جڑواں بہن کیساتھ دھوکہ

Sublimegate Urdu Stories

تانیہ میری ایک بی بہن تھی ہم یک جان دو قالب تھے۔ ہم جڑواں اور ہم شکل تھیں۔ ہماری پہچان کو والدہ الگ الگ رنگوں کے کپڑے پہناتی تھیں۔ صرف ایک فرق تھا کہ تانیہ کی پشت پر تل تھا۔ اس کے سوا سرمو ہم میں کوئی فرق نہ تھا۔ جب ہم بڑی ہو گئیں تو ساتھ اسکول جانے لگیں۔ لڑکیاں اور استانیاں اکثر دھوکا کھا جاتیں کیونکہ ایک سا یونیفارم پہننے کی وجہ سے ان کو پہچاننے میں دقت ہوتی۔ تبھی میں اپنی کلائی میں پڑی چوڑی دکھا دیتی کہ میں ثانیہ ہوں اور وہ تانیہ ہے۔ کلاس ٹیچر نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ثانیہ کو بی سیکشن میں کر دیا۔ کالج میں داخلہ لیا، وہاں بھی یہی مسئلہ تھا۔ شکل و صورت کے علاوہ بات چیت رنگ ڈھنگ سبھی کچھ تو ہم جڑواں بہنوں کا ایک جیسا تھا۔

ایک روز میں کالج نہ گئی تانیہ کو اکیلے جانا پڑا۔ اس کو رجسٹر کی ضرورت تھی۔ چھٹی کے بعد کالج کے قریب ایک اسٹیشنری شاپ پر رجسٹر خریدنے گئی تو وہاں ایک نوجوان سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ اس کا نام ضیاء تھا۔ جائے کیسے میری بہن کی اس کے ساتھ سلام دعا بڑھی پھر دوستی ہو گئی۔ تانیہ نے مجھ سے یہ راز چھپا کر رکھا۔ ضیاء خوبصورت اور مالدار تھا۔ تانیہ اس کے چکر میں آگئی۔ کسی نہ کسی بہانے گھر سے تنہا جانے لگی اور ضیاء سے قریبی پارک میں ملنے لگی۔ بہانے روز نہیں چلتے۔ تبھی امی نے نوٹ کرلیا۔ میں نے بھی پوچھ گچھ کی کہ ہماری سہیلیاں تو مشترکہ ہیں۔ تم کس سے ملنے نکلتی ہو۔ کہنے لگی۔ ہمارے سیکشن الگ ہیں جو میرے سیکشن میں پڑھتی ہیں، کیا وہ میری دوست نہیں ہو سکتیں اور تمہاری وہ کیسے سہیلیاں ہوئیں۔ کلاس ورک اور ہوم ورک کے سلسلے میں کبھی نہ کبھی ان کے گھر جانا پڑتا ہے۔ رابعہ اور ذکیہ کے گھر تو ہمارے ہی محلے میں ہیں تم بھی ساتھ بوليا كرو. 
 
مجھے تمہارے سیکشن کی لڑکیوں کے گھر جانے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن جان لو یہ تمہارا روز روز کا آنا جانا رنگ لائے گا۔ ابو کو پتا چلا تو کالج سے ہٹالیں گے۔ میرے ڈرانے سے تانیہ سہم گئی۔ بولی۔ ثانیہ تمہاری قسم، بہت اچھا لڑکا ہے۔ ایک بار ملو گی تو میری پسند کی داد دو گی۔ تم ملو تو سی میں نہیں ملوں گی، محترمہ اور تم بھی باز آجائو ورنہ خطا کھائو گی۔ مجھے اس سے محبت ہے ثانی، خدا کے لئے میری مدد کرو وہ روہانسی ہو گئی۔ کیسے مدد کر سکتی ہوں میں تمہاری؟ جب مجھے کچھ قصہ کا سر پیر معلوم بی نہیں ہے۔ اور تو سب ٹھیک ہے مگر شادی کا تذکرہ نہیں کرتا۔ پھر تو الو بنا رہا ہے وہ میری بھولی بہن کو
 
۔ میں نے کہا باز آجائو۔ ورنہ اماں سے شکایت کردوں گی۔ شادی کے چکر میں کچھ گنوا ہی نہ بیٹھو۔ نہ ملوں تو قسمیں دیتا ہے، مجھے بھی چین نہیں ہے۔ ثانیہ پلیز میری مدد کرو۔ وہ لجانے لگی۔ اچھا پھر ایک شرط پر ۔ تم اس کو صاف صاف کہہ دو کہ سیدھے سبھائو اپنے ماں باپ کو ہمارے گھر رشتے کے لئے بھجوائے۔ میں اماں سے تمہاری سفارش کروں گی۔ کیسے رشتے کا خود سے کہوں۔ جرات نہیں ہوتی۔ بات لبوں تک آکر رہ جاتی ہے۔ تم مل لو ناں ثانیہ پلیز۔ کل پارک میں چار بجے شام چلی جانا۔ تم اس کو بے شک نہ پہچانو وہ تم کو پہچان لے گا۔ ہماری ایک جیسی شکلیں ہیں۔ تم میرا سوٹ پہن کر جانا ٹھیک ہے۔ مجھے بھی اشتیاق ہوا کہ دیکھوں میری بہن کا سورما ہے کیسا؟ اکیلے اکیلے کیا گل کھلا رہی ہے۔

پارک ہمارے گھر کے سامنے ہی تھا۔ اگلے روز ٹھیک چار بجے جونہی پارک میں داخل ہوئی۔ ایک سراپا منتظر، خوبصورت نوجوان مسکراتا ہوا میری جانب آیا۔ سمجھ گئی کہ موصوف یہی ہیں۔ اس سے قبل کچھ کہتی۔ فرمایا۔ شکر ہے کہ آج وقت پر آگئی ہو ورنہ تو انتظار کرواتی ہو۔ تبھی میرے دل میں خیال آیا کیوں نہ تانیہ ہی بن کر ملوں۔ اس کے دل و دماغ میں کیا ہے میری بہن کے لئے ذرا جانچ پرکھ تو لوں۔ جب وہ مجھے تانیہ سمجھا تو میں بھی تانیہ بن کر ملی ضیاء بہت باتونی نکلا۔ پہلی بی ملاقات میں جان لیا کہ اس پر میری بہنا کے حسن کا جادو چل چکا ہے۔ وہی بزدل اور ڈرک پوک ہے ورنہ ضیاء سے شادی کرنا اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
 
 آج میری اس کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ لہذا گھر میں مہمانوں کا بہانہ بنا کر جلد واپس آگئی۔ تانیہ منتظر تھی۔ میں نے کہا۔ تم نے صحیح کہا۔ دولت مند بھی ہے اور خوبصورت بھی ایسا رشتہ ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہئے۔ آج تو اس سے مختصر بات کی ہے جان پر کھ رہی تھی۔ دو چار ملاقاتوں میں شیشے میں اتار لوں گی۔ سر کے بل آئے گا وہ تمہارا رشتہ لینے۔ اپنے والدین کو بھی لائے گا یہ تم مجھ پر چھوڑ دو دوچار بار اور مجھے ملنے دو اس سے۔ میں اپنی بہن سے زیادہ شوخ اور دلیر تھی۔ ضیاء بھی پرکشش تھا۔ اس میں ہر وه خوبی موجودتھی جس کی آرزو کوئی لڑکی کرتی ہے۔ وہ مہذب تھا، اچھے گھرانے سے تھا اور گاڑی بھی اس کی شاندار تھی۔

اگلے روز اس کی گاڑی میں بیٹھی تو لطف آگیا۔ یوں لگا جیسے کسی اور دنیا کی سیر کر رہی ہوں۔ خدشہ تھا کہ یہ واقعی میری بہن کو بے وقوف نہ بنا رہا ہو کہ خوئے وفا اگر اس میں نہ ہوئی تو ؟ عہد کرلیا کہ اگر ایسا ہوا میں نے بھی تڑپانہ دیا تو ثانیہ نام نہ ہوگا میرا۔ تانیہ صرف پارک میں دوچار گھڑیاں مل کر آجاتی تھی اور میں اس کی گاڑی میں کچھ اور آگے کو جانے لگی۔ تانیہ بن کر ملتی تھی مگر تانیہ سے اس کی سابقہ ملاقاتوں میں کیا باتیں ان کی آپس میں ہوتی رہی تھیں ان کی تفصیل مجھے معلوم نہیں تھی۔ جب وہ گزری ہوئی کسی بات کا ذکر کرتا۔ میں چپ سادھ لیتی۔ ایک دو ملاقاتیں تو میں نے تانیہ بن کر نباہ دیں۔ مگر اب وہ کچھ تذبذب میں تھا۔ کہتا کہ تم کچھ بدلی بدلی سی لگنے لگی ہو۔ 
 
بات کرتے کرتے اچانک خاموش ہو جاتی ہو۔ کیا تمہیں میری کوئی بات بری لگ جاتی ہے۔ نہیں ضیاء سوچتی ہوں اگر قسمت نے ہمیں جدا کر دیا تو کیا ہوگا۔ کہنے لگا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں جان دے دوں گا۔ جب تم کہو اپنے والدین کے ساتھ تمہارا ہاتھ مانگنے آجائوں۔ تمہارے والدین جو بھی شرائط رکھیں گے ہم منظور کرلیں گے۔ میں نے خوش خبری تانیہ کو سنائی۔ وہ کھل اٹھی۔ کہنے لگی۔ ہم کامیاب ہوگئیں۔ اب تم بھی ذرا نڈر بنوں میں روز روز تو یہ ڈرامہ نہیں کھیل سکتی۔ اس نے اقرار کرلیا ہے شادی کے لئے۔ اب بتائو کیا کرنا ہے۔ بات کروں امی سے؟ وہ ڈرپوک بولی۔ ابھی نہیں ثانیہ پیپرز ہو جائیں۔ ایسا نہ ہو امی ابو اڑچن ڈال دیں اور میں پرچے بھی نہ دے سکوں۔ میں نے کہا۔ جیسی تمہاری مرضی مگر یہ روز روز تمہارا پارک جا بیٹهنا بهی کچه درست بات نہیں۔ تو پھر تم ساتھ دو ایک بار میں اس سے ملنے جائوں تو دوسری بار تم جائو، تاکہ وہ ہم سے جڑا رہے اور امی کو بھی شک نہ ہو۔ ٹھیک ہے میں نے کہا۔ تمہاری خاطر یہ قربانی دینی ہی ہوگی مگر زیادہ دن میں ایسا نہیں کر سکوں گی، اب کبھی میں اور کبھی تانیہ جاتی۔

اپنی بہن کی محبت میں اس راز کو اب تک ایک امانت کی طرح نباہ رہی تھی۔ دوچار ملاقاتوں کے بعد میں نے صاف تانیہ سے کہہ دیا۔ اگر اس کی قسمت میں میرا بہنوئی ہونا لکھا ہے تو یہ بات اخلاقاً درست نہیں کہ میں اس کے ساتھ تم بن کر ملتی رہوں۔ یہ ڈرامہ اب ختم کرنا پڑے گا۔ آج کے بعد میں اس سے ملنے نہ جائوں گی۔ وہ بولی ٹھیک ہے۔ تم صحیح کہتی ہو۔ ہم کو اسے بھی دھوکا نہیں دینا چاہئے۔ شادی کے بعد وہ کیا سوچے گا۔ اب تانیہ ہی ضیاء سے ملنے جاتی۔ عجیب بات تھی کہ جب وہ جاتی۔ میرا کسی کام میں دل نہ لگتا۔ بے چینی سی محسوس ہوتی جی چاہتا کہ اس کی جگہ میں ہی جاتی۔ چونکہ ہم اس کی کہی ہر بات ایک دوسرے کو بتایا کرتی تھیں۔ وہ کہہ رہا تھا۔ کب تک انتظار کروائو گی۔ میں نے امی سے بات کر لی ہے اور انہوں نے ابو سے۔ اب وہ لوگ تم کو دیکھنے تمہارے گھر آنا چاہتے ہیں۔
 
 تانیہ نے بتایا تو اس کی ہنسی کا ساتھ دینے کی بجائے میں پھیکی پھیکی مسکراہٹ سے اسے تکنے لگی۔ جیسے کہ اس بات سے میرے دل پر زخم پڑ گیا ہو۔ سمجھ نہ پا رہی تھی کہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔ میں تو اپنی بہن کی ہمراز بنی تھی۔ اس کا مسئلہ حل کرنے چلی تھی۔ ضیاء سے اس لئے ملی تھی کہ اس کو اپنی بہنا سے شادی کے لئے راضی کر سکوں کیونکہ وہ کم ہمت تھی۔ اپنی بات خود نہ کر سکتی تھی۔ اب جبکہ اس ڈرامے میں میرا کردار باقی نہ رہا تو دل ڈوبا جاتا تھا۔ لگتا کہ میں خود ضیاء سے محبت کرنے لگی ہوں۔ اس کے بغیر نہ رہ سکوں گی۔ میری معصوم بہن میرے دلی جذبات سے بے خبر اب بھی اپنے دل کی ہر بات مجھ سے کہہ جاتی تھی اور میں اس سے اپنا آپ چھپا رہی تھی۔ انہی دنوں ہمارے گھر ایک اچھا رشتہ آگیا۔ انہوں نے ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو امی سے کہا کہ دونوں میں سے جو بھی دے دیں، ہمیں قبول ہے۔ ایک جیسی ہی تو ہیں دونوں ان میں تو رتی بھر فرق نہیں ہے۔اگلے دن جبکہ تانیہ، ضیاء سے ملنے گئی ہوئی تھی میں نے امی سے کہا۔ ایک بات آپ کو بتائی تھی۔ ان دنوں تانیہ ایک غلط قسم کے لڑکے سے ملنے لگی ہے۔ امی آپ جلدی سے اس کی شادی کردیں۔ ایسا نہ ہو کوئی غلط بات ہو جائے اور رسوائی ہو۔ وہ لڑکا لفنگا اور آوارہ سا ہے۔ تانیہ نے مجھے ملوایا ہے۔ آپ اس کو بالکل بھی یہ مت بتایئے گا کہ میں نے آپ کو اس بات سے آگاہ کیا ہے ورنہ وہ عمر بھر مجھ سے نفرت کرے گی۔ امی نے وعدہ کیا کہ وہ میرا ذکر تانی سے نہ کریں گی۔ مگر وہ بے چاری اتنی خوفزدہ ہوئیں کہ چھٹ پٹ اس کی بات منان سے پکی کر دی۔ اس کو تب بتایا جب آخری پرچہ ہوگیا۔ اب میں پھر سے ضیاء سے ملنے لگی جبکہ تانیہ پر گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گئی تھی۔ میں نے ضیاء کو نہ بتایا کہ میں تانیہ نہیں ہوں بلکہ میری بہن ہے اور اس کی منان سے شادی طے ہو چکی ہے۔ وہ اب بھی یہی کہتا تھا کہ بتائو کب لائوں اپنے والدین کو اور میں جواب دیتی چند دن ٹھہر جاؤ میری بہن کی شادی ہونے والی ہے۔ 
 
والدین اس کے فرض سے سبک دوش بولیں تو پھر ان کو لانا۔ ادھر تانیہ رو رو کر کہتی تھی میری بہن مدد کرو۔ ضیاء سے کہو کہ رشتہ طلب کرنے والدین کو لے کر آئے۔ میں نے پہلے اس کو جھوٹی تسلیاں دیں۔ پھر بتایا کہ وہ بدل گیا ہے۔ اس نے منع کر دیا ہے کہ اس کے والد نہیں مان رہے ہیں۔ بے چاری تانیہ مایوس ہو گئی۔ اس کو ضیاء سے ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ خدا جانے میرے اندر کی خود غرض لڑکی نے ایسا کیوں کیا کہ بہن کا بھی احساس نہ کیا۔ آخر وقت تک ضیاء کو نہ بتایا کہ میرے جیسی میری ہم شکل اور بھی بہن ہے اور وہی تانیہ ہے میں نہیں ہوں۔ ضیاء سے مایوس اور مجھ ایسی بہن پر اعتبار کر کے ثانی معصوم کسی اور کی ڈولی میں روتی دھوتی رخصت ہو گئی۔ رخصتی کے وقت اسے روتے دیکھ کر میرا دل بیٹھا جاتا تها بالآخر وه كٹهن وقت گزر ہی گیا۔

اب میرا رستہ صاف تھا۔ تانیہ بیاہ کر بیرون ملک چلی گئی۔ ادھر وہ گئی ادھر میں نے ضیاء سے کہا کہ رشتے کے لئے والدین کو بھیجو۔ اس کے والدین آئے، مجھے دیکھا اور پسند کرلیا۔ میرے والدین ضیاء سے ملے۔ اس میں کیا کمی تھی جو انکار کرتے۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ ہو گیا۔ تانیہ میری شادی میں شامل نہ ہو سکی کہ امریکہ سے جلد لوٹنا ممکن نہ تھا۔ شادی والے دن ضیاء نے مجھ سے شکوہ کیا کہ تم نے مجھے کیوں اپنا نام غلط بتایا تھا جبکہ تمہارا نام تانیہ نہیں ثانیہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے غلط نام نہیں بتایا تھا۔ تانیہ میری بہن ہے تمہارے والدین نے مجھے دیکھا اور پسند کرلیا۔ تانیہ کی تو شادی ہو چکی ہے۔  
میں نے بتایا تھا نا کہ میری بہن کی شادی ہونے والی ہے۔ وہ بیرون ملک ہے۔ شادی میں شریک نہیں ہو سکی۔ میں نے شادی کے بعد بھی ضیاء کو نہ بتایا کہ تانیہ اور میں ہم شکل مگر دو الگ الگ وجود ہیں۔ قدرت نے بھی یہ موقع فراہم کردیا کہ شادی کے دن وہ ضیاء کے سامنے نہ آسکی۔ میری شادی کی تصویریں امی نے تانیہ کو بھجوائیں تو اسے غش آ گیا۔ وہ بے حس ہو کر پلنگ پر گر گئی۔ بعد میں منان نے فون کر کے امی کو بتایا یہ تصویریں دیکھ رہی تھی اچانک تانیہ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ یہ سن کر میں رو پڑی تھی مگر وہ مجھ سے زیادہ باہمت نکلی۔ میں نے اس کا سکھ چین چھینا مگر اس نے اُف نہ کی۔ میرے لئے قربانی دی راز کو راز ہی رکها کبهی ضیاء پر ظاہر نہ کیا اور نہ میرے گھر آئی۔

آج وہ اپنے گھر میں خوش ہے مگر میں بہن کی محبت کی شکست کا بوجھ زیادہ دنوں تک نہ اٹھا سکی اور سوچ سوچ کر بیمار پڑ گئی۔ آج میں کینسر کی مریضہ ہوں۔ میری روح تک اس سے شرمندہ رہے گی۔ نجانے اگلے جہان جب ہم ملیں گے تو میں کس طرح اس کا سامنا کر پائوں گی۔ تانیہ صاحب اولاد ہے لیکن میں اس نعمت سے محروم ہوں۔ میری جھولی ممتا کی خوشیوں سے خالی ہے۔ سوچتی ہوں شاید قدرت کو اسی کا بھلا منظور تھا۔ یہ اس کا انصاف ہی ہے کہ جو جیسا کرتا ہے ویسا پھل اسے ملتا ہے۔ دعا ہے کہ مجھ سی بہن خدا کسی کو نہ دے۔
 
(ختم شد)
  
romantic stories

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ