عشق کا قاف (قسط نمبر 8)

 ishq ka qaaf novel pdf download

عشق کا قاف (قسط نمبر 8)

وہ بید کی کرسی پر سر سینے پر جھکائے نجانے کس سوچ میں ڈوبا بیٹھا تھا۔ صفیہ اس کے قریب پہنچی تو اس کی آہٹ پر وہ چونکا۔
"کیا سوچ رہے ہیں میرے حضور؟" صفیہ نے کرسی سے کشن اٹھا کر نیچے گھاس پر ڈالا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔

"ارے اری۔ " وہ جلدی سے بولا۔ " یہ کیا۔ اوپر بیٹھو ناں۔ " اس نے پاؤں کھینچ لئے۔
"خاموش۔ " صفیہ نے آنکھیں نکالیں۔ " چائے آنے تک مجھے اپنا کام ختم کرنا ہے۔ " کہہ کر اس نے طاہر کے پاؤں تھام کر اپنی گود میں رکھ لئے۔
"اری۔ کیا کر رہی ہو بھئی۔ کسی ملازم نے دیکھ لیا تو۔۔۔ ؟" اس نے پاؤں واپس کھینچنا چاہے۔

"تو کیا ہو گا جناب عالی؟ میں کون سا آپ کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت کرنے جا رہی ہوں۔ ذرا دیکھئے۔ کس قدر خشکی ہو رہی ہے جلد پر۔ " صفیہ نے اس کے پاؤں پھر گود میں ڈال لئے اور بائیں ہاتھ سے بیگ کھول کر اس میں سے نیل کٹر نکال لیا۔
"ارے بابا۔ یہ کام میں خود کر لوں گا۔ تم رہنے دو۔ "طاہر نے اسے روکنا چاہا۔
"اگر اب آپ نے پاؤں واپس کھینچا ناں تو میں یہ پیر میں چبھو دوں گی۔ " صفیہ نے اسے نیل کٹر میں لگا چھوٹا سا چاقو دکھاتے ہوئے دھمکی دی۔ اس کے بچگانہ معصوم اور محبت بھرے لہجے پر طاہر بے اختیار مسکرا دیا اور پاؤں ڈھیلے چھوڑ دئیے۔

"یہ ہوئی ناں اچھے بچوں والی بات۔ " وہ خوش ہو گئی۔
پھر پہلے اس نے طاہر کے ہاتھ، پیروں کے ناخن کاٹے۔ اس کے بعد اس کے ہاتھوں ، پیروں اور آخر میں پنڈلیوں پر وائٹ جیل مالش کی۔ طاہر خاموشی سے اسے یہ سب کام کرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ یوں اپنے کام میں مگن تھی جیسے اس سے بڑا کام آج اسے اور کوئی نہ کرنا ہو۔ جب سیف چائے رکھ کر گیا تو وہ لان کے گوشے میں لگے نل پر ہاتھ دھو کر فارغ ہو چکی تھی۔

"یہ ملنگوں والی عادت چھوڑ دیجئے۔ اپنا خیال رکھا کیجئے۔ کل کو اگر میں نہ رہی تو آپ کو تو ہفتے بھر میں جوئیں پڑ جائیں گی۔ " واپس آ کر چائے بناتے ہوئے اس نے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔

"کہاں جانا ہے تمہیں ؟" طاہر اب اسے نام لے کر بلانے سے احتراز کرتا تھا، یہ بات صفیہ نے محسوس کر لی تھی مگر اس نے کسی بھی بات پر بحث یا اعتراض کرنے کا خیال فی الحال ترک کر دیا تھا۔ اسے حالات اور خاص طور پر طاہر کے نارمل ہونے تک انتظار کرنا تھا۔ اسے علم تھا کہ یہ انتظار سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے، مگر اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ طاہر کے دل میں اپنا مقام دوبارہ اجاگر ہونے تک وہ زبان سی رکھے گی۔ حق طلب نہ کرے گی اور فرض کو اوڑھنا بچھونا بنا لے گی۔ اب رات دن یہی کر رہی تھی وہ۔
"زندگی کا کیا بھروس
ہ ہے میرے حضور؟ جانے کب بلاوا آ جائے۔ " وہ چائے کا کپ اس کی طرف سرکاتے ہوئے بولی۔ "اس لئے اس کنیز کی موجودگی میں اپنا آپ سنبھال لینا سیکھ لیجئے۔ ملازم بہرحال ملازم ہوتے ہیں ، وہ وقت پر کھانا کپڑا تو مہیا کر سکتے ہیں ، بے وقت خدمت سے اکتا جاتے ہیں۔ "

"تم بھی کہیں اکتا تو نہیں گئیں ؟" طاہر نے اسے غور سے دیکھا۔
"میں۔۔ ؟" صفیہ نے اسے شکوے بھرے انداز میں دیکھا مگر دوسرے ہی پل اس کی آنکھیں شفاف ہو گئیں۔ "میں بھلا کیوں اکتاؤں گی۔ میں ملازم نہیں آپ کی کنیز ہوں اور کنیز خریدا ہوا وہ مال ہوتا ہے میرے حضور، جس کے دل سے اکتانے کی حس ختم کر کے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ محبت، خلوص اور ایثار کی دھک دھک بھر دیتا ہے۔ "
"تو میں نے تمہیں خریدا ہے؟" طاہر نے چسکی لے کر کپ واپس رکھ دیا۔
"جی ہاں۔ " صفیہ نے اطمینان سے جواب دیا۔ " اپنی محبت، اپنی توجہ اور اپنے پیار کے عوض آپ اس کنیز، اس باندی کو کب سے خرید چکے ہیں۔ "
طاہر لاجواب ہو گیا۔ دل میں ایک کسک سی ابھری۔ اس کی محبت اور توجہ سے تو صفیہ کتنے ہی دنوں سے محروم تھی۔ اب شاید وہ اس پر طنز کر رہی تھی یا اسے اس کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ اس نے دزدیدہ نگاہوں سے صفیہ کی جانب دیکھا۔ وہاں اسے طنز کی کوئی جھلک نہ ملی تو وہ سوچ میں ڈوب گیا۔

صفیہ سے بخار کے اٹیک کی رات اس کی بڑی کھل کر بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد اسے نارمل ہو جانا چاہئے تھا مگر وہ اب تک دل و دماغ کی جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ ابھی تک وہ خود کوواپس پہلی پوزیشن پر نہ لا سکا تھا، جہاں صرف وہ اور صفو تھی۔ جہاں ابھی صفی نے جنم نہ لیا تھا۔ اور اب تو صفی بھی پردے کے پیچھے چلی گئی تھی۔ وہ حتی الامکان اس کا نام لینے سے گریز کرتا تھا۔
چائے ختم ہو گئی۔ سیف برتن لے گیا۔

" آج کہیں باہر چلیں۔ " صفیہ نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے ا س کی جانب دیکھا۔
"کہاں ؟" طاہر کی نگاہیں اس سے ملیں۔
"جہاں بھی آپ لے جائیں۔ "
"جہاں تم جانا چاہو، چلے چلیں گے۔ " طاہر نے فیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔
"دوچار دن کے لئے گاؤں نہ چلیں ؟" صفیہ نے اشتیاق سے کہا۔
"گاؤں ؟" طاہر حیرت سے بولا۔ "وہاں جا کر کیا کرو گی۔ مٹی، دھول پھانکنے کے سوا وہاں کیا ہے۔ "
"چند دن کھلی آب و ہوا میں رہنے سے آپ کی طبیعت پر بڑا اچھا اثر پڑے گا اور میں بھی کبھی کسی گاؤں میں نہیں گئی، میری سیر ہو جائے گی۔ "
"ہوں۔ " طاہر نے ہنکارا بھرا۔
"اگر کوئی امر مانع ہے تو رہنے دیں۔ " صفیہ نے اسے الجھن میں دیکھ کر کہا۔
"نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ " طاہر نے اس کی جانب دیکھا۔ " میں صرف یہ سوچ رہا تھا وہاں جا کر تم بور ہو جاؤ گی۔ "
"سنا ہے آپ وہاں پندرہ پندرہ دن اور امی جان د و دو مہینے رہ کر آتی ہیں۔ آپ بور نہیں ہوتے کیا؟"
"میرا اور امی کا تو کام ہے۔ زمینوں کا حساب کتاب بڑے دقت طلب مسائل کا حامل ہوتا ہے۔ اس لئے بور ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا مگر تم۔۔۔ "
" آپ ساتھ ہوں گے تو بوریت کیسی؟" صفیہ نے اسے بڑی والہانہ نظروں سے دیکھا۔
"تو ٹھیک ہے۔ میں فون کر دیتا ہوں۔ دو بجے نکل چلیں گے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا راستہ ہے۔ عصر تک پہنچ جائیں گے۔ " اس نے نظریں چرا لیں۔
"ٹھیک ہے۔ " صفیہ بچوں کی طرح خوش ہو گئی۔ " میں پیکنگ کر لوں ؟"
"کر لو۔ " طاہر بیساختہ ہنس دیا۔ " مگر بہت زیادہ دنوں کا پروگرام نہ بنا لینا۔ آج منگل ہے۔ بس جمعے تک لوٹ آئیں گے۔ "
"جی نہیں۔ " وہ اٹھتے ہوئے بولی۔ " یہ وہاں جا کر سوچیں گے کہ کتنے دن رکنا ہے۔ ابھی آپ کے آفس جانے میں دس بارہ دن باقی ہیں اور امی کاتو ابھی واپسی کا کوئی ارادہ ہی نہیں۔ اس لئے اطمینان سے لوٹیں گے۔ " وہ بیگ اٹھا کر چل دی۔ نجانے کیوں طاہر کا جی نہ چاہا کہ وہ اسے ٹوکے۔ وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی اور اسے اس کی خوشی میں رکاوٹ ڈالنا اچھا نہ لگا۔
دوپہر کا کھانا کھا کر وہ گاؤں کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ گاڑی کی ڈگی میں صفیہ نے دو بکس رکھوائے تھے، جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا ارادہ جلدی لوٹنے کا قطعاً نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭٭
وجاہت آباد، طاہر کے والد سر وجاہت سلطان کے نام پر آباد تھا۔
گاؤں کیا تھا، قدیم بود و باش کا ایک ماڈل تھا۔ آج بھی وہاں رہٹ چلتے تھے۔ کھیتوں میں نئے دور کی کوئی کھاد نہ ڈالی جاتی تھی۔ ٹیوب ویل بھی تھے مگر آب پاشی کے لئے پرانے کنووں کو قطعاً ختم نہ کیا گیا تھا۔ وجاہت سلطان کو اپنے کلچر سے بیحد پیار تھا، اس لئے انہوں نے وہاں جدید آلات کے آنے پر پابندی نہ لگائی تو پرانے نظام کو ختم کرنے کی اجازت بھی نہ دی۔ ان کے مزارعے ان کے ایسے فرمانبردار تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ ورنہ یہ قوم کسی سے وفا کر جائے یہ ممکن ہی نہیں۔ نجانے وجاہت سلطان نے انہیں کیا سنگھایا تھا کہ وہ ان کے ہر حکم کو جی جان سے مان لیتے تھے۔ ان کے بعد بیگم وجاہت سلطان نے بھی ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جو ان کے شوہر کا خاصا تھا، اس لئے معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے تھے۔
وجاہت سلطان کا زندگی بھر ایک ہی اصول رہا تھا:
"کسی کا حق مارو نہ اپنا حق چھوڑو۔ اور عزت سب کے لئے۔ "
بیگم صاحبہ اور طاہر نے اس اصول میں کبھی لچک نہ آنے دی۔ ہر دُکھ سُکھ میں جب وہ گاؤں والوں کے ساجھی تھے تو انہیں کیا پاگل کتے نے کاٹا تھا کہ وہ ایسے مالکوں کے خلاف سوچتے۔ طاہر کی شادی پر جیسے شہر سلطان وِلا میں بلا کر ان کی پذیرائی کی گئی تھی، اس بات نے انہیں اور بھی گرویدہ کر دیا تھا۔
گاؤں میں "بیگم حویلی" بیگم صاحبہ کے لئے طاہر کے والد نے تعمیر کرائی تھی۔ یہ ابتدا سے اسی نام سے مشہور تھی۔ حویلی کا انتظام شروع سے مزارعوں کے نگران اور گاؤں کے معاملات کے منتظم بلال ملک کے ہاتھ میں تھا۔ اس کی جوانی ڈھل رہی تھی مگر آج بھی اس کی کڑک اور پھڑک ویسی ہی تھی۔ کسی کو اس کے سامنے دم مارنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ گاؤں میں بیگم صاحبہ اور طاہر کے بعد وہ سب سے با اختیار سمجھا جاتا تھا۔
حویلی کے باہر ہی بلال ملک چیدہ چیدہ افراد کے ساتھ طاہر اور اپنی چھوٹی مالکن کے استقبال کے لئے موجود تھا۔ طاہر نے گاڑی روکی اور صفیہ اس کے ساتھ باہر نکل آئی۔ حویلی کیا تھی، چھوٹا موٹا محل تھا جو بڑے پُر شکوہ انداز میں سر اٹھائے انہیں فخر سے دیکھ رہا تھا۔ صفیہ اس کی خوبصورتی سے بیحد متاثر ہوئی۔
بلال ملک اور اس کے بعد دوسرے لوگوں نے ان دونوں کے گلے میں ہار ڈالے اور انہیں چھوٹے سے جلوس کی شکل میں حویلی کے اندر لایا گیا۔
ہال کمرے میں وہ دونوں صوفوں پر بیٹھ گئے۔ سب لوگ جیسے کسی بادشاہ کے دربار میں حاضر تھے۔ کچھ دور پڑی کرسیوں پر بیٹھ کر انہوں نے ادب سے سر جھکا لئے۔ بلال ملک ان دونوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
"چھوٹی مالکن۔ اگر چاہیں تو اندر زنان خانے میں تشریف لے چلیں۔ گاؤں کی لڑکیاں بالیاں آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ " اس نے کہا۔
صفیہ نے طاہر کی جانب دیکھا۔ اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ صفیہ نے گلے سے ہار اتار کر صوفے ہی پر ڈالے اور ایک ملازمہ کے عقب میں چلتی ہوئی ہال کمرے کے اندرونی دروازے کی جانب بڑھ گئی جو زنان خانے کے کاریڈور میں کھلتا تھا۔
"اور سناؤ ملک۔ کیا حالات ہیں ؟" طاہر نے صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔
"اللہ کا کرم ہے چھوٹے مالک۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ " وہ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
اسی وقت ایک ملازم دودھ کا جگ اور گلاس ٹرے میں رکھے آ گیا۔ طاہر نے دودھ پیا اور ملازم برتن واپس لے گیا۔
"پچھلے دنوں جو باڑ آئی تھی، اس سے کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟" طاہر نے رومال سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں جی۔ ہمارا علاقہ تو محفوظ ہی رہا۔ ہاں ارد گرد کافی نقصان ہوا۔ دریا ابل پڑا تھا جی۔ بڑی مشکل میں رہے ہمسایہ دیہات کے لوگ۔۔۔ "
"تم نے ان کی کوئی مدد بھی کی یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے؟"
"مدد کیوں نہ کرتے جی۔ یہ تو ہم پر قرض ہوتا ہے جو ادا کئے بنا رات کو نیند نہیں آتی۔ " بلال ملک نے ادب سے جواب دیا۔
"اب میں تھوڑا آرام کروں گا ملک۔ اپنی مالکن کو بھی جلدی فارغ کر دینا۔ وہ پہلی بار گاؤں آئی ہے۔ پہلے ہی دن تھک کر لمبی لمبی نہ لیٹ جائے۔ " وہ ہنستا ہوا اٹھ گیا۔ اس کے ساتھ ہی سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"ان کی آپ فکر کریں نہ ان کے بارے میں سوچیں۔ اب وہ جانیں اور گاؤں والیاں۔ انہیں تو اگر وقت پر سونا بھی مل جائے تو غنیمت ہو گا۔ " ملک بھی ہنسا۔
"چلو ٹھیک ہے۔ اسے بھی گاؤں آنے کا بڑا شوق تھا۔ بھگتے اب۔ " طاہر کہہ کر ہال سے باہر نکل گیا۔ ملک باقی لوگوں کے ساتھ دوبارہ نشستوں پر براجمان ہو گیا اور ہلکی آواز میں باتیں ہونے لگیں۔
صفیہ کو گاؤں کی بڑی بوڑھیوں نے پیار کر کر کے اور سوغاتیں پیش کر کر کے نڈھال کر دیا۔ پھر لڑکیوں اور جواں سال عورتوں نے اس کے کمرے میں ایسا ڈیرہ ڈالا کہ اسے آرام کرنا بھول ہی گیا۔ شام کے قریب وہ اسے گاؤں کے کھیتوں کی سیر کو لے گئیں۔ ہر کوئی اسے دیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔ وہ ساری کلفتیں بھول کر ان کے ساتھ یوں گھل مل گئی جیسے یہ سارا ماحول اس کا صدیوں سے دیکھا بھالا ہو۔
٭٭٭٭٭٭
سیلاب دریا کی حدود میں داخل ہوا تو دریا بپھر گیا۔ اس انجان پانی کو اس کی اجازت کے بغیر ، اچانک اس کے گھر میں داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی؟ شاید یہی غصہ تھا جو دریا نے نکالا اور سینکڑوں دیہات اس کے غضب کا نشانہ بن گئے۔
وجاہت آباد دریا سے ذرا ہٹ کر واقع تھا اس لئے محفوظ رہا تاہم سب سے زیادہ نقصان جس گاؤں میں ہوا وہ عزیز کوٹ تھا۔ گاؤں کا گاؤں پانی میں ڈوب کر رہ گیا۔ درجنوں لوگ سیلاب کے ریلے میں بہہ گئے۔ کچے مکانوں کا وجود یوں مٹ گیا جیسے وہ کبھی موجود ہی نہ تھے۔ سیلاب رات کے پچھلے پہر اچانک ہی عزیز کوٹ والوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ نیند میں گم لوگ جب تک ہوش میں آتے، غرقابی ان کا مقدر بن چکی تھی۔ بچے، عورتیں ، بوڑھی، درجنوں لوگ سیلاب کی نذر ہو گئے۔ لاشوں کی تلاش اور گھرے ہوئے زندہ افراد کو بچانے کا کام اب بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر جاری تھا۔
وجاہت آباد والوں نے دن رات عزیز کوٹ والوں کے لئے وقف کر دئیے۔ لوگوں کو ان کے پانی میں گھرے مکانوں سے نکالنے سے لے کر ان کے لئے رہائش اور خور و نوش کا وافر انتظام کرنے تک وجاہت پور والوں نے حکومتی مشینری کا ایسا بے مثال ساتھ دیا کہ ہر طرف واہ واہ ہو گئی۔
عزیز کوٹ اور وجاہت آباد کا درمیانی فاصلہ تقریباً چھ کلو میٹر تھا مگر وجاہت آباد والوں نے اپنے تعاون اور محبت سے اس فاصلے کو چھ فٹ میں بدل دیا۔ پانی اترنے تک انہوں نے بچے کھچے عزیز کوٹ والوں کو اپنے ہاں سنبھالے رکھا۔ پھر جب حکومت نے امدادی کیمپ تشکیل دے لئے تب ان لوگوں کو وہاں سے جانے دیا۔ عزیز کوٹ کے باشندے دھیرے دھیرے اپنے گاؤں کو لوٹ رہے تھے۔ مکانوں کو دوبارہ تعمیر کر رہے تھے۔ سیلاب جو کیچڑ اور گارا اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا، اس کی صفائی کا کام بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ اب بھی وجاہت آباد کے درجنوں لوگ امدادی سرگرمیوں میں فوج اور سول انتظامیہ کا ہاتھ بٹانے کے لئے متاثرہ علاقے میں موجود تھے۔
عزیز کوٹ کو ڈبو کر سیلابی پانی نے جب اپنا راستہ بدلا تو نور پور کے قریب سے یوں گزر گیا جیسے اس علاقے میں اسے سر اٹھا کر چلنے کی بھی اجازت نہ ہو۔ نور پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے نفوس کی تعداد بمشکل تین ہزار تھے۔ سیلاب، گاؤں کے باہر باہر سے اپنا راستہ بنا کر خوش خرامی کے ساتھ بہتا ہوا نکل گیا تاہم ابھی تک اس پانی کا زور کم نہ ہوا تھا۔
حافظ عبداللہ چھوٹے موٹے دریا کا منظر پیش کرتے ہوئے سیلابی کٹاؤ کے کنارے ایک اونچے ٹبے پر بیٹھا نجانے کس سوچ میں گم تھا۔ وہ حافظ قرآن تھا۔ دنیا بھر میں اکیلا اور اس وقت زندگی کے پچیسویں سال میں تھا۔ نور کوٹ گاؤں کی ایک بے آباد چھوٹی سی مسجد کو آج سے سات سال پہلے آ کر اس نے آباد کیا تو گاؤں والوں نے اس کی دو وقت کی روٹی اور ضروری اخراجات کو ہنس کر اپنے ذمے لے لیا۔ اس نے اس سے زیادہ کا مطالبہ بھی نہ کیا۔ گاؤں کے بچوں کو نماز فجر کے بعد قرآن پڑھانا اس کے معمولات میں شامل تھا۔ گاؤں کے چوہدری حسن دین کے گھر سے اسے خاص تعلق تھا۔ اس نے چوہدری حسن دین کے تین بیٹوں رفاقت، عنایت، لطافت اور ایک بیٹی نادرہ کو قرآن پاک پڑھایا تھا۔ اس نسبت سے یہ گھرانا اس کی بڑی عزت کرتا اور اسے اپنے گھر ہی کا ایک فرد خیال کرتا تھا۔ اس کا ماہانہ خرچہ بھی چوہدری حسن دین کی حویلی سے آتا جس کے لئے اسے خود کبھی حویلی نہ جانا پڑا تھا۔ ادھر مہینے کی پہلی تاریخ آئی، ادھر اس کا پہلوٹھی کا شاگرد رفاقت اس کا مشاہرہ اور دوسرا ضروری سامان لے کر مسجد میں اس کے حجرے کے دروازے پر آ دستک دیتا۔ گاؤں والے اس کے علاوہ اس کی جو خدمت کرنا چاہتے، وہ اکثر اس سے انکار کر دیتا۔ اکیلی جان تھی، اس کی ضروریات محدود سی تھیں۔ لالچ اور جمع کرنا اس کی فطرت ہی میں نہ تھا، اس لئے بھی گاؤں والے اس کے کردار سے بیحد متاثر تھی۔ تاہم وہ جو لے آتے، اسے واپس لے جانا انہیں اپنی توہین لگتا، اس لئے اصرار کرتے تو حافظ عبداللہ کو ان کا نذرانہ قبول کرنا پڑتا۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ اجناس اور روپوں کی آمد اس کی ضرورت سے زیادہ ہے تو اس نے مسجد کے صحن میں بائیں ہاتھ بنے، اپنے حجرے کے دو کمروں کے اوپر چوہدری حسن دین سے کہہ کر ایک بڑا ہال کمرہ ڈلوا لیا۔ اس مہمان خانے کا راستہ مسجد کے باہر ہی سے رکھا گیا تاکہ اسے اور نمازیوں کو دقت نہ ہو۔ یہ کمرہ اجنبی مسافروں اور بے آسرا مہمانوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیا گیا۔ یوں اس کی زائد آمدنی کے خرچ کا ایک راستہ نکل آیا۔ اب وہ بھی خوش تھا اور گاؤں والے بھی۔
اس کا ایک عرصے سے معمول تھا کہ روزانہ عصر کے بعد نور پور سے چار فرلانگ دور مشرق میں واقع ایک خانقاہ سے تقریباً ڈیڑھ سو گز دور، ایک اونچے ٹبے پر اُگے پیپل کے درخت کے نیچے آ بیٹھتا اور قرآن حکیم کی دہرائی شروع کر دیتا۔ جب سورج، شفق کی لالی سے دامن چھڑانے لگتا، تب وہ قرآن پاک کو چوم کر سینے سے لگاتا۔ اٹھتا۔ درخت کو تھپکی دیتا، جیسے اس سے رخصت ہو رہا ہو اور مسجد کو چل دیتا جہاں اسے پانچ وقت اذان بھی خود ہی دینا ہوتی تھی۔
یہ خانقاہ کسی بابا شاہ مقیم نامی بزرگ کے مزار اور دو شکستہ سے کمروں پر مشتمل تھی۔ مزار کے وسیع صحن میں ایک طرف چھوٹا سا سٹور نما کمرہ تھا جس میں لوگوں کے نذرانوں کی اشیا، اجناس، دری چادریں اور دوسرا سامان بھرا رہتا تھا۔ یہاں ابھی تک بجلی کا کنکشن نہ پہنچا تھا۔ نور پور والوں نے واپڈا کو درخواست دے رکھی تھی اور امید تھی کہ جلد ہی وہاں بجلی لگ جائے گی۔ مزار سے تھوڑی دور دریا بہتا تھا جس کے پار مظفر آباد کی آبادی کا اختتام ہوتا تھا۔
مزار کی دیکھ بھال ایک ایسا شخص کرتا تھا، جس کے بارے میں کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ ملگجے کپڑوں میں ملبوس وہ حال مست درویش خانقاہ کی صفائی کرتا۔ اِدھر اُدھر سے خود رَو پھول اکٹھے کر کے بابا شاہ مقیم کے مزار پر لا ڈالتا۔ وہاں موجود چھوٹی سی کھوئی سے پانی نکالتا۔ خانقاہ اور اس سے ملحقہ کمروں کو دھوتا اور اگر بتیاں سلگا کر پھر اپنے کمرے میں گھس جاتا۔ یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا۔ اسے گاؤں والوں نے نہ کبھی کسی سے عام طور پر بات چیت کرتے سنا، نہ وہ کسی سے کوئی چیز لیتا۔ اگر کسی نے زیادہ نیاز مندی دکھانے کی کوشش کی تو وہ اسے یوں گھورتا کہ نیازمند کو بھاگتے ہی بنتی۔ اس کے کھانے پینے کا انتظام کیسے ہوتا تھا؟ یہ بات کسی کے علم میں تھی نہ کسی نے ا س کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ اس کا سبب درویش کا رویہ تھا، جس کے باعث مزار پر فاتحہ کے لئے آنے والے افراد بھی اس سے کتراتے تھے۔ اس کا حال پوچھ کر وہ ایسے ایسے جواب بھگت چکے تھے جن کے بعد اب کسی کا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ وہ اس سے راہ و رسم پیدا کرنے کی سوچے۔ ہاں ، حافظ عبداللہ کا معاملہ الگ تھا۔ وہ جب بھی مزار پر فاتحہ کے لئے جاتا، درویش اپنے کمرے سے نکل آتا۔ اس کے جانے تک مزار کے باہر کھڑا رہتا۔ جاتے ہوئے اس سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملاتا۔ چمکدار نظروں سے اسے دیکھتا۔ ہولے سے مسکراتا اور واپس اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ حافظ عبداللہ نے بھی اس سے زیادہ اسے کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ ہاں اگر کبھی وہ اسے نہ ملتا، تو وہ اس کے کمرے میں ضرور جھانک لیتا مگر اسے وہاں موجود نہ پاتا۔ اس سے حافظ عبداللہ نے سمجھ لیا کہ درویش سے ا س کی ملاقات تبھی نہیں ہوتی، جب وہ وہاں نہیں ہوتا۔ وہ کہاں جاتا ہے؟ کب لوٹتا ہے؟ حافظ عبداللہ نے کبھی ان سوالوں کا جواب جاننے کی سعی نہ کی۔
آج اس کا دل کچھ عجیب سا ہو رہا تھا۔ منزل کرنے کو جی مائل نہ تھا۔ اس کے دادا قاری بشیر احمد مرحوم کا کہنا تھا کہ زبردستی قرآن پاک پڑھنا چاہئے نہ اس پر غور کرنا چاہئے، بلکہ جب قرآن خود اجازت دے، تب اسے کھولا جائے۔ اور اس کی طرف سے اجازت کی نشانی یہ تھی کہ بندے کا دل خود قرآن پڑھنے کو چاہے۔ سو آج بڑی مدت کے بعد جب حافظ عبداللہ کا دل دہرائی کو نہ چاہا تو وہ سمجھ گیا کہ آج قرآن پاک کی طرف سے اسے منزل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے وہ قرآن حکیم کا نسخہ اپنے ساتھ ہی نہ لایا۔ مقررہ وقت پر ٹبے پر پہنچا اور سیلاب کی دھیرے دھیرے بہتی لہروں پر نظریں جما کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ سوچوں کے گرداب میں ایسا گم ہوا کہ خود سے بے خبر ہو گیا۔ وقت گزرنے کا احساس ناپید ہو گیا۔ پھر جب سورج کی ٹکیہ اپنے آخری مقام کو چھونے لگی تو اسے ہوش آیا۔
ایک طویل سانس لے کر اس نے حدِ نظر تک پھیلی سیلابی چادر پر ایک نگاہ ڈالی اور اٹھ گیا۔ پھر ایک دم چونک پڑا۔
اس کی نظریں پانی میں بہتے آ رہے درخت کے ایک تنے پر جم گئیں جس کے ساتھ کوئی انسانی جسم چمٹا ہوا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا۔ وہ کوئی عورت تھی، کیونکہ دور سے بھی اس کے پھولدار کپڑوں کی جھلک نمایاں تھی۔
حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ خانقاہ کی جانب نظر دوڑائی مگر درویش کو آواز دینے کا اسے حوصلہ نہ ہوا۔ چاہا کہ گاؤں سے کسی کو مدد کے لئے بلائے مگر اتنا وقت نہ تھا۔ جب تک وہ کسی کو مدد کے لئے بلاتا، اندھیرا مزید بڑھ جاتا۔ پھر وہ دریا میں بہتی اس عورت کو بچا پاتا، اس کا اسے یقین نہ تھا۔ اس نے زیادہ تردد میں پڑنے کے بجائے کندھوں سے گرم چادر اور سرسے ٹوپی اتار کر درخت کے نیچے رکھتے ہوئے پاؤں سے چپل بھی نکال دی۔ پھر آستینیں اُڑستے ہوئے ٹھنڈے یخ پانی میں چھلانگ لگا دی۔
اس کا خیال درست تھا۔ درخت کے تنے کے قریب پہنچا تو پتہ چلا کہ اس سے چمٹی ہوئی وہ ایک جواں سال لڑکی ہی تھی جو بیچاری نجانے کہاں سے سیلاب کے ریلے میں بہتی چلی آ رہی تھی۔ اس نے بڑی مضبوطی سے درخت کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو اپنے ہاتھوں سے جکڑ رکھا تھا۔ آنکھیں بند تھیں اور بیہوش تھی۔ سردی اور سرد پانی کے باعث اس کے ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے۔
حافظ عبداللہ نے اس کے جسم سے چپکے ہوئے کپڑوں سے بری طرح جھانکتے اس کے جسم سے نظریں چراتے ہوئے درخت کے تنے کو پیروں کی جانب سے کنارے کی طرف دھکیلنا شروع کیا اور بڑی مشقت سے تقریباً پندرہ منٹ بعد ٹبے کے قریب لانے میں کامیاب ہو گیا۔
کنارے کی کچی زمین پر ایک چوتھائی درخت کو کھینچ لینے کے بعد اس نے آنکھیں بند کر کے جگہ جگہ سے پھٹ جانے والے کپڑوں سے جھانکتے لڑکی کے نیم برہنہ اکڑے ہوئے جسم کو اس پر سے اتارا۔ اس کی مدھم سی چلتی ہوئی سانس کو محسوس کیا۔ ٹبے سے اپنی چادر اٹھائی۔ اس میں لڑکی کو لپیٹا۔ ٹوپی سر پر رکھی۔ پاؤں میں چپل ڈالی۔ درخت کو حسبِ معمول تھپکی دی اور ٹبے سے اتر آیا۔ پھر لاحول پڑھ کر شیطانی خیالات کو دور بھگاتے ہوئے آنکھیں بند کر کے لڑکی کا چادر میں لپٹا جسم کندھے پر ڈالا۔ اس کے اپنے گیلے کپڑے جسم سے چپکے ہونے کی وجہ سے سردی ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی۔
اسی وقت خانقاہ سے "ا للہ اکبر" کی صدا بلند ہوئی۔ وہ ایک پل کو حیران ہوا۔ درویش خانقاہ کے باہر ایک اونچی جگہ کھڑا اذان دے رہا تھا۔ وہ لڑکی کا جسم کندھے پر لئے حتی الامکان تیز قدموں سے خانقاہ کی جانب چل دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
جب تک وہ خانقاہ کے قریب پہنچا، درویش اذان دے کر اندر جا چکا تھا۔ اس نے ایک لمحے کو خانقاہ سے باہر کھڑے رہ کر کچھ سوچا، پھر اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہو گیا۔
پہلے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ ایک پل کو اس کے باہر رکا۔ اندر سے کسی کے ہلکی آواز میں قرات کرنے کی آواز ا رہی تھی۔ شاید درویش نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے دوسرے کمرے کا رخ کیا جس کا دروازہ کھلا تھا۔ باہر ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ کمرے کی واحد کھڑکی سے آتی ہوئی ملگجی سی روشنی کمرے کا اندھیرا دور کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرے کے ماحول کو محسوس کیا۔ چند لمحے بُت بنا کھڑا رہا۔ پھر جب اس کی آنکھیں نیم اندھیرے میں دیکھنے لگیں تو وہ قدم قدم آگے بڑھا۔ کمرے کی بائیں دیوار کے ساتھ بچھی بان کی چارپائی پر لڑکی کو ڈالا اور دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا سانس اعتدال پر آتے آتے دو تین منٹ گزر گئے۔ لڑکی پر ایک طائرانہ نظر ڈال کروہ آہستہ سے پلٹا۔ اس کا ارادہ تھا کہ درویش سے جا کر ملے اور اسے ساری بات بتا کر اس صورتحال میں اس سے مدد مانگے۔
ابھی وہ دو ہی قدم چلا تھا کہ رک گیا۔ کمرے میں اچانک ہی روشنی کی ایک لہر در آئی تھی۔ اس نے ٹھٹک کر دیکھا۔ درویش کمرے کے دروازے میں جلتا ہوا چراغ ہاتھ پر رکھے کھڑا اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
" بابا۔ آپ۔۔۔ " حافظ عبداللہ نے اسے دیکھ کر کہنا چاہا۔
"شش۔۔۔ " درویش نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے بولنے سے روک دیا اور آگے بڑھ آیا۔ " خاموش۔ " وہ دبی آواز سے بولا۔ " کمرہ امتحان میں بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ "
"کمرہ امتحان؟" حافظ عبداللہ نے حیرت سے کہا۔
"ہاں۔ " درویش نے چراغ اسے تھما دیا۔ " یہ لے۔ اسے طاق میں رکھ دے۔ "
"بابا۔ " حافظ عبداللہ نے چراغ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ وہ اب بھی حیرت زدہ تھا۔ "کیسا امتحان؟ "
"یہ۔۔۔ " درویش نے چارپائی بے سدھ پر پڑی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ " یہ امتحان ہی تو ہے جس میں تو نے خود کو ڈال لیا ہے۔ "
"یہ۔۔۔ یہ تو۔۔۔ سیلاب کے پانی میں بہتی چلی آ رہی تھی۔۔۔ میں تو اسے بچا کر یہاں اٹھا لایا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے اسے بتایا۔
"اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا۔ " درویش نے ایک کونے میں پڑا کمبل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا کہ لڑکی کو اوڑھا دے۔ " نیکی کی ہے ناں۔ اب بھگت۔ نیکی کرنا اتنا آسان ہوتا تو ساری دنیا کرتی پھر تی۔ نیکی کرنا اس کی مشیت کے تابع ہونا ہے حافظ۔ تابعدار ہونا چاہا ہے ناں تو نے؟ ایک بار سوچ لے۔ اچھی طرح۔ ابھی وقت ہے کہ تو آزمائش میں پڑے بغیر نکڑ کی گلی سے نکل جائے۔ کچھ دیر اور گزر گئی تو یہ راستہ بند ہو جائے گا۔ پھر تو چاہے نہ چاہے، تجھے امتحان دینا پڑے گا۔ نتیجہ کیا نکلے گا؟ نہ تو جانتا ہے نہ میں۔ بس وہ جانتا ہے۔" درویش نے چھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔ " وہ۔۔۔ جو سب جانتا ہے اور کچھ نہیں بتاتا۔ جسے بتاتا ہے اسے گونگا بہرہ کر دیتا ہے۔ اندھا بنا دیتا ہے۔ ابھی وقت ہے۔ سوچ لے۔ سوچ لے۔ " درویش نے اپنی بے پناہ چمک دیتی آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا۔
"بابا۔ " حافظ نے چراغ طاق میں پڑے قرآن پاک کے چند بوسیدہ نسخوں کے پاس رکھا اور کمبل میں لڑکی کا بدن خوب اچھی طرح لپیٹ کر درویش کی جانب پلٹا۔ "میں کچھ نہیں سمجھا۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ "
"کھل کر سمجھاؤں تجھے؟" اچانک درویش کا لہجہ جھڑکی دینے کا سا ہو گیا۔ " تو سُن۔ جا۔ اس کو وہیں سیلاب کے پانی میں پھینک آ۔ نیکی ہے ناں۔ اسے اسی دریا میں ڈال آ، جہاں سے نکال کر لایا ہے۔ نیک نہ بن۔ خطا کار بنا رہ۔ جان بچی رہے گی۔ نیک بنے گا تو امتحان میں ڈال دے گا تجھے۔۔۔ " اس نے سسکی لی۔ "بڑا ڈاہڈا ہے وہ۔ رعایتی نمبر آسانی سے نہیں دیتا۔۔۔ " پھر جیسے وہ جھلا گیا۔ "مگر میں تجھے یہ سب کیوں سمجھا رہا ہوں ؟ کیوں تیرا اور اپنا وقت خراب کر رہا ہوں ؟ جو تیرے جی میں آئے کر میاں۔ " اس نے حافظ کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔ " کل کو تو اس کے سامنے میرے خلاف گواہی دے دے گا کہ میں نے تجھے نیکی کرنے سے روکا تھا۔ نہ بابا نہ۔ تو اپنی مرضی کر۔ تو جانے اور وہ۔ مجھے معاف رکھ۔ " وہ بڑبڑاتا ہوا جانے کے لئے پلٹا۔
"بابا۔ " حافظ عبداللہ لپک کر اس کے راستے میں آ گیا۔ " مجھے کس الجھن میں ڈال کر جا رہے ہیں آپ؟ میں۔۔۔ میں۔۔۔ اس کا کیا کروں ؟" اس نے بازو دراز کر کے لڑکی کی جانب اشارہ کیا جو ہولے سے کسمسائی تھی۔
درویش ایک بار ساری جان سے لرز گیا۔ پھر اس نے بڑی اجنبی نظروں سے حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ حافظ ان نظروں سے گھبرا کر رہ گیا۔ عجیب سی سردمہری تھی ان میں۔
"میں نے کہا تھا کہ وقت گزر گیا تو امتحان شروع ہو جائے گا تیرا۔ " درویش نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہا۔ " گھنٹی بج چکی۔ پرچہ حل کرنے کا وقت شروع ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو نے باتوں میں وہ سارا وقت گزار دیا جو تجھے بھاگ جانے کے لئے دیا گیا تھا۔ نکڑ کی گلی بند ہو گئی۔ اب تو جس دروازے سے کمرہ امتحان میں داخل ہوا تھا اسی سے باہر جائے گا مگر اس وقت جب پرچہ حل کر لے گا۔ خالی کاغذ دے کر جانا چاہے گا تو میں نہیں جانے دوں گا۔ " درویش نے کسمسا کر کراہتی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ "یہ پرچہ تجھے ہی حل کرنا ہے۔ میں دعا کروں گا کہ تجھے اس میں زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے۔ اب وہ مانے یا نہ مانے، یہ اس کی مرضی۔ " وہ چل دیا۔
"بابا۔ " حافظ اس کے پیچھے لپکا۔ " مجھے مسجدجانا ہے۔ وہاں کسی کو پتہ نہیں کہ میں کہاں ہوں اور کس کام میں الجھ گیا ہوں۔۔۔ اس کے وارثوں کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ یہ کون ہے؟ کہاں سے بہتی آئی ہے؟ اسے یوں کیسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں ہم؟"
"ہم نہیں۔ " درویش نے ہاتھ اٹھا کر اسے ٹوک دیا۔ "تم۔۔۔ صرف تم۔ میرا اس سے کیا تعلق؟ " وہ بد لحاظی سے بولا۔
"مگر بابا۔ رات بھر میں اس کے ساتھ کیسے۔۔۔ یہاں۔۔۔ اکیلا۔ " حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
"یہی تو میں تجھے سمجھا رہا تھا اس وقت۔ " درویش ملامت کے سے انداز میں بولا۔ " اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ اسے جہاں سے لایا ہے وہیں ڈال آ۔ خواہ مخواہ مصیبت میں نہ پڑ۔۔۔ مگر ۔۔۔ "
"تمہارا مطلب ہے بابا۔ میں اسے واپس سیلاب کے پانی میں پھینک آتا؟" حافظ عبداللہ نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔
"ہاں۔ " درویش سر جھٹک کر بولا۔ " یہی مطلب تھا میرا۔ مگر تو نے کج بحثی میں سارا وقت گنوا دیا۔ اب بھگت۔ "
" بابا۔ تم جانتے ہو اس سے کیا ہوتا؟" حافظ عبداللہ اب بھی حیران تھا۔
"کیا ہوتا؟" درویش نے لاپرواہی سے پوچھا۔
"یہ مر جاتی۔ "
"بچانے والے کی کیا مرضی ہے، یہ تو کیسے جانتا ہے؟ اگر اسے بچانا ہوتا تو وہ اسے تیرے واپس پانی میں پھینکنے پر بھی بچا لیتا۔ "
"بالکل ٹھیک۔ " حافظ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔ "مگر بابا۔ پھر میں اسے کیا منہ دکھاتا۔ اپنے اس ظلم کا کیا جواز پیش کرتا اس کے سامنے، جو میں اس مظلوم کی جان پر کرتا۔ "
"تو نہ پیش کر جواز۔ اب بھگت۔ اس اندھیری رات میں ، اس کے ساتھ اکیلا رہ اور اس کی دیکھ بھال کر۔ اس کی خدمت کر۔ اسے زندہ رکھنے کی کوشش کر۔ آزمائش کے کمرے میں بیٹھ کر پرچہ حل کر۔ اگر صبح تک تو اپنے آپ سے بچ گیا تو میں تجھ سے آن ملوں گا ورنہ۔۔۔ " اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
" آپ کہاں جا رہے ہیں بابا؟" حافظ نے گھبرا کر پوچھا۔
"پتہ نہیں۔ مگر یہاں بہرحال نہیں رہوں گا۔ " درویش اس کی جانب دیکھ کر عجیب سے انداز میں بولا۔ " یہاں رہا تو تجھے میرا آسرا رہے گا۔ حوصلہ رہے گا کہ تو اکیلا نہیں ہے۔ میں تیرے آس پاس ہوں۔ تجھے میرے یہاں ہونے کی شرم مارے گی۔ تو جو کرنا چاہے گا، اس میں میرے یہاں ہونے کا خیال رکاوٹ بن جائے گا۔ پھر تو موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا۔ اور میں تیرے کسی بھی فعل میں اگر مدد نہیں کرنا چاہتا تو تیرے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں حائل ہونے کا بھی مجھے کیا حق ہے؟"
"بابا۔ " حافظ نے کہا اور چراغ کی مدھم سی روشنی میں گردن گھما کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ایک بار پھر بالکل بے سدھ ہو گئی تھی۔ شاید کمبل کی گرمی نے اسے سکون پہنچایا تھا۔ پھر وہ درویش کی جانب متوجہ ہوا۔ "اب جو ہو سو ہو۔ اب مجھے مجبوراً یہاں رکنا پڑے گا۔ "
"تو رک۔ میں کب نکال رہا ہوں تجھے۔ ہاں ایک پل ٹھہر۔ " درویش کمرے سے نکل گیا۔ ذرا دیر بعد وہ لوٹا تو اس کے ایک ہاتھ میں چنگیر اور دوسرے ہاتھ میں ایک کھیس اور تکیہ دبا ہوا تھا۔ " یہ لے۔ اس میں تیرے اور اس کے لئے کھانا ہے اور یہ تیرا رات گزارنے کا سامان ہے۔ اکڑ کر مر گیا تو میں اسے کیا جواب دوں گا؟"
حافظ عبداللہ نے اس کے ہاتھ سے دونوں چیزیں لے لیں۔
"جا رہا ہوں۔ اب تیرے اور اس کے سوا یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ "’
"ہے بابا۔ " حافظ عبداللہ مسکرایا اور کھیس اور تکیہ دیوار کے ساتھ فرش پر ڈال دیا۔
"جس کی تو بات کر رہا ہے، میں اس کی بات نہیں کر رہا۔ وہ تو ہر کہیں ہے۔ بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔ " درویش پلٹ گیا۔ "صبح ملاقات ہو گی۔ "
"انشاءاللہ۔ " حافظ کے لہجے میں نجانے کیا تھا کہ درویش نے مڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
"انشاءاللہ۔ " ہولے سے اس نے کہا اور دروازے سے نکل گیا۔
خالی دروازے کو چند لمحوں تک دیکھتے رہنے کے بعد حافظ عبداللہ آہستہ سے لڑکی کی جانب پلٹا۔ چراغ کی زرد اور تھرتھراتی روشنی میں اس نے دیکھا کہ وہ چارپائی پر بالکل چت پڑی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کی سرخی لوٹ رہی تھی۔ گیلے بالوں کی لٹیں چہرے پر بکھری ہوئی تھیں
حافظ عبداللہ نے گھبرا کر اس کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں۔ شیطانی خیالات سے نجات پانے کے لئے تین بار لاحول پڑھ کر سینے پر پھونک ماری اور آگے بڑھ کر چنگیر اس الماری نما کھڈے میں رکھ دی جو طاق کے ساتھ بنا ہوا تھا۔
کھیس اور تکیہ اٹھاتے ہوئے اچانک ہی اسے سردی کا احساس ہوا۔ اس نے کچھ سوچا۔ پھر دونوں چیزیں اینٹوں کے فرش پر ڈال کر کمرے سے نکل آیا۔ دونوں کمرے خالی تھی۔ درویش واقعی کہیں جا چکا تھا۔ مزار سے باہر ایک طرف لگے ہینڈ پمپ کی طرف جاتے ہوئے اس نے آسمان پر نگاہ دوڑائی۔ تارے نکل رہے تھے۔ دل ہی دل میں اس نے چاند کی تاریخ کا حساب لگایا۔ گزشتہ دن میں ربیع الاول کی گیارہ تاریخ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بارہ ربیع الاول کی شب شروع ہو چکی تھی۔ آسمان صاف تھا اور چاند ابھرنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔
انہی خیالات میں ڈوبا وہ ہینڈ پمپ پر پہنچا۔ گیلا کُرتا اور بنیان اتار کر اچھی طرح نچوڑ کر دوبارہ پہننے کے بعد اس نے ایک نظر مزار کے اندرونی دروازے پر ڈالی۔ پھر وہاں سے ہٹ گیا۔ مزار کے پیچھے جا کر اس نے جلدی سے شلوار اتاری۔ خوب اچھی طرح نچوڑ کر پانی نکالا اور جھاڑ کر پہن لی۔ ہولے ہولے چلتا ہوا ہینڈ پمپ پر آیا۔ ہتھی کو چھوا تو جسم میں کپکپی سی دوڑ گئی۔ تاہم اس نے حوصلے سے کام لیا اور ہتھی پر زور ڈال دیا۔ تھوڑی دیر تک پانی نکلنے دیا۔ پھر دوسرا ہاتھ نکلتے ہوئے پانی کے نیچے کیا تو پانی کم ٹھنڈا محسوس ہوا۔ تھوڑا پانی اور نکالنے کے بعد اس نے "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کہہ کر وضو شروع کر دیا۔ فارغ ہوا تو اس کے دانت بج رہے تھے۔ گیلی ٹوپی کو سر پر جماتے ہوئے وہ کانپتا ہوا اندر کو چلا۔ کمرے میں داخل ہوا تو لڑکی بدستور اسی حالت میں چت پڑی سو رہی تھی، جیسے وہ چھوڑ گیا تھا۔ اس نے اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالی اور جوتی دروازے میں اتار کر کونے میں کھڑی کھجور کی چٹائی کی طرف بڑھا۔ اسے کھولا۔ جھاڑا اور چارپائی کے مقابل دیوار کے ساتھ فرش پر بچھا دیا۔ پھر کھیس اٹھایا اور کس کر اس کی بکل مار لی۔ اسی وقت کھلے دروازے سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا اندر داخل ہوا۔ ٹھنڈک کو کمرے کے ماحول کے سپرد کیا اور ناپید ہو گیا۔ پلٹ کر حافظ عبداللہ نے دروازہ بھیڑ دیا۔
اسی وقت کھلے دروازے سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا اندر داخل ہوا۔ ٹھنڈک کو کمرے کے ماحول کے سپرد کیا اور ناپید ہو گیا۔ پلٹ کر حافظ عبداللہ نے دروازہ بھیڑ دیا۔ فوراً ہی اسے کمرے کی یخ بستگی میں کمی کا احساس ہوا۔ یہ شاید اس کے محسوس کرنے کا اعجاز تھا، ورنہ اتنی جلدی سردی کا کم ہو جانا ممکن نہ تھا۔
وہ پاؤں جھاڑ کر صف پر کھڑا ہوا۔ ایک بار نظر گھما کر سارے کمرے کا جائزہ لیا۔ پھر قبلہ رخ ہو کر اس نے نماز کی نیت کی اور ہاتھ بلند کر دئیے۔
"اللہ اکبر۔ " حافظ عبداللہ کے ہونٹوں سے سرگوشی بر آمد ہوئی اور سارا ماحول عجیب سے سکون میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس نے ہاتھ ناف پر باندھے اور آنکھیں سجدے کی جگہ پر جما کر اتنی آہستہ آواز میں قرات شروع کر دی جسے وہ خود سن سکتا تھا یا پھر اس کا معبود، جو پہاڑ کی چوٹی پر چیونٹی کے رینگنے کی آواز سننے پر بھی قادر تھا۔ چراغ کی لو نے تھرتھرانا بند کر دیا۔ شاید وہ بھی حافظ عبداللہ کی قرات سننے میں محو ہو گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کا کھانا عشاء کے فوراً بعد کھا لیا گیا۔ پھر دوبارہ سے صفیہ کو تو عورتوں نے گھیر لیا اور طاہر، ملک کے ساتھ چوپال میں چلا گیا۔
چوپال گاؤں کے مغربی کنارے پر قبرستان کے ساتھ ایک ایسی بے درو دیوار کی چھت کے نیچے نشست کی جگہ تھی، جو آٹھ مدور ستونوں پر قائم تھی اور اس کے نیچے تقریباً پانچ سو آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ اس کے مشرقی گوشے میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے باہر چولہا بنا ہوا تھا۔ اس پر وہاں خدمت گار بابا شمسو روزانہ شام ہوتے ہی چائے کا بڑا سا پتیلا چڑھا دیتا جو گاؤں والوں اور اجنبی مہمانوں کی سیوا کے لئے لذتِ کام و دہن کا سبب بنتا۔ بید کے موڑھے اور بڑی بڑی چارپائیاں چوپال میں پڑی رہتیں ، جن پر رات کو گاؤں والوں کی بلا ناغہ محفل جمتی۔
سفید شلوار قمیض اور سیاہ گرم واسکٹ میں ملبوس، پاؤں میں زرتار کھسہ پہنے طاہر، بلال ملک کی معیت میں وہاں پہنچا تو گاؤں کے پچیس تیس بڑے بوڑھے اور جوان آدمی بیٹھے حقے گڑگڑا تے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔
طاہر کی آمد پر سب لوگ ایک بار کھڑے ہوئی، پھر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ وہ ان کے نیم دائرے میں ایک موڑھے پر بیٹھ گیا اور فرداً فرداً سب کا حال چال پوچھنے لگا۔ ہوتے ہوتے باتوں کا موضوع گاؤں کے سکول ماسٹر شیخ محسن کی بیٹی پر آ کر رک ساگیا۔
"ماسٹر کی بیٹی زبیدہ نے اپنے لئے آیا ہوا اپنی برادری کے ایک چالیس سالہ شخص نثار شیخ کا رشتہ صاف ٹھکرا دیا جی۔ " ملک کہہ رہا تھا۔
"زبیدہ کی اپنی عمر کتنی ہے؟" طاہر نے دلچسپی سے پوچھا۔
"بیس اکیس سال ہو گی جی۔ "
"پھر تو اس نے ٹھیک کیا۔ " طاہر نے تائید کی۔ " دگنی عمر کے بندے سے وہ کیوں شادی کرے؟"
"وہ تو ٹھیک ہے جی مگر ۔۔۔ " ملک نے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھا۔ کسی نے بھی اس کی نظر کا ساتھ نہ دیا اور یوں ظاہر کیا جیسے وہ سب اس بات سے ناواقف ہوں۔
"مگر کیا ملک۔ بات پوری کیا کرو۔ ادھار کی رقم کی آدھی واپسی کی طرح درمیان میں وقفہ نہ ڈالا کرو۔ "
"ایسی بات نہیں ہے چھوٹے مالک۔ " ملک کھسیانا سا ہو گیا۔ " میں یہ کہہ رہا تھا کہ بات اس آدمی کی زیادہ عمر ہی کی نہیں تھی۔ بات کچھ اور بھی تھی۔ "
"وہ کیا؟"
"زبیدہ کسی اور کو پسند کرتی تھی جی۔ " ملک نے کہا اور اس کے سر سے جیسے بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔
" تو۔۔۔۔ ؟" طاہر نے اس کے چہرے پر جما دیں۔
"ماسٹر محسن نے اس بات کا علم ہونے پر زبیدہ کی وہ دھنائی کی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ "
"کیا مطلب ؟" طاہر بری طرح چونکا۔
"ظاہر ہے جی۔ جوان بیٹی جب منہ سے بر مانگ لے تو غیرت مند باپ تو اسے جان سے ہی مار دے گا۔ " ملک نے گردن اکڑا کر کہا۔ " وہ تو شکر ہے کہ زبیدہ کی ماں نے اسے بچا لیا ورنہ ماسٹر محسن تو شاید اس کی گردن اتار دیتا۔ "
"اس کے بعد کیا ہوا؟" طاہر نے اضطراب سے پوچھا۔
" ہونا کیا تھا چھوٹے مالک۔ " ملک بلال نے لاپروائی سے کہا۔ " یہ پندرہ دن پہلے کی بات ہے۔ زبیدہ کا رشتہ ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ ماسٹر نے اسے مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ اب وہ چارپائی پر پڑی ہے۔ "
"اور جس سے وہ خود شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ "
"وہ۔۔۔ وہ بے غیرت کا بچہ گھر میں منہ چھپائے بیٹھا ہے۔ "
"کون ہے وہ؟" طاہر کا اضطراب اب بھی باقی تھا۔
"لالو تیلی کا بیٹا عادل۔ "
"عادل۔ " طاہر پھر چونکا۔ "وہی عادل، جس نے پچھلے سال وظیفے کے امتحان میں ٹاپ کیا تھا اور جو آج کل محکمہ زراعت میں نوکری کر رہا ہے۔ "
"وہی جی۔ وہی بے غیرت عادل۔ " ملک نے نفرت سے کہا۔
"اس نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا؟" طاہر نے سر جھکائے، پاؤں سے زمین کریدتے اور غیر محسوس آواز میں حقے گڑگڑاتے ان مٹی کے مادھوؤوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جن کی غیرت اور بے غیرتی کا اپنا ہی معیار تھا۔
"کیا تھا جی۔ اس نے اپنے ماں باپ کو ماسٹر کے ہاں زبیدہ کے رشتے کے لئے بھیجا تھا۔ جواب میں ماسٹر نے انہیں بے عزت کر کے گھر سے نکال دیا اور ایک بار پھر بیٹی کی خوب دھلائی کی۔ "
"لاحول ولا قوة۔ " بے اختیار طاہر کے لبوں سے نکلا۔ پھر اس نے بڑی کڑی نظروں سے ملک کو دیکھا۔ "میرا خیال تھا کہ تعلیم اور بدلتے ماحول نے وجاہت آباد کے لوگوں کو فراخ دل اور وسیع النظر بنا دیا ہے مگر لگتا ہے اس کے لئے ابھی وقت لگے گا۔ "
"کیا مطلب چھوٹے مالک۔ " بلال ملک نے گھبرا کر اس کی جانب دیکھا۔ باقی سب لوگوں نے بھی چونک کر سر اٹھائے اور طاہر کی طرف متوجہ ہو گئے۔
"اس کا جواب میں تھوڑی دیر بعد دوں گا۔ تم فوری طور پر ماسٹر محسن، لالو اور عادل کو یہاں بلاؤ۔ "
" آپ کیا کرنا چاہتے ہیں چھوٹے مالک؟" ملک باقاعدہ گھبرا گیا۔
"جو کروں گا تم سب دیکھ ہی لو گے۔ فی الحال جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔ ان تینوں کو بلاؤ یہاں۔ ابھی۔ " طاہر کا لہجہ سخت ہو گیا۔
"جی چھوٹے مالک۔ " ملک نے بیچارگی سے یوں کہا جیسے خود کو ماں بہن کی گالی دے رہا ہو کہ اس نے طاہر کے سامنے یہ بات کی ہی کیوں ؟ پھر اس نے بائیں ہاتھ چارپائی پر بیٹھے ایک ادھیڑ عمر آدمی کو ہاتھ کے اشارے سے اٹھ جانے کو کہا۔
"اوئے شکورے۔ جا۔ لالو، ماسٹر محسن اور عادل کو بلا کر لا۔ کہنا چھوٹے مالک نے بلایا ہے۔ "
"جی ملک صاحب۔ " شکورا اٹھا اور چل پڑا۔
"اور سن۔ " ملک نے اسے روکا۔ " تینوں کو اکٹھا نہ کر لینا۔ کہیں یہاں پہنچنے سے پہلے خون خرابہ کر بیٹھیں۔ لالو کا گھر پہلے ہے۔ اسے جاتے ہوئے پیغام دے جا۔ پھر ماسٹر کے گھر جانا۔ اور دونوں میں سے کسی کو نہ بتانا کہ دونوں کو یہاں اکٹھے بلایا گیا ہے۔ "
"جی ملک صاحب۔ " شکورا سر ہلا کر چل دیا۔
"تم اچھے بھلے عقلمند آدمی ہو ملک۔ " طاہر نے اس کی بات سے متاثر ہو کر کہا۔ "مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ روایتی معاملوں میں تمہاری عقل کس جنگل میں گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ "
"یہ غیرت کے معاملے میں کسی کے قابو نہیں آتے چھوٹے مالک۔ " ملک خجل ہو گیا۔ "میں نے ان دونوں خاندانوں کو بہت سمجھایا مگر سب بے سود۔ "
" آئندہ یاد رکھنا۔ ایسا کوئی بھی معاملہ ہو، اگر تمہارے قابو میں نہ آئے تو مجھے فوراً خبر کرنا۔ میں گاؤں میں کسی قسم کی بدمزگی نہیں چاہتا۔ "
"جی چھوٹے مالک۔ " ملک نے سر جھکا لیا۔
اسی وقت موبائل گنگنا اٹھا۔ طاہر نے سائڈ کی جیب سے سیٹ نکالا۔ سکرین پر صفیہ کا نام دیکھ کراس نے یس کا بٹن دبا دیا۔
"ہیلو۔ " اس نے موبائل کان سے لگا لیا۔ "کیا بات ہے؟"
" آپ کب تک لوٹیں گے؟" صفیہ نے پوچھا۔
"خیریت؟"
"جی ہاں۔ بالکل خیریت ہے۔ ایک ضروری معاملہ آپ کے گوش گزار کرنا تھا۔ "
"کوئی ایمرجنسی ہے کیا؟" طاہر نے چونک کر پوچھا۔
"ایسی ایمرجنسی بھی نہیں مگر میں چاہتی تھی کہ یہ بات آپ کے علم میں جتنی جلدی آ جائے، اس کا کوئی حل نکل آئے گا۔ "
"میں بھی یہاں ایک خاص معاملے میں الجھا ہوا ہوں۔ اس وقت آٹھ بجے ہیں۔ نو بجے تک لوٹوں گا۔ کیا اتنی دیر۔۔۔ "
"یہ کوئی دیر نہیں۔ " صفیہ نے جلدی سے کہا۔ " میں نے بتایا ناں کہ بہت زیادہ ایمرجنسی کی بات نہیں ہے۔ آپ نو بجے تک آ جائیے گا۔ پھر بات کریں گے۔ "
"اگر معاملہ زیادہ سیریس ہے تو۔۔۔ "
"جی نہیں۔ موبائل پر کرنے کی بات نہیں ہے۔ آپ گھر آ جائے۔ تسلی سے بات کریں گے۔ "
"او کے۔ میں جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ حافظ۔ "
"اللہ حافظ۔ " صفیہ نے رابطہ کاٹ دیا۔
"خیریت ہے چھوٹے مالک۔ " ملک، ہونے والی گفتگو سے کچھ اندازہ نہ لگا پایا تو پوچھا۔
"ہاں۔ حویلی جاؤں گا تو پتہ چلے گا۔ ویسے خیریت ہی ہو گی۔ ورنہ تمہاری مالکن مجھے فوراً آنے کو کہتی۔ "
ملک جواب میں محض سر ہلا کر رہ گیا۔ چوپال میں خاموشی چھا گئی۔ کبھی کبھی حقے کی گُڑ گُڑ اس میں ارتعاش پیدا کر دیتی اور بس۔
٭٭٭٭٭٭
نماز سے فارغ ہو کر حافظ عبداللہ کچھ دیر چٹائی پر سر جھکائے بیٹھا رہا۔ وہ اب تک کی صورتحال پر غور کر رہا تھا۔ درویش کی باتیں اس کے دل و دماغ میں بھونچال سا پیدا کر رہی تھیں۔ اس کی کئی باتوں کا مفہوم اسے اب سمجھ آ رہا تھا۔
کتنی ہی دیر گزر گئی۔ پھر وہ اس وقت چونکا جب لڑکی کے ادھ کھلے ہونٹوں سے ایک ہلکی سی کراہ خارج ہوئی۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور چارپائی کے پاس چلا آیا۔ لڑکی غنودگی ہی کے عالم میں کراہی تھی۔ ابھی تک اس کے ہوش میں آنے کے آثار واضح نہیں تھے۔ اس نے تو اب تک کروٹ بھی نہ لی تھی۔ چت پڑی تھی۔
حافظ عبداللہ نے اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ وہ اچھی خاصی قبول صورت تھی۔ عمر بیس بائیس سے زیادہ نہ ہو گی۔ شادی شدہ بھی نہ لگتی تھی۔ کانوں میں سونے کی بالیاں تھیں۔ ناک میں لونگ نے اس کی کشش کو بڑھا دیا تھا۔ اس کے ہونٹوں کی نیلاہٹ اب تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ کمبل میں اس کے بدن کا گداز حافظ عبداللہ کو یاد آیا تو وہ تھرا کر رہ گیا۔ "استغفر اللہ" کہہ کر اس نے لڑکی کی چہرے سے نظریں ہٹانا چاہیں ، مگر چونک کر رک گیا۔ نجانے کیوں اسے لگا کہ لڑکی بڑا کھینچ کر سانس لے رہی ہے اور اس کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہوئی تمتماہٹ کمرے کے ماحول یا کمبل کی گرمی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اپنا شک دور کرنے کے لئے اس نے اپنا ہاتھ لڑکی کے صبیح ماتھے پر رکھا اور گھبرا کر واپس کھینچ لیا۔ ماتھا تو آگ کی طرح تپ رہا تھا۔ اپنے اندیشے کی تصدیق کیلئے اس نے ذرا سا کمبل سرکایا اور لڑکی کا پہلو میں پڑا ہاتھ چھو کر دیکھا۔ ہاتھ بھی انگارہ بنا ہوا تھا۔
"کہیں اس پر نمونیہ کا حملہ تو نہیں ہو گیا؟" اس کے ذہن میں ایک خیال سرسرایا۔
یہ ناممکن بھی نہیں تھا۔ وہ نجانے کب سے سیلاب کے یخ پانی میں بہ رہی تھی۔ پانی سرد، اوپر سے سردی کا موسم۔ اس کا اکڑا ہوا بدن تو اب نرمی پکڑ رہا تھا مگر سردی یقیناً اس پر اپنا اثر دکھا چکی تھی۔
لڑکی کا ہاتھ کمبل کے اندر کر کے وہ سیدھا ہو گیا۔ اس وقت، اس جگہ وہ اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ دوا کے نام پر وہاں پھانکنے کو دھول تک نہ تھی۔ اور اس صورتحال میں وہ اس کے لئے کیا احتیاطی اور طبی تدبیر کرتا، اس سے وہ نابلد تھا۔
کچھ سوچ کر وہ باہر نکلا، دروازہ بھیڑ دیا اور ساتھ والے کمرے میں چلا آیا۔ یہ وہ کمرہ تھا جس کے اندر سے اسے درویش کے نماز میں قرات کرنے کی آواز سنائی دی تھی۔ کمرے کے قبلہ رخ طاق میں چراغ جل رہا تھا۔ مغربی دیوار کے پاس آگے پیچھے دو چٹائیاں بچھی تھیں۔ آگے والی چٹائی پر عین درمیان میں رحل پر سبز جزدان میں ملفوف قرآنِ حکیم دھرا تھا۔ اس کے علاوہ کمرے میں اور کوئی سامان نہ تھا۔
وہ چاروں طرف نظر دوڑا کر باہر نکل آیا۔ اب اس کا رخ مزار کی جانب تھا۔ مزار کے باہر چپل اتار کر اس نے سبز دروازہ وا کیا اور اندر داخل ہو گیا۔ صحن کے پار سامنے سبزمنقش چادروں اور پھولوں سے ڈھکی بابا شاہ مقیم کی قبر پر چند اگر بتیاں سلگ رہی تھیں ، جن کی بھینی بھینی خوشبو سے وہاں کا ماحول اس اکیلی رات میں عجیب پُراسرار سا ہو گیا تھا۔ صحن کے بائیں ہاتھ بنے کمرے کو دیکھتا ہوا وہ بابا شاہ مقیم کے گنبد میں داخل ہو گیا۔
گنبد کے اندر شمالی جانب ایک لکڑی کی الماری میں اَن گنت قرآن پاک کے نسخے، سیپارے اور دوسری وظائف کی کتب پڑی تھیں۔ چھت کے درمیان کسی چاہنے والے نے قندیل لٹکا دی تھی۔ دیواروں پر پھولدار ٹائلیں جڑی تھیں۔ قبر کے ارد گرد دیواروں تک کی تقریباً چار چار فٹ کی جگہ پر کھجور کی صفیں ترتیب سے بچھی تھیں۔ مشرقی سمت میں ایک بڑی کھڑکی تھی جو اس وقت بند تھی۔ قبلہ رخ محراب بنی تھی تاکہ اگر کوئی وہاں نوافل وغیرہ پڑھنا چاہتا تو اسے دقت نہ ہوتی۔
حافظ عبداللہ آہستہ قدموں سے چلتا ہوا بابا شاہ مقیم کے چہرے کی جانب آیا اور دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ بے اختیار اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ سر جھک گیا اور ہاتھ گود میں آ پڑے۔ کچھ دیر اسی عالم میں گزری تو غیرمحسوس انداز میں اس کے دل کی دھڑکن مدھم سی ہو گئی اور وہ ارد گرد سے بے خبر ہو گیا۔
بڑی آہستگی سے ایک انجانی سی مہک کا ایک جھونکا جاگا اور حافظ عبداللہ کے گرد ہالہ سا تن گیا۔ مہک نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ اسے لگا، اس کے بالوں میں بڑی نرمی سے کوئی اپنی انگلیاں پھیر رہا ہے۔ اسے دلاسہ دے رہا ہے۔ تشفی دے رہا ہے۔ پیار کر رہا ہے۔ ہمت بندھا رہا ہے اس کی۔ حوصلہ دے رہا ہے اسی۔
کتنی دیر گزری، اسے پتہ نہ چلا۔ جب یہ احساس مدھم پڑا تو دھیرے سے اس نے سر اٹھایا، تب اسے علم ہوا کہ اس کی داڑھی آنسووں سے تر تھی۔ شبنم، اس کے گود میں دھرے ہاتھوں پر قطرہ قطرہ گر رہی تھی۔ گریبان بھیگا ہوا تھا اور اندر جیسے دھُل سا گیا تھا۔
آہستہ سے اس نے ہاتھ چہرے پر پھیرے۔ اشک سارے چہرے پر ملتے ہوئے لگا جیسے اس نے وضو کر لیا ہو۔
"بابا۔ " اس کے نہاں خانہ دل سے بے اختیار ایک سرگوشی ایک بار پھر آنسوؤں کی برسات لئے نکلی اور ماحول میں رچی مہک کے ساتھ ہو لی۔ ہچکیاں لیتے ہوئے اس نے قبر کے تعویذ پر سر ٹیک دیا۔
وہ کیوں رو رہا تھا؟ اسے خود معلوم نہ تھا لیکن اسے تو سب معلوم تھا جو اسے رُلا رہا تھا۔ نہیں۔ رُلا نہیں رہا تھا، اسے پاکیزگی کا غسل دے رہا تھا۔ اس پانی سے وضو کرا رہا تھا جو ہر ایک کے اندر تو ہوتا ہے، باہر نصیب والوں ہی کے آتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
ماسٹر محسن، لالو تیلی اور اس کا بیٹا عادل، تینوں آ چکے تھے۔
ماسٹر محسن ان دونوں کو بار بار بڑی کینہ توز نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ باپ بیٹا سر جھکائے بیٹھے تھے۔
ماحول پر ایک تناؤ سا طاری تھا۔ طاہر نے ملک کی جانب دیکھا۔ اس نے اس کا عندیہ جان کر چاچا شمسو کو ہاتھ اٹھا کر دور ہی سے اشارہ کیا۔ اسی وقت دو تین آدمی اپنی جگہوں سے اٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آدمی چاچا شمسو کے ساتھ سب لوگوں کو چائے کے پیالے تھما رہے تھے۔
ملک نے طاہر کے بائیں ہاتھ موڑھے پر بیٹھے لالو اور عادل اور دائیں ہاتھ بیٹھے ماسٹر محسن کو خود چائے کے پیالے پیش کئے، جو خاموشی سے لے لئے گئے۔ طاہر اور ملک نے سب سے آخر میں چائے لی اور ہولے ہولے چسکیاں لینے لگے۔
پھر جب لالو اور ماسٹر محسن نے خالی پیالے زمین پر رکھے تو طاہر نے بھی اپنا پیالہ ملک کے حوالے کر دیا۔ پہلو بدلا۔ سنبھل کر بیٹھا اور ماسٹر محسن کی طرف متوجہ ہوا۔
"ماسٹر صاحب۔ میں نے آپ کو جس مقصد سے یہاں بلایا ہے، وہ تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ " اس نے بڑے ناپ تول کر الفاظ زبان سے نکالے۔
"جی۔ " ماسٹر محسن نے اس کی جانب نظریں اٹھائیں۔ " پھر بھی میں آپ کی زبان سے سننا چاہوں گا۔ " اس کی آواز بالکل سپاٹ تھی۔
"میں آپ سے عمر میں بھی چھوٹا ہوں اور منصب میں بھی ماسٹرصاحب۔ آپ خیر بانٹتے ہیں۔ علم کی آبیاری کرتے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری نہ ہو اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ سہواً" ہو گا۔ پھر بھی اس کے لئے میں پیشگی آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ " طاہر کے لہجے میں جو ادب تھا اس نے ماسٹر محسن کی پیشانی پر ٹوٹی ٹھیکریوں میں نمایاں کمی کر دی۔ کچھ دیر رک کر اس نے پھر زبان کھولی۔
"میں اس جھگڑے کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا جو ہو چکا ہے۔ صرف یہ چاہوں گا کہ اس جھگڑے کے اثرات مٹ جائیں۔ "
"کیسے؟" ماسٹر محسن کا لہجہ بڑا تلخ تھا۔
"اس کا حل تو موجود ہے ماسٹر صاحب مگر اس کے لئے آپ کی رضامندی بنیادی شرط ہے۔ " طاہر نے اس کڑواہٹ کو نظر انداز کر دیا۔
"اور اگر میں اس پر راضی نہ ہوں تو؟" ماسٹر نے بڑے ضبط سے کہا۔
"میں پھر بھی کوشش ضرور کروں گا ماسٹر صاحب۔ یہ میرا حق ہے اور مجھ پر فرض بھی۔ اپنے والد کے بعد گاؤں کے دُکھ سُکھ کی ذمہ داری مجھ پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے۔ "
"کیا مجھے کھل کر کچھ کہنے کی اجازت ہے چھوٹے مالک؟" اچانک ماسٹر محسن کا پیمانہ صبر جیسے لبریز ہو گیا۔ اس کے لہجے میں ٹیس سی محسوس کر کے طاہر کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
" آپ جو کہنا چاہیں ، جیسے کہنا چاہیں ، آپ کو اس کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے ماسٹر صاحب۔ یہاں آپ کی کسی بات کا برا منانے والا میرے سمیت کوئی ایک فرد بھی موجود نہیں ہے۔ "
"تو مجھے صرف یہ بتائیے کہ اگر میری جگہ۔۔۔ " ماسٹر محسن ایک ثانئے کو رکا، طاہر کی جانب دیکھا اور انگلی اس کی طرف اٹھا دی۔ " آپ ہوتے تو۔۔۔ "
"ماسٹر۔۔۔ " بلال ملک نے تیزی سے کہنا چاہا۔ باقی کے سب لوگ بھی ہکا بکا رہ گئے۔ ماسٹر سے اتنی بڑی بات کی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔ لالو اور عادل بھی پہلو بدل کر رہ گئے۔
"ملک۔ " طاہر نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کاٹ دی اور مزید کچھ کہنے سے تحکمانہ اشارے سے روک بھی دیا۔ ملک با دلِ نخواستہ واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ تاہم اس کے انداز سے ناراضگی واضح تھی۔
" آپ گھبرائیے نہیں ماسٹر صاحب۔ " طاہر کا لہجہ پھر نرم ہو گیا۔ " میں نے کہا ناں ، آپ کو جو کہنا ہے اور جس طرح کہنا ہے، کہئے۔ میں نے آپ کا دُکھ سننے ہی کے لئے آپ کو یہاں بلایا ہے۔ "
"مجھے زیادہ نہیں کہنا۔ " ماسٹر محسن کا لہجہ شکستگی سے کٹ گیا۔ ہاتھ نیچے ہو گیا۔ "صرف یہ پوچھنا ہے کہ اگر میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟" اس کا سر جھک گیا۔
"ماسٹر صاحب۔ " طاہر نے اس کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔ " آپ کے سوال کا جواب میرے ان چند چھوٹے چھوٹے سوالوں میں پوشیدہ ہے جو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں ، اگر آپ کو برا نہ لگے تو۔۔۔ "
"جی۔ پوچھئے۔ " ماسٹر محسن نے دونوں بازو سینے پر باندھ لئے اور خاک آلود اینٹوں کے فرش کو گھورنے لگا۔
"اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں ماسٹر صاحب کہ ہمارے مذہب نے شادی میں پسند اور ناپسند کے جو حقوق مرد کو دیے ہیں وہی عورت کو بھی حاصل ہیں۔ "
"جی۔ " ماسٹر نے مختصر سا جواب دیا۔
"زبیدہ نے نثار کے رشتہ سے کیوں انکار کیا؟" طاہر نے ہولے سے پوچھا۔
"وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ " ماسٹر محسن مضطرب سا ہوا۔
"مجھے معلوم ہے کہ اس نے انکار کیوں کیا ماسٹر صاحب اور یہی بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم بیٹے کو اس کی پسند کے بارے میں پوچھ کر، کبھی کبھار اسے لڑکی دکھا کر بھی شادی کے بارے میں اس کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں تو زندگی کے اس سب سے بڑے فیصلے کے بارے میں بیٹی کو زبان کھولنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی، جبکہ ہمارا دین اس کے لئے بیٹی کو بھی یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند سے آگاہ کر سکتی ہے۔ جس سے اس کا نکاح کیا جا رہا ہے، اسے نکاح سے پہلے دیکھ سکتی ہے اور ہاں یا نہ کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ جب زبیدہ نے آپ کے مجوزہ رشتے سے انکار کرتے ہوئے آپ کو اپنی پسند سے آگاہ کیا تو آپ نے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے اس کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا۔ اسے مارا پیٹا۔ کیوں ؟" طاہر کی آواز بلند ہو گئی۔ " آپ کو یہ حق تو ہے کہ اگر اس کے لئے عادل کا رشتہ موزوں نہ تھا تو اس کی اونچ نیچ سے زبیدہ کو آگاہ کرتی۔ اسے سمجھاتے۔ مگر اس پر ہاتھ اٹھانا کیا مناسب تھا؟دوسرے جب عادل کے گھر والے اس کا رشتہ لے کر آپ کے دروازے پر پہنچے تو آپ کو پورا حق تھا کہ آپ اس رشتے سے انکار کر دیتے، جیسا کہ آپ نے کیا بھی لیکن اس کے بعد آپ نے ایک بار پھر زبیدہ ہی کو کیوں پیٹا؟"
" باتیں کرنا بہت آسان ہیں چھوٹے مالک۔ " ایک دم ماسٹر محسن کی زبان کا تالا کھلا۔ "سمجھانے کے نام پر نصیحتیں کرنا بھی کوئی مشکل کا م نہیں۔ مجھے علم کی روشنی تقسیم کرنے والا خیال کر کے میری اس جاہلانہ حرکت پر مجھ سے جواب طلبی بھی کی جا سکتی ہے لیکن خاندان اور گاؤں والوں کی باتوں کے زہریلے نشتر، ان کے طعنوں کا پگھلا ہوا سیسہ قطرہ قطرہ کانوں میں اتارنا کتنا مشکل ہے، اس کا آپ کو علم نہیں ہے۔ اس کیفیت سے گزر کر دیکھئے چھوٹے مالک، جس سے قسمت نے مجھے دوچار کر دیا ہے۔ پھر آپ کو احساس ہو گا کہ جس پھول سی بیٹی کو میں نے کبھی جھڑکی نہیں دی، اس پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے میرے دل کے کتنے ٹکڑے ہوئے ہوں گی۔ " ماسٹر محسن کی آواز بھرا گئی۔ " میں ایک عام سا، کمزور آدمی ہوں چھوٹے مالک، جس کے سر پر استاد ہونے کا تاج ہے تو دامن میں صرف عزت کے چند ٹکڑے، جن کے چھن جانے کے احساس نے مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ قصائیوں کا سا سلوک کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں دین کے بارے میں وہ بھی جانتا ہوں جو اس چوپال میں بیٹھے سب لوگوں کے لئے شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے مگر مجھے انہی کے درمیان رہنا ہے۔ انہی کے ساتھ رشتے اور تعلقات نبھانے ہیں۔ نثار کا رشتہ میں نے کیوں قبول کیا، اس کے پیچھے میری صرف ایک مجبوری تھی۔ میرے پورے خاندان میں زبیدہ کے لئے ایسا کوئی لڑکا موجود نہیں ہے جس کے ساتھ میں اس کی شادی کر سکوں۔ لڑکے اَن پڑھ ہیں یا زبیدہ سے عمر میں چھوٹے ہیں۔ میری بیٹی ایف اے پاس ہے۔ میں دل کا مریض ہوں چھوٹے مالک۔ کب زندگی کی شام ہو جائے، نہیں جانتا۔ مجھے دور دور تک اس کے لئے جب مناسب رشتہ نظر نہ آیا تو دل پر جبر کر کے میں نے نثار کے رشتے کے لئے ہاں کہہ دی۔ "
"ایک منٹ ماسٹر صاحب۔ " طاہر نے اس کی بات روک دی۔ " یہاں تک میں آپ کی ہر بات سے پوری طرح متفق ہوں۔ آپ نے جو کیا، درست کیا لیکن جب زبیدہ نے انکار کیا اور اس کے بعد عادل کا رشتہ بھی اس کے لئے آیا تب آپ نے خدا کا شکر ادا کرنے کے بجائے انکار اور مار پیٹ کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ میرا خیال ہے عادل، ہر طرح سے زبیدہ کے لئے موزوں ہے۔ "
"مگر وہ ہماری برادری سے نہیں ہے چھوٹے مالک۔ "
"لاحول ولا قوة الا باللہ۔ " بے اختیار طاہر کی زبان سے نکلا۔ " ماسٹر صاحب۔ اب آپ کی سوچ پر مجھے افسوس نہ ہو تو یہ میری اپنے ساتھ زیادتی ہو گی۔ آپ پڑھے لکھے ہو کر بھی ذات برادری کے چکر میں غوطے کھا رہے ہیں ؟ "
"یہ معمولی بات نہیں ہے چھوٹے مالک۔ " ماسٹر محسن نے سر اٹھایا۔ " میں نے شروع میں پوچھا تھا کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ اس سوال کا جواب دینے کا یہ بہت اچھا موقع ہے۔ آپ نے بھی تو ابھی ابھی شادی کی ہے۔ آپ نے خاندان، ذات برادری دیکھ کر ہی تو نکاح کیا ہو گا؟"
طاہر کے ہونٹوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ نے ہلکورا لیا۔
"ماسٹر صاحب۔ اگر میرے جواب نے ذات برادری کی نفی کر دی تو؟" اس نے ماسٹر محسن کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
"تو میں وعدہ کرتا ہوں چھوٹے مالک کہ مجھے آپ کا۔۔۔ " ماسٹر صاحب نے پورے عزم سے کہا۔ " ہر فیصلہ منظور ہو گا۔ "
"سوچنے کی مہلت نہیں دوں گا میں آپ کو۔ " طاہر نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
"میں ایک سیکنڈ کا وقت نہیں مانگوں گا۔ " وہ بھی آخری داؤ کھیلنے کے سے انداز میں بولے۔
"تو سنئے ماسٹر صاحب۔ میری بیوی اور آپ کی چھوٹی مالکن نہ تو میرے خاندان سے ہے، نہ میری ذات برادری سے اور نہ ہی کسی کروڑ پتی گھرانے سے۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک یتیم لڑکی ہے جس کی شرافت اور خوب سیرتی نے مجھے اسیر کر لیا اور اس اسیری کی بھی وضاحت کر دوں۔ میں نے اسے شادی سے پہلے دیکھا تک نہ تھا۔ آپ کی بڑی مالکن نے اسے پسند کیا اور ہم دونوں کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیا۔ اب کہئے کیا کہتے ہیں آپ؟"
ماسٹر محسن منہ کھولے طاہر کو دیکھے جا رہا تھا۔ وہاں موجود گاؤں والوں کو بھی اس حقیقت کا شاید آج ہی علم ہوا تھا، اس لئے وہ بھی حیران حیران سے تھے۔
"میں آپ کی حیرت ختم ہونے کا منتظر ہوں ماسٹر صاحب۔ " کتنی ہی دیر بعد طاہر نے ماسٹر محسن کو مخاطب کیا تو وہ دھیرے سے چونکے۔
"جی۔۔۔ " ماسٹر صاحب نے پلکیں جھپکیں تو نمی رخساروں پر ڈھلک آئی۔ " میں حیران کم اور شرمندہ زیادہ ہوں چھوٹے مالک۔ " انہوں نے چشمہ اتار کر آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔
" آپ کو شرمندہ کرنا میرا مقصد نہیں تھا ماسٹر صاحب۔ " طاہر نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا۔ "میں تو اس مسئلے کا حل چاہتا ہوں جس نے آپ جیسے ذی علم انسان کو کانٹوں کے بستر پر لا پھینکا۔ "
"اب کوئی چبھن نہیں چھوٹے مالک۔ " ماسٹر محسن نے چشمہ دوبارہ آنکھوں پر چڑھا لیا۔ "میرا دل مطمئن ہے۔ آپ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہے۔ "
"نہیں ماسٹر صاحب۔ " طاہر نے اس کے کندھے سے ہاتھ اٹھا لیا۔ "فیصلہ اب بھی آپ ہی کا ہے۔ میں تو صرف مشورہ دے سکتا ہوں۔ "
"میرے لئے وہ بھی حکم ہو گا چھوٹے مالک۔ آپ فرمائیے۔ " ماسٹر محسن کا لہجہ بیحد پُرسکون تھا۔
"عادل بہت اچھا لڑکا ہے ماسٹر صاحب۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ " طاہر نے آہستہ سے کہا اور ہونٹ کاٹتے لالو کی جانب دیکھا جو کسی بھی لمحے رو دینے کو تھا۔ عادل سر جھکائے فرش کو گھور رہا تھا۔
" آپ تاریخ مقرر کر دیجئے چھوٹے مالک۔ میری طرف سے کوئی دیر نہیں ہے۔ " ماسٹر محسن سب کچھ نبٹا دینے پر تلے بیٹھے تھے۔
"کیوں لالو چاچا؟" طاہر نے اس کی جانب دیکھا اور ایک دم لالو کندھے پر پڑے رومال کے کونے میں منہ چھپا کر بلک پڑا۔ اس کی ہچکی سی بندھ گئی۔ وہ بچوں کی طرح روئے جا رہا تھا۔
ملک نے ایک دم اٹھ کر اس کی طرف بڑھنا چاہا مگر طاہر نے اسے روک دیا اور ماسٹر محسن کی جانب دیکھا۔ ایک دم ماسٹر صاحب اٹھے اور دو قدم بڑھ کر لالو کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
"لالو۔ " ان کے ہونٹوں سے نکلا اور لالو نے ان کے دونوں ہاتھ تھام کر برستی آنکھوں سے لگا لئے۔ ماسٹرصاحب نے چند لمحے انتظار کیا۔ پھر ہاتھ اس کی گرفت سے نکال کر اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔
کتنی ہی آنکھیں نم نظر آ رہی تھیں۔ ملک ہنسا تو اس کے ہونٹوں کے گوشے لرز رہے تھے۔ رہا طاہر۔۔۔ تو وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ان دونوں کو ایسی فتح مندانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا جس میں گاؤں کا بڑا ہونے کا غرور چھلکا پڑ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭
رات آدھی سے زیادہ جا چکی تھی۔
حافظ عبداللہ چٹائی پر بیٹھا تھا۔ جو قرآن پاک رحل پر اس کے سامنے کھلا رکھا تھا، یہ وہی تھا جو اسے دوسرے کمرے میں ملا تھا۔ مزار سے نکل کر جب وہ لڑکی والے کمرے میں آیا تو لڑکی ابھی تک بے سدھ تھی۔ تاہم مزار سے واپسی پر جب اس نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر حرارت کی شدت جاننا چاہی تو حیرت انگیز طور پر اس میں نمایاں کمی آ چکی تھی۔ اس کا دل تشکر اور ممنونیت سے لبالب ہو گیا۔ یہ صاحبِ مزار کی کرامت ہی تو تھی جو اللہ کے فضل سے ظاہر ہوئی تھی۔
اس نے لڑکی کو ہوش میں لانے کا خیال ترک کر دیا۔ ساتھ والے کمرے میں گیا اور وہاں سے قرآن پاک اور رحل اٹھا لایا۔ کمرے کا دروازہ بھیڑ دیا۔ کھیس کی بکل ماری۔ طاق میں رکھے چراغ کے قریب، چٹائی پر دو زانو بیٹھ کر قرآن پاک کو بوسہ دیا۔ کھولا اور منزل کرنے میں لگ گیا۔
کبھی کبھی وہ آہستہ سے گردن گھما کر لڑکی کا طائرانہ سا جائزہ لے لیتا اور دوبارہ دہرائی میں محو ہو جاتا۔
وقت گزرنے کا اسے احساس تو ہو رہا تھا مگر کتنا گزر گیا، یہ اسے علم نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد صبح ہو جائے تاکہ وہ گاؤں جا سکے۔ گاؤں کا خیال آیا تو اس کا دھیان مسجد کی جانب چلا گیا۔ مغرب اور عشاء کے وقت وہ وہاں موجود نہ تھا۔ نمازیوں کو بڑی دقت ہوئی ہو گی اور ساتھ ہی وہ فکرمند بھی ہوئے ہوں گے کہ آج حافظ کہاں چلا گیا؟ کسی کو بھی پتہ نہ تھا کہ وہ عصر کے بعد روزانہ کہاں جاتا ہے؟ ورنہ اب تک اسے کوئی نہ کوئی تلاش کرتا یہاں تک آ ہی چکا ہوتا۔
قرآن پاک کے الفاظ زبان سے ادا ہو رہے تھے اور دماغ ایسی ہی ادھر ادھر کی سوچوں میں بار بار الجھ رہا تھا۔ ایک آیت ختم کرتے ہوئے اس نے لڑکی کا جائزہ لینے کے لئے آہستہ سے گردن گھمائی اور الفاظ لڑکھڑا گئی۔ وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی۔ شاید اسے پیاس لگی تھی۔
لڑکی کی پیاس کا خیال جب تک حافظ عبداللہ کے دل میں آتا، تب تک برانگیختہ کر دینے والی کتنے ہی سوچیں اس پر یلغار کر چکی تھیں۔ لڑکی کا لبوں پر زبان پھیرنے کا انداز اتنا دلفریب تھا کہ حافظ عبداللہ کا دل بے قابو ہو گیا۔
"پانی۔۔۔ " اسی وقت لڑکی کے لبوں سے بڑی مہین سی آواز نکلی۔
حافظ عبداللہ چونک کر اپنی دگرگوں کیفیت سے باہر آیا۔ کھیس کو بدن سے الگ کیا۔ چنگیر کے پاس پڑا مٹی کا پیالہ اٹھا یا اور کمرے سے نکل گیا۔ چند لمحے بعد لوٹا تو پیالے میں پانی تھا۔ ساتھ ہی اس کے چہرے پر وضو کے اثرات نمایاں تھے۔ سرد پانی نے اسے اپنی غیر ہوتی ہوئی حالت کو سنبھالنے میں بڑی مدد دی تھی۔
وہ چارپائی کے قریب آ کھڑا ہوا۔ لڑکی کے پپوٹے لرز رہے تھے۔ اب بھی وہ ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی اور "پانی۔۔۔ پانی" کے الفاظ وقفے وقفے سے ادا کرتے ہوئے آہستہ آہستہ سر کو دائیں بائیں حرکت دے رہی تھی۔
"لیجئے۔ پانی پی لیجئے۔ " حافظ عبداللہ نے اسے پکارا۔
لڑکی نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ تھی۔ حافظ عبداللہ نے اسے چار پانچ بار پکارا مگر وہ تو نیم بیہوشی کے عالم میں پانی مانگ اور سر دائیں بائیں مار رہی تھی۔
حافظ عبداللہ تھوڑی دیر پیالہ ہاتھ میں لئے کچھ سوچتا رہا پھر اس نے جیسے کوئی فیصلہ کر لیا۔ پانی کا پیالہ دائیں ہاتھ میں لے کر اس نے دل کڑا کیا اور بایاں ہاتھ لڑکی کی گردن میں ڈال دیا۔ پھر اسے اوپر اٹھاتے ہوئے ذرا سا جھکا اور جگہ بنتے ہی چارپائی کی پٹی پر ٹک گیا۔ جسم کی کپکپی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے پیالہ لڑکی کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ چھوٹے چھوٹے تین چار گھونٹ بھر نے کے بعد لڑکی نے منہ ہٹا لیا تو حافظ عبداللہ نے اٹھتے ہوئے اسے واپس چارپائی پر لٹا دیا اور خود پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پرے ہٹ گیا۔
سردی کی رات میں ابھی چند منٹ پہلے وہ یخ پانی سے وضو کر کے آیا تھا۔ اس کے باوجود اس کی پیشانی پسینے کے گرم قطروں سے یوں بھیگ چکی تھی جیسے وہ اب تک دہکتے تندور پر جھکا رہا ہو۔ لڑکی اب اتنی بے سدھ نہ تھی۔ حافظ عبداللہ کو لگا، تھوڑی دیر میں وہ ہوش میں آ جائے گی کیونکہ اس کی آنکھوں پر جھکے پپوٹے ہولے ہولے پھڑک رہے تھے اور وہ بار بار گلا تر کرنے کے انداز میں تھوک بھی نگل رہی تھی۔
پیالے میں ابھی کچھ پانی باقی تھا۔ حافظ عبداللہ نے چاہا کہ پانی پی لے تاکہ اس کے حواس میں بھڑکتی آگ میں کچھ تو کمی آئے۔ پھر نجانے کیا سوچ کر رک گیا۔ اس نے پیالہ چارپائی کے سرہانے فرش پر رکھا اور کمرے سے نکل گیا۔ ہینڈ پمپ پر جا کر اس نے ایک بار پھر چہرے پر سرد پانی کے چھینٹے ماری۔ اوک میں لے کر حلق تک پانی پیا۔ پھر کرتے کے دامن سے چہرہ اور ہاتھ خشک کرتا ہوا واپس لوٹ آیا۔
کمرے میں داخل ہوا تو چونک پڑا۔
لڑکی ہوش میں آ چکی تھی۔ اس نے کمبل ایک طرف ڈال دیا تھا اور لرزتی کانپتی چارپائی سے اتر چکی تھی۔ حافظ عبداللہ پر نظر پڑی تو وہ ٹھٹکی۔ گھبرا کر اس نے کمبل سے اپنے نیم برہنہ جسم کو چھپا یا اور دیوار کی طرف الٹے پاؤں سرکتے ہوئے متوحش ہرنی کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
"گھبرائیے نہیں۔ " حافظ عبداللہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید پیچھے ہٹنے سے روک دیا۔ "مجھ سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ " اس نے دروازے کے اندر آتے ہی اپنے قدم روک لئے۔ اتنی دیر میں وہ دیوار کے بالکل ساتھ جا لگی۔
"میں اس وقت کہاں ہوں ؟" کچھ دیر تک حافظ کو بغور گھورتے رہنے کے بعد اس نے آہستہ سے پوچھا۔
"نور پور گاؤں یہاں سے کچھ ہی دور ہے۔ " حافظ عبداللہ نے جواب دیا اور ایک قدم آگے بڑھ آیا۔
"نور پور؟" حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔
"جی ہاں۔ " حافظ عبداللہ نے چٹائی پر پڑا کھیس اٹھا کر اپنے جسم کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔ " میں نور پور کی اکلوتی مسجد کا امام ہوں۔ یہ جگہ بھی نور پور ہی کی حد میں آتی ہے۔ بابا شاہ مقیم کے مزار کا ایک کمرہ ہے جہاں آپ اس وقت موجود ہیں۔ "
"بابا شاہ مقیم۔ " لڑکی بڑبڑائی۔ " مگر میں اتنی دور۔۔۔ "
" آپ ایک درخت کے ساتھ چمٹی ہوئی سیلابی ریلے میں بہتی جا رہی تھیں۔ میں اتفاق سے وہاں ٹبے پر موجود تھا۔ اللہ نے ہمت دی اور میں آپ کو پانی سے نکال لایا۔ "
"یہ کب کی بات ہے؟"لڑکی اب بھی پریشان تھی۔
" آج شام کے قریب کا وقت تھا۔ تب سے آپ بیہوش پڑی تھیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے پانی مانگا تو میں نے چند گھونٹ آپ کو پلائے۔ پھر میں۔۔۔ " حافظ عبداللہ کہتے کہتے رک گیا۔ ایک پل کو اس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔ پھر وہ نظر اس کے سراپے سے ہٹا کر بولا۔ "وضو کرنے چلا گیا۔ واپس آیا تو آپ شاید بھاگنے کی تیاری میں تھیں۔ " ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔
"نن۔۔۔ نہیں۔ بھاگنے کی نہیں۔ " وہ گڑبڑا گئی اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر حافظ عبداللہ کی طرف دیکھا۔
"میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ " حافظ عبداللہ نے کہا۔ " اس صورتحال میں آپ کا کوئی بھی اقدام اپنی حفاظت اور مجھ پر بد گمانی کے لئے جائز ہے۔ " اس نے دروازہ آدھا بھیڑ دیا۔
"یہ دروازہ کیوں بند کر دیا آپ نے؟" وہ جلدی سے دو قدم آگے آ گئی۔
"ہوا بہت سرد ہے۔ " حافظ عبداللہ نے نرمی سے کہا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ " آپ کا بخار شاید اب کم ہو گیا ہے۔ تاہم جب میں آپ کو پانی سے نکال کر لایا تھا تو آپ انگارے کی طرح دہک رہی تھیں۔ ابھی ٹھنڈی ہوا آپ کے لئے نقصان دہ ہے۔ پھر میں نے دروازہ بند نہیں کیا، صرف بھیڑ دیا ہے۔ آپ خود کو سنبھالئے۔ شک اور اندیشہ اس وقت آپ کا حق ہے مگر ہم دونوں کے علاوہ بھی ایک ہستی یہاں موجود ہے، جس کے ہوتے ہوئے آپ کو ہر اندیشے سے بے نیاز ہو جانا چاہئے۔ "
"کون۔۔۔ کون ہے تیسرایہاں ؟" لڑکی نے چونک کر پوچھا۔


عشق کا قاف (قسط نمبر 9)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں


Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font, ishq ka qaaf novel pdf download
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں