کہانی ایک فتنے کی جو ہماری نسل کے ایمان کے رہزن ہیں


تحریر: ڈاکٹر قدیر احمد قریشی
کیا بات ہے آج بہت خوش نظر آرہے ہیں آپ موبائل کو دیکھ کر؟ مجھے دیکھ کر کبھی اتنا خوش کیوں نہیں ہوتے؟

فردان کی بیوی نے اس کو اتنا خوش دیکھ کر پوچھ ہی لیا
بھئی تیس سال بعد اسکول کے دوستوں کا واٹس ایپ گروپ بنایا ہے پرانی یادیں تازہ ہوگئیں! فردان بیگم کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا ۔ پھر اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا یار وہ شمیم کدھر ہے دسویں جماعت میں ہم دونوں ساتھ بیٹھتے تھے ۔ 
گروپ ایڈمن سے شمیم کو شامل کرنے کی درخواست کرکے فردان اپنے آفس نکل گیا اسکا عبداللہ ہارون روڈ پر اپنا کمپیوٹر اور موبائل کا اچھا کاروبار تھا۔

رات کو سونے سے پہلے اس کو شمیم کا میسج ملا “کدھر ہے یار فردان تو جواب کیوں نہیں دے رہا گروپ میں”
“ارے شمیم میرے جگری تو کدھر ہے یار”
فردان نے سب بھول کر چلا کر وائس ریکارڈنگ شمیم کو بھیجی جس سے سوئی ہوئی بیگم صاحبہ ہڑبڑا کر اٹھ گئیں اور فردان کا بڑا بیٹا جو گریجویشن کے امتحان کی تیاری کررہا تھا بھاگتا ہوا کمرے میں آیا کہ پتہ نہیں گھر میں ڈاکو تو نہیں گھس آئے
فردان خفت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا
“ میں ڈیفنس میں ہوں ایک کمپیوٹر کی فرم میں انجینیئر ہوں “
چل شمیم تجھ سے کل بات کروں گا اپنی اوراپنی فیملی کی تصویریں بھیجنا ابھی بیگم نے تو مجھے دھکے دیکر گھر سے نکال دینا تھا فردان نے ہنستے ہوئے کہا……

مسٹر شمیم آپ کو ہم نے بیس سال سے پوری طرح سپورٹ کیا ہے اب آپ کے جماعت کے لیئے کچھ کرنے کا وقت ہے
قادیانی جماعت خانے کے سربراہ نے شمیم سے ماہانہ میٹنگ میں سوال کیا
جناب میں نے اپنے اسکول کے دوستوں کا واٹس ایپ گروپ جوائن کیا ہے ابھی دیکھ رہا ہوں کس کو اپنی طرف لانا ہے
چلیں ٹھیک ہے طریقہ کار میں بتاتا ہوں
آپ گروپ میں احمدیوں کے حق میں کچھ پوسٹ اور وڈیوز ڈالیں، یقیناً زیادہ تر گروپ والے آپ کو گالیاں دینا شروع کردیں گے قادیانیت کے خلاف فتوے اور مولویوں کی وڈیوز ڈالیں گے،آپ یہ نوٹ کیجیئے گا کہ کون ہے جو آپ کےحق میں بولتا ہے اس کو ٹارگٹ کیجئے گا اس کو الگ سے دوستی اور انسانیت کی میسجز بھجیئیے گا اور اگر وہ پاکستان میں ہی رہتا ہے تو اس سے گھریلو تعلقات بڑھایئے گا”
جی بہتر میں بالکل سمجھ گیا شمیم کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ عیاں تھی….

“ارے یہ شمیم کو خالد گروپ میں گالیاں کیوں دے رہا ہے”
فردان نے میسج دیکھ کر وجہ جاننے کے لیئے پرانے میسج کھنگالنے شروع کیئے
“اچھا تو اس وجہ سے کے شمیم قادیانی ہے “ فردان کو دو منٹ میں ہی پتہ چل گیا
ارے تو کیا ہوا یار! ہے تو اپنا دوست اسکا مسلک اس کے ساتھ ہمارا مسلک ہمارے ساتھ یہ کونسا طریقہ ہے گالیاں اور برے الفاظ بولنے کا، گروپ میں ہر ممبر آزادیِ رائے کا حق رکھتا ہے کوئی بدمعاشی تھوڑی ہے! یہ مولویوں نے تو ملک میں آگ لگادی ہے ایک دوسرے کو بھی گالیاں دیتے ہیں اور دوسرے عقائد والوں کو بھی لوگ بھی ان کی باتوں میں نہ جانے کیوں آجاتے ہیں
اپنے دوست کی بے عزتی دیکھ کر فردان کا بلڈ پریشر ہائی ہوگیا تھا اور اس نے گروپ میں سب کو سمجھانا شروع کردیا
“ بھائی یہ ہمارا گروپ بڑی مشکل سے بنا ہے کوئی کس عقیدے کا ہے اس سے ہمیں کیا لینا دینا ہم لوگ کون سے سچے مسلمان ہیں جو کسی کا حساب لیں یہ تو اللہ اور ہر بندے کا معاملہ ہے قیامت کے دن سب کا حساب ہوجائے گا ہمیں دنیا میں کس نے اختیار دیا کہ ہم کسی کو صحیح یا غلط سکھائیں ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیئے اور کسی کےعقیدے پراس کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیئے۔ فردان نے اپنی منطق سب کو سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ اس کا ذہن ہمیشہ سے لبرل تھا اس کو علما ئے دین اور مولویوں سے سخت نفرت تھی یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو بھی دینی تعلیم سے دور رکھا ہوا تھا کہ کسی مولوی کی ہتھے چڑھ کر اپنا مستقبل برباد نہ کرلیں۔

کسی کے پاس اسکول کی پارٹی کی تصویریں ہوں تو وہ بھیجے”
فردان نے اپنے دوست کو بچانے کے لیئے گروپ کا ماحول اور موضوعِ گفتگو تبدیل کردیا
رات کو فردان کے پاس شمیم کا فون آیا
ارے میرے دوست کیسا ہے تو یار تو بے فکر رہ میں گروپ میں سب سے بات کرلوں گا تجھے اگر کسی کی بات بری لگی ہو تو میں معافی مانگتا ہوں۔ فردان نے شمیم کو یہ سوچ کر منانے کی کوشش کرڈالی کہ شائد اس کو بہت برا لگا ہوگا اس کو کیا معلوم تھا کہ اس کو بطور شکار ٹارگٹ کرلیا گیا ہے۔
نہیں فردان مجھے برا نہیں لگا ہم لوگ تو اب گالیاں کھانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم بھی اس ہی ملک کی شہری ہیں ملک کی ترقی کے لیئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں شمیم نے فردان کو اور شرمندہ کرنا شروع کیا تاکہ اس کی ہمدردی اور بڑھ جائے
شمیم تو دل برداشتہ مت ہو میں تیرے ساتھ ہوں یہ بتا ملاقات کب ہوسکتی ہے تجھ سے اپنے دونوں بیٹوں اور تیری بھابی سے تجھے ملوانا ہے
شمیم اس ہی سوال کا انتظار کررہا تھا ۔ ہاں ضرور میں تجھے جلد بتاؤں گا چل اب رات بہت ہوگئی ہے شب خیر!

جناب عالی آپ کا بتایا ہوا طریقہ کام کرگیا میں نے گروپ میں ایک شخص ٹارگٹ کرلیا ہے اسکا نام فردان ہے کمپیوٹر اور موبائل کا اچھا بزنس ہے دو لڑکے ہیں اسکا بڑا لڑکا میری بیٹی کا ہم عمر ہے شمیم نےساری رپورٹ جماعت خانے کا سربراہ کو سنائی
یہ تو بہت زبردست خبر ہے کہ اسکا بڑا بیٹا آپ کی بیٹی کا ہم عمر ہے میرا خیال ہے مجھے اب آپ کو مزید سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی جماعت خانے کے سربراہ کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی……..
دیکھو زینیا آج ہم لوگ اس فردان کی فیملی کے ساتھ ہائ وے ڈنر پر جارہےہیں تم کو اس کے بڑے بیٹے کو فوکس کرنا ہے اس کو آج سے ہی اپنے قریب کرنا شروع کردینا نمبر ضرور لے لینا شمیم نے اپنی خوبرو بیٹی کو مکمل ہدایات سنائیں.
فردان شمیم سے ملکر پھولے نہیں سما رہا تھا اور باتوں میں اسقدر مگن تھا کہ اس کو نظر ہی نہیں آرہا تھا کہ شمیم کی بیٹی اس کے بڑے بیٹے کے ساتھ بیٹھ گئی تھی اور مستقل اس کو مسکرا کر دیکھے جارہی تھی۔ فردان کا بڑا بیٹا جو کہ نوجوان تھا لازمی سی بات تھی اس کی طرف مائل ہوگیا شمیم کی بیوی نے فردان کی بیگم کو باتوں میں لگایا ہوا تھا
آپ کا نام کیا ہے آپ کیا کرتے ہیں؟ شمیم کی بیٹی نے فردان کے بیٹے سے شرماتے ہوئے سوال کیا
میرا نام فیضان ہے میں کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کررہا ہوں اور آپ
میرا نام زینیا ہے میں بھی کامرس میں گریجویشن کررہی ہوں شمیم کی بیٹی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
“آپ بہت سمارٹ اور ہینڈ سم ہیں یونیورسٹی میں لڑکیاں تو آپ پر مرتی ہوں گی “
شمیم کی بیٹی نے فردان کے بیٹے پر جال پھینک ہی دیا ۔جاتے جاتے دونوں میں کافی دوستی ہوگئی تھی فردان کے بیٹے کےپاس زینیا کا نمبر آچکا تھا۔
کچھ ہی دنوں میں زینیا اور فردان کے بیٹے کی بے تکلفی بہت بڑھ چکی تھی دونوں رات کو دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے پرائیویٹ تصویروں کا تبادلہ بھی ہوچکا تھا
زینیا ان پانچ مہینوں میں وہ فیملی ہم سے اور انکا بیٹا تم سے کافی بے تکلف ہوچکا ہے اب ہمیں آخری کام کرنا ہے تم سمجھ گئی ہو نا میں کیا کہ رہا ہوں! شمیم اپنی بیٹی کو مسکراتے ہوئے بولا
جی پاپا مجھے پتہ ہے کہ اس اتوار مجھے کیا کرنا ہے آپ لوگ صبح دس بجے تک گھر سے چلے جایئے گا باقی میں سنبھال لوں
گی
“فیضان کیا تم اس اتوار میرے گھر آسکتے ہو پاپا تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں “
زینیا نے فردان کے بیٹے پھنسانے کی آخری چال چل ڈالی
اتوار کےدن فیضان جب شمیم کے گھر پہنچا تو پلان کے مطابق زینیا کےعلاوہ گھر پر کوئی نہیں تھا اور شمیم کا پلان کامیاب ہوا اور زینیا نے فیضان سے وہ کام کروا لیا جس کی بعد فیضان اس کی محبت میں اندھا ہوگیا۔
کچھ دن بعد فیضان نے پھر زینیا سے اکیلے ملنے کی خواہش کی جس کا کہ شمیم کو انتظار تھا ۔ زینیا تم اب اس کو ترساؤ اتنا کہ وہ تم سے شادی کرنے پر راضی ہوجائے
شمیم وہی چال چل رہا تھا جو آج سے بائیس سال پہلے اس کے ساتھ چلی گئی تھی۔

آخر کار فیضان اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک ہفتے بعد ہی زینیا کے اسرارپر اکیلے ہی اپنا رشتہ لیکر شمیم کے پاس پہنچ گیا اور اس کے خلافِ توقع شمیم فوراً راضی بھی ہوگیا۔
“لیکن بیٹا تمھارے والدین تو اس رشتے کو تسلیم نہیں کریں گے تم کو معلوم ہے نا کہ ہم لوگ احمدی مسلم ہیں” شمیم نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے کہا
ارے انکل سب مسلمان ہی ہیں یہ سب تو ان مولویوں کا کیا دھرا ہے میں ان سب کو نہیں مانتا
زینیا نے شمیم کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فیضان کو اس کے باپ نے دینی تعلیم سے دور رکھا ہوا تھا کیونکہ وہ خود علمائے دین سے نفرت کرتا تھا اور ان کو تمام دینی فتنوں کی وجہ سمجھتا تھا اس لیئے فیضان آرام سے پھنس جائے گا۔
“امی مجھے زینیا بہت پسند ہے وہ شمیم انکل کی بیٹی ابو کو بولیں میں اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں “
فیضان نے گھر آکر ایٹم بم گرا ہی دیا۔
امی سکتے میں آگئیں پھر سنبھل کر بولیں ارے بیٹا وہ لوگ قادیانی ہیں دائرہ اسلام سےخارج، کافر تمھاری وہاں شادی کیسے ہوسکتی ہے
امی اگر وہ یہ سب ہیں تو ابو کا ان سے اتنا ملنا جلنا کیسے ہوتا ہے ان کے ساتھ دعوتیں کیوں اڑائی جاتی ہیں ، فیضان بھی ہار ماننے والا نہیں تھا
“بیٹا تم اپنے والد کو آنے دو پھر بات کرتے ہیں “
فیضان کی امی نے اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی
“ٹھیک ہے ابو کو آنے دیں لیکن مجھے جواب ہاں میں ہی چاہیئے، “

فیضان پیر پٹختا ہوا کمرے میں چلاگیا
یہ خبر فردان پر بجلی کی طرح گری وہ جتنا بھی لبرل ہو یہ بات اس کو گوارا نہ تھی کہ اس کی نسل قادیانی ہوجائے اس نے رات کو ہی فیضان کو دوٹوک فیصلہ سنادیا کہ تمھیں یہ سب بھول کر اپنی تعلیم پوری کرنی ہوگی اس کے بعد ہم تمھارے لیئے لڑکی ڈھونڈیں گے
اگلے دن جب فیضان یونیورسٹی سے شام تک نہ آیا تو اس کی امی کو فکر ہوئی انہوں نے فیضان کو فون کیا
“جی امی بولیئے کیا کام ہے “
فیضان کی اتنی خشک آواز امی نے پہلی مرتبہ ہی سنی تھی
“بیٹا تم کدھر ہو گھر کب تک آؤ گے؟”
امی میں گھر نہیں آرہا میں زینیا سے شادی کرنے جارہا ہوں شمیم انکل مجھے پوری طرح مالی طور پر بھی سپورٹ کرنے کو تیار ہیں اور یورپ میں سکونت بھی دلارہے ہیں ان کی جماعت کے وہاں بہت تعلقات ہیں ابو جو کچھ مجھے بنتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے وہ سب کچھ یہ لوگ مجھے دینے کو تیار ہیں ۔کل صبح میری احمدی جماعت خانے میں شادی ہے آپ لوگوں کو آنا ہو تو آجائیے گا یہ کہ کر فون بند کردیا گیا

یہ خبر فردان پر بجلی بن کر گری آج وہ محلے کی مسجد کے امام صاحب کے پاس بھاگا جن کو وہ ہمیشہ برا بھلا کہا کرتا تھا اور تحضیک آمیز رویہ رکھتا تھااور ان سے منت کرنے لگا کہ فون پر بات کرکے فیضان کو روکیں
امام صاحب اپنی تمام پچھلی بے عزتیاں بھول کر فردان کی مدد کو تیار ہوگئے لیکن فیضان نے ان سے بات کرنے سے انکار کردیا ۔

پھر فردان نے شمیم کو فون لگایا ۔
فردان آج وہی گالیاں شمیم کودے رہا تھا جو کبھی خالد نے بھی اس کو واٹس ایپ پر دیں تھی۔ شمیم دل میں ہنس رہا تھا لیکن فردان سے پیار سے بولا دیکھو دوست میں کچھ نہیں کرسکتا یہ ان دونوں کا فیصلہ ہے

آج فردان نہ چاہتے ہوئےاپنی آدھی نسل کو قادیانی اور مرتد و مردود ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے لیکن اب اس کو عقل آگئی ہے وہ خود اور اسکاچھوٹابیٹاروزانہ عشاء کی نماز مسجد میں پڑھتے ہیں اور امام صاحب سے دین کی باتیں سیکھتےہیں ۔اس کو اب سمجھ آچکا تھا کہ قادیانی،مسلمانوں کی نسل اور ایمان کے رہزن ہیں ان سے اپنی نسل کو بچانے کے لیئے دین کے عقائد اور اصولوں کو سیکھنا اور اپنی اولاد کو سکھانا کتنا ضروری ہے۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں