عشق آتش مکمل اردو ناول ۔ تحریردعا ملک

عشق آتش

"دعا دعا اٹھ جائو جلدی بیٹا کالج نہیں جانا کیا چلو اٹھو جلدی دیر ہو رہی ہے "قدسیہ بیگم پچھلے آدھے گھنٹے سے اسے اٹھا رہی تھیں ساتھ ساتھ کمرہ بھی سمیٹ رہی تھیں لیکن دعا میڈم تو گدھے گھوڑے بیچ سو رہی تھی اٹھنے کا نام ہی نہیں لے تھی
"دعا اٹھ جائو جلدی آٹھ بج گئے ہیں اب اگر تم نا اٹھی نا تو میں نے پانی پھینک دینا ہے " قدسیہ بیگم نے دھمکی دی جو کہ کارگر ثابت ہوئی دعا جو کہ کسلمندی سے پڑی اونگھ رہی تھی آٹھ بجے کا سن کر نیند بھک سے اڑی
"آٹھ بج گئے ہیں اور آپ مجھے اب اٹھا رہی ہیں افف اللہ میاں آج تو میں نے جلدی جانا تھا فرسٹ پریڈ میں ٹیسٹ ہے میرا دعا آج تو تیری خیر نہیں مس عائیشہ نے چھوڑنا نہیں ہے تجھے"وہ پریشانی سے بڑبڑاتے بال سمیٹتے ہوئے اٹھی اور واش روم کی طرف دوڑ لگا دی قدسیہ بیگم نے ایک نظر اسے دیکھا اور ناشتہ بنانے چل دیں
دعا تیار ہوکر نیچے آئی ناشتہ میز پر لگا ہوا تھا جلدی جلدی کھایا بلکہ ٹھونسا ۔
"امی بھائی کو بلا دیں جلدی دیر ہو رہی ہے "وہ بھرے ہوئے منہ سے بولی
"اچھا"
"زین زین العابدین آجائو دعا تیار ہوگئی ہے "وہ وہیں سے اسے آواز لگاتے ہوئے بولیں
تھوڑی دیر میں زین تیار ہو کر باہر آیا دعا پہلے سے ہی تیار کھڑی تھی وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا باہر نکلا
اتنے میں قدسیہ بیگم بھی باہر آ گئی تھیں اسے ہڑبڑی میں باہر بھاگتے دیکھ کر وہ بولیں
"ارے یہ ناشتہ تو پورا کر کے جائو"
"نہیں ہوگیا بس اگر بھوک لگے گی تو کینٹین سے لے کر کھا لوں گی اچھا اللہ حافظ "
انہیں جواب دے کر وہ باہر نکلی زین گاڑی اسٹارٹ کر رہا تھا اسے آتے دیکھ کر فرنٹ سیٹ کا دروازے کھولا اور گاڑی بھگا گیا
اسے کالج چھوڑ کر اس نے گاڑی کا رخ یونیورسٹی والے راستے کی طرف موڑ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مے آئی کم ان میم"
"نو"
سوری میم"وہ شرمندگی سے بولی کیونکہ پوری کلاس اس کی طرف متوجہ ہو گئی تھی ساتھ ساتھ وہ دل میں اپنے آپ کو ڈھیروں گالیاں بھی دے رہی تھی کیا تھا جو وہ تھوڑا پہلے اٹھ جاتی وعدہ پکا وعدہ آئیندہ سے بھائی سے بھی پہلے اٹھوں گی
میم اس کے چہرے پر شرمندگی دیکھ کر بولیں
"اوکے آجائیں لیکن نیکسٹ ٹائم جلدی آنا ہے ورنہ میں نے کلاس میں انٹر ہی نہیں ہونے دینا"
ان کی بات پر وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی
اور توجہ سے لیکچر سننے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدسیہ بیگم اور اعجاز ملک کی پسند کی شادی تھی اعجاز ملک کا اپنا بزنس تھا ان کے دو بچے تھے دعا اور زین العابدین
دونوں ابھی پڑھ رہے تھے دعا سیکنڈ ایئر میں پڑھتی تھی جبکہ زین لاء کر رہا تھا دونوں بہن بھائی میں بہت محبت تھی لیکن زین تھوڑا سنجیدہ قسم کا بندہ تھا اور دعا ہنس مکھ خوش اخلاق تھی دعا بلا کی حسین تھی لمبے سلکی بال جھیل سی بڑی بڑی نیلی آنکھوں والی دعا ہنستی تھی تو ڈمپل پڑتے تھے دونوں بہن بھائی کی عمر میں پانچ سال کا فرق تھا دعا سترہ کی جبکہ زین بائیس کا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا کافی دنوں سے نوٹ کر کررہی تھی کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے لیکن جب وہ ادھر ادھر دیکھتی تو کوئی نہیں ہوتا شروع شروع میں نے وہم سمجھا لیکن اب اسے واضح محسوس ہوتا تھا وہ جس کالج میں پڑھتی تھی وہ گرلز کالج تھا اس کی صرف ایک ہی دوست تھی
زین اسے کالج چھوڑ کر یونی چلا جاتا اور واپسی پر اسے پک کر لیتا ایک دن وہ کالج سے باہر زین کے انتظار میں کھڑی تھی

ایک دن دعا گیٹ پہ ٹھہری اپنے بھائی کا انتظار کر رہی تھی دھوپ کی تمازت سے اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اس نے کلائی پر پہنی گھڑی دیکھی پندرہ منٹ اوپر ہو گئے تھے مگر زین کا کوئی اتا پتا نہیں تھا اسے اچانک احساس ہوا کہ کوئی اس کے ساتھ آکر کھڑا ہوا ہے اس نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا اس نے غصہ اور جھنجھلاہٹ سے اپنے چاروں طرف گھوم کر دیکھا چھٹی کا ٹائم تھا کافی بھیڑ مچی ہوئی تھی وہ قدرے الگ تھلگ سی جگہ پر کھڑی تھی جہاں سے سامنے کا منظر صاف نظر آرہا تھا گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا عبداللہ جو عائیشہ کو لینے آیا تھا اچانک اس کی نظر دعا پر پڑی اس کا حسن چہرے کی معصومیت اس کی آنکھیں وہ مبہوت سا رہ گیا دل نے ایک بیٹ مس کی وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا آس پاس کی پرواہ کیے بغیر
"بھائی کہاں کھو گئے ہیں کب سے آوازیں دے رہی ہوں"
عائیشہ کی آواز پر وہ ہوش میں آیا اور اس حور سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا
"آہاں کہیں نہیں چلو"وہ الوداعی نظر اس پر ڈالتا مسکراتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا یہ منظر کسی اور نے بھیدیکھا تھا اور مٹھیاں بھینچ کر سرخ آنکھوں سے اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ کا تعلق ایک امیر کبیر خاندان سے تھا دو بہنیں اور ایک بھائی تھا وہ اس کے والد اکمال صاحب ایک مشہور بزنس مین تھے ماں ہائوس وائف تھی بڑی بہن سعدیہ کی شادی ہوگئی تھی اور چھوٹی عائیشہ ابھی پڑھ رہی تھا اس کی منگنی اس کے خالہ زاد کےساتھ بچپن سے طے تھی عبداللہ کی پڑھائی مکمل ہوگئی تھی اور اب وہ اپنے باپ کا بزنس سنبھالنے کا سوچ رہا تھا ایسے ہی دن گزر رہے تھے جب ایک دن عائیشہ کو کالج سے واس لاتے ہوئے اس کی نظر اپنے آپ میں مگن کھڑی دعا پر پڑ گئی تھی پہلی بار اسکا دل
دھڑکا تھا کسی کے لیے ورنہ وہ لڑکیوں سے دور بھاگنے والا انسان تھا
اس کی شاندار پرسنالٹی کی وجہ سے کئی لڑکیاں اس پر لٹو تھیں
مگر دعا پر وہ اپنا دل ہار چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے سائے اپنے پر پھیلاچکے تھے سردیوں کی راتیں تھیں ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا سب اپنے اپنے کمروں میں لحاف تانے سونے کی تیاری کر رہے تھے
ایسے میں اپنے کمرے میں بیٹھی دعا سٹڈی ٹیبل پر بیٹھی پڑھ رہی تھی نیند کی وجہ سے آنکھیں کھل رہی تھی بند ہو رہی تھی آخر تھک ہار کر وہ اٹھی الماری سے ڈھیلا ڈھالا ٹرائوزر شرٹ نکالا اور واش روم میں گھسی چینج کرنے کے بعد وہ ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر بالوں میں پھیرنے لگی اس کی عادت تھی سوتے ہوئے کنگھا کرنا ڈوپٹے سے بے نیاز وجود لمبے گھنے بالوں کی آبشار پھیلائے وہ سیدھا کسی کے دل میں اتر رہی تھی وہ انجان تھی کہ وہ کسی کی گہری نظروں کے حصار میں ہے بالوں سے فارغ ہوکر وہ بیڈ پر آئی اور جلد ہی گہری نیند میں چلی گئی جبکہ پاس بیٹھا وجود ویسے ہی بیٹھا اسے تکتا رہا

آدھی رات کو اس کی آنکھ ایک عجیب سے احساس کے تحت کھلی تھی کمرے میں گھٹن سی ہو رہی تھی حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے
اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھایا اور گلاس میں ڈال کر پانی پینے لگی
"دعا میری پرنسز"
ایکدم ایک سرگوشی سی کمرے میں گونجی اپنے کان کے قریب ہوئی سرگوشی پر وہ یکدم ڈر گئی دل یکدم سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا گلاس چھوٹ کر نیچے فرش پر جا گرا ہاتھ پائوں کانپنے لگ گئے
آنکھیں پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی لائٹ جلانے کی تو ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی
"پرنسز"دوبارہ آواذ گونجی وہ ڈرکر گھٹنوں میں منہ چھپا گئی لائٹ کا بٹن اون ہونے کی آواز پر اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹ گئیں فورا سے پہلے چہرہ اٹھا کے نووارد کودیکھنا چاہا
لیکن لائٹ بند ہوگئی
"ک۔۔ک کون ہے"کانپتی آواز میں پوچھا
کوئی جواب نہیں اس کی آنکھیں بھرا گئیں نیلے سمندر سے پانی باہر آنے کو بیتاب تھا
"ب ۔۔۔ب۔۔۔۔بھوت" اتنا آہستہ بولی کہ خود نے کانوں نے با مشکل اس کی آواز سنی لیکن مقابل کی تیز سماعت نے بآسانی اس کی سرگوشی سنی اور گہرا سانس بھرا
پھر اسے لگا کوئی اس کے سامنے آکر بیٹھا ہو کانپتے دل سے نظریں اٹھائیں اندھیرے میں اس کی صرف کالی سیاہ آنکھیں ہی دیکھ پائی جو چمک رہی تھی
خوف سے اس کی حالت غیر ہونے لگی وہ اٹھ کر بھاگنا چاہتی تھی چلانا چاہتی تھی لیکن اس کے حلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی
پائوں جیسے کسی ان دیکھی زنجیر میں قید تھے
"ک۔۔ک۔۔۔کون ہو ۔۔ک۔۔۔ک۔۔کیا ۔۔۔۔۔چ۔۔۔۔چا۔۔۔چاہتے ۔۔ہو"وہ بگڑتے تنفس بمشکل کانپتی آواز میں بولی
"تمہیں"سکون سے جواب دیا گیا پہلی بات کو سرے سے نظر انداز کر دیا اس کی بھاری آواز پر اس کی دھڑکنیں تھمی اسے لگا ہوا میں آکسیجن کی کمی ہو گئی ہے
پھر ایکدم پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
"مم۔۔۔مما ۔۔۔پاپا ۔۔۔پچائو۔۔ م۔۔مجھے ۔۔۔بھوت" وہ پچکیوں سے روتی بولی وہ لب بھینچے اسے دیکھے گیا اس کا رونا نا گوار گزرا اس پر
"چپ ۔۔بالکل چپ اب آواز نا آئے مجھے تمہاری"وہ سرد آواز میں دھاڑا جس پر وہ ایکدم ڈر کر اچھلی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں وہ دھیرےدھیرے کانپ رہی تھی
اس کی حالت دیکھ کر وہ قدرے نرم پڑا
"شش ۔۔۔بس رونا بند کرو چپ"ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو صاف کرنے لگا
بس یہیں تک برداشت تھی اس کی وہ روتے ہوئے اس کے بازوئوں میں جھول گئی
اس نے ایک نظر اپنی بانہوں میں موجود اس نازک وجود کو دیکھا جو اس کی سانسوں میں بس گئی تھی پھر اسے احتیاط سے اٹھاتے
بیڈ پر لٹایا اسے کمفرٹر اوڑھا کر وہ پیچھے ہوا
پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر نجانے کیا پڑھا اور اسے دیکھتے غائب ہو گیا
☆☆☆☆☆☆☆
صبح جب وہ اٹھی تو اسے رات کا واقعہ بھول چکا تھا وہ معمول کے مطابق اٹھی فریش ہو کر کالج جانے کی تیاری کرنے لگی دن ایسے ہی گزرنے لگے ایک دن وہ لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی بور ہو رہی تھی بےچاری
جب اپنے کمرے سے نکلتی تیار شیار قدسیہ بیگم کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکی
"مما آپ کہیں جا رہی ہیں کیا"وہ حیرانی سے بولی
"بیٹا جی میں نہیں آپ بھی چل رہی ہیں ساتھ"وہ اس کے پاس آتی بولیں
"جی میں لیکن کہاں "
"میری دوست کے بیٹے کی شادی ہے ہم سب کو بلایا ہے لیکن میں اور آپ جا رہے ہیں بس آپ کے پاپا جا نہیں رہے اور زین کمبائن اسٹڈی کے لیے اپنے دوست کے گھر گیا ہے اس لیے اب اٹھو جلدی پندرہ منٹ میں تیار ہو کر آئو "وہ اسے تفصیل سے بتاتیں آخر میں آرڈر دیتے بولیں
"نا نا میں تو نا جائوں کبھی بھی نہیں "وہ بدک کر بولی
وہ کسی بھی فنگشن میں نہیں جاتی تھی سب کی گھورتی نگاہوں سے اسے نروس کیے رکھتی تھیں لڑکوں کی گنگناتی آوازیں آگے پیچھے پھرنا وہ رونے والی ہو جاتی تھی اس لیے اس نے جانا ہی چھوڑ دیا تھا کہیں
"کیوں نہیں جائو گی مجھے نہیں پتا کیا کتنی ڈرپوک ہو تم اکیلے رہ لو گی اتنے بڑے گھر میں "انہوں نے تیوری چڑھائے طنزیہ انداز میں کہا
"رہ لوں گی مما ملازم ہیں تو سہی اور موسم دیکھیں کیسا ہو رہا ہے ابھی بارش ہو جائے گی"وہ جلدی سے بولی
"ملازموں کو سب کو میں نے بھیج دیا ہے صرف چوکیدار بابا ہیں اور موسم کو کیا ہوا ہے اتنا اچھا تو ہو رہا ہے اور اگر بارش ہوئی بھی تو ہم کونسا پیدل جا رہے ہیں جو تم بھیگ جائو گی اور ہم جلدی آجائیں گے"وہ اس کی فرار کی تمام راہیں مسدود کرتی ہوئی بولیں
"مما نا کریں نا "وہ اب کے بے بس ہوکر بولی
"دعا تیار ہو کر آئو فٹافٹ "اب کے وہ روعب سےبولیں
وہ منہ بسورتی اٹھی اور پائوں پٹخ کر اپنے کمرے کی طرف تیار ہونے کے لیے بڑھ گئی جبکہ وہ گہرا سانس بھرے وہیں بیٹھ گئیں وہ کس بھی صورت اسے اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھیں
☆☆☆☆☆☆☆
گلابی کلیوں والا پائوں کو چھوتا فراک پہنے لمبے بالوں کوکھلا چھوڑے جھیل سی نیلی آنکھوں پر لائینر لگا ہوا تھا سرخ ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک لگی ہوئی تھی کانوں میں ایئر رنگ اور ہاتھوں میں بریسلیٹ پہنا ہوا تھا جو اس کی سفید کلائی پر بڑا جچ رہا تھا
ابھی وہ جوتوں کے اسٹریپ بند کررہی تھی جب اس کی ماں اندر داخل ہوئی
اسے دیکھتے ہی وہ ٹھٹھک گئیں اتنی حسین لگ رہی تھی کئی پل تو وہ اسے دیکھتی رہیں
پھر اپنی ہی نظر نہ لگ جائے اس ڈر سے نظریں پھیر گئیں
"چلیں مما"وہ آخری بار اپنے آپ کو شیشے میں دیکھتی ہوئ بولی
"ہمم۔۔۔چلو"
"مما میں کیسی لگ رہی ہوں "وہ اشتیاق سے پوچھنےلگی
"بہت بہت پیاری ماشاءاللہ اللہ نظر بد سے بچائے تمہیں"انہوں آگے بڑھ کر پیشانی چومی اس کی جس پر وہ شرما کر مسکرا دی
"چلو آجائو دیر ہو رہی ہے "وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھتی ہوئی بولیں
دعا بیٹھی بیٹھی بور ہو رہی تھی اس کی مما اسے لے تو آئی تھیں لیکن اسے لا کر جیسے بھول ہی گئی تھیں اپنی کوئی جاننے والی مل گئی تھی اور اس کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوکر اسے بالکل فراموش کر چکی تھیں اب وہ بیزار سی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی
پھر اس نے سوچا چلو گھوم پھر ہی لیتے ہیں یہ سوچ کر وہ اٹھی اپنی مما کو بتا کر باہر آگئی
"وائو یار وہ دیکھ ملکہ حسن "عبداللہ کے ساتھ کھڑے اس کے دوست نے دعا کو دیکھ کر کہا
"کتنی پیاری ہے یار میں نے آج تک اتنی حسین لڑکی نہیں دیکھی"
وہ دل پر ہاتھ رکھ کر ٹھرک پن سے بولا
اس کے تعاقب میں عبداللہ نے رخ موڑ کر سرسری سی نظر اس پر ڈالی یہاں سے اس کا سائیڈ فیس ہی نظر آرہا تھا لیکن وہ اسے پہچان چکا تھا وہ خوشگوار حیرت میں گھرا رہ گیا یہ تو وہی تھی جس کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر وہ وہ گھنٹوں کالج کے باہر کھڑا رہتا تھا لیکن نجانے کیوں اس دن کے بعد سے وہ اسے نظر ہی نہیں آئی تھی عائیشہ بھی حیران تھی کیونکہ وہ کہاں اسے لینے آتا تھا کبھی وہ تو ڈرائیور کے ساتھ ہی آتی جاتی تھی وہ تو اس دن اچانک گھر کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اور وہ اس کے کالج کے قریب ہی تھا کہیں اس لیے لینے آگیا تھا اب روز روز کالج کے چکر اس کا حیران ہونا تو فطری تھا خیر ۔۔۔
اب اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کا دل زور زور سے دھڑکا
وہ تو یہاں اپنے دوست کے بھائی کی شادی میں آیا تھا اسے کہاں پتہ تھا کہ آج اس دشمن جان سے ملاقات ہوگی وہ اب تک ساکت بے یقین سا کھڑا تھا
"کیا ہوا یار ٹھیک تو ہے نا "وہ کسی لڑکی کی طرف دیکھتا تک نہیں
تھا اور اب اسے مسلسل دیوانہ وار اس کی طرف دیکھتا پا کر احسن چونکتا ہوا معنی خیزی سے بولا
اس نے کوئی جواب نہیں دیا اسے دیکھتا رہا جو اب مڑ کر واپس جا رہی تھی اس کی نظر نہیں پڑی تھی اس پر
احسن نے زور سے پکڑ کر اس کا کندھا ہلایا وہ ہوش میں آیا اور گھور کر اسے دیکھا
"کیا ہے "پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا
"یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کیا ہے یہ سب"وہ آرام سےبولا
"کیا"وہ انجان بنا
"اتنا بن مت تو اچھی طرح سے جانتا ہے میں کیا کہ رہا ہوں کون تھی یہ لڑکی"و سنجیدہ ہوا
"کون سی لڑکی کیا کہ رہا ہے تو"وہ جھنجھلا گیا
احسن نے اس کے ایک دھپ رسید کی وہ اس کا بچپن کا دوست تھا
اس سےوہ کوئی بات نہیں چھپاتا تھا
"بتا رہا ہے یا "اس نے ہوا میں ہاتھ لہرایا
"بتاتا ہوں یار پہلے اپنا یہ ہاتھی جیسا ہاتھ پیچھے کر"پھر وہ اسے سب بتاتا گیا
☆☆☆☆☆☆☆☆
"مما یہ ڈرائیور کیوں نہیں آیا ابھی تک اتنی دیر ہوگئی ہے آپ بھائی کو فون کریں رات کے بارہ بج رہے ہیں نیند آ رہی ہے مجھے "وہ واقعی میں نیند میں جھول رہی تھی قدسیہ بیگم خود پریشان تھیں وہ بار بار سب کا فون ٹرائے کر چکی تھی میسیج بھی چھوڑ چکی تھیں انہوں نے دوبارہ زین کا نمبر ملایا تھا جو اب کی بار ریسیو کر چکا تھا
"زین کہاں تھے تم پتا ہے کتنی دیر سے کال کر رہی ہوں میں تمہیں "
"کیا ہوا سب خیر تو ہے اور کہاں ہیں آپ"
"ہاں میں اپنی دوست کی شادی میں آئی ہوئی تھی وہیں دیر ہوگئی دعا بھی میرے ساتھ ہے۔۔۔۔۔۔"وہ اگے ابھی بول ہی رہی تھیں جب ایکدم وہ ان کی بات کاٹتا ہوا بولا
"کیا آپ اب تک وہیں ہیں حد ہوتی ہے یار امی دعا کو بھی ساتھ لے گئیں پتا ہے نا آپ کو کہ شہر کے حالات کتنے خراب ہیں پھر بھی اب جلدی بتائیں مجھے کہاں ہیں آپ میں لینے آرہا ہوں "وہ پریشان ہو گیا تھا
انہوں نے اسے وہاں کا ایڈریس بتایا تو وہ جلدی سے کہنے لگا
"آپ وہیں بیٹھی رہیں میں آرہا ہوں ابھی"یہ کہ کر کال کاٹ گیا
"دعا تم یہیں بیٹھو میں ان کو اپنے جانے کا بتا کر آتی ہوں" دعا نے اثبات میں سر ہلا دیاوہ آگے مڑ گئیں
"پرنسز میری جان میری باربی ڈول کیسی ہو تم"ایک محبت بھری آواز اس کے کان کے پاس گونجی
وہ جو نیند میں جھول رہی تھی اس کی آواز پر پٹ سے آنکھیں کھولی اور اپنے سامنے بیٹھے اس پیارے سےشخص کوحیرت سے دیکھا جو اسے ہی نہارنے میں مصروف تھا
"ج۔۔۔جی آپ کون "وہ حیرت سے اسے دیکھتی اٹکتی بولی اس کی نظروں کے ارتکاذ پر کنفیوژ ہو رہی تھی
اس کی بات پر وہ مسکرایا
دعا نے حیرت سے اسے دیکھا تھا کتنا پیارا تھا وہ وہ دیکھتی رہ گئی
اس کی نظروں کی تپش وہ اچھے سے محسوس کر رہا تھا اور مسلسل مسکرا رہا تھا وہ خود بھی بے خود سا اسے ہی دیکھ رہا تھا
"آپ کون ہو"وہ ایک سحر کے زیر اثر بولی
"یوسف"وہ مسکرا کر بولا
پھر وہ اٹھا اس کے حسین روپ کو جی بھر کر دیکھا
اور سرگوشی میں بولا
"پھر ملیں گے پرنسز" ہوڈی سر پرڈالتا وہاں سے چلا گیا
جبکہ وہ حیران سی اس کی پشت کو تکتی رہ گئی
"یہ کون تھا"

عبداللہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا وہ اس سےکوئ بات ڈسکس کر رہی تھیں جس میں اس کا دھیان نہ ہونے کے برابر تھا سوچ کے پروانے تو ایک ہی ہستی کے گرد گردش کر رہے تھے آج وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی کتنی معصوم سی بس ایک بار وہ مجھے مل جائے اسے خود میں گم کر دوں گا اپنے دل میں چھپا کے رکھوں گا وہ یہی سوچے جا رہا تھا اور ہلکا ہلکا مسکرا رہا تھا اس کی ماں نے جب اسے خود میں ہی مگن مسکراتے ہوئے دیکھا تو چونک سی گئیں کتنے عرصے بعد وہ اسے ایسے خوش دیکھ رہی تھیں
ان سے رہا نا گیا تو پوچھ بیٹھیں
" عبداللہ جانی اکیلے اکیلے مسکرائے جا رہے ہو ایسی کونسی بات ہے جس نے میرے بیٹے کے چہرے پر پھول کھلا دیے مجھے بھی بتائو ذرا "وہ کھوجتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں
"مما بات ہی ایسی ہے آپ بھی خوش جائیں گی "وہ اٹھ کر بیٹھ گیا
"اچھا کیا بات ہے بتائو جلدی "وہ تجسس سے بولیں
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں ایک لڑکی ہے میں محبت کرتا ہوں اس سے"وہ تھوڑا ساجھجھک گیا
"ہمم کیا کرتی ہے کہاں رہتی ہے نام کیا ہے اس کا کہاں دیکھا تم نے "وہ ایکدم اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کر گئیں
وہ ہنس پڑا
"صبر صبر بتاتا ہوں دعا نام ہے اس کا سیکنڈ ائیر میں پڑھتی ہے کہاں رہتی ہے یہ بھی میں نے پتا کر لیا ہے آپ نے اس کے گھر رشتہ لے کر جانا ہے میرا "وہ دوبارہ سے ان کی گو میں سر رکھ چکا تھا
"مما آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا"
"نہیں بیٹا مجھے کیا اعتراض ہونا ہے"وہ خوش تھیں اپنے بیٹے کی خوشی میں
"پھر آپ کب لے کر جارہی ہیں میرا رشتہ "و بے صبرا ہوا
"دیکھتی ہوں تمہارے پاپا سے بات کر کے بتاتی ہوں "وہ سوچتی ہوئی بولیں
جس پر وہ مسکرا دیا اب وہ مطمئین تھا
☆☆☆☆☆☆☆
"اپنے کمرے میں بیٹھا یوسف جو ان ماں بیٹے کی ساری باتیں سن کر آرہا تھا اس کے اندر ایک آگ سی بھڑک رہی تھی دل تھا سب کچھ جلا کر راکھ کر دے وہ اپنی پرنسز پر کسی کی نظریں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس کا دل کر رہا تھا عبداللہ کی آنکھیں نوچ لے اس کی ہمت کیسے ہوئی اس کی پرنسز کے بارے سوچنے کی وہ صرف اس کی ہے
اپنے اندر کی آگ وہ بے جان چیزوں پر نکال رہا تھا کمرہ کی حالت بگاڑ دی تھی اس نےتھوری سی دیر میں آنکھیں انگارہ ہو رہی تھیں
وہ اسے مار کر اپنے ہاتھ خون میں نہیں رنگنا چاہتا تھا یہ اسکے اصولوں کے خلاف تھا ورنہ اس کےلیے کوئی مشکل نہیں تھا اسے مارنا
اپنے تصور میں دعا کا حسین چہرہ لا کر مسکرایا
"پر نسز تم میری ہو صرف میری میری جان ہو تم تمہیں نہیں پتا کتنی محبت کرتا ہوں میں تم سے تمہیں دیکھ کر دل چاہتا ہے کہیں دور لےجائوں جہاں صرف میں اور تم ہوں کیا ہوا اگر میں انسان نہیں ہوں تو میرے سینے مں بھی دل ہے جوصرف تمہارے لیے دھڑکتا
ہے میں بہت اکیلا ہوں پرنسز میرے پاس آ جائو ۔۔۔۔"آنکھیں بند کیے وہ تصور میں دعا سے مخاطب تھا
☆☆☆☆☆☆☆
"کیا ہوا تم کچھ کہنا چاہتے ہو "زین کو ایسا لگا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا ہو لیکن کہ نہیں پا رہا تو اس نے خود ہی اس کی مشکل آسان کردی
"ہاں وہ۔۔۔۔۔" وہ جھجھک گیا
"کیا ہو گیا ہے یار اب بول بھی دے اتنا جھجھک کیوں رہا ہے"
وہ حیرانی سے بولا
"ہاں وہ میں یہ کہ رہا تھا کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں "وہ دھیمےسے بولا
"ابے چل اوئے مذاق نہ کر"وہ اس کی بات پہ یقین کر لیتا اگر وہ اسے جانتا نہ ہوتا جانتا تھا لڑکیوں سے دور بھاگنے والا بندہ تھا وہ۔۔۔
"نہیں میں مذاق نہیں کر رہا میں سچ میں کسی سے محبت کرتا ہوں شادی کرنا چاہتا ہوں اس سے"وہ اسی لہجے میں بولا
"اچھاا کون ہے وہ"اس کی آنکھوں میں سچائی دیکھ کر وہ بھی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
"دعا"وہ لہجے میں محبت سمو کر بولا
زین کو ایسا لگا جیسے ساتوں آسمان اس کے سر پر ٹوٹ پڑے ہوں
وہ ساکت کا اسے دیکھے گیا
☆☆☆☆☆☆☆☆
عبداللہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا آج اس کا لباس معمول سے قدرے ہٹ کر تھا سفید کرتا شلوار کے اوپر ویسٹ کوٹ پہنے کلائی میں قیمتی رسٹ واچ نفاست سے بنائے ہوئے بال ہوئے تھا
وہ بے دریغ خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا چہرے کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی وہ آج بہت خوش تھا مسلسل گنگنا رہا تھا
اس کی مما نے اکمال صاحب سے بات کر لی تھی انہیں بھلا کیا اعتراض ہونا تھا وہ تو خود یہی چاہتے تھے کہ اب اس کی شادی ہو جائے لہذا آج وہ دعا کے گھر جا رہے تھے بقول اکمال صاحب کے نیک کام میں دیر کیسی۔۔۔ اکمال صاحب اور راشدہ بیگم جا رہے تھے لیکن عبداللہ زبردستی ضد کر کے جا رہا تھا
"عبداللہ کب سے آوازیں دے رہی ہوں تمہیں سنائی نہیں دے رہا کیا؟؟۔۔۔۔ چل رہے ہو یا جائیں ہم۔۔۔کوئی آج تمہاری بارات تو نہیں ہے جو اتنا بن ٹھن کر جا رہے ہو اتنی دیر تو لڑکیاں بھی نہیں لگاتیں تیار ہونے میں جتنی تم لگا رہے ہو ۔۔۔۔اب چلو بھی ۔۔۔"
"مما کیا ہو گیا ہے آ ہی رہا تھا میں ۔۔۔۔"وہ واشروم کے دروازے سے نکلتا ہوا بولا ٹاول سے ہاتھ خشک کرتا ان کی طرف مڑا
راشدہ بیگم نے اس کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہا اور ہمیشہ ایسے ہی خوش رہنے کی دعا دی ۔۔۔۔
"ہاں چلو۔۔۔"پھر دونوں کمرے سے باہر نکل گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا کچھ دیر تک تو اس ہوڈی والے آدمی کو سوچتی رہی تھی پھر سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی وہ ایسی ہی تھی کسی بھی چیز کو اپنے سر پر زیادہ سوار نہیں کرتی تھی اس وقت وہ کالج کے گارڈن میں بیٹھی اسائمنٹ بنا رہی تھی جب ایک لڑکی چہرے پر اشتاق لیے اس کی طرف چلی آئی
"ہیلو"وہ مسکرا کر اس کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہوئی بولی
دعا نے نگاہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا پھر ہلکا سا مسکرا کر اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا
"واعلیکم السلام "وہ سادگی سے بولی
وہ لڑکی کچھ شرمندہ سی ہو گئی
"میرا نام ملائیکہ ہے۔۔۔۔اور آپ کا کیا نام ہے؟؟؟۔۔۔۔"
"دعا "وہ مختصر بولی
"آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہو آپ کی آنکھیں بہت پیاری ہیں میرا دل چاہتا ہے میں انہیں چھو کر دیکھوں کاش میں لڑکا ہوتی تو میں آپ سے ہی شادی کرتی ۔۔۔۔"وہ حسرت سے بولی
دعا نے اچبھنے سے اسے دیکھا اسے تو یہ کوئی پاگل ہی لگی تھی وہ سر جھٹک کر مسکرا دی
"آپ میری فرینڈ بنو گی پلیز ۔۔۔"دعا نے حیران ہو کر اسے دیکھا
"دیکھو۔۔۔۔۔"
وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ وہ بیچ میں ہی اس کی بات اچک گئی
"پلیز بن جائو نا میری کوئی فرینڈ نہیں ہے۔۔۔۔"وہ اداسی سے بولی
دعا نے کچھ پل سوچا پھر اس کی مسکینوں والا منہ دیکھ کر سر ہلا گئی
جس پر وہ اس کے گلے لگ گئی
"آپ کی آئیز چھو لوں ایک دفعہ۔۔۔۔"اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ہی تھا کہ اس کے ہاتھ کو ایک زوردار جھٹکا لگا وہ دعا سے کچھ دور جا گری
دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔
وہ لڑکی خوف سے دعا کیطرف دیکھتی وہاں سے بھاگ گئی
جبکہ دور ٹھہرا وجود آنکھوں میں نفرت اور غصہ لیے اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
"وہ صرف میری ہے اسے چھونے کا حق صرف مجھے ہے کسی اور میں اتنی ہمت نہیں کہ میری دعا کو ہاتھ بھی لگائے۔۔۔۔۔"وہ سردمہری سے بڑبڑایا
پھر اپنی پرنسز کی طرف دیکھا تو اس کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا
"میری دعا۔۔۔۔"وہ محبت سے بولا
"بہت جلد تم میرے پاس ہو گی جاناں۔۔۔۔"اس نے مسکرا کر اپنی جان کی طرف دیکھا جو ابھی تک ویسے ہی حیران پریشان سی بیٹھی ہوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرائنگ روم میں قدسیہ بیگم اعجاذ صاحب راشدہ بیگم اکمال صاحب اور عبداللہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے عبداللہ ادھر ادھر نظریں گھما کر کسی کو تلاش کر رہا تھا قدسیہ اور اعجاذ صاحب بے تاب تھے ان کے یہاں آنے کی وجہ جاننے کے لیے ۔۔۔۔۔
باتوں باتوں میں راشدہ بیگم نے دعا کے بارے میں پوچھا
"اچھا بہن آپ کی بیٹی دعا کہاں ہے۔۔۔۔"ان کی بات پر عبداللہ نے بے تابی سے ان پر اپنی نظریں جمائی
"جی وہ اپنے کمرے میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔"انہوں نے تھوڑا الجھ کر جواب دیا
اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا جیسے پوچھ رہی ہوں آپ کیسے جانتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
اعجاز صاحب بھی چونک سے گئے تھے ۔۔۔۔۔
"جی دراصل ہم اسی کے سلسلے میں کچھ بات کرنے آئے ہیں۔۔۔۔"انہوں نے تمہید باندھی
"جی بولیں۔۔۔۔۔۔"
ہم دعا کے رشتے کے لیے آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔"
"دعا کے رشتے کے لیے ۔۔۔۔۔۔"قدسیہ بیگم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تبھی اعجاز صاحب بول پڑے۔۔۔۔۔۔
"معاف کیجیے گا بہن لیکن ابھی ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں اور دعا ابھی بہت چھوٹی ہے وہ پڑھ رہی ہے اس سے بڑا میرا بیٹا زین ہے اس کے بعد ہی ہم اس کے بارے میں کچھ سوچیں گے۔۔۔۔۔۔"
"جی جی آپ کی بات ٹھیک ہے بھائی صاحب ۔۔۔۔۔لیکن ہم ابھی شادی کا نہیں کہ رہے بس رشتہ پکا کرنے کا کہ رہے ہیں
شادی بے شک دعا کی پڑھائی کے بعد کر دیجئے گا آپ پلیز سوچ کر جواب دیجیے گا۔۔۔۔"وہ گویا ہوئیں
"پلیز بھائی صاحب انکار مت کیجیے گا میں بہت آس سے آئی ہوں آپ کے پاس میرے بچے کی خوشیوں کا سوال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی آخری بات پر دونوں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا
"یہ میرا بیٹا عبداللہ ہے اسی کی بات کررہی ہوں میں ۔۔۔۔۔۔"
ان کی سوالیہ نظروں دیکھ کر وہ بولیں
قدسیہ بیگم اور اعجاز ملک نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا سرخ وسفید رنگت ،بھوری بڑی بڑی آنکھیں ہلکی ہلکی داڑھی بلا شبہ وہ بہت حسین تھا دعا اور اس کا پرفیکٹ جوڑ تھا انہیں بظاہر تو اس میں کوئی خامی نظر نہیں آئی لیکن ابھی انہوں نے دعا کے بارے میں ایسا کچھ نہیں سوچا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔خیر
اعجاز صاحب کو وہ اچھے اور شریف خاندان کے لگے تھے
وہ فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر پائے
"ٹھیک ہے ہم آپ کو سوچ کر ہی جواب دیں گے ۔۔۔۔۔"
عبداللہ نے پرسکون سانس خارج کیا ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر اپنی چھب دکھانے لگی
"اچھا آپ دعا کو تو بلائیں ۔۔۔۔۔۔۔"
"جی اچھا میں اسے لے کر آتی ہوں۔۔۔۔۔"قدسیہ بیگم اٹھتے ہوئے بولیں
تھوڑی دیر بعد دعا آتی ہوئی دکھائی دی بی پنک کلر کے فراک میں سر پر ڈوپٹہ اوڑھے وہ نروس سی سب کو سلام کر رہی تھی
عبداللہ کی نظریں اس کی طرف اٹھی اور پلٹنا بھول گئیں
وہ بے خود سا اسے تکے جا رہے تھا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا آنکھوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھ رہی تھی دن بدن اس کی محبت بڑھتی جا رہی تھی دعا سے ۔۔۔۔۔
"واعلیکم السلام ۔۔۔۔۔۔آئو بیٹا بیٹھو میرے پاس۔۔۔۔۔ وہ محبت سے بولیں۔۔۔۔۔
دعا جھجھکتی ہوئی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی
راشدہ بیگم کو وہ نیلی آنکھوں والی معصوم سی گڑیا بہت پسند آئی تھی
وہ اس سے اس کی پڑھائی کی بارے میں پوچھنے لگیں اور کافی دیر باتیں کرتی رہیں۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ عبداللہ ویسا ہی بیٹھا محبت سے اسے تکے جا رہا تھا
اس کی آنکھوں کے یہ رنگ اکمال صاحب سے مخفی نہیں رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زین اپنے کمرے میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا کل جو کچھ یوسف نے اس سے کہا اسے سن کر اسے دھچکا لگا تھا ان کی ملاقات دو سال قبل حادثاتی طور پر ہوئی تھی وہیں سے ان کی دوستی کی ابتدا ہوئی تھی وہ یوسف کو بہت اچھی طرح جانتا تھا وہ بہت اچھا بندہ تھا اور اس نے یوسف کی آنکھوں میں جو محبت کی روشنی دیکھی تھی اپنی بہن کے لیے اس نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا
وہ ایک فیصلہ لیے اٹھا تھا اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے
اعجاز صاحب اور قدسیہ اس وقت دوپہر میں ہوئی بات کو ڈسکس کر رہے تھے جب دروازے پر دستک ہوئی
قدسیہ بیگم نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو زین کو دیکھ کر تشویش ہوئی
"مما پاپا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی معذرت اس وقت آپ کو تکلیف دی لیکن بات بہت ضروری تھی۔۔۔"
"آجائو بیٹا ہمیں بھی تم سے کچھ بات کرنی تھی"اعجاز صاحب بولے
"جی بابا بولیں۔۔۔۔۔"
"بیٹا تم بتائو پہلے رات کے اس وقت۔۔۔۔۔ سب خیریت تو ہے نا۔۔۔۔۔"
"جی بابا مجھے آپ سے یوسف کے سلسلے میں کچھ بات تھی "
اعجاز اور قدسیہ جانتے تھے یوسف کو وہ کافی بار اس سے ملے بھی تھے
"بابا یوسف دعا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔"
کیا۔۔۔۔۔"وہ شاکڈ رہ گئے
" جی وہ دعا کو پسند کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔"
"اور بظاہر اس میں کوئی خامی نہیں ہے آپ بھی جانتے ہیں اسے۔۔۔۔۔تو پھر اب بتائیں کیا کرنا ہے میں کیا کہوں اسے۔۔۔۔"
اعجاز اور قدسیہ بیگم نے ایک دوسرے کو دیکھا
"بیٹا دعا کے لیے آج کچھ لوگ آئے تھے رشتہ مانگنے ۔۔۔۔۔۔اچھے لوگ تھے ۔۔۔۔۔میں اور تمہارے پاپا ابھی اسی بارے میں ہی بات کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اور اب تم کہ رہے ہو مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا دعا ابھی بہت چھوٹی ہے اس کی شادی کا تو ہمارے ذہن میں خیال ہی نہیں آیا تھا ۔۔۔۔اب اس طرح اچانک ۔۔۔۔۔۔دو دو رشتے میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ۔۔۔۔۔"
قدسیہ بیگم پریشانی سے بولیں
زین چپ ہو گیا ۔۔۔۔۔
"پھر اب کیا کرنا ہے۔۔۔۔"
"بیٹا تم کیا کہتے ہو۔۔۔۔"
" بابا میں سچ کہوں تو مجھے یوسف دعا کے لئے بہت اچھا لگا ہے وہ بچپن سے ہی محرومیوں والی زندگی گزار رہا ہے اور میں نے اسکی آنکھوں میں دعا کے لیے بہت محبت دیکھی ہے وہ دعا کو بہت خوش رکھے گا اور ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی کہ دعا خوش رہے ۔۔۔۔۔"
"لیکن آپ پہلے دعا سے پوچھ لیجیے گا۔۔۔۔۔۔"
"اچھا بابا اب میں چلتا ہوں آپ جو بھی فیصلہ کریں مجھے آگاہ کر دیجیے گا ۔۔۔۔۔
گڈ نائٹ ۔۔۔۔"
زین تو یہ کہ کر چلا گیا لیکن ان دونوں کو سوچوں کے سمندر میں دھکیل گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے اس پہر جب ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا ایک وجود خاموشی سے کھڑکی کے ذریعے اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے قدم بیڈ کی سمت تھے
"دعا میری پرنسز۔۔۔۔۔"
وہ محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر وہیں کنارے پر ٹک گیا۔۔
"کیسی ہو میری جان۔۔۔۔"
وہ آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں اس سے بات کر رہا تھا
دعا کو کوئی ہوش نہیں تھا وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن بعد:
اعجاز اور قدسیہ نے بہت سوچا اعجاز صاحب ہر طرح سے معلوم کروا چکے تھے عبداللہ کے بارے میں اس میں انہیں کوئی برائی نظر نہیں آئی تھی وہ ایک بہت اچھا انسان تھا اتنا امیر ہونے کے باوجود ان لوگوں میں کوئی غرور نہیں تھا وہ جس عاجزی سے دعا کا رشتہ مانگ کر گئے تھے اس چیز نے انہیں بہت متاثر کیا تھا اور عبداللہ کی آنکھوں میں انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے بے تحاشا محبت دیکھی تھی دوسری طرف یوسف بھی کسی سے کم نہیں تھا وہ عجیب کشمکش میں پڑ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے آج دعا سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ پرسکون سے ہو گئے ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زین قدسیہ بیگم کے پاس بیٹھا ہوا تھا قدسیہ بیگم کو وہ کچھ پریشان سا لگا انہوں نے پوچھا بھی لیکن وہ ان کا وہم ہے کہ کر ٹال گیا تھا
"بیٹا تم نے جانا نہیں ۔۔۔۔"
"کہاں مما۔۔۔؟"وہ بے دھیانی سے بولا
"دعا کو لینے نہیں جانا کیا۔۔۔۔۔؟؟"وہ حیرانی سے بولیں ۔۔۔
"اوشٹ میں تو بھول ہی گیا تھا۔۔۔"وہ سر پر زور سے ہاتھ مارتا بولا
قدسیہ بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا
"بیٹا کوئی بات ہے میں کب سے نوٹ کر رہی ہوں تم کچھ الجھے الجھے سے لگ رہے ہو۔۔۔"
وہ اس کے پاس بیٹھتی نرمی سے بولیں
"نہیں مما ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ خوامخواہ پریشان مت ہوں اچھا میں جا رہا ہوں دعا کو لینے اچھا ہوا آپ نے یاد دلا دیا میں تو بھول ہی گیا تھا۔۔۔۔"
وہ یہ کہتا ہوا تیزی سے وہاں سے نکل گیا
وہ اسے دیکھتی رہ گئیں جو آج سے پہلے کبھی یہ بات نہیں بھولا تھا تو آج کیسے بھول گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زین دعا کو لے کر واپس آ رہا تھا آدھے راستے میں ہی تھا ابھی جب اس کی گاڑی کے سامنے ایک گاڑی آئی تھی اس نے بروقت بریک لگایا تھا
جب گاڑی سے نکلتے وجود کو دیکھ کر وہ غصے سے پاگل ہوا تھا
جھٹکا تو اسے تب لگا تھا جب اس کے آگے پیچھے تین چار گاڑیاں گھومیں
یہ روڈ بھی سنسان تھا اور اس کے ساتھ دعا بھی تھی وہ بھی اس صورتحال سے ڈر گئی تھی
"بھائی ۔۔۔"
اس نے لرزتی آواز میں اسے پکارا
"پریشان مت ہو دعا میں ابھی انہیں دیکھتا ہوں۔۔۔۔"
"تم یہاں سے ہلنا مت اور نہ ہی کچھ بولنا میں ابھی آتا ہوں۔۔۔۔"وہ نرمی سے اسے کہتا ہوا گاڑی سے اترا تھا
اور سامنے بیٹھے وجود کی طرف بڑھا تھا
جو آرام سے گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا ہوا اسے اپنے پاس آتا ہوا دیکھ رہا تھا
"میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ میرے معاملے سے دور رہو لیکن تم نہیں مانے تمہاری وجہ سے آج پہلی بار میرے باپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تمہیں تو میں چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔۔"
وہ پاگل ہوتا اس کی طرف بڑھا تھا
"یہ سب میری وجہ سے نہیں تمہاری اپنی وجہ سے ہوا ہے
میں نے تمہیں بہت روکا لیکن تم نہیں مانے مجبورا مجھے یہ سب کرنا پڑا تم میرے دوست ہو اور میں نہیں چاہتا کہ تم کسی غلط کام میں پڑو۔۔۔۔"وہ غصے سے پھر آخر میں تحمل سے بولا
جبکہ وہ اسے نفرت سے گھور رہا تھا۔۔۔
"تمہارے اس طرح میرا راستہ روکنے کا مقصد"
جس پر وہ پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا
"تم میری رکاوٹ ہو زین اور میں اپنے کام میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔تمہیں مرنا ہو گا زین تمہیں مرنا ہوگا۔۔۔۔"
وہ شاک سے اسے دیکھنے لگا
"تم پاگل ہو گئے ہو آریان ۔۔۔۔۔"
"ہاں ہو گیا ہوں میں پاگل "اور آگے بڑھ کر ایک گھونسا اس کے منہ پرمارنا چاہا لیکن وہ اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا
"آریان ہوش میں آئو کیا کر رہے ہو تم جانتے ہو۔۔۔۔"
وہ زور سے چیخا اور اس کی ناک پر ایک زور دار گھونسا مارا جس سے اس کی ناک سے خون نکلنے لگا تھا
آریان نے بھی جوابی کاروائی کی گاڑیوں میں بیٹھے غنڈےبھی اس کی طرف بڑھنے لگے
یہ سب دیکھتی دعا خوفزدہ ہو چکی تھی اپنے بھائی کی طرف بڑھتے غنڈے دیکھ کر وہ تیزی سے گاڑی سے نکلتی اس کی طرف بھاگی
"بھائییی۔۔"وہ زور سے چیختی ہوئی اس کی طرف آئی
آریان روک کر اسے حیرت سے دیکھنے لگا
"دعا گاڑی میں جا کر بیٹھو۔۔۔۔"وہ شدید طیش سے آریان کو پھر اسے دیکھ کر بولا
"نہیں بھائی آپ چلیں یہاں سے یہ آپ کو مار دیں گے "وہ خوفزدہ ہوتی اس کے سینے سے لگ گئی
"وائو بیوٹی فل تمہاری بہن بہت خوبصورت ہے یار۔۔۔۔"اس کی ٹون ایکدم بدلی تھی نظریں اس پر جمائے وہ کمینگی سے مسکرایا
"شپ اپ اپنی بکواس بند رکھ کمینے انسان خبردار جو میری بہن کے بارے میں کچھ بکواس کی تو جان سے مار دوں گا میں تمہیں۔۔۔"وہ غراتا ہوا ایکدم اس پر جھپٹا تھا اور لاتوں گھوسوں کی برسات کر دی
دعا سہمی سی ایک طرف کھڑی رو رہی تھی
اس کے آدمی جو اس کے اردگرد کھڑے تھے اس کے اشارے پر آگے بڑھے اور اسے مارنے لگے
وہ اس سے دور ہوتا دعا کے پاس جانے لگا دعا پھٹی نظروں سے اسے دیکھنے لگی
"بھائییی۔۔۔بھائیی ۔۔۔۔"وہ اسے اپنے قریب بڑھتے دیکھ کر چیختی ہوئی اس کے پاس جانے لگی جب آریان نے اسکا بازو پکڑ لیا
"میری بہن کو چھوڑ کر دے کمینے تیری دشمنی مجھ سے ہے اس سے دور رہ ۔۔۔۔۔۔"زین کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے نکل رہے تھے
وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا لیکن سر پر پڑنے والی زوردار ضرب سے وہ کراہتا ہوا گھٹنوں نے بل گرا تھا دعا چیخ رہی تھی لیکن اس نے قابو کیا ہوا تھا
زوردار ضرب کی وجہ سے وہ اپنے ہوش و حواس کھونے لگا تھا
"گڑیا ۔۔۔"اس نے نم آنکھوں سے دعا کی طرف دیکھا جو اس کے پاس آنے کے لیے تڑپ رہی تھی
آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک نظر نیچے گرے زین کو دیکھتا اسے دیکھنے لگا دعا کی نظریں زین پر ہی ساکت تھیں ۔۔۔۔قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھے۔۔۔۔۔
"بھائی۔۔"اس کے منہ سے پھنسی پھنسی سی آواز نکلی
جسے سن کر آریان استہزائیہ مسکرایا
"مر گیا تمہارا بھائی۔۔۔"وہ گہری نظروں سے سر تا پائوں اسے دیکھتا قدم آگے بڑھانے لگا
"نہیں نہیں ۔۔۔۔۔"وہ اس کی بات پر سر زور زور سے نفی میں ہلا گئی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے دوڑتی ہوئی اس کے پاس جانے لگی مگر اس نے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے ٹکراتی کسی نے بڑی بے دردی سے اس کی گردن پکڑ کر پیچھے کی طرف کھینچا تھا
وہ کراہ کر رہ گیا
"کون ہے کمینہ سالا۔۔۔۔۔"
وہ غلاظت بکتا کراہ کر رہ گیا
"تیری موت۔۔۔۔"وہ سرد ترین آواز میں بولا جسے سن کر وہ استہزایہ ہنسا
پھر اسےدیکھا جو اپنے بھائی کا سر اپنی گود میں رکھے سرخ ہوتی آنکھوں سے اسے پکارتی رو رہی تھی اردگرد کا کوئی ہوش نہیں تھا۔۔۔۔
اس کی نظریں اور اپنی زندگی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کی آنکھیں لال ہو گئیں تھیں
ایک پل کو تو وہ بھی ڈر گیا اس کی انگارہ ہوتی آنکھوں سے کالے ماسک سے چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا سر پر ہوڈی ڈالے وہ سرخ انگارہ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا
"ابے یار کیا ہے کیوں بیچ میں آگیا ہے اپنا کام کر جا کر ۔۔۔۔۔
اور اگر تو اس لڑکی کے لیے آیا ہے نا تو بھول جا اسے ۔اس پر دل آ گیا ہے میرا ۔اب یہ میری ہے ب۔۔۔۔"وہ آگے ابھی بول رہا تھا کہ پیٹ میں پڑنے والے گھونسے سے وہ دور جا گرا
"تیری اتنی ہمت کمینے تو نے مجھے مارا ۔۔۔۔ابے دیکھ کیا رہے ہو مار دو سالے کو۔۔۔۔"وہ اپنے آدمیوں سے کہنے لگا
جس کی وہ فوری تکمیل کرتے اس کی طرف بھاگے تھے اور دائرے کی صورت میں اسے گھیر لیا تھا جبکہ وہ ویسے ہی کھڑا تھا
ایک آدمی ہاتھ میں بڑا سا ڈنڈا پکڑے اسے مارنے کو لپکا لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینتا اسے ہوا میں گھمانے لگا جو جو آگے بڑھتا گیا اس کی وہ اس ڈنڈے سے پٹائی کرنے لگا
تھوڑی ہی دیر میں اس کے سارے آدمی دور پڑے درد سے کراہ رہے تھے آریان نے حیرت سے اسے دیکھا وہ اب اس کی طرف بڑھ رہا تھا
"دیکھو میں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔وہ خود ہی مجھ سے الجھ رہا تھا ..... اچھا اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔"وہ دل ہی دل میں کچھ خوفزدہ ہو چکا تھا اس کی مسلسل خاموشی سے۔۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر بھاگا کافی دور آ گیا تھا رک کر سانس بحال کی پھرایکدم ساکت ہوا سامنے ہی وہ کھڑا تھا جس سے بچ کر وہ بھاگ رہا تھا
"تت تم یہ یہاں ک۔۔ کیسے" اس کی خوف سے گھگھی بندھ گئی تھی
"انہی ہاتھوں سے چھوا نا اسے ۔۔۔۔"وہ عجیب سے لہجے میں بولا جس سے اسے خوف آیا وہ اپنے ہاتھ میں ایک تیز دھار چاقو لیے اس کی طرف بڑھا
"یہ کیا کر رہے ہو تم"وہ اپنے قدم پیچھے لے جانے لگا
"ابھی پتا چل جائے گا "یہ کہ کر اس نے اس کے ہاتھ میں وہ چاقو آرپار کر دیا
ایک ایک کرکے اس کی ساری انگلیاں کاٹنے لگا پھر پورا ہاتھ ہی کاٹ دیا
وہ درد سے تڑپتا چیختا چلاتا رہ گیا
اپنے نوکیلے ناخنوں سے اس کی آنکھیں نوچ لیں
"یہ اپنی گندی نظروں سے اسے دیکھنے کا انجام ہے وہ صرف میری ہے اسے چھونے کا اور دیکھنے کا حق صرف مجھے ہے"وہ نفرت سے اس کے ادھ مرے وجود کو دیکھتا آگے بڑھ کر وہ چاقو زور سے اس کے سینے میں دے مارا
آریان کا وجود ساکت ہوگیا
☆☆☆☆☆☆☆☆
"بھائی ۔۔۔۔بھائی اٹھیں چلیں گھر مما انتظار کر رہی ہوں گی
۔۔۔۔چلیں اٹھیں۔۔۔۔"وہ روتی ہوئی اسے جھنجھوڑ رہی تھی
بیگ دور پڑا تھا ڈوپٹہ سرک کر کندھے پر آگیا تھا آنکھیں رو رو کر سوج چکی تھیں یوسف نے ضبط سے لب بھینچے ۔۔۔۔۔
"دعا اٹھیں کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔۔۔"
"میرا بھائی نہیں اٹھ رہا اسے کہیں نا اٹھ جائے مما انتظار کر رہی ہوں گی ۔۔۔۔۔۔"روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں
"اچھا آپ پلیز روئیں نہیں یہ پانی پئیں ہم ابھی ہوسپیٹل چلتے ہیں کچھ نہیں ہوگا آپ کے بھائی کو۔۔ چلیں شاباش چپ ہو جائیں "وہ پیار سے اس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل پکڑاتا بولا
پھر آگے بڑھ کر اس کی نبض چیک کی جو چل رہی تھی وہ کچھ پرسکون ہوا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دن بعد:
زین اب بہتر تھا اسے صبح ہی ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا
اس کے ساتھ کچھ ہی فاصلے پر یوسف بیٹھا تھا اور دوسری طرف اعجاز صاحب بیٹھے تھے
وہ آریان کے بارے میں بات کر رہے تھے
جس کا سب کو یہی پتا تھا کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور اسی ایکسیڈنٹ میں اس کی ڈیتھ ہو گئی ہے
یوسف کے وہ دل سے احسان مند تھے جو وقت پر وہاں پہنچ گیا تھا
ورنہ پتا نہیں کیا ہو جاتا ۔۔۔۔۔۔۔
زین کچھ سوچ رہا تھا اس نے کسی کونہیں بتایا تھا کہ آریان نے اس پر اٹیک کیوں کیا اور اورنہ ہی وہ بتانا چاہتا تھا لیکن یوسف جانتا تھا یہ بات زین نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔
"انکل میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں"وہ کچھ جھجھکتا ہوا بولا تھا یوسف کو لگا تھا اسے اعجاذ صاحب سے ایک دفعہ بات کر لینی چاہئے اپنے اور دعا کے بارے میں یہ نہ ہو کہ دیر ہو جائے اسے یہی وقت صحیح لگا
"جی بولو بیٹا ۔۔۔۔"وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوئے
وہ ایک نظر زین کو دیکھتا بولنا شروع ہوا
"انکل میں دعا سے شادی ۔۔۔۔۔۔"
"آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے بیٹا مجھے زین نے بتا دیا دیاہے ۔۔۔۔۔"وہ اس کی بات کاٹتے بیچ میں بولے تھے
ان کے اس طرح درمیان میں بات کاٹنے پر اس کا دل زور سے دھڑکا ۔۔۔۔
وہ تھوڑی دیر چپ رہے پھر بولے
"بیٹا آپ کا کوئی بڑا نہیں ہے اول تو مجھے یہ بات ان سے ہی کرنی چاہیے تھی لیکن خیر ۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر پھیلتی اداسی دیکھ کر وہ سنبھلے تھے اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا زین بھی ان کی طرف متوجہ ہو گیا تھا
"میں چاہتا ہوں اس جمعہ کو آپ کا اور دعا کا نکاح ہو جائے۔۔۔۔"یہ فیصلہ سب کی رضامندی سے ہوا تھا دعا کو ان کے کسی فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں تھا تھوڑی پش و پشت کے بعد وہ مان گئی تھی جب اس کے ماں باپ خوش تھے تو وہ بھلا کیوں انکار کر کے ان کا دل توڑتی۔۔۔۔
وہ بے یقینی سے انہیں دیکھتا رہ گیا اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا
"کیا کہا آپنے ایک دفعہ پھر سے کہنا۔۔۔۔"
اس کی بات پر اعجاز صاحب نے اپنی مسکراہٹ دبائی زین نے بھی قہقہہ لگایا
وہ خجل سا ہو کر رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنداللہ اپنے دھیان میں مگن گنگناتا ہوا اندر آ رہا تھا جب لائونج میں بیٹھی اپنی ماں کا چہرہ دیکھ کر ٹھٹھکا جو فون کان سے لگائے ساکت سی بیٹھی تھیں
وہ بھاگتا ہوا ان تک آیا مما کیا ہوا آپ کو مما۔۔۔"وہ بے قراری سے انہیں پکارتا ہوا بولا
انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اس کی طرف دیکھے بغیر بولیں
"دعا کے گھر والوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا ہے "
ان کے اندر ہمت نہیں تھی اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کی۔۔۔
عبداللہ ساکت رہ گیا پھر ویران نظروں سے انہیں دیکھتا اپنے قدم پیچھے لے جانے لگا
"آپ مذاق کر رہی ہیں نا مما مذاق کر رہی ہیں نا آپ"وہ بے یقینی سے انہیں دیکھتا بولا
"نہیں بیٹا یہی سچ ہے وہ تمہاری قسمت میں نہیں تھی بھول جائو اسے "وہ ضبط سے بولیں
"ایسے کیسے بھول جائوں مما وہ میرے دل کی دھڑکن ہے اس کے بنا میں مر جائوں گا ایسے کیسے انہوں نے انکار کر دیا کیا کمی ہے مجھ میں بتائیں نا مما "وہ بے یقینی کی کیفیت میں ان کے قدموں میں بیٹھا شاکڈ سا ان سے پوچھ رہا تھا
اسے ایسا لگ رہا تھا کوئی دھیرے دھیرے اس کی سانسیں کھینچ رہا ہو ۔۔۔
"نہیں مما میں ایسے نہیں بیٹھوں گا میں جائوں گا ان کے پاس میں ان سے بھیک مانگوں گا دعا کے ساتھ کی ہو سکا تو ان کے قدموں میں گر جائوں گا وہ مان جائیں گے پھر مان جائیں گے نا مما۔۔" وہ آنکھوں میں آنسو اور نظروں میں آس لیے لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھتا باہر جانے لگا تھا
"اس کا نکاح ہے جمعہ کو عبداللہ۔۔۔۔۔"
عبداللہ گھٹنوں کے بل زمین پر گرا
وہ بھاگتی ہوئیں ان کے پاس آئیں
"عبداللہ۔۔۔"
"کیوں کیا انہوں نے مما ایسا کیوں انہوں نے میری دعا کو مجھ سے دور کر دیا ۔۔۔۔۔
وہ تو میری زندگی بن گئی ہے اس کے بغیر تو میں مر جائوں گا مما ۔۔۔۔"
انہوں نے تڑپ کر اسے دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے

آج جمعرات تھی کل ان کا نکاح تھا وہ بہت خوش تھا فائنلی اسے اپنی محبت اپنی دعا کا ساتھ ملنے جارہا تھا
وہ مسلسل اسے سوچے جارہا تھا چہرے پر ہلکی مسکان اور آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ کتنا خوش ہے
"میری پرنسز کل میری ہو جائے گی تمہیں کیا پتا دعا کہ تم میرے لیے کیا ہو میرے جینے کی وجہ ،میرے دل کی دھڑکن ہو تم ۔۔۔۔۔۔کل تم میری محرم میری بیوی بن جائو گی پھر میں تمہیں بتائوں گا کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں میری ڈول میری دعا آئی لو یو جاناں۔۔۔"وہ تصور میں اس کی نیلی کانچ سی آنکھیں لاتا بہت محبت سے بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مما ایسے کیسے ہو سکتا ہے وہ کیسے میری دعا کو کسی اور کو دے سکتے ہیں وہ تو میری ہے نا میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں مما میں نہیں رہ سکتا اپنی دعا کے بغیر ،میں مر جائوں گا مماا۔۔۔۔۔۔۔"
وہ بے یقینی سے بولتا اپنے بال نوچتا کوئی پاگل لگ رہا تھا
انہوں نے صدمے سے اپنے اکلوتے بیٹے کو دیکھا ان کا دل دکھا اس کی حالت پر ۔۔۔۔۔لیکن وہ بے بس تھیں
وہ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھیں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ اپنے کمرے میں اوندھے منہ پڑا رو رہا تھا اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اتنے دن سے اس نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا عائشہ بیگم منتیں کر کر کے تھک گئی تھیں لیکن وہ ایک زندہ لاش بن گیا تھا سارا دن نظریں ایک ہی نقطے پر جمائے وہ بیٹھا رہتا تھا کسی چیز کا کوئی ہوش نہیں تھا یہ وہی عبداللہ تھا جو ہر وقت ہشاش بشاش فریش رہتا تھا ،جس نے چپ بیٹھنا سیکھا ہی نہیں تھا،اسے تو اب ایسی چپ لگی تھی کہ بولنا ہی بھول گیا تھا یہ وہی عبداللہ تھا جس کی وجاہت پر کئی لڑکیاں مرتی تھیں اسے اب منہ تک دھونے کا ہوش نہیں تھا ،
راشدہ بیگم کا دل کٹتا تھا اس کی ایسی حالت دیکھ کر ،اسے گھٹ گھٹ کر مرتے دیکھ کر ،ان کی خود کی طبعیت بھی گری گری رہنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
دعا کی شادی پر اعجاز صاحب نے انہیں بھی آنے کو بولا تھا
وہ عبداللہ کے کمرے میں آئیں
اس کو روتا دیکھ کر وہ خود بھی پھوٹ پھوٹ کر روتی چلی گئیں
عبداللہ سر اٹھا کر خالی نظروں سے ان کا چہرہ دیکھنے لگا جذبات احساسات تو جیسے اس کے اندر مر چکے تھے
"کیا ہو گیا ہے عبداللہ تمہیں تمہیں ذرا احساس نہیں اپنی ماں کا وہ کیسےدن رات تمہیں دیکھ کر روتی ہے اپنے باپ کا جو تمہاری آواز سننے کو ترس گئے ہیں کیوں ہو گئے ہو تم ایسے بولو کیا تمہارے لیے وہ لڑکی ہی سب کچھ تھی ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے اس لڑکی سے ملے ہوئے 26 دن نہیں ہوئے تھے اور اس کے پیچھے تم ہماری 26 سالوں کی محبت کو بھول گئے تم کہتے ہو نا کہ تمہارے جینے کی وجہ تھی وہ ہمارے جینے کی وجہ تم ہو یہ ماں تمہیں خوش دیکھ کر جیتی ہے عبداللہ بھول جائو اسے وہ تمہارے نصیب میں نہیں تھی بیٹا اور نصیب سے لڑا نہیں جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔"وہ روتی ہوئیں اسے سمجھا رہی تھیں
"مجھے میرا عبداللہ لوٹا دو وہی ہنستا ہوا جس کی کھکھلاہٹیں اس گھر میں گونجتی تھیں جو اپنی ماں کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتا تھا مجھے میرا بیٹا لوٹا دو۔۔۔۔۔"وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑتیں روتی ہوئیں بولیں اس ویسے ہی بے تاثر دیکھ کر وہ روتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں
اس کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا شاید اس پر اثر گئی تھیں ان کی باتیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کا ڈریس یوسف کی طرف سے تھا
جو بے حد خوبصورت تھا وہ خود بھی کسی حسین پری سے کم نہیں لگ رہی تھی
ریڈ اور گولڈن کلر کا لہنگا زیب تن کیے جس پر فل کام ہوا ہوا تھا اور ریڈ ہی کلر کا حجاب کیے ۔۔۔
(چونکہ یوسف نہیں چاہتا تھا کہ اس کی دعا کو اس کے علاوہ کوئی دیکھے)
وہ ڈارک میک اپ اور جیولری میں کوئی حسین پری لگ رہی تھی
قدسیہ بیگم اس کی کتنی بار نظر اتار چکی تھیں
بڑی بڑی نیلی جھیل سی آنکھیں جن کا یوسف دیوانہ تھا گلابی ہونٹ،چھوٹی سی ناک اس کی سفید رنگت سب کی چھیڑ چھاڑ سے سرخ ہورہی تھی ۔۔۔۔۔
یوسف کا سوچتے آج اس کا دل الگ ہی انداز میں دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔۔
نکاح کی ساری تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں
نکاح چونکہ سادگی سے کر رہے تھے اس لیے بہت کم لوگ شامل تھے ان کے خاندان برادری والوں نے اچانک نکاح کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا لیکن اعجاز صاحب نے یہ کہہ دیا کہ اچھا رشتہ تھا اور لڑکا بھی بہت اچھا ہے اور وہ ابھی صرف نکاح ہی کر رہے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلآخر وہ دن آ ہی گیا جس کا اسے بے صبری سے انتظار تھا
اس وقت سارے مہمان ہال میں جمع تھے وہ زین کے ساتھ سٹیج پر بیٹھا ہوا تھا
وقفہ وقفہ سے اس کی نظریں سامنے کی طرف اٹھ رہی تھیں وہ کب سے اس کا انتظار کر رہا تھا نظریں بے تاب تھیں اس کا حسین روپ دیکھنے کو ۔۔۔۔۔۔
زین اس کی بے چینی نوٹ کر رہا تھا لیکن لب دانتوں تلے دبائے مسکراہٹ کا گلا گھونٹے ہوئے تھا اس کے لیے اس کا یہ روپ بہت انوکھا تھا
وہ جو لڑکیوں سے سو فٹ دور رہتا تھا آج کیسے پاگل دیوانہ بنا بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔
ذرا سا صبر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔
یوسف نے تنگ آ کر پوچھ ہی لیا
"یار یہ ابھی تک آئے کیوں نہیں اتنی دیر کیوں لگا دی۔۔۔تم پتہ تو کرو جا کر ۔۔۔۔۔۔"
زین اس کی بے صبری پر قہقہہ لگا اٹھا
تبھی سامنے سے وہ آتی نظر آتی دکھائی دی لیکن گھونگھٹ میں وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا۔۔۔
یوسف جلدی سے آگے بڑھا اس کا ہاتھ تھامنے کو ۔۔۔
لیکن زین نے دعا کا ہاتھ تھام کر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتا اس کے ساتھ بٹھا چکا تھا
یوسف اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کی رسم شروع ہوئی
دعا اور یوسف آمنے بیٹھے ہوئے تھے گھونگھٹ کی وجہ سے وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا
مولوی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کیا ۔۔۔۔۔
"دعا اعجاز ولد اعجاز احمد آپ کا نکاح یوسف علی ولد محمد علی سے ایک کروڑ سکیہ راج الوقت ادا کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔۔۔"
دعا کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی
اس نے اپنے ساتھ بیٹھی قدسیہ بیگم۔کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔
یوسف بے قراری سے اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا
انہوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
"ج۔۔جی قبول ہے "
مولوی صاحب نے دوبارہ سوال کیا ۔۔۔
"دعا اعجاز ولد اعجاز احمد آپ کا نکاح یوسف علی ولد محمد علی سے ایک کروڑ سکیہ راج الوقت ادا کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے۔۔"
"قبول ہے ۔۔"
"دعا اعجاز ولد اعجاز احمد آپ کا نکاح یوسف علی ولد محمد علی سے ایک کروڑ سکیہ راج الوقت ادا کیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے"
وہ اپنی دھڑکنوں کو قابو میں لاتی سوکھے لبوں پر زبان پھیرتی بولی۔۔
"قبول ہے "
دعا کا قبول ہے سنتے ہی یوسف کے چہرے پر مسرت اور بے پناہ سکون آ گیا
اور آسمان کی طرف دیکھتا نم آنکھوں سے مسکرا دیا اس کی آنکھوں میں آنے والے آنسوئوں کو سب نے دیکھا تھا زین نے دل سے دعا کی اللہ اس کے دوست کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے
مولوی صاحب نے دونوں سے سوال کیا اور نکاح نامے پر دستخط لیے
یوسف بہت خوش تھا وہ ہوائوں میں اڑ رہا تھا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ،اس کا عشق اس کا جنون اس کی بیوی بن گئی تھی
بلیک پینٹ کوٹ میں اپنے دراز قد وجیہہ سراپے کے ساتھ کئی لڑکیوں کے دل کی تاریں ہلا گیا تھا
سب لوگ اس خوبصورت جوڑے کو سرہا رہے تھے ان کی جوڑی چاند تارے کی خوبصورت جوڑی لگ رہی تھی
لیکن یوسف بے چین تھا وہ اپنی دعا کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"انکل میں دعا کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں "وہ جھجھکتا ہوا بولا
اعجاز صاحب نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا
"پلیز انکل غلط مت سمجھیے گا میں بس کچھ وقت اس کے ساتھ سپینڈ کرنا چاہتا ہوں بس۔۔۔"
وہ خاموش کھڑے اعجاز صاحب کو دیکھتا بے چینی سے بولا
اعجاز صاحب کیا انکار کرتے ویسے بھی اب وہ اس کا محرم تھا اس کا زیادہ حق تھا دعا پر۔۔۔
ٹھیک ہے
انہوں نے اسے اجازت دے دی جسے سن کر وہ جھوم اٹھا
"ٹھینکس انکل "وہ خوشی سے بولا جسے سن کر وہ مسکرا دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اجازت لے کر دعا کو لیتا اپنی گاڑی میں بیٹھا
گاڑی اپنے راستے کی طرف گامزن تھی سارے راستے اس کا دھیان اس پر ہی رہا تھا دعا اس کی نظروں سے کنفیوژ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔
اس کا چہرہ اس نے ابھی بھی نہیں دیکھا تھا اس نے نقاب کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
یوسف نے ایک بہت ہی پیارے بنگلے کے سامنے گاڑی روکی
اور اس کی طرف کا دروازہ کھولتا اس کی طرف ہاتھ بڑھا گیا
"آ جائو دعا۔۔۔۔۔"وہ بہت پیار سے بولا
دعا نے شرما کر اپنا نازک سا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا جسے وہ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں مقید کرتا لبوں سے لگا گیا دعا کا چہرہ مارے شرم کے سرخ ہو گیا
"وہ اس کا ہاتھ تھامے اندر کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔۔۔
دعا ہولے ہولے کانپ رہی تھی اس کی قربت سے۔۔۔اسی چکر میں اس کا پائوں الجھا وہ گرنے لگی تھی کہ یوسف نے اس کی کمر کے گرد بازو حائل کر کے اسے گرنے سے بچایا
"دعا میری جان آپ ٹھیک ہیں ،چوٹ تو نہیں لگی آپ کو "
وہ پریشانی سے بولا
وہ بلش کر گئی اس کے قریب آنے سے ۔۔۔۔۔
جسے محسوس کرتا یوسف دلکشی سے مسکرا دیا اور جھک کر اس کے نازک وجود کو بانہوں میں اٹھاتا اندر کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں