محلے کی انوکھی بھابھی
از قلم: مبشر عزیز
چھوٹا سا محلہ جس میں سوائے چار پانچ پکے مکانوں کے باقی سب کچے مکان تھے لیکن خوشی غم سب کا سانجھا تھا۔ جہاں محلے دار کے غم میں سب سوگوار ہوتے تھے وہاں محلے دار کی خوشی میں بھی سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
اپنے شوہر، ساس، چار نندوں اور دو دیوروں کے ساتھ اس نے اپنی شادی شدہ زندگی کی ابتدا کی اور تمام کے ساتھ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ چلتی رہی۔ ہر گھر میں لڑائی جھگڑا چلتا رہتا تھا اور اس گھر میں ہوتا تھا لیکن پورا محلہ گواہ تھا کہ انہوں نے کبھی بھی جھگڑے میں بڑی بھابھی کی آواز نہیں سنی تھی۔ اگر کبھی کوئی اسے طنز کا نشانہ بناتا بھی تو بس یہ خاموشی سے آنکھوں میں آنسو لاکر اپنے کمرے میں چلے جاتی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس کے آنگن میں پھول کھلتے چلے گئے اور جگہ کی تنگی کے باعث وہ اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ والوں کے چوبارے پر منتقل ہوگئی لیکن چھت پر سے درمیان والی دیوار گرادی گئی تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے۔
جہاں کسی کو اپنے گھر میں کھانا پسند نہیں آتا وہ بے دھڑک بھابھی کے پاس چلاآتا اور بعض اوقات بھابھی اپنے حصے کا کھانا بھی اٹھا کر آنے والے کو دے دیتی تھی۔ محلے میں کوئی خوشی غم ہو۔ بھابھی سب سے آگے اور حسب توفیق غرباء کی مدد بھی کردیتی تھی۔
محلے میں کسی گھر میں جھگڑا ہوتا تو فوراً پہنچ کر صلح صفائی کرواتی تھیں۔
یہاں تک محلے پڑوس کی غریب بوڑھی عورتیں جو گھروں میں کام کرتی تھیں، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بھی بھابھی کو بیٹی کہنے کے بجائے بھابھی ہی کہتی تھیں۔
کچھ عرصے میں نئی بہوئیں محلے میں آگئیں اور جب ان کے بچے بھی بڑے ہوئے تو ان کے لیے بھی یہ بھابھی تھیں۔ پورے محلے کے بچے بھابھی کے گھر آکر ادھم مچاکر رکھتے لیکن مجال ہے جو کبھی ماتھے پر شکن بھی آئی ہو۔
آنے والے وقت میں اس کی تمام نندوں اور دیوروں کی شادیاں بھی ہوئیں اور ساس کے فوت ہونے کے بعد اس نے نندوں کے لیے ماں کا کردار بھی ادا کیا اور ہر عید سعید پر اپنے شوہر کو مجبور کرتی کہ بہنوں کو کچھ نہ کچھ بھجوا دو۔
خاندان کی شادیوں میں شوہر بہت کم شرکت کرتے لیکن بھابھی اپنے تمام بچوں کے ساتھ لازمی شرکت کرتی تھی ۔ پہننے اوڑھنے کا سلیقہ جیسا خود میں تھا ویسا ہی بچے بچیوں میں بھی تھا۔
شوہر کا بہت نام تھا لیکن خرچے بھی اس ہی طرح تھے اور رفاہی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصے لینے کی وجہ سے بعض اوقات اپنا کام بھی متاثر رہتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہوتی تھی لیکن مجال ہے جو بھابھی نے کبھی کسی کے سامنے تنگی کا رونا رویا ہو بلکہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتی نہ تھکتی تھی۔ بچے اکثر سوال کرتے کہ کہ تمام رشتے دار اور پڑوسی سمجھتے ہیں ہم بہت امیر ہیں۔ بھابھی مسکرا کر کہتی ”تو سمجھنے دو انہیں“ اور کام سے لگ جاتی تھی۔
وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ پتا ہی نہیں چلا کہ کب بھابھی دادی اور نانی بن گئی لیکن محلے کی کوئی شادی ہوتی تو تمام لوگ اس میں شرکت کے ساتھ ساتھ بھابھی بھابھی یا خالہ خالہ کرتے ضرور ملنے آتے تھے اور ڈھیر ساری دعائیں لے جاتے تھے۔ ان کو بہت ہنسی آتی جب محلے کی بہووں کے بچوں کے بچے بھی انہیں خالہ جی یا بھابھی کہتے۔ پھر وہ اچانک صاحب فراش ہوگئیں لیکن پانچ وقت کی نماز اور قران آخری لمحے تک نہ چھوڑا۔
ان کے فوت ہونے پر محلے کی ایک بہو جو محلہ چھوڑ کر جاچکی تھی نے رورو کر بتایا کہ اس کا شوہر اسے بہت مارتا تھا اور کسی گھر والے کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ مجھے چھڑوائے لیکن بھابھی کو پتا چلتا تو وہ فوراً سے پیشتر مجھے چھڑواتی اور اپنے گھر لے جاتی تھیں۔ میں ان کے احسانات کیسے بھولوں، میری کچھ بھی نہ لگتے ہوئے وہ میری ڈھال تھی۔ میری ماں کی جگہ تھیں اور اس سے آگے ان کی آواز بھراگئی۔
محلے کی ایک بچی گویا ہوئی کہ اس کے والد اس کو بہت مارتے تھے لیکن بھابھی مجھے بچا کر لے جاتیں اور کھانا تک کھلاتی تھیں۔ میرے لیے ماں سے بڑھ کر تھیں اب میں کس کے لیے ادھر آیا کروں گی مجھے دعائیں کون دے گا۔ وہ خود تو روئی لیکن پورا ماحول اشکبار کر گئی۔
بھابھی کی نند بھی بولی کہ جتنا صبر و شکر بھابھی میں تھا اور کسی میں نہ تھا۔ انہوں نے ہمیں کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی اور فوت ہونے پر جو ان کے چہرے پر نور تھا وہ ان کے صبر و شکر اور اللہ کی نیک بندی ہونے کا ضامن تھا۔
محلے کی بیٹیاں جب کبھی اکٹھا ہوتی ہیں تو بھابھی کو یاد کرکے خود بھی روتی ہیں اورم دوسروں کی آنکھیں بھی اشک بار کرواجاتی ہیں۔
ادھوری خواہشات ۔ مکمل اردو کہانی
غرضیکہ بھابھی چلی گئیں لیکن جاتے جاتے بتا گئیں کہ بھابھی کے مقدس رشتہ کیا ہوتا ہے اور اسے نبھایا کیسے جاتا ہے۔
اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے (آمین)
چاندنی میں آتی ہے کس کو ڈھونڈنے خوشبو
ساحلوں کے پھولوں کو کب سے رو گئے دریا
بجھ گئی ہیں قندیلیں خواب ہو گئے چہرے
آنکھ کے جزیروں کو پھر ڈبو گئے دریا
معصوم جذبات اردو کہانی
0 تبصرے