ہر گھر کی ایک کہانی

Stories in Urdu 

Stories in Urdu

ہر گھر کی ایک کہانی

آج ماہ رو بہت خوش تھی ، اس نے ایم ، بی اے بہترین کارکردگی کے ساتھ کلیئر کر لیا تھا ، ماہ روکی کزنز آئی ہوئی تھیں ، جو اسے مبارک باد دے رہی تھیں، جب ممانی نے کہا۔

بس ماه رو بیٹا بہت کر لی پڑھائی ، اب تم بھی اگلے گھر جانے کا سوچو، یہ دیکھو یہ فریحہ تم سے پورے چار سال چھوٹی ہے،صرف تائیس سال کی ہے اور بی ۔ اے کرتے ہی شادی کر دی تھی اب دیکھ لو اپنے گھر کتنی خوش ہے ماشاء اللہ ، ننھی ابہیا نے آ کر تو مانو فریحہ کی زندگی میں مزید خوشیاں بھر دی ہیں ۔
ماہ روچپ رہی اور مدد طلب نظروں سے ماں کو دیکھا تو شاہینہ بیگم فورا بیٹی کی مد کو آگے بڑھیں، اور بھاوج سے کہنے لگیں۔

” تمہاری بات ٹھیک ہے صبیحہ اللہ فریحہ کو ہنستا بستار کھے، لیکن جیسا آج کل زمانہ ہے تو اچھا ہے کہ لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل تو ہو، اتنی تعلیم تو ضرور ہو جو مشکل وقت میں وہ کسی کی محتاج نہ ہو.
صبیحہ نے کہا۔ ہاں شاہینہ کہتی تو تم ٹھیک ہو، لیکن دیکھو شادی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے ، اب ماہ روستائیس کی ہو گی ہے، جلدی سے کوئی اچھا رشتہ دیکھ کر کر ڈالو، مزید دو تین سال گزرے تو یہ نہ ہو کہ مشکل ہو جاۓ-

ہاں بھا بھی نہیں اب ان شاء اللہ ایسا ہی کرنا ہے، احسان صاحب بھی یہ ہی کہہ رہے تھے۔ شاہین نے جلدی سے کہا۔ اب ماہ رو سے برداشت نہ ہوا ، ماں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوۓ بولی۔
پیاری امی – ابھی تو پڑھائی سے جان چھوٹی ہے، تھوڑا سانس تو لینے دیں۔ آزادی سے جینے تو دیں، پھرکر لیجئے گا اپنا شق پورا۔ شاہین بیگم ہسنے لگ گیں-
آج یہ تیسرا رشتہ تھا جو ماہ رو کے لیے آیا تھا، ماہ رو ماشاءاللہ اچھی خاصی خوش شکل لڑکی تھی ، پڑھی لکھی۔ ہنس مکھ ، دوران تعلیم کافی رشتے آۓ لیکن ماہ روکی ضد پر کہ مجھے ایم ، بی، اے کرنا ہے۔ سب سے معذرت کر لی گئی۔ اب جبکہ بی ، بی ، اے کے بعد ایم بی اے کی ڈگری بھی ماہ رو کی دسترس میں تھی تو لگتا تھا کہ جیسے وقت دسترس سے نکل گیا تھا۔
پہلے دولوگ جو آتے ، اچھی طرح پرکھا، وہی انداز جیسے قصائی بھیڑ ، بکری کو جانچتا ہے اور آنکھوں آنکھوں میں آپس کے اشارے کر کے ۔ ہم بعد میں بتائیں گے۔ جیسا مخصوص فقرہ کہہ کر چلتے بنے ،اب بھی ایسا ہی ہوا اور کافی دن انتظار کے بعد بھی کوئی جواب نہ آیا، پھر ایک دن جن کی وساطت سے وہ لوگ آئے تھے ان کی زبانی پتا چلا۔
انہیں لڑکی تو پسند آ گئی تھی لیکن کہہ رہے تھے لڑکی نے ایم بی اے کیا ہے لہذا عمر کافی ہوگی ، جبکہ ہمارا بچہ تو اس سے چھوٹا ہے ، لڑ کی زیادہ نہیں تو کم سے کم پانچ سال تو ضرور چھوٹی ہو۔
شاہین بیگم،احسان صاحب کو دیکھ کر رہ گئیں ۔ ” کہا تھا نہ بس بی بی اے کافی ہے ، مناسب تعلیم اور مناسب عمر میں بچیاں وقت پر اپنے گھر کی ہوجائیں تو اچھا ہے ، پر آپ نے میری ایک نہ مانی ، اور ماہ رو کی ضد مان لی ، بچے تو ضد کرتے ہی ہیں ، پر اب ہر ضد تو نہیں مان لی جاتی نہ ابھی ہمیں ماہ پارہ کو بھی بیا ہنا ہے، وہ بھی فرسٹ ائیر میں آ گئی ہے ۔ احسان صاحب نے رسان سے شاہینہ بیگم کو سمجھاتے ہوۓ کہا۔
بیگم اس طرح پریشان نہیں ہوتے ، اللہ کے یہاں دیر ہے پر اندھیر نہیں ، اس مالک کائنات نے ہر چیز کا جوڑ بنایا ہے اور ان شاء اللہ ہماری بیٹی کا بھی کہیں بہتر جوڑ ہی بنایا ہوگا ، بس ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے، جو بھی ہوتا ہے اس مقررہ وقت کے تحت ہوتا ہے ، اس سے ایک لمحہ آ گے نہ ایک لمحہ پیچھے ، بس یہ دعا کرو جو بھی ہو ہماری بیٹی کے حق میں اچھا ہی ہو-
پورا ایک سال ان ہی تسلی ، دلاسوں میں گزر گیا- شاہینہ بیگم اور احسان صاحب کے ساتھ ساتھ اب ماہ رو بھی مسلسل ذہنی کوفت کا شکار رہنے لگی تھی، اس نے جاب کرنے کا کہا شاہینہ بیگم نے واشگاف الفاظ میں منع کر دیا کہ . پہلے تعلیم رکاوٹ بنی ہوئی ہے ، رہی سہی کسر جاب پورا کر دے گی.
کافی خواری سہہ لینے کے بعد اللہ اللہ کر کے بالآخر ماہ رو کا رشتہ طے ہو ہی گیا –
منیر ایف، اے پاس تھا، لیکن گھاگ بزنس مین تھا، دو جمع دو کرنا خوب جانتا تھا. اور چاہتا تھا کہ پڑھی لکھی بیوی ہو جو اس کے بزنس میں اس کا ساتھ دے سکے۔
اور بظاھر کوئی برائی نہ تھ ، اور گھر بار اور والدین بھی قابل قبول تھے۔ دیکھ بھال اور تھوڑی سی چھان بین کے بعد رشتہ بھی طے ہو گیا، لیکن کوئی ماہ رو کے دل سے پوچھتا جس نے ایم بی اے کے بعد جب جب اپنے جیون ساتھی کے متعلق سوچا تھا تو تعلیم اور صورت کے لحاظ سے ہمیشہ خود سے بہتر کا ہی تصور کیا تھا، لیکن ماں باپ کی فکرمندی دیکھتے ہوۓ ہاں کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ جانتی تھی کہ ماں کو راتوں میں نیند نہیں آتی اس کی فکر میں، سوا یک اچھی بیٹی کی طرح ماں، باپ کی رضا کے آگے سر جھکا دیا۔
ماہ رو بیاہ کر ماں باپ کی دعاؤں میں رخصت ہوکر نئے گھر، نئے لوگوں میں جا بسی اور بے شک تعلیم نے اور اچھی تربیت نے یہاں اس کا بہت ساتھ دیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، نئے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کے ادب و آداب کی بدولت بہت جلد سسرال میں اپنی جگہ بنالی ، ساتھ ہی بزنس میں منیر کو مفید مشورے دے کر چند دنوں میں ہی اس کے دل میں بھی ایک خاص مقام پیدا کر لیا۔
ماہ پارہ نے جس دن انٹر پاس کیا ، وہ بے انتہا خوش تھی اس نے تصورات کی ایک نئی دنیا بسا لی کہ اب یونیورسٹی کی لائف انجوائے کرے گی ۔
اس کا گر یڈ اتنا اچھا تھا کہ کسی بھی یونیورسٹی میں آرام سے داخلہ مل جاتا ، لیکن اس کے تصورات کی دنیا اس وقت چکنا چور ہوگئی، جب شاہینہ بیگم نے سختی سے کہ دیا-
بس پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا. اب ٹائم ہے تم کو وقت پر اپنے گھر کی کر دیں. ورنہ یہ نہ ہو کہ ماہ رو کی طر ح تمہاری عمر بھی پڑھائی میں اتنی آگے نکل جائے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا مشکل ہو جائے.
ماہ پارہ نے متیں کیں، باپ سے سفارش کروائی- لیکن شاہینہ بیگم کی نہ، ہاں میں نہ بدلی. پارہ دل کی دل میں رکھ کر خاموش ہوگئی ، اور ماں کی رضا کے آگے سر جھکا دیا۔ وہ اسے گھر کے کاموں میں طاق کرنے لگیں اور اپنی ملنے جلنے والیوں سے تذکرہ بھی کر دیا کہ اب ماہ پارہ کے فرض سے
بھی جلد ہی سبکدوش ہونا ہے، کوئی اچھا رشتہ ہو تو بتا دینا-

ماہ پارہ نے تنقیدی نظروں سے اپنا جائزہ لیا ، آئینے میں ایک بھر پور نگاہ خود پر ڈالی اور دو پٹا کھول کر اچھی طرح سر پر لیتے ہوئے کچن کی راہ لی ۔ گزشتہ چھ ماہ میں یہ دوسرا رشتہ تھا جن کے آگے ماہ پارہ نے ٹرالی سجا کر پیش کی تھی۔ پہلے دیکھنے کے لیے آنے والے آۓ ، کھایا پیا، دو چار باتیں کیں اور رشتہ بتانے والے کے ذریعے کہلا بھیجا۔
ابھی بچی چھوٹی ہے تھوڑی میچورلڑکی چاہیے جو شوہر کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمے داریاں بھی خوش اسلوبی سے سنبھال لے۔

شاہدہ بیگم افسردہ ہوئیں تو احسان صاحب نے سمجھایا کہ دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں، ابھی تو ابتدا ہے، ہماری بیٹی ماشاء اللہ صورت اور سیرت دونوں میں یکتا ہے، ایسی بھی کیا جلدی ہے ان شاء اللہ جلد ہی اپنے گھر کی ہو جاۓ گی ۔ تم ماہ رو کے لیے بھی پریشان رہتی تھیں نا اب دیکھ لو اللہ کا شکر ہے وہ بخوبی اپنے گھر میں بس رہی ہے۔

شاہینہ بیگم نے اپنے آنسو پونچھتے ہوۓ کہا۔ اللہ کا شکر ہے ہماری بیٹی اپنے گھر میں بھی بس رہی ہے ، بس اب ماہ پارہ بھی جلد اپنے گھر کی ہو جاۓ تو اچھا ہے۔ اس بے چاری کو شکوہ ہے کہ میں اس کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنی ، پر وہ کیا جانے ایک ماں کے دل کو ماہ رو کی تعلیم کی وجہ سے کتنی باتیں سنی ہیں بس اس ڈر سے میں نہیں چاہتی تھی کہ ماہ پارہ کی بھی عمراتنی ہو جائے کہ اس کو بھی بڑی عمر کے طعنے سننے پڑیں-
لیکن بیگم! یہ واقعی تم نے زیادتی کر ڈالی ہماری بیٹی کے ساتھ، زیادہ نہیں کم سے کم بی اے ہی کرنے دیتیں تو بھی کچھ نہیں تھا۔

شاہینہ بیگم نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ آپ صحیح کہتے ہیں، لیکن میں بہت ڈر گئی تھی ۔ اس لیے چاہتی تھی کہ مناسب وقت پر اسے اپنے گھر کی کر دوں، خیر اللہ جو کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے، ابھی کون سا زیادہ ٹائم گزر گیا ہے۔ اللہ بڑا کارساز ہے، جلد ہی ہماری بیٹی اپنے گھر کی ہوجاۓ گی اور اس کم عمری میں بھی اس میں اچھی سمجھ بوجھ ہے تعلیم بھی مناسب ہے جلد ہی اپنی گرہستی میں مگن ہو جائے گی تو اس کا زیادہ تعلیم حاصل نہ کرنے کا قلق بھی ختم ہو جاۓ گا ۔ دونوں نے ایک ساتھ ان شاء اللہ کہا۔

ایک فحاشہ عورت کی کہانی

لیکن یہ دنیا ہے، ایسی دنیا جو انسان کو کسی حال میں جینے نہیں دیتی ، بظاہر کوئی کمی ،کوئی خامی نہ ہوتے ہوۓ بھی دو سال پلک جھپکتے میں گزر گئے لیکن ماہ پارہ کا رشتہ طے نہ ہوا۔ بے کار کی بہانے بازیاں، باتیں ، بلا وجہ کی نکتہ چینی ، پتا نہیں لڑ کے کی ماں ہونا کون سا اور کہاں کا اعزاز ہوتا ہے جو مائیں رشتہ دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں اپنے ماتھے پر رکھ لیتی ہیں۔ چندے آفتاب، چندے ماہ تاب بہو تلاشتے ہوۓ اس بات کو قطعا فراموش کر دیتی ہیں کہ ان کے اپنے گھر میں بھی بیٹیاں ہیں اور یہ سلسلہ ازل سے یوں ہی چلا آ رہا ہے، یوں ہی چلتا رہے گا۔ ماں باپ لاکھ ترکیبیں لڑا لیں، لاکھ زمانے کے چلن کا ساتھ دینے کی کوشش کریں زمانہ پھر بھی انہیں جینے نہیں دیتا-

معصوم جذبات اردو کہانی

ماہ رو کے رشتے میں اس کی زیادہ تعلیم اور بڑھتی عمر رکاوٹ بنی تھی تو ماہ پارہ کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا، حال ہی میں آنے والے رشتے نے تو گویا احسان صاحب اور ان کی بیگم کی زبان پر تالے ہی ڈال دیے جب رشتے کے لیے آنے والی معزز خواتین نے سرتاپا ماہ پارہ کودیکھتے ہوئے سوال کیا۔
کتنا پڑھا ہے بیٹی نے ؟‘‘ شاہین بیگم جھٹ سے بولیں ۔

حسن کے پجاری ۔ مکمل اردو کہانی

ماشاءاللہ انٹر پاس کیا ہے میری بیٹی نے اور گھر کے سب کاموں میں بھی ماہر ہے۔ خاتون نخوت سے یہ کہتے ہوئے ان کی زبان کو تالا لگا دیا۔
نہ بہن صاف بات کہوں گی ، بچی تو ماشاءاللہ اچھی ہے، لیکن معاف کیجیے گا ہم نے اپنے بیٹے کو اتنا پڑھایا لکھایا تو لڑکی بھی اس کے ٹکر کی ہی ہونی چاہیے نا ، ہمیں تو ایسی بہو چاہیے جو زیادہ پڑھی لکھی ہوتا کہ جاب کر کے ہمارے بیٹے کا بوجھ بٹا سکے ، اس کا ساتھ دے سکے نہ کہ الٹا اس کا بوجھ بڑھاۓ ۔

میڈم روزی کا بھیانک انجام

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں