میں چھوٹی سی تھی جب میری ماں وفات پا گئیں۔ اس وقت میری عمر شاید پانچ یا چھ سال کی تھی، اور وہ دن آج بھی مجھے یاد ہے جب گھر میں ماتم چھا گیا تھا۔ ابا نے کچھ ہی دن بعد دوسری شادی کر لی، کیونکہ میرے سوا ان کا اور کوئی نہ تھا جس پر وہ ذمہ داری ڈال سکتے۔ وہ اپنے کاروبار میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ مجھے اکیلا چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ مجھے سوتیلی ماں کے آنے سے کوئی خاص تکلیف تو نہ ہوئی، کیونکہ وہ مجھ سے برا سلوک نہیں کرتی تھیں، لیکن وہ راحت بھی نصیب نہ ہوئی جو ایک بیٹی کو ماں کے گلے لگ کر اپنے دکھ سکھ کہنے سے ملتی ہے۔ انہوں نے کبھی مجھے اپنے ساتھ نہ سلایا، اور نہ ہی کبھی پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔
خدا نے انہیں بیٹی عطا کی۔ وہ اسے پیار کرتیں، اپنے ساتھ سلاتیں، اور میں ترستی آنکھوں سے یہ سب دیکھتی، جیسے پیاسا ٹھنڈے پانی کو دور سے دیکھتا ہے۔ میں اپنے کمرے میں اکیلی لیٹ کر سوچتی کہ کاش مجھے بھی کوئی ایسا پیار ملے۔ کوئی اگر مجھے دو میٹھے بول بھی بول دیتا تو میں اس کی دیوانی ہو جاتی، اُسے ہی اپنا سب کچھ سمجھنے لگتی۔ ابا جان اپنے کاروبار میں مگن، اور ماں اپنے بچوں میں کھوئی رہتیں۔ اگر کسی نے مجھے سہارا دیا تو وہ اماں سلمیٰ کی بیٹی، کبری تھی۔ اماں سلمیٰ، جنہیں میری سوتیلی ماں نے میری پرورش کے لیے رکھا تھا، وہی مجھے سنوار کر اسکول چھوڑنے جاتیں، بالوں میں پٹیاں باندھتیں۔ وہ مجھے صبح اٹھاتیں، ناشتہ کراتیں، اور اسکول کی تیاری میں مدد کرتیں۔ جب وہ ساٹھ برس کی ہو گئیں تو بیمار پڑ گئیں اور آخرکار اُن کا انتقال ہمارے ہی گھر میں ہوا۔ ان کی بیماری کے دنوں میں میں نے ان کی خدمت کی، لیکن وہ درد سے کراہتی رہیں اور ایک دن خاموش ہو گئیں۔
ابا نے دو مکان ایک ساتھ بنوائے تھے۔ ایک میں ہم رہتے تھے، اور دوسرا اماں سلمیٰ اور ان کی بیٹی کو دیا ہوا تھا۔ کبری کا باپ نہیں تھا، اور میری ماں… یوں یتیمی کا درد ہم دونوں کا مشترکہ تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی تنہائی کو سمجھتی تھیں اور ایک دوسرے کا سہارا بنتی تھیں۔ پہلے وہ لوگ ہمارے پڑوسی تھے۔ جب اماں سلمیٰ بیوہ ہوئیں تو مالک مکان نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ تب میرے والد نے انہیں وہ گھر دے دیا جو انہوں نے میری سگی ماں کے لیے بنوایا تھا۔ امی کی وفات کے بعد، جب میں بڑی ہوئی، تو ابا نے یہ گھر میرے نام لکھ دیا کہ اگر اُن کی دوسری اولادیں کچھ کہیں، تو مجھے کم از کم گھر بدر نہ کیا جا سکے۔
اماں سلمیٰ جب تک زندہ رہیں، اسی گھر میں رہیں۔ ان کے بعد کبری کہاں جاتی؟ والد صاحب نے اُسے بھی وہیں رہنے دیا۔ وہ دن کو ہمارے گھر آ جاتی، رات کو اپنے گھر چلی جاتی۔ وہ خود کو محفوظ سمجھتی تھی، کیونکہ دونوں گھروں کے درمیان ایک دروازہ تھا، جو ہمارے صحن میں کھلتا تھا۔ کبری وہ دروازہ دن رات کھلا رکھتی۔ اماں سلمیٰ کے بعد، اس نے ہماری چھوٹی بڑی ذمے داریاں سنبھال لیں۔ ہم دونوں نے ایک ہی اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ میٹرک کے سالانہ امتحانات کے دوران ہی اماں سلمیٰ کا انتقال ہوا۔ کبری کا بڑا بھائی شادی شدہ تھا۔ اس کی بیوی نے اماں سلمیٰ اور کبری کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ وہ الگ گھر لینا چاہتی تھی، سو اماں سلمیٰ کے انتقال کے فوراً بعد شوہر کو لے کر چلی گئی — یہ بھی نہ سوچا کہ سولہ برس کی ایک لڑکی کو تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کبری تنہا رہ گئی، لیکن ہمارے گھر کی قربت نے اسے سہارا دیا۔
میں روزانہ شام کو کبری کے ساتھ پارک میں سیر کے لیے جاتی تھی۔ پارک ہمارے گھر سے قریب تھا، جہاں سبز گھاس اور پھولوں کی کیاریاں ہوتی تھیں۔ وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتی، جب ایک دن سیر کرتے ہوئے وہ شخص مجھے نظر آیا۔ کبری نے بھی اُسے نوٹ کیا اور کہا کہ نمرہ، دیکھو تو وہ کیسے تمہیں تک رہا ہے۔ میں نے کہا دفع کرو، تکتا رہے۔ ہم جب سیر کے بعد گھر جا رہے تھے، تو مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔ اچانک نظر پڑی، تو دیکھا کہ وہ ہاتھ کے اشارے سے خداحافظ کہہ رہا ہے۔ اگلے دن جب ہم پارک گئیں، تو وہ سامنے ہی بیٹھا تھا۔ ہمیں دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے توجہ نہ دی اور ملازمہ کے ساتھ چہل قدمی کرتی رہی۔ اب یہی روز کا معمول بن گیا۔ وہ شکل و صورت کا خوش شکل، پرکشش اور کسی اچھے گھرانے کا معلوم ہوتا تھا۔ اس کی آنکھیں گہری اور مسکراہٹ دل کو چھو لینے والی تھی۔ ایک دن اُس نے رستے میں خط پھینکا اور آگے بڑھ گیا۔
میں نے منع کیا، مگر کبری نے وہ خط اٹھا لیا۔ خط میں اُس نے میری بہت تعریف کی تھی، میرے حسن اور ادا کی داد دی تھی۔ اس کے بعد وہ دو تین روز نظر نہ آیا۔ ہم سمجھے کہ شاید اپنی حرکت پر شرمندہ ہو کر چلا گیا ہے، مگر ایسا نہ تھا۔ اگلے دن پھر وہ موجود تھا۔ اب ہم دونوں کو پریشانی نے آ گھیرا۔ میں نے کبری سے کہا، کیا کرنا چاہیے؟ کیا پارک جانا بند کر دیں؟ میں کبری پر خفا بھی ہوئی کہ اُس نے خط کیوں اٹھایا؟ کبری بولی کہ خط اس کے چلے جانے کے بعد اس لیے اٹھایا کہ اگر کسی اور کے ہاتھ لگ جاتا، تو وہ ہمارے بارے میں غلط رائے قائم کر لیتا، تب بھی ہم مشکل میں پڑ سکتے تھے۔ ہم ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ اُس نے مجھے اشارے سے سلام کیا۔ میں اور زیادہ غصے میں آ گئی۔ سوچا، جا کر دو چار سنا ہی دوں، مگر کبری بولی کہ خواہ مخواہ کی رسوائی مول نہ لو۔ اُسے برا بھلا کہو گی، تو لوگ جمع ہو جائیں گے۔ اس سے بہتر ہے کہ نرمی سے بات کر لو۔ آخر بات کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟
کبری کے کہنے پر میں نے پہلی بار کسی اجنبی سے بات کی۔ درحقیقت میں دل سے ڈری ہوئی تھی کہ کہیں بات گھر تک نہ پہنچ جائے۔ ورنہ ہمیں پارک جانے سے روک دیا جاتا۔ میں نے پوچھا، آپ کیا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا، کچھ نہیں… آپ سے کیا چاہوں گا؟ آپ اچھی لگیں، تعریف کرنا چاہتا تھا۔ زبانی بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو خط لکھ دیا۔ اگر بُرا لگا ہو تو ہاتھ جوڑ کر معافی چاہتا ہوں۔ آئندہ ایسی غلطی نہ ہوگی۔ اس کا لہجہ نرم اور عاجزانہ تھا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، اس بار معاف کرتے ہیں۔ آئندہ ایسی جسارت نہ کرنا۔ کبری کے دل میں کچھ کھلبلی مچی۔ وہ بھی نو عمر تھی۔ اُس نے پوچھا، روز تم پارک میں آتے ہو، کہاں رہتے ہو؟ وہ بولا، پارک کے قریب۔ جس سمت آپ کے گھر کا پچھلا دروازہ ہے، اُسی طرف میرے گھر کا داخلی دروازہ کھلتا ہے۔
میں نے چونک کر کہا، لیکن ہمارا دروازہ تو ہمیشہ بند رہتا ہے۔ ہم نے تو اندر سے تالا لگایا ہوا ہے۔ وہ بولا، میں نے کب کہا کہ آپ کا دروازہ کھلا ہوتا ہے؟ میں تو بس آپ کے سوال کا جواب دے رہا تھا کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ لوکیشن بتا رہا تھا۔ میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا، اچھا اچھا، ٹھیک ہے۔ پھر کبری سے مخاطب ہو کر کہا، چلو کبری، گھر چلتے ہیں۔ ہمیں پارک تک جانے کی اجازت ضرور تھی کیونکہ وہ گھر کے قریب تھا، ورنہ ہمارے گھر کا ماحول بہت سخت تھا۔ نماز اور پردے کی سختی سے پابندی تھی۔ میں اور کبری بھی چادر اوڑھ کر ہی باہر نکلتیں۔ ہم پارک کے سوا کہیں اور نہیں جاتیں، بازار بھی نہیں۔ گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود رہتی، باہر جانے کی نوبت کم ہی آتی۔ اگر کبھی جانا بھی ہوتا تو والدہ ہمیں سمجھا دیتیں کہ کوئی غلط کام نہیں کرنا۔
ایک روز کبری اپنے گھر سے کچھ خریدنے باہر گئی تو اسے اسٹور پر وہی نوجوان مل گیا۔ کبری باتونی اور نڈر تھی۔ اس نے اس کا نام پوچھا۔ نوجوان نے اپنا نام صباحت بتایا، پھر دونوں میں بات چیت ہونے لگی۔ صباحت نے کہا کہ تمہارے اور میرے گھروں کے درمیان تو چند قدموں کا فاصلہ ہے، ایک ہی گلی کا راستہ ہے، اس کے باوجود تمہیں میرے بارے میں کچھ علم نہیں۔ حالانکہ ہم پڑوسی ہیں اور پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ کبری نے جواب دیا کہ پچھلی گلی والوں سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں، اور آپ مجھے نئے لگتے ہیں، ورنہ ضرور کبھی آپ کا نام سننے کو ملتا۔ صباحت نے کہا، تم ٹھیک کہتی ہو۔ کافی عرصہ ہو گیا میرے والدین یہاں سے شفٹ ہو گئے تھے۔ میں لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اسی وجہ سے نظر نہیں آتا تھا۔ آج کل میری والدہ اور بہن مجھ سے ملنے آئی ہوئی ہیں، تم ہمارے گھر آ کر ان سے مل سکتی ہو۔ مجھے خوشی ہو گی۔
کبری بولی، میں تو آ جاؤں گی، اسٹور پر کبھی کبھار ادھر کو سودا سلف لینے آتی ہوں، مگر نمرہ نہیں آئے گی۔ اس کی والدہ سوتیلی ہیں اور والد بہت سخت۔ وہ کہیں آتی جاتی نہیں، بس میرے پاس آ جاتی ہے۔ آخر میرا گھر بھی ان کے ہی والد کا دیا ہوا ہے۔ ہم اندروں ہی ایک دوسرے کے گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔ ویسے تو میں کھانا ان کے گھر سے کھاتی ہوں، لیکن کبھی کبھار اپنے گھر بھی پکانا پڑتا ہے، تب سودا سلف لینے تمہاری گلی کی طرف آ جاتی ہوں۔ خیر، اس دن کبری نے صباحت سے بہت سی باتیں کیں اور صباحت نے اُسے بہن بنا لیا۔ ایک دن کبری اس کے گھر اُس کی والدہ اور بہن سے ملنے بھی گئی، مگر میں نہیں گئی کیونکہ مجھے سوتیلی ماں سے اجازت لینا پڑتی، اور میں ان کو صباحت کے بارے میں کچھ بھی بتانا نہیں چاہتی تھی۔ صباحت کی ماں اور بہن چند دن رہ کر واپس چلی گئیں۔ کبری اب ہر کسی کو یہی بتانے لگی کہ صباحت اس کا دور کا رشتہ دار ہے، تاکہ محلے والوں کو اعتراض نہ ہو کہ وہ کیوں صباحت سے بات چیت کرتی ہے۔
محلے کے پرانے لوگ صباحت کے خاندان کو جانتے تھے، اس لیے اگر کبھی کسی نے کبری اور صباحت کو اسٹور پر بات کرتے دیکھ بھی لیا، تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ کبری نیک چلن اور باوقار لڑکی تھی، سب اس کی عزت کرتے اور خیال بھی رکھتے۔ ایک دن صباحت نے اُسے قائل کر لیا کہ وہ کسی طرح میری اس کے ساتھ ملاقات کرا دے۔ کبری نے کہا، نمرہ! آج کی چائے تم میرے ساتھ میرے گھر پر پیو گی۔ میں خاص طور پر تمہارے لیے چائے بناؤں گی۔ وہ پہلے بھی کبھی کبھی میرے لیے پسندیدہ چیز بناتی، تو مجھے اپنے گھر لے جاتی تھی۔ مگر اس بار مجھے حیرت ہوئی، جب اس نے بتایا کہ اس نے صباحت کو بھی اپنے گھر بلایا ہوا ہے۔ مجھے اس سے یہ توقع نہیں تھی۔
وہ بولی، آج امی کی برسی ہے اور صباحت امی کے رشتے میں بھیجے ہوتے ہیں۔ مجھے تو پہلے نہیں پتہ تھا، لیکن جب اُن کی والدہ سے ملی تو انہوں نے یہ بات بتائی۔ میں نے سوچا کہ آج امی کی برسی ہے، تمہیں اور صباحت کو بلالوں۔ کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگی؟ میں نے کہا، تم اپنے کسی بھی رشتہ دار کو بلا سکتی ہو۔ اماں سلمی کی زندگی میں بھی اُن کے رشتہ دار آتے جاتے تھے، میرے والدین نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن اب تم اکیلی رہتی ہو، تو جس کو بھی بلاؤ، امی (میری سوتیلی ماں) کو ضرور بتا دیا کرو تاکہ بعد میں معلوم ہونے پر وہ ناراض نہ ہوں۔ تم محسوس نہ کرنا، مگر مجھے نہیں لگتا کہ میرے والدین اس بات کی اجازت دیں گے کہ تمہارے کزن تم سے ملنے آیا کریں۔ کبری نے کہا، ہر روز تو نہیں آئیں گے، بس آج بلایا ہے۔ میں خاموش ہو گئی، کیونکہ وہ ہر قدم پر میرا ساتھ دیتی تھی، لہٰذا مجھے بھی اس کا ساتھ دینا ہی تھا۔
اتنے میں صباحت آ گیا۔ وہ گھر کے عقبی دروازے سے آیا تھا۔ میں وہاں تھوڑی دیر بیٹھی رہی۔ صباحت، کبری سے باتیں کرتا رہا، وہ اُسے بہن کہہ کر ہی مخاطب تھا۔ اس کا انداز دلنشین اور دل موہ لینے والا تھا۔ اس روز کے بعد سے وہ مجھے اچھا لگنے لگا۔ ہم پارک میں ملتے، باتیں کرتے۔ میں دن رات اسی کے بارے میں سوچنے لگی، لیکن گھر والوں کا ڈر ہر وقت دل میں رہتا۔ نوخیز لڑکیوں کی محبت کی کہانیاں کچھ اسی طرح شروع ہوتی ہیں۔ اور میں تو ویسے بھی محبت کو ترسی ہوئی ایک یتیم لڑکی تھی۔ جب کبھی میں ڈرتی اور گھبراتی تو کبری مجھے حوصلہ دیتی کہ پارک میں کھلی جگہ میں دو چار باتیں کرنا کوئی جرم نہیں، پھر کیوں ڈرتی ہو؟ اگر تم پر کوئی بات آئی تو میں خود پر لے لوں گی۔
کئی دن صباحت پارک نہیں آیا تو مجھے پریشانی ہونے لگی۔ میں نے کبری سے پوچھا تو وہ بولی، وہ اسپتال میں ہے۔ میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ تم پریشان ہو جاؤ گی۔ اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ یہ سن کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے کہا، اس کی خیریت کیسے معلوم کریں؟ اگر تم ساتھ چلو، تو ہم جا کر پوچھ آتے ہیں۔
میں نے کچھ دیر سوچا۔ عقل نے روکا، مگر دل بے چین تھا، سو میں نے ہامی بھر لی۔ اگلے دن ہم پارک جانے کے بہانے اسپتال چلے گئے۔ وہ واقعی وہاں داخل تھا اور اب اس کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی۔ میں نے دل سے شکر ادا کیا۔ ہم وہاں پندرہ منٹ رُکے اور واپس آ گئے۔ گھر آ کر میں نے نفل شکرانے کے ادا کیے کہ صباحت کی جان بچ گئی تھی اور کوئی ہڈی وغیرہ بھی نہیں ٹوٹی تھی۔
ایک دو روز بعد اس کی اسپتال سے چھٹی ہونے والی تھی۔ اس حادثے نے مجھے یہ احساس دلا دیا کہ وہ میرے لیے بہت اہم ہے۔ میں نے اپنے دل میں اس کی چھپی ہوئی محبت کی گہرائی کو پہچان لیا تھا۔ وہ ٹھیک ہو کر دوبارہ پارک آیا، تب اس نے کہا کہ اگر چھوڑنا ہے تو ابھی چھوڑ دو، اور اگر نبھانا ہے تو پھر پوری زندگی کا ساتھ چاہیے۔ میں نے وعدہ کیا۔ کبری ہر رات اس کے لیے اپنی طرف کا عقبی دروازہ کھول دیتی۔ جب سب گھر والے سو جاتے، تو میں اپنے کمرے سے نکل کر کبری کے صحن میں داخل ہو جاتی اور اس کمرے میں چلی جاتی، جہاں صباحت میرا انتظار کر رہا ہوتا۔ وہ ایک آدھ گھنٹہ رُکتا، ہم باتیں کرتے اور صبح کی اذان سے پہلے وہ واپس چلا جاتا، اور میں بھی اپنے کمرے میں آ جاتی۔ یہ ہمارا روز کا معمول بن گیا۔ ان چند لمحوں کی ملاقات مجھے دنیا بھر کی خوشی دے جاتی تھی۔
مگر ایک دن میں نے اس سے کہا کہ اس طرح چھپ کر ملنے میں خطرہ ہے۔ اگر کوئی بات کھل گئی، تو میرے ساتھ ساتھ کبری کی بھی شامت آ جائے گی۔ ہو سکتا ہے اُسے سڑک پر آ جانا پڑے۔ اب میں اس طرح تم سے نہیں ملوں گی۔ وہ بولا کہ واقعی، تم ٹھیک کہتی ہو۔ اس طرح کا طریقہ خطرناک ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ ہم شادی کر لیں۔ چند بار اس نے نکاح پر زور دیا۔ اُدھر میرے لیے رشتے آ رہے تھے۔ میں والد کی اولاد میں سب سے بڑی تھی۔ جو رشتہ آتا، میں منع کر دیتی۔ ماں سمجھاتیں کہ اب تم سترہ، اٹھارہ برس کی ہو چکی ہو۔ یہی شادی کی عمر ہے۔ اگر تم رستے سے ہٹو گی، تو تمہاری چھوٹی بہنوں کی شادیاں کر سکوں گی۔ وہ بھی بڑی ہو گئی ہیں۔ میں جواب دیتی کہ آپ پہلے ان کی شادی کر دیں۔
ماں کہتیں کہ تمہارے باپ کو یہ بات کون سمجھائے؟ وہ تو چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی پہلے ہو جائے۔ والد اپنے بھتیجے افتخار سے میری شادی کرنا چاہتے تھے، جو لندن میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ میں نے اسے بچپن میں دیکھا تھا، مگر میرے دل میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، کیونکہ صباحت میرا دل جیت چکا تھا۔ میں نے صباحت کو آگاہ کیا تو وہ بولا کہ تم خواہ مخواہ وقت ضائع کر رہی ہو۔ میرا گھر تمہارے گھر سے چند قدم پر ہے۔ ایک دن ہمت کر لو، ہم وہیں نکاح کر لیتے ہیں۔ جب نکاح ہو جائے گا، تب تم کو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔ میں نے کہا کہ تم اپنے والدین کو کیوں نہیں راضی کر لیتے کہ وہ میرے والدین سے رشتہ مانگنے آئیں؟
اس نے جواب دیا کہ ابھی وہ راضی نہیں ہوں گے۔ لیکن جب ہم خفیہ نکاح کر لیں گے اور نکاح نامہ اُن کے سامنے ہوگا، تو پھر وہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔ تب اُن کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچے گا۔ صرف ایک سال کی بات ہے، میں تعلیم مکمل کر کے برسرِ روزگار ہو جاؤں گا، پھر ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا۔ میں صباحت کی باتوں میں آ گئی۔ سوچا، وقت ہاتھ سے نکل گیا تو کل کا کچھ پتا نہیں۔ جو آج حاصل ہو سکتا ہے، اُسے گنوانا دانشمندی نہیں۔ اور میں صباحت کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ ایک شام اُس نے مجھے پچھلی گلی میں آنے کو کہا۔ وہی وقت تھا جب ہم روزانہ پارک جایا کرتے تھے۔ والد ہمیشہ رات دس بجے کے بعد ہی دکان سے واپس آتے تھے۔ میں مقررہ وقت پر پچھلی گلی میں جا پہنچی۔ جب میں اُس کے گھر میں داخل ہوئی تو حیران رہ گئی — وہاں ایک مولوی صاحب اور صباحت کے چند قریبی دوست موجود تھے۔
میں گھبرا گئی تو اُس نے کہا کہ گھبراؤ نہیں، ہم نکاح کر رہے ہیں، کوئی گناہ نہیں۔ دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے۔ دستخط کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، اصل بات دل کا تعلق ہے۔ نکاح نامہ صرف دنیا کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ایسی باتیں کہہ کر اُس نے مجھے اعتماد میں لے لیا۔ گھر میں بھی دباؤ بہت تھا، میں چپ ہو گئی۔ سوچتی تھی، مجھے والدین سے ایسا کچھ نہیں چھپانا چاہیے تھا، لیکن اُس وقت صباحت کی محبت مجھ پر غالب تھی۔ اُس سے جدائی کا خوف مجھے اندر سے کھا رہا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ نکاح ہو جانے سے میں اس خوف سے آزاد ہو جاؤں گی۔ جب حالات اجازت دیں گے، تب اس نکاح کو ظاہر کر دوں گی۔ نکاح کے بعد میں وہاں نہیں رُکی، فوراً گھر واپس آ گئی۔ امی کو کچھ خبر نہ ہوئی۔ اُن کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اتنا بڑا قدم اٹھا چکی ہوں۔ گھر میں سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔
اب صباحت کا خیال ہر وقت میرے دل و دماغ پر چھایا رہتا۔ اُٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے — ہر لمحہ بس وہی میرے تصور میں ہوتا۔ میں اُس کی ہر بات پر بھروسہ کرتی، دل و جان سے مانتی۔ میں بات کرنے میں سمجھ دار ضرور تھی، لیکن چالاک نہیں۔ یہ صباحت ہی تھا جس نے مجھے سکھایا کہ دنیا سے کیسے نمٹنا ہے، سوالوں کے جواب کیسے دینے ہیں، اور گھر والوں کو کیسے سنبھالنا ہے۔ میں اُسے ہی اپنا سب کچھ سمجھنے لگی تھی۔ مجھے نہ دولت کی پروا تھی، نہ زیورات کی۔ بس ایک پیار سے ترسی ہوئی روح کو محبت چاہیے تھی، اور صباحت نے مجھے وہ پیار دیا جس کی مجھے ہمیشہ سے خواہش تھی۔ میں ساری دنیا کو بھول گئی۔ اب میں خود کو سنوارنے لگی، اچھے کپڑے پہننے لگی۔ جب بھی موقع ملتا، کبری کے گھر سے عقبی دروازے سے نکلتی اور صباحت کے گھر چلی جاتی۔ کبھی وہ کبری کے گھر پر میرا انتظار کرتا۔ اسی طرح ایک سال گزر گیا۔
خدا کی کرنی، ایک سال بعد والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہو گیا۔ میں بہت دکھی ہوئی، کیونکہ ابا میرے لیے سب کچھ تھے، لیکن ایک گونہ سکون بھی تھا کہ میں لاوارث نہیں ہوں، صباحت میرا شوہر ہے، میرے ساتھ ہے۔ میں کسی بھی وقت امی کو اس حقیقت سے آگاہ کر سکتی تھی کہ میں شادی شدہ ہوں، لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے صباحت نے مجھے روکا ہوا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ابھی مناسب وقت نہیں آیا، تھوڑا سا اور صبر کر لو۔
ہم ایک دوسرے کو چاہ ضرور لیتے تھے، لیکن میں ادھوری زندگی نہیں چاہتی تھی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ صباحت میرے ساتھ صرف دو گھنٹے کا ساتھ نہ رکھے، بلکہ ایک مکمل گھریلو زندگی گزارے۔ رفتہ رفتہ صباحت کی توجہ کم ہونے لگی تو میں وہم میں مبتلا رہنے لگی۔ اب وہ گوجرانوالہ چلا جاتا اور مہینے بعد آتا۔ دو ایک دن رہ کر پھر چلا جاتا۔ میرا دل اُداس ہو جاتا۔ امی اب میری منکر نہیں رہی تھیں، اُنہیں اپنی چھوٹی بیٹیوں کی شادی کی فکر تھی۔ ادھر میرا جیون مجھے ویران لگنے لگا تھا۔ جب صباحت آ جاتا، تو میں اپنے ہاتھوں سے کھانا بناتی، وہ کھانے کی تعریف کرتا، میں خوش ہو جاتی، لیکن یہ خوشی عارضی ہوتی۔ دو تین دن بعد وہ واپس چلا جاتا اور میں پھر انتظار کی آگ میں جلتی رہتی۔ اسی طرح ایک اور سال بیت گیا۔ مجھے اس کے رویّے سے دکھ ہونے لگا۔ دل ہی دل میں خطرہ محسوس کرتی تھی۔ اس کے سلوک کا گلہ تو بہت تھا، مگر کبھی زبان پر نہ لا سکی کہ میں اندر سے ٹوٹ رہی ہوں۔ میرے چہرے کی رونق ختم ہو گئی تھی۔ میں اپنے آپ کو اور اس کو لوگوں سے چھپاتے چھپاتے تھک چکی تھی۔
کتنی عجیب زندگی تھی میری۔ اب سمجھ آئی کہ خفیہ نکاح کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جب میں یہ بات کہتی، تو وہ تسلی دیتا کہ حوصلہ رکھو، جلد سب کو بتا دوں گا کہ تم میری بیوی ہو۔ وہ کہتا، کچھ مجبوریاں ہیں۔ بس، میں اس دھوکے میں زندہ رہی۔ میں کر بھی کیا سکتی تھی؟ جس شخص کو تن من سے اپنا چکا تھی، اُس کے سوا کسی اور کا تصور بھی نہ تھا۔ یوں میں خود فریبی میں زندگی گزارتی رہی۔ زندگی کے دس برس چھپ چھپ کر، سہم سہم کر گزر گئے۔ ایک ایک کر کے میری بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔ اب صرف میں ہی امی کے پاس رہ گئی تھی۔ بھائی تعلیم مکمل کر کے بیرونِ ملک جا چکا تھا۔ صباحت جب بھی آتا، ویسا ہی پیار جتاتا جیسا پہلے کرتا تھا۔ لیکن چلا جاتا تو مہینوں خبر نہ لیتا۔ فون تک نہ کرتا۔ میں انتظار کی اذیت بھری راتیں کیسے کاٹتی تھی، یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔
آخر کبری کی بھی شادی ہو گئی۔ امی نے اس کی شادی میرے بھائی سے کر دی۔ اب وہ بدستور اسی گھر میں رہتی تھی۔ اس نے میری التجا پر امی اور بھائی کو میرے خفیہ نکاح کا راز نہیں بتایا تھا۔ میں صباحت سے اصرار کرتی کہ کم از کم فون تو کر دیا کرو، مگر اس نے کہا کہ اس کے گھر کا فون کٹ گیا ہے۔ ایک دن اس نے مجھے سختی سے منع کر دیا کہ میرے گھر بغیر اجازت کے نہ آنا، ورنہ میرے گھر والے ہماری طلاق کروا دیں گے۔
ان بندشوں کے باعث میں کہیں آ جا نہیں سکتی تھی۔ اسی وجہ سے مجھے باہر کی دنیا کا کچھ پتا نہیں تھا۔ میں تو بس اتنی خوش تھی کہ وہ مہینے دو مہینے بعد آ کر مجھے دیکھ لیتا ہے، مل لیتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا صبر ختم ہونے لگا۔ دل گھبرانے لگا۔ وہ کبھی کبھار آتا، مگر دن میں ملنے کا موقع نہ ہوتا۔ میں رات کا انتظار کرتی۔ ماں اور بھائی سو جاتے تو میں کبری کے گھر کے عقبی دروازے سے نکل کر صباحت کے گھر جاتی۔ عزت کو داؤ پر لگا کر۔ یہ کیسی زندگی تھی جو میں بسر کر رہی تھی؟ ایسی زندگی سے تو مر جانا بہتر تھا۔ ایک دن صباحت منہ اندھیرے آیا اور کہا کہ میں باہر جا رہا ہوں۔ پوری بات بھی نہ کی، بس دو گھڑی کو مل کر چلا گیا۔ پندرہ روز بعد وہ آیا۔ میں ملنے گئی، مگر اس بار اُس نے پہلی سی محبت کا اظہار نہیں کیا۔ اس کا انداز روکھا پھیکا تھا۔ میں نے اس کی چاہت دیکھی تھی، مجھے لگا کہ کچھ غیر معمولی ضرور ہے، جو اسے مجھ سے آہستہ آہستہ دور کر رہا ہے۔
میں نے اسے کہا کہ میں محسوس کر رہی ہوں کہ ہمارے بیچ کوئی فاصلہ پیدا ہو رہا ہے۔ جلدی سے شادی کو ظاہر کرو۔ اس نے کہا کہ اگلی بار آؤں گا تو سب کو بتا دوں گا۔ میں نے کہا کہ کبری اب میری بھابھی بن چکی ہے۔ وہ میرے گھر میں رہتی ہے، بھائی بھی وہیں ہے۔ مجھے بھائی سے ڈر لگتا ہے اور محلے والوں سے بھی کہ کبھی نہ کبھی راز کھل جائے گا۔ اگر مجھ سے تعلق رکھنا ہے، تو کسی اور جگہ گھر لے لو۔ اب یہاں آنا ممکن نہیں۔ اس نے جواب دیا کہ اس بار جب آؤں گا، تو تمہیں ساتھ لے جاؤں گا، یہ وعدہ ہے میرا۔ وہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس نے محسوس بھی نہ ہونے دیا کہ وہ آخری بار آ رہا ہے۔ میں بےخبر تھی کہ اب وہ کبھی نہیں لوٹے گا، اور میں صرف اس کے انتظار میں جیتی رہوں گی۔
جب ایک ماہ گزر گیا، تو میں نے اس کے دفتر فون کیا۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ ملک سے باہر جا چکا ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ یہ صدمہ میں کیسے سہتی، یہ صرف میں جانتی ہوں۔ میں نے اس کے دوست منظور کو فون کیا۔ پہلے تو وہ بھی لاعلمی کا اظہار کرتا رہا، پھر کہا کہ جلد پتا کر کے بتاؤں گا۔ اب میں راتوں کو روتی تھی، منظور کے فون کا انتظار کرتی۔
آخر ایک دن اس کا فون آیا۔ اس نے صباحت کے گھر کا نمبر دیا، مگر ساتھ ہی کہا کہ یہ بات صباحت کو مت بتانا کیونکہ وہ منع کر کے گیا تھا۔ میں نے اس نمبر پر فون کیا، صباحت کی بھابھی نے فون اٹھایا اور بتایا کہ وہ بیرونِ ملک جا چکا ہے۔ اس نے سخت لہجے میں بات کی اور کہا کہ وہ شادی کر کے بیوی کو لندن لے گیا ہے۔
یہ سن کر تو میں پاگل ہو گئی۔ کمرہ بند کر کے خود کو زخمی کر لیا، مگر اس سے کیا ہوتا؟ اس طرح کوئی مر تو نہیں جاتا۔ اس کے جانے کو پندرہ برس ہو چکے ہیں، نہ وہ لوٹا، نہ کوئی خبر لی۔ میں ہر روز جیتی ہوں اور ہر روز مرتی ہوں۔ گھر والوں کو کیا بتاتی؟ کبری تسلی دیتی، مگر میں اس سے بھی منہ موڑ لیتی، جیسے وہ بھی اس گناہ میں شریک ہو، جو خفیہ نکاح کر کے مجھ سے سرزد ہوا تھا۔ کاش، ایک بار صباحت مل جائے، تو میں اس سے اپنے وہ بیتے سال واپس مانگ لوں، جو اس نے مجھ سے چھین لیے۔
میری ساری زندگی خفیہ نکاح نامے کے ایک کاغذ سے برباد ہو گئی۔ وہ کاغذ جو میں گھر والوں کے ڈر سے سنبھال نہ سکی، اور صباحت کو دے دیا تھا کہ وہ محفوظ رکھے گا۔ نکاح نامہ کھویا یا محفوظ رہا، خدا جانے، مگر صباحت کے ساتھ میری ہر خوشی کھو گئی۔ پہلے کبری میری ملازمہ تھی، اب میں اُس کی ملازمہ بن کر جی رہی ہوں۔ جاؤں تو کہاں جاؤں؟ جس کا گھر اس کا اپنا نہ ہو، وہ کہاں جائے؟