دنیا دار درویش - سچی کہانی

sublimegate urdu stories

Urdu Font Stories

دنیا دار درویش - سچی کہانی

قسط وار کہانیاں
ایک دن میں نے بہت غصّے اور جلن کی حد تک پہنچ کر خداوند تعالی سے کہا تھا۔ اے میرے مالک یہ کیسی تپش ہے؟ جسم سلگ رہا ہے، روح تڑخ رہی ہے اور تیری دنیا کے لوگ ہیں کہ آکر مجھ سے کہتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کروں ؟ تو ہی بتا میرے مالک ایسی ناتوانی میں طاقت کہاں سے لاؤں ؟ دل تو چاہتا ہے کہ ایک چھڑی ہوا میں لہراؤں اور جس کی جو بھی مانگ ہو ، جھٹ پوری کردوں، مگر میری ایسی اوقات کہاں ؟ میں جو بذات خود ایک ناکام، نااہل، نالائق انسان ہوں جو نہ دین کی ہے نہ دنیا کی، بھلا تیرے سامنے میری دعائیں کیا اہمیت رکھ سکتی ہیں ؟ یہ شرف تو برگزیدہ اشخاص کو ملتا ہے۔ وہ تیرے سامنے جھولی پھیلاتے اچھے بھی تو کتنا لگتے ہیں اور میں۔ میں تو بہت ہی گناہ گار اور بے کار انسان ہوں۔
 
 اللہ تعالیٰ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہ سب مجھ سے دعائیں مانگنے کا کہہ کر میرا مذاق اڑا رہے ہیں یا آئینہ دکھا رہے ہیں؟ ان سب کو کیسے سمجھاؤں کہ جب یہ مجھ سے دعا مانگنے کا کہتے ہیں تو مجھے اپنے وجود سے اور بھی نفرت ہونے لگتی ہے۔ دل چاہتا ہے میرے مالک میں کہیں روپوش ہو جاؤں ۔ ایسی جگہ چلی جاؤں کہ نظر آنا بند ہو جاؤں یا پھر ان سب کے سامنے میری اصلیت کھل جائے! دوسرے ہی لمحے مجھے اپنے بلاوجہ کے جذباتی پن پر ہنسی آنے لگی۔ ایک شیطانی خیال سا کوندا۔ ایسا بھی کیا مسئلہ ہے جب بھی کوئی دعا کرنے کا کہے تم بھی جھٹ سر پر دوپٹہ ڈال کر بڑے مذہبی سے تاثرات چہرے پر طاری کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر بڑبڑا دیا کرو۔ 
 
کم از کم جو دعا کی درخواست کر رہا ہے اسے تو اطمینان ہو جائے گا ناں؟ پھر میں سوچنے لگی کہ آخر یہ سب کب اور کیسے رونما ہوا ؟ وہ کون سا دن تھا یا تاریخ تھی جس روز مجھ سے پہلی بار کسی نے دعا کے لیے کہا تھا؟ یاد کرنے پر بھی یاد نہ آیا بس اچانک ہی جیسے میرے ارد گرد ایسے لوگ جمع ہونے لگے، جو ٹوٹے دل اور شکستہ شخصیت کے حامل تھے۔ دنیا سے مایوس اپنوں کی بے رخی کا زخم کھائے، جب وہ میرے آگے اپنی محرومیوں اور امیدوں کی پٹاری کھولتے تو مجھے لگتا میں ایک گہرے کنویں میں بیٹھی ، اوپر گول دائرے میں نظر آتے آسمان کو تک رہی ہوں ۔ جب میری اپنی ہی بصارت اتنے محدود آسمان کی حامل تھی تو بھلا کسی اور کے لیے میں راستے کی راہیں کہاں سے نکال سکتی تھی مگر پھر بھی میں خیالوں میں اپنے حصے میں آئے، محدود گول دائرے جیسے آسمان کو تکتی جاتی اور پھر کسی بے اختیار لمحے میں سامنے والے کے لیے دعا مانگ لیتی۔ اتنا تو میں کر سکتی تھی اور کر بھی دیتی تھی۔

اور یہ الگ طرح کا معمہ تھا میرے لیے کئی دنوں سے یہ بھی سننے کو ملنے لگا تھا کہ جس نے بھی مجھ سے دعا کروائی تھی ان میں سے دو چار کے لیے کی گئی دعا واقعی قبول ہوگئی تھی ۔ اب کیا یہ ضروری ہے کہ میری ہی دعا قبول ہوئی ہو؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہی دعا کسی اور کے لبوں سے نکل کر بارگاہ الہی میں قبولیت کے درجے تک پہنچی ہو اور میرے لبوں سے نکلی دعا آسمان کے کسی نچلے درجے میں ہی ایک کر رہ گئی ہو ؟ سب سے بڑا شکر کا مقام تو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے دعا قبول ہونے پر کامیاب انسان کے نام ، ایسا کوئی رقعہ نہیں نکلتا جو اسے یہ بھی بتا دے کہ اس کے لیے کی گئی دراصل کس کی دعا قبول ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اکثر ہمیں یہ پتا نہیں چلتا کہ آخر ہمارے ہاتھ آئی چند لمحوں کی مسافت پر موجود دیرینہ ، دل لبھائی ! اور پسندیدہ منزل دوسرے ہی لمحے ہمارے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کا نصیب کیسے بن جاتی ہے؟ کیا یہ صرف قسمت کا کھیل ہے یا اس میں کسی انسان کی بدنیتی، بد دعا یا پھر شدت طلب کا بھی لینا دینا ہے؟ اور اگر وہ جو مجھے لگتا تھا کہ میرے لیے ہی بنایا گیا ہے۔
 
 مجھے ہی سونپا جائے گا اور میرے ساتھ ہی بوڑھا ہوگا کسی اور کے ساتھ خوش و خرم، مکمل اور جامع نظر آ رہا ہے تو اس کے پیچھے ایسا کیا راز ہے جو صرف مجھے ہی سمجھ میں نہیں آرہا؟ یا پھر ایسا دنیا میں ہوتا ہی ہے، بیچ میں کسی ولن کے آئے بغیر دو محبت کرنے والے بچھڑ بھی سکتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی نہیں۔ بس ہوتا یوں ہے کہ اس معمولی سی بات کے بعد، بغیر جتائے بغیر بتائے، ناکامی کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اور اب سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ دور دونوں طرف برابری سے چلتا ہے۔

16 اقساط
 
اس وقت جب میں نے نیا نیا ناکام ہونا شروع کیا تھا تو مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ اگر آپ زندگی میں تسلسل سے نا کام ہونا شروع کر دیں، تو لوگ آپ کو ناکام کہنا چھوڑ دیتے ہیں بلکہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آپ دنیادارنہیں ہیں اور جو دنیادارنہیں ہوتے وہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتے ہیں ۔ ہو بھی سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو مگر میرا معالمہ ذرا مختلف ہے، میرے ساتھ یوں ہوا کہ وہ شخص نہیں ملا تو جیسے میرا دل دنیا سے اچاٹ ہو گیا۔ کھاتی پیتی ہوں مصروف لاتعلق اور بے پرواہ دکھائی دینے کے لیے۔ نوکری بھی کر رہی ہوں مگر کئی سال ہوئے میں نے آئینہ نہیں دیکھا ۔ کسی بھی تقریب کے لیے خود کو سنوارا نہیں ، تعلقات استوار رکھنے کی کوششیں یکسر ترک کر دیں اور اکثر تو یوں بھی ہوا کہ اپنے ساتھ کی گئی کسی کی برائی دیکھ لینے پر غصہ تو کیا حیران تک نہ ہو پائی، جیسے مجھے پہلے سے ہی معلوم تھا کہ میرے ساتھ یہی ہونا تھا۔
 
 سمجھا جائے تو اب میں ردو عمل دکھانے سے مکمل طور پر قاصر ہو چکی ہوں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ ایک مشترکہ کزن کی بیٹی کی شادی میں، ایک خوب صورت سا نوجوان جس کو میں بالکل نہیں جانتی تھی میرے شادی ہال میں داخل ہوتے ہی مجھ سے پر تپاک انداز میں ، ایسے ملا جیسے برسوں کی شناسائی ہو اور پھر یوں میرے ساتھ سائے کی طرح لگ گیا کہ شرمندگی کی محسوس ہونے گئی۔ میں دوسرے بزرگ رشتہ داروں سے علیک سلیک کرتے اس کو بغور دیکھتی بھی جاتی۔ کون ہے یہ؟ کس کا لڑکا ہے؟ کئی سال ہوئے میں نے تو رشتہ داروں سے ایسا کوئی تعلق ہی رکھنا چھوڑ دیا ہے کہ ان کے جوان ہوتے بچے مجھے دیکھتے کے ساتھ ہی ملنے دوڑے آئیں ۔ وہ بھی آج کل کے بچے، جن کے پاس اپنے ہی ماں باپ کے لیے وقت نہیں وہ کسی پھوپھی خالہ کو کہاں گھاس ڈالیں گے ۔ وہ میرے ساتھ سائے کی طرح کچھ وقت رہا، پھر اپنے چھوٹے بھائی کے بلانے پر دوسری طرف چلا گیا ۔
 
 تب میں نے دیکھا کہ اس تقریب میں وہ اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ آیا تھا۔ اس کی ماں جو کہ چند دن پہلے ہی پاکستان اپنی بہن کی شادی پر آئی تھی اور اتفاق سے اسے ہمارے کزن کی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ بھی مل گیا۔ میں شروع میں پہچان نہ سکی مگر میز پر بیٹھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا۔ وہ اپنے دونوں نوجوان لڑکوں کے ساتھ تھی ، پتا نہیں کیوں مجھے نظر انداز بھی کرنا چاہ رہی تھی اور مجھے اپنی آسودہ زندگی کے بارے میں بتانے پر بھی بضد تھیں تب ہی وہ مجھ سے براہ راست بات کرنے کے بجائے کسی نہ کسی بہانے سے میری میز پر ارد گرد بیٹھے دیگر رشتہ دار کے ساتھ بیٹھ کر اپنا حال احوال سنانے لگی۔

45 اقساط
 
یہی کہ وہاں کی زندگی بہت سخت ہے۔ گھر کی صفائی ، برتن کپڑے دھونا ، کھانا پکانا سب خود ہی کرنا پڑتا ہے جبکہ وہاں جا کر بھی ہمارے مردوں میں ذرا بدلاؤ نہیں آتا وہ ویسے ہی سارا کام عورت کے ذمے کر کے بس ایک نوکری کرتے ہیں اوپر سے چاہتے ہیں کہ وہاں پیدا ہونے والے بچے خاص طور سے لڑکوں کی تربیت بھی ، یہاں کی روایت کے مطابق ہی ہو اور یہ کہ حالانکہ وہاں زندگی سخت، تیز اور بہت بے رحم ہے۔ پھر بھی وہاں ہزار قسم کی سہولیات بھی ہیں۔ وہ اور اس کا شوہر ایک دوسرے کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں کیونکہ وہاں یہ اصول ہے کہ میاں بیوی کو ہر روز نہیں تو ہفتہ بھر میں تنہائی ضرور دی جاتی ہے اور یہ وقت وہ دونوں بہت زیادہ خوش رہ کر گزارتے ہیں۔ میں ناچاہتے ہوئے بھی اس کوسنتی چلی جارہی تھی ایک وقت تو مجھے لگا جیسے وہ مجھ پر احسان جتا رہی ہو کہ اگر وہ ہمارے بیچ میں نہ آتی تو ابھی اتنا سب کچھ مجھے برداشت کرنا پڑ رہا ہوتا اور دوسرے ہی لمحے مجھے چڑا بھی رہی ہو کہ دیکھو پینگیں تو تمہارے ساتھ بڑھائیں مگر تنہائی میں وقت میرے ساتھ بتاتا ہے۔ میں انجانے میں ہی، اس کو گھر میں دوڑ دوڑ کر کام کرتے بچوں کو ناشتہ دیتے ان کے بستے ان کو کو پکڑاتے تصور کرنے لگی اور اس کے ساتھ ہی میرا تصور اس طرف بھی گھوم گیا جو میرے لیے نامحرم تھا۔ آفس جانے کے لیے سلیقے سے تیار، اخبار میز کے ایک طرف پھیلائے نظر اخبار پر رکھتا، مگر دوسرے کونے پر موجود پلیٹ میں تلے ہوئے انڈے کو ڈبل روٹی کے ٹکرے کے ساتھ کانٹے میں سلیقے سے پروکر کھاتا ہوا اپنے ارد گرد ہوتے روز کے اس گھریلو ہنگامے سے بے پرواہ اور مطمئن وہ کس قدر جاذب نظر اور پرکشش لگتا ہے۔ مگرعجیب بات تھی، مجھے یہ سب تصور کرنے پر بھی اس کی بیوی سے نہ تو حسد ہی محسوس ہوا اور نہ ہی اس کی زندگی پر رشک آیا۔
 
 وہ مجھ سے لا تعلق سی بنی رہنا چاہتی تھی تو میرا بھی فرض تھا کہ ایسا ہی ظاہر کرتی جاتی جیسے میں اس کی بات سن ہی نہیں پا رہی ہوں۔ ٹھیک ہی تو ہے، میں شاید اس کے لیے اس قدر فعال ثابت نہ ہو پاتی ، بقول اس کی مرحوم والدہ وہ میرے آگے بھیگی بلی بن جایا کرتا تھا۔ میری چھوٹی سی خواہش کو بھی اپنے لیے حکم سمجھ لیا کرتا تھا۔ اس کی والدہ کو ہمیشہ ہی لگتا تھا کہ میں ابھی ان کے بیٹے کو اس قدراستعمال کرتی ہوں تو شادی کے بعد تو وہ میرا بالکل ہی بے دام غلام بن کر رہ جائے گا اور شوہر اگر بیوی کے بے دام غلام بن جائیں تو ہمارے معاشرے میں مرد نہیں سمجھے جاتے۔ لہٰذا انہوں نے جان توڑ محنت کے بعد اپنے لڑکے کو نا مرد ہونے سے بچا لیا تھا۔

اس کی بیوی پہلے تو اس قدر باتونی نہ تھی جیسا کہ اب لگ رہی تھی۔ لوگ کہتے ہیں جو مرد اپنی بیویوں کوخوش رکھتے ہیں وہ ایسی ہی باتونی ہوجاتی ہیں اور اپنے شوہر کی برائی بھی بڑے مان سے کرتی ہیں۔ کھانا شروع ہونے پر وہ اپنے دونوں لڑکوں کے ساتھ دوسری میز پر چلی گئی تھی۔ اتنے میں بڑی پھوپھی ایک ہاتھ میں بڑی سی پلیٹ پر ذرا سی بریانی اور تلی مچھلی کا ننھا سا قتلہ جمائے ، دوسرے ہاتھ سے کرسیوں کا سہارا لیتی لڑکھڑاتی آ کرمیرے پاس بیٹھ گئیں تم بھی جا کر جلدی سے کھانا لے آؤ۔ موئے بیرے تو فورا سمیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ جتنی زیادہ ڈشیں ہوں گی۔ اتنا ہی کم کھانے کا وقت دیتے ہیں یہ لوگ ساری ملی بھگت ہوتی ہے دونوں انتظامیہ اور میزبان کی اور کیا… بڑی پھوپھی کو شاید یاد نہیں رہا تھا کہ یہ ان کی ہی سگی پوتی کی شادی ہے۔ اے ذرا ان کی تو سنو امریکہ اب کون سا دور ہے، پل پل کی خبریں ملتی رہتی ہیں یہاں، یہ اور بات کہ ہم کبھی کبھی باہر والوں کو خود سے زیادہ خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ بڑی پھوپھی نے اس کی میز کے ارد گرد جم گھٹا لگاتی لڑکیوں اور ان کی ماؤں کو دیکھ کر راز داری سے کہا۔
ہم نے بھی چھ بچے پالے ساتھ میں ساس، سسر اور دو چھوٹے دیور اور ایک نند کو بھی سمجھو پالا مگر ہم نے تو کبھی اپنے منہ اس طرح اپنی تعریف نہ کی، وہ بھی اس قدر جھوٹ اللہ معافی! بڑی پھوپھی کی بات پر میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ یہ بات تو سچ ہے کہ پورا خاندان بڑی پھوپھی کی سلیقہ مندی، خندہ پیشانی اور سسرالیوں کے لیے قربانیوں سے واقف بھی تھا اور خوب سراہتا بھی تھا۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی تو گیا تھا ریاض (بڑی پھوپھی کا بڑا پوتا) اپنی کمپنی کی کسی میٹنگ کے سلسلے میں امریکہ تو میں نے ہی کہا تھا کہ جارہے ہو بیٹا تو اپنے مرحوم باپ کے چچازاد سے بھی مل لینا، مانا سگا چچا نہیں مگر ہے تو رشتہ دار ہیں۔ وہ بتانے لگا کہ اتنا چھوٹا سا تو گھر تھا کہ دونوں ہاتھ پھیلاو تو کمرے کی چار دیواری سے ٹکرانے لگے۔ اس قدر تنگ سا ڈرائینگ روم اور پھر فرنیچر کے نام پر ایسے گندے پیلے صوفے رکھے ہوۓ تھے ، جیسے گھر والے رات میں اسی پر سوتے ہوں اور سوتے ہی ہوں گے دو ہی تو کمرے تھے پورے گھر میں ایک بیڈ روم ایک ڈرائنگ روم بڑی پھوپھی اپنی دانست میں شاید، مجھے خوش کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہی تھیں مگر میرے حالیہ تراشے گئے خوب صورت تصور کو جیسے کسی نے کنکر مار کر چکنا چور کر دیا تھا۔ میں نے بے چین ہو کر پہلو بدلا ۔
 
 بڑی پھوپھی اپنی ہی دھن میں بولتی چلی گئیں۔ اب کوئی پوچھے کہ اسی طرح رہنا تھا تو یہاں ہی رہ لیتے ؟ اللہ بخشے اس کی مرحوم ماں کو ہی بہت شوق تھا کہ امریکہ جائے۔ وہاں ترقی کرے گا، ڈالر کمائے گا، ڈالر تو خاک کمائے، ماں ہی آخر وقت میں مل نہ سکی۔ یہ بھی وہاں جما بیٹھا رہا کہ چھٹی نہیں مل رہی نہیں آسکتا ۔ اور سچ پوچھو تو اس چکر میں ڈالنے والی بھی تو مرحومہ ہی تھی۔ یہ تو جانا ہی نہیں چاہتا تھا اچھی خاصی نوکری بھی کرنے لگا تھا زبردستی سب چھڑا کر وہاں بھیجا گیا ، اصل میں تو مرحومہ کو جلن کسی اور بات کی تھی۔ کسی اور کی بیٹی کے لیے گڑھا کھودا تو اپنا ہی لڑکا اس میں گر پڑا اور کیا۔ آخر وقت تک میں سمجھاتی رہی کہ اتنی ضد اچھی نہیں ہوتی۔ تمہارے آگے بھی بیٹیاں ہیں مگر نہیں بھی اللہ بچائے ایسی حسد کی آگ سے جو اپنا ہی گھر پھونک ڈالے۔

میں دھیرے سے مسکرائی کیونکہ مجھے بڑی پھوپھی پر بڑا پیار آ گیا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ واقعی ایک واحد بڑی پھوپھی ہی تھیں جنہوں نے ہم دونوں کی بات بنانے کے لیے کیا کیا نہ کیا تھا۔ اس نے تو مجھے چھوڑ کر نہ جانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ادھر میرے والدین بھی اس کی والدہ سے کھلے لفظوں میں میری برائیاں سن کر اس سے ہی ناراض ہو گئے تھے۔ اچھا خاصا گھن چکر بن گئے تھے ہم دونوں بہت کھٹن دن تھے وہ، میں اپنے گھر والوں کو مناتی رہتی۔ وہ اپنی ماں کو میری طرف سے دل صاف کرنے کا کہتے نہ تھکتا۔ ہم دونوں اس بات سے بے خبر سے زیادہ نڈر ہو گئے تھے کہ ایسے تماشے رشتہ دار، ساری عمر یاد رکھتے ہیں۔ 
 
مگر پھر بھی کوئی کسی رشتہ دار کی برائی میں اس قدر آگے نہیں بڑھ جاتا، جس طرح اس کی والدہ اور بہنیں میری دشمنی پر اتر آئی تھیں۔ پہلے اس کو امریکہ روانہ کیا اس کے بعد تاک میں بیٹھ گئیں جہاں میرا کوئی رشتہ آتا ، وہ سب پتا چلا کر ان لوگوں کو متنفر کرنے پہنچ جاتیں۔ ویسے میں جھوٹ کیوں بولوں ، یہ تو ان سب نے مجھ پر رحم ہی کیا کہ میں تو خود نہیں چاہتی تھی کہ اب میں کسی اور کے گھر جاؤں، حالانکہ یہ بھی جان چکی تھی کہ جدائی ختم ہونے والی نہیں پھر یہ بھی سوچتی کہ کسی کے ساتھ کی خاطر لوگوں کی نظروں میں اس قدر گر جانے کے بعد کیا کسی اور کی نظروں میں اپنے لیےعزت دیکھنا زیب ہی دیتا ہے مجھ کو؟ شروع شروع میں تو ہر رشتہ دار میری برائیاں سن کر محفوظ ہی ہوتا رہا، مگر جب وہ دو سال بعد آ کر یہاں سے ایک غیرخاندان کی لڑکی کو بیاہ کر واپس امریکہ سدھارا تو جیسے رشتہ داروں میں آہستہ آہستہ میرے لیے الگ طرح کی ہمدردی پیدا ہونے لگی اور پھر یہ ہمدردی جانے کب احترام میں بدل گئی۔
 کسی کو میری ثابت قدمی بھائی تو کوئی میری خاموشی سے متاثر ہو گیا۔ پھر بڑی پھوپھی کچھ سنبھل کر مجھے غور سے دیکھ کر ایک بار پھر تیز تیز لہجے میں بولنے لگیں۔ اور بھئی ترقی کیسی ؟ وہی جان توڑ محنت جو وہاں کرتے ہو یہاں کر لو تو شاید ملک کے حالات بھی سنور جائیں۔ یہاں تو بڑی اچھی نوکری مل گئی تھی۔ سب چھوڑ چھاڑ ماں کی ضد پر گیا مگر وہاں قدم نہ جما سکا۔ پہلے ٹیکسی چلائی کسی شرابی کو گھر پہنچانے پر کرایہ کے ذرا سے جھگڑے پر گولی کھائی پھر زیادہ آمدنی کے چکر میں ٹرک چلانے لگے اور سنا کہ چند ماہ پہلے ایک دن ہائی وے پر ٹرک کولوٹ لیا گیا تو نوکری سے بھی گئے اور اب ٹرک کمپنی کا نقصان پورا کرنے کے لیے بیوی لڑکوں کو بھیجا ہے کہ جا کر ابا سے اپنا حصہ مانگ کر لاؤ۔

اس عمر میں بچارے علیم الدین کو اپنا گھر بیچنا پڑ رہا ہے۔ بقول علیم الدین اس کو آفس سے جو ریٹائرمنٹ پر رقم ملی تھی اس سے یہ مکان کھڑا کیا تھا۔ اس کی تو محنت کی کمائی تھی ناں اور یہ کچھ کما کر دینے کے بجائے الٹا مانگنے آگئے ۔ دونوں بہنیں اپنے حصے کے لیے الگ شور مچا رہی ہیں مگر اس نے تو بات بھی ایسی ڈال دی۔ بچارا علیم الدین کیا کرے۔ سنا ہے کہ کمپنی کا نقصان پورا نہ کیا تو ساری عمر جیل میں گزار ہے گا۔ پلیٹ پر غائب دماغی سے چلتا چمچ میرے ہاتھ سے گر پڑا اور منہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا کہ یہی تو چاہ رہا ہے وہ خود کو تباہ کرنے کے لیے ہر حد پار کرے گا۔ بڑی پھوپھی اپنی ہی دھن میں بولتی چلی گئیں۔ اللہ بچائے ایسے متلون مزاج مرد کے ساتھ نباہ کرنا آسان نہیں۔ ہم نے تو سنا ہے با قاعدہ پینے پلانے بھی لگا ہے، وہاں تو فیشن ہی ہے۔ مگر مہنگی بہت ہوتی ہے تب ہی تو آمدنی سے برکت اٹھ گئی۔
 
 ارے ہر کسی کو راس نہیں آتے یہ کفار کے ملک اس قدر دنیا داری میں پڑ گیا جیسے مرنا ہی نہیں … اچھا خاصا تھا یہاں اور نماز کی پابندی بھی کرتا تھا وہاں جا کر تو اس نے دنیا کی خاطر عاقبت ہی گنوادی۔ اب یہ دولڑ کے ہیں۔ دیکھو شاید یہ دونوں ہی کچھ طریقے سے زندگی گزار لیں دل چاہا کہ بڑی پھوپھی کو بتاؤں کہ وہ متلون مزاج بالکل نہیں ہے ، ابھی تک جانے انجانے میں اپنی بات پر اڑا ہوا ہے کہ میرے بغیر زندگی نہیں ویسے تو مجھے سب کچھ سن کر دلی طور پر مطمئن ہو جانا چاہیے تھا مگر پتا نہیں کیوں میں خود کو مطمئن محسوس نہیں کر پارہی تھی۔ کئی دنوں بعد، اس طرح کے جذبات محسوس کر کے اپنے زندہ ہونے کا احساس خوش آیندہ بھی تھا مگر ساتھ میں اس کی خانہ خراب زندگی کا تصور کرتے دل بھی دکھ گیا تھا۔ جھوٹ کیوں بولوں مجھے واقعی دکھ محسوس ہو رہا تھا۔ کھانا سمیٹا جا چکا تھا۔
 
 دور دراز کے رشتہ دار آہستہ آہستہ لوٹ رہے تھے اور میرے لیے بھی رکنا مشکل تھا حالانکہ آج میں باقاعدہ بڑی پھوپھی کی بہت بار کی ڈانٹ اور پیار بھری تلقین کے بعد کسی تقریب میں آئی تھی اور یہی سوچا تھا کہ بڑی پھوپھی کی پوتی کی شادی میں اس کی رخصتی تک رکوں گی۔ بڑی پھوپھی کو میری بے چینی کا اندازہ ہو گیا تھا وہ خود بھی کچھ بد مزہ ہو رہی تھیں، بقول ان کے ان کی بہو نے ان کو بتائے بغیر دعوت نامہ بھیج دیا تھا۔ میں نے اجازت مانگی تو انہوں نے باز پرس کے بغیر فورا ہی اجازت دے دی۔ ہاں جاؤ پر سوچنا کچھ نہیں بس جو قسمت میں ہوتا ہے، وہ بھی ہمارے حق میں اچھا ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟ بڑی پھوپھی نے الوداعی کلمات کے بعد گلے لگاتے مجھے دلاسا دیا۔ کئی دنوں بعد میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں مگر یہ موقعہ مناسب نہ تھا۔
میں خراماں خراماں ہال سے جانے کے لیے مڑی تو راستے میں اس کا بڑا بیٹا پھر مجھ سے آملا۔ آپ جا رہی ہیں اتنی جلدی۔ آپ کے ساتھ تو کچھ وقت بتانا تھا مجھے۔ وہ زیر لب مسکراتے ہوئے بولا۔ کوئی اور بچہ مجھ سے ایسی خواہش کا اظہار کرتا تو میں با خوشی اس سے کہتی کہ کسی دن شام کی چائے وہ میرے ساتھ پی سکتا ہے۔ میں نے جواب دینے کے بجائے صرف مسکرا کر بات ٹالنی چاہی۔ پتا۔ نہیں کیوں میری خاموشی یا اس کی بات کو نظر انداز کرنے پر وہ بددل سا ہو کر میرے ساتھ چلتا ہوا ہال میں چاروں طرف نظریں گھمانے لگا۔۔ بہت چھوٹا ہوں آپ سے مگر اتنی تو اجازت دیں کہ آپ کو بابا کا پیغام ہی دے سکوں؟ میرے قدم لڑکھڑا گئے، خود کو سنبھالنے کے لیے میں نے اس کا مضبوط بازو تھاما اور ساتھ ہی منہ سے بے اختیار یااللہ نکل گیا۔ ۔ اب وہ عمر نہیں رہی مگر قسمت سے مقام پھر ایسا آگیا کہ بے اختیار دل اچھل کر حلق میں آ ٹکا ہے میں اس کے کچھ اور کہنے سے پہلے بول پڑی۔ مجھے وہ پیغام نہیں سننا ہے۔ وہ چلتے چلتے ٹھٹکا جیسے اسے میری بات پر یقین نہ آیا ہو۔ پھر بچوں کی طرح مچل کر بولا۔ تو پھر جب بابا پوچھیں گے تو کیا کہوں؟ یہی کہنا کہ جب تم نے مجھے پیغام دینا چاہا تو میں نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ 
 
میرے صاف جواب دینے پر اسی طرح چاروں طرف دیکھتا، جیسے بس یوں ہی میرے ساتھ چلنے لگا ہو وہ تھوڑی دیر بعد پھر گویا ہوا۔ تو پھر آپ میری ایک التجاہی سن لیں۔ کم از کم بابا کے لیے دعا تو کرہی دیجیے گا۔ میں نے سنا ہے آپ کی دعائیں فورا قبول ہو جاتی ہیں۔ شاید آپ کی دعا بابا کے کام آجائے؟ میں شادی ہال کے داخلی دروازے پر سانس لینے کے لیے رکی اور پھر اپنے ڈرائیور کو گاڑی سمیت دروازے پر منتظر پا کر اس کو کوئی جواب یا اشارہ دیے بغیر آگے بڑھ گئی۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu font stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے