ہندو جن ۔ مکمل کہانی

یہ ان دنوں کی بات ہے میں میٹرک کے پیپر سے فری ہوئی تھی پیپر کے بعد میں فری تھی مجھے گھر سجنانے کا بہت شوق تھا میں کوئی نہ کوئی چیز بناتی رہتی تھی ایک دن امی کے ساتھ بازار گئی تو وہاں ایک ولشیپ لگا ہوا تھا یہ ہوا سے بجتا ہے اس میں گھنٹیاں لگی ہوتی ہے وہ میں خرید کے گھر لے آئی اور اپنے کمرے میں دروازے کے بیچ میں لگا دیا جب باہر جاتے تو وہ بجنے لگ جاتا اندر اؤ تو بھی بجتا تھا ۔ ہمارے گھر میں پانچ افراد ہیں دادی بابا امی آپی اور میں_ میرا نام سبانہ ہے پر سب پیار سے سونی کہتے ہے_
______
دادی حیدرآباد چوٹی دادی (دادی کی بہن) کے گھر گئیں ہوئی تھی آپی کالج جاتی تھی امی کپڑے سلائی کر رہی تھی میں بور ہورہی تھی اس وقت میرے پاس موبائل نہیں تھا تبھی امی کے موبائل میں میری دوست اقرا کی کال انے لگی۔
"کیسی ہو یار اتنے دن ہو گئے ہم ملے نہیں چلو سب آئس کریم کھانے چلتے ہے"۔ اقرا نے مجھ۔سے کہا۔
"بابا جانے نہیں دینگے یار"۔میں نے اداس لہجے میں کہا_
"انکل تو بھی ہوتے نہیں گھر تو انٹی سے پوچھ کے آجانا"۔اقرا نے کہا۔
"اچھا تم پوچھ لو پھر بتا دینا میں دوسری دوستوں کو کال کر لوں"۔اقرا نے کہ کر کال بند کر دی۔
______
"امی۔۔۔! امی ۔۔۔۔" میں بھاگتی ہوئی امی کے پاس گئی۔
"کیا ہوا ایسے کیوں بھاگ رہی ہو اتنی بڑی ہوگئی پر چلنے اور بات کی تمیز نہیں آئی" ۔ امی نے مجھے غصّے سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"امی میری سب دوست آئس کریم کھانے جارہی ہے میں بھی جاؤں؟"۔میں نے امی کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
"اپنے بابا سے پوچھ کے چلی جاؤ۔" امی نے کہا
"ابھی تو بابا نہیں آے بابا کے انے سے پہلے آجاؤں گی پلیز امی"۔ میں نے کہا
"اقرا کے ساتھ جا رہی ہو نہ؟"امی نے پوچھا
"ہاں امی اور واپس بھی اقرا کے ساتھ آونگی"میں نے امی کو کہا
"ٹھیک ہے جلدی آجانا" امی نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے امی"۔میں خوشی سے تیار ہونے بھاگی۔
_____
ہم سب دوست اتنے دن بعد ملے تھے بہت خوش تھے سب باتیں ہی ختم نہیں ہورہی تھی ہماری۔
"چلو یار جلدی مغرب کی اذان ہونے والی ہے۔"میں نے جلدی چلتے ہوئے کہا
"ہاں چل رہی ہے"۔ میری دوست نے کہا
راستے میں بیچ میں برگد کا درخت آتا تھا بہت بڑا درخت تھا میں جب درخت کے پاس سے جانے لگی وہاں تین کالی بلیاں بیٹھی تھی میں ان کو دیکھتی کھڑی تھی تبھی میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا_
"کیا ہوا اب دیر نہیں ہورہی؟" میری دوست نے ہستے ہوئے پوچھا
"ہاں چلو جلدی"۔مجھے گھر جانے کی جلدی تھی مجھے عجیب سی گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔
گھر جا کے میں بلکل خاموش تھی کسی سے کوئی بات نہیں کی۔
"کیا ہوا سونی لگتا ہے دوستوں سے لڑائی ہو گئی؟"۔آپی نے مجھ سے مزاق کرتے ہوئے پوچھا
"نہیں آپی میں سونے کمرے میں جا رہی ہو کھانا نہیں کھاؤ گی دوستوں کے ساتھ اتنا کھا لیا تھا"۔میں نے آپی سے کہا اور کمرے میں آگئی
_______
میں سو رہی تھی اچانک میری آنکھ کھل گئی میں نے وقت دیکھا تو دو بج رہے تھے میں نے سونے کے لئے آنکھیں بند کر لی ابھی میں نے آنکھیں بند ہی کی تھی کہ کمرے میں طوفان انے لگا بہت تیز ہوا چلنے لگی ولشیپ زور زور سے بجنے لگا خوف سے میری آواز نہیں نکل رہی تھی میں ڈر کے چادر کے اندر چلی گئی میں بہت ڈر رہی تھی اس وقت مجھے بس ایک نام یاد آیا۔
"اللّه پاک طوفان روک جائے"۔میں نے ابھی دعا کی ہی تھی اور طوفان روک گیا میں خوف سے پوری رات جاگتی رہی نیند ہی نہیں آئی
دوسرے دن
میں اٹھ کے کمرے سے باہر آئی تو دادی واپس آگئی تھی دادی کو دیکھ کے میں خوش ہوگئی دادی اور امی چائے پی رہے تھے میں نے جاکے دادی کو سلام کیا اور وہی بیٹھ گئی_
"کیسی ہے میری بیٹی مجھے اتنی یاد آرہی تھی سب کی اس لئے میرا وہاں دل نہیں لگا اور میں واپس آگئی"_ دادی نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا_
"بہت اچھا کیا دادی ہم سب بھی آپکو بہت مس کررہے تھے"_ میں نے خوش ہوکے کہا_
"میں تم دونوں کے لئے کچھ لائیں ہوں"_ دادی نے اپنے بیگ میں سے کچھ ڈھونڈتے ہوئے کہا_
"کیا لے کے آی ہیں دادی جلدی سے دیں"_ میں خوشی سے کھڑی ہوگئی دیکھنے کہ کیا نکال رہی ہیں دادی _
"یہ لو میں تم دونوں کے لئے چوڑیاں لائی ہوں"_ دادی نے مجھے پیکٹ دیتے ہوئے کہا_
"واہ دادی یہ تو بہت بہت پیاری ہے شکریہ دادی جان"_ میں نے خوش ہوکے جلدی جلدی چوڑیاں پہنتے ہوئے کہا_
"آرام سے لگ نہ جائے"_ امی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا
"امی آپکو پتہ ہے مجھے کتنی پسند ہے چوڑیاں اور یہ تو لال رنگ کی ہے میری پسند کی"_میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کے دیکھا جو بہت پیارے لگ رہے تھے_
میں رات والا واقعہ بلکل بھول گئی تھی پورا دن بہت مصروف گزرا آپی اور میں نے دادی کے ساتھ لوڈو کھیلا بہت انجونے کیا ہم نے اور رات کو بابا سے ضد کر کے باہر سے کھانا منگوایا کھانا کھا کے میں اور آپی ٹی وی دیکھنے لگے_
"چلو بچو اب سو جاؤ اتنی دیر ہوگئی ہے"_ بابا نے وقت دیکھتے ہوئے کہا_
"آہ گیارہ بج گئے"_ میں نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا اور کھڑی ہوگئی_
میں اور آپی ایک ہی روم میں سوتے تھے پر ہمارے بیڈ الگ الگ تھے_
میں بیڈ پہ لیٹی تو نیند انے لگی میں جلد ہی سوگئی_
_______
رات کو پھر میری آنکھ کھل گئی ایسا لگا جیسے کسی نے اٹھایا ہے میں نے وقت دیکھا تو کل والا ہی وقت ہو رہا تھا دو بج رہے تھے میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لی اور تبھی زور زور سے کچھ بجنے کی آواز انے لگی میں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو مجھے لگا جیسے کہیں مندر کی گھنٹیاں بج رہی ہوں میں نے اپنا وہم سمجھا پر تبھی عجیب عجیب آواز انے لگی جیسے کوئی منتر پڑھ رہا ہو ڈر اور خوف سے میری آواز گلے میں دب گئی مجھ میں ہمّت نہیں تھی کے آپی کو آواز دے دوں_
میں سورت پڑھنے کی کوشش کی مجھے لگا جیسے میں سب کچھ بھول گئی ہوں مجھے کوئی سورت یاد نہیں آرہی تھی_ پر تبھی مجھ میں اتنی ہمّت کہاں سے آی میں اٹھ کے آپی کے بیڈ پہ چلی گئی میں خوف سے کانپ رہی تھی_ میرے لیٹتے ہی آواز بند ہو گئی اور آپی اٹھ گئی_
"کیا ہوا کانپ کیوں رہی ہو"_ آپی نے مجھ سے پوچھا میں خوف سے آپی سے لپٹ گئی تھی_
"کوئی برا خواب دیکھ لیا کیا سونی"؟؟ آپی نے پیار سے مجھ سے پوچھا_
"آپی میں آپ کے ساتھ سو جاؤں"؟؟ میں نے آپی کو دیکھتے ہوئے کہا_
"ہاں سو جاؤ تم یہیں میں جاگ رہی ہو"_ آپی نے مجھے لیٹاتے ہوئے کہا_اور پھرکچھ دیر بعد میں سو گئی_
_________
آج اتوار تھا بابا گھر پہ ہی تھے سب ناشتے کے لئے آگئے تھے بس سونی کے علاوہ_
"سونی نہیں اٹھی ابھی"؟؟ دادی نے آپی سے پوچھا_
"رات کو کوئی برا خواب دیکھ لیا تھا شاید سونی نے ڈر گئی تھی کافی دیر بعد سوئی اس لئے میں نے اٹھایا نہیں"_ آپی نے دادی کو بتایا_
"اس لڑکی کو کہا ہے ہمیشہ نماز پڑھ کے سویا کرو برے خواب نہیں آتے پر یہ سنتی نہیں"_امی نے بابا کو بتایا_
"کوئی بات نہیں ابھی بچی ہے سمجھ جائے گی"_دادی نے امی سے کہا_
_______
میں اٹھی تو وقت دیکھا بارہ بج گئے_
"آہ میں اتنی دیر تک سوتی رہی"_میں جلدی سےفریش ہونے بھاگی_
کمرے سے باہر اکے دیکھا تو دادی تسبی پڑھ رہی تھی میں وہیں بیٹھ گئی_
"دادی امی کہاں ہے بھوک لگ رہی ہے"؟؟ میں نے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے کہا_
"آرہی ہے تب تک تم بیٹھو میں تم پر دم کر دوں"_دادی نے کچھ پڑھتے ہوئے کہا_
دم کے نام سے مجھے بےچینی ہونے لگی اور میں اٹھ کے کچن میں چلی گئی_
"سونی۔۔۔۔!!" دادی نے آواز دی پر میں نہیں گئی مجھے پتا نہیں کیوں غصّہ انے لگا تھا_
میں نے ناشتہ کیا اور ٹی وی لگا کے بیٹھ گئی ٹی وی میں کوئی انڈیا کا ڈرامہ آرہا تھا اس میں شادی کا سین چل رہا تھا شادی کا منتر انے لگا میں نے آواز تیز کر دی اور خود بھی ساتھ ساتھ پڑھنے لگی مجھے منتر پڑھنے میں مزہ آرہا تھا اور مجھے حیرت ہوئی مجھے منتر پورا یاد تھا_تبھی ٹی وی بند ہو گیا_
"یہ کیا دیکھ رہی ہو یہ سب سننا گناہ ہے"_آپی نے سوفے پہ بیٹھتے ہوئے کہا_
"اچھا ۔۔۔۔"میں نے بس یہی کہا مجھے بہت غصّہ آرہا تھا پر میں ضبط کر رہی تھی_
"جاؤ نماز پڑھ لو"_آپی نے کہا_ نماز کے نام سے میں کانپنے لگی اور خوف محسوس ہونے لگا_
"جاؤ کیا ہوا"؟؟ آپی نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا_
"وہ ۔۔۔۔آپی ۔۔۔میں ۔۔۔اہ ہاں میرے پیٹ میں بہت درد ہے میں بعد میں پڑھ لوگی"_میں نے اٹکتے ہوئے کہا اور جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئی_
کمرے میں اکے میں وہی منتر پڑھنے لگی وہ منتر بار بار میری زبان پہ آرہا تھا میں نے کوشش کی میں منتر نہ پڑھوں پر میرے دل اور دماغ میں منتر کے الفاظ جم گئے تھے_ایسی پورا دن گزر گیا میں اپنی حالت سمجھ نہیں پا رہی تھی کے مجھے کیا ہو رہا ہے_
اب مجھے ڈر اور خوف محسوس ہونے لگ گیا تھا جب میں اکیلی ہوتی تو لگتا کوئی مجھے دیکھ رہا ہے جب میں یہاں وہاں دیکھتی تو کوئی نہیں ہوتا اور میں ڈر کے امی کے پاس چلی جاتی میں نے سوچا امی کو بتاتی ہو پر مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا بتاؤں اور میں چپ ہو کے واپس کمرے میں آگئی_ ایسی تین سے چار دن گزر گئے میں بلکل خاموش ہو کے رہ گئی تھی کسی سے بات کرنے کا دل نہیں کرتا تھا_
رات کو خاموشی سے کھانا کھا کے اپنے کمرے میں آگئی اور لیٹ گئی نیند جانے کب آئی پتہ نہیں لگا_ رات کو آنکھ کھلی تو میں پہلے ڈر گئی پھر ہمّت کر کے وقت دیکھا تو صبح کے چار بج رہے تھے میں نے شکر کیا اور سونے آنکھیں بند کرلی تبھی میرے سینے پر وزن سا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی پیر رکھ کا کھڑا ہوگیا ہو وزن اتنا ذیادہ تھا میرا سانس بند ہونے لگا میں کسی بھاری چیز کے نیچے دب گئی تھی میں ہاتھ پیر چلانے لگی_
"امی۔۔۔ دادی۔۔۔۔آپی ۔۔۔۔!!" میں سب کو آواز دے رہی تھی پر آپی تک میری آواز نہیں جارہی تھی_
میں چیخ رہی تھی مجھے لگا آج میں مر جاؤگی پر اسی وقت فجر کی اذان ہونے لگی_
"اللّه اکبر اللّه اکبر"
میرے اوپر سے وزن ہٹ گیا اور میں گہرے گہرے سانس لینے لگی میں نے پانی پیا خوف سے میری آواز گلے سے نکل نہیں رہی تھی_ میری آنکھوں سے آنسو انے لگے میں نے پوری اذان سنی اور میری آنکھ لگ گئی_
_______
میں اٹھی تو میرے جسم میں بہت درد تھا جسم کا ایک ایک حصّہ درد کر رہا تھا مجھ سے اٹھا نہیں جارہا تھا میں لیٹی رہی پندرہ منٹ تک لیٹنے کے بعد اٹھی فریش ہو کے کمرے سے باہر آگئی_
"امی میرے جسم میں بہت درد ہو رہا ہے"_ میں نے درد بھرے لہجے میں امی سے کہا امی چارپائی پر بیٹھی پالک توڑ رہی تھی_
"کیوں کیا ہوا"؟؟؟ امی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا_
"پتا نہیں امی"۔۔۔ میرے گلے میں آنسوں کا پھندہ پھس گیا دل کیا زور زور سے رونے لگ جاؤں_
"ادھر دکھاؤ بخار تو نہیں"_امی نے اپنے پاس بلایا مجھے_
"ارے تمھیں تو بخار ہے روکو میں ناشتہ لاتی ہو پھر دوا کھا کے آرام کر لینا"_ امی نے اٹھتے ہوئے کہا_
میرا دل کیا امی کو روک لوں کہی جانے نہ دوں پر میں چپ ہوگئی تھوڑی دیر بعد امی ناشتہ کی ٹرے کے ساتھ باہر آئی_
"ناشتہ کر لو پھر دوا کھا لینا تمہاری دادی پڑوس میں گئی ہے آگر وہ ہوتی تو ساتھ پالک توڑوا لیتی"_ امی نے جلدی جلدی پالک کے پتے توڑتے ہوئے کہا_
میں خاموش ناشتہ کر کے اٹھ گئی دوا کھائی اور لیٹ گئی پر مجھے بےچینی سی ہو رہی تھی میں واپس اٹھ کے باہر آگئی اور امی کے پاس کچن میں کھڑی ہوگئی_
"کچھ چاہیے کیا بخار کم ہوا"؟؟ امی سمجھی میں بخار کی وجہ سے پریشان ہوں_
"ہاں اب تو میں ٹھیک ہوں"_ میں نے آہستہ آواز میں کہا_
"امی. ۔۔۔۔وہ۔۔!!" میں نے ابھی کچھ کہنے منہ کھولا ہی تھا تبھی دادی آگئی_
"بھوک لگ رہی ہے بیٹا کھانا بن گیا تو دے دو مجھے پھر میں کچھ دیر آرام كرونگی"_ دادی نے امی سے کہا_
"کیا ہوا اماں اپکی طبعیت سہی تو ہے نہ"؟؟؟امی نے دادی سے پوچھا کیوں کہ دادی اتنی جلدی کھانا نہیں کھاتی تھی میں نے بھی دادی کی طرف دیکھا_
"ہاں تھوڑا سر میں درد ہے چکر آرہی تھی تو سوچا کھانا کھا کے آرام کروں"_دادی نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا_
"جی اماں آپ بیٹھیں میں کھانا دیتی ہو اگر طبعیت خراب ہے تو ڈاکٹر کے چلتے ہے"امی نے کھانا دیتے ہوئے کہا_
"نہیں بس کھانا کھا کے آرام کرونگی"_ دادی کہ کر کھانا کھانے لگی_
میں واپس کمرے میں آگئی اور کچھ بتایا نہیں چپ ہو کے لیٹ گئی_میری طبیعت کبھی بلکل سہی ہو جاتی اور کبھی خوف ہونے لگتا جیسے ابھی موت کا فرشتہ آجائے گا لینے؛ جب اذان ہوتی میں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتی تھی اذان سے ڈر لگنے لگا تھا میں نماز قرآن سے دور ہوتی جا رہی تھی سارا دن یہ تو خاموش رہتی یہ پھر کوئی گانا گاتی رہتی_
اب تو روز رات کو مجھے اپنے اوپر وزن محسوس ہونے لگا تھا نیند میں بھی ایسا لگتا میں بھاری چیز کے نیچے دبی ہوئی ہوں ساری ساری رات میں جاگتی رہتی فجر کے بعد نیند آتی اور صبح جسم میں درد اور بخار ہو جاتا مجھے ایسی ایک مہینہ گزر گیا میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا اب شعبان کا مہینہ شروع ہوگیا تھا_
_______
چودہ شعبان کا دن تھا امی حلوہ اور بریانی بنا رہی تھی آپی امی کے ساتھ ہی کچن میں تھی دادی اپنے کمرے میں تھی میں نہای اور نیا سوٹ پہنا جو لال رنگ کا تھا میں نہا کے بال سوکھا رہی تھی مجھے کسی کے رونے کی آواز انے لگے ایسا لگا جیسے بہت ساری عورتیں مل کے رو رہی ہوں بین کر رہی ہو میں ڈر کے باہر بھاگی اور امی کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھ گئی اور رونے لگی سب پریشان ہوگئے مجھے روتے ہوئے دیکھ کے میں بس روئی جارہی تھی مجھ سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا_
"کیا ہوا کیوں رو رہی ہو سونی کچھ تو بتاؤں"؟؟؟ آپی نے مجھے پانی دیتے ہوئے کہا میری رونے کی آواز سے بابا اور دادی بھی آگئے تھے_
"امی مجھے۔۔۔۔!! امی مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔۔' میں نے روتے ہوئے بتایا_
"پر کیوں بیٹا کس سے ڈر لگ رہا ہے"؟؟ بابا نے پیار سے مجھ سے پوچھا_
"مجھے رونے کی آوازیں آرہی تھی۔۔' امی مجھے ڈر لگ رہا ہے میں مر جاؤں گی خوف سے" میں امی سے لپٹ گئی_
"اللّه نہ کرے کچھ نہیں ہوگا اور ڈرو نہیں ہم سب یہی ہے"_ امی نے میرا سر سہلاتے ہوئے کہا_
میں چپ ہوگئی پر امی کے ساتھ ہی رہی مجھے ہر آہٹ پہ لگتا کوئی مجھے لینے آرہا ہے_
"کنواری لڑکیوں کو لال جوڑا نہیں پہننا چاہیے" دادی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا_ . "جاؤں کوئی اور کپڑے پہن لو" دادی نے مجھے کہا_
"میں اکیلی نہیں جاؤگی"_میں نے ڈرتے ہوئے کہا_
"میں چلتی ہو ساتھ"_آپی میرا ہاتھ پکڑ کے کھڑی ہوگئی میں نے کمرے میں اکے کپڑے چینج کیے اور امی کے پاس جا کے بیٹھ گئی_ اس رات میں نےکوئی عبادت نہیں کی ساری رات میری خوف سے گزر گئی میں امی کے ساتھ ہی سوگئی_
اب میں سونے سے ڈرنے لگی تھی ساری رات جاگ کے گزر دیتی میری آنکھوں کے نیچے حلقے ہوگئے تھے مجھے بہت سے ڈاکٹر کو دیکھا لیا تھا سب رپورٹ کلئیر تھی پر روز مجھے بخار ہو جاتا_
اب تو گھر میں سے کسی کے باتوں کی آوازیں انے لگی تھی رات کو کھانا پکانے کی خوشبو آتی اور برتن رکھنے کی آواز آتی چھت سے کسی کے بھاگنے کی آواز آتی کبھی دو کالی بللیاں آجاتی اور رونے کی آوازیں نکالنے لگ جاتی سب گھر والے پریشان ہوگئے تھے آواز سب کو آتی تھی کبھی کبھی بابا اور امی میں لڑائی ہوجاتی تو کبھی دادی سے ہمارے گھر کا ماحول خراب ہوگیا تھا ہر وقت لڑائی جھگڑا گھر بھی بےرونک ہوگیا تھا گھر میں ویرانی سی آگئی تھی اندھیرا اندھیرا لگتا تھا گھر کی سب لائٹس کھولی ہوتی تب بھی لگتا اندھیرا ہو رہا ہے_
ایسی ہی دن گزرتے جارہے تھے رات کو جب میں سوتی مجھے خواب آتا کوئی لڑکا میرا ہاتھ پکڑ کے مندر میں لے جارہا ہے میں ڈر کے اپنا ہاتھ چرانے کی کوشش کرتی پر وہ زبردستی مندر میں لے جاتا مندر میں گھنٹیاں بجتی رہتی اور میری آنکھ کھل جاتی۔ جب اٹھتی تو مجھے رونا انے لگتا اور میں امی سے لپٹ کے روتی رہتی۔
"کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ تو کیوں رو رہی ہو ایسا؟" امی اور آپی مجھ سے پوچھتے۔
میں بتانا چاہتی تھی پر میرے منہ سے آواز ہی نہیں نکلتی تھی ایسا لگتا میں گونگی ہو گئی ہوں میں نے بہت کوشش کی بتانے کی پر مجھ سے کچھ بولا نہیں گیا اور میں پھوٹ پھوٹ کے رونے لگ جاتی۔
مجھے سونے سے ڈر لگنے لگا تھا روز خواب میں مندر انے لگا تھا اور میں خوف سے پورے دن روتی رہتی سب وجہ پوچھتے پر میں کسی کو کچھ بتا نہیں پاتی۔
________
رمضان سے دو دن پہلے
امی اور آپی رمضان کے لیے سودا لینے بازار گئی تھی میں اور دادی گھر پر تھی۔
"بہت گرمی ہے سونی اپنی ماں اور بہن کے لئے ٹھنڈا شربت بنا کے رکھ دے اکے پی لینگے دونوں"۔دادی نے مجھے کہا اور لیٹنے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
"ہاں دادی بناتی ہو گرمی تو بہت ہے آج"۔میں کہتی ہوئی کچن میں آگئی۔
میں فریج سے لیموں نکال رہی تھی مجھے لگا میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے میں نے جلدی سے موڑ کے دیکھا تو کوئی نہیں تھا میرا دل تیز تیز دھڑکنے لگا میں جلدی جلدی شربت بنانے لگی تبھی میری کمر پر کسی نے ہاتھ رکھا میں ڈر کے اچھل گئی خوف سے میرے پیر زمین سے چپک گئے تھے میں نے جلدی جگ فریج میں رکھا اور بھاگ کے دادی کے پاس آگئی۔ خوف سے میں سفید پر گئی تھی۔
"کیا ہوا شربت بنا دیا؟" دادی نے مجھے دیکھا نہیں وہ آنکھیں بند کر کے لیتی تھی۔
"جی۔۔۔ جی۔۔!! بنا۔۔ بنا دیا"۔ میں نے اٹکتے ہوئے کہا_
"کیا ہوا ایسا کانپ کیوں رہی ہو؟"دادی نے میری کانپتی آواز سن کے بیٹھتے ہوئے کہا_
"دادی وہ مجھے ڈر لگ رہا ہے ایسا لگا میرے پیچھے کوئی کھڑا تھا دادی"۔ میں نے کہا میری آنکھوں میں آنسو انے لگے تھے۔
"بس کرو سونی تم نے روز یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے ڈر کا اتنے سال سے یہاں اس گھر میں رہ رہے ہے ہم میں سے کسی کو ڈر نہیں لگا"۔ دادی نے تیز لہجے میں کہا۔
میں خاموش ہوگئی مجھ سے کچھ بولا نہیں گیا دادی بھی اٹھ کے چلی گئی۔میں ابھی تک کانپ رہی تھی۔
تبھی بیل بجنے لگی میں نے دروازہ کھولا امی اور آپی تھی۔
"بہت گرمی ہے رمضان میں تو جانے کیا حال ہوگا۔" آپی نے صوفہ پہ بیٹھتے ہوئے کہا_
"میں نے شربت بنایا ہے لے کے آتی ہو" میں بول کے کچن سے شربت لینے چلی گئی۔
امی بھی آگئی تھی سب شربت پینے لگے باتوں میں لگ کے میں سب بھول گئی۔
______
اب دن رات مجھے گھر میں کالے سائے دکھنے لگے تھے کبھی لگتا میرے پیچھے کوئی ہے میں کمرے میں جاتی تو ایسا لگتا کمرے میں کوئی آیا ہے باہر جاتی تو لگتا میرے پیچھے کوئی باہر آیا ہے۔
"کل پہلی سحری ہوگی تم روزہ رکھو گی؟"رات کو ہم لیٹے تھے تب آپی نے مجھ سے پوچھا۔
روزے کے نام سے میرا گلہ خشک ہو گیا یک دم گھبراہٹ سی ہونے لگی میرا دل کیا منع کر دوں پر میں چپ رہی اور چادر میں چلی گئی_
"سو گئی ہو کیا؟" آپی کی پھر آواز آی پر میں نے جواب نہیں دیا۔
میں نے روزہ نہیں رکھا گھر میں آرام سے دس بجے اٹھتی اور ناشتہ بنا کے کرتی سب سو رہے ہوتے۔ اب دن میں بھی عجیب سی آوازیں انے لگی تھی جیسے بہت سارے لوگ مل کے سرگوشی میں بات کررہے ہو پر پتا نہیں لگتا آواز کہا سے آرہی ہے۔ رات کو نیند نہیں آتی دن کو رونا انے لگتا جس کی وجہ سے میری آنکھوں میں درد رہنے لگا تھا۔
نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے میری آنکھیں سوج گئی تھی اور لال ہوگئی تھی تیسرا روزہ تھا دن کے وقت میں امی کے کمرے میں گئی امی کپڑے سلائی کررہی تھی_
"سونی تمہاری آنکھیں کیوں سوج گئی اور دیکھو کتنی لال ہورہی ہے"۔ امی نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
"امی رات کو سہی سے نیند نہیں آتی اس لیے شاید آنکھیں سوج گئی ہیں"۔ میں نے بیزار لہجے میں کہا اور امی کے بستر پر ہی لیٹ گئی_
"تو بیٹا دن میں سو جایا کرو"۔ امی نے کپڑے سیتے ہوئے کہا۔
امی کے کمرے میں اتنا سکون مل رہا تھا مجھے امی اور کچھ بھی کہ رہی تھی پر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کیوں کہ میں نیند میں جارہی تھی اور میں سو گئی۔
جب میں اٹھی چھ بج رہے تھے سونے سے میری آنکھوں میں درد کم تھا اور میں اچھا محسوس کررہی تھی میں اٹھ کے کچن میں چلی گئی آپی اور امی کی مدد کی افطاری بنانے میں سب نے ساتھ روزہ کھولا ایسا لگا جیسے سب ٹھیک ہو گیا ہو۔
اب تو روز میں امی کے کمرے میں جا کے سو جاتی میری طبیعت پہلے سے بہتر ہونے لگی تھی اب میں پہلے کی طرح روتی بھی نہیں رہتی تھی آنکھیں بھی کافی بہتر ہوگئی تھی۔میں خوش تھی پر روزے اب بھی نہیں رکھ رہی تھی۔
______
رات کا وقت تھا میں سو رہی تھی تبھی میرے چہرے پر کسی کے سانسوں کی تپش محسوس ہوئی جیسے کوئی بہت قریب ہو میں گھبرا کے اٹھ گئی اور دوسری طرف کروٹ بدل لی میرے چہرے پر جلن ہونے لگی جیسے میں آگ کے پاس سے آئی ہوں میں نے وہم سمجھا اور سو گئی۔صبح تک میرے چہرے پر جلن ہو رہی تھی پھر خود ہی ختم ہوگئی۔
صبح میں باہر آئی تو امی آپی دادی ساتھ بیٹھی تھی۔
"گھر برکت ختم ہوگئی ہے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اب نہ جانے کیا ہوگیا ہے"۔ دادی نے امی سے کہا۔
امی اور آپی چپ بیٹھی تھی میں بھی وہیں بیٹھ گئی میں نے اشارے سے آپی سے پوچھا "کیا ہوا ؟" آپی نے چپ رہنے کا اشارہ کیا تو میں چپ بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد دادی چلی گئی پڑوس میں تب میں آپی کے پاس گئی۔
"کیا ہوا تھا آپی دادی غصّہ کیوں کر رہی تھیں؟"۔
"بابا ایک ہفتہ پہلے جو راشن لاۓ تھے وہ ختم ہوگیا ہے دس کلو آٹا تھا اور ایک ہفتے میں ختم ہوگیا اس لئے دادی غصّہ تھی۔" آپی نے مجھے بتایا۔
"پر آپی اتنی جلدی سب کیسے ختم ہو سکتا ہے؟"میں بھی پریشان ہوگئی تھی سن کے ۔
"پتا نہیں"۔آپی کہ کر سونے لیٹ گئی میں باہر آگئی۔
______
دن کو میں امی کے کمرے میں آگئی اور سونے لیٹ گئی نیند انے لگی تبھی کسی نے مجھے پکارا۔
"سونی۔۔۔۔!!" میری آنکھیں نہیں کھل رہی تھی نیند سے تبھی پھر آواز آئی۔
کوئی مجھے اپنے ساتھ لے جارہا تھا میرا ہاتھ پکڑ لیا میں چیخنے لگی۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔" چھوڑ دوں مجھے۔۔۔!!!" پر کوئی زبردستی گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا تھا۔
"امی ۔۔۔! امی ۔۔۔!" میں پکار رہی تھی پر کوئی نہیں سن رہا تھا۔
تبھی اذان کی آواز انے لگی اور میں جھٹکے سے اٹھ گئی۔
"آہ میں خواب دیکھ رہی تھی شکر ہے کتنا بھیانک خواب تھا۔" میں نے پسینہ پوچتے ہوئے خود سے کہا۔اور رونے لگی۔امی کمرے میں آئی تو میں رو رہی تھی۔
"کیا ہوا سونی؟"۔امی نے پریشان ہوکے پوچھا اور میرے پاس ہی بیٹھ گئی۔ میں تھک گئی تھی یہ راز چھوپا کے اذان ابھی بھی ہو رہی تھی۔میں نے سب کچھ امی کو بتادیا ۔ امی سن کے چپ بیٹھی رہی اور مجھے رونے دیا۔
"سونی تم نماز پڑھو روزے رکھو دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا"۔ امی نے کہا۔
مجھے نماز پڑھنا چاہیے میں دل میں سوچنے لگی اور نماز کے لئے اٹھ گئی وضو کرتے وقت میرے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے پر میں نے وضو کیا باہر آ ئی جائے نماز بچائی نماز کی نیت کی تبھی بہت سے لوگوں کی رونے کی آواز انے لگی میں ڈر گئی پر میں پڑھتی رہی کیا پڑھ رہی تھی سمجھ نہیں آرہا تھا دھیان نماز سے ہٹ رہا تھا ایک دم بہت ساری بلیوں کے غررانے کی آواز انے لگی میں خوف سے کانپنے لگی آوازیں قریب ہوتی جا رہی تھی اور بس تبھی میں نماز ادھوری چھوڑ کے بھاگی اور امی سے جا کے لپٹ گئی رونے لگی سب پریشان ہو گئے۔
وہ رات میں امی سے ایک منٹ کے لئے بھی الگ نہیں ہوئی پوری رات چھت سے بلیوں کے غررانے کی آوازیں آتی رہی امی اور دادی مجھ پہ پڑھ پڑھ کے پھونکتے رہے وہ رات سب نے جاگ کے گزار دی سحری کے بعد آوازیں آنا بند ہو گئی تب سب سوۓ۔
_______
دوسری صبح میں اٹھی تو امی کمرے میں نہیں تھی میں جلدی اٹھ کے باہر آگئی امی بابا دادی آپی سب بیٹھے تھے میں آئی تو دادی نے مجھے اپنے پاس بیٹھا لیا۔ تبھی امی میرے لئے ناشتہ لے آئیں۔
"ناشتہ کر لو سونی پھر تیار ہو جانا کہیں جانا ہے"۔دادی نے پیار سے مجھے کہا۔میں ناشتہ چھوڑ کے دادی کو دیکھنے لگی۔
"کہاں جانا ہے دادی؟"۔میں نہ سمجھی سے دیکھا۔
"بازار جانا ہے سامان لینے۔"امی نے جواب دیا۔
"ہاں تو آپی کو لے جائیں"۔میں کہ کر کھانے لگی۔
"تم بھی چلو ساتھ سامان ذیادہ لینا ہے"۔امی نے پھر کہا۔
"چلی جاؤ بیٹا بڑوں کو منع نہیں کرتے"بابا نے کہا۔
"اچھا چلتی ہوں"۔میں ناشتہ کر کے اٹھ گئی تیار ہونے لگی۔
______
امی میں اور بابا ہم تینوں رکشے میں جا رہے تھے جب رکشہ روکا۔امی نے اترنے کو کہا میں نے باہر اتر کے دیکھا تو تو وہ کوئی آستانہ تھا مطلب مجھے مولوی صاحب کے پاس لے کے آئے ہیں میں دل میں سوچنے لگی اور ہم اندر چلے گئے وہاں بہت لوگ بیٹھے تھے ہم بھی بیٹھ گئے۔
بہت دیر بعد ہمارا نمبر آیا ہم اندر جا کے مولوی صاحب کے سامنے بیٹھ گئے۔اور تبھی میری طبعیت خراب ہونے لگی میرا جسم ہلنے لگا۔
مولوی صاحب نے ایک نظر مجھے دیکھا اور واپس نظریں نیچی کر لی۔میں کانپتے ہوئے بیٹھی تھی۔ امی نے مولوی صاحب کو سب بتایا مولوی صاحب خاموشی سے سن رہے تھے ان کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے وہ شاید تعویذ لکھ رہے تھے۔سب سننے کے بعد مولوی صاحب نے کہا۔
"کچھ مسلہ آرہا ہے میں گلے میں پہننے اور پانی پینے کے لئے تعویذ دے رہا ہوں گھر جاتے ہی لڑکی کے گلے میں تعویذ ڈال دینا اور تین دن تک تعویذ والا پانی پلانا۔"مولوی صاحب نے تعویذ امی کو دیتے ہوئے کہا۔
"مولوی صاحب سب ٹھیک تو ہو جائے گا؟" امی نے پریشان ہوکے پوچھا۔
"باجی اللّه سے دعا کرو انشااللہ سب ٹھیک ہو جائےگا۔" ۔۔۔اور یہ تعویذ پانی میں ڈال کے گھر کے چاروں کونوں میں ڈال دینا تین دن تک۔" مولوی صاحب نے دوسرے تعویذ دیتے ہوئے کہا۔
"میں اپنے علم سے پتا لگاتا ہو کون ہے اور کیوں تنگ کررہا ہے آپ لوگ تین دن بعد اسی وقت آنا میرے پاس۔" مولوی صاحب نے کہا۔
"بہت شکریہ مولوی صاحب"۔ بابا نے پیسے دینا چاہے پر مولوی صاحب نے انکار کر دیا۔
ہم باہر آگئے میرا جسم اتنا ہلکا ہلکا سا لگ رہا تھا جیسے بہت بوجھ مجھ سے ہٹ گیا ہو۔ہم گھر آگئے۔
_____
گھر اکے امی نے سب سے پہلے میرے گلے میں تعویذ پہنا دیا اور آپی کو تعویذ والی بوتل دی اور کہا۔
"سونی کو یہ تعویذ والا ہی پانی دینا دوسرا کوئی پانی نہیں دینا"۔ امی نے آپی سے کہا۔
"جی امی میں خیال رکھوں گی سونی کا آپ فکر نہیں کریں"۔آپی نے امی سے کہا امی اور بابا سب سن کے پریشان ہو گئے تھے۔
میں نے پانی پیا تو میرا سینہ جلنے لگا ایسا لگا سینے میں آگ لگ گئی ہو پر میں پھر بھی پانی پیتی رہی۔ سب نے رات کا کھانا کھایا میں تو امی کے ساتھ سونے آگئی امی نے آپی کو بھی ہمارے ساتھ ہی سونے کہا۔ بابا دوسرے کمرے میں چلے گئے اور دادی اپنے کمرے میں ہم سب سو گئے۔بارہ بجتے ہی گھر میں بھوجال آگیا اتنی تیز ہوا چلنے لگی ہم سب ڈر کے اٹھے امی نے دروازہ کھولا تو بابا باہر ہی کھڑے تھے مٹی اتنی تھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا امی نے بابا اور دادی کو اپنے کمرے میں ہی بولا لیا اور ہم دروازہ بند کر کے بیٹھ گئے۔
تبھی برتن ٹوٹنے کی آوازیں انے لگی کبھی کسی کے رونے کی آواز آتی کبھی بلیوں کے غررانے کی آواز پوری رات آوازیں آتی رہی اتنا طوفان تھا ایسا لگ رہا تھا ہمارا گھر اوڑھ جائے گا امی اور دادی آیتہ الکرسی پڑھتی رہیں ہم سب خوف زدہ تھے۔ صبح فجر میں سب نارمل ہوا آوازیں آنا بند ہو گئی اس دن کسی نے روزہ نہیں رکھا تھا باہر جانے کی ہمّت نہیں تھی اور ہم ایک دوسرے کو جانے بھی نہیں دے رہے تھے۔
جب ہمیں لگا سب نارمل ہو گیا تب بابا نے دروازہ کھولا اور سب باہر آئے پر یہاں تو سب صاف تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں پورا گھر صاف ستھرا تھا کوئی برتن تک نہیں ٹوٹا ہوا تھا۔ بھوک تو کسی کو نہیں تھی پر خوف سے اور ساری رات جاگنے سے سر میں درد تھا آپی چائے بنانے کچن میں چلی گئی۔
تبھی آپی چیختی ہوئی آئی۔
"امی۔۔۔!! امی۔۔۔' ہم سب اٹھ کے کچن کی طرف بھاگے۔ دیکھا تو وہاں آگ لگی ہوئی تھی آپی ٹھیک تھی پر خوف سے کانپ رہی تھی بابا جلدی سے پانی کی بالٹی لے کے آگ بوجھانے لگے۔آپی ڈر کے رونے لگی۔
"یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے اللہ پاک ہماری مدد کر اور سب ٹھیک کر دے"۔ دادی روتے ہوئے ہاتھ اٹھا کے دعا کرنے لگی۔ تبھی امی کو یاد آیا مولوی صاحب نے گھر میں ڈالنے دم والا پانی دیا تھا امی جلدی سے پانی کی بوتل لے کے آئی بابا نے گھر کے چاروں کونوں میں پانی ڈال دیا۔
"کوئی بھی کچن میں کھانا بنانے نہیں جانا آج میں باہر سے کھانا لے آؤں گا۔" بابا نے امی سے کہا۔اور باہر چلے گئے ناشتہ لینے ہم سب ایک ہی کمرے میں اکے بیٹھ گئے دادی تسبی پڑھنے لگی سب خاموش بیٹھے تھے مجھے پیاس لگنے لگی۔
"آپی پانی دینا۔" میں نے آپی سے کہا۔آپی نے دم والا پانی گلاس میں ڈال کے مجھے دیا۔۔ پانی پیتے ہی میرا سینہ جلنا لگا۔
"میں اب یہ پانی نہیں پیوں گی اس سے میرا سینہ جلنے لگتا ہے۔"میں نے منہ بنا کے امی سے کہا۔
"بیٹا پہلے ہی سب عجیب ہو رہا ہے سب ٹھیک کرنے کے لئے آپکو پانی پینا پڑےگا ہمارے لئے ہی پی لو۔" امی نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں خاموش ہو گئی پھر کچھ نہیں کہا۔
_____
ایک گھنٹے بعد بابا واپس آئے.
"اتنی دیر لگا دی آپ نے"۔۔ امی نے بابا کو دیکھتے ہی کہا۔
"رمضان کی وجہ سے سب ہوٹل بند تھے بہت مشکل سے ایک ہوٹل کھولا ہوا ملا وہی سے سامان لے کے آیا ہوں۔" بابا نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
بابا انڈا پراٹھا اور چائے لے کے آئے تھے امی ناشتہ نکل کے لے آئیں۔
سب نے بس چائے لی پراٹھے کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا پریشانی سے کسی کو کھایا نہیں جا رہا تھا۔
"آپ لوگ کھانا کھاؤ ابھی حالات پتا نہیں کیسے ہو ان کا مقابلہ کرنے طاقت چاہیے ہم سب کو۔" بابا نے کہا۔
"ہاں اماں آپ تو ناشتہ کر لیں دوا بھی کھانا ہے آپکو۔" امی نے کہا۔
"اماں نہیں سب ہی چپ کر کے ناشتہ کرو۔" بابا نے سب کو ڈانٹے ہوئے کہا۔
تھوڑا سا سب نے کھا لیا کھانا کھاتے ہی نیند انے لگی رات ایک منٹ کے لئے بھی آنکھیں بند نہیں کی تھی۔ سب ایک ہی کمرے میں سونے لیٹ گئے امی اور دادی بیڈ پر بابا سوفے پر میں اور آپی نیچے لیٹ گئے تھوڑی دیر بعد سب ہی سو گئے۔۔
_____
جب میں اٹھی تو چار بج رہے تھے سب اٹھ گئے تھے بابا باہر سے ہی کھانا لے آۓ تھے۔ مغرب کے بعد بابا نے دوبارہ پورے گھر میں دم والا پانی ڈال دیا رات کو کھانا کھا کے سب ایک ہی کمرے میں آگئے۔
"آپ سب یہی سو جاؤ میں دوسرے کمرے میں سوجاتا ہوں۔" بابا نے کہا۔
"نہیں آپ بھی یہی سو جائیں". امی ڈر رہی تھی ڈرے ہوئے تو ہم بھی تھے سب لیٹ گئے پر نیند کسی کو نہیں آرہی تھی سب خاموش اور خوف زدہ تھے۔ لیٹے لیٹے پتا نہیں کب نیند آگئی۔
ابھی سوۓ تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کے" دھم دھم" آواز انے لگی۔ سب آواز سے اٹھ گئے پر آواز کمرے کے باہر سے نہیں آرہی تھی کہیں دور سے آرہی تھی چھت سے "دھم دھم" ایک بار پھر آواز آئی آب بہت سارے لوگوں کے بھاگنے کی آواز انے لگی دادی فورأ آیتہ الکرسی پڑھنے لگی اب عورتوں کے رونے کی آواز انے لگی سب خوف سے بیٹھے تھے وہ رات بھی سب نے جاگ کے گزار دی نیچے سے کوئی آواز نہیں آی سب چھت سے آرہی تھی۔ فجر تک یہی ہوا اور اذان ہوتے ہی آواز آنا بند؛ اس دن بھی کسی نے روزہ نہیں رکھا۔ یہ دوسری رات تھی تعویذ کی آب پتا نہیں تیسری رات کیا ہو۔ فجر کے بعد بابا نے سب سے پہلے گھر میں دم والا پانی ڈالا پھر امی ڈرتے ڈرتے کچن میں گئی تو سب ٹھیک تھا امی نے ناشتہ بنایا ہم سب کھا کے لیٹ گئے سب بہت خوف زدہ تھے کوئی بات بھی نہیں کررہا تھا۔اور سب سو گئے۔
سب اٹھے تو تین بج رہے تھے میں اٹھ کے فریش ہوکے شیشے کے سامنے کھڑی ہوگئی تین دن سے میں نے بال نہیں بنائے تھے چہرہ بھی کالا لگ رہا تھا پہلے سے کمزور ہوگئی تھی میں۔ شیشے میں دیکھ رہی تھی تبھی مجھے لگا شیشے میں کوئی بوڑھا کھڑا ہو میں ڈر کے شیشے کے پاس سے ہٹ گئی اور باہر آگئی باہر اتنی خاموشی تھی خاموشی سے وحشت ہونے لگی تھی اب تو تسلی کے الفاظ بھی ختم ہو گئے تھے
رات کو سب نے دو چار نوالے ہی کھاۓ کسی سے کھانا کھاۓ نہیں جا رہا تھا پھر بابا نے دوبارہ گھر میں پانی ڈالا آج چھت پر بھی دم والا پانی ڈال دیا تھا سب نے چائے پی اور کمرے میں آگئے سب آج بھی ساتھ ہی بیٹھے تھے نیند کسی کو نہیں آرہی تھی کمرے میں صرف گھڑی کی" ٹک ٹک" گونج رہی تھی سب کی نظریں بار بار گھڑی پہ جا رہی تھی۔میں نے وقت دیکھا ابھی تو ٩ بجے ہے میں لیٹ گئی تھوڑی دیر بعد امی دادی اور بابا بھی لیٹ گئے بعد میں آپی بھی لیٹ گئی اور سب کو نیند آگئی۔
آدھی رات کا وقت ہوگا باہر کا دروازہ بجنے لگا سب اٹھ کے بیٹھ گئے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا سب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے تبھی پھر زور زور سے دروازہ بجنے لگا۔ بابا اٹھ کے جانے لگی دادی نے بابا کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"دو راتوں سے اتنا کچھ ہو رہا ہے یہ بھی کوئی بری چیز ہی کررہی ہوگی جب تک باہر سے کسی انسان کی آواز نہ آے تب تک دروازہ نہیں کھولنا"۔ دادی نے بابا سے کہا۔
"ہاں اماں سہی کہ رہی ہے دروازہ نہیں کھولنا۔"امی نے بھی کہا۔
بابا چپ ہوکے بیٹھ گئے دروازہ اب بھی بج رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کوئی جانور بکرا یا دنبہ اپنے سر سے دروازے کو مار رہے ہو مجھے تو لگا آج دروازہ ٹوٹ جائے گا۔
تھوڑی دیر بعد کتوں کے بھوکنے کی آواز آئی وہ عجیب ہی آواز نکال رہے تھے رات کے وقت بھیانک آواز لگ رہی تھی پھر بہت سارے لوگوں کی رونے کی آواز انے لگی جسے سب بین کررہے ہو۔
میں اور آپی ڈر کے رونے لگے امی دادی بھی رونے لگی تین دن ہم پر قیامت کی طرح گزر رہے تھے اب ہماری ہمّت جواب دے رہی تھی بہت برے پھس گئے تھے ہم سکون چین سب ختم ہوکے رہ گیا تھا۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کریں اور کیا نہیں ساری رات اللہ سے دعا کرتے رہے فجر کے وقت آواز بند ہو گئی اس دن بھی کسی نے روزہ نہیں رکھا۔ دم والا پانی بھی ختم ہو گیا تھا آج مولوی صاحب کے پاس جانا تھا صبح سے مجھے رونا آرہا تھا پیٹ میں ہول اٹھ رہے تھے گھبراہٹ ہورہی تھی ناشتہ بھی نہیں کیا گیا مجھ سے بارہ بجے کے وقت امی نے مجھے تیار ہونے کو کہا۔ میں کانپتے ہوئے تیار ہوئی باہر آئی تو بابا امی تیار بیٹھے تھے جانے۔ میں پورا گھر دیکھنے لگی ایسا لگ رہا تھا آخری بار اپنا گھر دیکھ رہی ہو ہم باہر آگئے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے میں خاموشی سے رو رہی تھی بار بار پیچھے موڑ کے گھر کو دیکھ رہی تھی امی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ہم رکشے میں بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد آستانہ آگیا رکشے سے اتر کے اندر چلے گئے آج بھی بہت لوگ بیٹھے تھے بہت ہی رش تھا کافی دیر کے بعد ہمارا نمبر آیا۔
بابا اور امی نے مولوی صاحب کو سلام کیا۔ امی روتے ہوئے سب بتانے لگی مولوی صاحب سب سن رہے تھے پھر کہنے لگے۔
"باجی جو میں کہو ہمّت سے سننا پریشان نہیں ہونا۔۔۔۔!! اپکی بیٹی پر کوئی جن عاشق ہو گیا ہے وہ بہت ضدی ہے اتنی آسانی سے نہیں جائے گا۔" مولوی صاحب نے کہا۔
"پھر اب کیا ہوگا میری بیٹی ٹھیک تو ہو جائے گی نہ؟"۔امی نے مولوی صاحب سے پوچھا۔
"انشااللہ بس آپ لوگ دعا کریں یہ اکیلا نہیں ہے اس جن کا پورا خاندان اپکے گھر میں بسیرا کر چکا ہے۔۔۔!! یہ کہا سے آیا ہے کیسے جائے گا یہ سب جاننے کے لئے مجھے حاضری لگوانی پڑیگی۔" مولوی صاحب کہنے لگے۔
"کیسی حاضری؟" بابا نے پوچھا۔
"وہ جن اپکی بیٹی کی خوراک کی نالی کو جکڑ چکا ہے اسے ختم کرنا ہوگا ورنہ بہت مشکل ہو جائے گی آپ لوگوں کے لئے۔" مولوی صاحب نے مزید کہا۔
اور اپنے شاگرد کو اشارہ کیا اس نے کمرے کے کونے میں چادر بچا دی۔ "آپ دونوں وہ چادر پہ بیٹھ جائے"۔ مولوی صاحب نے بابا اور امی سے کہا امی اٹھنے لگی تو میں نے امی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ امی نے ہاتھ ہٹا دیا میرا اور چادر پہ جا کے بیٹھ گئی۔
مولوی صاحب میرے سامنے بیٹھ گئے اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کے سورتیں پڑھنے لگے۔ میری طبیعت خراب ہونے لگی میرا سانس پھولنے لگے۔ "چھوڑ دے" میں نے تھوڑی بھاری آواز میں کہا۔
"کون ہے تو؟"۔ مولوی صاحب نے ہاتھ ہٹا دیا میرے سر سے۔میں چپ بیٹھی رہی غصّے سے گھور رہی تھی بس۔
"بتا کون ہے بچی کو کیوں پریشان کررہا ہے؟" مولوی صاحب نے پھر کہا پر میں نے جواب نہیں دیا۔
"ایسے نہیں بتاۓ گا یہ اس پہ سورہ مزمل کا پانی ڈالو"۔ وہاں کوئی نہیں کہا مولوی صاحب اپنے موکل سے کہ رہے تھے۔
"آہ آہ۔۔۔۔!" میں نے چیخ ماری۔ "میں نہیں بتاؤں گا"۔ میں نے کہا۔
"بتا ورنہ جلا دو گا۔" مولوی صاحب نے غصّے سے کہا۔
"بتاتا ہو ان کو کہو پانی نہ ڈالے۔" مجھ سے آوازیں آرہی تھی یہ میں نہیں کہ رہی تھی میرے اندر جن بول رہا تھا۔
"میں اور میرا خاندان برگد کے درخت پر رہتے تھے یہ مغرب کے وقت درخت کے نیچے سے جانے لگی وہاں میں اور میرے دوست بلی کے روپ میں بیٹھے تھے اس نے ہمیں دیکھا یہ مجھے اچھی لگی اور میں اس کے پیچھے آگیا۔" میں نے تڑپتے ہوئے کہا مجھ پر بار بار دم کا پانی ڈالا جارہا تھا۔
"مسلمان ہے؟"۔ مولوی صاحب نے پوچھا۔
"نہیں ہندو ہوں۔" میں نے کہا۔
مولوی صاحب سورتیں پڑھتے رہے اور مجھ پہ پانی ڈالتے رہے اب میں نیچے لیٹ گئی اور لوٹنے لگی میں تڑپ رہی تھی جل رہی تھی۔۔"میں چلا جاؤ گا مجھے چھوڑ دو"۔ میں نے کہا۔
"تجھے چھوڑ دیا تو دوسری لڑکی کو پریشان کریگا اس لئے تجھے چھوڑ نہیں سکتے۔"مولوی صاحب نے کہا۔
میں زمین پر لوٹنے لگی تڑپنے لگی ایک دم میں روک گئی اور اٹھ کے بیٹھ گئی۔ "امی یہ کیا ہورہا ہے امی"؟؟ میں روتے ہے نارمل آواز میں پوچھنے لگی اور رونے لگی۔
امی اٹھ کے کھڑی ہوگئی تبھی مولوی صاحب نے تیز آواز میں کہا ۔" نہیں باجی یہ ڈرامہ کر رہا ہے چادر سے باہر نہیں آنا۔" اور امی وہی روک گئی۔
"میں اتنی آسانی سے نہیں جاؤنگا"۔ میں نے غصّے سے کہا۔
"اب تک بہت پیار سے بات کر لی تجھ سے اس کو جلا دو"۔ مولوی صاحب نے اپنے موکل سے کہا۔
میں تڑپنے لگی چیخنے لگی کبھی لوٹنے لگ جاتی اور پھر میں بےہوش ہو گئی۔
"بھائی آپ باہر سے دودھ والا پیکٹ لے آئیں". مولوی صاحب نے بابا سے کہا۔ بابا جلدی سے جا کے پاکولا کا ڈبہ لے آۓ۔
مولوی صاحب نے اپنے شاگرد کو دودھ گلاس میں ڈالنے کہا پھر دودھ پر کچھ پڑھ کے پھونکا اور امی کو دے دیا۔
"باجی یہ لڑکی کو پلا دو اب یہ ٹھیک ہے"۔ مولوی صاحب نے امی کو گلاس دیتے ہوئے کہا۔
امی نے مجھے اٹھا کے بیٹھایا اور دودھ پینے دیا میں بہت کمزوری محسوس کر رہی تھی سارا جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا۔
"بیٹا کلمہ پڑھو"۔ مولوی صاحب نے مجھے کہا۔
میں نے ہلکی آواز میں آہستہ آہستہ کلمہ پڑھا۔
"بہت مبارک ہو اپکی بیٹی کو نئی زندگی ملی ہے پہلے لڑکی کا صدقہ دینا اور پھر غریبوں میں کھانا کھلانا یہ بہت خطرناک ہوتے ہے پر اب شکر ہے سب ٹھیک ہے۔" مولوی صاحب نے کہا۔
مولوی صاحب نے گلے کا پہلے والا تعویذ اتروا دیا اور دوسرا تعویذ دیا پینے اور نہانے کا تعویذ بھی دیا تھا گھر میں ڈالنے دم کا پانی بھی دیا۔
"لڑکی کو طاقت والی چیزیں کھلانا اور روز صدقہ دیتے رہنا۔" مولوی صاحب نے سب تعویذ امی کو دیتے ہوئے کہا۔
"گھر میں روز دم کا پانی ڈالنا گھر سے بھی سب چیزیں بھاگ جائے گی۔" مولوی صاحب نے کہا۔
"بہت شکریہ اپکا مولوی صاحب"۔ بابا نے بھیگی آواز میں کہا۔
امی اور بابا مجھے پکڑ کے گھر لے آۓ میں سہی ہو گئی تھی پر بہت کمزوری تھی مجھے ایک مہینے تک ہم نے صدقہ خیرات دیا تعویذ کا پانی پیا میں آہستہ آہستہ ٹھیک ہونے لگی اور ہمارے گھر میں خیر و برکت ہونے لگی سب پہلے کی طرح نارمل ہوگیا گھر بھی روشن ہو گیا اور میں بھی ٹھیک ہوگئی۔
ختم شد۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں