دونوں کا پانی پر جھگڑا ہوا ۔۔۔ بہترین اسلامی واقعہ

یہ غزوہ المریسیع کا واقعہ ہے سنان بن دبرالجہنی انصاری تھے اور جہجاہ بن سعید الغفاری مہاجر تھے ، دونوں کا پانی پر جھگڑا ہوا جہجاہ بن سعید نے سنان کو اپنے ہاتھ سے مارا تو سنان نے آواز دی " یا انصار" اور جہجاہ نے آواز لگائی "یاقریش" اوس و خزرج قبیلے انصار کی طرف دوڑے اور مہاجر نے مہاجر کی طرف دوڑ لگائی ، تلواریں نکال کر ایک دوسرے پر رکھ دی ، منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے معاملہ دیکھا تو مارے خوشی کے اچھلنے لگا لیکن کچھ صحابہ درمیان میں ہوگئے اور وہ خون خرابہ جو درپیش تھا اسکو رفع کیا ! دونوں صحابہ کا ایک دوسرے کے ساتھ صلح کیا اور سنان نے اپنے مار کا حق چھوڑ دیا اور اپنے مہاجر صحابی بھائی کو فی سبیل اللہ معاف کیا ،، منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے انصار صحابہ سے کہا یہ سب وہ ہے جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے خود ساتھ کیا ہے ، ان مہاجر کو اگانے کے لیے زمینیں دی ، دولت دی رہنے کو گھر دئے ، کھانے کو کھانا دیا لیکن آج یہ ہمارے ساتھ ایسا کر رہے ہیں ،، جب ہم مدینہ پہنچے جائیں گے تو عزت والا زلیل کو وہاں سے ضرور نکال دے گا ،، عبداللہ بن ابی نے خود کو عزت والا اور رسول اللہﷺ کو نعوذبااللہ زلیل مخاطب کیا تھا زید بن ارقم نے یہ گفتگو رسول اللہﷺ کو پہنچائی ،، وہی پر رائیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی نے زید بن ارقم رضی اللہ کی یہ بات سن لی تو عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ تعالی مدینہ کے راستے میں بیٹھے گئے اور اپنے باپ رائیس المنافقوں کا انتظار کرنے لگے ،، رائیس المنافقوں عبداللہ بن ابی سلول گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا تو اسکے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ نے گھوڑے کو پکڑ لیا اور باپ کو ایک زور دار جھٹکے اور غصے سے نیچے اتارا اور کہا " ٹھہر جا عبد اللہ بن ابی سلول ! تجھ پر افسوس ہے ابی کہ تم کو کیا ہو گیا ہے ،، اپنی تلوار کھینچ کر بیٹے نے باپ پر تھان لی اور کہا اللہ کی قسم اے عبداللہ بن ابی تم اس وقت تک اس راستے سے نہیں جا سکتے جب تک تم یہ نہ کہو کہ زلیل تم خود ہو اور محمد رسول اللہﷺ عزت والے ہے " عبداللہ بن ابی سلول خاموش رہا تو بیٹے نے جھٹک کر کہا ابی آج تم کو ضرور پتہ چل جائے گا کہ عزت والا کون ہے اور زلت والا بول دو ابی سلول کہ تم زلیل ہو اور رسول اللہﷺ عزت والے ہے ورنہ تم اس راستے سے نہیں جا سکتے ،، اتنے میں رسول اللہﷺ تشریف لائے یا انھوں نے پیغام بھجوایا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں اور امیر المنافقوں کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ رضی اللہ سے فرمایا اے عبداللہ اپنے باپ کو جانے دو جب تک یہ ہم میں موجود ہے ہم حسن اخلاق ہی سے اسکے ساتھ پیش آئے گے ،، عبداللہ بن عبداللہ نے کہا اللہ کی قسم یہ مدینہ میں تب تک نہیں جائے گا جب تک یہ خود نہ کہے کہ عبداللہ بن ابی سلول خود زلیل ہے اور محمد رسول اللہﷺ عزت والے ہے ،، جب بیٹے نے باپ سے یہ الفاظ کہلوائے تو بیٹے نے باپ کو کہا ،، اب تم جا سکتے ہو ،، قرآن نے یہ واقعہ ایسے بیان کیا ہے يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلت والا ہے ،، محمد رسول اللہﷺ نے اسکے بعد عبداللہ بن عبداللہ کی بہت تعریف فرمائی اور آپ ہمیشہ عبداللہ بن عبداللہ سے خوش رہے ،، آپ محمد رسول اللہﷺ کی رضا کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب امیر المنافقین عبداللہ بن ابی سلول وفات پا گیا تو آپ ہی کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ کے کہنے پر محمد رسول اللہﷺ نے انکا جنازہ باوجود اس کے سب صحابہ نے اعتراض کیا آپ نے پڑھایا ،، اور عبداللہ بن عبداللہ کی وجہ سے ہی آپ محمد رسول اللہﷺ نے امیر المنافقین عبداللہ بن ابی سلول کے لیے ستر بار استغفار پڑھی ،،

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں