شادی کی عمر

Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories

 شادی کی عمر - سبق آموز کہانی

قسط وار کہانیاں
آپا کی منگنی کو سات برس بیت چکے تھے لیکن خرم وطن لوٹنے کا نام نہ لیتا تھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یو کے گیا اور پھر لوٹ کر نہ آیا۔ خالہ ابھی تک منگنی کے رشتے کو برقرار رکھے ہوئے تھیں، حالانکہ امی جان نے پہلے دبے دبے اور پھر واضح الفاظ میں کہنا شروع کر دیا تھا کہ شمیم سچ بات بتادو۔ صاف انکار ، مغالطے میں رکھنے سے اچھا ہوتا ہے۔ اگر تمہارا لڑکا میری بیٹی سے شادی نہیں کرنا چاہ رہا تو منگنی کو ختم کر لیتے ہیں۔ میں کسی اور جگہ رشتہ کرلوں گی۔ ایسے انتظار میں تو عمر ہی بیت جائے گی۔ خالہ نجانے کس خیال میں جی رہی تھیں بیلا آپا کو ان کی پیدائش کے وقت گود میں لیا تو امی سے کہا تھا کہ شمیم یہ میری بہو بنے گی۔ پھر جب بیلا آپا پندرہ برس کی تھیں، خرم بھائی سے ان کی منگنی دھوم دھام سے کر دی۔ اس وقت تو بھائی خرم بھی بہت خوش تھے۔ ان کو بیلا آپا پسند تھیں اور زیادہ یہ کہ ماں کی خوشی عزیز تھی۔

خاندان میں سب ہی کا خیال تھا کہ جونہی خرم بھائی تعلیم مکمل کر لیں گے دونوں کی شادی ہو جائے گی۔ خرم بھائی نے تعلیم مکمل کر لی اور انجینئرنگ پاس کر کے وہ کمانے سعودی عربیہ چلے گئے وہاں انہیں ایک اچھی کمپنی میں دوست کی وساطت سے نوکری مل گئی تھی۔ تاہم ان کا شوق اور زیادہ تعلیم حاصل کرنے کا تھا۔ خرم بھیا گئے تو کمانے کو سعودی عربیہ تھے لیکن وہاں سے انہیں یو کے جانے کا چانس مل گیا اور پھر وہ ایسے گئے کہ وہیں کے ہو رہے ۔ اب آتے بھی تو ہمارے گھر نہ آتے، بغیر ملے چلے جاتے تھے اور یہی اچنبے کی بات تھی کہ وہ منگیتر جو ان کی جدائی کا دکھ جھیل جھیل کر آدھی رہ گئی تھی۔ لمحہ لمحہ خرم کو یاد کر کے گھلتی جارہی تھی ، خرم کو اسی سے ملنے کی آرزو نہ رہی تھی۔

 پانچ برس اور بیت گئے۔ بیلا آپا منگیتر کا انتظار کرتے کرتے تھک گئیں، تھک کیا گئیں مایوس ہو گئیں۔ تب ہی اماں جان خالہ شمیم کو بتائے بغیر بیٹی کیلئے دوسرے رشتے کی تلاش کرنے لگیں۔ ان دنوں میں نے ایف اے پاس کیا تھا کہ ایک دن بیلا آپا کی طبیعت خراب ہو گئی، وہ کافی دنوں سے دبی دبی اور چپ سی تھیں۔ اس روز انہیں پتا نہیں کیا ہوا وہ بے ہوش ہوکر گر گئیں۔نزدیکی کلینک سے امی ڈاکٹر صاحب کو بلا لائیں۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے آپ کی بیٹی کو مرگی کا دورہ پڑا ہے جب ہوش آ جائے تو کلینک لائیے گا، فی الحال میں دوائیاں لکھ دیتا ہوں، افاقہ ہو جائے گا۔ دوا کھانے کے باوجود افاقہ نہ ہوا۔ کچھ دن بعد بیٹھے بیٹھے گر جاتیں اور بے ہوش ہو جاتیں۔ ہمارے گھر میں تو جیسے پریشانی نے گھر کر لیا تھا۔اب وہ مستقل افسردہ رہتی تھیں۔ کئی ڈاکٹروں کو دکھایا۔ مرض کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ ایک نے اندیشہ ظاہر کیا کہ انہیں ہسٹیریا ہو گیا ہے ، ایک نے کہا کہ شادی کر دیں ٹھیک ہو جائے گی۔ جس روز دورہ پڑتا وہ دورہ ختم ہونے کے بعد بے ہوشی سے اٹھتیں تو کچھ دیر بعد سو جاتیں اور پھر اگلے دن تک سوتی رہتیں، انہیں بالکل بھی یاد نہ رہتا تھا کہ ان پر کیا بیتی تھی۔ کہتی تھیں نہ میں گری اور نہ بے ہوش ہوئی۔ بس سو گئی تھی۔ عجب پرابلم تھا۔ والدہ کی پریشانی دیکھی نہ جاتی تھی۔

 ایک روز پڑوسن آئیں اسی وقت آپا کو دورہ پڑا، انہوں نے جو حالت دیکھی تو مشورہ دیا کہ اسے تم پیر صاحب کے مزار پر لے جائو۔ وہاں ایسے مریض حاضری دیں تو ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ امی نے پڑوسن کا مشورہ گرہ سے باندھ لیا تھا۔ وہ مجھے اور بیلا آپا کو ہمراہ لے کر در بار پہنچ گئیں۔ وہاں کافی رش تھا۔ ہم نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح فاتحہ پڑھی اور کچھ دیر ستانے بیٹھ گئے۔ دو پہر ہو گئی تھی بھوک ستانے لگی تو قریب بیٹھی ایک عورت سے امی جان نے کہا، کھانا کہاں سے ملے گا، وہ بولی لنگر سے حاصل کرنا تو مشکل ہو گا، قطار میں لگنا پڑے گا۔ ہاں دربار کے باہر نزدیک ہی طباقی بیٹھا ہے اس کا سالن اچھا ہوتا ہے ۔ دال بھی ملتی ہے۔ کہو تو بیٹے کو بھیج کر منگوادیتی ہوں۔ یہ عورت خدیجہ خاتون اپنے بیٹے احسان کے ساتھ زیارت کو آئی تھی۔ دونوں خواتین میں کچھ دیر تک باتیں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ خدیجہ بی بی کا بیٹا، محمد احسان سالن روٹی لے کر آگیا۔

 سالن واقعی مزیدار تھا، ہماری بھوک بھی تیز ہو چکی تھی۔ کھانا کھایا اور پانی بھی احسان سے منگوا کر پیا اور پھر چلنے کو تیار ہو گئے۔ تبھی خدیجہ بھی ساتھ ہو لیں کہ اکٹھے چلتے ہیں۔ راستہ تو ایک ہے۔ میرا بیٹا ہمراہ ہے تم کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ ہم ایک بس میں سوار ہو گئے ، جب اسٹاپ پر بس رکی تو اچانک بیلا آپانے گلے سے عجیب سی آواز نکالی۔ ہم سمجھ گئے کہ ان کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ دورہ پڑنے لگا ہے ، گھبرا کر خدیجہ کے ساتھ ہی اتر گئے۔ خدیجہ نے امی کو مشورہ دیا کہ بہن یہاں اتر جائو ایسا نہ ہو کہ آگے جا کر چلتی بس میں تمہاری بچی کو دورہ پڑ جائے تو تمہیں سنبھالنا مشکل ہو گا۔ یہاں میراگھر ہے اور اڈے سے بہت نزدیکی میرے بیٹے کی سرائے بھی ہے۔ سراں مقامی زبان میں یہاں مسافر خانے کو کہا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا ہوٹل نما ہوتا ہے۔ کمرے بنے ہوتے ہیں جہاں چار پائیاں اور بستر وغیر ہ رکھے ہوتے ہیں۔ مسافر چاہیں تو تھوڑے سے پیسے دے کر کچھ دیر آرام یارات بھر کو قیام بھی کر سکتے ہیں۔ اس سرائے میں کھانا حسب ضرورت ، رقم کے عوض لیا جا سکتا تھا۔ اکثر مسافر خانے دیہاتی ہوتے، رستے میں کئی سرائے آتے تھے۔

یہ ماں بیٹے ہم کو اپنی سراں میں لے آئے۔ کیونکہ آپا بیلا کو آرام کی ضرورت تھی۔ آپا کی بگڑتی طبیعت صورت حال کے پیش نظر احسان نے چوبارے پر لے جانے کی بجائے ہم کو اپنے چائے خانے سے متصل کمرے میں لا بٹھایا۔ غالباً یہ اس کی اپنی آرام گاہ تھی۔ کمرہ صاف ستھرا اور پچھلی دیوار میں چھت سے قریب نیچے ایک بڑی سی سلاخوں والی کھڑ کی تھی جس کے چاروں بیٹ کھلے ہوئے تھے، عقبی کھیتوں سے تازہ ہوا اور روشنی اندر آ رہی تھی، جس نے کمرے کی فضا کو خوشگوار بنادیا تھا۔ خدیجہ نے امی جان سے کہا۔ بہن آرام کرو اور بیٹی کو چار پائی پر لٹا دو۔ گرما گرم چائے بھی منگواتی ہوں۔ بچی کی طبیعت بحال ہو جائے گی تو احسان آپ لوگوں کو مظفر گڑھ جانے والی بس میں سوار کرادے گا۔ جس چیز کی ضرورت ہو تکلف مت کرنا، سمجھ لو یہ جگہ آپ کی ہی ہے۔ خدیجہ بی بی تھوڑی دیر بیٹھ کر چلی گئی۔ کہنے لگی گھر جا کر کھانا بھی بنانا ہے ، شام ہونے والی ہے۔ بیٹے کو ہدایت کی کہ یہ ہمارے مہمان ہیں۔ ان کا بہت خیال رکھنا۔ شام کو انہیں خود تم بس میں سوار کرادینا۔ ہم نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا اور آپا آرام سے چار پائی پر بجھے بستر پر دراز ہو گئیں۔ ہم کو تو ڈر تھا کہ آپا بھی بے ہوش ہو کر گریں گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ چائے پیتے ہیں ان کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور ماحول کی تازگی سے چہرے پر خوشگوار تاثر ابھر آیا۔ ان کو یہ جگہ بہت پسند آئی تھی۔

 ہم نے شکر کیا کہ بس کے سفر سے نجات ملی کیونکہ ایسی مسافر بسوں پر سفر شاذ و نادر ہی ہوتا تھا جن میں ڈیزل کی بو گھبراہٹ کا سبب بنتی تھی۔ آپا تو ویسے ہی مریضہ تھی مجھے بھی ان مسافر بسوں میں متلی محسوس ہوتی تھی۔ ان بسوں میں زیادہ تر غریب دیہاتی سفر کرتے تھے ، جن کے لباس کئی دنوں سے دھلائی کو ترس رہے ہوتے۔ رش زیادہ ہو جاتا تو دم گٹھنے لگتا۔ تھوڑی دیر بعد احسان نے در پر دستک دی اور پوچھا اماں، کسی شے کی ضرورت تو نہیں۔ نہیں بیٹا، شام سر پر ہے ۔ اب تم ہم کو مظفر گڑھ جانے والی بس پر بٹھا دو۔ اس نے کہا۔ اماں جی، ذرا سا توقف کرلیں۔ کوئی دس پندرہ منٹ بعد میرے دوست کی ویگن ادھر سے گزرنے والی ہے۔ وہ آپ کو جلد پہنچادے گی۔ مظفر گڑھ زیادہ دور نہیں، اگر سواریاں تمام اتر جائیں تو ویگن ڈرائیور کو اپنا محلہ بتادیناوہ آپ کو آپ کے گھر کے پاس اتار دے گا۔ میں دل ہی دل میں خوش ہو گئی، یہ تو بڑی سہولت ہو گئی تھی۔ تقریباً شام چھ بجے اس کے دوست کی ویگن آئی، چند سواریاں اس میں موجود تھیں۔ ہمارے لئے احسان نے خصوصی طور پر سیٹ خالی کروائی اور اپنے دوست کو ہدایت کی کہ یہ جہاں کہیں ان کو وہاں اتار دینا۔

 اس نے امی جان سے کہا۔ آپ کرائے کی رقم ان کو مت دینا۔ ارے بیٹا تم نے کیوں اتنا تکلف کیا ہے۔اماں جی ۔ آپ ہماری مہمان تھیں اور مہمانوں سے کرایہ نہیں لیا جاتا۔ یہ بڑی یاد گار زیارت تھی۔ خالہ خدیجہ اور ان کے بیٹے کے حسن سلوک نے ہم کو شاد کر دیا تھا تبھی یہ سفر یاد گار تھا۔ ہم تقریباً آدھ گھنٹے میں گھر پہنچ گئے۔ ویگن ڈرائیور نے رستے میں کہیں اسٹاپ نہ کیا اور سیدھا مظفر گڑھ اڈے لے آیا جہاں اس کی گنی چنی سواریاں اتر گئیں اور ہم ماں بیٹیاں باقی رہ گئے۔ اماں جی کہاں رہتی ہیں۔ امی نے محلہ بتایا اس نے ہم کو ہمارے گھر پر لا کر اتار دیا۔ اس غیر معمولی سفر نے ہم دونوں بہنوں کے دلوں کو گرمادیا تھا۔ کیونکہ جس نوجوان نے ہماری مہمان داری کی تھی وہ بہت خوبرو، شاندار لمباتر نگا اور مہذب تھا۔ ہم دونوں کن انکھیوں سے احسان کو دیکھ کر دلشاد ہوئی تھیں اور دوبارہ دیکھنے کی آرزو دل میں لئے گھر پہنچیں۔

پیر صاحب کے دربار میں خدیجہ خالہ کامل جانا ہمارے لئے خوشی کا باعث بنا۔ بہت دنوں تک میں اس خوشگوار سفر کی یاد میں گم رہی تھی۔ اب میری آپا ہلکی پھلکی رہنے لگیں، بیٹھے بیٹھے مسکرادیتیں اور کبھی کبھار احسان کا ذکر چھیڑ بیٹھتیں۔ میں تو خود چاہتی تھی کہ کوئی ہو جو اس کا ذکر کرے۔ ایک ماہ یہ خیریت سے گزر گیا اور بدھ کے روز پھر سے آپا کو دورہ پڑا۔ کل جمعرات ہے ماں۔ صبح سات بجے والی بس سے دربار کی زیارت پر چلتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہاں کی حاضری سے آپا کو کافی دن افاقہ رہا ہے۔ ماں سوچ میں پڑ گئیں۔ اگلے روز ہم صبح سویرے ہی ویگن میں بیٹھے تھے۔ یوں ہر ماہ کی پہلی نو چندی جمعرات کو اماں آپا کو زیارت کے لئے لے جانے لگیں اور میں بھی ساتھ ہو لیتی ، واپسی پر ہر بار ہم احسان کی سراں میں ضرور اترتے۔ گرما گرم چائے سموسے اور میٹھے پتاشوں سے وہ ہماری تواضع بہت خوشی سے کرتا۔ اور گھنٹہ دو گھنٹہ آرام کے بعد وہ ہم کو مظفر گڑھ جانے والی ویکن میں سوار کرا دیتا جس کا کرایہ بھی نہ دینے دیتا کہ میرے دوست کی سواری ہے۔ ہر روز میرے ہوٹل سے کھانا کھاتا ہے۔

 تبھی پیسے نہ لے گا۔ اماں کہتی بھی تھیں کہ نجانے احسان کیا سوچے گا، لیکن معاملہ ہی ایسا تھا کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے آپا کی حالت غیر ہونے لگتی تو ہم کو یہاں اترتے ہی بنتی ۔ احسان نے ہر بار خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا تو اماں کو آس بندھ گئی کہ شاید وہ رشتہ کا متمنی ہے۔ اس کی والدہ بھی دو تین بار ہمارے گھر آئیں لیکن انہوں نے رشتہ کی بات نہ کی حالانکہ احسان غیر شادی شدہ تھا۔ اماں چاہتی تھیں کہ اب بیلا کی شادی ہو جائے تا کہ میرے لئے رستہ صاف ہو لیکن آپاکار شتہ ، خدیجہ خاتون نے غالباً اس وجہ سے نہ مانگا کہ ان کو دورے پڑتے تھے اور خالہ خدیجہ کے خیال میں لڑکی پر آسیب وغیرہ کا سایہ بھی ہو سکتا تھا۔ میری غلط فہمی یہ کہ احسان مجھے پسند کرتا ہے تبھی ایسی خاطر مدارت کرتا ہے۔ سوچتی تھی کہ میں تو بری پھنس گئی۔ میری بہن کی شادی ہو گی اور نہ کوئی میرا رشتہ مانگے گا۔ نماز پڑھ کر دعا کرتی تھی۔ یا اللہ اس سے پہلے کہ مجھے بھی آپا جیسے دورے پڑنے لگیں۔ کوئی اچھا رشتہ میرے لئے آجائے ۔ اللہ کی رحمت سے دعا قبول ہو گئی رشتہ تو اچھا آگیا لیکن احسان کا نہیں کسی اور کا تھا۔ یہ امی کے دور کے رشتہ دار تھے۔

 لڑکا بیروزگار نہیں تھا اور امی کے لئے یہی کافی تھا۔انہوں نے آپا کا خیال چھوڑ دیا کہ جب اللہ چاہے گا ان کے بھی ہاتھ پیلے ہو ہی جائیں گے ، بڑی کو پہلے بیاہنے کے چکر میں دوسری تو پختہ سن نہ ہو جائے کہ پھر دونوں ہی بیٹھی رہ جائیں۔ میرے رشتے کی بات چل رہی تھی کہ اچانک آپا کو ایک بار پھر سے پہلے کی مانند شدید دورہ پڑ گیا۔ اماں کی طبیعت ناساز تھی، سفر نہ کر سکتی تھیں۔ انہوں نے پڑوسن خالہ سے استدعا کی کہ اس جمعرات کو تم ہی میری بچیوں کے ساتھ چلی جائو۔ وہ آپا کی حالت دیکھ کر راضی ہو گئیں اور ہم ان کے ہمراہ چلے گئے۔ امی نے خالہ صائمہ کو سمجھادیا تھا کہ خدیجہ میری بہن بنی ہوئی ہے اور اس کا گھر بصیرے میں ہے۔ اگر بیلا کی بیچ رستے طبیعت بگڑنے لگے تو اس کو اتار کر سرائے میں لے جانا۔ حسب معمول ہم وہاں اتر گئے۔ ہم کو دیکھ کر وہ دوڑا ہوا باہر آیا اور اس بار دکان کے اوپر بنے ہوئے چو بارے پر لے آیا۔ کہنے لگا۔ اماں جی کہاں ہیں۔

 مجھی کو جواب دینا پڑا۔ اماں بیمار تھیں۔ ہم خالہ کے ساتھ آئے ہیں۔ اچھا آپ کمرے میں جایئے، آرام کریں، چائے وغیرہ پی لیں۔ میں تھوڑی دیر بعد آپ کو ویگن میں سوار کرادوں گا۔ ہوٹل سے متصل جو کمرہ تھا شاید اس کا کوئی مہمان ٹھہرا ہوا تھا، تبھی ہم کو آج بالائی منزل پر لایا تھا۔ کمرے میں آئے دس منٹ ہوئے ہوں گے ، اس کا ملازم لڑکا چائے کی ٹرے لے آیا اور پوچھا کھانا لائوں، میں نے کہا نہیں ہم کو آدھ گھنٹے میں جانا ہے۔ کھانا گھر جا کر کھائیں گے۔ چائے کافی ہے۔ چائے پی کر ہم تازہ دم ہو گئے، ارادہ تھا، آج زیادہ نہ رکیں گے۔ اماں ساتھ نہ تھیں لہٰذا جلدی نکلیں گے لیکن یہ کیا کہ آپا چائے پیتے ہی سو گئیں۔ میں نے سوچا یا اللہ اب کیا ہو گا، یہ یو نہی پڑ گئیں تو انہیں اٹھائے گا کون؟ اگر ز بر دستی اٹھانے کی کوشش کی تو دورہ پڑ جائے گا۔ یہ بے ہوش ہو گئیں تو گھر بھی نہ جاسکیں گے۔ اب خالہ صائمہ پریشان تھیں۔ مجھے کہنے لگیں کہ پندرہ بیس کوس اور سفر کر لیتے یہ تم نے کیا، کیا کہ رستے میں اتر گئیں۔ میں نے کہا خالہ جی۔ آپ کیا جانتی نہیں ان کو یہ بس یہاں تک سفر کر سکتی ہیں۔

 اگر ہم نہ اترتے یہ بس میں بے ہوش ہو کر گر جاتیں۔ تب کیا ہوتا۔ اب کیا کریں شام ہے، گھنٹہ دو گھنٹہ انتظار کر لیتے ہیں۔ یہ ذرا سولیں۔ اٹھانے کی کوشش کریں گے، پھر احسان ہم کو ویگن میں سوار کرادے گا۔ مظفر گڑھ دور نہیں ہے۔ گھبرایئے نہیں ہم پہلے بھی یہاں پڑاؤ کرتے رہے ہیں۔ احسان اماں کا منہ بولا بیٹا بنا ہوا ہے۔ اس کی والدہ ہمارے گھر آتی رہتی ہیں۔ خالہ کو تسلی ہو گئی اور وہ آرام سے چار پائی پر جالیں۔ مغرب سے عشاء ہو گئی، میری بہن نے بیدار ہونے کا نام نہ لیا۔ اب پھر خالہ گھبرائیں۔ ارے، یہ تو اٹھنے کا نام نہیں لیتی۔ میں تمہاری ماں اور اپنے گھر والوں کو کیا جواب دوں گی۔ فکر تو مجھے بھی تھی کہ اماں بے چین ہوں گی کہ کہیں بیلا پر رستے میں دورہ نہ پڑ گیا ہو۔ لیکن خالہ کو تسلی دی۔ احسان، ہم کواسپیشل گاڑی کر کے چھوڑ آئے گا خالہ گھبراتی کیوں ہیں۔

خالہ جی میرے دوست کی ویگن جارہی ہے آخری بس بھی نکل گئی ہے۔ رات زیادہ ہو گئی ہے۔ میری مانئے تو اب یہاں سو جائے۔ اوپر کوئی نہ آئے گا۔ صبح سویرے ناشتے کے بعد جو پہلی بس جارہی ہو گی اس میں سوار کرادوں گا۔ ہم اکیلی خواتین کیا کر تیں۔ احسان کا مشورہ مانے بغیر چارہ نہ تھا۔ یہ قیامت کی رات تو کسی طرح کاٹنی تھی۔ آپا نے کروٹ تک نہ لی۔ رات کے بارہ بجے خالہ کو بھی نیند آگئی، لیکن مجھے نیند نہ آئی۔ امی کی فکر کہ وہ کتنی پریشان ہوں گی۔ ابھی انہی سوچوں میں تھی کہ ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ اٹھ کر کھڑ کی سے دیکھا تو احسان دروازے پر کھڑا تھا۔ وہ کھڑ کی کی طرف آگیا۔ سوچا آپ کی طرف آخری چکر لگا لوں کہ کسی شے کی ضرورت تو نہیں۔ ایک چار پائی کی ضرورت ہے، مجھے کرسی پر نیند نہیں آرہی۔ کمرے میں صرف دو چارپائیاں تھیں، جن پر یہ دونوں سورہی تھیں۔ برابر والا کمرہ خالی ہے، درمیان میں دروازہ ہے۔ میں کنڈی کھول دیتا ہوں، آپ پیچ کا دروازہ کھول کر اس طرف سو جائیں۔اس نے دوسرے کمرے میں جا کر کنڈی کھول دی اور میں نے دروازہ بھی کھول دیا۔ ساتھ والے کمرے میں پڑی چارپائی پر جا بیٹھی، سوچا یہ جائے تو دروازہ بند کر کے سو جائوں گی۔ وہ جانے کی بجائے وہاں کرسی پر بیٹھ گیا۔

 یہ تو گہری نیند سورہی ہیں، اس نے آپا اور خالہ کی طرف اشارہ کیا اور آپ کو نیند نہیں آرہی، تو چند باتیں کر لیتے ہیں۔ نیند آنے لگے تو چلا جائوں گا، دروازہ اندر سے لاک کر لینا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا تم پہلی بارا اچھی لگی تھیں جب مزار پر دیکھا تھا، چاہتا تھا کہ تم کو شریک حیات بنائوں لیکن اماں نہیں مان رہیں۔ میری منگنی بچپن میں اماں کی بھانجی سے ہو چکی ہے۔ ان کو اپنی بہن کا پاس ہے، تبھی منگنی نہیں توڑ نا چاہتیں۔ رشتہ مانگنا ہے تو دیر نہ کرو۔ یہ بھی نہ بتا سکی کہ ڈر تھا کہیں آپا اور خالہ جاگ نہ جائیں۔ مجھے نیند آرہی ہے ۔ اب آپ جائے۔ وہ اٹھ کر چلا گیا تو میں نے در کو اندر سے لاک کیا اور چار پائی پر لیٹ گئی لیکن نیند کہاں۔ وہ تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ یہ رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔ 

احسان نے ناشتہ بھجوایا۔ میں نے صرف چائے پی۔ آپا کی نیند کا کوٹا پورا ہو چکا تھا۔ وہ ہشاش بشاش اٹھ گئیں اور ہم ویگن میں صبح آٹھ بجے کے قریب گھر آگئے۔ اماں کا حال برا تھا، خالہ صائمہ نے احوال بتا کر تسلی دی، انہوں نے صد شکر کیا کہ خیریت سے گھر آگئے تھے۔ انہی دنوں شمیم خالہ آئیں کہ خرم نے اپنی سی کر لی، تم بیلا کا رشتہ میرے منجھلے بیٹے اکرم سے کر دو۔ اماں تو چاہتی تھیں کہ یہ بیل کسی طور منڈھے چڑھے۔ بولیں یہ کل بھی تمہاری بہو تھی، آج بھی تمہاری ہے ، خرم نہ سہی، اکرم سہی۔ بیلا کو تم جب چاہو بیاہ کرلے جائو ، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ جو لوگ میرا رشتہ مانگ رہے تھے ان کو بلوا کر امی نے کہا کہ بڑی کا رشتہ ہو چکا ہے۔ اپنی خالہ کی بہو بننے جارہی ہے۔ چاہتی ہوں کہ چھوٹی کو بھی ساتھ بیاہ دوں تا کہ ایک ہی خرچہ ہو۔ دو بار خرچہ نہیں کر سکتی۔ ہم دونوں بہنوں کی شادی اکٹھی ہو نا قرار پائی۔ شادی کو ایک ہفتہ رہتا تھا کہ احسان اور اس کی والدہ ہمارے گھر آئے اور خالہ خدیجہ نے میرا ہاتھ احسان کے لئے مانگا۔ بتایا کہ بہن کو منع کر دیا ہے ، احسان کی یہی مرضی تھی۔ اس کی خوشی کی خاطر بہن کو ناراض کر کے آپ کے در پر آگئی ہوں۔

 رشتہ سے انکار مت کرنا۔ بہن، کبھی انکار نہ کرتی اگر تم ایک ماہ قبل آجاتیں، بھلا احسان سے اچھا میری نظر میں اور کون تھا لیکن اب تو دوسری جگہ ہاں کر دی ہے، شادی کے دعوت نامے بھی بانٹ دیئے ہیں شادی تیار ہے۔ اب تو ہماری عزت کا سوال ہے۔ خالہ خدیجہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں اور احسان مجھے نہیں معلوم کہ امی جان کے انکار سے اس پر کیا بیتی۔ اس نے اپنی ماں کو تو منا لیا مگر تقدیر کو نہ منا سکا۔ ہم کتنی مختصر مدت کے لئے ملے تھے۔ صرف پندرہ بیس منٹ ہی تو باتیں کی تھیں۔ لیکن وہ رات نجانے کتنے خواب مجھ سے چھین کر لے گئی، اور بدلے میں کیا دے گئی؟ بس ایک خوف زدہ یاد – آه… احسان تم نے رشتہ مانگنے میں کتنی دیر کر دی۔ 

 آپا تو شادی کے بعد کافی حد تک ٹھیک ہو گئیں۔ ہاں مہینوں بعد ۔ کبھی دورہ پڑتا تھا تو اپنے میاں کے ساتھ پیر صاحب کے در بار زیارت کو چلی جاتی تھی لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وہ احسان کی سرائے پر ٹھہرتی تھیں یا نہیں۔ مگر میں پھر کبھی پیر صاحب کے دربار حاضری دینے نہ جا سکی اور نہ ہی احسان کی سرائے جا سکی اور اس رات کی تھوڑی سی بات ہی عمر بھر کو کافی ہو گئی۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے