تحریر: ڈاکٹر مبشر سلیم
چند دن پہلے کسی نے پوچھا پریشانیوں سے کیسے بچا جائے؟ ۔
میں نے فورا جواب دیا
اپنے ہم عمر لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں ۔نوجوانوں کی صحبت اختیار کریں۔۔
کل مرید خاص کے ساتھ گپ شپ کے دوران گفتگو اسی موضوع کی طرف نکل گئی۔ میری دلیل سن کر اس نے ایک کہاوت سنائی۔ جس کو سن کر مجھے اپنی رائے میں کافی تقویت محسوس ہوئی۔۔
کہتے ہیں گئے برسوں میں ایک نوجوان لڑکی کی شادی ایک بوڑھے امیر شخص کے ساتھ طے پا گئی۔
لڑکی نے دو شرطیں سامنے رکھ دیں۔ ان پر عمل ہوتا رہے گا تو میں ساتھ رہوں گی ورنہ طلاق ہوجائے گی۔
پہلی یہ کہ جب بھی میرا خاوند گھر میں داخل ہوگا تو دیوار پھلانگ کر گھر آئے گا۔
دوسرا یہ کہ اپنے ہم عمر دوستوں کی بجائے نوجوانوں کی محفل میں جایا کرے گا۔۔
بوڑھے نے بات مان لی۔ اور شادی کے ابتدائی ماہ خوب گزرے۔ بوڑھا شخص زندگی سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے لگا۔
ایک دن اسے اپنے ہم عمر بوڑھے دوستوں کی یاد ستائی تو ان کی طرف جا نکلا۔۔ کئی گھنٹے ساتھ گزار کر واپس آیا۔ تو گھر کی دیوار پھلانگنے میں ناکام ہوگیا۔ مجبورا دروازے پر دستک دینا پڑی۔
رات جیسی بھی گزری۔صبح سویرے لڑکی نے اپنا سامان لپیٹا اور گھر سے یہ کہہ کر نکل کر گئی۔ دونوں شرطوں کی خلاف ورزی ہوچکی ہے۔ اس لیئے ہمارا رشتہ ختم ہوگیا۔۔۔
حاصل کلام: خیالات کب بوڑھے ہوتے ہیں؟
انسان اس وقت تک بوڑھا نہیں ہوتا جب تک اس کے خیالات بوڑھے نہ ہوجائیں اور انسان کو اسکے تفکرات بوڑھا کر دیتے ہیں۔۔ اور ان تفکرات سے بچنے کا بہترین حل یہ کہ ان لوگوں کی صحبت سے بچا جائے جو اپنے تصورات کو زنگ آلود کرلیتے ہیں اورجو خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
0 تبصرے