مدرسے کا طالب علم اور بد کارعورت
وہ عورت روز اس نوجوان کو دیکھا کرتی تھی لیکن وہ بغیر اس کی طرف دیکھےسر جھکا کر اس کی گلی سے گزر جاتا۔دیکھنے میں کیسی مدرسے کا طالب علم لگتا تھا۔لیکن اتنا خوبصورت تھا کہ اسے دیکھتے ہی وہ عورت اپنا دل دے بیٹھی اور اب چاہتی تھی کہ کسی طرح وہ نوجوان اس پر نظرِالفت ڈالے۔لیکن وہ اپنی مستی میں مگن سر جھکائے زیرِلب کچھ پڑھتا ہوا روزانہ ایک مخصوص وقت پر وہاں سے گزرتا اور کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔اس عورت کو اب ضد سی ہو گئی تھی۔وہ حیران تھی کہ کوئی ایسا نوجوان بھی ہو سکتا ہے جو اس کی طرف نہ دیکھے۔اور اسے ایسا سوچنے کا حق بھی تھا کیونکہ وہ اپنے علاقے کی سب سے امیر اور خوبصورت عورت تھی۔
خوبصورت اتنی کہ جب وہ باہر نکلتی تو لوگ اسے بے اختیار
دیکھنے پر مجبور ہو جاتے۔اسے حیرت تھی کہ جس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیےلوگ ترستے ےہیں وہ خود کسی کو پسند کرے اور وہ مائل نہ ہو اس کے طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کرے۔بس پھر کیا تھا۔اپنی انّا کی شکست اور خوبصورتی کی توہین پر وہ پاگل ہو گئی۔وہ کوئی ایسا منصوبہ سوچنے لگی جس سے وہ اس نوجوان کو حاصل کر سکے۔
اس نوجوان کا غرور توڑنے کے لیے وہ کوئی ترکیب سوچنے لگی۔کافی سوچ بچار کے بعد اس کے شیطانی دماغ مین ایک منصوبہ بن گیا۔اس سے وہ اس نوجوان کو اپنے گھر بلا سکتی تھی اور اپنی خواہش بھی پوری کر سکتی تھی۔نوجوان کو پھانسہ جا سکتا تھا اور پھر وہ نوجوان اس کی بات مانے بنا رہ بھی نہیں سکتا تھا۔اس عورت کے دل و دماغ پر شیطان غالب آ گیا۔وہ اس عورت کو بار بار اکسا رہا تھا۔اس طرح وہ عورت برائی کی طرف مکمل طور پر مائل ہو چکی تھی۔وقت ضائع کیے بنا وہ اپنا مقصد پورا کرنا چاہتی تھی۔
اگلے دن جب وہ نوجوان اس گلی سے گزر رہا تھا تو ایک عورت اس کے قریب آئی اور کہنے لگی:
”بیٹا بات سنو ۔۔۔ تم سے ایک کام ہے۔میری مالکن تمہیں بلا رہی ہے شاید مالکن کوئی مسئلہ پوچھنا چاہتی ہے “
لڑکے نے جواب دیا: ”ٹھیک ہے ماں جی آپ ایسا کریں اپنی مالکن کو دروازے پر بلا لیں میں بات سن لیتا ہوں “
عورت بولی: ”بیٹا اس کی کچھ مجبوری ہے وہ گھر سے باہر نہیں آ سکتی۔آپ گھر کے اندر آ جائیں “
کچھ دیر کے لیے اس نوجوان نے کچھ سوچا پھر اس عورت کے ساتھ گھر کے اندر چلا گیا۔اس لڑکے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو عورت اسے بلا رہی ہےاس کا منصوبہ کیا ہے؟ وہ کیا چاہتی ہے؟لڑکا نہایت شریف، پاکباز اور سادہ دل انسان تھا۔بے چارہ لڑکا اپنی فطرتی سادہ دلی کی وجہ سے اس کی مدد کرنے کے لیے اس کے گھر آ گیا تھا۔اس کے ذہن میں تھا کہ مالکن شاید کوئی بوڑھی عورت ہے اور اپنی کسی معذوری کی وجہ سے باہر آنے سے قاصر ہے۔
نوکرانی نے اسے کمرے میں بیٹھایا اور انتظار کرنے کا کہ کر باہر چلی گئی۔لڑکا کمرے میں اکیلا رہ گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ حسین عورت اس کمرے میں داخل ہوئی۔نوجوان نے بے اختیار اپنی نکاہیں جھکا لیں۔کیونکہ اندر آنے والی عورت بہت خوبصورت تھی اور اس نے بہت باریک لباس پہنا ہوا تھا۔لباس سے اس کے نسوانی اعضاء جھلک رہے تھے۔
اس نوجوان نے پوچھا: ”بی بی آپ نے کون سا مسئلہ پوچھنا ہے؟ “
وہ عورت دیوانہ وار اس لڑکے کو دیکھے جا رہی تھی۔شیطان اپنا کام دیکھا رہا تھا۔عورت کے چہرے پر اک شیطانی مسکراہٹ آگئی۔اس نے اپنے دل کا حال کھول کر رکھ دیا اور کہا: ”میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں ایک بار تمہیں حاصل کر لوں، میرے قریب آؤ میں نے تمہارا بہت انتظار کیا ہے “
نوجوان یہ بات سن کر کانپ گیا۔اور کہنے لگا: ”اللہ کی بندی اللہ سے ڈرو۔کیوں گناہ کی طرف مائل ہو رہی ہو؟ ایسا کرنے غلط ہے اور بدکاری بہت بری چیز ہے انسان بری طرح بھٹک جاتا ہے “
اس لڑکے نے عورت کو بہت سمجھایا مگر اس عورت کے دل و دماغ پر شیطان سوار تھا۔وہ ہر صورت اس لڑکے کو حاصل کرنا چاہتی تھی ۔اس کا پلان کامیاب ہونے جا رہا تھا اور جس بات کا وہ کئی دنوں سے انتظار کر رہی تھی آج اد کی وہ خواہش بھی پوری ہو جاتی۔وہ حسین عورت اس لڑکے کی طرف بڑھی اور بولی: ”یا تو تم میری خواہش پوری کرو گے یا پھر میں شور مچاؤ گی کہ تم زبردستی میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری عزت پر حملہ کیا ہے “ یہ کہ کر اس عورت نے اپنے سینے سے باریک کپڑا تھوڑا پھاڑ دیا جس سے اس کا دودھیا بدن دعوتِ نظارہ دینے لگا۔
نوجوان گھبرا کر پیچھے ہو گیا اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔اسے اپنی عزت بھی محفوظ نظر نہیں آ رہی تھی۔اس عورت کی بات مان کر اس کی خواہش پوری کرتا تو بدکار کہلاتا اور گناہگار بن جاتا۔اور اگر اس عورت کی بات ماننےسے انکار کرتا تو لوگوں کی نظر میں برا اور بد کار ثابت ہوتا اور لوگ اسے جان سے بھی مار دیتے۔جبکہ وہ لوگوں میں معزز اور عزت دار تھا۔
اس عورت کی دیوانگی بڑھتی جا رہی تھی۔وہ سمجھ چکی تھی کہ لڑکا اس کے جال میں بری طرح پھنس چکا ہے۔اب جلد ہی اس کی خواہش پوری ہو جائے گی۔عورت نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا اور خود کو بے لباس کرنے لگی۔ وہ لڑکا ایک عجیب مصیبت میں پھنس چکا تھا۔وہ علاقہ جہاں لوگ اس کی شرافت کی مثالیں دیا کرتے تھے وہاں پر اس پر ایسا الزام لگ جائے اسے یہ بھی گوارہ نہیں تھا۔
وہ لڑکا دل ہی دل میں اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور اللہ سے مدد چاہی تو اس کے ذہن میں بچاؤ کی اک ترکیب آگئی۔اس نے عورت سے کہا: ”ٹھیک ہے میں تمہاری خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا ورنہ میری عزت اور شرافت داغ دار ہو جائے گی “
بہت سوچ سمجھ کر اس لڑکے نے اپنی ترکیب پر عمل کرنا شروع کر دیا۔عورت جو کہ مکمل بے لباس ہو چکی تھی، تیزی سے اس لڑکے کے جانب بڑھی کہ اس نوجوان کو اپنی باہوں میں بھر لے۔لیکن لڑکا تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔عورت کو اب غصہ آنے لگا وہ چیختے ہوئے ؒرکے کی جانب لپکی اور بولی: ”میں جل رہی ہوں، جلدی سے میری پیاس بجھا دو اور مزید انتظار مت کراؤ “
لڑکا بولا: ”ٹھہرو ۔۔۔۔! مجھے بیت الخلاء کی حاجت محسوس ہو رہی ہے “
عورت نے اسے بیت الخلاء جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا: جاؤ اس طرف بیت الخلاء ہے۔اس نوجوان نے اندر جا کر اپنی منصوبے کے مطابق بہت سے غلاظت اپنے جسم پر ملنا شروع کر دی۔بدبو سے اس کا سارا بدن بھر گیا۔اس کی اپنی حالت بھی غیر ہونے لگی۔لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
وہ نوجوان اسی حالت میں اس عورت کے پاس اس کے کمرے میں آگیا۔عورت اسے دیکھتے ہی چلا اٹھی:
”تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ مجھ جیسی نفیس طبیعت والی کے سامنے اتنی گندی حالت میں آگئے، دفع ہو جاؤ، نکل جاؤ میرے گھر سے “
اس عورے کا دماغ غلاظت اور بدبو سے پھٹا جا رہا تھا۔
نوجوان فوراً اس عورت کے گھر سے نکل گیا اور قریب ہی ایک نہر پر اپنے آپ کو اوراپنے کپڑوں کو اچھی طرح پاک کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوا واپس مدرسے چلا گیا۔ نماز کے بعد جب وہ سبق پڑھنے بیٹھا تو ٹھوڑی دیر بعد استاد نے کہا: آج تو تم میں سے کسی تمہارے کپڑوں سے بہت پیاری خوشبو آ رہی ہے۔کس طالب علم نے خوشبو لگائی ہے۔
وہ نوجوان سمجھ گیا کہ اس کے جسم سے ابھی تک بدبو نہیں گئی اوراستاد جی طنز کر رہے ہیں۔وہ اپنے آپ میں سمٹ گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔تھوڑی دیر بعد استاد جی نے پھر پوچھا کی یہ خوشبو کس نے لگائی ہے؟ لیکن وہ نوجوان خاموش رہا۔آخر استاد نے ایک ایک کر کے سب کو بلایا اور خوشبو سونگھنے لگے۔
اس نوجوان کی باری آئی تو وہ بھی سر جھکا کر استاد کے سامنے کھڑا ہو گیا۔استاد نے اس کے کپڑوں کو سونگھا تو وہ خوشبو اس کے کپڑوں سے آ رہی تھی۔استاد نے کہا تم بتا کیوں نہیں رہے تھے کہ یہ خوشبو تم نے لگائی ہے؟نوجوان رو پڑا ور کہنے لگا بس استاد جی اب اور شرمندہ نہ کریں۔مجھے پتہ ہے میرے کپڑوں سے بدبو آرہی ہے۔لیکن میں مجبور تھا ۔اس نوجوان نے سارا واقعہ استاد کو کہ سنایا۔
استاد نے کہا میں تمہارا مزاق نہیں اڑا رہا۔خدا کی قسم تمہارے کپڑوں سے ہی ایسی خوشبو آ رہی ہے جو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سونگھی۔یقیناً یہ اللہ کی طرف سے ہے کہ تم نے اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے خود کو گندگی لگایا پسند کیا۔لیکن اللہ نے اس گندگی کو ایک ایسی خوشبو سے بدل دیا جو کہ اس دینا کی نہیں لگتی۔
کہتے ہیں اس نوجوان کے کپڑوں سے ہمیشہ وہ خوشبو آتی رہی۔
سبحان اللہ، ہم سب مسلمانوں کو اللہ پاک ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔آمین
0 تبصرے