لالٹین - محبت کی ایک لازوال داستان

آج جمعرات تھی اور میں اس شوق میں جاگ رہا تھا کہ آج"بتی" کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا. یہ بتی یعنی لالٹین ہر جمعرات کو ایک مخصوص طرف سے آتی تھی اور مخصوص جگہ گھوم پھر کے چلی جاتی تھی گاؤں کے لوگ اسے بتی کے نام سے پہچانتے تھے اور پتہ نہیں کب سے لوگ یہ دیکھتے آرہے تھے
کئی دفعہ کچھ منچلوں نے اس کا پیچھا کر کے اسے پکڑکنے کی کوشش بھی کی مگر بے سود ۔۔۔۔۔
وہ تو گویا چھلاوہ تھا ابھی یہاں تو ابھی وہاں۔۔۔
میں یہ باتیں اکثر سنتا تھا مگر کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا
یہ ضلع جہلم کے ایک گاؤں کی بات ہے
میری وہاں خالہ رہتی ہیں سال میں ایک آدھ بار میں ان سے ملنے چلا جاتا تھا
اس بار گیا تو شوق ہوا کہ دیکھوں تو سہی آخر یہ "بتی"ہے کیا بلا؟؟؟
اور آج میں اسی شوق میں جاگ رہا تھا
میں کئی بار گھر سے باہر جھانک چکا تھا مگر اس "بتی"کا ابھی تک کوئی اتا پتا نہیں تھا
بتاتا چلوں کہ وہ چند گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں تھا وہاں اکثر ایسے ہی گاؤں ہیں جنہیں وہاں کے لوگ "ڈھوک" بولتے ہیں
میری خالہ کا گھر آخر میں تھا اس سے آگے ان کی زمین اور پھر دور تک پہاڑ جنگلات اونچے نیچے ٹیلے ہی ٹیلے تھے
شاید رات کے بارہ کا ٹائم ہوگا کہ
خالہ نے مجھے آواز دی کہ جلدی آؤ
میں نے جلدی سے جوتے پہنے اور دیوار کے پاس جا کھڑا ہوا
انہوں نے ایک طرف اشارہ کیا ،وہ دیکھو بتی آرہی ہے
فوراً تو مجھے کچھ نظر نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔
یوں لگ رہا تھا جیسے پہاڑ سے کوئی آدمی ہاتھ میں لالٹین لیے اتر رہا ہے
پہاڑ کوئی نصف کلومیٹر دور تھا ہم سے
ابھی وہ لالٹین پہاڑ سے اتری بھی نہیں تھی کہ بجھ گئی
میں نے خالہ کی طرف دیکھا اور پوچھا کہاں گئی؟؟؟؟
انہوں نے اسی طرف اشارہ کیا۔۔۔
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ وہ اب قبرستان میں گھوم رہی تھی
بتاتا چلوں قبرستان اور پہاڑ کا فاصلہ آدمی دوڑ کر بھی بیس منٹ میں طے نہیں کرسکتا اور وہ بتی دو سیکینڈ میں پہنچ گئی تھی
میں نے اب اس بتی پہ نظریں جما لیں تھیں
وہ قبرستان میں گھوم رہی تھی اس نے ایک چکر لگایا اور پھر بند ہوگئی
میں ابھی اس طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ
وہ ہم سے کچھ فاصلے پہ آن ہوئی اور
راستے میں ایک کنواں پڑتا تھا اس پہ آرکی۔۔۔
کچھ دیر وہ وہاں گھومتی رہی جیسے کچھ تلاش کررہی ہو یا کسی کا انتظار ہو
کچھ دیر وہاں پھرنے کے بعد وہ اس طرف چلی گئی جہاں کبھی تقسیم سے پہلے شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا
وہاں آج بھی شمشان گھاٹ کی کچھ نشانیاں موجود ہیں
میں نظریں جھپکانا بھول چکا تھا
حیرت کی بات تو یہ تھی کہ نہ کوئی جسم نظر آتا تھا نہ سایہ۔۔۔۔یوں لگتا تھا لالٹین گویا ہوا میں معلق ہے بس
کافی دیر وہ شمشان گھاٹ کے اردگرد پھرتی رہی کچھ دیر ایک جگہ ٹکی رہی اور پھر ویسے ہی واپس ہولی جیسے آئی تھی
پہلے کنوے پہ پہنچی پھر قبرستان کے قریب سے گزرتی واپس پہاڑ کی طرف چلی گئی
اور جیسے منٹوں کا سفر اس نے آتے ہوۓ سیکینڈوں میں طے کیا تھا جاتے ہوۓ بھی ویسے ہی پلک جھپکتے پہاڑ تک پہنچ گئی تھی.
وہ لالٹین کچھ دور پہاڑ کے اوپر چلتی رہی اور پھر غائب ہوگئی
شاید دوسری طرف اتر گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد افضل اسی گاؤں کا رہنے واالا تھا
اس کے باپ دادا کو جو زمین الاٹ ہوئی تھی اس کا کچھ حصہ قبرستان کے بلکل قریب تھا ۔۔۔وہاں اونچے اونچے مٹی کے ٹیلے تھے کاشت کے قابل نہیں تھی
اس کے بیٹوں نے مشورہ دیا کہ یہ کاشت کے قابل تو ہے نہیں تین اطراف تو قدرتی ٹیلے ہیں ہی کیوں نہ جوجگہ صاف ہے اس طرف بھی بند باندھ کر اس کو ایک چھوٹے سے ڈیم میں تبدیل کر کے اس میں مچھلی فارم بنادیا جاۓ ؟؟؟
بیٹوں کی بات افضل کے دل کو لگی تھی سو اس نے ہفتے بعد کام شروع کروادیا
افضل اور اس کا ایک بیٹا قریبی بوہڑ کے درخت کے نیچے چارپائی ڈالے بیٹھے تھے اور ایکسیویٹر اپنا کام کررہی تھی جو چھوٹے موٹے ٹیلے اس جگہ کے اندر تھے ان کی مٹی کو بند کی جگہ لگا دیا گیا تھا
اور ڈیم بنانے کی جگہ کو مزید گہرا کیا جارہا تھا
ان کا ارادہ تھا کہ جگہ بھی گہری ہوجاۓ گی اور بند بھی مکمل ہوجاۓ گا مٹی باہر سے نہیں لانی پڑے گی
ساڑھے تین کا وقت ہوگا ایکسیویٹر اور اس کا ہیلپر ابھی چاۓ پی کر اٹھے تھے
کدائی کافی گہری ہوگئی تھی۔۔۔
اور افضل چاہتا تھا کہ دوچار فٹ مزید گہری ہوجاۓ
کام دوبارہ شروع ہوچکا تھا
ابھی دس منٹ بھی نہیں گزرے ہونگے کہ ہیلپر دوڑتا ہوا آیا
وہ دور سے ہی آوازیں دیتا آرہا تھا ۔۔۔چاچا۔۔۔چاچا۔۔۔ادھر آنا استاد بلارہے ہیں
افضل اور اس کا بیٹا اٹھ کھڑے ہوۓ
مشین تو نہیں خراب ہوگئی؟؟؟افضل نے ہیلپر سے پوچھا جس کے چہرے پر سنسنی سی پھیلی ہوئی تھی
نہیں چاچا۔۔۔ہیلپر بولا ۔۔۔۔آپ یہاں آکر دیکھو کچھ نکلا ہے
کچھ نکلا ہے؟؟؟افضل کے بیٹے نے حیرت سے کہا؟؟؟
خزانہ تو نہیں نکل آیا؟؟؟اس کے بیٹے نے مسکراکر ہیلپر سے کہا۔۔۔اتنی دیر میں وہ ایکسیویٹر کے قریب پہنچ چکے تھے
ایکسیویٹر چلانے والا بھی نیچے اتر کر ایکسیویٹر کے آگے کھڑا تھا
دونوں باپ بیٹوں کی نظر ایک ساتھ زمین سے دریافت ہونے والی اس چیز پر پڑی اور حیرت زدہ رہ گئے
دریافت ہونے والی چیز کچھ اور نہیں ایک انسانی ڈھانچہ تھا یوں کہ لیں چند ہڈیاں ہی تھیں
جن میں واضع کھوپڑی کی ہڈی ہی تھی باقی بس براۓ نام ہی رہ گئی تھیں
ان کا جس چیز نے متوجہ کیا وہ پسلی کی ہڈیوں میں پھنسا ایک لوہے کا سریا نما ٹکرا تھا۔۔۔۔جس کو مٹی نے جانے کب سے اپنی خوراک بنا رکھا تھا اور اب وہ محض آدھ انچ سے بھی کم باریک اور ایک ہاتھ لمبا رہ گیا تھا۔۔۔۔
اس کے قریب ہی ایک لالٹین کی باقیات پڑی تھیں
افضل کے بیٹے اور استاد نے احتیاط سے ان ہڈیوں کو اٹھایا اور ساتھ ٹوٹی پھوٹی لالٹین کی باقیات کو بھی اور ایک کپڑے میں لپیٹ دیا
یہ یہاں کیسے آگیا؟؟؟افضل نے گویا خودکلامی کی مگر وہ سب سے مخاطب تھا
میرا خیال ہے ابا جی۔۔۔اس کا بیٹے نے جواب دیا ۔۔۔یہ قریب قبرستان ہے شاید یہ جگہ بھی اس کا حصہ ہو؟؟؟یا پھر بہت پہلے کسی نے اس بےچارے کا مار کر ادھر دبادیا؟؟؟
بیٹا قبرستان تو ہمارے سامنے بنا ہے یہ افضل نے جواب دیا ہاں۔۔۔۔۔۔دوسری بات کچھ سمجھ میں آتی ہے۔۔کیونکہ اس کی پسلیوں میں لوہے کا ٹکڑا بھی پھنسا ہوا ہے جس سے لگتا ہے کسی نے اس کو سریے یا لوہے کی کسی اور چیز سے اسے مارا اور پھر یہاں دبادیا
اللہ جانے بےچارہ کون تھا ؟؟؟؟کب تھا؟؟؟اور کیا ہوا اس کے ساتھ؟؟؟ افضل نے افسردگی سے سرہلایا
اور اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے بولا۔۔۔۔بیٹا اسے احترام سے اسی ساتھ والے قبرستان میں دفنادو۔۔۔پتہ نہیں کفن جنازہ بھی نصیب ہوا کہ نہیں بےچارے کو؟؟؟اللہ اس کی مغفرت کرے بےگناہ قتل ہوا تو شہید ہے مظلوم ہے
ایکسیویٹر سے قریب کے قبرستان میں ایک قبر نما گڑھا کھود کر اس نامعلوم ہڈیوں کو افضل نے اپنے سر کے کپڑے میں لپیٹ کر دفنا دیا۔۔۔ساتھ ہی اس کے پاس سے ملی اس کی لالٹین اور ایک چین جیسی کوئی چیز تھی اور ایک غالباً چاندی میں مڑھا ہوا شاید تعویز ہو ان کو بھی اس کے ساتھ ہی دفن کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ مئی انیس سو اکتالیس
جیسے ہی فجر کی آذان اس کے کانوں میں پڑی اس نے چارپائی چھوڑدی۔۔۔یہ اس کا روز کا معمول تھا آذان کی آواز سنتے ہی اٹھ جاتا نماز پڑھتا بھینس کو چارہ ڈالتا پھر اس کا دودھ نکال کر دوسرے جانوروں کو چارہ ڈالتا اور وہیں ڈیرے پہ ہی ورزش کرتا دوڑ لگاتا اور پھر دودھ لیکر گھر کو روانہ ہوجاتا۔۔۔
یہ چاچا دین محمد کا بڑا بیٹا تھا جو ڈھوک سمبا نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے۔۔۔اس گاؤں میں ہندو سکھ اور مسلمانوں کی تعداد تقریباً برابر ہی تھی ۔۔۔۔۔ اس کا نام گھر والوں نے تو جان محمد رکھا تھا مگر لوگ فقط جانی کے نام سے ہی بلاتے اور جانتے تھے خوبصورت جوان تھا کشتی کا شوق تھا اور اپنے اسی شوق کی وجہ سے اریب قریب کے گاؤں تک جانا جاتا تھا۔۔۔اس سے چھوٹا ایک بیٹا تھا جس کا نام غلام محمد تھا اور گاموں کے نام سے جانا جاتا تھا۔۔۔ان دونوں سے چھوٹی ایک لڑکی تھی جس کا نام ثریا تھا۔۔۔۔
گھر پہنچ کر اس نے حسب عادت سب سے پہلے ماں کو دودھ کا برتن تھمایا اور پھر ٹین اٹھا کر کنوے سے پانی لینے چلا گیا۔۔۔
واپس آکر ماں سے مخاطب ہوا
اماں۔۔۔آج میرے سفید کپڑے نکال دے میں نہاکر پہن لیتا ہوں آج مجھے ڈھوک سائیں کے میلے میں جانا ہے
بھائی مجھے بھی ساتھ لےجاؤ۔۔۔میلے کا نام سن کر اس کی بہن نے فرمائش کی
ہاں پتر ان دونوں کو بھی لے جانا اس کی امی نے جانی سے کہا تو اس نے اقرار میں سر ہلادیا۔۔۔
ثریا کو تو گویا لاٹری لگ گئی بے حد خوشی سے ماں سے مخاطب ہوئی
اماں میرے کپڑے بھی دے دینا مجھے۔۔۔
ڈھوک سائیں ان کے گاؤں کی طرح کا ہی ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا جسے لوگ بیساکھی کے نام سے بلاتے تھے۔۔۔
جانی نے نہاکر کپڑے بدلے اور ماں سے بولا
بےبے کچھ پیسے ہیں تو دےدے
اس کی ماں نے دوروپے اپنے دوپٹے کے پلو سے کھول کر اس کے ہاتھ پہ رکھ دیے
بیل گاڑی جوت کر اس نے اپنے ماں باپ سے اجازت لی اور اپنے بہن بھائی کو بٹھاکر چلنے لگا تو ماں نے کہا پتر ان کا خیال رکھنا اور اس کا خاص طور پہ بچی ہے کہیں میلے میں ادھر ادھر نہ ہوجاۓ
بےبے فکر نہ کرو میں ان کو اپنے ساتھ ہی رکھوں گا۔۔۔اس نے اپنی ماں کو تسلی دی اور چل پڑا
راستے میں اندان نامی ایک گاؤں پڑتا تھا اس کے کنوے پہ جارکا پانی پیا اور وہیں کھڑا ہوگیا یہ اس کے دوست رنجیت سنگھ اور اختر کا گاؤں تھا اس نے ان کو بھی ساتھ لیکر جانا تھا۔۔۔
جانی نے گاؤں کے راستے کی طرف نظر دوڑائی مگر اختر اور رنجیت میں سے کوئی بھی آتا نظر نہ آیا۔۔۔
گاؤں کی لڑکیاں عورتیں کنوے سے پانی بھررہی تھیں
کنواں گاؤں کے بلکل قریب ہی تھا اس نے سوچا یہاں انتظار کرنے کی بجاۓ وہ خود جاکہ ان دونوں کوبلالاۓ۔۔۔
یہی سوچ کر اس نے اپنے دونوں بہن بھائی کو یہاں انتظار کرنے کا کہا اور خود گاؤں کی طرف سے آتے راستے پہ چل پڑا
ابھی اس نے آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ سامنے سے رنجیت سنگھ آتا دکھائی دیا
جانی وہیں کھڑا ہوگیا رنجیت سنگھ جیسے ہی قریب آیا اس نے پہلا سوال اختر کے بارے میں کیا
وہ بھی آرہا ہے میں اس کے گھر سے ہی آرہا ہوں رنجیت نے جواب دیا اور دونوں بیل گاڑی کی طرف چل پڑے ۔۔۔۔
ابھی وہ بیل گاڑی کے قریب پہنچے ہی تھے کہ ان کو اختر آتا دکھائی دیا
رنجیت سنگھ نے ثریا کے سر پہ ہاتھ رکھا اور پیار سے پوچھا۔۔۔گڈی وی میلہ ویکھے گی اج؟؟؟
ہاں پا رنجیت میں وی ویکھنا میلہ۔۔۔۔ثریا نے جواب دیا اس کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی
اختر آیا تو اس نے بھی ثریا سے وہی سوال کیا
میری ننھی آج میلہ دیکھے گی؟؟؟اور پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
وہ تینوں بیل گاڑی پہ بیٹھے اور ڈھوک سائیں کی طرف چل پڑے جہاں بیساکھی(میلہ) کا رنگ برنگا اور عجیب و غریب سماں ان کا منتظر تھا.
وہ تینوں بیل گاڑی پہ بیٹھ کر ڈھوک سائیں کی طرف روانہ ہوگئے جہاں بیساکھی کا رنگ برنگا اور عجیب غریب سماں ان کا منتظر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے میں ان کو رنگ برنگے کپڑوں میں بیساکھی کی طرف جاتے بہت سے مرد عورت ملے
دور قریب کے گاؤں کے لوگوں کو تفریح کے نام پر سال بعد یہ ایک میلہ ہی میسر تھا سو کوئی بھی دیکھے بنا نہیں رہتا تھا عورتیں ہوں بچے یا بوڑھے۔۔۔
جوں جوں وہ میلے کے قریب ہوتے جارہے تھے ڈھول تاشوں کی آوازیں واضع ہوتی جارہیں تھیں
جو بیساکھی کے عروج کا ثبوت تھیں۔۔۔
میلے میں پہنچ کر جانی نے بیل گاڑی ایک طرف کھڑی کی بیلوں کو الگ کر کے ایک جگہ باندھ دیا اور سب کے ساتھ چل پڑا۔۔۔۔۔
بیساکھی واقعی عروج پر تھی۔۔۔ہر طرف شور جس میں ڈھول کی آواز سب سے واضع تھی اور لوگ ہی لوگ جن میں مرد عورتیں بچے بوڑھے جوان سب شامل تھے
اریب قریب کے گاؤں چونکہ مسلمان سکھ اور ہندؤں کے مشترکہ تھے تو میلے میں بھی سب ہی آۓ تھے
بہت سے لوگوں کے ساتھ ان کی فیملی بھی تھی
میلہ کیا تھا انسانوں کا سمندر تھا کئی لوگ اپنی اپنی دوکانداری سجاۓ بیٹھے تھے جن میں کھانے پینے کی چیزیں تھیں
کوئی اپنی اگائی سبزی بیچنے آیا تھا
جانی نے گاموں اور ثریا کو کھانے پینے کی چیزیں لیکر دیں۔۔۔اور ثریا کی پسند کی نیلی پیلی چوڑیا لیکر دی اس کو۔۔۔ثریا بہت خوش تھی اور وہ ثریا کو خوش دیکھ کر خوش تھا
وہ سب گھومتے کبھی بیلوں کی دوڑ دیکھتے تو کبھی گھوڑا ناچ سے لطف اندوز ہوتے رہے
یونہی گھومتے گھومتے وہ اس جگہ جا پہنچے جہاں کشتی کا اکھاڑا لگا ہوا تھا
اکھاڑا اور اس میں کشتی پہلوانوں کو کشتی لڑتے دیکھ کر جانی کا اندر کا پہلوان مچلنے لگا مگر وہ یہاں کشی کی نیت سے نہیں آیا تھا سو صبر کیے رکھا۔۔۔
اتنے میں ڈھول پیٹنے کے ساتھ ہی آواز لگائی گئی۔۔۔۔
اب میدان میں آرہا ہے ۔۔۔اندان گاؤں کی پہچان ۔۔۔۔شیر جوان۔۔۔۔۔ رام لال تیواری کے سپوت مادھو رام پہلوان ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے کوئی مائی کا لال جو اس کو ہراۓ اور انعام میں بھینس لیکر جاۓ۔۔۔۔۔
بھینس کا سن کر ایک آدمی میدان میں اترا یہ جانی کے قریبی گاؤں کا جوان تھا جوکشتی کا شوقین تھا مگر ابھی اس میدان میں نیا تھا
جانی مادھورام کو بھی جانتا تھا ۔۔اچھا پہلوان تھا مگر کبھی جانی کا اس سے سامنا نہیں ہوا تھا
جیسے ہی وہ جوان میدان میں اترا مادھورام نے اگلے پانچ منٹ میں اسے ہرادیا
پھر ایک مسلمان نوجوان آیا مادھورام نے اسے بھی پٹخ دیا۔۔۔۔اور نخوت سے بولا
مُسلہ (مسلمان) بھی اب مادھورام سے ٹکر لے گا
یہ بات رنجیت اختر اور جانی سمیعت وہاں کھڑے بہت سے لوگوں کو ناگوار گزری۔۔۔
رنجیت سنگھ نے جانی کی طرف دیکھا اور اس کی پیٹھ پہ تھپکی دی
یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ میدان میں اترپڑو۔۔۔
جانی نے ایک لمحے کو سوچا ۔۔۔اختر کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں بھی گویا یہی کہ رہی تھیں کہ۔۔۔۔اللہﷻ کا نام لو اور جاؤ
جانی نے اپنی بہن کے سر پہ ہاتھ رکھا اور پیار سے پوچھا
ثریا۔۔۔۔میں کشتی نہ لڑلوں؟؟؟
ثریا جانتی تھی کہ اس کا بھائی کشتی کھیلتا رہتا ہے بلکہ سارا گھر جانتا تھا ۔۔۔ثریا نے ہاں میں سر ہلادیا
بھائی آپ ہی جیتوگے۔۔۔۔ثریا نے محبت بھرے یقین سے کہا
ڈھول والا اعلان کیے جارہا تھا ہے کوئی جوان؟؟؟؟۔۔۔۔۔ہے کوئی جوان؟؟؟۔۔۔۔
جانی نے اللہﷻ کا نام لیا دونوں مٹی کو ہاتھ لگا کر دونوں کانوں کو لگایا اور اکھاڑے میں اتر گیا۔۔۔
مادھورام نے تکبر سے اسے دیکھا ۔۔۔۔مادھورام بھی جانی کو جانتا تھا اور یہ بھی کہ کشتی کا شوق رکھتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔اسے یہ توقع نہیں تھی کہ جانی اس کے مقابلے میں آۓ گا وہ تو جانی کو طفل مکتب سمجھتا تھا۔۔۔
اوہو چیونٹیوں کے بھی پر نکل آۓ مادھورام نے ہنس کر طنز کیا
جانی خاموش رہا
دیکھنے والوں کی دلچسپی بڑھ گئی تھی
مگر کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ لڑکا مادھو سے جیت جاۓ گا ؟؟؟ماسواۓ گاموں، اختر ،ثریا اور رنجیت کے
واہے گرو کرپا کرنا۔۔۔رنجیت نے دونوں ہاتھ جوڑکر اپنے انداز میں دعا مانگی
اللہﷻ کرم کرےگا۔۔۔۔اختر نے بھی ان سب کو اور خود کو حوصلہ دیا
اکھاڑے میں وہ دونوں پنجہ آزمائی کررہے تھے۔۔۔
پھر مادھو نے اچانک ایک داؤ مارا اور جانی اس کے اوپر سے ہوتا ہوا نیچے گرا
مگر گرا پیٹ کے بل تھا سو نہ ہار ہوئی نہ جیت
دیکھنے والے بےسدھ ہوگئے تھے گویا۔۔۔
ڈھول والا بھی شاید ڈھول بجانا بھول گیا تھا
تقریباً دس منٹ تک دونوں ایک دوسرے کو گرانے کی سرتوڑکوشش کرتے رہےاور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔جانی کا داؤ چل گیا۔۔۔دونوں کھڑے ایک دوسرے کے بازو قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ جانی کے ہاتھ میں اس کا بازو آگیا قیمتی لمحہ تھا جانی سستی دکھادیتا تو ناکام پہلوانوں میں گنا جاتا مگر جانی نے یہ لمحہ گنوایا نہیں اس نے مادھورام کے بازو کے ہاتھ میں آتے ہی گھوم کر پیٹھ اس کی طرف کی نیچے بیٹھا اور اس کو اپنے اوپر سے گھماکر زمین پہ دے مارا۔۔۔اس سب میں فقط ایک لمحہ لگا
مادھورام چاروں شانے چت پڑا تھا
ایک لمحے تک تو کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا ہوا؟؟؟؟مگر۔۔۔۔۔
دوسرے ہی لمحے ڈھول پہ تھاپ پڑی اور لوگوں کی تالیوں واہ واہ کے شور میں کان پڑی آواز نہیں سنائی دےرہی تھی اختر اور رنجیت نے جانی کو کندھے پر اٹھالیا
سالے دا غرور توڑدتا یار تو۔۔۔رنجیت کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جا کہ مادھو سے کہ دیتا کہ ۔۔۔۔ہن دس ؟؟؟؟
اتنے میں ڈھولی نے بھینس انعام کے ساتھ اندان کے مکھیا کی طرف سے پانچ روپے کا اعلان کیا۔۔۔۔
عین اسی لمحے دو دلوں میں جانی کے لیے دو جزبے بیدار ہوۓ
ایک مادھورام کے دل میں اپنی بےعزتی کے انتقام اور حسد کا نفرت بھرا جزبہ۔۔۔
اور دوسرا اندان گاؤں کے مکھیا بھگوان داس تیواری کی بڑی بیٹی راما کے دل میں محبت کا جزبہ۔۔۔۔
مکھیا بھگوان داس رنجیت اور اختر کے گاؤں کا ہی تھا
اور رام لال تیواری کا بڑا بھائی یعنی مادھو کا تایا ۔۔۔۔
بھگوان داس اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں کے ساتھ بیساکھی دیکھنے آیا تھا
راما مادھو سے اس کے چال چلن اور کرتوں کی وجہ سے پہلے ہی نفرت کرتی تھی اور آج اس نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں جب ایک مسلمان پہلوان کی تحقیر کی تھی تو بدلے میں جانی کے ہاتھوں اس کی ذلالت دیکھ کر اسے دلی خوشی ہوئی تھی
اور عین اسی لمحے وہ اپنا دل ہار بیٹھی تھی
جانی خوبصورت تو تھا ہی اوپر سے اس نے مادھو کو شکست دیکر راما کے دل میں اپنی مسند جمالی تھی
یہ اور بات ہے کہ جانی کو اس بات کی خبر بھی نہیں تھی کہ کوئی اس پہ دل ہار بیٹھا ہے
کسی اجنبی کو اس سے محبت ہوگئی ہے
یہ دل کے سودے ہیں کب؟؟؟کہاں؟؟؟؟کون؟؟؟دل کو چھولے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔
کسی معصوم لمحے میں کسی مانوس چہرے سے
محبت کی نہیں جاتی محبت ہوجاتی ہے
بس یہی راما کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔
جانی نے اپنے ماں باپ کے لیے کچھ خریداری کی اور دن ڈھلنے سے پہلے وہ سب اپنی بیل گاڑی پہ بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوگئے۔۔۔۔
راستے میں اس نے اپنے دونوں دوستوں کو ان کے گاؤں اتارا اور آہستہ آہستہ اپنی جنت اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
اس نے اپنے دوستوں کو ان کے گاؤں میں اتارا اور خود آہستہ آہستہ اپنی جنت اپنے گھر کی طرف چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچتے ہی ثریا بھاگ کر گھر اپنی ماں کے پاس گئی
وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ خوشی کی خبر اس سے پہلے کوئی اور ماں کو سناۓ
اس نے جاتے ہی اماں اماں کی صدا لگائی۔۔۔۔۔۔
خوشی اس سے چھپاۓ نہیں چھپ رہی تھی
کیا ہوا ثریا پتر۔۔۔؟؟؟اس کی ماں نے کمرے سے نکلتے ہوۓ پوچھا۔۔۔خیر تو ہے ؟؟؟
ثریا نے تفصیل سے ساری بات بتائی ۔۔۔۔
اتنے میں گاموں اور جانی بھی گھر میں داخل ہوچکے تھے۔۔۔
جانی کی ماں نے خوشی سے جانی کوگلے لگایا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں
اماں بھینس کل اندان گاؤں کے مکھیا کے گھر سے لےآؤں گا۔۔۔۔جانی نے اپنی ماں کو آگاہ کیا۔۔۔۔اس نے اپنے باپ کا پوچھا تو پتہ چلا وہ ڈیرے پر گیا ہوا ہے۔۔۔
اس نے دودھ لانے کے لیے برتن اٹھایا اور ڈیرے کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔
اگلے دن حسب معمول اس نے اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ ہی چارپائی کو چھوڑا نماز پڑھ کر دودھ نکالا اور گھر پہنچ گیا۔۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد اس نے اپنے ماں باپ کو آگاہ کیا کہ وہ مکھیا کے گھر سے بھینس لینے جارہا ہے اور پیدل ہی گھر سے نکل کھڑا ہوا۔۔۔۔۔
جانی اور مکھیا کا گاؤں ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں تھے بیچ میں ایک پہاڑ پڑتا تھا جس کی کم بلندی والی جگہ سے ادھر ادھر آنے جانے کے لیے راستہ بنا رکھا تھا۔۔۔
یہی راستہ دوسرے گاؤں اور قریبی قصبے تک بھی جاتا تھا جہاں لوگ خریداری کرنے یا اپنی چیزیں بیچنے جاتے تھے اور اور اسی قصبے میں جانی بھی روز اپنی بیل گاڑی لیکر جاتا تھا
گاؤں والا کا کوئی سامان لے جاتا اور واپسی پہ لے آتا اور دن میں قصبے میں ایک آڑھتی کی دوکان سے سامان ادھر ادھر چھوڑ آتا تھا یہی اس کا روزگار تھا۔۔۔۔۔
کچے راستے پہ پیدل چلتا ہوا وہ اندان گاؤں کے قریب پہن چکا تھا۔۔۔۔راستے کے بلکل قریب ہی کنواں تھا وہاں سے اس نے کنویں پہ لگی مشک کو کنوے میں ڈال کر پانی نکال کر پیا اور گاؤں کی طرف چل پڑا۔۔۔
کنوے سے گاؤں جانے والا راستہ پگڈنڈی نما تھا جو کھیتوں کے بیچ سے گزرتی تھا دونوں اطراف کھیت تھے اور وہ ان پہ جارہا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راما کی ساری رات بےچینی میں گزری تھی اسے رہ رہ کر وہ سجیلا جوان یاد آرہا تھا جس نے مادھوکو زمین چاٹنے پر مجبور کیا تھا
باتوں باتوں میں وہ کئی بار جانی کا ذکر اپنی چھوٹی بہن سیتا سے بھی کرچکی تھی
جانی کے دوست اختر کی بہن رضیہ راما کی دوست تھی راما کا ارادہ تھا کہ آج دن میں وہ رضیہ کی طرف جاۓ گی اور اسے کریدنے کی کوشش کریگی۔۔۔
اسے ابھی تک جانی کا نام بھی معلوم نہیں تھا اور نہ اس کے گاؤں کا کہ۔۔۔۔ وہ کس گاؤں میں رہتا تھا البتہ اسے میلے میں لوگوں کی زبانی اتنا ضرور پتہ چل گیا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور اسی لیے وہ اپنی مسلمان سہیلی اختر کی بہن سے ملنے کو بےقرار تھی کہ شاید اس کو پتہ ہو اس کا؟؟؟ ۔۔۔۔
آج صبح سات بجے کے قریب اس نے جلدی سے ناشتہ بنایا اور اپنی ماں اور باپ کو دیا۔۔
خود اس نے اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا ۔۔۔برتن دھوکر وہ باہر جانے لگی تھی۔۔۔۔ پھر نہ جانے کیا اس کے دل میں آیا کہ وہ گھر میں بنے پوجا پاٹ والے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔
اس کی ماں نے حیرت سے اسے دیکھا اور اپنے پتی بھگوان داس سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔۔
یہ راما کو آج کیا ہوگیا ہے؟؟؟ پوجا کرنے گئی ہے ؟؟؟؟؟
اس کی ماں کی حیرت بجا تھی کیونکہ راما کو کبھی بھی پوجاپاٹ سے دلچسپی نہیں رہی تھی۔۔۔کبھی کبھار ماتا پتا کے اصرار پہ دو چار منٹ پوجا والے کمرے میں لگی بھگوان کی مورتی کے سامنے بیٹھ جاتی تھی۔۔۔اور فوراً ہی اٹھ جاتی تھی۔۔۔۔۔۔
ان پڑھ تھی اور بچپن سے ماں باپ کو یہاں پوجا کرتے دیکھ رہی تھی مگر۔۔۔۔۔۔۔ پھر بھی جانے کیوں اس کا دل نہیں کرتا تھا کہ وہ مورتی کے سامنے بیٹھ کر عجیب غریب انداز میں بجن گاۓ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ خود پوجا والے کمرے میں گئی تھی تو اس کی ماں کی حیرت بجا تھی۔۔۔
راما نے دروازہ بند کیا اور آنکھیں بند کر کے ہاتھ جوڑ کے مورتی کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔
ہے بھگوان۔۔۔۔اس کی ساری حسیں گویا فریادی بن گئیں تھیں۔۔۔۔
میں نے آج تک تیری پوجا نہیں کی میرا دل نہیں کرتا تھا مگررر۔۔۔۔آج معاملہ ہی دل کا آن پڑا ہے تو اس کو میرے لیے لکھ دے مجھے ملادے اس سے۔۔۔۔
پھر اس نے ایک عجیب کام کیا مورتی سے کچھ فاصلے پر آبیٹھی اور ۔۔۔۔۔دل کو فقیر بنا کر دل سے صدا دی۔۔۔۔
اے مسلمانوں کے خدا
میں نے مسلمانوں کو دیکھا ہے وہ ہر کام تیرے سپرد کردیتے ہیں وہ تجھ پہ بہت یقین رکھتے ہیں ۔۔۔میں تجھے نہیں مانتی مگر آج میں تجھ سے بھی مانگ رہی ہوں اگر تو ہے تو میرے دل کو چین دےدے اسے مجھ سے ملادے اسے میرا کردے
مجھ سے اب رہا نہیں جاتا میرے دل کو حوصلہ دے دے۔۔۔۔اسے ملادے مجھ سے آج ہی ملادے مجھ سے صبر نہیں ہوتا اب۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر وہ یونہی یقین و بے یقینی کے سمندر میں غوطہ زن رہی اور پھر اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی
صحن میں آکر اس نے اپنے باپ سے کہا۔۔۔۔
پتا جی میں اپنی سکھی رضیہ کے گھر جارہی ہوں؟
بٹیا جلدی آجانا اس کے پتا نے اجازت دی۔۔۔۔
راما یہ تجھے آج پوجا کی کیا سوجی؟؟؟ اس کی ماں کی حیرت ابھی تک برقرار تھی۔۔۔۔۔
ماتا بس یونہی آج دل کیا۔۔۔راما نے اپنی ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر چٹاخ سے ان کے گالوں پہ بوسہ ثبت کردیا۔۔۔
چل ہٹ بد تمیز۔۔۔ماں نے مصنوعی ناراضگی سے کہا اور مسکرادی۔۔۔
اچھا ماتا میں جا رہی ہوں اس نے کہا اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔
ابھی وہ دروازے سے دوقدم دور ہی تھی کہ ٹھک۔۔ٹھک۔۔ٹھک۔۔۔کی آواز کے ساتھ دروازے پہ دستک ہوئی۔۔۔
راما دیکھنا کون ہے؟؟؟ اس کے پتا نے راما کو دروازے کی جاتے دیکھ کر کہا
اس نے دروازہ کھولا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گویا پتھر کی ہوگئی
اسے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا ۔۔۔اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ دعائیں یوں قبول ہوجاتی ہیں؟؟؟ معجزے آج بھی ہوجاتے ہیں؟؟؟اسے یاد آیا ابھی ابھی اس نے مسلمانوں کے خدا کو پکارکر کہا تھا اگر تو ہے تو اسے مجھ سے ملادے۔۔ابھی ملادے۔۔۔اور اسے ملادیا گیا تھا۔۔۔دل کو صبر و قرار بخش دیا گیا تھا اس کے۔۔۔۔۔وہ جب سنتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ اس اکا بندہ کتنا گنہگار ہے ؟؟؟کون ہے؟؟؟
یہ بھگوان داس جی کا گھر ہے؟؟؟ جانی اس کے دیکھنے سے پریشان سا ہوگیا تھا
جج جج جی۔۔یہی ہے راما کچھ جھنپ سی گئی
ممم میں بلاتی ہوں ان کو۔۔۔خوشی میں اسکے منہ سے الفاظ ٹھیک سے ادا بھی نہیں ہورہے تھے
پتا جی پتا جی۔۔۔۔وہ اپنے باپ کو آوازیں دیتی واپس پلٹی۔۔۔
کیا ہوا بیٹیا؟؟؟ کون ہے؟؟؟ بھگوان داس نے پوچھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ کچھ زیادہ ہی خوش ہے
پتا جی باہر وہ کل والا پہلوان آیا ہے جس نے مادھو کو............اچھا اچھا جان محمد آیا ہے اس کے باپ نے اس کی بات کاٹی۔۔اور اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا
باہر جانی اس منتظر تھا
اس نے جانی سے ہاتھ ملایا اس کا حال احوال پوچھا اور بولا ۔۔۔۔۔۔۔پتر اندر آجا تیرا اپنا گھر ہے
جانی تھوڑا جھجکا اور پھر ان کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا
بیٹھ پتر۔۔۔بھگوان داس نے چارپائی کی طرف اشارہ کیا
جانی بیٹھ چکا تو اس نے آواز دی بیٹیا راما۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی پتا جی۔۔۔راما کا تو گویا سارا جسم اس وقت کان اور آنکھ بنا ہوا تھا۔۔اور کیوں نہ ہوتا اس کا من پسند شخص یو اچانک جیسے مرنے کو زندگی مل جاۓ۔۔۔اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا
بیٹیا کوئی لسی پانی لاؤ مہمان کے لیے اس کے باپ نے راما سے کہا۔۔۔
ہاں بھئی جوان تیرا پتا کیسا ہے ؟ بھگوان داس جانی سے مخاطب ہوا
جی ابا ٹھیک ہے تسی جانتے ہو میرے ابا کو؟؟اس نے کچھ حیرت سے کہا
پتر میں تو تجھے بھی جانتا ہوں مگر تو شاید مجھے نہیں جانتا اور تیرے پتا کو تو بہت پہلے سے جانتا ہوں
لسی کے بعد چاۓ اور لڈوؤں سے جانی کی تواضع کی گئی۔۔۔۔۔
جوان ایک بات تو ہے کل تم نے بہت اچھی کشتی لڑی بےشک وہ میرا بھتیجا ہے مگر کھیل میں گھمنڈ اور غصہ نہیں ہوتا جو مادھونے کل دکھایا تھا بھگوان داس نے اسے سراہا
اپنے پتا کو بولنا کہ بگھوان داس کہہ رہا تھا کہ ہمیں بھول ہی گئے ہو تم تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راما کا بس نہیں چل رہا تھا دل نکال کر اس کا فرش بنادے جس پہ جانی کے پاؤں پڑیں۔۔۔اور آنکھیں جانی کو دان کردے جو اس کے ساتھ ہی رہیں اسے دن رات دیکھتی رہیں ۔
وہ چاۓ کے برتن اٹھانے آئی تو جھجکتے ہوۓ اس نے جانی سے کہ ہی دیا۔۔۔۔
کل آپ بہت اچھا کھیلے تھے
میں بھی وہیں تھی پتا کے ساتھ ۔۔۔۔۔ دھنےواد (شکریہ) آپ لوگوں کا جانی نے مسکراکر ان کی زبان میں ہی شکریہ ادا کیا
راما نے اس سے بات بھی کرلی تھی یہی راما کے لیے بہت تھا۔۔۔اس کی اس وقت کی کیفیت وہی جان سکتا ہے جو اس کیفیت سے گزرا ہو ۔۔۔من پسند شخص کا دیدار اس سے بات چیت اور اس کی اپنے گھر آمد یہ کچھ کم نہ تھا
جانی نے جانا چاہا تو بھگوان داس نے بٹھا لیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے
راما اس کی چھوٹی بہن اور اس کی ماں سامنے بنے برآمدے میں بیٹھے تھے اور راما اس انداز سے بیٹھی تھی کہ اس کا چہرہ جانی کی طرف تھا ۔۔۔وہ بار بار ادھر دیکھ رہی تھی وہ ان لمحوں کو اپنی آنکھوں میں قید کرنا چاہتی تھی
وہ دل ہی دل میں پراتھنا (دعا) کر رہی تھی کہ جانی جلدی نہ جاۓ۔۔۔۔۔
راما تو رضیہ کی طرف جارہی تھی اس کی ماں نے اسے یاد دلایا ۔۔۔۔۔
ماتا جاتی ہوں کچھ دیر میں وہ مہمان کو لسی پانی دینے لگ گئی تھی تو یاد نہ رہا۔۔۔اس نے بہانہ بنایا حالانکہ اسے یادتھا مگر وہ اب یہاں سے جانا ہی نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ لوگ باتیں کرہی رہے تھے کہ دروازہ کھول کر مادھو اندر آگیا ۔۔۔اسے گمان بھی نہیں ہوگا کہ جانی اس وقت یہاں ہوگا ورنہ شاید وہ نہ آتا۔۔۔۔اپنی ذلت بھولا نہیں تھا وہ اور جانی کے لیے اپنے دل میں انتقام نفرت اور دشمنی کا جزبہ لیے گھوم رہا تھا جس کی جانی کو خبر بھی نہیں تھی۔۔۔۔
مادھو کو دیکھ کر سب کے چہروں پر ناگواری سی آئی ماسواۓ جانی کے۔۔۔۔کیونکہ جانی نہ اس کے کردار کو جانتا تھا اور نہ اس کے دل میں چھپے اپنے لیے نفرت کے جزبات کو۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت مادھو کا آنا سب سے زیادہ برا راما کو لگا تھا
اس کے چہرے پہ آئی ناگواری صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔۔۔۔۔
مادھو نے آتے ہی اپنے تایا بھگوان داس کو پرنام کیا اور ناگواری سے بولا۔۔۔۔۔
تایا جی ہر ایرے غیرے کو گھر نہیں بٹھاتے گھر میں جوان بیٹیاں ہیں ادھر ڈنگروں کے باڑے میں چارپائی ڈال لینی تھی۔۔۔۔
تو مجھے مت پڑھا کہ کس کو گھر بٹھانا کس کو نہیں؟؟؟بھگوان داس کو مادھو کا رویہ بےحد برا لگا تھا۔۔۔۔۔
مادھو کے الفاظ سب نے سنے تھے تو راما کیسے اپنے محبوب کی بےعزتی برداشت کرتی۔۔۔۔۔فوراً اٹھ کر آئی اور تیکھے لہجے میں بولی۔۔۔۔
پہلے تو تو سیکھ لے کسی کے گھر کیسے جایا جاتا ہے
پھر دکھانا غیرت۔۔اور تو کون ہوتا ہے ہمارے گھر آۓ سے ایسے بات کرنے والا؟؟؟؟
راما کا پارہ ہائی ہونے لگا تھا
دیکھو تایا جی اسے سمجھاؤ اس کو پتہ ہی نہیں ہے بولنے کا دوسروں کے سامنے ہماری بے عزتی کیے جارہی۔۔۔۔
راما اپنے دفاع میں بولنا جانی کو اچھا لگا تھا
بیٹیا تم ادھر جاؤ۔۔۔بھگوان داس نے راما سے کہا تو غصے سے واپس مڑگئی۔۔۔۔۔۔
میری وجہ سے آپ لوگ نہ لڑو ۔۔۔میں ویسے بھی جانے ہی والا تھا جانی نے اٹھتے ہوۓ کہا تو۔۔۔۔۔راما کے دل پہ چوٹ سی پڑی۔۔۔اس نے نفرت سے مادھو کو گھورا
ارے نہیں پتر تو بیٹھ میں سمجھاتا ہوں مادھو کو بھگوان داس نے جانی سے کہا تو وہ بولا نہیں مکھیا جی میں ویسے بھی اب جانے والا ہی تھا۔۔۔اوراٹھ کھڑا ہوا
راما کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہورہا تھا
جانی کے اصرار پہ بھگوان داس بھی اٹھ کھڑا ہوا اور بولا چل پتر۔۔۔۔تجھے بھینس کھول کے دیتا ہوں
جانی نے راما کی طرف دیکھا اور خوشدلی سے بولا آپ سب کا دھنےواد۔۔۔۔چاۓ بہت اچھی تھی آپ نے بہت عزت دی مجھے آپ لوگ آیے گا کبھی ہمارے گھر۔۔۔۔
جانی کے الفاظ نے راما کے دل پہ مرہم کا کام کیا اور وہ کچھ شانت ہوگئی
بھگوان داس جانی کو لیکر گھرسے نکلا تو راما دروازے تک آئی تھی۔۔۔۔ان کے نکلتے ہی مادھو بھی نکل گیا تھا
بھینس لیکر اس نے بھگوان داس کا شکریہ ادا کیا اور کہا آپ کبھی سب کو لیکر آیے گا ہمارے گھر۔۔۔۔۔۔۔
ضرور آئینگے کبھی بھگوان داس نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔۔۔۔۔۔
جانی بھینس لیکر گھر پہنچا ماں کو بھینس دکھا کر جانی اسے اپنے ڈیرے پہ لےگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن معمول کے مطابق اس نے بیل گاڑی لی اور قصبے کی طرف چل پڑا۔۔۔سارا دن کام کے بعد شام کو واپس آرہا تھا جب اندان گاؤں کے کنوے کے قریب پہنچا تو بلا ارادہ رک گیا ۔۔۔۔۔۔
شام کا وقت تھا کنوے پہ پانی بھرنے والوں کا میلہ سا لگا ہوا تھا۔۔۔۔اس کے قدم خود بخود کنوے کی طرف اٹھتے چلے گئے۔۔۔۔۔
کنوے پہ پہنچ کر اس نے اپنے پاس برتن میں پانی بھرا اور پلٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھاکہ گاؤں کی طرف سے آتی پگڈنڈی پر اسے اختر کی بہن رضیہ آتی دکھائی دی اس کے پیچھے دوچار اور لڑکیاں بھی تھی وہ ایک دوسرے کے پیچھے چلی آرہی تھیں سب سے آگے رضیہ تھی۔۔۔وہ جاتے جاتے رک گیا۔۔۔اس نے سوچا اختر کو پوچھتا ہوں۔۔۔
وہ جیسے ہی قریب آئی اس کے پیچھے سے گویا چاند نکل آیا ۔۔۔۔یہ وہی چاند تھا جسے یہ بھگوان داس کے گھر میں دیکھا چکا تھا راما۔۔۔۔
اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی۔۔۔۔رضیہ نے بھی جانی کو دیکھ لیا اور اسی کی طرف چلی آئی اس کے ساتھ راما بھی تھی۔۔دوسری لڑکیاں کنوے پہ چلی گئیں۔۔۔
رضیہ نے آتے ہی جانی کو سلام کیا جانی نے اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ رکھا اور پوچھا۔۔۔رضیہ بہن کیسی ہو؟
عین اسی وقت راما نے بھی تھوڑا جھجکتے دونوں ہاتھ جوڑکر اسے پرنام کیا ۔۔۔۔۔جانی نے اس سے بھی اس کا اور اس کے ماتا پتا کا پوچھا
راما کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ خوشی سے ناچنا شروع کردیتی۔۔۔۔۔۔
رضیہ بہن اختر سے کہنا کل صبح مجھے یہیں کنوے پہ ملے اسے کام پہ لےکے جانا ہے ساتھ۔۔۔جانی نے رضیہ سے کہا ۔۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔میں اختر بھائی کو کہ دونگی رضیہ نے کہا ۔۔۔جانی کی نظر راما پہ پڑی۔۔۔۔وہ ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔چوری پکڑے جانے پہ وہ سٹپٹا کر دوسری طرف دیکھنے لگ گئی۔۔۔۔جانی کو اس کی یہ ادا بھا گئی اس کے لبوں پہ ہلکا سا تبسم ابھرا
بھائی ۔۔۔۔مجھے آپ سے ایک خاص بات کرنی ہے رضیہ نے دھیمے سے لہجے میں کہا
ہاں کرو میری بہن۔۔۔کیا بات ہے؟؟؟جانی کوتجسس ہوا
نہیں۔۔۔۔۔ ابھی نہیں ۔۔کل زرا جلدی آجانا کام سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہمیں جلدی ہے ہم نے پانی بھرنا ہے دیر ہوجاۓ گی
رضیہ نے کہا تو وہ بولا ٹھیک ہے جیسے تیری مرضی
بس یہ بتادے سب خیر ای ہے نا؟؟؟؟؟جانی تھوڑا فکرمند سا ہوا
بس خیر ہے بھی اور نہیں بھی۔۔۔۔۔کل بتاؤنگی رضیہ کا جواب تھا
ٹھیک ہے میری بہن پھر کل میں جلدی آجاؤں گا بتادینا۔۔۔
جانی نے کہا اور دونوں کو الوداع کہ کر چل پڑا۔
اس نے ان دونوں کا الوداع کہا اور واپس چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن صبح سات بجے کے قریب وہ کنوے کے پاس کھڑا اختر کا انتظار کررہا تھا
اختر نے آتے ہی پوچھا ۔۔۔کچھ کھانا پینا ہے تو گھر چلتے ہیں؟؟؟
نہیں میں روٹی کھا کر آیا ہوں جانی نے جواب دیا اور دونوں بیل گاڑی پہ سوار قصبے کی کی طرف چل پڑے۔۔۔
یار بھینس کیسی ہے جو تجھے مکھیا نے دی تھی؟؟؟اختر نے پوچھا
بھینس بہت اچھی دی مکھیا نے یار۔۔۔ جانی کا جواب تھا۔۔۔۔۔۔ دودھ بھی دیتی ہے
پر یار ایک بات تو بتا؟؟؟جانی نے اختر کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔یہ مکھیا کی بڑی بیٹی راما کیسی لڑکی ہے؟؟؟ میرا مطلب ہے گاؤں والوں کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے؟؟؟؟
یار وہ تو بہت بھلی مانس لڑکی ہے ۔۔۔سب کا خیال رکھنے والی۔۔۔۔مگر تو کیوں اس کا پوچھ رہا ہے؟؟؟ کوئی چکر ہے کیا؟؟؟ اختر نے ایک آنکھ دبا کر اسے چھیڑا۔۔۔۔۔
ارے نہیں یار۔۔۔۔۔وہ کل میں اس کے گھر گیا تو بہت خوش ہوئی تھی وہ مجھے دیکھ کر۔۔۔۔۔اور مادھو سے اس نے زرا اکھڑ سے لہجے میں بات کی تھی ۔۔۔۔۔مجھے لگا شاید بہت غصے والی ہے؟؟؟؟ جانی اختر سے کوئی بات چھپاتا نہیں تھا مگر ۔۔۔۔۔اسے ابھی یہ بتانا نہیں چاہتا تھا کہ راما اس کو بھا گئی ہے۔۔۔۔جب تک اسے یہ یقین نہ ہوجاتا کہ۔۔۔۔راما واقعی اس کے لیے اپنے دل میں کوئی جزبات رکھتی ہے یا محض وہ مادھو کی ہار پہ خوش تھی۔۔۔۔
یعنی جانی کو جب تک یقین نہ ہوجاتا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ دونوں طرف ہے برابر لگی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔وہ کسی سے کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا تھا۔۔۔
ہو سکتا ہے تمہاری طرف سےنہ سہی راما کی طرف سے کوئی،چکر، ہو؟؟؟؟
اختر نے پہلے والے انداز میں کہا اور دونوں ہنس دیے۔۔۔۔
پتہ نہیں یار ۔۔۔کیا پتہ ایسا ہی ہو۔۔۔۔جانی یقین و بے یقینی کی سی کیفیت سے بولا۔۔۔۔۔
تجھے پتہ ہے ۔۔۔اختر نے جانی سے کہا۔۔۔۔وہ سالا مادھو بہت بڑا حرامی ہے۔۔۔
بہت عرصے سے وہ راما کے پیچھے کتے کی طرح پھررہا ہے مگر راما اسے گھاس نہیں ڈالتی۔۔۔۔وہ تو اس سے نفرت کرتی ہے ۔۔۔اس کے کرتوتوں کی وجہ سے۔۔۔۔۔
سالا ساری رات شراب میں غرق رہتا ہے۔۔۔۔۔اور تین اس کے دوست ہیں وہ بھی اسی کی طرح حرامی۔۔۔۔۔۔۔۔اختر نے جانی کو آگاہ کیا۔۔۔۔۔مادھو کے لیے نفرت اس کے لہجے سے صاف جھلک رہی تھی۔۔۔۔۔
ہم کیا کرسکتے ہیں پیتا ہے تو پیے شراب۔۔۔ہمیں کیا؟؟؟؟ جانی نے عام سے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
ہاں پر تو دھیان رکھنا وہ بڑا کمینہ ہے تیرے لیے اس کے دل میں ضرور نفرت بھری ہوگی ۔۔۔۔تونے راما اور سارے پنڈ والوں کے سامنے اس کی عزت مٹی میں ملادی تھی اس دن میلے میں ۔۔۔تو وہ یہ بات کبھی نہیں بھولے گا۔۔۔۔
اختر نے اسے گویا خبردار کیا
دیکھا جاۓ گا۔۔۔۔ جانی نے بے پروائی سے جواب دیا اور۔۔۔بیلوں کو ہانک لگائی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راما آج پھر پوجا والے کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی۔۔۔اور سارے گھر والے اس کی اس اچانک تبدیلی پر خوشگوار حیرت میں مبتلا تھے
وہ مورتی سے کچھ دور بیٹھی ہاتھ جوڑے دل ہی دل میں مسلمانوں کے خدا سے جانی کی سلامتی کی پراتھنا کررہی تھی۔۔۔۔۔
اسے باقاعدہ دعا مانگنا نہیں آتا تھا۔۔۔نہ اس نے کبھی مانگی تھی۔۔۔بس اپنی سہیلی رضیہ کو ایک دوبار نماز پڑھ کر دعا مانگتے دیکھا تھا ۔۔۔۔اور وہ اب اسی طرح دعا مانگ رہی تھی۔۔۔فرق یہ تھا کہ اس نے دونوں ہاتھ معافی کے انداز میں جوڑ رکھے تھے۔۔۔اور آنکھیں بند کررکھی تھیں۔۔۔۔۔
اسے مسلمانوں کے خدا کے ہونے کا یقین ہوچلا تھا۔۔۔۔۔
کیونکہ اس دن اس نے آزمالیا تھا ۔۔۔۔۔اسے لگا تھا کہ اس نے مسلمانوں کے جس خدا سے پراتھنا کی تھی ۔۔۔اسی نے جانی کو بھیجا ہوگا۔۔۔کیونکہ جانی مسلمان تھا اس لیے مسلمانوں کے خدا نے ہی اسے اس دن بھیجا ہوگا۔۔۔۔۔
اسی لیے وہ اب جانی کے لیے اسی کے خدا سے پراتھنا کررہی تھی جس کو جانی مانتا تھا ۔۔۔۔اسے پورا یقین تھا جانی اس کا ہوجاۓ گا۔۔۔
یہ یقین کیوں تھا اسے خود بھی اس بات کا پتہ نہیں تھا
اب راما کے دل میں وہ بے چینی نہیں تھی ۔۔۔۔۔ایک سکون تھا ۔۔صبر تھا۔۔۔۔اور یقین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو جانی واپس آکر کنوے کے پاس کھڑا رضیہ کا انتظار کررہا تھا۔۔۔۔
اختر اپنے گھر جاچکا تھا
انتظار تو وہ رضیہ کا کررہا تھا مگر دل کہ رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔تو رضیہ کا نہیں راما کا انتظار کر رہا ہے۔۔۔۔اور نہ جانے کیوں اس نے چاہتے ہوۓ بھی دل کی بات کی نفی نہیں کی۔۔۔۔۔شاید اسے راما کا بھی انتظار تھا۔۔۔۔۔
اس آنکھیں گاؤں سے آنے والی پگڈنڈی پر لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد دل کی مراد برآئی۔۔۔وہ دونوں پگڈنڈی پر ایک دوسری کے آگے پیچھے چلی ارہی تھیں۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے وہ قریب آرہی تھیں ۔۔۔۔۔۔بےقراری میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔۔
قریب آکر رضیہ نے سلام کیا تو اس نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔
راما دونوں ہاتھ جوڑکر پرنام کیا۔۔۔۔راما کی یہ ادا جانی کے دل کو چھوگئی۔۔اس نے مسکرا کر راما سے اس کا حال پوچھا۔۔۔۔۔اور رضیہ سے مخاطب ہوا۔۔۔۔
ہاں رضیہ بہن۔۔۔۔۔بتاؤ کیا کہنا تھا تم نے مجھے؟؟؟
یہ سن کر راما دوسری لڑکیوں کی طرف چل پڑی ۔۔۔اور رضیہ جانی کو تھوڑا پرے لے گئی۔۔۔۔۔
جانی بھائی۔۔۔رضیہ بولی
مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی ۔۔۔۔۔یہ جو راما ہے نا میری سہیلی۔۔۔۔یہ آپ کو بہت پسند کرتی ہے۔۔۔۔محبت ہوگئی اسے آپ سے۔۔۔۔
جانی کو لگا۔۔۔رضیہ نے بات نہیں بلکہ۔۔۔۔اسے آب حیات پلا دیا ہے۔۔۔۔
سرشاری کی عجیب سی کیفیت اس کی رگ رگ میں دوڑگئی۔۔۔۔
اسے کہنا وہ بھی مجھے پسند ہے۔۔۔جانی نے نظریں جھکاکر اعتراف کیا۔۔۔۔
شرم اس کے چہرے پہ واضع تھی۔۔۔۔۔
وہ بات یہ ہے کہ راما شرماتی ہے یہ کہنے سے تو اس نے مجھے کہا تمہارا بھائی جیسا ہے تو تم کہ دو اس سے ۔۔۔رضیہ نے وضاحت کی۔۔۔
بھائی جیسا کیوں بھائی کہو رضیہ بہن میں نے آج تک اختر اور تم کو کبھی پرایا سمجھا ہی نہیں ۔۔۔۔سگا ہی سمجھا۔۔۔۔
ہاں یہ تو ہے جانی بھائی میں جانتی ہوں ۔۔۔۔۔۔رضیہ کے لہجے میں بہنوں والی عقیدت اور محبت تھی۔۔۔۔
بھائی راما آپ سے ملنا چاہتی ہے آج یا کل؟؟؟؟؟
رضیہ نے جانی سے کہا۔۔۔۔
نہیں رضیہ بہن میں آج یا کل نہیں مل سکتا۔۔۔۔جانی نے مجبوری بتائی۔۔۔۔۔دن میں تو میں قصبے جاتا ہوں کام کو۔۔۔۔رات کو آنہیں سکتا کیونکہ آنے جانے میں وقت لگے گا تو اگلے دن کام پہ نہیں جاسکوں گا۔۔۔۔۔اس لیے اسے بولنا جمعرات کو رات کو اسی کنوے پہ آجاۓ۔۔۔۔جمعہ کو میں چھٹی کرتا ہوں تو صبح ہونے سے پہلے واپس جاسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی میں راما سے پوچھ کر بتاتی ہوں رضیہ یہ کہ کر راما کی طرف چل پڑی۔۔۔
اس ساری بات چیت کے دوران راما بار بار ان دونوں کی طرف دیکھتی رہی تھی۔۔۔
اور اس کا دل بے چین سا رہا تھا۔۔۔۔۔دل میں ایک خوف سا رہا ۔۔۔۔۔۔ٹھکراۓ جانے کا خوف۔۔۔۔رد کیے جانے کا خوف۔۔۔۔
جس دن جانی راما کے گھر گیا تھا اسی دن راما رضیہ کے گھر پہنچ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔اس نے کھل کر ساری بات اپنی بچپن کی سہیلی کو بتائی اور اس سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔۔۔
اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ یہ سب وہ خود جانی سے کہ دیتی۔۔سو نے رضیہ کا سہارا لیا۔۔۔۔
رضیہ نے راما کو مختصر بات بتائی اور جانی کی کہی بات دہرادی کہ وہ صرف جمعرات کو ہی آسکتا ہے۔۔۔۔
راما وصال محبوب چاہتی تھی۔۔۔چاہے اس کے لیے اسے قیامت تک کا انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑتا۔۔۔۔جمعرات تو دو دن بعد تھی۔۔۔۔
راما نے حامی بھر لی۔۔۔اور کہا اس کو بول دینا ضرور آجاۓ۔۔۔۔میں آدھی رات سے پہلے آجاؤنگی کنوے پہ۔۔۔۔
رضیہ نے راما کی ساری بات جانی کو بتادی۔۔۔۔تو اس نے جمعرات کا کہ کر جانے کی اجازت چاہی۔۔۔۔
راما کو دنیا بھر کی دولت مل گئی تھی۔۔۔۔وہ بے حد خوش تھی۔۔۔۔اتنی کہ اسے اپنا گھڑا بھرنا بھی یاد نہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضیہ نے اسے گھڑا بھر کر دیا اور۔۔۔۔۔۔وہ اٹھاکر چل دی
گھڑے کاوزن بھی اسے محسوس نہیں ہورہا تھا۔۔۔۔
اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ہوا میں چل رہی ہے۔۔۔۔
خوشی سے اس کے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔۔۔۔
ٹھکراۓ جانے۔۔۔۔۔۔ رد کیے جانے کا خوف ختم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ انتظار نے لے لی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
وصال یار کے انتظار نے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جمعرات تھی
جانی نے یہ دودن جیسے گزارے تھے وہی جانتا تھا۔۔۔۔
انتظار میں لذت سے زیادہ ۔۔۔۔اذیت ہوتی ہے
یہ اسے پہلی بار پتہ چلا تھا۔۔۔۔۔۔
رات کو وہ اپنے ڈیرے پہ ہی سوتا تھا۔۔۔۔۔مگر آج اسے نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔وہ چارپائی پہ لیٹا راما کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا ۔۔۔قریباً ساڑھے دس بجے اس نے جانے کا ارادہ کیا۔۔۔۔گھڑی نام کی اس کے پاس کوئی چیز نہیں تھی محض اندازے یا چاند ستاروں سے وقت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔۔۔۔اس نے سوچا میرے پہنچنے تک راما بھی شاید آچکی ہو۔۔۔ورنہ انتظار کرلےگا۔۔۔یہ سوچ کر اس نے ایک نظر اپنے جانوروں پہ ڈالی لالٹین اور لاٹھی اٹھا کر اللہ کو نام لیا اور چل پڑا۔۔۔۔۔
اسے گاؤں سے جانے والے کچے راستے سے نہیں جانا تھا ۔۔۔اس کا ڈیرہ پہاڑ کے پاس تھا اس نے وہیں سے پہاڑ کو عبور کرنا تھا اور کھیتوں اور ویران پڑے ٹیلوں میں سے گزر کر اندان گاؤں جانا تھا۔۔۔۔اسے کسی بھی قسم کا کوئی ڈر یا خوف نہیں تھا ۔۔۔یہ سارا علاقہ اس کا اپنا دیکھا بھالا تھا اور راستے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح اسے ازبر تھے۔۔۔بس خطرہ اسے ان سانپوں سے تھا جو یہاں بکثرت پاۓ جاتے تھے۔۔۔ان کے لیے اس نے لاٹھی لے لی تھی کہ اگر کہیں کسی سانپ سے مڈبھیڑ ہوگئی تو کام آۓ گی۔۔۔اس نے راکھ میں دبائی موٹی لکڑیوں کے کوئلوں کا پھر سے زندہ کیا اور تنکے ڈال کر ہوادی تو آگ جل اٹھی۔۔۔اس نے لالٹین جلائی اور نکل پڑا۔۔۔۔اس دور میں آگ لگانے کا سامان بھی عام نہیں تھا ۔۔۔۔شام کوکوئی ایک گھر پہلے آگ جلا لیتا تو باقی سارے اس آگ سے آگ جلاتے تھے۔۔۔۔۔
اس نے پہاڑ عبور کیا۔۔۔۔اور نیچے اتر کر کھیتوں کے بیچ جاتی ایک پگڈنڈی پر ہولیا۔۔۔۔۔یہ پگڈنڈی ان قدرتی ندی نالوں اور اونچے نیچے ٹیلوں سے ہوکر گزرتی تھی ۔۔۔جہاں آج اندان گاؤں کاایک قبرستان ہے۔۔۔۔۔
وہ بخیریت وہاں تک پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔ہوا بند تھی اور یہ بات اس کے حق میں تھی۔۔۔ورنہ لالٹین بجھ جاتی تو دوبارہ جلانے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
وہ دھیمی رفتار سے چلتا ہوا اس کچے راستے کے قریب پہنچ چکا تھا جو اسکے گاؤں سے اندان گاؤں اور قصبے کو جاتا تھا۔۔۔۔اور اس راستے کے دوسری طرف قریب ہی اندان گاؤں کا کنواں بھی تھا۔۔۔۔۔اس نے اس کچے راستے کو پار کیا اور کنوے پہ جا پہنچا۔۔۔۔ اس سارے سفر میں تقریباً اسے چالیس سے پنتالیس منٹ لگے ہونگے۔۔۔ کنوے پہ اس کے سوا اور کوئی ذی روح نہیں تھا۔۔۔۔اس نے کنوے سے پانی پیا اور وہیں اس کی منڈیر پہ بیٹھ گیا۔۔۔۔۔اس نے اپنی نظریں گاؤں سے آنے والی پگڈنڈی پر لگادی تھی ۔۔۔۔۔لالٹین کو اس نے کنوے کی دوسری دیوار کی طرف لگادی تھی۔۔۔چونکہ کنواں زمیں سے دو فٹ اونچا بنایا گیا تھا تاکہ کوئی جانور ۔۔۔انسان یا حشرات اچانک کنوے میں نہ گرے۔۔۔اس لیے لالٹین کی روشنی اندان گاؤں سے چھپ گئی تھی۔۔۔۔
گاؤں سے آتی پگڈنڈی کے دونوں طرف کھیت تھے اور اس میں اس وقت تقریباً تیار فصل کھڑی تھی۔۔۔جس سے راستہ چھپ سا گیا تھا۔۔۔اس کی نظریں مسلسل آنے والے راستے پر تھیں۔۔۔
اسے بیٹھے کافی دیر ہوگئی تھی مگر راما کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔۔۔۔اسے لگا شاید وہ آج نہ آنے پاۓ؟؟؟
وہ ابھی سوچ میں ہی تھا کہ کیا کرے؟؟؟ اتنے میں پگڈنڈی پہ ایک ہیولہ سا آتادکھائی دیا ۔۔۔وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔اور اس کی طرف چل پڑا ۔۔۔اس کے دل کی صدا تھی کہ یہ راما کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔۔۔وہ اس کی طرف بڑھتا گیا ہیولہ واضع ہوتے ہوتے جیسے چاند میں تبدیل ہوگیا۔۔یہ راما ہی تھی۔۔۔اسے لگا جیسے ہر طرف روشنی ہوگئی ہے۔۔۔۔۔حالانکہ اندھیری راتیں تھیں۔۔۔
راما نے آتے ہی ہاتھ جوڑ کر حسب عادت اسے پرنام کیا۔۔۔تو اسے کے لبوں پہ تبسم پھیل گیا۔۔۔۔
دیر کردی؟؟؟خیر تھی راما۔۔۔اس نے بےتابی سے سوال کیا
ہاں پتہ جی آج زرا لیٹ باڑے میں گئے تھے اس لیے دیر ہوگئی۔۔۔شما (معافی) چاہتی ہوں۔۔۔راما نے معصوميت سے ہاتھ جوڑدیے۔۔۔
ارے نہیں نہیں ۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ۔۔جانی کو اچھا نہیں لگا تھا اس کا یوں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا۔۔۔میں تو ایسے پوچھ رہا تھا۔۔۔
جانی دوسرے لوگوں کی طرح ان پڑھ ضرور تھا ۔۔۔مادھو کی طرح کمینہ نہیں تھا ۔۔عورتوں کی عزت کرنا جانتا تھا۔۔۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ کنوے کی منڈیر پہ آبیٹھے۔۔۔ ہم کو ایسے ہی ساتھ ساتھ رکھنا مسلمانوں کے خدا۔راما کے دل سے صدا نکلی تھی۔۔۔۔۔
دونوں نے ایک دوسرے کا احوال پوچھا اور خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔
راما کو جھجک سی تھی ۔۔۔اسے جانی سے کوئی خطرہ نہیں تھا نہ کوئی اور ڈر۔۔۔۔۔
یہ دورِ حاضر کی نام نہاد محبت نہیں تھی کہ اپنے ہی محبوب سے اپنی عزت کا خطرہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے بس ایک جھجک سی تھی اور بس۔۔۔۔۔
راما۔۔۔۔۔جانی نے اسے پکارا
بولیے جی۔۔۔راما کی دھیمی سی آواز ابھری تھی۔۔۔
اندھیری رات اور چاروں طرف ہو کا عالم تھا۔۔۔۔۔خاموشی ایسی تھی کہ ۔۔۔کیڑے بھی چلتے تو ان کے قدموں کی آواز بھی آتی۔۔۔۔ایسے عالم میں کنوے کی منڈیر پہ بیٹھے وہ دونوں کوئی روحیں لگ رہیں تھی۔۔۔۔دوسری طرف رکھی لالٹین کی لو زندگی سے لڑنے کی اپنی سی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔دور سے اگر کوئی ان کو یوں بیٹھے دیکھ لیتا تو ۔صبح ضرور لوگوں سے کہتا پھرتا کہ میں نے رات کنوے پہ بھوت دیکھے تھے۔۔۔۔۔
راما ۔۔۔۔۔۔۔جانی کی آواز نے ایک بار پھر سکوت توڑا۔۔۔۔
کچھ کہوگی نہیں؟؟؟؟
میں کیا کہوں جی ۔۔۔آپ ہی کچھ بول دیں ۔۔۔راما ابھی بھی اسی کیفیت میں تھی۔۔۔۔شاید اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ وہ جانی کے ساتھ بیٹھی ہے؟؟؟۔۔کل تک جس کی ایک جھلک کو ترس رہی تھی آج اس کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔۔بےحد خوش تھی وہ۔۔۔۔
آپ کے گاؤں کا کیا نام ہے جی؟؟؟ آخر راما نے ہمت کرکے جانی سے پوچھ ہی لیا۔۔۔
جانی نے اسے اپنے گاؤں کا نام بتایا۔۔۔تو راما بولی اچھا وہ تو میں دیکھا ہے
میں نے آپ کوپہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔اس دن میلے میں دیکھا ۔۔۔۔راما بات سے بات نکال کر جانی کے منہ سے الفاظ سننا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ہاں اس دن میں میلہ دیکھنے گیا تھا ۔۔۔کشتی کا ارادہ نہیں تھا مگر۔۔۔۔۔۔
آپ نے بہت اچھا کیا اس دن مادھو کا غرور توڑ کر ۔۔۔راما نے اس کی بات کاٹی۔۔۔میرے دل کو بہت سکون ملا تھا اس دن ۔۔۔بہت خوشی ہوئی تھی مجھے۔۔۔اور ماتا پتا اور میری دیدی بھی خوش تھے۔۔۔
بس اللہ نے عزت رکھ لی میری اس دن ۔۔۔جانی نے عاجزی سے کہا۔۔۔
لفظ اللہﷻ راما نے پہلے بھی سن رکھا تھا مگر جانی کے منہ سے یہ لفظ سن کر اسے ایک عجیب سی تمانیت اور یقین کا احساس ہوا تھا۔۔۔
پھر راما نے اس دن کی ساری بات جانی کو بتائی کہ کیسے اس نے دعا کی خدا کو پکارا اور کیسے جانی عین اسی وقت ان کے گھر آگیا۔۔۔۔۔
جانی دوسرے مسلمانوں کی طرح ایک عام سا مسلمان تھا مگر۔۔۔۔۔۔خدا پہ یقین و ایمان اس کی گھٹی میں تھا
نماز پڑھتا تھا دعا مانگتا تھا ۔کھرا انسان تھا دل کا سچا مسلمان۔۔۔۔۔
راما کے منہ سے اپنے خدا کی تعریف سن کر اسے بے حد بھلا لگا تھا۔۔۔۔۔۔
راما۔۔۔۔تم خدا کو مانتی ہو؟؟؟ اس نے یونہی تجسس کی خاطر پوچھ لیا۔۔۔
راما کے جواب نے اس کے پورے جسم میں ایک سکون بھر دیا تھا۔۔۔
پہلے تو میں کسی کوبھی نہیں مانتی تھی ۔۔۔۔راما گویا ہوئی
نہ بھگوان کو نہ مسلمانوں کے خدا کو مگر۔۔۔۔۔اس دن جب تم ہمارے گھر آۓ تھے۔۔۔اس دن مجھے لگا تھا کہ کوئی ہے ضرور ۔۔۔۔جو ہماری سن کر پوری بھی کردیتا ہے۔۔۔۔
بات سے بات نکلتی گئی اور وقت گزرتا رہا۔۔۔۔
پھر جانی کو ہی خیال آیا کہ راما کو اب واپس چلے جانا چاہیے۔۔۔۔اس نے راما سے کہا چلو میں تمہیں گھر تک چھوڑ آؤں پھر چلا جاؤں گا۔۔۔۔
راما نے کہا بھی میں چلی جاؤں گی مگر وہ نہیں مانا اور دونوں پگڈنڈی پہ آگے پیچھے چل پڑے۔۔۔۔
راما نے اس سے اگلی جمعرات کو ملنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔۔۔وہ راما کے گھر سے زرا دور کھیتوں میں ہی کھڑا رہا ۔۔۔مگر اس کی نظریں اس وقت تک راما پر جمی رہیں جب تک وہ اپنے گھر کی دہلیز پار نہیں کرگئی۔۔۔۔دروازے پہ کھڑے ہوکر راما نے ایک بار پیچھے مڑکر اس جگہ دیکھا تھا جہاں جانی کھڑا تھا مگر۔۔۔اندھرے میں اسے صرف لالٹین کی ہلکی سی لوہی نظر آئی تھی۔۔۔جس سے اسے لگا تھا کہ جانی ابھی بھی کھڑا ہے۔۔وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی ۔۔۔جانی واپس مڑگیا۔۔۔۔کنوے سے ہوتا ہوا وہ جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے واپس ڈیرے پہ پہنچ گیا۔۔۔۔چارپائی پہ لیٹا تو اس کو پھر راما کے تصور نے آگھیرا۔۔۔۔۔وہ کتنی پیاری ہے اس نے سوچا اور بھولی بھی۔۔۔مگر بہادر ہے جو مجھ سے ملنے آگئی تھی ڈر بھی نہیں لگا اس کو؟؟؟؟وہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے کیا پتہ وہ بھی تو کیسی کیسی جگہ سے گزر کر ملنے گیا تھا ۔۔۔۔
اسے شاید خبر نہیں تھی کہ۔۔۔
محبت بزدل سے بزدل آدمی کو بھی بہادر بنا دیتی ہے۔۔۔۔
پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگی ۔۔۔
اللہ اکبر کی صدا اس کے کانوں میں پڑی تو اس کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔اتنی جلدی صبح ہوگئی؟؟؟اس نے سوچا
وہ ابھی پورا طرح بیدارنہیں ہوا تھا۔۔۔اسے پتہ ہیں نہیں چلا تھا کہ وہ ساری رات وصال یار میں گزار چکا تھا۔۔۔کچھ دیر اور نہ آتا توراستے میں ہی فجر ہوجاتی اسے۔۔۔۔۔
اس نے اٹھ کر نماز پڑھی ۔اپنے کام کیے اور دودھ لیکر گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔جمعہ کو وہ قصبے نہیں جاتا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر یہ اس کا معمول ہوگیا ۔۔
اسے جمعرت کا انتظار رہنے لگا تھا۔۔۔زندگی کا ایک جز ہی بن گیا تھا جیسے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دن جمعرات ہوتی وہ ستارے دیکھ کر وقت کا اندازہ کر کے نکل پڑتا ۔۔۔ایک دو دفعہ سانپوں سے بھی سامنا ہوا تھا مگر بھاگ گئے تھے یا جانی کے ہوتھوں مارے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔سانپ آج بھی پوٹھوہار میں بکثرت پاۓ جاتے ہیں۔۔۔۔
راما اب بہت خوش رہتی تھی۔۔۔وہ پوجا والے کمرے میں روز جاتی تھی اس کے ماتا پتا خوش تھے کہ راما پوجا کرنے لگی ہے مگر۔۔۔۔یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ اس کمرے میں پراتھنا کرنے ضرور جاتی تھی مگر۔۔۔۔مسلمانوں کے خدا سے ۔۔۔اسے خدا پہ یقین سا ہوچلا تھا۔۔۔۔اور اس یقین میں زیادہ ہاتھ جانی کابھی تھا۔۔۔وہ اکثر بات میں کہ دیتا تھا ۔۔۔اللہ کریگا۔۔۔اور راما کو یقین ہوجاتا تھا کہ ہوگا۔۔۔۔۔اس کے محبوب کی ہر بات اس کے لیے حرف آخر تھی۔۔۔۔جانی نے اسے کبھی مسلمان ہونے کا نہیں کہا تھا مگر۔۔۔یہ ضرور کہتا تھا کہ ۔راما ہماری شادی کیسے ہوگی؟؟؟ ہمارے مذہب الگ ہیں ۔۔۔۔اور راما ہر بات ایک ہی جواب دیتی تھی ۔۔۔کہ میں تمارے سوا کسی اور سے شادی کر ہی نہیں سکتی۔۔۔وقت آۓ گا تو دیکھ لیں گے۔۔۔۔۔
ان کی محبت اور ملاقات کی بات اب تک تین لوگوں کے سوا اور کسی کو نہیں پتہ تھی۔۔۔رنجیت سنگھ۔۔۔اختر اور رضیہ کے سوا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک رات وہ ملنے آیا تو راما نے اسے بتایا کہ۔۔۔آج مادھو کاپتا مادھو کے لیے میرا ہاتھ مانگنے آیا تھا۔۔۔۔۔پھر تمہارے پتا نے کیا کہا؟؟؟؟ جانی بے چین ہوگیا تھا۔۔۔پتا جی نے جواب دے دیا مادھو ان کو پسند ہی نہیں ۔۔۔اور میں نے بھی کہ دیا تھا کہ میں مرجاؤں گی پر مادھو سے شادی نہیں کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔
جانی کو کچھ حوصلہ ہوا
ہم دونوں کہیں بھاگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔راما کے الفاظ جانی کو حیرت زدہ کر گئے۔۔۔اس نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔۔۔اسے لگتا تھا راما اپنے گھر والوں کو منا کر اس سے شادی کر لےگی مگر۔۔۔اسے علم نہیں تھا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔۔۔۔۔ان کے پاس بھاگنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔اگر دونوں ساتھ جینا مرنا چاہتے تھے ورنہ۔۔۔۔وہ دونوں الگ الگ مذہب کے تھے ۔۔۔۔بہتر ہوتا ایک دوسرے کو بھول جاتے۔۔۔۔۔مگر انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ دونوں کبھی الگ نہیں ہونگے چاہیے کچھ بھی ہوجاۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادھو رام اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا شراب پیے جارہا تھا ۔۔۔اسے یہ غم کھاۓ جارہا تھا کہ راما کے پتا نے اس کے رشتے کو ٹھکرا دیا ہے۔۔۔وہ یہ تو جانتا تھا کہ راما اسے پسند نہیں کرتی مگر ۔۔۔اس بات کی اسے توقع نہیں تھی کہ اس کا تایا بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔۔۔وہ غصے میں تھا اور ایک ہی بات دہراۓ جارہا تھا ۔۔۔راما میری ہے ۔۔۔میں سالی کو گھر سے اٹھا لاؤنگا۔۔۔۔۔اپنے تایا کو جانتا ہے نا تو؟؟؟ اس کے دوست نے اس سے کہا ۔۔۔وہ مکھیا ہیں گاؤں کے تجھے اور تیرے سارے پریوار کو گاؤں سے نکلوادیں گے۔۔۔
تاۓ کی تو۔۔۔۔۔مادھو نے اپنے بھگوان داس کو گالی دی۔۔۔۔
دیکھ لونگا میں سب کو ۔۔۔دیکھ لونگا۔۔۔۔شراب نے اس کی سوچنے کی تمام صلاحیتیں سلب کرلی تھی۔۔۔۔۔اور وہ اول فول بکے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اس کے دوست بھی اس کے کردار کے ہی تھے سارا دن آوارگردی اور مادھو کے خرچے پہ شراب پینے کے علاوہ ان کو اور کوئی کام نہیں تھا۔۔۔۔۔۔میں سالی راما کو نہیں چھوڑونگا مادھو نے غصے سے کہا ۔۔۔تم میں سے کون کون میرے ساتھ ہے ؟؟؟وہ اپنے دوستوں سے مخاطب ہوا۔۔ایک لمحے کو تو سب کو چپ لگ گئی۔۔۔۔سالے بولتے کیوں نہیں؟؟ مادھو نے غصے سے ان کی طرف دیکھا۔۔۔مفت کی شراب پیتے رہے ہو آج کام پڑا تو سالوں کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔۔مادھو نے طعنہ دیا تو اس کے دوستوں نے نشے میں ہاں کردی۔۔۔ہم سب ساتھ ہیں تیرے مادھو کرو جو کرنا ہے۔۔انہوں نے مادھو کو یقین دلایا کہ وہ اس کے ساتھ ہیں ۔۔ویسے بھی مفت کی شراب کوئی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔کام ہوگیا تو میں سب کو پیسہ دھیلا بھی دونگا اور شراب کو دو بوتل ایک آدمی کو۔۔۔۔۔مادھو نے ان کو لالچ دیا۔۔۔تو سب کی رال ٹپکنے لگی
چلو پھر ابھی چلتے ہیں اور اٹھا لاتے ہیں سالی کو۔۔۔۔مادھو ایک دم جوش میں آگیا ۔۔۔ابھی؟؟؟؟سب نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔۔۔ہاں ابھی مجھ سے اور صبر نہیں ہوتا مجھے اپنی بےعزتی کا انتقام لینا ہے راما اور اس کے پریوار سے۔۔چلو مادھو اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔تو وہ بھی سب اس کے ساتھ تیار ہوگئے۔۔۔۔کسی نے کرپان اٹھالی ۔۔تو کسی نے برچھی اور راما کے گھر کی طرف چل پڑے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کافی بیت چکی تھی ۔۔۔جانی راما کو اس کے گھر چھوڑ نے آیا ۔۔۔راما جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچی اس نے مڑ کر ایک بار جانی کو دیکھنا چاہا ۔۔۔۔۔لالٹین کی ہلکی سی لو اس کے موجود ہونے کا ثبوت دےرہی تھی۔۔۔راما کو تحفظ کا احساس ہوا۔۔۔بےساختہ اس کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔۔۔اور وہ اندر داخل ہوگئی۔۔۔۔۔۔
جانی مڑا اور واپس چل دیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادھو اپنے دوستوں کے ساتھ راماکی گھر والی گلی کے سرے پہ پہنچ چکا تھا ۔۔۔ابھی وہ اس کے گھر سے تھوڑا دور ہی تھا کہ ۔۔۔اس نے کھیتوں کی طرف پگڈنڈی سے ایک ساۓ کو راما کے گھر کی طرف آتے دیکھا ۔۔۔۔وہ سایا راما کے دروازے پہ پہنچ کر ایک لمحے کا رکا۔۔۔اس نے مڑ کر پھر اس پگڈنڈی کی طرف دیکھا اور گھر میں داخل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادھو اور اس کے ساتھی دم سادھے یہ سب دیکھ رہے تھے۔۔۔نشے میں ہونے کے باوجود مادھو کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ یہ۔۔۔۔راما ہے۔
مادھو آگے آنے کی بجاۓ اپنے دوستوں کو لیکر واپس حویلی چلا گیا۔۔۔اس کے ذہن میں بس ایک ہی سوال گردش کررہا تھا کہ ۔۔۔راما اس وقت کہاں سے آئی ہے۔۔۔۔اور کیوں؟؟؟ جس کا اظہار اس نے اپنے دوستوں سے بھی کردیا۔۔۔۔کسی کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا ۔۔۔وہ سب اندازے ہی لگا سکتے تھے سو لگاتے رہے۔۔۔۔۔۔مادھو اور اس کے دوستوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت جانی سے مل کر آرہی ہے۔۔۔۔۔مادھو نے شراب کی بوتل کھولی اور پینے بیٹھ گیا۔۔۔۔تجسس سے اس کا دماغ ماؤف ہورہا تھا۔۔۔۔۔
کل سے ایک آدمی رات کو راما کے گھر کی چوکیداری کریگا ۔۔۔۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا۔۔۔پتہ تولگے سالی جاتی کہاں ہے ؟؟؟؟کسی سے ملنے تو نہیں جاتی؟؟؟
ایک نے حامی بھری کہ کل وہ رات کو راما کے گھر کی نگرانی کریگا۔۔۔۔۔مادھو نے اسے ایک بوتل کا لالچ دیا ۔۔۔اور کہا اگر تو نے پتہ لگالیا کہ وہ کہاں جاتی ہے تو پورے تین روپے تجھے دان کرونگا ۔۔۔اور ایک بوتل الگ سے دونگا۔۔۔۔۔۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔۔۔۔اس کے لیے اتنا انعام ہی کافی تھا ۔۔۔میں پتہ کرکے چھوڑونگا مادھو ۔۔۔۔تو چنتا نہ کر۔۔۔اس کے دوست نے جوش سے زیادہ لالچ سے کہا تھا۔۔۔۔۔اور پھر اگلی رات سے معمول ہوگیا جیسے ہی رات ہوتی دو آنکھیں راما کے گھر کا طواف شروع کردیتیں۔۔۔۔۔۔پورے پانچ دن اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا تو نگرانی کرنے والا اکتا گیا ۔۔۔۔۔اوپر سے روز مادھو بھی اسے طعنے دیتا ۔۔۔۔آیا بڑا جاسوس ۔۔۔۔ابھی تک یہ پتہ نہیں کر سکا وہ کدھر جاتی ہے ؟؟؟؟بول رہا تھا میں پتہ کرکے دونگا۔۔۔۔۔تو چنتا نہ کر ۔سالے مفت کی شراب پینے آجاتے ہیں ۔۔۔کام کا ایک بھی نہیں ہے ۔۔۔مادھو ان کو جتنا بھی ذلیل کرتا مگر وہ مفت کی شراب ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔۔۔۔سو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے تھے۔۔۔۔غیرت انا ان میں کسی میں نام کو بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔اگلی رات مادھو کا دوسرا دوست راما کے گھر کی نگرانی پہ تھا۔۔۔۔۔وہ نظریں دروازے پہ لگاۓ ایک جگہ چپکا بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔آج جمعرات تھی۔۔۔۔۔۔۔۔رات کچھ ہی گزری ہوگی ۔۔۔نگرانی کرنے والے کو شراب اور نیند نے تقریباً بےبس کردیا تھا ۔۔۔بہت مشکل سے وہ آنکھیں پھاڑے بیٹھا تھا۔۔۔۔عین ممکن تھا کسی پل نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ۔۔۔۔۔۔راما کے گھر کا دروازہ کھلا اور ۔۔۔۔۔آہستہ سے ایک سایہ سا باہر نکلا۔۔۔اس ساۓ نے دھیرے سے دروازہ بند کیا اور کنوے کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر چل پڑا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانی نے اندازے سے وقت کا تعین کیا ۔۔۔لالٹین جلائی اور ڈیرے سے نکل پڑا۔۔۔۔۔پہاڑ عبور کرکے مقررہ راستے پہ چلتا ہوا وہ کنوے پہ جا پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد راما بھی آگئی ۔۔۔۔دونوں نے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا اور۔۔۔۔کنوے کی منڈیر پہ بیٹھ گئے۔۔۔۔۔ان کو خبر بھی نہیں تھی کہ آج وہ اکیلے نہیں ہیں۔۔۔۔کچھ ہی دور کھیت سے دو آنکھیں ان کو دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔دونوں باتوں میں مگن ہوگئے ۔۔۔۔
جانی۔۔۔۔راما جانی سے مخاطب ہوئی ۔۔۔کہیں دور چلتے ہیں یہاں سے ۔۔۔بھاگ چلتے ہیں۔۔۔ایسا نہ ہو میرے پتا جی میرا رشتہ کردیں کہیں ۔۔۔پھر مت بولنا راما بے وفا نکلی۔۔۔۔جانی کے سامنے ایک لمحے کو اس کے گھروالوں کے چہرے آۓ۔۔۔۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ راما کو لیکر کہیں بھاگ جاۓ تو اس کے گھروالوں کا کیا ہوگا؟؟؟
راما ۔۔۔۔میں تجھے کسی اور کا نہیں ہونے دونگا۔۔۔تو چنتا نہ کیا کر۔۔۔جانی کی آواز میں یقین تھا محبت تھی۔۔۔۔راما کے لیے ویسے بھی جانی کی کہی ہر بات اس کے لیے حرف آخر تھی۔۔۔۔اسے یقین تھا جانی پہ ۔۔۔بے حد یقین۔۔۔۔۔دیکھ جانی میں صرف تیری ہوں بس۔۔۔کوئی اور مجھے چھو بھی نہیں سکتا۔۔۔۔راما کے لہجے میں عزم تھا۔۔۔۔اگر میری تجھ سے شادی نہ ہوئی نا تو میں خود اپنی چتا جلا لونگی۔۔۔۔یہ دیکھو۔۔۔۔سچ کہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے دوپٹے کے نیچے سے ایک چھوٹا سا خنجر نکال کر جانی کو دکھایا۔۔۔۔ایسے نہ بولا کرو ۔۔۔راما کے الفاظ سے جانی کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔۔۔اور اس کے مرمریں ہاتھوں میں خنجر دیکھ کر حیرانگی۔۔۔۔۔۔یہ تم نے کہاں سے لیا؟؟؟؟یہ میرے پتا کا ہے جانی کے سوال پہ راما نے جواب دیا۔۔۔۔۔میں اسے ساتھ لیکر آتی ہوں پر بتایا نہیں تمہیں ۔۔۔۔۔۔وہ مسکرادی تھی ۔۔۔۔۔۔ جانی بھی مسکرادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی کسی اور سے شادی نہیں کرونگا کبھی یہ میرا وعدہ ہے تم سے ۔۔۔۔صرف تم سے ہی کرونگا ۔۔۔۔تھوڑا وقت گزرنے دے ہم یہاں سے کہیں اور جاکر شادی کرلیں گے ۔۔۔۔۔پھر جب بات آئی گئی جاۓ گی تو چپکے سے واپس آجائیں گے۔۔۔جانی نے اس کو تسلی دی۔۔۔۔۔راما خوش ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ راما نے اپنے دوپٹے کے پلو سے بندھے کچھ تحفے جانی اور اس کی چھوٹی بہن کے لیے دیے جس میں چاندی کی دو چوڑیاں بھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رات اور گہری ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔اس نے راما سے واپس جانے کو کہا اور۔۔۔اس کو لیکر اس کے گھر کی طرف چلا۔۔۔ ۔۔۔راما جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی جانی واپس پلٹا اور اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن مادھورام کی حویلی میں اس کا ،جاسوس، اسے بڑے جوش سے بتارہا تھا کہ ۔۔۔۔کیسے اس نے ساری رات راما کے گھر کا پہرا دیا اور پھر بڑی مشکل سے پتہ لگایا کہ وہ کہاں جاتی ہے؟؟؟؟مادھو نے جزباتی ہوکر اسے دو بوتل انعام میں دی۔۔۔اور ساتھ تین روپے بھی۔۔۔تین روپے بہت رقم تھی ۔۔۔اس کے دوست کے لیے جس کو دھیلہ بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔تو یہ بتا وہ کون ہے جس سے راما ملنے گئی تھی؟؟؟؟مادھو نے نفرت اور غصے کے ملے جلے جزبات سے پوچھا۔۔۔۔
اس کا مجھے پتہ نہیں چل سکا یار۔۔۔۔اس کے دوست نے بےبسی سے جواب دیا۔۔۔بس اتنا دیکھا۔۔۔۔ ایک بتی دوسری طرف سے آئی تھی ۔۔۔آدمی کی پہچان نہیں کرپایا میں۔۔۔۔۔
آدمی کا بھی پتہ کر لیں گے۔۔۔تو چنتا نہ کر۔۔۔مادھو نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔اتنا بہت ہے جو خبر لایا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کام کا آدمی ہے۔۔۔۔مادھو نے اس کی تعریف کی تو اس کے دانت نکل آۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادھو کو راما کے معمول پتہ لگ گیا تھا کہ۔۔۔۔وہ صرف جمعرات کو ہی جاتی ہے
آنے والی جمعرات کو مادھو اور اس کا ،جاسوس، پہلے سے ہی کنوے کے قریب ترین کھیت میں چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔۔۔۔وہ بتی (لالٹین ) والے کا سراغ لگانا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔جانی اور راما اس بات سے بے خبر کہ کوئی ان کے اتنا قریب چھپا بیٹھا کہ ان کی باتیں بھی سن سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اپنی ہی دھن میں مستقبل کے سپنے بن رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے وقت پہ جانی نے راما کو اس کے گھر چھوڑا اور۔۔۔۔واپس آگیا۔۔۔۔ان کے جانے کے بعد مادھو اور اس کا دوست بھی کھیت سے نکل آۓ تھے۔۔۔اور اب مادھو اپنے دوست سے کہ رہا تھا۔۔۔۔یہ تو سالا جانی ہے رے؟؟؟ حیرت سے زیادہ اس کے لہجے سے نفرت جھلک رہی تھی۔۔۔۔۔اس کا بھی کچھ کرتے ہیں ۔۔۔مادھو نے کہا۔۔۔۔اس سے تو مجھے ویسے بھی اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا ہے۔۔۔۔بھگوان نے موقع دےدیا ؟؟؟مادھو خوش تھا کہ ایک تیر سے دو شکار کرلےگا۔۔۔۔۔جانی اور راما دونوں نے انتقام لے لےگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی جمعراتیں خیریت سے گزر گئیں۔۔۔۔مادھو کی طرف سے کوئی ہل چل نہ ہوئی۔۔۔۔البتہ ہر جمعرات کو اس کا کوئی ایک دوست راما کے گھر کے باہر ضرور موجود ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔مادھو کو اس کے ایک دوست نے مشورہ دیا تھا کہ ساری بات بھگوان داس کے کانوں میں ڈال دی جاۓ۔۔۔۔شاید وہ بدنامی کے خوف سے مادھو سے راما کی شادی کرادے۔۔۔۔۔۔مگر مادھو اس سے متفق نہیں تھا۔۔۔وہ جانتا کہ اس کا تایا اس کو اچھا نہیں سمجھتا۔۔۔۔ایسی کسی بھی بات کو وہ رشتے سے انکار کے بدلے میں الزام تراشی سمجھتا۔۔۔۔۔اور ویسے بھی مادھو کے دل میں راما کے لیے محبت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔۔۔وہ تو بس اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔۔جس کا اس نے اب دوسرا طریقہ سوچ لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرہ دسمبر انیس سو پینتالیس۔۔۔۔
آج جمعرات تھی اور جانی کو رات ہونے کا انتظار۔۔۔۔وصال یار کی خوشی میں جلدی جلدی اس نے رات کا کھانا کھایا اور ڈیرے پہ جا پہنچا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادھو رام اور اس کے دوست مادھو رام کی حویلی میں بیٹھے شراب پیے جارہے تھے۔۔۔۔انہوں نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ آج رات جانی اور راما سے انتقام لیا جاۓ گا۔۔۔۔ان کا ارادہ تھا کہ پہلے وہ راستے میں ہی جانی کا کام تمام کریں گے۔۔۔اتنی دیر میں راما بھی اپنے محبوب سے ملنے کنوے پہ پہنچ جاۓ گی پھر اس سے نمٹ لیا جاۓ گا۔۔۔۔۔۔جو کام وہ کرنے جارہے تھے ان کا نشے میں ہونا اور ضروری ہوگیا تھا۔۔۔۔آنے والے لمحات کا سوچ کر مادھو کے جسم میں سنسنی سی دوڑ رہی تھی ۔۔وہ چاہتا تھا کہ رات جلد سے جلد گزرے۔۔۔۔رات کے تقریباً نو ساڑھے نو کا وقت ہوگا ۔۔۔وہ سب حویلی سے نکلے ۔۔۔ایک نے برچھی اٹھالی تھی دوسرے نے کرپان ۔۔ایک کو کچھ اور نہ ملا تو اس نے لوہے کا ایک دو ہاتھ لمبا کیل نما سریا اٹھا لیا۔۔۔مادھو کے پاس خنجر تھا۔۔۔۔۔۔وہ چاروں پہلے سے ہی جاکر جانی کے آنے والے راستے کے دونوں طرف کے کھیتوں میں چھپ کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانی ڈیرے پہ آتے ہی کمرے میں پڑی چارپائی پہ لیٹ گیا۔۔۔اسے مقررہ وقت کا انتظار تھا۔۔۔۔ سردی عروج پر تھی۔۔۔اس نے رضائی اپنے اوپر کھینچ لی۔۔۔۔۔ راما۔۔۔راما۔۔۔۔۔ اس کی آنکھ اس خواب سے کھلی تھی جس میں وہ خود کو دور دور تک بکھرے ٹیلوں کے بیچ خود کو تنہا گھومتا دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ اور پاگلوں کی طرح راما۔۔۔۔راما۔۔۔۔پکار رہا تھا۔۔۔۔میں سو گیا تھا؟؟؟اس نے خود سے سوال کیا۔۔۔اس کی دھڑکنیں ابھی بھی بےترتیب تھی۔۔۔۔یہ کیسا خواب تھا میرے اللہﷻ ؟؟؟ خیر کرنا۔۔۔اس نے دل ہی دل میں دعا کی۔۔۔۔ پھر اسے یاد آیا اس نے تو آج راما سے ملنے جانا تھا۔۔۔۔وہ دوڑ کر باہر نکلا اور آسمان کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔اس کے اندازے کے مطابق وہ آج تھوڑا لیٹ تھا۔۔۔۔خیر ہے راما ابھی نہیں آئی ہوگی۔۔میں زرا جلدی چل لونگا۔۔۔اس کے آنے سے پہلے پہنچ جاؤنگا کنوے پہ۔۔۔اس نے سوچا ۔۔۔ اور لالٹین جلائی۔۔۔لاٹھی اٹھائی چادر اوڑھ کر چل پڑا۔۔۔۔رات بے حد سیاہ اور ٹھنڈی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادھو اور اس کے ساتھیوں کو کھیتوں میں بیٹھے کافی دیر ہوگئی تھی۔۔۔۔لگتا آج نہیں آۓ گا وہ۔۔؟؟؟مادھو کے دوست نے سرگوشی کی۔۔۔۔
وہ سب چادروں میں لپٹے کھیتوں میں بیٹھے کھیت کا ہی ایک حصہ لگ رہے تھے۔۔۔
دو راستے کے ایک طرف بیٹھے تھے اور۔۔۔دو دوسری طرف۔۔۔۔وہ آۓ گا ۔۔۔۔ضرور آۓ گا۔۔۔۔مادھو نے اپنے دوست سے کہا۔۔۔اس کی موت اسے لیکر آۓ گی آج۔۔۔۔۔۔ان سب کی نظریں آنے والے راستے پہ لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔دور سے انہیں لالٹین کی ہلکی سی لو ہلتی نظر آئی۔۔۔۔۔ ان کے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی اور آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کرلیا۔۔۔۔۔جیسے جیسے لالٹین کی لو قریب آتی جارہی تھی ان کے دل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھی۔۔۔اور پھر لالٹین ان کے بلکل قریب پہنچ گئی۔۔۔۔رات سیاہ تھی لالٹین ایک ہیولے کے ہاتھ میں تھی ۔۔جو آہستہ آہستہ کچھ گنگناتا آرہا تھا۔۔۔کوئی پرانا گیت تھا شاید۔۔۔الفاظ واضع نہیں تھے۔۔۔۔۔جیسے ہی وہ ہیولہ ان سے دو قدم آگے نکلا۔۔پیچھے سے اس پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔۔۔۔مادھو کے کا ایک دوست اچانک اٹھا اور پیچھے سے اس پہ چادر ڈال کر اسے قابو کیا ۔۔۔دوسرے نے وقت ضائع کیے بغیر برچھی اس کے پیٹ میں اتاردی تھی۔۔۔اس نے تڑپ کرخود کو چھڑانا چاہا۔۔۔لالٹین اس کے ہاتھ سے دور جاگری تھی اور بجھ گئی تھی۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا ۔۔۔۔کیل نما سریا اس کی پسلیوں سے پار ہوچکا تھا ۔۔۔سریا مارنے والے نے اسے نکالنے کی بھی زحمت نہیں کی۔۔۔۔وہ بےسدھ ہوکر قابو کرنے والے کی بانہوں جھول گیا۔۔۔مادھو کے دل میں رقابت حسد کا آتش فشاں ابل رہا تھا وہ کیوں پیچھے رہتا۔۔۔اس نے نیچے پڑے پڑے اس پہ خنجر کے دوتین وار کیے اور نفرت بھرے لہجے میں بولا۔۔۔۔مادھو سے ٹکراتا ہے؟؟؟؟رات اندھیری تھی انہیں کسی کے آنے یا دیکھ لیے جانے کا کوئی ڈر نہیں تھا۔۔۔انہوں نے اسے ایسے ہی چادر میں لپٹے لپٹاۓ اٹھایا اور راستے سے دور اس گڑھے میں پھینک دیا۔۔۔جو وہ دن میں یہاں دیکھ چکے تھے۔۔۔۔ایک نے اس کی لاٹھی اور لالٹین بھی اٹھائی اور اسی کے ساتھ گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔۔۔۔۔مادھو کا آدھا انتقام پورا ہوچکا تھا۔۔۔اس نے اپنے ساتھیوں کو ساتھ لیا اور کنویں کی طرف چل پڑا.
راما جب کنوے پہ پہنچی تو وہاں جانی کو غیرموجود پایا۔۔۔۔آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ کنوے پہ آئی ہو اور جانی موجود نہ ہو۔۔۔جانی ہمیشہ راما سے پہلے پہچ جاتا تھا۔۔۔جانی آرہا ہوگا۔۔۔اس نے سوچا اور کنوے کی منڈیر پہ بیٹھ گئی۔۔۔اسے جانی کے نہ ہونے سے تھوڑا خوف سا محسوس ہورہا تھا مگر۔۔۔وہ دل مضبوط کیے بیٹھی رہی۔۔۔۔اسے بیٹھے کچھ دیر ہوگئی تھی ۔۔۔وہ بار بار جانی کے آنے والے راستے کی طرف دیکھ رہی تھی مگر رات اتنی سیاہ تھی کہ چند قدم آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔۔۔۔اسے اب فکر ہونے لگی تھی۔۔۔وہ اسی طرف ہی دیکھ رہی تھی کہ ۔۔۔۔اچانک اس کے عقب سے چار ساۓ نمودار ہوۓ۔۔۔وہ آہٹ سن کر پلٹی مگر۔۔۔دیر ہوچکی تھی۔۔۔وہ جیسے ہی پلٹی عین اس کے سر پہ پہنچ جانے والے ایک ساۓ نے اپنا بھاری ہاتھ اس کے منہ پہ رکھ دیا۔۔۔اس نے چیخ ماری۔۔۔جو اس کے منہ میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔۔۔۔مادھو اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔۔۔۔مادھو کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ نفرت بھی امڈ آئی تھی۔۔۔۔اسے مادھو کے کردار کا پتہ تو تھا مگر ۔۔۔وہ اس حد تک گرجاۓگا اسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔مادھونے سامنے آکر اسے گھورا اور ۔۔۔۔نفرت سے بولا ۔۔۔۔۔یار سے ملنے آئی تھی چھنال۔۔۔۔مجھ میں کیا برائی تھی؟؟؟؟ جو۔۔۔میری بجاۓ اس مسلے سے عشق لڑارہی ہو۔۔۔۔تجھ میں اچھائی کون سی ہے کتے۔۔۔؟؟؟ راما نے دل میں سوچ کر رہ گئی۔۔۔اس کا منہ بند نہ ہوتا تو وہ مادھو سے یہ سب کہ بھی دیتی۔۔۔۔مادھو وہ کون ہے؟؟؟اس کے ایک دوست نے ایک طرف اشارہ کیا۔۔۔دور کوئی ہلکی سی روشنی ان کی طرف ہی آرہی تھی شاید ۔۔۔۔۔ہوگا کوئی آنے جانے والا مادھو نے کہا ۔۔۔ اس کو اٹھاکے ادھر کھیت میں لے آؤ۔۔۔کیا پتہ کوئی ادھر ہی نہ آرہا ہو ۔۔کوئی آتا جاتا بھی آسکتا ہے ۔۔۔مادھو نے کہا اور ان کے ساتھ مل کر راما کو گھسیٹتے قریب ہی کھیت میں لے گئے۔۔۔۔انہوں نے اسے کھیت میں لے جاکر پھینکا ۔۔۔۔چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔یہاں تیری سننے والا کوئی نہیں اب۔۔۔مادھو بولا۔۔۔۔تیرے یار کو بھی مار کے گاڑدیا ادھر۔۔۔مادھو نے ہاتھ سے جانی کے آنے والے راستے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔اور میں اب تیرے ساتھ یہاں وہ سب کچھ کرونگا جو میرا دل کریگا۔۔۔۔تجھے بن بیاہی سہاگن بنادونگا آج میں۔۔۔۔شراب کا نشہ مادھو کے سر چڑھنے لگا تھا۔۔۔۔تو نے جانی کو ماردیا؟؟؟راما کو یقین نہیں ہورہا تھا۔۔۔اسے لگا شاید مادھو اسے ڈرارہا ہے۔۔۔یہ اس کے دل کی سوچ تھی۔۔۔۔ اگر مادھو جھوٹ بول رہا ہے تو۔۔۔جانی ابھی تک آیا کیوں نہیں تھا؟؟؟؟دماغ نے جھٹ فتویٰ جاری کردیا۔۔ جانی کے سوا کوئی مجھے چھو بھی نہیں سکتا کتے۔۔۔میں تیری جان لےلونگی۔۔۔۔راما کا دل چاہ رہا تھاکہ وہ چیخ چیخ کر روۓ۔۔۔۔۔۔تونے میرے جانی کو ماردیا؟؟؟؟۔۔۔۔راما نے جانے کہاں سے خنجر نکالا اور زخمی شیرنی کی طرح مادھو کی طرف بڑھی۔۔۔۔ اس سے پہلے کی وہ مادھو تک پہنچتی۔۔۔مادھو کے دوست نے برچھی آگے کردی۔۔۔اس نے صرف ڈرانے کے لیے برچھی آگے کی تھی مگر۔۔۔۔راما اتنی وحشت سے آئی تھی کہ ۔۔برچھی اس کے پیٹ میں پیوست ہوگئی۔۔۔۔راما نے ایک نظر برچھی کی طرف دیکھا۔۔۔اور دوسری نظر مادھو کی طرف ۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرائی اور وہیں ڈھیر ہوگئی۔۔۔۔یہ تونے کیا کیا؟؟؟سالے۔۔مادھو نے اپنے دوست کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔اور ایک نظر راما پہ ڈالی۔۔۔جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔اور اس کی نظروں میں مادھو کے لیے دنیا بھر کی نفرت تھی۔۔۔۔سالو۔۔۔سارا مزہ خراب کردیا۔۔۔سب چوپٹ کردیا۔۔۔۔اتنے میں کچھ ہی دور ایک بار انہیں روشنی سی نظر آئی۔۔۔اب نکلو یہاں سے ۔۔۔بھاگو ۔۔۔لگتا ہے کوئی ادھر ہی آرہا ہے۔۔مادھونے ان سے کہا اور وہ سب۔۔۔راماکو یونہی چھوڑ کر نکل گئے۔۔۔ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ مادھو رک گیا۔۔۔اگر یہ سالی بچ گئی تو میرا نام بول دے گی۔۔اسے جیسے اچانک ہی اپنے پکڑے جانے کا خیال آیا تھا۔۔۔تم ادھر رکو میں آتا ہوں۔۔۔اس نے خنجر ہاتھ میں لیا اور واپس پلٹ گیا۔۔۔۔وہ جب اس کھیت کے قریب پہنچا تو روشنی مزید قریب آگئی تھی۔۔اور کسی انسان کا ہیولہ سا بھی۔۔۔۔اس نے ارادہ ترک کیا اور واپس پلٹ گیا۔۔۔۔راما کےخون سے اس کی آس پاس کی جگہ تر ہوگئی تھی۔۔۔اس پہ بے حد نقاہت طاری تھی۔۔۔آنکھیں بند ہوئی جارہی تھی مگر ۔۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ بچ نہیں پاۓگی مگر۔۔۔اس اپنے مرنے کا غم نہیں تھا۔۔۔جانی کے مرنے کا غم اس دل چیرے جارہا تھا۔۔۔۔اچھا ہے میں بھی جانی کے پاس ہی چلی جاؤں۔۔۔وہاں ہمیں ملنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔۔نہ مادھو۔۔۔نہ مذہب۔۔۔۔میں مسلمانوں کے خدا سے کہ دونگی کہ میں تم پہ یقین کرتی تھی۔۔۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی تو درد کی ایک لہر اس جسم میں دوڑگئی۔۔۔۔۔۔تجھے محسوس کرلیا تھا میں نے۔۔۔۔مگر ۔۔۔تیرے بندوں نے موقع نہیں دیا ورنہ میں اور جانی ایک ہی ہوتے۔۔۔جانی کا خیال آیا تو اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر اس کے گالوں سے پھسلتا ۔۔۔خاموشی سے مٹی میں جزب ہوگیا۔۔۔روشنی اب کنوے پہ آرکی تھی۔۔۔۔۔۔جانی۔۔؟؟؟؟اس نے سوچا۔۔۔جانی کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟جانی تو مر چکا ہے۔۔۔ایک اور آنسو گال پہ پھسلا۔۔۔۔۔دور کہیں سے کسی گیدڑ کے رونے کی آواز آئی۔۔۔۔۔آواز میں بھیانک سا اک درد تھا۔۔۔۔۔ کوئی ہے؟؟؟؟؟اس نے بولنا چاہا مگر۔۔۔۔۔نقاہت اب اتنی ہوچکی تھی کہ بولنا تو درکنار۔۔۔نظر بھی دھندلا چکی تھی۔۔۔۔۔اس نے آنکھیں پھاڑکر دیکھنے کی کوشش کی مگر بمشکل اتنا ہی دیکھ پائی کہ کوئی روشنی سی ہے کنوے پہ۔۔۔۔۔۔تھک ہار کر اس نے آنکھیں موندھ لیں۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد اس نے بمشکل آنکھیں کھول کر پھر کنوے کی طرف دیکھا۔۔۔ ادھ کھلی آنکھوں سے اس نے دیکھا کہ۔۔۔۔روشنی بدستور موجود تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔۔۔۔ ایک انسان کی بے بسی کی انتہا تھی یہ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانی کے اندازے کے مطابق وہ آج مقررہ وقت سے کچھ لیٹ تھا۔۔۔میں زرا تیز چل لونگا اس نے سوچا اور نکل پڑا۔۔۔۔۔اس نے کافی فاصلہ طے کرلیا ۔۔۔وہ معمول سے زرا تیز چل رہا تھا۔۔۔جب اچانک اسے کھیتوں سرسراہٹ سی سنائی دی۔۔۔وہ ٹھٹک کر رک گیا ۔۔۔اور غور سے اس طرف دیکھا۔۔۔اندھیری رات میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔۔۔گوئی گیدڑ ہوگا اس نے سوچا ۔۔اور قدم آگے بڑھادیے۔۔۔عین اسی لمحے وہ ہوا جس کی اس نے توقع بھی نہیں کی ہوگی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاؤں بگیالہ کا۔۔۔۔ستی رام اپنے دوست ۔۔۔ مادھو کے پتا رام لال تیواری کو شام سات بجے کے قریب اس کے گاؤں اندان میں ملا۔۔۔۔اس کے ساتھ اس کے گاؤں کی ہی ایک عمر رسیدہ عورت بھی تھی۔۔۔۔ارے ستی رام اس وقت کہا جارہے ہو؟؟سب خیر ای ہے نا۔۔۔رام لال نے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ ۔۔۔میں بیٹیا کے سسرال رتو گاؤں جارہا ہوں۔۔۔میری بیٹیا کے گھر خوشی کی خبر آنے والی ہے ۔۔۔اس گاؤں میں کوئی سیانی نہیں تھی تو یہ اپنے گاؤں سے دائی کو ساتھ لیے جارہا ہوں۔۔۔شام نندو رام کے ہاتھ پیغام آیا تھا۔۔۔۔تو ایسا کر ادھر رک میں اپنے بیٹے کو بھیجتا ہوں اس کے ساتھ ۔۔۔ویسے بھی تیری اور ان کی عمر نہیں پیدل چلنے کی اب۔۔۔میں بیل گاڑی کا انتظام کرتا ہوں۔۔۔رام لال اپنے گھر گیا تو مادھو گھر نہیں تھا۔۔۔حویلی میں ہوگا پتا جی اس کے دوسرے بیٹے نے اسے کہا۔۔۔۔۔اسے چھوڑ تو ایسا کر بیل گاڑی لےکر ادھر راستے پہ آجا جلدی۔۔۔اس نے ساری بات اپنے بیٹے کو بتائی۔۔۔۔اس کا بیٹا بیل گاڑی لینے چلا گیا اور۔۔۔۔رام لال ستی رام کے پاس واپس آگیا۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد اس کا بیٹا بیل گاڑی لیکر آیا تو ۔۔۔۔رام لال نے ستی رام سے پوچھا۔۔۔۔تو بھی چلے گا اس کے ساتھ یا میرا بیٹا چھوڑآۓ اسے۔۔؟؟؟؟نہیں میں اب کیا کرونگا گھر میں میری پتنی اکیلی ہے۔۔۔اور صبح ڈھور ڈنگر کا بھی کرنا ہے۔۔۔تو اس ہی چھوڑ آؤ بس۔۔۔میں بھی اس کو چھوڑ کے واپس تو آنا ہی تھا ۔۔۔۔۔ہر صورت۔۔۔۔بھگوان تیرا بھلا کرے تو نے میری چنتا ختم کردی۔۔۔ستی رام نے رام لال کو دعادی۔۔۔۔۔ٹھیک ہے تو چاۓ پانی پی میرے گھر پھر چلے جانا رام لال نے کہا۔۔۔دیکھ بیٹا دیر ہوجاۓ تو ادھر ہی رک جانا تیری بہن کا ہی گھر ہے۔۔۔ستی رام مادھو کے بھائی سے مخاطب ہوا۔۔۔۔ارے نہیں چاچا۔۔خیر ہے میں مڑ آؤنگا۔۔آپ چنتا نہ کرو۔۔۔۔اس نے دائی کو ساتھ بٹھایا اور چل پڑا۔۔۔وہ جب جانی کے گاؤں پہنچا تو بیل گاڑی کا ایک پہیہ نکل کر دور جاگرا۔۔۔وہ دائی سمیت نیچے پڑا تھا۔۔۔اس نے ساتھ ہی دوسرے گاؤں جانا تھا۔۔۔جو جانی کے گاؤں سے دو چار منٹ کی دوری پر تھا۔۔۔۔۔ یہ تو اب ٹھیک نہیں ہوسکتا۔۔۔صبح دیکھ لونگا۔۔۔اس نے سوچا۔۔۔۔ بیل وہاں اپنے ایک جاننے والے کے گھر باندھے اور دائی کو لیکر ستی رام کی بیٹی کے گھرجاپہنچا۔۔۔۔۔خاطر تواضع کرتے دیر ہوگئی۔۔۔انہوں نے کہا بھی یہیں رک جاؤ رات کو مگر وہ نہ مانا۔۔۔۔۔مانتا بھی کیسے ۔۔۔۔آج اس کا دوست قصبے سے دارو کی بوتل لایا تھا۔۔۔اور ان کا ارادہ تھا کہ رات کو موج مستی کریں گے۔۔۔۔اس نے ان سے اجازت لی۔۔۔۔انہوں نے اسے لاٹھی اور لالٹین تھمادی۔۔کہ رات اندھیری ہے اور سانپ بچھو کا خطرہ۔۔۔۔۔۔۔ستی رام کی بیٹی نے چاندی میں مڑھا ہوا ایک تعویز نما لاکٹ اسے دیا اور کہا۔۔۔۔۔یہ میں بڑے پجاری جی سے لائی تھی۔۔۔رکھشا کے لیے۔۔یہ تو پہن لے۔۔۔
اس نے لاٹھی اور لالٹین اٹھائی چل پڑا۔۔۔۔۔۔رات واقعی بہت سیاہ تھی اور سردی بھی زوروں پر تھی۔۔۔۔اس نے اچھے سے چادر لپیٹ لی۔۔۔۔پہاڑ عبور کر کے وہ تھوڑا اور تیز ہوگیا تھا۔۔۔کہیں سالا وہ ساری بوتل اکیلے نہ پی جاۓ ۔اس نے سوچا اور تیز ہوگیا۔۔۔کافی دیر چلنے کے بعد وہ سست ہوگیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔۔۔اندان گاؤں کچھ دور تھا ابھی۔۔۔اس نے اپنا ڈر دور کرنے کے لیے ایک پرانا گیت گنگنانا شروع کردیا۔۔۔۔۔ابھی وہ کچھ اور قدم ہی چلا تھا ۔۔۔کے پیچھے سے اس پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔۔۔کسی نے چادر اس پہ ڈال کر اسے اپنی بانہوں میں جکڑلیا۔۔۔اس نے آواز نکالنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ۔۔۔۔برچھی اس کے جسم میں گھس گئی وہ تڑپا۔۔۔۔۔۔اتنے میں کوئی اور نوکیلی چیز اس کی پسلیوں کے آر پار ہوگئی۔۔بےسدھ ہوکر وہ قابوکرنے والے والے کی بانہوں میں ہی جھول گیا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانی کو توقع نہیں تھی کہ یوں ایک گیدڑ اس کا راستہ روک لےگا۔۔۔گیدڑ جو اپنی ازلی بزدلی کی وجہ سے ضرب المثل ہے اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔۔۔۔اس نے سن رکھا تھا کہ جب مادہ گیدڑ نے بچے دے رکھے ہوں تو وہ نڈر ہوجاتی ہے اور اکثر انسانوں سے ڈرنے کی بجاۓ ان کو کاٹنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔۔اس نے اس کو ڈرانے کی کوشش کی۔۔۔وہ اس کو مارنا نہیں چاہتا تھا اس لیے صرف ڈرانا چاہا کہ یہ بھاگ جاۓ اور وہ اپنی راہ لے۔۔۔۔اس رہ رہ کر راما کا خیال آرہا تھا۔۔۔۔وہ اتنظار کرتی ہوگی اکیلی۔۔۔واپس ہی نہ چلی گئی ہو۔۔۔اسے خیال آیا۔۔۔اکیلی بیٹھنے سے اچھا ہے واپس چلی جاۓ۔۔۔اس نے سوچا۔۔۔اور ایک بار پھر گیدڑ کو دھتکارا۔۔۔مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔۔۔۔۔بہت دیر گزرنے کے بعد اس کی گیدڑ سے جان چھوٹی۔۔اس نے شکر ادا کیا اور اپنی راہ ہولیا۔۔۔۔۔۔
وہ کنوے پہ پہنچا تو راما وہاں نہیں تھی۔۔۔۔وہ کچھ دیر یونہی کھڑا رہا ۔۔۔پھر کنوے کی منڈیر پہ ٹک گیا۔۔۔دور کہیں سے کسی گیدڑ کے رونے کی آواز آئی۔۔۔۔آواز میں بھیانک سا درد تھا۔۔۔۔جانی کو ایک لمحے کو وہ گیدڑ یاد آگیا۔۔۔۔اس کے لبوں پہ خود بخود تبسم آگیا۔۔۔۔۔وہ بہت دیر تک کنوے پہ بیٹھا رہا۔۔۔۔اسے یقین ہوگیا تھا کہ ۔۔۔انتظار کرکرکے راما جاچکی ہے۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔راما ۔۔۔واقعی ہی ،جا،چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اسے خبر بھی نہیں تھی کہ ۔۔اس کی محبوبہ بے بسی کے عالم میں اس کی لالٹین کی روشنی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔مگر اسے یہ یقین نہیں تھا کہ ۔۔۔یہ جانی کی ہی لالٹین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جانی بہت دیر تک یونہی وہا بیٹھا رہا اور پھر صبح ہونے سے پہلے واپس ڈیرے کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اندان گاؤں میں راما کے گھر میں صفِ ماتم بچھا ہوا تھا۔۔۔۔صبح جب لوگ پانی بھرنے آۓ تو ان میں سے کسی نے اس کو دیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔اس کی ادھ کھلی بےجان آنکھیں کنوے کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اس کو اٹھا کر اس کے گھر لےجایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانی گھر دودھ دیکر ناشتہ کرکے واپس ڈیرے پہ ہی آگیا تھا۔۔۔۔۔اسے رہ رہ کر رات لیٹ ہونے پہ افسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔جب اختر اور رنجیت اس کے ڈیرے پہ پہنچے۔۔۔۔۔۔انہوں نے جو بتایا۔۔۔۔وہ جانی کے لیے ناقابل قبول تھا۔۔۔۔اسے یقین نہیں آیا کہ ۔۔۔اس کی دنیا لٹ چکی ہے۔۔۔۔راما۔۔۔مر گئی ہے۔۔۔۔۔۔اس کے دوست اس سے اتنا بھیانک مذاق نہیں کرسکتے تھے۔۔۔۔اس کو سکتہ ہوگیا۔۔۔۔۔چپ لگ گئی۔۔۔اختر اور رنجیت اسے بلا رہے تھے مگر وہ ان کی طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔خلا میں دور کسی نقطے پہ نظریں جما رکھی تھیں۔۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ یہ کس کا کام ہو سکتا ہے۔۔۔رنجیت اور اختر بھی جانتے تھے۔۔۔۔۔۔۔اس نے رنجیت اور اختر کے ساتھ۔۔راما کے کریاکرم میں بھی شرکت کی مگر۔۔۔۔۔۔کسی سے نہ ملا نہ کوئی بات کی۔۔۔۔۔۔۔۔اور جیسے گیا تھا چپ چاپ ویسے ہی واپس آگیا۔۔۔۔۔جانی کو زندہ دیکھ مادھو اور اس کے دوستوں کے ہوش اڑ گئے تھے۔۔۔۔۔وہ کون تھا۔۔۔۔سب نے خود سے ایک ہی سوال کیا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راما کے کریا کرم کے بعد اسی رات مادھو اور اس کے دوست خوشی کی بجاۓ غم میں بوتل پہ بوتل خالی کیے جارہے تھے۔۔۔۔ان کو راما کا غم نہیں تھا۔۔۔مادھو کو اپنے بھائی کا غم تھا۔۔۔جو غلطی سے جانی کے بدلے۔۔۔۔۔ اس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔۔۔۔راما کے کریا کرم تک جب اس کا بھائی نہیں آیا تو کسی کو ان کی طرف بھیجا گیا ۔۔۔پتہ چلا وہ تو رات کو ہی پیدل واپس چلا گیا تھا ۔۔۔۔کسی کچھ نہیں پتہ تھا کہ وہ کہاں گیا۔۔۔۔۔سواۓ مادھو اور اس کے دوستوں کے۔۔۔۔۔مادھو بے تحاشہ رویا تھا۔۔۔مگر اس نے ابھی تک کسی کو یہ نہیں بتایا تھا کہ۔۔۔۔اس کی نفرت حسد اور رقابت نے ہی اس کے ہاتھوں اس کا بھائی مروادیا تھا۔۔۔۔رات کا جانے کونسا پہر تھا۔۔۔۔بوتل پہ بوتل خالی کرنے کے بعد وہ اچانک اٹھا۔۔۔۔میں پتا کو سب بتادونگا۔۔ابھی بتاؤنگا۔۔۔۔مادھو نے کہا۔۔۔اور باہر کو لپکا۔۔۔۔۔ عین اسی لمحےاچانک تین ساۓ مادھو کی حویلی میں کودے۔۔۔۔اور ان کو سنبھلنے سے پہلے ہی قابو کرچکے تھے۔۔۔۔۔یہ جانی ۔اختر اور رنجیت سنگھ تھے۔۔۔۔۔مادھو نے نشے میں سب بک دیا۔۔۔اور یہ بھی کہ اس نے جانی سمجھ کر اپنے ہی بھائی کومار کر گاڑ دیا تھا۔۔۔۔۔
مادھو کو دیکھ کر جانی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ۔۔۔۔وہ اس کی بوٹیاں کرکے کتوں کو کھلادے۔۔۔۔ان سب کو ایک کمرے میں بندکر کے بھوسہ اور کاٹھ کباڑ ڈال کر ۔۔۔۔بچی کچی شراب ان پہ انڈیلی اور آگ لگادی۔۔۔۔۔۔
جب تک لوگوں کو علم ہوتا۔۔۔ان کی ہڈیاں بھی جل چکی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی جمعرات جانی نے لالٹین اٹھائی۔۔اور اپنے راستے ہوتا کنوے پہ پہنچا۔۔۔۔۔کنواں خالی دیکھ کر اس کا دل بیٹھ گیا۔۔۔۔وہ بے آواز رویا۔۔۔وہاں سے وہ شمشان گھاٹ گیا ۔۔۔جہاں اس کی محبوبہ کا کریا کرم کیا گیا تھا۔۔۔وہاں بیٹھ کر جانی۔۔۔دھاڑیں مار مار کر رویا۔۔۔راما کے مرنے کے بعد جانی پہلی آنے والی جمعرات کو ہی یہاں آیا تھا۔۔۔۔اور آج پہلی بار وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔۔۔۔ایسے کہ پتھر دیکھتے تو وہ بھی بگھل جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر تقسیم ہند کے وقت پاکستان وجود میں آیا تو۔۔۔بہت لوگ ادھر سے ادھر گئے ۔۔۔ان میں راما کا پریوار بھی تھا مگر۔۔۔۔راما نہیں تھی۔۔۔۔۔اسے اپنے محبوب کے وطن کی مٹی میں ہی رہنا تھا شاید۔۔۔۔۔۔خوش قسمتی سے جانی کا گاؤں بھی پاکستان کی حدود میں آیا تھا سو ان کو کہیں نہیں جانا پڑا۔۔۔۔۔۔۔وقت بدلا۔۔۔لوگ بدلے مگر۔۔۔۔۔جانی کا معمول نہ بدلا۔۔۔وہ ہر جمعرات کو کنوے پہ آتا۔۔۔وہاں سے شمشان گھاٹ جاتا۔۔۔۔اور واپس چلا جاتا۔۔۔۔۔اس زندگی بھر شادی نہیں کی۔۔۔۔لوگوں میں مشہور ہوچکا تھا کہ ہر جمعرات کو بتی آتی ہے۔۔۔۔لوگوں کا خیال تھا کہ۔۔بھوت پریت ہیں۔۔۔۔جانی بوڑھا ہوگیا تھا مگر اس نے اپنا معمول نہ بدلا۔۔۔اور پھر ایک رات جانی خاموشی سے ۔۔۔راما کے پاس چلا گیا۔۔۔۔مگر۔۔۔۔بتی پھر بھی آتی رہی۔۔۔پاکستان کو وجود میں آۓ بھی ستر سال سے اوپر ہوچلے ۔۔مگر۔۔۔۔بتی کا کبھی ناغہ نہ ہوا۔۔۔۔بتی آج بھی آتی ہے۔۔۔لوگ اب بھی بھوت پریت ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔۔مگر۔۔۔۔یہ کوئی نہیں جانتا کہ ۔۔۔۔یہ بتی۔۔۔لالٹین پاک محبت کی وہ روشنی ہے جو کبھی بجھ نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے