔ کل جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ مجھے حافظ عبداللہ اور سکینہ کے پاس لے گیا۔ "
"حافظ عبداللہ؟ سکینہ؟" صفیہ اور الجھ گئی۔۔۔ مگر ان دو ناموں کے ساتھ ہی جیسے بات کا سِرا طاہر کے ہاتھ آ گیا۔
"ہاں۔ " وہ نیم دراز ہو گیا۔ " میں تمہیں ان کی کہانی سناتا ہوں صفو۔ ایسی بات تم نے شاید اپنی زندگی میں کبھی نہ سنی ہو گی۔ "
پھر وہ ہولے ہولے بولتا رہا۔ کبھی اس کی آواز بھیگ جاتی تو کبھی لہجے میں تھکن اتر آتی۔ کبھی آنکھوں کے گوشے نم ہو جاتے تو کبھی چہرہ لرزہ بر اندام ہو جاتا۔ بُت بنی صفیہ، حافظ عبداللہ اور سکینہ کی داستان سنتی رہی اور ایک ایک پل، ایک ایک گھڑی میں یوں سانس لیتی رہی، یوں جیتی رہی جیسے وہ خود سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو۔
"اب وہ دونوں نور پور کی مسجد کے حجرے میں یک جان دو قالب بنے بیٹھے ہیں۔ ایک سانس لیتا ہے تو دوسرا زندہ دکھائی دیتا ہے۔ ایک کا دل دھڑکتا ہے تو دوسرے کا سینہ متحرک لگتا ہے۔ درویش کہتا ہے یہ عشق کا عین ہے جس نے ان دونوں کو اپنی باہوں میں لے لیا ہے۔ عشق کا عین جو عاشقِ صادق کی عبادت سے شروع ہوتا ہے اور عقیدت تک پھیلا ہوا ہے۔ "
طاہر خاموش ہو گیا۔
صفیہ کتنی ہی دیر ایک کیف میں ڈوبی رہی۔ اس کا سارا جسم سنسنا رہا تھا۔ اس سنسناہٹ میں ایک لذت تھی۔ ایک سرور تھا۔ ایسی باتیں اس نے پہلے کب سنی تھیں مگر یوں لگتا تھا جیسے وہ ان باتوں سے ہمیشہ سے آگاہ ہو۔ ان کا مفہوم اسے قطعاً اجنبی نہ لگا۔ طاہر نے جو کہا، ایک ایک لفظ اس کے لئے آشنا نکلا۔ اس بات پر اسے حیرت بھی تھی مگر اس سے زیادہ وہ اس لذت میں گم تھی جس نے اس کے رگ و پے میں سفر شروع کر دیا تھا۔
"ارے۔۔۔ " آہستہ سے اس نے نظر اٹھائی تو بے ساختہ اس کے لبوں سے نکلا۔ " آپ رو رہے ہیں طاہر؟" آگے سرک کر وہ اس کے پہلو میں آ گئی۔
"کہاں ؟" طاہر نے دھیرے سے اپنی آنکھوں کو چھوا۔ اس کے ہاتھ نم ہو گئے تو وہ مسکرا دیا۔ " ارے واقعی۔۔۔ مگر کیوں ؟ یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں ؟"
"یہ آنسو نہیں ہیں۔ موتی ہیں۔ گوہر ہیں۔ " صفیہ نے کہا
طاہر نے تھکے تھکے انداز میں آنکھیں موند لیں اور سر تکیے پر رکھ دیا
" یہ تو ہوئی دن کی بات۔ رات کی بات ابھی باقی ہے۔ اب وہ سنائیے۔ " وہ پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔
"رات کی بات۔۔۔ " طاہر آہستہ سے ہنسا۔ " اچھا کہا تم نے۔ رات کی بات۔ " اس نے دہرایا۔ "کہتے ہیں رات گئی بات گئی۔۔۔ مگر صفو۔ لگتا ہے جو رات میں درویش کے ساتھ گزار کر آیا ہوں ، اس کی بات تو شروع ہی اب ہوئی ہے۔ ختم کب ہو گی، کون جانے۔ "
وہ خاموش ہو گیا۔
صفیہ کچھ دیر اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔ جب خاموشی طویل ہو گئی تو اس نے آہستہ سے طاہر کے چہرے کی جانب دیکھا۔ وہ تو سکون سے سو رہا تھا۔ صفیہ اس کے چہرے کو وارفتگی سے تکتی رہی۔ جی ہی نہ بھر رہا تھا اسے دیکھ دیکھ کر۔ صفیہ نے اسے بستر پر آرام سے لٹایا اور بیڈ سوئچ دبا کر لائٹ آف کر دی۔ وہ طاہر کو خوب سونے دینا چاہتی تھی۔ کمبل اس پر اچھی طرح اوڑھا کر کے وہ اس کے پاؤں کی طرف سمٹ کر یوں لیٹ گئی کہ طاہر کے پاؤں اس کے بازوؤں کے حلقے میں تھے اور ہونٹ تلووں کو چھُو رہے تھے۔
کمرے کے نیم اندھیرے میں سکون نے آہستہ سے آنکھ کھولی اور کسی پہرے دار کی طرح ان کی رکھوالی کرنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭
جدہ ایر پورٹ پر بیگم صاحبہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کے بعد فلائٹ کی اناؤنسمنٹ کے انتظار میں لاؤنج میں چلے آئے۔
عمرہ کے بعد انہوں نے مدینہ شریف میں پورے دو ماہ گزارے تھے۔ اب مزید قیام بڑھوانا ممکن نہ رہا تو مجبوراً بیگم صاحبہ نے واپسی کی تیاری کر لی۔ طاہر اور صفیہ کے ساتھ ساتھ وسیلہ خاتون کو بھی واپسی کی اطلاع دو دن پہلے دی جا چکی تھی۔ فلائٹ کا وقت تین بجے کا تھا۔ ابھی دو بج کر چالیس منٹ ہوئے تھے۔
بیگم صاحبہ اعجاز اور ڈاکٹر ہاشمی آمنے سامنے گدیلے صوفوں پر بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں تسبیح چل رہی تھی جبکہ ڈاکٹر ہاشمی ایر پورٹ کی گہما گہمی کو نظروں میں تولتے ہوئے کاؤنٹر پر انگوٹھا چلا رہے تھے۔ رہ گیا اعجاز تو وہ سوائے بتیاں دیکھنے کے اور کیا کرتا۔
"ارے۔۔۔ " ایک دم بیگم صاحبہ کے ہونٹوں سے تحیر بھری آواز نکلی۔ وہ ڈاکٹر ہاشمی کے پچھلی طرف کسی کو دیکھ رہی تھیں۔
"کیا ہوا بیگم صاحبہ؟" ڈاکٹر ہاشمی چونکے۔
"ڈاکٹر صاحب۔ یہ اپنا سرمد یہاں کیا کر رہا ہے؟" وہ جلدی سے بولیں۔
"سرمد۔۔۔ اور یہاں ؟" ڈاکٹر ہاشمی نے حیرت سے کہا اور پلٹ کر دیکھا۔ "ارے ہاں۔ یہ تو سرمد ہی ہے۔ " وہ اٹھ گئی۔ " آپ بیٹھئے۔ میں اسے لے کر آتا ہوں۔ " وہ کہہ کر تیزی سے باہر جاتے سرمد کی طرف بڑھے جو احرام باندھے خارجی دروازے کی طرف چلا جا رہا تھا۔
"سرمد۔۔۔ " انہوں نے اسے پیچھے سے آواز دی۔
سر جھکائے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا سرمد رک گیا۔ بڑی آہستگی سے اس نے گردن گھمائی اور ڈاکٹر ہاشمی کی جانب دیکھا۔
ڈاکٹر ہاشمی کے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ دونوں باپ بیٹا آمنے سامنے کھڑے تھے۔ سرمد کندھے پر سفری بیگ ڈالے بڑی سپاٹ سی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا اور ڈاکٹر ہاشمی اس کے سُتے ہوئی، زرد اور بجھے بجھے چہرے کو حیرت سے جانچ رہے تھے۔
"ارے ابو آپ۔۔۔ " بڑی آہستگی سے سرمد کی آنکھوں میں شناسائی جاگی۔ جیسے اس نے انہیں پہچاننے میں بڑی دقت محسوس کی ہو۔
"سرمد۔ " ڈاکٹر ہاشمی اس کے کمزور سراپے کو نظروں سے کھنگالتے ہوئے بولے۔ "یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے بیٹے۔ تمہاری صحت کو کیا ہوا؟" انہوں سے سرمد کو گلے لگا لیا۔
"صحت کو کیا ہوا ابو۔ اچھی بھلی تو ہے۔ " وہ پھیکی سی ہنسی ہنسا اور ان کے کندھے پر سر رکھ دیا۔
"خاک اچھی ہے۔ مجھے بے وقوف بنا رہے ہو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اسے بھینچ لیا۔ پھر اس کی گردن پر بوسہ دیتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا۔
"مجھے کچھ نہیں ہوا ابو۔ آپ کو وہم ہو رہا ہے۔ " نم آنکھوں سے باپ کو دیکھ کر سرمد نے کہا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا وہ ماں جیسی شفقت لٹاتے باپ کے کندھے پر سر رکھ کر خوب روئے۔ اتنا روئے کہ اندر رکا ہوا سارا غبار دھل جائے۔ جل تھل ہو جائے۔۔۔ مگر اس نے خود پر قابو پا لیا۔
" آپ عمرے سے فارغ ہو گئے اور میں کرنے جا رہا ہوں۔ " سرمد نے باپ کا ہاتھ تھام کر کہا۔
" آؤ۔ ادھر آؤ۔ بیگم صاحبہ سے ملو۔ " وہ اسے لئے ہوئے بیگم صاحبہ کے پاس چلے آئے۔ سرمد نے انہیں ادب سے سلام کیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اعجاز کو جیسے اس نے دیکھا ہی نہ تھا۔
"ارے بیٹے۔ یہ تمہاری صحت کو کیا ہو گیا؟"بیگم صاحبہ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
"یہی ابو بھی کہہ رہے ہیں آنٹی۔ " وہ ہنسا۔ "مگر میں تو خود کو بالکل ٹھیک محسوس کر رہا ہوں۔ "
"ہم دونوں غلط کہہ رہے ہیں اور تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اپنی جگہ بیٹھتے ہوئے خفگی سے کہا تو سرمد نے سر جھکا لیا۔
"چلئے ابو۔ آپ ہی ٹھیک ہیں۔ "
"تو اب سیدھے سیدھے بتا دو کہ تمہاری اس کمزوری اور خراب صحت کا سبب کیا ہے؟" ڈاکٹر ہاشمی نے تلخی سے کہا۔
"کچھ خاص نہیں ابو۔ بس بخار نے یہ حالت کر دی۔ چند دنوں میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ واپس جاتے ہی اپنا علاج باقاعدگی سے کراؤں گا۔ "
"واپس کہاں ؟" ڈاکٹر ہاشمی نے سختی سے کہا۔ " تم عمرہ کر کے سیدھے پاکستان آؤ گے۔ رزلٹ آ چکا ہے۔ اب واپس جانا ضروری نہیں ہے۔ "
"مگر ابو۔ مجھے ساری کاغذی کارروائیاں پوری کرنا ہیں۔ اپنے رزلٹ ڈاکومنٹس وصول کرنا ہیں اور۔۔۔ "
"کچھ نہیں سنوں گا میں۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اسی لہجے میں کہا۔ ان کا دل تڑپ رہا تھا۔ پھول جیسا بیٹا سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا۔ لگتا تھا کوئی روگ اندر ہی اندر اسے چاٹ رہا ہے۔ انہوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے تھے۔ انہیں کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کہ بات کیا ہو سکتی ہے؟مگر وہ سرمد سے بات کئے بغیر کسی نتیجے پر پہنچنا نہ چاہتے تھے۔ اور بات کرنے کے لئے یہ جگہ مناسب تھی نہ یہ ماحول۔
بیگم صاحبہ بھی اندر ہی اندر کسی سوچ کے گرد خیالوں کا جال بُن رہی تھیں۔ باپ بیٹے کی گفتگو میں انہوں نے کوئی دخل نہ دیا۔ تاہم اتنا تو وہ بھی سمجھ ہی سکتی تھیں کہ بخار جینے کی امنگ چھین لیتا ہے نہ زندگی کو بے رونق کر دیتا ہے۔ سرمد کی آنکھوں میں زندگی کی وہ علامت مفقود تھی جو چمک چمک کر انسان کو حالات کے سامنے سینہ سپر رکھتی ہے۔ اسے دیکھ کر تو لگتا تھا وہ جینا ہی نہیں چاہتا۔ بس کسی مجبور کی طرح سانس لے رہا ہے کہ موت آنے تک زندہ کہلا سکی۔ ان کا جی چاہا ڈاکٹر ہاشمی سے کہیں کہ سرمد کی اس حالت کا سبب ضرور کوئی جذباتی حادثہ ہے۔ طاہر کی ماں ہونے کے ناطے وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ محبت کی چوٹ سے بڑا کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے جو انسان کو نیم جان کر دے مگر پھر انہوں نے بھی اس بات کو پاکستان پہنچنے تک کے لئے موقوف کر دیا۔
"تم عمرہ کر کے فوراً وطن پہنچو۔ اور اگر تمہارا ارادہ کسی گڑ بڑ کا ہے تو میں کچھ بھی کر کے رک جاتا ہوں۔ تمہیں ساتھ لے کر ہی جاؤں گا۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے کہا تو سرمد گھبرا گیا۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں ابو۔ " اس نے جلدی سے کہا۔ "میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہاں سے لندن نہیں جاؤں گا۔ "
"لندن نہیں جاؤ گے اور پاکستان آؤ گے۔ یوں کہو۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے لفظوں پر گرفت کمزور نہ ہونے دی۔
"جی ہاں۔ ایسا ہی ہو گا۔ " وہ بیچارگی سے ہنس پڑا۔
"پیسے ویسے ہیں ؟" انہوں نے جیب سے پرس نکالا۔
"وافر ہیں ابو۔ ضرورت ہوتی تو میں خود ہی کہہ دیتا۔ " اس نے انہیں روک دیا۔
"پھر بھی یہ رکھ لو۔ " انہوں نے ویزا کارڈ پرس سے نکال کر اسے تھما دیا۔
سرمد جانتا تھا، ضد کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے اس نے خاموشی سے کارڈ، بیگ کھول کر اندر رکھ لیا۔
اسی وقت پاکستان جانے والی فلائٹ کی اناؤنسمنٹ کی جانے لگی۔
"اپنا خیال رکھنا۔ " ڈاکٹر ہاشمی کے ساتھ ہی بیگم صاحبہ اور سرمد بھی اٹھ گئے۔ انہوں نے کھینچ کر اسے پھر گلے سے لگا لیا۔ وہ بھی باپ کے سینے سے لگا ایسے سکون میں ڈوب گیا جس نے اس کی آنکھیں نم کر دیں۔ کتنی ہی دیر گزر گئی۔ تب دونوں الگ ہوئی۔ ڈاکٹر ہاشمی نے چشمہ اتارا۔ رومال سے آنکھیں خشک کیں۔ سرمد کی آنکھیں پونچھیں۔
"ارے۔ آپ تو بچوں کی طرح جذباتی ہو گئے ڈاکٹر صاحب۔ " بیگم صاحبہ نے صورتحال کو مزید گمبھیر ہونے سے بچانا چاہا۔
"یہ میرا اکلوتا بچہ ہے بیگم صاحبہ اور میں عمر کے اس حصے میں ہوں جب انسان ویسے ہی بچہ بن جاتا ہے۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائے تو سنجیدگی میں خاصی کمی آ گئی۔
"اچھا آنٹی۔ اللہ حافظ۔ " سرمد نے سر جھکا دیا۔ بیگم صاحبہ نے اس کے سر پر پیار دیا اور پیشانی چوم لی۔
"جیتے رہو۔ جلدی پاکستان آ جانا۔ زیادہ انتظار نہ کرانا ہمارے ڈاکٹر صاحب کو۔ "
"جی آنٹی۔ " اس نے مختصراً کہا اور باپ کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں تھام کر ہونٹوں سے لگا لیا۔ " اپنا خیال رکھئے گا ابو۔ میرا بھی اور کون ہے آپ کے سوا۔ "
"جلدی آ جانا۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔ نجانے کیوں ابھی تک انہیں سرمد کے پاکستان چلے آنے کا یقین نہ ہو رہا تھا۔
"جی ابو۔ " اس نے باپ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ تیزی سے پلٹا اور خارجی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ جب تک وہ باہر نہ نکل گیا، ڈاکٹر ہاشمی اسے ایک ٹک دیکھتے رہے۔ پھر جب وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تو بیگم صاحبہ کی طرف مڑے۔
"نجانے کیا ہو گیا ہے اسے؟" وہ آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے بڑبڑائے۔
"اسے پاکستان آ لینے دیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ فکر نہ کریں۔ " بیگم صاحبہ نے انہیں تسلی دی لیکن نجانے کیوں یہ الفاظ کہتے ہوئے ان کا دل بڑے زور سے دھڑک اٹھا۔
" آئیے۔ چلیں۔ " ڈاکٹر ہاشمی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے رن وے کی جانب کھلنے والے گیٹ کا رخ کیا۔ بیگم صاحبہ نے ایک نظر پلٹ کر اس دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے چند لمحے پہلے سرمد باہر گیا تھا۔ پھر اعجاز کے ساتھ ڈاکٹر ہاشمی کے پیچھے قدم بڑھا دئیے۔

جس دن سرمد کی وسیلہ خاتون سے بات ہوئی، وہ اس کی زندگی میں مسکراہٹوں اور شگفتگی کا آخری دن تھا۔ ہنستا کھیلتا، زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا سرمد ایک دم مرجھا گیا۔ اس کے ساتھی لڑکے اور لڑکیاں اس کی حالت پر پہلے تو حیران ہوئے۔ اسے بہلانے اور کریدنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس کے لبوں سے چھن جانے والی ہنسی کی واپسی کے راستے ڈھونڈتے رہے لیکن جب انہیں اپنی ہر کوشش میں ناکامی ہوئی تو آہستہ آہستہ وہ اس سے دور ہوتے چلے گئے۔ لندن کی ہنگامہ خیز رُتوں میں کسی کے پاس اس پر ضائع کرنے کے لئے وقت نہ تھا۔ ایک انڈین لڑکی ریحا نے بڑے دنوں تک اس کا انتظار کیا۔ اس کے فلیٹ کے چکر کاٹے۔ دن رات کی پرواہ کئے بغیر اسے اپنے ماحول میں کھینچ لانے کے جتن کئے مگر جب سرمد کی اداسی بڑھتی ہی چلی گئی۔ صحت مسلسل گرنے لگی اور ہونٹوں پر سوائے آہوں کے کچھ نہ رہا تو وہ بھی مایوس ہو کر لوٹ گئی۔
رزلٹ کے بعد یہ مہینہ بھر کا وقت پارٹیوں ، ہاؤ ہو اور مستی کا تھا۔ سرمد کے گرو پ کے سبھی سٹوڈنٹ کامیاب ہوئے تھے۔ واپس اپنے اپنے ملک جانے سے پہلے وہ آخری دنوں کو یادگار بنا دینا چاہتے تھے۔ سرمد ان سے کٹتا کٹتا بالکل اکیلا ہو گیا تو وہ اسے بھولنے لگی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ پورا ایک ہفتہ اپنے فلیٹ میں پڑا بخار سے جنگ لڑتا رہا اور کوئی اسے ملنے بھی نہ آیا۔ اس دن کے بعد وہ خود ہی ان سب سے دور ہو گیا۔
وہ کرتا بھی کیا؟ اس نے اپنے حساب میں کوئی غلطی کی تھی نہ وقت ضائع کیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ اس نے ڈاکٹر ہاشمی کے ساتھ اپنے طور پر کی ہوئی کمٹ منٹ نبھانے کے لئے یہ فیصلہ کر لیا کہ اپنا رزلٹ آنے تک وہ ان سے کوئی بات نہیں کرے گا۔ جب اس کا رزلٹ نکلا تو اپنے آپ سے کئے ہوئے وعدے کے مطابق اس نے سب سے پہلے انہیں یہ خوشخبری سنانا چاہی مگر ساتھ ہی اس خیال سے کہ اس اچھی خبر کے بعد وہ انہیں صفیہ کے رشتے کے لئے اس کے گھر جانے کو کہے گا، وسیلہ خاتون سے پوچھ لینا مناسب سمجھا۔ اسے بظاہر اپنے لئے انکار کی کوئی وجہ نظر نہ آ رہی تھی، پھر بھی وہ ان کا عندیہ لے لینا چاہتا تھا۔ تاکہ کسی بھی قسم کی کوئی بدمزگی پیدا ہی نہ ہو۔ اس کی یہ احتیاط ایک طرف اگر اس کے لئے زندگی بھر کے زخم کا پیغام لے کر آئی تو دوسری طرف باپ سے اس بارے میں بات کر کے جو شرمندگی اس کے حصے میں آنے والی تھی، اس سے بچ گیا۔
سب باتیں اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت تھیں مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتا جو دھڑکنا ہی بھولتا جا رہا تھا۔ صفیہ کا خیال اب اس کے لئے شجرِ ممنوعہ تھا مگر وہ اس کے خیال سے دامن چھڑاتا تو کیسی؟ اس کی راتیں بے خواب ہو گئیں۔ دن بے رونق ہو گئی۔ وقت کا ایک ایک لمحہ ٹیس بنتا چلا گیا۔ سانس لیتا تو آہ نکلتی۔ آنکھ اٹھاتا تو ہر طرف اس دشمنِ جاں کی تصویر سجی نظر آتی جو کبھی اس کی تھی ہی نہیں۔ وہ اکیلا ہی اس آگ میں جلتا رہا تھا۔ اس نے صفیہ کے ساتھ گزرے ہوئے ایک ایک پل میں جھانکا۔ کسی جگہ اسے صفیہ کی جانب سے کوئی ہمت افزائی کا اشارہ نہ ملا۔ کہیں اس کی نظروں سے چھلکنے والا کوئی پیغام نہ تھا۔ وہ کس وہم کے سہارے زندگی میں اس کے تصور کو جینے کا بہانہ مان لیتا؟ اگر یہ عشق تھا تو یک طرفہ تھا۔ اگر یہ محبت تھی تو صرف اسی کی طرف سے تھی۔ اگر یہ پیار تھا تو اس میں صفیہ کی رضا کہیں نہ تھی۔
آہیں ، آنسو، پچھتاوا۔ یہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ صفیہ کا خیال آتا تو آہ ہونٹوں پر مچل جاتی۔ اس کے طاہر کا ہو جانے کے بارے میں سوچتا تو آنسو دل کا دامن بھگو دیتی۔ اپنی طرف سے کی گئی دیر پچھتاوا بن کر دل مسل ڈالتی تو وہ تڑپ تڑپ جاتا۔ بڑی کوشش کی کہ کسی طرح خود کو سنبھال لے مگر عشق میں ناکامی کا داغ ایسی آسانی سے دھُل جانے والا ہوتا تو کوئی بات بھی تھی۔ یہ ناسور تو ایساتھاجو اندر کی جانب رِستا تھا۔ اس کا سارا زہر سوچوں اور خیالوں میں اترتا اور وہیں پڑا چرکے لگایا کرتا۔ وہ چند ہفتوں ہی میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔
ایک دن فلیٹ کے پتے پر خط آیا۔ کھولا تو یونیورسٹی کی طرف سے انوی ٹیشن تھا۔ یونیورسٹی والوں نے کامیاب طلبہ کے اعزاز میں ایک فنکشن ارینج کیا تھا جس میں انہیں ڈگریاں دی جانے والی تھیں۔ تب اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی تک باپ کو اپنی کامیابی کی اطلاع ہی نہیں دی۔ خود کو سنبھالا کہ باپ کہیں اس کی آواز اور لہجے سے اس کے دُکھ کا بھید نہ جان لی۔ پھر اسے فون کیا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے اس کی آواز سن کر بیتابی سے پوچھا کہ اتنے دنوں تک رابطہ کیوں نہیں کیا۔ بتایا کہ وہ اسے وقفے وقفے سے کنٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر اس کا موبائل نہ مل رہا تھا۔ سرمد نے بہانہ کیا کہ موبائل خراب تھا اور وہ رزلٹ آنے پر ہی انہیں بتانا چاہتا تھا اس لئے جان بوجھ کر رابطہ نہیں کیا۔ وہ اس کی کامیابی کا سن کر پھولے نہ سمائے۔ اس وقت سرمد کو پتہ چلا کہ وہ پاکستان میں نہیں ، ارضِ حجاز پر ہیں۔
تقسیمِ اسناد کی تقریب میں شرکت کے لئے وہ عین وقت پر گیا اور ڈگری وصول کر کے نکال آیا۔ ریحا نے اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ لوٹ آیا۔
اب اس کا لندن میں کوئی کام نہ تھا۔ اہم امور نمٹانے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگ جاتا۔ اس کے بعد وہ وطن جا سکتاتھا مگر وہ وہاں نہ جانے کے بارے میں اپنا فیصلہ وسیلہ خاتون کو سنا چکا تھا۔ ویسے بھی وہ وہاں جا کر کیا کرتا؟ خود پر قابو نہ رکھ پاتا تو معمولی سی حرکت صفیہ کے لئے وبالِ جان بن سکتی تھی۔ اس نے عزم کر لیا کہ کبھی پاکستان نہیں جائے گا۔ ڈاکٹر ہاشمی کو کس طرح سمجھایا جاتا، اس بات کو اس نے آنے والے وقت پر چھوڑ دیا۔
پندرہ دن پہلے آخری بار اس کی بات ڈاکٹر ہاشمی سے ہوئی۔ ان کا ارادہ ابھی مزید مدینہ شریف میں رکنے کا تھا۔ تین مہینے کا وقت پورا کئے بغیر وہ واپس پاکستان جانا چاہتے تھے نہ بیگم صاحبہ۔
اب پہلی بار وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پندرہ دن بعد جب ڈاکٹر ہاشمی کا ارضِ حجاز پر قیام ختم ہو جاتا تو وہ لازماً واپس چلے جاتے۔ پھر وہ لندن میں مزید رکنے کا کیا بہانہ کرتا؟
سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھوڑا بن گیا۔ ایک طرف صفیہ سے دور رہنے کا ارادہ اور دوسری طرف تنہائی کا مارا باپ۔ جو اس کے لئے گن گن کر دن گزار رہا تھا۔
اس شام ریحا اس سے ملنے آئی۔ دونوں کتنی ہی دیر چُپ چاپ بیٹھے رہے۔ وہ اس کی حالت پر بیحد دُکھی تھی۔
"سرمد۔ " خاموشی طویل ہو گئی تو ریحا نے لب کھولی۔ "ایک بات پوچھوں ؟"
"پوچھو۔ " اس نے بجھی بجھی نظروں سے اس کے ملیح چہرے کو دیکھا۔
"مجھے تمہارے نجی معاملے میں دخل تو نہیں دینا چاہئے لیکن ہم نے ابھی تک بڑا اچھا وقت گزارا ہے۔ تم اسے دوستی کہہ لو مگر میں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں رکھتی کہ میں تم میں انٹرسٹڈ تھی۔ آں ہاں۔۔۔ چونکو مت۔ " ریحا نے ہاتھ اٹھا کراسے کچھ کہنے سے روک دیا۔ "اسی لئے میں اب تک تمہارے لئے خوار ہو رہی ہوں۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ تم مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے مگر میں ڈھیٹ بن کر تمہارے ارد گرد منڈلاتی رہی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم دونوں کا مذہب جدا ہے۔ کلچر جدا ہے۔ رہن سہن جدا ہے، میں اس آس پر تمہیں مائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ تم لندن کے آزاد ماحول میں پل بڑھ رہے ہو۔ ہم کسی نہ کسی کمپرومائز پر پہنچ کر ایک ہو جائیں گی۔ تمہاری ایک دم بدل جانے کی کیفیت نے مجھے تم سے قریب رکھا جب میں نے پوری طرح جان لیا کہ ہماری یونیورسٹی کی یا باہر کی کسی لڑکی میں تم انٹرسٹڈ نہیں ہو۔ مگر تمہارے گریزاں رویے نے مجھے بد دل کر دیا تو میں کچھ دنوں کے لئے تم سے دور چلی گئی۔ یہ سوچ کر کہ شاید میری دوری تمہیں میرے ہونے کا احساس دلائے اور تم مجھ سے ملنا چاہو مگر ۔۔۔ " وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔ "یہ میری بھول تھی۔ تم آج بھی ویسے ہی ہو جیسے چند ماہ پہلے پتھر ہو گئے۔ بہرحال۔۔۔ " اس نے اپنے بال جھٹکے سے چہرے سے ہٹائے اور اس کی حیران حیران آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ " آج میں تم سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا تمہاری یہ حالت کسی لڑکی کی وجہ سے ہے؟"
سرمد نے اس سے نظریں چرا لیں۔ اس کے لب کانپے اور سر جھک گیا۔
"خاموش مت رہو سرمد۔ " وہ اٹھی اور اس کے سامنے قالین پر گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور اسے والہانہ دیکھنے لگی۔ "یہ مت سوچو کہ تمہارے اقرار سے مجھے دُکھ ہو گا۔ ہو گا مگر اس سے زیادہ یہ ضروری ہے سرمد کہ میں حقیقت جان لوں تاکہ مجھے یہ پچھتاوا نہ رہے کہ میں نے تم سے اصل بات جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بولو سرمد۔ ویسے بھی جب تک تم اپنا دُکھ کسی کو بتاؤ گے نہیں ، تمہارے غم کا مداوا نہ ہو سکے گا۔ یہی سوچ کر بولو سرمد کہ شاید میں ، تمہارے کسی کام آ سکوں۔ "
بے اختیار سرمد کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور ریحا کے ہاتھوں پر گری۔
"سرمد۔ " ریحا بے چین ہوگئی
"میں کیا بولوں ریحا؟" وہ یوں رو دیا جیسے اسے اب تک ریحا ہی کے کندھے کا انتظار تھا۔ ریحا اٹھی اور اس کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔ سرمد نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا اور بلکنے لگا۔ ریحا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی اور اپنے آنسوپینے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔
جی بھر کر رو لیا تو سرمد کا من ہلکا ہو گیا۔ ریحا نے اس کا منہ ہاتھ دھلوایا۔ اصرار کر کے شیو کرائی۔ کپڑے بدلوائے اور اپنی ننھی سی ٹو سیٹر میں اسے ہل پارک میں لے آئی۔
شام ہونے کو تھی۔ آمنے سامنے گھاس کے فرش پر بیٹھے جب چند منٹ سکوت کے عالم میں گزر گئے تو ریحا نے محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر سہلاتے ہوئے کہا۔
"ہاں تو سرمد جی۔ اب کھل جائے۔ ذرا بتائیے تو کہ وہ کون مہ وش ہے جس نے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے؟"
"ڈاکہ؟" سرمد نے نظریں اٹھائیں اور مسکراتی ہوئی ریحا کو دیکھ کر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر بھی ابھری۔ پھر یہ مسکراہٹ ایک سرد آہ میں بدل گئی۔
"وہ مجھ سے ٹیوشن پڑھا کرتی تھی ریحا۔۔۔ " ہولے ہولے اس نے کہنا شروع کیا۔ ریحا سنتی رہی اور جب سرمد نے بات ختم کی تو ریحا کو اداسی پوری طرح گرفت میں لے چکی تھی۔
سرمد خاموش ہو گیا۔
ریحا سر جھکائے تنکے توڑ تی رہی۔ لگا، جیسے اسے سرمد کی بات ختم ہونے کا پتہ ہی نہیں۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تب ہوا کے ایک سرد جھونکے نے انہیں کپکپا کر رکھ دیا۔
ریحا نے سر اٹھایا۔ شام اتر آئی تھی۔ پرندے چہچہانا ختم کر چکے تھے۔ پارک سے لوگ رخصت ہو رہے تھے۔
"تمہارا اداس ہونا سمجھ میں آتا ہے سرمد۔ " ریحا نے ایک گہرا سانس لیا۔ "واقعی۔ بات ہی ایسی ہے کہ انسان اپنے قابو سے باہر ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم۔۔۔ مگر اب کیا؟ ساری زندگی تو دُکھ کی یہ چادر اوڑھ کر نہیں گزاری جا سکتی۔ "
"گزاری جا سکتی ہے ریحا۔ " پہلی بار سرمد کے لبوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ بکھری۔ " آج سے پہلے مجھے بھی یہ زندگی بوجھل لگتی تھی۔ سانس جیسے سینے میں آرا بن کر چلتا تھا۔ چاہتا تھا کہ جیسے تیسے یہ جینا ختم کر کے دنیا سے چل دوں مگر ۔۔۔ " اس نے بڑی محبت سے ریحا کا ہاتھ تھام لیا۔ " آج تمہارے سامنے رو لیا ہے تو لگتا ہے سانس لینا آسان ہو گیا ہے۔ میں تمہارا یہ احسان مرتے دم تک یاد رکھوں گا ریحا۔ تم نے میرا من دھو کر سارا غبار اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ اب صفیہ کا دُکھ، دُکھ نہیں رہا۔ ایک نشہ بن گیا ہے۔ اس کی یاد اب نشتر نہیں چبھوتی، ٹیس بن کر درد جگاتی ہے۔ اس درد میں ایک لذت ہے ریحا۔ میں نے ایسی لذت کبھی محسوس ہی نہیں کی، جس سے آج گزر رہا ہوں۔ یاد ایسی مست بھی ہوتی ہے، مجھے اس سے تم نے آشنا کیا۔ یہ غم کا مزہ تمہاری دین ہے۔ صفیہ کے ساتھ تمہاری یاد جُڑ گئی ہے ریحا۔ اسے میں چاہوں بھی تو الگ نہیں کر سکتا۔ "
"میں ایسی گہری اور مشکل مشکل باتیں نہ کر سکتی ہوں نہ سوچ سکتی ہوں سرمد۔ " ریحا نے مسکرا کر کہا۔ "بس یہ جان کر خوش ہوں کہ اب تم زندگی کی طرف لوٹ رہے ہو۔ ساری بات سمجھ کر ایک امید کی جوت دل میں جگا لی ہے میں نے کہ شاید ایک دن تم میرے پاس آ جاؤ اور کہو کہ ریحا۔ مجھے اپنی باہوں میں لے لو۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ آؤ مل کر ایک آشیانہ بنائیں جس میں۔۔۔ "
"بس۔ "مجھ سے کوئی وعدہ نہ لینا ریحا۔ اگر تم میرا نصیب ہو تو ایسا ضرور ہو گا اور اگر میں تمہارا حصہ نہیں ہوں تو آرزو کا پودا پالنے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔ "
"جانتی ہوں سرمد۔ میں جب تک ممکن ہو سکا تمہارا انتظار ضرور کروں گی۔ زندگی کے آخری سانس تک انتظار کا وعدہ اس لئے نہیں کر سکتی کہ ماں باپ کی نافرمان نہیں ہونا چاہتی تاہم کوشش کروں گی کہ اس وقت تک کسی کی سیج نہ سجاؤں جب تک تمہاری طرف سے نا امیدی کی خزاں کا جھونکا میرے یقین کے گلشن میں نہ در آئے۔ "
ایک عجیب سے وعدے اور امید کے دیپ دلوں میں جلا کر دونوں اٹھے اور چل پڑی۔ اسے فلیٹ پر چھوڑ کر ریحا نے باہر ہی سے رخصت چاہی تو سرمد کو پتہ چلا کہ وہ اگلے دن واپس انڈیا جا رہی ہے۔
"کبھی لوٹنا چاہو تو بڑا سیدھا سا پتہ ہے سرمد۔ سرینگر میں جموں کشمیر روڈ پر کوٹھی نمبر تین میرا گھر ہے۔ میرا موبائل نمبر تمہیں ازبر ہے۔ کوشش کرنا کہ یہ سیٹ تم بھی کبھی نہ بدلو جس کا نمبر میرے پاس ہے۔ اس پر میں اکثر تمہیں تنگ کرتی رہوں گی۔ "
"واپس جا کر کیا کرو گی؟" سرمد نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر پوچھا۔
"سب سے پہلے ماں سیتا کے مندر جاؤں گی۔ ان سے تمہیں مانگوں گی۔ فرقت کا دُکھ وہ خوب سمجھتی ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر تم میرے نصیب میں نہیں بھی ہو تو وہ میرا نصیب بدل دیں گی۔ تمہیں ضرور میرے دامن میں ڈال دیں گی۔۔۔ اور جب تک ایسا ہو نہیں جاتا تب تک مجھے سکون اور سُکھ کا وردان ضرور دیں گی۔ "
ریحا نے اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگایا۔ آنکھوں سے مس کیا اور اس کی جانب دیکھے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئی۔ شاید اس میں جاتے ہوئے سرمد کو چھوڑ جانے کے احساس سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہ تھی۔
ریحا چلی گئی۔
مگر۔۔۔ وہ اپنی جگہ بُت بنا کھڑا تھا۔ اس کے دماغ میں بگولے سے چکرا رہے تھے۔ کانوں میں سیٹیاں سی بج رہی تھیں۔ کیا کہہ گئی تھی ریحا؟ اس کا ایک بُت پر کیسا پختہ یقین تھا۔ اسے کیسا اعتماد تھا ایک پتھر پر کہ وہ اس کا مقدر بدل دے گا۔ اسے سکون اور اطمینان بخش دے گا۔ ہونی کو انہونی کر دکھائے گا۔ یہ ایک باطل مفروضے پر قائم مذہب نما ڈھکوسلے پر یقین رکھنے والی ریحا کا حال تھا اور وہ خود جو ایک آفاقی، ازلی و ابدی سچ کے حامل دین کا پیروکار تھا۔ جس کا ایمان ایک، اکیلے اور واحد اللہ پر تھا۔ اس کی سوچ اپنے معبود کی طرف گئی ہی نہ تھی، جو اسے سب کچھ دے سکتا تھا۔ انہونی کو ہونی کر سکتا تھا۔ سکون اور سُکھ کے لئے جس کی طرف رجوع کر لینا ہی کافی تھا۔ وہ اس کے بارے میں اب تک غفلت کا شکار تھا۔
ندامت سے اس کی پیشانی پر پسینہ آ گیا۔ جسم میں شرمندگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ صفیہ تو اب اس کی نہ ہو سکتی تھی مگر اس نے اپنے خالق سے اس زخم کا تریاق مانگا ہی نہ تھا۔ تنہائی اوڑھ لی تھی۔ اداسی پہن لی تھی۔ نا امیدی کے رستے پر تھکے تھکے قدم اٹھاتا وہ زندگی کا لاشہ گھسیٹ رہا تھا۔ بھول گیا تھا کہ ہر غم، ہر دُکھ، ہر زخم کا مداوا جس کے پاس ہے وہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اس کے پکار لینے کا ہر آن منتظر ہے۔
ایک بُت پرست نے اپنے دو فقروں سے اسے ملیا میٹ کر دیا۔ گرتا پڑتا وہ فلیٹ میں پہنچا اور قبلہ رخ ہو کر سجدے میں گر پڑا۔ کچھ نہ کہا۔ کچھ نہ بولا۔ بس، روتا رہا۔ ہچکیاں لیتا رہا۔ سسکتا رہا۔ اس کے حضور ندامت کی سب سے اعلیٰ زبان آنسو ہیں اور آنسو اسے جس قدر پسند ہیں ، اس کے بارے میں آنسو بہانے والا سب سے بہتر جانتا ہے۔ یہ آبگینے جب جب پھوٹتے ہیں تب تب اس کے دربار میں بیش قیمت ہوتے جاتے ہیں۔
دوسرے دن اس نے عمرے کے لئے ویزا اپلائی کر دیا۔ اس کے اندر ایک اور ہی شمع روشن ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا اڑ کر حرم جا پہنچی۔ اپنے آقا کے حضور جائے اور پھر لوٹ کر نہ آئی۔ اسے شرم آتی تھی ریحا کے پتھر کے بے جان بھگوان کے بارے میں سوچ کر۔ جس کا ذکر کر کے ریحا نے اسے اس کے سچے خدا کی طرف رجوع کا ادراک بہم پہنچایا تھا۔ ریحا کا یہ دوسرا احسان اس کے پہلے احسان سے بھی بڑا تھا جو اس نے سرمد کی ذات پر کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر ہاشمی سے رخصت ہو کر وہ ایر پورٹ سے باہر نکلا اور مکہ کے لئے روانہ ہو گیا۔
ہوٹل میں سامان رکھ کر حرم پہنچا تو اس کی حالت غیر ہو گئی۔ جسم سے جان نکل گئی۔ ہاتھ پاؤں سرد پڑ گئی۔ وہ گرتا پڑتا صحنِ حرم میں داخل ہوا اور گر پڑا۔ اپنے رب کے گھر کے سامنے سجدے میں پڑا وہ سسک رہا تھا۔ کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کا سر اٹھانے کو جی ہی نہ چاہتا تھا۔ پھر جیسے دل کو قرار سا آ گیا۔ سکون اس کا شانہ تھپک کر تسلی دیتا ہوا جسم و جان میں اتر گیا۔ آنسو خشک ہو گئے یا شاید ختم ہو گئی۔
اس نے سجدے سے سر اٹھایا۔ کعبہ، اپنے اللہ کے پہلے اور آخری گھر پر نظر ڈالی۔ اسے لگا، کعبہ اسے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ باہیں پسارے اسے سینے سے لگانے کو اشارے کر رہا ہے۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور عمرے کے ارکان ادا کرنے لگا۔ حجرِ اسود کو چومنے کے لئے جھکا تو ایک خیال برق کی طرح اس کے دل و دماغ میں روشنی دے گیا۔
"اسے میرے آقا نے بوسہ دیا ہے۔ "
اس کے لئے حجرِ اسود کا بوسہ لینا مشکل ہو گیا۔ جس پتھر کو اس کے آقا نے اپنے لبِ اطہر سے چوما تھا، وہ اسے کس ادب سے بوسہ دے؟ کس احترام سے ہونٹوں سے لگائے؟ لرزتے کانپتے ہوئے اس نے اس جنتی پتھر کو بوسہ دیا اور بادل نخواستہ پیچھے ہٹ گیا۔ طواف کرتے کرتے وہ جب بھی حجرِ اسودکے بوسے کے لئے رکا، اس کی یہی حالت ہوئی۔
وہ مکہ میں ارکانِ عمرہ سے فارغ ہو گیا۔ اب اسے مدینہ شریف جانا تھا۔ اپنے اللہ کے حبیب پاک کے حضور حاضر ہونا تھا۔ اپنے آقا و مولا کا خیال آتے ہی اس پر ایک کیف سا طاری ہو گیا۔ رات گزارنا اس کے لئے مشکل ہو گیا۔ ساری رات وہ حرم میں نفل پڑھتا رہا۔ اسے صبح صبح شہرِ نبی کے لئے روانہ ہو جانا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ اس دوران نیند میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے۔
صبح آخری بار حرم کا طواف کر کے جب وہ رخصت ہوا تو اس کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے۔ دل سے ایک خوشبو کا جھونکا نکلا اور حرم کی جانب روانہ ہو گیا۔
"میرے معبود۔ اسے سُکھی رکھنا۔ "
آمین کے لفظ کے ساتھ اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے حرم کو نگاہوں میں جذب کر لینا چاہا تو جدائی کا احساس، رخصت ہونے کا غم اس کی آنکھوں کو دھندلا گیا مگر جانا تو تھا۔ اس نے سر جھکا کر دونوں ہاتھ کسی غلام کی طرح باندھ لئے اور قدم وداع ہونے کے لئے اٹھا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
بیگم صاحبہ کا فون آیا تو طاہر نے صفیہ سے واپسی کی تیاری کرنے کا کہہ دیا۔ وہ دو دن بعد آ رہی تھیں۔
"طاہر۔ " جھجکتے ہوئے صفیہ نے کہنا چاہا۔
"کہو ناں۔ رک کیوں گئیں ؟"
"واپسی سے پہلے ایک بار بابا شاہ مقیم کے مزار پر لے چلئے مجھے بھی۔ " صفیہ نے اس کے سینے پر پیشانی ٹکا دی۔
"تو پھر آج ہی چلو۔ صبح واپس جانا ہے۔ وقت نہیں ملے گا۔ "
"تو چلئے۔ میں تیار ہوں۔ " وہ کھل اٹھی۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ بابا شاہ مقیم کے مزار پر تھی۔ درویش برگد تلے دری بچھائے جیسے انہی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔
"سلام کر کے ادھر ہی آ جانا اللہ والیو۔ " اس نے وہیں سے صدا لگائی۔ صفیہ نے خود کو چادر میں خوب اچھی طرح ملفوف کر رکھا تھا۔ اس نے گاڑی سے اتر کر درویش کی جانب نظر اٹھائی جو سر جھکائے ہولے ہولے جھوم رہا تھا۔
" آ جاؤ۔ پہلے سلام کر لیں۔ " طاہر اسے لئے ہوئے مزار کی جانب چل پرا۔
سادہ سے مزار کے اندر داخل ہوتے ہی صفیہ کو ایک عجیب سے سکون نے گھیر لیا۔ جتنی دیر وہ طاہر کے ساتھ اندر کھڑی دعا کرتی رہی اس کا سارا جسم کسی نامعلوم احساس سے لرزتا رہا۔ اس کپکپاہٹ میں ایک ایسا سرور تھا ، ایک ایسی لذت تھی، ایک ایسا کیف تھا، جسے وہ بیان نہ کر سکتی تھی۔
دعا کے بعد وہ دونوں باہر آئے اور درویش کے پاس دری پر جا بیٹھی۔ طاہر نے اس سے مصافحہ کیا اور اس کے چہرے پر کچھ تلاش کرنے لگا۔ کوئی پیغام۔ کوئی سندیسہ۔
"بیٹی آئی ہے۔ " اس نے صفیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"جی بابا۔ " صفیہ نے ادب سے جواب دیا۔
"جیتی رہو۔ تمہارے سُکھ کی دعا تو وہاں قبول ہوئی ہے جہاں۔۔۔ " کہتے کہتے درویش خاموش ہو گیا۔ "اس پگلے کا خیال رکھا کرو۔ " اس نے بات بدل دی۔
"اپنی سی کوشش تو کرتی ہوں بابا۔ " صفیہ نے آنکھ نہ اٹھائی۔
"کوشش ہی فرض ہے پگلی۔ اس کے بعد تو سب اس کی مرضی پر ہے۔ " درویش نے آسمان کی جانب دیکھا۔ "اور کوشش کا پھل وہ ضرور دیتا ہے۔ "
صفیہ خاموش رہی۔
"بابا۔ کل صبح ہم واپس جا رہے ہیں۔ " طاہر نے پہلی بار زبان کھولی۔
"خیر سے جاؤ اللہ والیو۔ خیر سے جاؤ۔ خیر سے رہو۔ " وہ جھوم کر بولا۔
" آپ کو اپنا وعدہ یاد ہے ناں بابا؟"
"یاد ہے۔ یاد ہے۔ " درویش نے اس کی جانب مسکرا کر دیکھا۔ "اتاولا نہ ہو۔ وقت آنے دے۔ وعدے سارے پورے ہوں گے اس کے حکم سے۔ " پھر اس نے پاس پڑی ایک کاغذ کی پڑیا اٹھائی اور صفیہ کی جانب بڑھا دی۔ "یہ لے بیٹی۔ یہ بابے شاہ مقیم کا تبرک ہے۔ گھر جا کر دونوں چکھ لینا۔ "
" جی بابا۔ "صفیہ نے پڑیا لے کر پرس میں رکھ لی۔
"بس اب جاؤ۔ اللہ کی پناہ۔ رسول کی امان۔ " درویش نے دونوں ہاتھوں سے صفیہ کے سر پر پیار دیا۔ طاہر سے ہاتھ ملایا۔ اس کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔ دھیرے سے مسکرایا اور دو زانو بیٹھا رہا۔
طاہر اور صفیہ اٹھی۔ الٹے پاؤں دری سے اتری۔ جوتے پہنے اور ایک بار پھر اسے سر خم کر کے سلام کر کے گاڑی میں آ بیٹھی۔ درویش آنکھیں بند کئے جھوم رہا تھا۔ طاہر نے گاڑی سٹارٹ کی تو درویش کے لبوں سے ایک مدھ بھری تان نکلی۔
پیلُو پکیاں وی۔ پکیاں نے وے
آ چُنوں رَل یار
وہ جھوم جھوم کر گاتا رہا۔ طاہر نے بڑی خوابناک نظروں سے صفیہ کی طرف دیکھا جو درویش کی تان میں گم پلکیں موندے اس کے شانے سے لگی بیٹھی تھی۔ جسم میں پھریریاں لیتے سرور نے طاہر کو مست سا کر دیا۔ بے خودی کے عالم میں اس نے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھا دیا۔ نور پور کی حدود سے نکلنے تک درویش کی تان ان کا یوں پیچھا کرتی رہی جیسے انہیں رخصت کرنے کے لئے ان کے ساتھ ساتھ محو سفر ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
بیگم صاحبہ ڈاکٹر ہاشمی اور اعجاز کو طاہر، صفیہ، وسیلہ خاتون، نزدیکی رشتے دار اور طاہر کے آفس کے لوگ چھوٹے موٹے جلوس کی شکل میں کوٹھی لے کر آئی۔
یہاں طاہر نے نیاز کا اہتمام کر رکھا تھا جس کا انتظام پروفیسر قمر اور امبر کے سپرد تھا۔ عشا کے قریب فراغت ہوئی۔ رشتے داروں کے بعد ڈاکٹر ہاشمی اور وسیلہ خاتون رخصت ہو گئے تو پروفیسر قمر اور امبر نے بھی اجازت لی۔ رات کے آٹھ بجے تھے جب صفیہ اور طاہر بیگم صاحبہ کے کمرے میں ان کے دائیں بائیں بستر پر آ بیٹھی۔ بڑے سے ایرانی کمبل میں تینوں کا چھوٹاسا خاندان سما گیا۔ پھر مکہ اور مدینہ، حرم اور حرم والی۔ گنبدِ خضریٰ اور آقائے رحمت کی باتیں شروع ہوئیں تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ بیگم صاحبہ کا سارا طمطراق، سادگی اور عاجزی میں بدل چکا تھا۔ شہرِ نبی کی بات پر وہ بار بار پُر نم ہو جاتیں۔ ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتیں۔ وہیں مر مٹ جاتیں۔
دیوار گیر کلاک نے رات کے گیارہ بجنے کا اعلان کیا تو بیگم صاحبہ نے انہیں جا کر سونے کو کہا۔ "بس بیٹی۔ اب تم لوگ بھی جا کر سو جاؤ۔ رات آدھی ہونے کو ہے۔ اور صبح اٹھ کر نماز بھی پڑھا کرو۔ "
"جی امی۔ " صفیہ نے شرارت سے طاہر کی جانب دیکھا۔ "میں تو پڑھتی ہوں۔ انہیں کہئے۔ "
"طاہر۔ " بیگم صاحبہ نے تسبیح تکئے تلے رکھتے ہوئے کہا۔ "نماز پڑھا کرو بیٹے۔ اب تم بچے نہیں رہے۔ "
"جی امی۔ " اس نے چوری چوری صفیہ پر آنکھیں نکالیں۔
پھر دونوں انہیں سلام کر کے اپنے کمرے میں آ گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭
مسجدِ نبوی کے صحن میں بیٹھ کر گنبدِ خضریٰ کو تکتے رہناسرمد کا سب سے پسندیدہ عمل تھا۔ وہ جب سے اپنے آقا کے شہر میں آیا تھا اس نے نماز اور درود کے علاوہ اور کسی شے کی طرف دھیان ہی نہ دیا تھا۔ ہوٹل میں کپڑے بدلنے یا غسل کے لئے جاتا ورنہ اس کا سارا وقت وہیں گزرتا۔
اللہ کے حبیب کے حضور حاضر ہو کر اس نے جو کیف پایا تھا، اس کا اظہار لفظوں میں ممکن ہی نہ تھا۔ دل کی دھڑکنیں زبان کے ساتھ صدا دیتی ہوئی، د رود شریف کے ورد میں شامل رہتیں۔ ایک مہک تھی جو اسے ہر طرف رقصاں محسوس ہوتی۔ ایک نور تھا جو ہر شے پر محیط نظر آتا۔ ایک سکون تھا جو اسے ہواؤں میں تیرتا ملتا۔ آنکھیں بند کرتا تو اجالے بکھر جاتی۔ پلکیں وَا کرتا تو قوس قزح کے رنگ چھلک پڑتی۔ آقا کا خیال آتا تو نظر اشکوں سے وضو کرنے لگتی۔ واپس جانے کا خیال آتا تو جگر میں ایک ٹیس سی آنکھ کھول لیتی۔ مگر ، ہر ایک کیفیت میں مزا تھا۔ ایک لذت تھی۔ درد بھی اٹھتا تو سرور آمیز لگتا۔
آخری دن تھا جب وہ دربارِ نبوی میں ہدیہ درود و سلام پیش کرنے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا۔ زبان گنگ تھی۔ لب کانپ رہے تھے اور دعا کے الفاظ کہیں گم ہو چکے تھے۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ اس کے آنسو تھم ہی نہ رہے تھے۔ ہچکی بندھ گئی تو وہ کھڑا نہ رہ سکا۔ آہستہ سے وہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور سسکنے لگا۔
"میرے آقا۔ میرے مولا۔ میں کیا مانگوں ؟ کوئی طلب ہی نہیں رہی۔ آپ کے در پر آ گیا۔ اب اور کیا چاہوں ؟ کس کے لئے چاہوں ؟"
اور "کس کے لئے " کے الفاظ پر ایک دم اس کے تصور میں ایک چہرہ ابھرا۔
"ہاں۔ اس کے لئے سُکھ عطا کیجئے۔ " دل سے ایک بار پھر مہک نکلی۔
"اپنے لئے بھی تو کچھ مانگ پگلے۔ " ایک سرگوشی نے اسے چونکا دیا۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ جس کی صدا تھی، وہ کہیں نظر نہ آیا۔ لوگ اس سے دور دور تھی۔
"اس در پر آ کر کچھ نہ مانگنا بد نصیبی ہے۔ کچھ مانگ لے۔ کچھ مانگ لے۔ " کوئی اسے اکسا رہا تھا۔ اسے سمجھا رہا تھا۔ مگر کون؟ اس نے بار بار تلاش کیا۔ کوئی دکھائی نہ دیا۔ تھک کر اس نے سر جھکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔
"کیا مانگوں ؟" اب وہ خود سے سوال کر رہا تھا۔ "کیا مانگوں ؟ کیا مانگوں ؟" اس کا رواں رواں پکار رہا تھا۔ پھر جیسے یہ سوال جواب میں بدل گیا۔ اسے اپنی زبان پر اختیار نہ رہا۔ اپنی طلب پر اختیار نہ رہا۔ اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔
"میرے آقا۔ میں خام ہوں۔ ناکام ہوں۔ مجھے وہ دیجئے۔ وہ عطا کیجئے جو مجھے کامیاب کر دے۔ "
ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی جیسے اس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس کا سارا جسم ہلکا ہو گیا۔ ہوا سے بھی ہلکا۔ وہ بے وزن ہو گیا۔ اس نے بات ان کی مرضی پہ چھوڑ دی تھی جنہیں اللہ نے اپنا حبیب بنایا اور لوح و قلم پر تصرف عطا کر دیا۔ مانگے سے لوگ من کی مرادیں پاتے ہیں۔ بِن مانگے، اپنی مرضی سے وہ کیا عطا کر دیں ، کون جان سکتا ہے ؟سرمد نے نفع کا سودا کر لیا تھا۔ ایسے نفع کا سودا، جس کے لئے اس کے پلے صرف اور صرف عشق کا زر تھا۔ عشق۔۔۔ جس سے اس کا ازلی و ابدی تعلق ظاہر ہو چکا تھا۔ عشق۔۔۔ جس نے اسے ہجر و فراق کی بھٹی میں تپا کر کندن بنانے کی ٹھان لی تھی۔
اپنے آقا و مولا کے در کے بوسے لیتا ہوا وہ مسجدِ نبوی سے رخصت ہوا۔ چوکھٹ کو چوم کر دل کو تسلی دی۔ حدودِ مدینہ سے نکلنے سے پہلے خاکِ مدینہ پر سجدہ کیا۔ اسے ہونٹوں اور ماتھے سے لگایا۔ پھر مٹھی بھر یہ پاکیزہ مٹی ایک رومال میں باندھ کر اپنی اوپر کی جیب میں رکھ لی۔ اس کے لئے یہ کائنات کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
ہوٹل کے کمرے سے اپنا مختصر سامان سمیٹ کر اس نے سفری بیگ میں ڈالا اور چیک آؤٹ کے لئے کاونٹر پر چلا آیا۔
ٹیکسی نے اسے جدہ ایر پورٹ کے باہر اتارا تو دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ اچانک وہ ایر پورٹ کی عمارت میں داخل ہوتے ہوتے رک گیا۔
"کہاں جا رہا تھا وہ؟" اس نے خود سے سوال کیا۔
اس کی لندن واپسی کی ٹکٹ کنفرم تھی مگر اس نے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عمرے کے بعد لندن نہیں جائے گا، پاکستان آئے گا۔ سوچوں نے اس پر یلغار کر دی۔ اس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ کیا کرے؟ پاکستان جانا تو اس کے لئے ممکن ہی نہیں تھا اور لندن جانے کا راستہ اس نے ڈاکٹر ہاشمی سے وعدے کی صورت میں بند کر لیا تھا۔ وہ خیالوں میں ڈوبا ہوا ایر پورٹ میں داخل ہوا اور پتھر کے ایک بنچ پر بیٹھ کر آنکھیں موند لیں۔
اس کی پشت پر دوسری جانب اسی بنچ پر دو نوجوان بیٹھے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ انہوں نے سرمد کو بیٹھتے دیکھا تو خاموش ہو گئے۔ چند لمحے سر جھکائے رہے۔ پھر انہوں نے آہستہ سے گردن گھما کر سرمد کی طرف دیکھا جو دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے ہی خیالوں میں گم تھا۔ چند لمحے اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعداس نوجوان نے، جس کی عمر بائیس تئیس سال سے زیادہ نہ تھی، اپنے پچیس چھبیس سالہ ساتھی کی طرف دیکھا جو اس عرصے میں وہاں موجود باقی تمام نشستوں کا جائزہ لے چکا تھا۔ کوئی بھی جگہ خالی نہ پا کر اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔ پہلے نوجوان نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں سرمد کی طرف سے اطمینان دلایا۔ چند لمحوں کے بعد وہ پھر سرگوشیاں کرنے لگے۔
" آج آخری دن ہے حسین۔ اگر آج بھی طلال نہ پہنچا تو ہم دونوں کو روانہ ہو جانا پڑے گا۔ مزید وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔ "
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو حمزہ بھائی مگر طلال اکیلا کیسے کمانڈر تک پہنچ پائے گا۔ " چھوٹی عمر کے نوجوان نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"وہ بعد میں دیکھیں گی۔ کل کے بعد ہمیں کمانڈر تک لے جانے والا شخص پھر ایک ماہ بعد مل پائے گا۔ اور یہ سارا عرصہ ہم سوائے دعائیں مانگنے کے اور کیسے گزاریں گے۔ " حمزہ کی سرگوشی تیز ہو گئی۔
"ہوں۔ " حسین نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ "تو پھر پروگرام کیا رہا؟"
"ابھی عراق سے آنے والی فلائٹ چیک کریں گے۔ اگر طلال آ گیا تو ٹھیک۔ ورنہ آج رات نو بجے صبح کی فلائٹ کے لئے ٹکٹیں کنفرم کرا لیں گے۔ "
"سیدھا دہلی اور وہاں سے سرینگر۔۔۔ "
"شش۔۔۔۔ " حمزہ نے حسین کا ہاتھ دبا دیا۔ "نام مت لو کسی جگہ کا۔ " اس کے لہجے میں سختی تھی۔
"سوری بھائی۔ " حسین نے معذرت خواہانہ آواز میں کہا۔
"تمہاری یہ سوری کسی دن ایسا کام دکھائے گی کہ۔۔۔ " حمزہ نے ہونٹ کاٹتے ہوئے سر جھٹکا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔
اسی وقت عراق کے شہر نجف سے آنے والی فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہونے لگی۔ حمزہ اور حسین ایک ساتھ اٹھے اور داخلی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ بڑے اطمینان اور سکون سے قدم اٹھا رہے تھے۔ ان کی چال میں کسی قسم کا اضطراب نہ تھا۔ اضطراب تو وہ بُت بنے بیٹھے سرمد کی جھولی میں ڈال گئے تھے جو کہنیاں گھٹنوں پر رکھی، ہاتھوں پر چہرہ ٹکائے ان دونوں کو دزدیدہ نگاہوں سے جاتا دیکھ رہا تھا۔
ان کی گفتگو نے سرمد کے قلب و ذہن میں جوار بھاٹا پیدا کر دیا تھا۔ اسے فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا تھا۔ خشک ہوتے حلق کو اس نے تھوک نگل کر تر کیا اور جب نجف سے آنے والی فلائٹ کے پہلے مسافر نے کلیرنس کے بعد لاؤنج میں قدم رکھا تو اس نے اپنی نشست چھوڑ دی۔ اس کا رخ باہر کی جانب تھا۔
اسے کہاں جانا تھا، فیصلہ ہو چکا تھا۔ راستہ دکھایا جا چکا تھا۔ اب تو اسے صرف قدم بڑھانا تھا اور منزل تک پہنچنا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
آدھ گھنٹے بعد وہ جدہ کے ہوٹل الخامص کے دوسرے فلور پر کمرہ نمبر تین سو تیرہ کے باہر کھڑا تھا۔ سفری بیگ اس نے خوب سنبھال کر کندھے پر درست کیا۔ ادھر ادھر دیکھا۔ کاریڈور بالکل خالی تھا۔ اس کا ہاتھ دستک کے لئے اٹھا۔
"کون؟" اندر سے حمزہ کی آواز ابھری۔
جواب میں اس نے پھر ہولے سے دستک دی۔ فوراً ہی کسی کے دروازے کی طرف چل پڑنے کی آہٹ سنائی دی۔ پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا۔
"تم؟" سامنے کھڑے حمزہ کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔
"کون ہے حمزہ بھائی؟" حسین نے پوچھا۔ پھر وہ بھی اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ سرمد کو دیکھ کر اس کا حال بھی حمزہ سے مختلف نہ رہا۔
"کیا آپ مجھے اندر آنے کے لئے نہ کہیں گے؟" سرمد مسکرایا۔
"یہ تو وہی ہے جو۔۔۔ " حسین نے کہنا چاہا۔
"جی ہاں۔ میں ایر پورٹ پر موجود تھا۔ " سرمد نے اخلاق سے کہا۔
"اندر آ جاؤ۔ " اچانک حمزہ نے کہا اور ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔ پھر جب تک سرمد سمجھ پاتا، دروازہ بند ہو گیا اور ایک سیاہ ریوالور کی نال اس کی پیشانی پر آ ٹکی۔ حسین نے دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔
"کون ہو تم؟" حمزہ کا لہجہ بیحد سرد تھا۔
"اس کے بغیر بھی پوچھیں گے تو میں سچ سچ بتا دوں گا۔ " سرمد نے اچھل کر حلق میں آ جانے والے دل کی دھڑکن پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے ریوالور کی طرف اشارہ کیا۔
"بکواس نہیں۔ " حمزہ نے اسی لہجے میں کہا۔ " تم یہاں تک پہنچے کیسے؟"
"ٹیکسی میں آپ کا پیچھا کرتے ہوئے۔ " سرمد نے بیگ کندھے سے فرش پر گرا دیا۔ اسی وقت حسین نے پیچھے سے آ کر اس کی گردن میں بازو ڈال کر گرفت میں لے لیا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے سرمد کا دایاں ہاتھ مروڑ کر کمر سے لگا دیا۔
"میرا پہلا سوال ابھی جواب طلب ہے۔ کون ہو تم؟" حمزہ نے اسے مشکوک نظروں سے گھورتے ہوئے پھر پوچھا۔
"ایک پاکستانی۔ " سرمد نے مختصراً کہا۔
"فرشتے نہیں ہوتے پاکستانی۔ " حمزہ نے تلخی سے کہا۔ " تم ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟"
"یہ ذرا تفصیل طلب بات ہے اور اس حالت میں تو میں وضاحت نہ کر سکوں گا۔ " سرمد نے آنکھ کے اشارے سے حسین کی جانب اشارہ کیا۔
"ہوں۔ " حمزہ بڑی سرد نظروں سے چند لمحے اسے گھورتا رہا۔ پھر اس نے ریوالور اس کی پیشانی سے ہٹا لیا۔ "چھوڑ دو اسے۔ "
حسین نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ دیا اور سرمد اس کے دھکے سے بستر پر جا گرا۔ حمزہ کرسی گھما کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ریوالور اس پر تان لیا۔ اس کا انداز بتاتا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں اسے نشانہ بنا سکتا ہے۔
"حسین۔ باہر کا جائزہ لو۔ یہ اکیلا ہے یا۔۔۔ "
جواب میں حسین نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ریوالور پر ہاتھ جماتے ہوئے بڑی احتیاط سے دروازہ کھولا۔ دائیں بائیں گردن گھما کر دیکھا۔ پھر باہر نکل گیا۔ تقریباً دو منٹ بعد لوٹا تو اس کے چہرے کی وحشت غائب ہو چکی تھی۔
"لگتا ہے یہ اکیلا ہی ہے حمزہ بھائی۔ " وہ دروازہ لاک کر کے دوسری کرسی پر آ بیٹھا۔
"ہوں۔ " حمزہ نے سرمد کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "اب کھل جاؤ بچے۔ کون ہو اور کیوں آئے ہو؟ اور بولنے سے پہلے یہ سمجھ لو کہ ہمارے پاس تمہارے سچ جھوٹ کو جانچنے کے لئے وقت ہے نہ کوئی جواز۔ اس سے کم وقت میں ہم تمہاری لاش کو باتھ روم میں بند کر کے نکل جائیں گے۔ اس لئے جلدی، کم اور سچ بولو۔ "


عشق کا قاف (قسط نمبر 13)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font, ishq ka qaaf novel pdf download
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں