حضرت محمد ﷺ کی وفات کا دن


حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے بیٹھی تھی کہ کسی نے السلام علیکم اہل بیت النبوہ کہہ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے بندے اللہ تعالی تمہیں بیمار پرسی کی جزائے خیر دے آپ ﷺ کو آرام
کرنے دو۔ 

آپ عبادت میں مشغول ہیں۔ آنے والے نے بلند آواز سے کہا: مجھے اندر آنے کی اجازت دیں کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں.. اسی اثناء میں حضور کریم کی غشی کم ہو گئی اور آپ نے آنکھیں کھولیں اور حضرت سیدہ  فاطمۃ الزہرہ سے فرمایا تمہیں پتہ ہے تم کس سے باتیں کر رہی ہو؟
میں نے کہا نہیں... حضور نبی کریم نے فرمایا یہ ملک الموت ہیں انہیں اندر آنے کی اجازت دے دیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام اندر آۓ اور آتے ہی"السلام علیک یارسول اللہ » کہا: آپ ﷺ نے جواب میں وعلیکم السلام یا امین اللہ کہا پھر یوں گویا ہوۓ مجھے اس خداوند جہاں کی قسم ہے جس نےآپ کو پیغمبر بناکر بھیجا ہے۔

اس سے پیشتر میں نے کبھی کسی سے اجازت طلب نہیں کی اور آئندہ بھی کسی سے طلب نہیں کروں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال شریف کے وقت جبرائیل امین حاضر ہوۓ۔اور عرض کرنے لگا: ”یار سول اللہ ﷺ ! آج آسمانوں پر حضور کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ اللہ نے جہنم کے داروغہ مالک کو حکم دیا ہے کہ مالک ! میرے حبیب ﷺ کی روح مطہرہ آسمانوں پر تشریف لارہی ہے۔اس اعزاز میں دوزخ کی آگ بجھادے اور حوران جنت سے فرمایا ہے کہ تم سب اپنی تزئین و آراستگی کرواور سب فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ تعظیم روح مصطفی ﷺ کے لئے صف بصف کھڑے ہو جاؤ ... اور مجھے حکم فرمایا کہ میں جناب کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو بشارت دوں کہ تمام انبیاء اوران کی امتوں پر جنت حرام ہے۔جب تک کہ آپ اور آپ کی امت جنت میں داخل نہ ہو جاۓ اور کل قیامت کو اللہ تعالی آپ کی امت پر آپ کے طفیل اسقدر بخشش و مغفرت کی بارش فرماۓ گےکہ آپ راضی ہو جائیں گے ۔(مدارج النبوة) وفات کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک الموت سے فرمایا: اے ملک الموت ! مجھے اپنے رب کی ملاقات کا شوق ہے۔

اب تم جس کام کے لئے آۓ ہو وہ کام کرو۔ملک الموت نے عرض کیا کہ مجھے حکم ہے کہ اگرحضور ﷺ کی مرضی ہو تب روح مبارک قبض کر نا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روح قبض کرنے کی اجازت فرمائی۔ملک الموت نے روح مبارک قبض کرنا شروع کی۔موت کی تکلیف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ آیا۔ سکرات کی تکلیف شروع ہوئی تو فرمایا: اے اللہ ! موت کی بڑی سخت تکلیف ہے! تو ہی موت کی تکلیف کو آسان کرے گا... مٹی کے پیالے میں پانی بھرا کر رکھوایا۔ موت کی گھبراہٹ میں گھڑی گھڑی پانی میں ہاتھ ڈالتے۔ وہ ہاتھ منہ پر پھیرتے اور فرماتے : اے اللہ مجھے اپنے پاس بلالے۔۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے کہا: یا حضرت! آج آپ کو بہت تکلیف ہے... فرمایا: فاطمہ! آج کے سوا پھر کبھی تیرے باپ پر کچھ کرب اور کوئی تکلیف نہ ہو گی۔اے فاطمہ جب میرا انتقال ہو جاۓ تو تم اناللہ وانا لا الیہ راجعون کہنا اے ملک الموت اپنا کام پورا کر پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نزع کی تکلیف زیادہ ہوئی...

 حضرت جبرائیل نےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا.. حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جبرائیل ! کیا اس وقت میرا منہ تمہیں اچھا معلوم نہیں ہوتا؟جو تم نے منہ پھیر لیا۔ حضرت جبرائیل روۓ اور عرض کیا: یا حضرت محمد کس دل سے آپ کی نزع کی حالت دیکھ سکتاہوں .. پھر حضور ﷺ نے فرمایا: الصلوۃالصلوۃ‘‘اےلوگو! دیکھو نماز کی حفاظت کرنا.. یہ فرماکر پھر یا رب امتی یارب امتی‘‘ کہتے کہتے جان سینہ مبارک تک سمٹ آئی تھی۔ نیچے کے جسم کی جان نکل چکی تھی مگر امت گنہگار کا کلمہ منہ پر جاری تھا۔ حضرت جبرائیل نے عرض کیا: رب العالمین فرماتا ہے کہ امت کی اس قدر محبت آپ کے دل میں کس نے ڈالی ؟ فرمایا: اللہ تعالی نے۔.... عرض کیا: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم آپ ﷺ کی امت پر ایک ہزار درجہ آپ سے زیادہ مہربان ہیں....اے نبی! تم اپنی امت کو میرے سپر د کر کے موت کی تکلیف کو آسان کیجیے۔

 یہ سن کر آپ فرمایا: اب میر ادل ٹھنڈا ہوا۔‘‘اے اللہ اب مجھے بلالے۔بے ہوشی طاری ہوئی اور ماتھے پر مشک کی خوشبو کا پسینہ جاری ہوا۔ یہ رات کا وقت ہے۔سید الکونین اللہ علیہ وسلم نزع کی حالت میں ہیں اور حجرہ مبارک میں دنیا کی قلت کے سبب چراغ میں تیل نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اٹھ کر ہمسایہ کی عورت کے پاس چراغ بھیج کر کہا کہ اللہ کے واسطے دو بوند تیل کی ہمارے چراغ میں ڈال دو کہ جناب رسول خدا اندھیرے میں وفات پارہے ہیں۔ ہاتھ آپ کا آسان کی طرف تھا۔"اللھم بالرفیق الا علی" کا کلمہ زبان پر تھا۔... یک بیک گردن مبارک کا مہرہ ایک طرف کو مائل ہوا..... روح مبارک آسان کی طرف پرواز کر گئی .. ایک خوشبو حجرہ میں پیدا ہوئی.. حضرت فاطمہ نے جان لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہوۓ واپس نہ آئیں گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے ملک الموت کی آواز سنی کہ روح مبارک قبض کر کے چلے تھے روتے جاتے تھے اور "وامحمداہ وامحمداہ کہتے جاتے تھے... بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ روح مبارک پر واز
کر گئی۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر چہرہ مبارک کھولا... دیکھا کہ گویا آپ آرام فرما رہے ہیں... ماتھے پر پسینہ ہے۔ پکارا:اے نبی !رب کا بلاوامنظور کر لیا... اے نبی! ہم کو چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے اے نبی! اگر جبرائیل امین آپ کو تلاش کرتے ہوۓ آئیں گے تو ہم کہیں گے کہ تم کسے تلاش کرتے ہو جنہیں تم دیکھتے ہو وہ اس جہان سے تشریف لے گئے۔اے نبی جنت الفردوس میں ٹھکانہ کر لیا.... جب گھر میں سے رونے کی آواز باہر آئی اور صحابہ کرام نے سنی گھبرا کر بے تاب ہو کر دہلیز مبارک پر سر مارنے لگے۔

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر صحابہ کرام کی عقلیں جاتی رہیں۔حضرت عبد اللہ بن انیس صدمہ سے انتقال کر گئے۔ حضرت عمر بھی دیوانہ ہو گئے دیوانوں کی طرف حجرہ مبارک پر آۓ اور عرض کیا کہ ذرا مجھے حضور ﷺ سے ملا دو ایک نظر حضور کی مجھے دیکھا دو۔ اہل بیت نے عمر کو حجرہ میں بلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹے ہوۓ ہیں... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے چادر سرکا کر دیکھا اور کہا آج ایسی غشی اور بے ہوشی ہوئی۔ کیا وحی اتری ہے۔ آنکھ سے بھی دیکھ لیا۔ مگر دل کو یقین نہ ہوا کہ آپ وفات پاگئے۔ 

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہواتو آپ کے غسل کے متعلق سوال پیدا ہوا کہ آپ ﷺ کو عام آدمیوں کی طرح برہنہ غسل دیا جاۓ یا کپڑے میں.. تمام حاضرین پر خواب کا غلبہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ تمام سینوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر آرام کرنے لگے۔اسی اثناء میں ان کے کانوں میں آواز آئی: رسول خدا صلی اللہ علیہ سلم کو ان کے پیراہن میں ہی غسل دو.حضرت سید نا امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور ﷺ نے وصیت فرمائی کہ میرے غسل کا انتظام تم ہی کرنا کیونکہ میرے ستر  پر تمہارے سوا جس کی بھی نگاہ پڑے گی وہ نابینا ہو جاۓ گا۔ حضرت سید نا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کو غسل دیتے ہوۓ آپ کے بدن مبارک پر کسی قسم کی کوئی میل نہ دیکھی تو بر جستہ ان کی زبان پر آیا: آپ پر میرے ماں باپ قربان ! آپ کی حیات مبارک کیسی پاکیزہ و مطہر ہیں۔حضور کی تدفین کے دن اس قدر تاریکی چھاگئی کہ بعض صحابہ ایک دوسرے کو دیکھنے نہ پاۓ۔ اگر اپنی ہتھیلی کھولتے تو کچھ نظر نہ آتا یہ تاریکی حضور مٹی کی تدفین تک چھائی رہی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو غیب سے آواز آئی: السلام علیکم اهلبیت ورحمۃ اللہ و بر کلیه کل نفس ذائقة الموت وانما توفون اجور کم یوم القیامہ کہتے ہیں 

جب حضور ﷺ کی وفات کی خبر آپ کے مؤذن عبد اللہ بن زید انصاری نے سنی تو اس قدر غم زدہ ہوۓ کہ نابینا ہونے کی دعا مانگنے لگے چونکہ میرے آقا کے بغیر یہ دنیا میرے لئے قابل زیست نہیں رہی. آپ اسی وقت نابینا ہوگئے لوگوں نے کہا: تم نے دعا کیوں مانگی؟ فرمایا: لذت نگاہ تو آنکھوں میں ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب میری آنکھیں کسی کے دیدار کا ذوق ہی نہیں رکھتیں۔ حضرت سید نا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم حضور ﷺ کو دفن کر رہے تھے تو ایک اعرابی آکر حضور ﷺ کی تربت انور پر لیٹ گیا۔ اور کہتا تھا: یارسول اللہ ﷺ آپ نے حکم دیا اور ہم نے سنا. آپ نے قرآن کریم اللہ تعالی - سے سیکھا اور ہم نے آپ کی ذات گرامی سے سیکھا اللہ تعالی نے فرمایا: اگر تم میں لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کریں تو آپ خدمت میں حاضر ہو کر اللہ تعالی سے استغفار کر لیں اور اللہ کار سول ان کی بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو ان کی تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے۔ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوۓ ہیں تاکہ آپ ہماری بخشش طلب کریں۔اسی وقت قبر اطہر سے آواز آئی تم بخشے گئے ہو

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌الله ‌عنہ ‌سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ ارشاد فرمایا: جب انسان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کر رہا ہو تو پانچ نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک، اپنے درمیانی عرصے میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
    (مسلم حدیث 552)

    جواب دیںحذف کریں
  2. الصلاۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہ وعلٰی آلک واصحابک یا سیدی یا حبیب اللہ

    جواب دیںحذف کریں