امیر زادی کی قربانی

Sublimegate Urdu Stories

اس کا نام امیر زادی تھا، مگر وہ واقعی امیر زادی نہ تھی، کسان زادی تھی، ایک چرواہے کی بیٹی۔ لیکن شکل و صورت میں کسی شہزادی سے کم نہ تھی۔ یہی اس کی دلکش صورت تھی جس نے میر امام زاد وسیم خان کو اس پر فریفتہ کر دیا تھا۔ ممانی کو ہرگز یہ منظور نہ تھا کہ وسیم، امیر کو بہو بنا کر گھر لائے۔ ان کا ارمان تھا کہ ان کی بھانجی، خان زادی، ان کے گھر کی بہو بنے۔ مگر ماموں نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ وہ بیوی کے رشتے داروں کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ یہ لوگ ہر وقت ماموں کے گھر آتے رہتے، کئی کئی دن قیام کرتے اور واپسی کا نام نہ لیتے۔ ماموں لحاظ کے مارے خاموش رہتے، لیکن اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔ انہیں شکایت تھی کہ ان کے آنے جانے سے گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

جب وسیم نے باپ کے ڈیرے پر جا کر بتایا کہ وہ خان زادی سے شادی نہیں کرنا چاہتا، تو ماموں کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ کب چاہتے تھے کہ بیوی کی بھانجی بہو بن کر گھر آئے۔ وسیم خان بیٹا! تو بتا، پھر کہاں تیرا رشتہ کروں؟بابا جان، میرو آپ کو کیسی لگتی ہے؟ بہت اچھی لڑکی ہے۔ ماں باپ کے پیار سے محروم ایک یتیم بچی ہے۔ میرے دور کے رشتہ دار کی بیٹی ہے، غیر نہیں ہیں یہ لوگ۔ آپ اس کے چاچا صاحب، داد خان، سے جا کر بات کریں۔ مجھے امید ہے وہ انکار نہیں کریں گے۔ اگر وہ امیر زادی کے بدلے پچاس بھیڑیں بھی مانگے، تو بھی میں دے دوں گا، لیکن تیری خوشی ضرور پوری کروں گا۔ محبت خان نے کہا۔ تو پھر بات کریں، بابا جان۔ چاچا صاحب ہیں، مان جائیں گے، لیکن اماں کا کیا بنے گا؟ وہ تو طوفان اٹھا دے گی۔ کیسے منائیں گے اسے؟بات منوانے کا گر میرے پاس ہے۔ کہہ دوں گا، دوسری شادی کر رہا ہوں، ورنہ میری بات مان لو۔ نہ مانو گی تو طلاق دے کر چلتا کر دوں گا۔ بابا! آپ ایسی بات کریں گے میری ماں سے؟ارے بیٹا، سچ سچ تھوڑا ہی ایسا کرنے چلا ہوں۔ بس عورت کو دھمکانے کو یہی تو ایک حربہ ہے ہم مردوں کے پاس۔ ورنہ اس بڑھاپے میں کیا میری مت ماری گئی ہے کہ دوسری شادی کروں؟ خاندان میں سبھی نے دو دو، چار چار شادیاں کر رکھی ہیں، مگر میں نے ایک ہی کی۔ پوچھو تو کیوں؟ اس لیے کہ مجھے تیری ماں کے سوا کوئی عورت بھائی ہی نہیں۔

 اچھا، تو کسی بات کی فکر نہ کر، میں سنبھال لوں گا یہ معاملہ۔ لیکن تیرا رشتہ ہرگز تیری ماں کے رشتے داروں میں نہیں کروں گا۔ یہ بڑے پیچڑ لوگ ہیں، مفت خورے۔ میرا بس چلے تو ان کو اپنی دہلیز بھی پار نہ کرنے دوں، لیکن کیا کروں، تیری ماں سے محبت ہے، میں اسے آزار نہیں دینا چاہتا۔ یوں باپ بیٹے میں باہر ہی باہر معاملہ طے ہو گیا۔ وسیم کے بابا، میرے والد کے پاس آئے اور کہا تم رشتہ لے کر امیر بی بی کے گھر جاؤ، اس کے چاچا چاچی سے بات کرو جنہوں نے اسے پالا ہے۔ یہ لوگ تم کو ہرگز انکار نہ کریں گے۔ ماموں کی بات بھی درست تھی۔ امیر بی بی کے چچا سے والد صاحب کی گاڑھی چھنتی تھی۔ ہر اچھے برے وقت میں وہ ایک دوسرے کے کام آتے۔ دونوں پگڑی بدل بھائی تھے۔ امیر کا گھر ہمارے گھر سے متصل تھا۔ میرا اور اس کا بچپن ایک ہی آنگن میں گزرا۔ وہ میری پیاری سہیلی تھی۔ ہم کبھی ایک دوسرے سے کوئی بات نہ چھپاتے۔ میں اسے پیار سے میرو کہتی تھی۔مجھے میرو کے سب دکھ معلوم تھے۔ اس کے چاچا چاچی بے شک اس کے سرپرست بلکہ والدین جیسے تھے، لیکن سگے ماں باپ کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ میرو کو اپنے والدین کی محرومی کا بہت دکھ تھا۔ وہ بچپن ہی میں وفات پا گئے تھے۔ وہ حسرت سے کہتی اے کاش! میں شعور میں آنے کے بعد انہیں ایک بار دیکھ لیتی، ان کی صورت یاد کر لیتی۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ماں باپ کی شکل کیسی تھی۔میں اس کی دلجوئی کرتی، اور کبھی کبھی وہ رو بھی پڑتی۔ میں اسے چپ کراتی، اس کے آنسو پونچھتی۔ وہ مجھے اپنا سچا غمگسار اور رازدار سمجھتی تھی۔

ہم ایک ایسے پہاڑی گاؤں میں رہتے تھے جہاں کے رسم و رواج آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی عجیب و غریب تھے۔ یہ ایسے رسم و رواج تھے جو عورت کو پاؤں کی جوتی اور مرد کو سر کا تاج بناتے تھے۔ میاں بیوی کے خوبصورت اور مقدس رشتے میں کوئی توازن نہ تھا۔ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کا خیال رکھتا تو اسے زن مرید کہہ کر نظروں سے گرا دیا جاتا۔ اگر وہ بیوی کو سیر و تفریح کے لیے کہیں ساتھ لے جاتا تو نہ صرف خاندان، بلکہ سارا گاؤں اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتا۔ برادری والے اس پر ہنستے اور آوازے کستے لو وہ آ رہا ہے عورت کا غلام! یہ اب ہم مردوں میں بیٹھنے کے لائق نہیں رہا- خیر، ماموں نے بیوی سے اپنی بات منوا لی اور امیر بی بی کی شادی اپنے لختِ جگر وسیم سے کر کے اسے بیاہ کر گھر لے آئے۔

 وسیم کی تو وہ چاہت تھی۔ وہ میرو سے بہت پیار کرتا تھا، مگر گھر والوں سے چھپ کر اس سے ہم کلام ہوتا تھا کیونکہ ہمارے علاقے میں یہ رواج صدیوں سے چلا آ رہا تھا کہ جب تک مرد اپنی دلہن کو مار پیٹ نہ لے، وہ کچہری میں گردن اونچی کر کے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ یہاں تو دوسری شادی کرنے والے مرد کی بھی پیٹھ ٹھونکی جاتی تھی، اسے شاباش دی جاتی تھی۔ ہمارے یہاں مرد، عورتوں کی گلہ بانی سے ہی معاشرے میں مقام پاتے تھے۔ جس مرد کی جتنی زیادہ بیویاں ہوتیں، اسی قدر وہ قابلِ تحسین اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے دل میں گھر کر لیتی، تو ایسے مرد کی تو شامت ہی آ جاتی تھی کہ وہ گھر والوں کے سامنے بیوی سے پیار کی بات تک نہیں کر سکتا تھا۔ اب یہی حالات میرو کے بھی ہوئے۔ اگرچہ وہ شوہر کی خدمت گزار اور ساس سسر کی فرمانبردار تھی، پھر بھی سسرال میں ہر کسی سے دبی دبی رہتی۔ تیز بخار میں بھی گھر کے کام نمٹاتی، تب بھی شوہر اس سے نرم لہجے میں بات نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی گھر والوں کے ڈر سے اسے آرام کرنے کو کہہ سکتا تھا۔ 

وسیم کو دن بھر ماں بہنوں کے سامنے بیوی سے درشت لہجے میں بات کرنا پڑتی اور رات کو میرو سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا تھا۔ وہ منہ پھلا لیتی تو اس کے پاؤں پکڑ لیتا۔ کہتا، میرو، تو جانتی تو ہے اگر میں تجھ سے سب کے سامنے تحکمانہ لہجے میں بات نہ کروں، تجھ پر حکم نہ چلاؤں، تو ماں ایک دن بھی مجھے اور تجھے سکون سے گھر میں نہ رہنے دے گی۔ اگر تو نے زیادہ اصرار کیا اور میں نے تیری بات مان لی، تو وہ طلاق دلوانے سے بھی باز نہیں آئے گی۔ بس، تو صبر سے یہ دن گزار لے۔ جب ہمارے دو چار بچے ہو جائیں گے اور باز مین اور گلہ بانٹ دیا جائے گا، تب ہم علیحدہ ہو جائیں گے۔ ابھی اگر میں علیحدہ گھر میں رہنے کی بات کروں گا، تو یہ لوگ میری دوسری شادی کر دیں گے اور تجھے تیرے چاچا کے گھر بھجوا دیں گے۔ تب تیری چاچی بھی تجھ کو نہ رکھے گی۔ کہاں جائے گی تو؟ میرے گھر والے یہی سمجھیں گے کہ میرو ہی ہمارے بیٹے کو علیحدہ گھر میں رہنے پر اکساتی ہے۔ کیا تو یہ چاہتی ہے کہ برادری والے ہماری محبت سے جل کر میری دوسری شادی کروا دیں؟میرو بھی سوچتی کہ یہ سچ ہی تو کہتا ہے، بے چارہ۔ یہ کالے پہاڑوں کے رہنے والے دقیانوسی، لا علم لوگ، اگر میں نے ہوش سے کام نہ لیا تو سو کن آتے کیا دیر لگتی ہے۔

 پس میرو چپ چاپ غلامی کی چکی میں پستی رہی۔جانوروں کے لیے گھاس اکٹھا کرتی، تندور پر اتنے بڑے کنبے کے لیے چالیس پچاس روٹیاں تھوپتی، گھر کے ہر فرد کی خدمت کرتی۔ یہاں بہو لاتے ہی اسی لیے تھے کہ لڑکی کے وارث بیٹی کے بدلے سو پچاس بھیڑ بکریاں دے جاتے تھے، تاکہ سسرال میں خدمت کرنے والی کمی نہ رہے۔ اور سسرالی بھی یہ سودا خوشی سے طے کر لیتے تھے، تاکہ لڑکی کے ساتھ یہاں جو سلوک ہو، اس کے وارث سر نہ اٹھا سکیں۔میرو کام سے تھک جاتی تو کبھی روتی، کبھی آنسو پی جاتی، مگر زبان سے ایک لفظ نہ نکالتی۔ اللہ نے صبر کا اجر دیا۔ میرو کے بعد بیٹے ہو گئے۔ اب وہ بیٹیوں والی ماں تھی۔ بیٹے ایسی نعمت تھے جن کے ہونے سے سسرال میں عورت کی قدر و قیمت بڑھ جاتی تھی۔ وہ سب دکھ بھول کر ان کی پرورش میں کھو گئی۔شوہر کی طرف سے بھی دل ٹھنڈا تھا۔ پیار تو کرتا تھا، مگر سب کے سامنے لب کشائی نہ کر سکتا تھا۔ لیکن اکیلے میں ضرور دلجوئی کرتا۔

 اکثر رات کو سب سے چھپ کر کبھی اخروٹ، کبھی چلغوزے کا پڑا لے آتا۔ کبھی خوشبو دار پھولوں کے گجرے چھپا کر مٹی کی خالی ہانڈی میں رکھ دیتا، اور رات کو ان سے میرو کی کلائیاں سجا دیتا۔ صبح وہ ساس کے جاگنے سے پہلے ہی مرجھائے ہوئے پھولوں کے گجرے صندوق میں چھپا دیتی۔ کہیں ان کی خوشبو ساس یا نندوں کے نتھنوں تک نہ پہنچ جائے۔ایک روز اس کی ساس نے تین گائیوں کا دودھ دوھ کر بھری ہوئی بالٹیاں کمرے میں رکھ دیں اور خود جیٹھانی کے گھر چلی گئی۔ میرو کا چھوٹا لڑکا رونے لگا کہ مجھے دودھ دو۔ وہ بولی، ذرا صبر کر، دادی کو آنے دے، وہ اپنے ہاتھ سے سب کو بانٹے گی، ہمیں بھی دے گی۔ لڑکے کو بھوک لگی تھی، وہ نہ مانا، ضد کرنے لگا۔ ماں صحن میں گئی تو بچے نے گلاس میں بالٹی سے دودھ نکالا اور پینے لگا۔ میرو کمرے میں واپس لوٹی، تو گلاس اس کے ہاتھ سے چھیننے لگی، لیکن وہ تقریباً سارا دودھ پی چکا تھا۔ گلاس میں صرف دو گھونٹ باقی تھے۔ لڑکا گلاس ماں کو تھما کر باہر بھاگ گیا۔ یہ سوچنے لگی کہ اب یہ جھوٹے دو گھونٹ بالٹی میں نہ ملاؤں، گرانا بھی ٹھیک نہیں۔ سو اس نے بچے کے بچے ہوئے دودھ کو خود پی لیا۔

 اسی دم اس کی ساس کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے جو بہو کو لبوں سے گلاس لگائے دیکھا، ٹھٹک گئی۔ گلاس کے باہر دودھ لگا ہوا تھا۔ ساس نے گلاس میرو کے ہاتھ سے چھین لیا اور شور مچانے لگی کہ میرو بالٹی سے دودھ کے گلاس بھر بھر کر پی جاتی ہے۔ اس قدر واویلا کرنے لگی جیسے اس نے بہو کو بدکاری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔ کہنے لگی، مجھے کئی دنوں سے شک تھا کہ کوئی دودھ چرا رہا ہے، آج چور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ جب گالیاں اور کوسنے بھی کم پڑنے لگے تو وہ اسے مارنے پر اتر آئی۔تبھی وسیم گھر آ گیا۔ اس نے جو ماں کو مارتے دیکھا، بیوی کا قصور پوچھا۔ بس پھر کیا تھا، اسے زن مرید ہی نہیں، بے غیرت بھی قرار دے دیا گیا۔ گھر پر ہی پنچایت بیٹھ گئی۔ لاکھ وسیم نے کہا کہ کیا میری بیوی کا اتنا بھی حق نہیں جو سارے گھر کا کام کرتی ہے، جانوروں کو چارہ ڈالتی ہے، بھیڑ بکریوں کا گلہ سنبھالتی ہے، سب سے بڑھ کر میرے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ کیا ہوا جو اس نے ایک گلاس دودھ بالٹی میں سے لے بھی لیا تو؟ اس گستاخی پر پنچایت کے بڑوں نے سر پکڑ لیا کہ یہ بد لحاظ لڑکا ہمارا بھی لحاظ نہیں کرتا، کس قدر بے حیائی کی باتیں کر رہا ہے۔
برادری نے فیصلہ کر دیا کہ سگی بی بی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس منہ زور بہو اور بیٹے کا غرور توڑنے کے لیے ایک اور بہو لائے، اور یوں وسیم کی دوسری شادی کرادی جائے۔ انجام وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بہو کا سر جھکانے کے لیے اس پر سوتن لانے کا انتظام ہونے لگا۔ وسیم خان کے تایا، چچا اور پنچ کے بڑے، سب نے مل کر اسے دوسری شادی پر مجبور کیا۔ اس نے لاکھ انکار کیا، مگر کسی نے اس کی نہ سنی۔ ساری برادری اس پر تھو تھو کرنے لگی۔ کہا گیا کہ جو بیوی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہو، اسے سیدھی راہ پر لانا لازم ہے، ورنہ وہ برباد ہو کر رہے گا۔ ماں بھی اس کی نافرمانی پر بددعائیں دینے لگی۔ بالآخر وسیم خان اور اس کے والد نے ہتھیار ڈال دیے۔برادری کے لوگوں نے وسیم کا نہیں بلکہ اس کی والدہ کا ساتھ دیا۔

 جواں سال شادی شدہ افراد اسے طعنہ دیتے کہ ابھی تو صرف ایک عورت اور چار بچے ہی تمہاری ملکیت میں ہیں اور تم ابھی سے بوڑھے ہو گئے ہو۔ یہاں تو جتنا بڑا خاندان ہو، اتنا ہی مقام بنتا ہے۔ مرد جتنی زیادہ شادیاں کرے، اتنی زیادہ اولاد پیدا ہو، اور اولاد زیادہ ہو تو قبیلہ مضبوط ہوتا ہے۔اس قدر لعن طعن ہوئی کہ وسیم کو مجبوراً دوسری بار دلہن بننا پڑا۔ اس نے روتے دل کے ساتھ سہرا باندھ لیا۔ وسیم بجھا بجھا تھا، مگر ماں اور بہنیں خوش تھیں۔ باپ بھی برادری میں سرخرو تھا کہ گھر میں دوسری بہو آ گئی تھی، جو مزید بیٹے پیدا کر کے قبیلے کی طاقت بڑھائے گی۔ یہ نئی بہو سگی بی بی کی وہی بھانجی تھی جسے بہو بنانے کے وہ برسوں سے ارمان رکھتے تھے۔ ارمان پورا ہوا، دل کو ٹھنڈک مل گئی۔
میرو اپنی کوٹھری میں شب بھر سسکتی رہی۔ اس نے حسب روایت بزرگوں کے فیصلے کا احترام کیا۔ اس نے نئی دلہن سے کوئی جھگڑا نہ کیا، کیونکہ سوتن سے جھگڑا بنتا ہی نہ تھا۔ وہ تو خود اس کے گھر سے بھاگ کر نہیں آئی تھی۔ نہ ہی اس کے دل میں کسی کے لیے بغض تھا، نہ انتقام۔ وہ تو بس اپنے بچوں کی اور اپنی خیر چاہتی تھی۔وسیم نے دوسری شادی برادری کے دباؤ میں آ کر کی تھی، لیکن وہ اپنی نئی نویلی دلہن سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا۔ اس پر اس کی ماں کو دلی صدمہ پہنچتا، لیکن انسان اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ وسیم بھی مجبور تھا، کیونکہ اس کی محبوب، زندگی کی ساتھی، اس کی پہلی بیوی میرو ہی تھی۔ اس کشمکش میں گھر جہنم بن گیا، زندگی موت بن گئی، بچے الگ پریشان ہو گئے۔میرو کو نہ سہی، اس کے بچوں کو تو سکھ چین اور گھر والوں کا پیار نصیب تھا۔ لیکن اب نئی ماں کے گھر آ جانے سے سب کی توجہ اس کی طرف ہو گئی اور بچوں سے پیار میں کمی آ گئی۔ میرو نے خود کو سمجھا لیا کہ اگر یہی ہمارے پہاڑی باسیوں کا طرزِ معاشرت ہے، تو مجھے بھی باقی عورتوں کی طرح جینا ہوگا۔ جیسے اور عورتیں سوتنوں کے ساتھ صبر سے جی رہی ہیں، ویسے ہی مجھے بھی جینا ہوگا۔ ساس جو کچھ کہتی، سن لیتی، چپ رہتی۔

شوہر البتہ اب بھی ویسا ہی تھا۔ وسیم بدلا نہیں تھا۔ اس کا پیار بھی کم نہیں ہوا تھا۔ پہلے بھی وہ تنہائی میں اس سے اظہارِ محبت کرتا تھا، اب بھی کرتا تھا۔ تو کیا فرق پڑا جو اس کی زندگی میں ایک اور عورت آ گئی۔ نئی آنے والی کے نصیب میں تو وہ شوہر کا پیار تھا ہی نہیں، جو میرو کی جھولی میں بھرا ہوا تھا۔لیکن پھر ایک اور چال چلی گئی، جس نے اس کا پیار اور غرور، سب کچھ چھین لیا۔ قبیلے کی دور کی رشتہ دار بوڑھی عورتوں نے، جو سوتن کی رشتہ دار تھیں، یہ گواہی دے دی کہ جب میرو کی ماں فوت ہوئی تھی، تو وسیم کی ماں نے اسے، یعنی میرو کو، تین ماہ کی عمر میں ایک بار اپنا دودھ پلانے کی کوشش کی تھی۔ یہ واقعہ وسیم کی ماں کو یاد نہ تھا، مگر ان عورتوں نے دعویٰ کیا کہ ہمیں یاد ہے، ہم نے دیکھا تھا۔ اگرچہ یہ ایک مشکوک بیان تھا، لیکن قبیلے کے بزرگوں نے اپنے گاؤں کے مولوی سے رجوع کیا۔ 
مولوی نے کہا کہ اگرچہ بچی نے وسیم کی ماں کا دودھ نہیں پیا، لیکن اگر اس کے بعد پیدا ہونے والی کسی بہن کے ساتھ پی لیا ہو، تو بھی وہ دودھ شریک بہن ہو گئی، اور یوں نکاح جائز نہیں رہا۔یہ لوگ مزید کسی بڑے عالم یا مفتی کے پاس نہ گئے۔ بس اسی ایک بیان پر اکتفا کیا کہ اگر معاملہ مشکوک بھی ہے، تو احتیاط یہی ہے کہ وسیم اور امیر بی بی بطور میاں بیوی ساتھ نہ رہیں۔ مولوی نے اپنی جگہ درست بات کہی کہ دودھ شریک بہن بھائی میں نکاح جائز نہیں، لیکن یہ امر کوئی ثابت نہ کر سکا کہ جو گمان ظاہر کیا گیا، وہ سچ ہے یا جھوٹ۔ حتیٰ کہ وسیم کی ماں بھی کہتی تھی کہ خدا جانے ان بوڑھی عورتوں کو کون سا واقعہ یاد آ گیا۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔قبائلی چونکہ تعلیم سے دور تھے، وہ اسی بات پر اڑ گئے کہ معاملہ مشکوک ہے، اور یوں میرو کو اس کے شوہر سے جدا کر دیا گیا۔ وسیم سے پردہ کروا دیا گیا اور طلاق بھی دلا دی گئی۔ اس کے بعد جب تک میرو زندہ رہی، نہ وہ اپنے شوہر کی شکل دیکھ سکی، نہ کبھی بات کر سکی۔ اس علیحدگی کے بعد اسے کبھی کسی نے ہنستے نہیں دیکھا۔ بچوں کی خاطر اسے علیحدہ مکان میں رکھا گیا اور خرچہ بھی دیا جاتا تھا، لیکن وسیم سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ