حضرت آدم ؑ اور شیطان

 

عام طور پر جو یہ مشہور ہوگیا ہے کہ شیطان نے پہلے حوّا کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر انہیں آدمؑ کو پھانسنے کے لیے آلئہ کار بنایا ، قرآن اس کی تردید کرتا ہے۔اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نےدونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے۔اللہ تعالیٰ سورۃالاعراف آیت نمبر ۲۰ تا ۲۲ میں فرماتا ہے:
تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کی ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو ۔ اور ان سے قسم کھا کر کہا میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ غرض (مردود نے) دھوکہ دے کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے (درختوں کے) پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے لگے اور (ستر چھپانے لگے) تب ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے ( آیت نمبر۲۰ تا ۲۲)
جبکہ سورۃ طہٰ میں قرآن کا بیا ن ہے کہ:
تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ (اور) کہا کہ آدم بھلا میں تم کو (ایسا) درخت بتاؤں (جو) ہمیشہ کی زندگی کا (ثمرہ دے) اور (ایسی) بادشاہت کہ کبھی زائل نہ ہو۔ تو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے (بدنوں) پر بہشت کے پتّے چپکانے لگے۔ اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بےراہ ہو گئے (آیت نمبر۱۲۰ تا ۱۲۱)
یہاں قرآن صاف تصریح کرتا ہے کہ آدم و حوا میں سے اصل وہ شخص جس کو شیطان نے وسوسے میں ڈالا آدم علیہ السّلام تھے نہ کہ حواؑ۔ اگرچہ سورۂ اعراف کے بیان کے مطابق مخاطب دونوں ہی تھے اور بہکانے میں دونوں ہی آئے، لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی کا رُخ دراصل آدمؑ ہی کی طرف تھا۔ اس کے برعکس بائیبل کا بیان یہ ہےکہ سانپ نے پہلے عورت سے بات کی اور پھر عورت نے اپنے شوہر کو بہکا کر درخت کا پھل اسے کھلایا (پیدائش ، باب ۳)۔
دراصل بائیبل اور اسرائیلیات کے زیر اثر اس طرح کی غلط باتیں اسلامی روایات میں شامل ہو گئیں۔ یہ اسی نظریہ کی کارفرمائی تھی کہ عورت کے بارے میں آبائے مسیحین جو نظریات رکھتے تھے وہ انتہا پسندی کی بھی انتہا تھے اور ساتھ ہی فطرت انسانی کے خلاف اعلان جنگ بھی۔ انکا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے۔ مرد کیلئے معصیت کی تحریک کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ ہے۔ تمام انسانی مصائب کا آغاز (حوا ؑ کے بہکنے کے سبب سے) اسی سے ہوا۔ اسکا عورت ہونا ہی اس کے شرمناک ہونے کیلئے کافی ہے۔ ترتولیاں جو ابتدائی دور کے ائمہ مسیحیت میں سے تھا، عورت کے متعلق مسیحی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:
وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے وہ شجر ممنوع کی طرف لیجانے والی (حواؑ کیطرف اشارہ ہے) اور خدا کی تصویر، مرد کو غارت کرنے والی ہے۔ (ماخوذ اذ ابو الاعلیٰ مودودی تفہیم القرآن و کتاب پردہ)
دیکھا آپ نے کہ آدم و حوا ؑ کے قصے کے غلط استدلال نے عورت ذات کو کتنی پستی پر پہنچادیا۔ اہلکتاب سے تو شکوہ بیکار ہے، افسوس ہوتا ہے خود کومسلم کہنے والے مفسرین پر کہ انہوں نے نہ صرف یہ من گھڑت قصہ اسرائیلیات سے اخذ کرکے اسلامی روایات کا حصہ بنا دیا بلکہ عورت کو بھی اس ذلیل مرتبے تک کھینچ لائے جہاں اہل کتاب عورت کو پہنچانا چاہتے تھے اور وہ یہ سب کرتے ہوئے بھول گئے کہ انکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو کتنا بلند مقام کیا اور انہی عورتوں کی جنس سے آسیہؑ زوجہ فرعون، مریم ؑ والدہ عیسیٰؑ، امہات المومنین ؓ اور دیگر صحابیات ؓ ہیں۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حوّا کے متعلق اِس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی، قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا ہے وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدروقیمت سمجھ سکتے ہیں۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں