پرانےگھر کا جن

horror stories in urdu

آج ہی وہ اس نئے مکان میں ائی تھی تو یہاں پر آتے ہی اسے ایک عجیب سا احساس ہوا جس نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا وہ پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی کیونکہ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن غور کرنے پر کوئی بھی دکھائی نہ دیا یہ مکان کچھ عرصے سے بند پڑا ہوا تھا اس کہ ابا نے ستا ہونے کی وجہ سے اسے کرائے پر لے لیا ورنہ اس سے پہلے وہ جس مکان میں رہتے تھے اس مکان مالک نے گھر کا کرایہ بہت بڑھا دیا تھا یہی وجہ تھی کہ انہیں اپنا پرانا مکان چھوڑ کر نئے مکان کی تلاش کرنی پڑی اس نئے مکان کو دیکھتے ہی اس کہ ابا نے پسند کر لیا کیونکہ ایک تو اس مکان کا مالک بیرون ملک رہتا تھا اس لیے کسی قسم کا کوئی جھنجھٹ نہیں تھا اور دوسرا اس مکان کا کرایا اور مکانوں کی نسبت بہت کم تھا اس میں ہر قسم کی سہولت تھی
 
 یہاں سے سکول کالج بازار سب نزدیک پڑتا تھا اس کہ ابا نے اس مکان کو لینے کا پکا ارادہ اس لیے کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مالک مکان باہر ہے کوئی بھی پریشان نہیں کرے گا وقت پر کرایہ دینے کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا پرانے مکان مالک نے تو ان کہ ناک میں دم کر رکھا تھا وہ آئے دن کسی نہ کسی بات کو لے کر اس کہ ابا سے لڑائی جھگڑا کرتا اس لیے مکان مالک سے بہت تنگ آ گئے تھے اور وہ مکان چھوڑنے کا فیصلہ کیا آج وہ اپنے ابا کے ساتھ مکان کی صفائی کرنے کے لیے آئی تو گھر میں بہت زیادہ گند دیکھ کر وہ گھبرا گئی ایسا لگتا تھا کہ کئی سالوں سے اس مکان کو کسی نے صاف ہی نہیں کیا لمبے لمبے جالے خوفناک سا منظر پیش کرتے دکھائی دے رہے تھے اس نے ڈرتے ڈرتے گھر میں قدم رکھا اور اپنے ابا سے کہا کہ یہ گھر تو بہت زیادہ خوفناک سا لگ رہا ہے تبھی اسے ابا کہنے لگے کہ گھر کی صاف ستھرائی ہونے والی ہے جیسے ہی گھر کی صاف ستھرائی ہو جائے گی یہ گھر بھی پرانے گھر کی طرح اچھا ہی دکھنے لگے گا اس نے جلدی سے اپنے ابا کے ساتھ مل کر پورے گھر کو صاف کرنا شروع کیا جائے
 
اتارے اور جھاڑو پوچا کرنے کے بعد گھر کی کچھ شکل دکھائی دینے لگی اب یہ گھر کچھ رہنے کے قابل لگ رہا تھا لیکن نہ جانے اس گھر میں اسے عجیب و غریب سا خوف محسوس ہو رہا تھا اس نے پورے گھر کا اچھی طرح جائزہ لیا لیکن اسے کچھ بھی ایسی چیز دکھائی نہ دی جس سے ڈرنے کی کوئی وجہ معلوم ہو سکتی گھر میں سامان کی شفٹنگ کا کام شروع کیا گیا اس کی اماں بیمار رہتی تھی اس لیے شفٹنگ کا کام وہ اور اس کہ ابا کے ذمے تھا اس نے اور اس کہ ابا نے سارا سامان اپنی اپنی جگہ پر لگا دیا سب سے پہلے اس نے اپنی ماں کے کمرے کو سیٹ کیا تاکہ ماں کمرے میں ارام کر سکیں
 
 ماں سے چلا پھرا نہیں جاتا تھا بیماری کی وجہ سے ماں کام کاج نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی کہیں اجا سکتی تھی سارا دن گھر کا کام کرنے کی تھکان کے بعد اس نے ارام کرنے کا سوچا تبھی اس نے اپنے ابا سے کہا کہ اب مجھے بھی ارام کرنا چاہیے اس نے اپنے ابا اور اماں کو کھانا کھلا دیا اور خود بھی کھانا کھا کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی وہ اپنے بستر پر جا کر لیٹی ہی تھی کہ اسے عجیب سا خوف آنے لگا اس گھر میں انے کے بعد سے ہی اس کہ ذہن پر یہ وہم سوار ہو چکا تھا کہ کوئی ہے جو اسے مسلسل دیکھ رہا ہے لیکن غور کرنے پر اسے کوئی بھی دکھائی نہ دیتا ڈر تو بہت لگ رہا تھا لیکن اسے الگ کمرے میں سونے کی عادت تھی اس لیے اس نے آیت الکرسی پڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں ہی سونے کا فیصلہ کیا تھکاوٹ کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہی اسے نیند آگئی وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی جب اس کہ کانوں میں اماں اور ابا کی اواز پڑی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اماں اور ابا کسی بات کو لے کر بحث کر رہے ہوں جیسے ہی اس نے گھبراتے ہوئے اپنی چار پائی سے قدم نیچے رکھا کہ جا کر دیکھو تو سہی کہ اخر کمرے میں کیا ہوا ہے
 
ابا کیوں اتنا بول رہے ہیں وہ اٹھی اور ابا کے کمرے کی طرف جانے لگی اس کہ ابا اس کی ماں سے رو کر کہہ رہے تھے کہ میرے بھائیوں نے میرے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا میں خاموش رہا کہ دونوں چھوٹے ہیں لیکن مجھے اس بات کا دکھ ہمیشہ رہے گا کہ ان دونوں نے غلط کرتے ہوئے ایک دفعہ نہیں سوچا کہ وہ یہ سب کر کس کے ساتھ رہے ہیں اس کہ ابا کی انکھوں میں انسو تھے اگر میرے ساتھ ایسا نہ کرتے تو ہمیں در در کی ٹھوکریں کھانے کو نہ ملتی اس کی ماں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے اسے دیکھتے ہی اس کی ماں اور ابا دونوں خاموش ہو گئے اور اپنے اپنے آنسو صاف کرنے لگے
 
 اس کے ابا اس بات بہت سے اچھی طرح سے واقف تھے کہ اسے اپنے چچا یا کسی بھی رشتہ دار کے بارے میں بات کرنا بالکل بھی پسند نہیں وہ بالکل بھی اس بات کو اچھا نہیں سمجھتی تھی کہ کوئی بھی ان کا ذکر گھر میں کرے اس نے اپنے ابا اور اماں سے کہا کہ رات بہت ہو چکی ہے اور آپ لوگ یہ کیسی بحث میں پڑے ہوئے ہیں ماں کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں اب آپ لوگوں کو سو جانا چاہیے میں آپ لوگوں کی آوازوں سے جگی ہوں نہیں تو میں تو اس قدر تھک چکی تھی کہ بستر پر لیٹتے ہی مجھے نیند آ گئی یہ کہتے ہوئے اس نے ماں اور ابا کے کمرے کی لائٹ بند کی اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی تبھی اس کی نظر اپنے گھر کے دروازے پر پڑی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دروازے کے اگے کوئی کھڑا ہے پہلی ہی نظر دروازے پر پڑتے اس کی تو جان ہی نکل گئی تھی اس کہ قدم اپنے کمرے کی طرف جانے کے بجائے ابا اور اماں کے کمرے کی طرف جانے لگے اس نے اپنی ماں سے کہا کہ مجھے اپنے کمرے سے بہت خوف ارہا ہے شاید نیا گھر ہے اس وجہ سے ڈر سا لگ رہا ہے کیا میں آج اپ کے کمرے میں لیٹ جاؤں ماں نے اجازت دی اور اس نے وہیں پر چارپائی بچھاتے ہوئے سونے کا ارادہ کیا
 
وہ انکھیں بند کر کے بستر پر لیٹی تو آنکھوں کے سامنے وہی منظر بار بار اتا دکھائی دینے لگا دروازے کے آگے کالی پوشاک میں ایک لمبا چوڑا آدمی کھڑا تھا اس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی اس کی جان نکل رہی تھی سوچنے لگی کہ رات کے اس وقت آخر کار وہ کون تھا دروازہ تو لگا ہوا تھا آخر وہ کون تھا جو مسلسل گھورے جا رہا تھا جب اس نے اس کی آنکھیں دیکھی تو وہ خوف سے بھری ہوئی تھی اسی خوف سے خوف زدہ ہوتے ہوئے ساری رات نیند نہیں آئی وہ ساری رات کروٹیں بدلتی رہی
 
 صبح کی اذان ہوئی تو اسے سکھ کا سانس آیا اس نے اور اس کی ماں نے وضو کیا اور فجر کی نماز ادا کرنے لگے نماز پڑھنے کے بعد وہ اپنے بستر پر لیٹی تو اسے فوراً سے نیند اگئی وہ گہری نیند سوگئی اس نے ایک خواب دیکھا اس کا نام فروا ہے اس کہ ابا ایک بزنس مین ہیں ماں گھریلوں خاتون ہیں ماں اور ابا کی جب شادی ہوئی تو اس کہ ابا اپنے دو چھوٹے سوتیلے بھائیوں کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے فروا کہ ابا کے بھائی اس کہ ابا سے کافی چھوٹے تھے اس وجہ سے ان کی دیکھ بھال فروا کی ماں ہی کیا کرتی جوائنٹ فیملی ہونے کی وجہ سے ماں پر بہت سی ذمہ داریاں تھی اماں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا جانتی تھی شادی کے بعد ابا نے کبھی بھی اولاد کی خواہش ظاہر نہیں کی اس کہ ابا کے دل میں ایک خوف تھا کہ اگر میری اپنی اولاد ہوئی تو میرا اور میری بیوی کا رجحان میرے چھوٹے بھائیوں سے ہٹ جائے گا اس کی اماں اگر کبھی اس کہ ابا سے اپنی اولاد ہونے کی خواہش کا اظہار کر بھی دیتی تو اس کہ ابا ہمیشہ کہتے کہ یہ بھی تو ہمارے بچوں کی طرح ہی ہیں ان پر توجہ دے کر میرے دل کو بہت سکون ملتا ہے میں نہیں چاہتا کہ میری اپنی اولاد ہو اور میں اس سکون سے محروم ہو جاؤں اس کی ماں جب بھی اس کہ ابا کے منہ سے ایسے الفاظ سنتی تو اس کی اماں کا دل بہت بھر آتا کیونکہ اس کی اماں اپنی اولاد بھی چاہتی تھی
 
 بے شک اماں ابا کے دونوں سوتیلے بھائیوں کو کبھی سوتیلا نہیں سمجھتی تھی اس کے باوجود بھی اس کہ ابا اماں سے ہمیشہ یہی کہتے کہ یہ تمہاری اولاد کی طرح ہی ہیں ان پر توجہ دیا کرو جب تمہارا دل میرے بھائیوں کے ساتھ لگ جائے گا اور تم انہیں اپنا ماننے لگو گی تو تمہارے دل سے اپنی اولاد کی حسرت ختم ہو جائے گی تمہیں کبھی بھی اپنی اولاد کی کمی محسوس نہیں ہو گی فروا کہ ابا کی باتیں اس کی اماں کا دل دکھاتی لیکن اماں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اس کی اماں پانچ وقت کی نماز پڑھتی اور گڑ گڑا کر اللّٰہ سے دعا کرتی کہ اے رب میرے دل میں کسی کے لیے کوئی میل نہیں لیکن مجھے اپنی اولاد کی بھی خواہش ہے میں اپنے شوہر کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتی لیکن تو دلوں کا حال بہتر جانتا ہے مجھے نیک اور صالح اولاد سے نواز چاہے مجھے بیٹی ہی عطا کر لیکن مجھے میری اپنی اولاد بھی عطا کر میری گود سونی نہ رکھنا
 
اس کی اماں رو رو کے اپنے پروردگار سے یہ دعا کیا کرتی وقت گزرتا گیا اور اور اس کہ ابا اپنی ضد پر قائم رہے آخر کار شادی کو سات سال کا عرصہ ہونے کو تھا لیکن اماں کی اپنی گود اج تک سونی تھی ابا کے بھائی جوان ہو گئے اور ابا کے ساتھ کاروبار میں مصروف ہو گے اماں کا دل گھر پر نہیں لگتا تھا فروا کی اماں اس کہ ابا سے کہنے لگی کہ آپ کے بھائی اب جوان ہو گئے ہیں اب تو اپ کو اپنی اولاد کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ہماری اپنی اولاد بھی ہوئی جاتے آخرکار یہ رہیں گے تو آپ کے بھائی ہی نا لیکن وہ اس کی اماں کی ایک نہ سنتے اس کہ ابا کا فیصلہ اٹل تھا اماں بھی ابا کو سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی اب اماں نے بھی اس بات پر لڑنا جھگڑنا یا سمجھانا چھوڑ دیا اس کہ ابا کو اس کے حال پر چھوڑتے ہوئے اماں نے اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کر دیا تھا فروا کی اماں کو صبر اگیا پہلے پہل تو ابا کے بھائی ابا کی بہت عزت کیا کرتے وہ دونوں اس کہ ابا کے بغیر کھانا تک نہیں کھاتے تھے فروا کہ ابا نے انہیں اپنے بچوں کی طرح اپنی اولاد کی طرح پالا تھا اس لیے اس کہ ابا خود بھی ان کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتے تھے جیسے ہی وہ جوان ہوئے تو وہ اپنی مرضی کے خود مالک تھے وہ اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے جینا چاہتے تھے جو بچے فروا کہ ابا سے پوچھے بغیر پانی کا گلاس تک نہیں پیا کرتے تھے اب وہ اپنی زندگی میں بہت آگے نکل چکے تھے وہ اس کہ ابا سے کوئی بھی کام پوچھ کر نہیں کرتے تھے اس کہ ابا کہ چھوٹے بھائی نے لو میرج کرنے کے بعد اس کہ ابا کو بتایا کہ وہ کسی کو پسند کرتے تھے اور اس سے نکاح کر چکے ہیں اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی اس کہ ابا نے اپنے بھائیوں سے کچھ نہ کہا نہ کوئی شکوہ نہ کوئی گلا کیا
 
اس کہ ابا نے اس سے ایک اور چھوٹے بھائی کی بھی اس کی مرضی کے مطابق شادی کر دی دونوں بھائی اپنی شادی شدہ زندگی میں مگن ہو گئے اب وہ پہلے والی بات نہ رہی تھی دونوں بھائی نہ ہی اب فروا کہ ابا کو وقت دیتے اور نہ ہی ابا کی وہ اہمیت ان کی بیویوں کی نظر میں تھی جس کی ان سے توقع رکھتے حالات پہلے جیسے نہ رہے فروا کہ ابا کے بھائیوں نے دو دو بچوں کو پیدا کر لیا اور اس کہ ابا کو بالکل تنہا کر کے چھوڑ دیا وہ اب اکثر فروا کی ماں کے آگے روتے اور اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی ماں سے معافی مانگتے اب وہ یہ بات جان چکے تھے کہ اپنی اولاد اپنی ہی ہوتی ہے ابا بہت رویا کرتے کہ جن بھائیوں کے پیچھے خود کی اولاد پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ان بھائیوں نے ایسی نگاہیں پھیری کہ انہیں کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کسی بھی تکلیف کا ان پر کوئی اسر نہ ہو تا اب اس کہ ابا کے دل میں بھی اولاد کی خواہش پیدا ہونے لگی شادی کو پندرہ سال گزر گئے اس کی ماں نے تو صبر کر لیا لیکن اب اس کہ ابا کی تڑپ اب ماں سے بھی دیکھی نہ جاتی اس کہ ابا کو جو کوئی علاج کے لیے بتاتا وہاں پر وہ اپنی بیوی کے ساتھ چلے جاتے اپنا اور اپنی بیوی کا مکمل چیک اپ کرواتے ڈاکٹر دونوں کی رپورٹ دیکھتے ہوئے کہتے کہ آپ اللّٰہ سے دعا کریں اللّٰہ نے چاہا تو آپ کو اولاد سے ضرور نوازے گا
 
 اس کہ ابا بھی نماز پڑھ کر رو رو کے اللّٰہ سے دعا کرتے یہ وہ وقت تھا جب اس کہ ابا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اس کہ ابا اس بات کو بہت اچھی طرح سے سمجھ گئے تھے کہ اولاد کی نعمت کیا ہوتی ہے اور اولاد سے محرومیت کیا ہوتی ہے اس کہ ابا نے کوئی دربار کوئی پیر بابا کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی جہاں سے اپنے لیے دعا نہ کروائی ہو رو رو کے اللّٰہ سے اپنے کیے گئے فیصلے پر معافی مانگتے ایک دن اچانک سے اس کی ماں کی حالت خراب ہوئی فروا کی ماں نے اپنے چھوٹے دیور سے کہا کہ ذرا مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو تو اس نے چار باتیں سناتے ہوئے اس کی ماں کو چپ کروا دیا ان کی بیویاں بھی اس کی ماں اور ابا کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی لیکن فروا کہ چاچا کبھی بھی اپنی بیویوں کو روکتے ٹوکتے نہ تھے وہ خود بھی اس کہ ابا اور اماں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے
 
اس لیے انہیں اپنی بیویوں کا کیا گیا غلط سلوک بھی ٹھیک لگتا اس کی ماں نے روتے ہوئے اپنے شوہر کو کال کی فروا کہ ابا ایک ضروری کام میں مصروف تھے انہوں نے اس کی ماں سے کہا کہ رکشہ کروا کر تم ہاسپٹل خود چلی جاؤ میں بھی کچھ دیر میں تمہیں وہی ملوں گا اس کی ماں نے رکشہ کروایا اور بہت مشکل سے ہاسپٹل پہنچی وہاں پہنچنے پر اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں امید سے ہیں اس کی ماں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اس کی ماں نے روتے ہوئے اپنے شوہر کو فون کیا اور فوراً سے ہاسپٹل میں آنے کو کہا اس کہ ابا سب کام چھوڑ چھاڑ کے فوراً ہاسپٹل پہنچ گئے
 
 جب ڈاکٹر نے اس کہ ابا کو خوشخبری سنائی تو اس کہ ابا کی انکھوں میں انسو بھر آئے انہوں نے وضو کیا فوراً سے اپنے رب کے آگے سجدہ کرتے ہوئے شکر ادا کیا سارا چیک اپ کروانے کے بعد وہ ان کو احتیاط سے گھر لے آئے فروا کہ ابا کے بھائی اس خوش فہمی میں تھے کہ بڑے بھائی کی کون سی کوئی اولاد ہے ساری جائید ہماری اور ہمارے بچوں کی ہے لیکن آج جب اس کہ والد نے اتنی بڑی خوشی کی بات اپنے بھائیوں کو بتائی تو اس کہ بھائی یہ بات سن کر خوش ہونے کی بجائے پریشان دکھائی دینے لگے فروا کہ والد اس بات کو بہت اچھے سے جان گئے کہ اتنی بڑی خوشی کی بات سن کر بھی گھر میں سے کوئی بھی خوش نظر کیوں نہیں آرہا اس کہ دونوں چچا زمین جائیداد کے بارے میں سوچنے لگے اس کی ماں کی حالت دن بدن خراب رہنے لگی کیونکہ اس کی ماں کو بے حد کمزوری کی شکایت تھی جیسے تیسے کر کے اس کی ماں نے اپنا وقت گزارا اس کی ماں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا فروا کی چچیاں اس کی ماں پر طرح طرح کے الزام لگاتی اور کسی نہ کسی طرح سے اس کی ماں کو پریشان کیے رکھتی تا کہ اس کی ماں کو پریشان کر کہ آنے والی خوشی کو ختم کر دیا جائے جب اس کہ ابا نے یہ بات محسوس کی تو اس نے اپنی بیوی کو اس کی بہن کے ہاں چھوڑ دیا
 
اس کی ماں نے اپنا باقی کا وقت اس کی خالہ کے پاس گزارا دیکھتے ہی دیکھتے وہ وقت بھی آگیا جب اللّٰہ تعالی نے ان کو ایک بیٹی سے نوازا انہوں نے فروا کو جنم دیا فروا ان کی ایک اکلوتی بیٹی تھی اس لیے ان کی لاڈلی بھی تھی اس کہ ابا کو باپ بننے کا شرف شادی کے سولہ سال بعد حاصل ہوا تھا اس لیے اس کہ ابا کے لیے فروا کسی انمول تحفے سے کم نہ تھی وہ اسے بہت پیار سے رکھتے اور بے انتہا محبت کرتے فروا کی پیدائش کے بعد اس کی ماں نے اپنے گھر واپس جانے کا ارادہ کیا جب اس کی ماں اپنے گھر واپس آگئی تو گھر میں عجیب و غریب قسم کے لڑائی جھگڑے ہونے لگے اس کہ ابا نے اس کی ماں کو بتایا کہ میرے بھائیوں نے زمین جائیداد اور کاروبار کے سب کاغذات غیر موجودگی میں چوری کر کے سب کچھ اپنے نام کروا لیا ہے اور اس کہ ابا کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دی سارا کاروبار اس کہ ابا کا اپنا تھا اس میں فروا کہ دادا یا کسی کا کوئی حصہ نہ تھا 
 
اس کے باوجود بھی دونوں چچا نے اس کہ ابا کو بہت بری طرح سے دھوکہ دیا اور سارا کاروبار ہتھیا لیا اس کہ ابا نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ اب تو میری اپنی بھی بچی ہے میرے ساتھ اتنا بڑا ظلم کرتے ہوئے تم دونوں کے ہاتھ نہیں کانیے میں نے تم دونوں کی پرورش میں کہاں غلطی کر دی اپنی اولاد نہیں ہونے دی تا کہ تم لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہو جائے اس کے باوجود تم لوگوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا فروا کہ ابا کے دل سے ان کے بھائیوں کی محبت آج نکل چکی تھی اس کہ ابا زار وقطار رونے لگے اور اپنے بھائیوں سے کہنے لگے کہ تم لوگ تو استین کے سانپ نکلے ایک دفعہ بھی تم لوگوں نے ایسی حرکت کرتے ہوئے نہیں سوچا کہ میں نے باپ بن کر تم لوگوں کو پالا ہے تو فروا کہ چچا اپنی بات کاٹتے ہوئے بولے کہ پالا تھا تو کوئی احسان نہیں کیا تمہارے ذمے ماں ابا ہماری ذمہ داری لگا کر گئے تھے اگر تم وہ ذمہ داری پوری نہ کرتے تو تم اماں ابا کو جوابدہ ہوتے اس لیے ان کے آگے حشر کے دن تمہیں کھڑا ہونا پڑتا تم نے وہ سب کیا جو وہ تمہیں نصیحت کر کے گئے تھے اس لیے تمہارا ہم پر کسی قسم کا کوئی احسان نہیں جو احسان بھی ہو گا اماں اور ابا پر ہو گا فروا کہ ابا نے اپنے بھائی کے منہ سے اس طرح کے الفاظ سنے تو اس کہ ابا کو اپنی کی گئی اس نیکی پر پچھتاوا ہونے لگا
 
اس کہ ابا اس وقت کو کوسنے لگے جب پنے بھائیوں کی وجہ سے اس کی ماں کے ساتھ بے بہا زیادتیاں کی اس سے پہلے کہ وہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں سے کسی قسم کی اور کوئی بات کرتے شکوہ یا گلہ کرتے ان دونوں نے دھکے دے کر اس کی ماں اور ابا کو فروا سمیت گھر سے نکال دیا اس کہ ابا نے اس کی اماں اور فروا کو کچھ عرصہ کے لیے خالہ کے گھر ٹھہرایا اور خود شہر میں کام ڈھونڈنے کی غرض سے چلے آئے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد آخر کار ان کو ایک جگہ پر نوکری مل ہی گئی ان کی امدن اتنی زیادہ تو نہ تھی لیکن اتنی امدن تھی کہ وہ فروا اور اس کی ماں کو اپنے ساتھ شہر میں رکھ سکتے وہ فروا اور اس کی ماں کو اپنے ساتھ شہر لے آئے اور یہاں ا کر کرائے کا ایک چھوٹا سا مکان لے لیا سارا دن محنت مزدوری کر کے تھک جاتے دوسروں سے محنت مزدوری لینے والا انسان آج خود محنت مزدوری کرنے لگا تھا اس نے تو کبھی ایک پانی کا گلاس بھی خود اٹھ کر نہیں پیا تھا اور اج اسے دن رات محنت کرنی پڑ رہی تھی ان کا کام ہی کچھ ایسا تھا ان کو ایک ڈھابے پر حساب کتاب کی نوکری ملی تھی یہاں پر وہ حساب کتاب کے ساتھ ان کو لوگوں کے گندے برتن بھی خود صاف کرنے پڑتے فروا بھی اب بڑی ہو چکی تھی فروا سے اب ابا اور اماں کی یہ پریشانی دیکھی نہیں جاتی تھی اس کہ ابا کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ اس کہ ابا کسی اچھے سکول میں تعلیم دلوا سکتے اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ اکثر اپنے ابا سے ضد کرتی کہ مجھے بھی سکول جانا ہے لیکن اس کہ ابا کے پاس سکول بھیجنے کی گنجائش ہی نا ہوتی
 
 ایسے ہی وہ جوان ہوتی چلی گئی جس کرائے کے مکان میں وہ رہتے تھے اس مکان کا مالک بہت ہی کنجوس تھا وہ طرح طرح کے بہانوں سے اس کہ ابا سے پیسے ہتھیاتا رہتا کرایا بڑھا کر تو بھی کسی چیز کی توڑ پھوڑ کی وجہ بنا کر ہمیشہ پریشان کرتا اس کہ ابا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس گھر میں نہیں رہیں گے کیونکہ اس مکان کا مالک بہت زیادہ تنگ کرنے لگا تھا جب اس نے مکان کا کرایا اچانک سے بڑھا دیا تو اچھی خاصی بحث ہو گئی اس کی ماں نے ابا کو بتائے بغیر مالک مکان سے بات کرنے کا سوچا جب اس کی ماں نے مالک مکان کو اپنی مجبوریاں سناتے ہوئے کرایہ کم کرنے کا کہا تو اس مالک مکان نے اس کی ماں سے کہا کہ دیکھو بہن تم اتنی پریشان ہو تو کوئی ایسا کام کیوں نہیں کر لیتی کہ یہ مکان ہمیشہ کے لیے تم لوگوں کو فری میں رہنے کو مل جائے اس کی ماں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے بھائی کہ اپ اپنا مکان ہمیں ہمیشہ کے لیے بغیر کرائے کے دے وہ مالک مکان سنسی ختہ مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے اس کی ماں سے کہنے لگا کہ دیکھو میرے دو بچے ہیں اور میری بیوی مجھے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ہے میں اپنے بچوں کے لیے ایک ماں کی تلاش میں ہوں تمہارے پاس ایک خوبصورت نوجوان بیٹی ہے تو تم ایسا کرو کہ اپنے شوہر سے کہو کہ اپنی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ طے کر دے اور میں تم دونوں کو یہ مکان فری میں رہنے کے لیے دے دوں گا
 
اس کی ماں نے جب اس کی بات سنی تو کلیجہ منہ کو آ گیا فروا کی ماں نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر لگاتے ہوئے کہا کہ تم اس کے باپ کی عمر کے ہو اور تم میری معصوم سی بچی پر گندی نظریں جمائے ہوئے ہو اس کی ماں نے اس سے کہا کہ ہم نے تم سے ایک مہینے کا وقت مانگا تھا لیکن اب میں بہت جلد تمہارا گھر خالی کر دوں گی جب تک میں گھر خالی نہیں کر دیتی خبر دار اگر تم نے میرے دروازے تک بھی قدم رکھا اس کی ماں نے اس کی اچھی خاصی بے عزتی کرتے ہوئے اسے گھر سے نکال دیا یہ ساری باتیں فروا دروازے کے پیچھے کھڑی خاموشی سے سن رہی تھی اس کی انکھوں سے آنسو بہنے لگے فروا کو اپنے دونوں چچا پر بے حد غصہ آرہا تھا کیونکہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ لوگ لاوارثوں جیسی زندگی گزار رہے تھے اور وہ لوگ جن کا کچھ بھی نہیں تھا عیش و عشرت کی زندگی گزارتے نظر اتے مالک مکان کے جانے کے بعد اس کی ماں کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا کیونکہ اس کی ماں نے ایک تو اس کے منہ پر زور دار تماچہ مارا تھا اور دوسرا اسے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ہم تمہارا گھر خالی کرئے گے لیکن آگے سے کوئی گھر نہیں مل رہا تھا اب گھر کو لے کر بے حد پریشان نظر اتے اس کہ ابا اس کی اماں سے کہنے لگے میں اسی سائیڈ پر گھر ڈھونڈتا ہوں جس سائیڈ پر میری نوکری ہے کیونکہ وہ سارا ایریا مزدوروں کا ہے وہاں کوئی نہ کوئی خالی مکان رہنے کو ضرور مل جائے گا اور کرایہ بھی زیادہ نہ ہو گا فروا کی ماں تو بس اب یہی چاہتی تھی کہ کسی طرح اس گھر کو خالی کر دیا جائے اس کی ماں نے مالک مکان کی بات کو اپنے دل پر لے لیا جس سے دن بدن فروا کی ماں کی حالت بگڑنے لگی۔
 
جب اس کی ماں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سیڑھیوں پر کون شخص بیٹھا ہے اسے کوئی بھی دکھائی نہیں دیا تھا وہاں پر کوئی تھا ہی نہیں جو اسے دکھائی دیتا لیکن امامہ کو کوئی نظر آرہا تھا وہ انجانا شخص جو اس کے پیچھے پڑا تھا وہ تب سے اس کے پیچھے لگا ہوا تھا جب سے وہ اس حویلی میں گئی تھی اب وہ جان گئی تھی کہ اس کے ساتھ کوئی غیر فطری معاملہ پیش آرہا ہے دوسرے دن بڑی مشکل سے گھر والوں نے اسے تیار کروایا تھا بارات دن کی تھی جبکہ بہن کی رخصتی کے بعد رات کو بھائی کا ولیمہ تھا وہ سب تیار ہو چکے تھے رات کے 10 بج رہے تھے تبھی وہ دوسری کزنوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر ہال کی طرف جانے لگی لیکن اچانک ہی ایک ویران سڑک پر ان کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اس کا کزن جو ڈرائیور تھا سب لڑکیوں سے کہنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے گاڑی سے اتر جائیں کیونکہ گاڑی میں تھوڑا مسئلہ ہو گیا ہے جسے وہ بھی ٹھیک کرلے گا یوں وہ ساری کزنیں گاڑی سے اتر گئی تھی امامہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ آخر اس کے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے تبھی دور سے کوئی اتا ہوا اسے دکھائی دیا جیسے ہی وہ اس کی کزن کے قریب آیا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی یہ تو وہی شخص تھا جو اسے ہر جگہ دکھائی دے رہا تھا وہ اس کہ کزن سے کوئی بات چیت کر رہا تھا جبکہ اس کی نظریں امامہ پر تھی مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا پھر دو منٹ میں ہی اس نے گاڑی ٹھیک کی اب گاڑی ٹھیک ہو چکی تھی تو اس کے کزن نے اس کا شکریہ ادا کیا لیکن وہ عجیب سے انداز میں مسکرا کر وہاں سے دور اندھیرے میں جا کر غائب ہو گیا جب کہ امامہ کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا
 
وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ صرف اسکی خاطر یہاں پر آیا تھا جانے کیوں چلتی کار کے دوران بھی اسے محسوس ہوا جیسے وہ اس کے پیچھے پیچھے ہی آ رہا ہے اس نے جیسے ہی کار کے شیشے سے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ عجیب انداز میں چلتا اس کار کے پیچھے پیچھے مسلسل اسے دیکھتا رہا تھا اور یہ منظر دیکھتے وہ اپنی کزن سے لپٹ گئی اچانک اس کا جسم پوری طرح کانپنے لگا وہ سب بھی پریشان ہو گئے کہ اسے کیا ہوا ہے وہ ڈر کر اپنی کزن سے کہنے لگی کوئی ہمارا پیچھا کر رہا ہے تو وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے 
 
شاید ویران جگہ پر جانے کی وجہ سے اس کے اوپر کسی ہوائی چیز کا اثر ہو گیا ہے ان دونوں کے ذہن میں یہی بات آئی لیکن دوسرے دن اسے شدید بخار ہو گیا اب اس کی ماں مہمانوں کے جانے کا انتظار کر رہی تھی کہ کب گھر سے مہمان رخصت ہوں اور وہ اپنی بیٹی کو کسی مولوی کے پاس لے کر جائے جس کے ساتھ عجیب و غریب صورتحال پیش آرہی تھی خدا خدا کر کے سارے مہمان رخصت ہوئے وہ پہلی فرصت میں ہی امامہ کو ایک مولوی کے پاس لے کر جا رہی تھی جبکہ امامہ شدید بخار میں مبتلا تھی وہ ہر وقت اپنی ماں کو یہی کہتی کہ کوئی اجنبی شخص اسے دکھائی دیتا ہے جانے وہ کون ہے بالکل انسان لیکن اس کی انکھیں بہت خوفناک ہیں وہ بھی مولوی نے حیران ہو کر اس خوبصورت نیلی آنکھوں والی لڑکی کو دیکھا جو بہت ہی خوبصورت تھی لیکن اب پیلی زرد ہو رہی تھی کسی چیز کا خوف اس کی انکھوں سے صاف ظاہر تھا اچانک ہی وہ انکھیں بند کر کے کوئی عمل کرنے لگا
تھوڑی ہی دیر بعد مولوی صاحب غصے سے اسے کہنے لگا کیوں اس معصوم کو پریشان کر رہا ہے کیا بگاڑا ہے اس نے وہ امامہ کے برابر میں بیٹھی ایک ایسی مخلوق سے بات کر کر رہا تھا جو صرف مولوی صاحب کو ہی دکھائی دے رہی تھی جب کہ اس کی ماں کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کیونکہ اب اسے پورا یقین ہو گیا تھا کہ وہ جو بات بول رہی تھی وہ سچ ہو گئی امامہ کو تو سچ میں ہی کوئی جنات کا سایہ ہو گیا تھا جو مولوی صاحب کو دکھائی دے رہا تھا اور نہ صرف مولوی صاحب نے اسے حاضر کر لیا تھا بلکہ اس سے بات چیت بھی کر رہے تھے 
 
ان دونوں کے مابین کیا گفتگو کیا تکرار ہو رہی تھی ان دونوں ماں بیٹی کو کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا لیکن امامہ خوف کے مارے زرد ہو رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ یہاں سے اٹھ کر بھاگ جائے 15 منٹ تک یہی سب ہوتا رہا آخر کار مولوی صاحب اس کی ماں سے کہنے لگے وہ ایک جن ہے بہت بڑا بہت طاقتور جو تمہاری بیٹی پر عاشق ہو گیا ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ اس لڑکی کی معصوم صورت اور نیلی انکھوں پر عاشق ہو گیا تھا کیونکہ جہاں وہ آباد تھا یہ لڑکی اس کمرے میں خوب شور مچارہی تھی اس لڑکی نے اسے تنگ کیا تھا چاہتا تو وہ اس سے بدلہ بھی لے سکتا تھا لیکن اب وہ اس کے پیچھے ہے کیونکہ وہ اس لڑکی پر عاشق ہو گیا ہے اسی لیے وہ اجنبی شخص اسے دکھائی دیتا ہے مولوی صاحب کی بات سن کر تو امامہ نے با قاعدہ رونا شروع کر دیا لیکن اس کی ماں جلدی سے کہنے لگی مولوی صاحب آپ میری بیٹی کی جان اس سے چھڑوا دیں یہ بڑی پریشانی میں ہے آخر اس نے اس کا کیا بگاڑا ہے مولوی صاحب کہنے لگے وہ بہت طاقتور جنات ہے اس سے پیچھا چھڑوانا اتنا آسان میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا نہ ہی اس دنیا میں اب کوئی ایسا بندہ ہی ہے جو اس طاقتور جن سے مقابلہ کرئے میری مانو تو تم اپنے بچی کا نکاح کر دو اسے رخصت کرو گی تو ہو سکتا ہے کہ نکاح کی طاقت سے وہ اس سے کہیں دور بھاگ جائے اور یے بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اور چیڑ جائے
 
 مولوی صاحب کی بات سے کچھ پریشان ہو گئی ابھی تو دو بچوں کی شادی کر کے ہٹی تھی اتنی جلدی اپنی دوسری بیٹی کے لیے رشتہ ڈھونڈنا اور جلد بازی میں اس کا نکاح کرنا اتنا اسان بھی نہیں تھا لیکن ہر رات امامہ کے چیخنے کی اواز سن کر وہ دوڑی دوڑی اس کے کمرے میں جاتی اس کے دوسرے بہن بھائی بھی حیران تھے کہ آخر اس کو کیا ہوا ہے پھر جب اس کی شادی شدہ بہن اس سے ملنے آئے تو اس کی ماں نے اسے سب کچھ بتا دیا کہ اس کے ساتھ کیا کیا معاملہ پیش آرہا ہے وہ کہنے لگی امی پہلی فرصت میں آپ اس کا نکاح کر دیں مولوی صاحب نے جو کہا ہے وہ ٹھیک ہے کوئی نہ کوئی رشتہ مل جائے گا اپنوں میں نہ سہی غیروں میں ہی کر دیں یوں سب اس کے رشتہ تلاش کر رہے تھے جب کہ وہ ہر وقت خوئی سی اپنے کمرے میں پڑی رہتی وہ جان گئی تھی کہ اس پر جنات کا سایہ ہو گیا ہے ایک طاقتور جنات اس پر عاشق ہے جو اسے ہر جگہ دکھائی دیتا ہے اور یہ بات بڑی ہی عجیب خوفناک تھی وہ اب سائے سے بھی ڈرنے لگی تھی لیکن آخر کار اس کے باپ کے ایک جاننے والے کو اس کا رشتہ مل گیا تھا وہ لڑکا بہت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن پڑھا لکھا اور سمجھدار تھا اس کی اپنی بھی تین تین بہنیں تھی لیکن ساری بہنیں شادی شدہ تھی لڑکا اپنی ماں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا
 
چھوٹی سی فیملی تھی جلد بازی میں اس رشتے کے لیے ہاں کر دی گئی تھی اور عنقریب اسے کا نکاح کر کے رخصت بھی ہو جانا تھا جبکہ امامہ ابھی ان چیزوں کے لیے تیار نہیں تھی وہ بار بار اپنی ماں سے کہتی کہ اس سے شادی نہیں کرنی اسے تو شادی کے نام سے بھی نفرت ہے وہ اس قابل نہیں کہ شادی کر سکے لیکن اس کی ماں اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ زبان وہ نہیں بلکہ اس کے اوپر وہ جنات بول رہا ہے تو اسے مسلسل شادی سے انکار کروا رہا ہے اب وہ سب بھی اس کے اوپر خصوصی نظر رکھنے لگے تھے پھر آخر شادی کا دن آن پہنچا اور امامہ کا نکاح بھی ہو گیا لیکن اس دن اس کی انکھیں شعلے کی طرح جل رہی تھی جیسے انکھوں سے لہو ٹپک رہا ہو سب اس کی حالت دیکھ کر پریشان تھے کہ اگر اس نے یہ ساری عجیب و غریب حرکتیں اپنے سسرال والوں کے سامنے کر دی تو نہ جانے وہ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے
 
 آخر کار اس کی رخصتی خیر خیریت سے ہو گئی تھی لیکن شادی کی رات جیسے ہی اس کا شوہر کمرے میں آیا امام بے ہوش پڑی تھی اس کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے اس کی یہ حالت دیکھ کر ان سب کے ہاتھ پاؤں مڑئے ہوئے تھے وہ بے اختیار چلانے لگا اس نے اپنی بہن کو آواز دی بڑی مشکل سے امامہ کو ہوش آیا تھا لیکن وہ خالی خالی نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی پھر اس نے اپنے کپڑے تبدیل کر لیے اور گھٹنوں میں منہ چھپا کر بیٹھ گئی کسی نے بھی اس سے ایک لفظ نہیں پوچھا لیکن پھر بھی نہ جانے اس کی یہ حالت کیسے ہوئی صبح ولیمے کا پروگرام کینسل ہو گیا کیونکہ سب کو ہی معلوم ہو گیا تھا کہ دلہن رات سے ہی بہت بیمار ہے سب مہمان چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ اخر اس لڑکی کو ہوا کیا ہے کیا یہ شروع سے ہی بیمار ہے جبھی تو جلد بازی میں اس کی شادی کر دی ہے لڑکی تو اچھے گھرانے کی ہے پھر انہوں نے غریب گھرانے میں اپنی بیٹی کو کیسے بیاہ دیا اس کی ماں کو بھی یہاں آتے ہی سارے معاملے کی خبر ہو گئی تھی اس کے دل میں عجیب سے خدشات تھے جیسے ہی وہ اپنی ماں کے سامنے بیٹھی روتے ہوئے اسے کہنے لگی اماں مجھے اپنے ساتھ لے کر جاؤ مجھے یہاں نہیں رہنا میں نے پہلے ہی منع کیا تھا کہ آپ میری شادی نہ کریں وہ رات کو میرے پاس آیا تھا اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ آخر میں نے یہ شادی کیوں کی کیونکہ میں صرف اس کی ہوں اماں وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائے گا خدا کے لیے مجھے یہاں سے لے جائیں ہمیشہ مجھے اپنے پاس رکھنا
 
ماں کو دیکھتے ہی اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا تھا لیکن اس کی ماں دبے دبے الفاظ میں کہنے لگی میری بچی تیرا اب نکاح ہو گیا ہے مولوی صاحب نے کہا تھا کہ اب وہ تیرا پیچھا چھوڑ دے گا چل میں تجھے اپنے ساتھ لینے آئی ہوں دو تین دن تو وہاں رکے گی تو میں تجھے دوبارہ اسی مولوی صاحب کے پاس لے جاؤں گی وہ اس سے ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن رو رو کر امامہ کی انکھیں بالکل لال ہو چکی تھی وہ اپنی ماں سے بولنے لگی کہ اس مولوی نے یے بھی کہا تھا کہ وہ طاقتور جن چیڑ بھی سکتا ہے اور اب وہ چیڑ رہا ہے جیسے ہی وہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر جانے لگی تو اچانک ہی اس کا شوہر آگیا وہ اس بات کی کھوج لگانا چاہتا تھا کہ آخر رات کو اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا کہ اس نے یہ سب ڈرامہ کیا کیا وہ کسی اور کو پسند کرتی تھی کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے امامہ کو روتے ہوئے دیکھا تھا شاید وہ اپنی ماں سے کہہ رہی تھی کہ زبر دستی اس کی شادی یہاں کی گئی ہے ورنہ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی اس بات کو جان کر اس سے بہت زیادہ دکھ محسوس ہو رہا تھا کہ پہلی رات اس کی بیکار گزری تھی اوپر سے یہ انکشاف ہونے کے بعد اس کے اس کی بیوی کسی اور کو پسند کرتی تھی کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی اس کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا 
 
وہ اپنی بیوی سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر سچ میں وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے تو وہ ابھی اور اس وقت اسے طلاق دے دے گا یہی بات جاننے کے لیے اس نے اج رات اسے روک لیا تھا جبکہ امامہ کے گھر والے بری طرح پریشان ہو گئے تھے کیونکہ وہ بات جو وہ سب سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہیں اس کے سرال والوں کو ان سب باتوں کی خبر نہ وہ خالی ہاتھ واپس اگئے تھے جبکہ وہ وہیں پر تھی اس رات اس کا شوہر اس کے سامنے بیٹھا تھا جبکہ وہ گھٹنوں میں منہ چھپا کر بیٹھی تھی اس نے نظر اٹھا کر اپنے شوہر کو دیکھا تک نہیں کیا میں پوچھ سکتا ہوں کیا تمہاری شادی زبردستی کی گئی ہے اس کی انکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ عجیب و غریب سوال کر رہا تھا اس نے نفی میں سر ہلایا اور رونا شروع کر دیا روتے ہوئے کہنے لگی میں تو شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی نہ جانے کیوں میرے گھر والوں نے میری شادی زبردستی کر دی صاف صاف الفاظ میں آپ سے یہ کہوں گی کہ میں شادی کے قابل نہیں تھی میں ایک ایسی لڑکی ہوں جسے بچپن سے ہی خوف کی بیماری نے جکڑ رکھا ہے
 
اور وہ خوف مجھ پر اس قدر حاوی ہوا کہ آج میں اس کے ہاتھوں برباد ہونے جارہی ہوں وہ سسکتے ہوئے اسے اپنی زندگی کی حقیقت بتارہی تھی یہ سن کر اس کا شوہر حیران تھا کہنے لگا کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ مجھے بھی بتاؤ اور کیسا خوف تم پر حاوی ہے ایک ڈر ہوتا ہے جو یہ انسان کے دل میں دفن ہے جو کسی نہ کسی موقع پر باہر جاتا ہے لیکن تمہاری انکھوں میں خوف کی جگہ ایک خوفناک تاریکی ہے مجھے بتاؤ تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے
 
 وہ بڑے پیار اور نرمی سے اس سے پوچھ رہا تھا وہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی پھر کہنے لگی میں ایک اسیب زدہ لڑکی ہوں اس خوف کو بچپن میں ہی پال کر میں نے اپنے سینے میں جوان کیا اور آج وہ خوف میرے سامنے موجود ہے وہ جنات جس کی وجود سے میں بہت زیادہ ڈرتی تھی وہ مجھ پر حاوی ہو چکا ہے اس کا کہنا ہے کہ میں کسی اور کی نہیں صرف اس کی ہوں وہ ایک دن مجھے اس دنیا سے اپنی دنیا میں لے جائے گا اس کے شوہر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امامہ کچھ اس کے سامنے ایسا انکشاف کرنے والی ہے یہ کوئی آسیبی معاملہ تھا جو کوئی جن اس کی بیوی کی خوبصورت نیلی آنکھوں پر عاشق ہو گیا تھا وہ حیران ہو کر اسے روتے ہوئے دیکھ رہا تھا پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا ان جنات کا وجود حقیقت ہے لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا یہ اشرف المخلوقات سے زیادہ طاقت ور نہیں تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ خود ہی تمہارا پیچھا چھوڑ کر چلا جائے گا میں تمہیں ایک ایسی شخص کے پاس لے کر جاؤں گا جو ان جنات کے مقابلہ کرنا جانتا ہے اس میں جانتا ہوں دنیا کا ہر کام ہر جن اسے کہ سامنے اپنا گھمنڈ توڑ دیتا ہے اب میں تمہارا علاج کراؤں گا میں اس بندئے کو جانتا ہوں وہ مجھے کہاں ملے گا کیوں کہ اس کہ شوہر ایک بار کسی اسی ہی پرابلم کو لیے کر کسی بندے کہ ساتھ اس بندے کہ پاس گیا تھا اور اس نے دیکھا تھا کہ وہ کوئی عام بندہ نہیں تھا اب میں تمہارا علاج کرواؤں گا کیونکہ تم میری بیوی ہو مجھے تو اپنی خوش نصیبی پر یقین نہیں آرہا تھا کہ تم جیسی خوبصورت لڑکی میری بیوی بن سکتی ہے
 
میں تو بچپن سے ہی بڑی مشکل زندگی گزارتا آرہا ہوں تین تین بہنوں کو رخصت کیا اور پھر اپنا گھر بھی خریدا سوچا تھا کہ کوئی سیدھی سادی لڑکی مل جائے گی تو اس سے شادی کر لوں گا لیکن اچانک ہی تمہارے ابا نے اپنی پریشانی بتائی کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے کوئی رشتہ تلاش کر رہا ہے تو میں نے کہا کہ میں اپنی خوش نصیبی تصور کروں گا اگر اپ اپنی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ کر دیں گے تو وہ فورا ہی اس بات پر راضی ہو گئے تھے لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ لڑکی کے روپ میں ایک خوبصورت پری میرے گھر میں ارہی ہے شادی کی رات تمہیں دیکھ کر میں بار بار اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا لیکن نہیں جانتا تھا کہ تمہارے گھر والوں نے جلد بازی میں تمہاری شادی کی ہے اس کے پیچھے یہ وجہ ہو گی لیکن اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں ایک درویش ٹائپ بندہ ہے جن چیزوں کا بہت اچھے سے علاج کرتا ہے میں تمہیں اس کے پاس لے کر جاؤں گا وہ دنیا کہ لیے ایک عام لڑکا ہے مگر وہ اپنے بارے میں کسی کو پتا نہیں چلنے دیتا کہ وہ کون ہے امامہ کا شوہر ایک بہت ہی اچھے مزاج کا انسان تھا اس نے جان لیا تھا کہ اس کی بیوی کے ساتھ کیا مسئلے مسائل ہیں اب وہ اسے اکیلا نہیں چھوڑے گا کیونکہ اسے دیکھتے ہی امامہ کو اس سے محبت ہو گئی تھی لیکن اس رات وہ سوئی تو اسے بڑا ہی عجیب و غریب سا احساس ہوا جیسے اس کا شوہر نہیں بلکہ کوئی اور اس کے ساتھ سو رہا ہے اس نے جیسے ہی انکھیں کھولی وہ خوفناک انکھوں والا شخص اس کے پاس بیٹھا تھا جو اسے غصے سے گھور رہا تھا
 
 اچانک ہی اس نے امامہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچنے لگا وہ اس کے ساتھ گھر گھسیٹتی جارہی تھی یہاں تک کہ وہ دہلیز کے پاس پہنچ گئی اور اس سے زور زور سے التجا کرنے لگی کہ وہ اس کے ساتھ ایسا نہ کرے وہ اسے اپنے ساتھ نہ لے کر جائے لیکن وہ خوفناک انکھوں والا شخص اسے جس انداز میں دیکھ رہا تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ امامہ کا دشمن بن گیا ہو وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا اس وجہ سے کیونکہ اس نے دوسرے انسان سے شادی کر لی تھی حالانکہ وہ ایک طاقتور جنات میں سے تھا بہت طاقتور اج تک کسی جنات میں اس کی بات سے انکار نہیں کیا تھا لیکن یہ لڑکی جس نے کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کر لیا تھا اب وہ اس کو سبق سکھانے والا تھا اچانک ہی اس کی پکار سن کر سارے گھر والے جمع ہو گئے سب یہ دیکھ کر حیران تھے کہ امامہ دروازے کے پیچ و بیچ بے ہوش حالت میں پڑی تھی سب سے زیادہ فکر مند اس کا شوہر تھا جب کہ نندے غصے سے اسے دیکھ رہی تھی سانس کے چہرے پر بھی غصے کے تاثرات تھے وہ سب اپس میں باتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اس آسیب زدہ لڑکی کو ہمیں اس گھر میں رکھنا ہی نہیں چاہیے اس کے گھر والوں نے جان بوجھ کر ہماری غربت سے فائدہ اٹھا کر اپنی بیٹی کی شادی اس گھر میں کر دی جبکہ انہوں نے ہمارے بیٹے کی زندگی کے بارے میں نہیں سوچا لیکن اس کا شوہر اس کے لیے بہت فکر مند تھا
 
تبھی اگلے دن وہ صبح سویرے اسے اسی بندئے کے پاس لے گیا تھا وہاں اس کہ گھر پہنچے تو گھر کا دروازہ بند دیکھ کر وہ حیران ہوئے امامہ بولنی لگی یہاں تو تالہ ہے اس کا شوہر بولنے لگا گھبراؤ مت حیدر کسی کام سے ہی گیا ہوگا میں دیکھتا ہوں وہ آس پاس کہ لوگوں سے پوچھتے کسی سے حیدر نامی اس بندئے کا نمبر لیے آیا اور امامہ کہ پاس آ کر اسے کال کرنے لگا آگے سے کال اٹھائی گی السلام وعلیکم جی امامہ کہ شوہر نے اپنی پہچان بتائی اور کہا حیدر بھائی کہاں ہیں آپ میں آپ کہ گھر کہ باہر کھڑا ہوں ایک پرابلم ہے میرے ساتھ میری بیوی ہے میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں حیدر نام شخص نے ان کو بتایا کہ وہ پاس ہی میں مارکیٹ گیا ہے ابھی اتا ہے کچھ ہی ٹائم میں حیدر اپنے گھر آیا اس نے ان دونوں کو اپنے بنگلے میں آنے کی اجازت دی امامہ اسے دیکھ کر حیرت سے اپنے آپ کو بولنے لگی اس کا شوہر اسے کس کہ پاس لایا ہے یے تو کوئی نوجوان خوبصورت لڑکا ہے جب کہ یے کام تو بابا ٹائپ کہ لوگ کرتے ہیں اور ان کہ ہاتھوں میں گلے میں مالائیں ہوتی ہیں مگر یے تو شرٹ پینٹ پہنے کوئی لڑکا ہے۔
 
 حیدر کہ ساتھ وہ گھر کہ لان میں آئے حیدر نے ان کو سامنے صوفے پر بیٹھنے کو کہا اور پھر حیدر امامہ کی طرف متوجہ ہوتے بولا آپ سھی سوچ رہی ہو میں جوان خوبصورت لڑکا جو آپ دل میں سوچ رہی ہو سھی سوچ رہی ہو حیدر نے جب یے بات کہی تو امامہ اور اس کا شوہر حیران ہو گے کہ حیدر کو کیسے پتا چلا کہ امامہ کیا سوچ رہی ہے تبھی امامہ کہ شوہر نے حیدر سے کہا حیدر بھائی آپ نے پہلے بھی ہماری مدد کی تھی مگر آج میں پھر آپ کہ پاس مدد کہ لیے آیا ہوں یہ میری بیوی ہے ابھی چند دن پہلے ہی ہماری شادی ہوئی ہے لیکن اس سے ایک شریر جنات پریشان کر رہا ہے وہ نورانی چہرے والا خوبصورت نوجوان اس نے بڑے پیار سے اس خوبصورت اور معصوم لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا کبھی بھی خوف کو اپنے اوپر اتنا حاوی نہ کرو کے وہ تمہارے جسم میں پنجے گاڑ کر بیٹھ جائے مجھے آپ خود بتاو امامہ مکمل تفصیل جاننا چاہتا ہوں جبکہ وہ حیرت سے ان کی شکل دیکھتی رہ گئی پھر ڈرتے ڈرتے کہنے لگی اس پرانی حویلی میں جو ایک گاؤں میں موجود ہے وہ ہماری نانی کا گاؤں تھا اسے میں نے پہلی بار وہیں پر دیکھا تھا

لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ یہ ایک انسان نہیں بلکہ جنات ہے اور اس نے اسی رات میرا پیچھا کرنا شروع کر دیا تھا حیدر نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا ڈرو مت تم میری بہن ہو ہاں بیشک وہ ایک جن ہے میں جان گیا ہوں کہ اس رات جب تم بہت زیادہ ڈری ہوئی تھی اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ ایک ڈرپوک سی لڑکی سے لیکن وہ انسانوں سے سخت نفرت کرتا ہے جو بھی انسان اس حویلی میں جاتا ہے وہ اسے بہت بری طرح سے اذیت پہنچا کر ہی وہاں سے جانے دیتا تھا لیکن پہلی بات جب اس نے تم جیسی معصوم لڑکی کو دیکھا تو اس کا پتھر دل ایک دم سے ہی پیگھل گیا سارے ظلم سارے بدلے بھول گیا تھا اور تمہارے پیچھے پیچھے انسانوں کی دنیا میں چلا آیا چاہتا تھا کہ بس تم اسی کی طرف دیکھو اسی کو محسوس کرو اس لیے وہ بار بار تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا لیکن تمہارے گھر والوں نے اس جن کو نہیں سمجھا اور نہ ہی تم نے تم اس سے شدید خوفزدہ ہو گئی کیونکہ یہ خوف تمہارے دل میں پہلے سے ہی موجود تھا اسی لیے اب وہ اس بات پر بری طرح چڑنے لگا ہے کہ تمہاری زندگی میں ایک وہ شخص شامل ہو گیا ہے اس لیے وہ زبردستی تمہیں اپنے ساتھ اپنی دنیا میں لے کر جانا چاہتا تھا لیکن اب ایسا کچھ نہیں کرے گا کیونکہ میں بھی جنات سے بات چیت کر سکتا ہوں اور وہ میری بہت عزت کرتے ہیں میرے ایک بار منع کرنے پر وہ ہمیشہ کے لیے تمہارا پیچھا چھوڑ دے گا اس لیے تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس یوں سمجھو کہ اب تمہاری زندگی سے وہ خوف وہ ڈر سب کچھ ختم ہو گیا اور وہ چلا جائے گا تمہاری زندگی سے کبھی نہ واپس انے کے لیے۔

 امامہ بالکل سن بیٹھی تھی اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہو ایک ایسا جن تھا جو انسانوں سے سخت نفرت کرتا تھا اس کی وجہ سے وہ انسانوں سے محبت کرنے لگا تھا تبھی تو اپنی دنیا چھوڑ کر یہاں انسانوں کی دنیا میں آیا تھا لیکن کاش وہ ایک بار اسے سمجھ جاتی وہ اس کے وجود سے خوفزدہ ہونے کی بجائے بھی اس سے بات کر لیتی
کیونکہ صرف اس کے اندر یہ طاقت موجود تھی کہ وہ اسے دیکھ سکتی تھی باقی کوئی بھی اسے نہیں دیکھ سکتا تھا بھلے وہ برابر میں 2 1 ہی کیوں نہ موجود ہو پھر حیدر نے امامہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا آجاؤ میں تمہیں بلا رہا ہوں آجاؤ اس کہ بعد حیدر نے اپنی آنکھیں بند کر کہ پڑھائی جاری رکھی اور کچھ ہی لمحوں میں وہ طاقتور جن اب حیدر امامہ اور اس کی شوہر کہ سامنے تھا وہ خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے امامہ کہ شوہر کی طرف بڑھنے لگا تبھی حیدر نے اسے گرج کر کہا روک جا حیدر کی آواز سن کر وہ جیسے ہی حیدر کی طرف دیکھنے لگا۔
 
 اچانک نارمل ہوتا بولا کینگ اعریض کہ بیٹے تم یہاں وہ حیدر سے اب بات کرنے لگا پرنس اس انسانی دنیا میں آپ یہاں کیا کر رہے ہو وہی کر رہا ہوں جو تم یہاں کر رہے ہو بس فرق صرف اتنا ہے کہ تم لوگوں کو پریشان کر کہ ان کو تکلیف دیتے ہو اور میں ان کی مدد کر کہ ان کہ درد کی دوا بنتا ہوں چھوڑ دو اس لڑکی کو اور چلے جاؤ واپس میں تم سے نہیں پوچھتا کہ تم نے کیوں کیسے کس طرح اس کو تکلیف دی تم نے جو کہا سو کیا اب بس بہت ہوا اب اس کی شادی ہو چکی ہے اب بھول جاؤ اسے اور سنو تم اپنے خاندان سمیت اس حویلی میں کیا کر رہے ہو اپنے خاندان کو لیے کر دور انسانی دنیا سے دور جاؤ یے میرا حکم ہے اس وہ جن حیدر کی بات کو سن کر خاموش رہا اور بولنے لگا پرنس حیدر میں تم سے دشمنی نہیں چاہتا مگر میرا خاندان بہت ٹائم سے اس حویلی میں آباد ہے اچھا ٹھیک ہے پھرا وعدہ کرو کہ کبھی کسی انسان کو تکلیف نہیں دو گے اگر تم نے وعدہ توڑا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا چلو اب جاؤ اور امامہ کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھنا وہ ایک نظر امامہ کو دیکھتا ہوا چیخ مار کر وہاں سے غائب ہو گیا اس کہ جانے کہ بعد حیدر نے امامہ کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ اب کیسا محسوس ہو رہا ہے تمہیں امامہ بولنے لگی اب میں اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہی ہوں۔
 اس کہ بعد حیدر نہ کہا اب اپنے گھر جاؤ
اور سکون سے اپنی زندگی گزارو وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ جو تم سے بہت محبت کرتا ہے اور آئندہ کسی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اگر ڈرنا ہے تو صرف اس خدا سے ڈرو جس نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے لیکن ہم اس کے سارے احکامات کو بھلا کر اپنی دنیا میں مگن ہو گئے ہیں اس لیے آئندہ اگر اپنی زندگی گزار تو اس اللّٰہ سے ڈر کر جو سب کا مالک ہے حیدر کے سمجھانے کا انداز ایسا تھا کہ امامہ کی انکھوں میں آنسو آ گئے اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ گھر آگئی پھر اس دن کے بعد سے اس کی زندگی جیسے مکمل طور پر بدل گئی تھی وہ لڑکی جو اندھیرے سے خوف کھاتی تھی اب کئی کئی گھنٹے تک اندھیرے کمرے میں پڑی رہتی بار بار اس کے کانوں میں ایک ہی سر گوشی سنائی دیتی میں صرف تمہاری وجہ سے اس دنیا میں آیا ہوں دیکھو میری طرف دیکھو وہ تھا جو کوئی بار بار اس کے کانوں میں سر گوشی کیا کرتا تھا لیکن اب اس کے وجود کا نام و نشان بھی نہیں تھا امامہ جانتی تھی کہ وہ اس کی زندگی سے بہت دور چلا گیا ہے اس لیے اب اسے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں لیکن وہ اس بات پر حیران ہوتی کہ پہلے وہ جہاں کہیں بھی اسے نظر اتا تھا وہ بہت زیادہ ڈر جاتی تھی اور اس سے بھاگنے کی کوشش کرتی لیکن اب عجب معاملہ تھا وہ اس کا انتظار کرنے لگی تھی چاہتی تھی کہ کسی طرح وہ ایک بار اس کے سامنے اجائے لیکن پھر کئی دن گزر گئے

آخر کار اسے احساس ہو گیا کہ اس کا محبت کرنے والا شوہر جو اسے بے پناہ چاہتا ہے اس کی خامیوں سمیت اسے قبول کرنے والا امامہ غلطی کر رہی ہے تو اس نے اپنے شوہر کو بھلا دیا ہے اب وہ کبھی بھی ایسی غلطی نہیں دہرائے گی یوں وہ پہلے سے بھی زیادہ اپنے شوہر کی عزت اور محبت کرنے لگی لیکن دل کے کسی کونے میں یہ بھی خواہش چھپی تھی کہ ایک بار وہ اسی حویلی میں جا کر دیکھے کہ ابھی بھی وہاں موجود ہے یا نہیں لیکن یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں اسے سامنے دیکھ کر وہ پھر سے اس انسانوں کی دنیا میں نہ چلا آئے اس لیے اس نے اپنی اس خواہش کو دل میں ہی دبا لیا تھا اور اپنے شوہر کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزارنے کی کوشش کرنے لگی اور حیدر کہ شکریہ ادا کرتی رہی کہ اس کی وجہ سے اس کا ڈر خوف ختم ہو چکا تھا۔۔ (ختم شد)

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories