ایک مچھیرا اور بادشاہ


ایک مچھیرا روز شام کے وقت دریا کے کنارے مچھلی کا شکار کرتا تھا جتنی مقدار میں بھی مچھلیاں جال میں آ جاتی تو وہ خدا کا شکر ادا کرتا اور بازار میں جا کر مچھلی فروخت کر دیتا۔ ایک شام کو جب اس نے دریا میں جال پھینکا تو جال اسے وزنی محسوس ہوا وہ خوش ہوا کہ آج کوئی بڑی مچھلی ہاتھ ہی ہے اس نے جیسے ہی جال باہر نکالا تو اس میں ایک چمڑے کا تھیلا برآمد ہوا۔ اس نے دیکھا کہ چمڑے کا تھیلا سرخ اینٹوں سے بھرا ہوا ہے وہ بہت مایوس ہوا اور دوبارہ اپنا جال دریا میں پھینکا۔ اس دفعہ پھر جال وزنی معلوم ہوا مچھیرے نے دوبارہ جال نکالا تو اس دفعہ بھی ایک چمڑے کا تھیلا نکلا جو کہ سرخ اینٹوں سے بھرا ہوا تھا وہ حیران تھا کہ کوئی تھیلے میں اینٹیں رکھ کر دریا میں کیوں پھینکے گا۔ اس نے اینٹوں کو نکالنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا کہ ان اینٹوں کے درمیان ایک عورت کا کٹا ہوا بازو پڑا ہے اس نے گھبراہٹ کی حالت میں دوسرا تھیلا چیک کیا تو اس میں اینٹوں کے درمیان عورت کی ٹانگ پڑی تھی۔ مچھیرا بہت خوفزدہ ہوا اور سوچنے لگا کہ یہ معاملہ کسی کو بتانا چاہیے یا تھیلا دوبارہ دریا میں پھینک دینا چاہیے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کو اس بات کی خبر ہونی چاہیے وہ اپنا جال اور دونوں تھیلے لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ کو سارا ماجرا بتا دیا بادشاہ دیکھ کر بہت افسوس کرنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ اسے بہت غصہ آیا کہ میری رعایا میں ایسے درندے بھی پائے جاتے ہیں جو عورتوں کو کاٹ کاٹ کر دریا میں پھینک رہے ہیں۔ سب سے پہلے بادشاہ نے قاتل کو پکڑنے کا منصوبہ بنایا بادشاہ نے ایک ماہر آدمی کو کہا کہ کٹے بازو اور ٹانگ سے اندازہ لگاؤ کہ عورت کو قتل ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں۔ ماہر آدمی نے بازوؤں اور ٹانگوں کو دیکھنے کے بعد بتایا کہ عورت کو مرے ہوئے دو دن ہی ہوئے ہیں بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا اس چمڑے کے تھیلے کو شہر میں لے جاؤ اور دریافت کرو گے ایسے تھیلے کس دکان پر فروخت ہوتے ہیں۔ وزیر شہر گیا اور تھیلا دیکھ کر ایک بزرگ نے کہا کہ تھیلے کا مجھے پتہ نہیں مگر یہ ایک خاص قسم کا چمڑا ہے جو شہر کا فلاں موچی تیار کرتا ہے ۔وزیر موچی کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ یہ تھیلا میرے ہی ہاتھوں سے بنا ہوا ہے۔ وزیر نے موچی سے کہا کہ تم نے پچھلے دو یا تین دن میں چمڑے کا تھیلا کس کو فروخت کیا تھا۔موچی نے کہ فلاں تاجر مجھ سے چمڑا لے گیا تھا۔ وزیر تاجر کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ میں کشتی میں سوار ہوکر چمڑا بیچنے دوسرے شہر جا رہا تھا تو کشتی ملاح نے کہا کہ مجھے پانی بھرنے کے لیے ایک مشق کی ضرورت ہے تو میں نے اسے وہ چمڑا دے دیا۔ ملاح نے کہا کہ اب میں آپ سے کبھی کشتی میں سفر کرنے کی کبھی اجرت نہیں لوں گا۔ تاجر اس ملا کو پہچانتا تھا تاہم شہر کے سارے ملاح تاجر کے سامنے کھڑے کئے گئے تو تاجر نے اس ملاح کی نشاندہی کردی۔
ملاح تھیلے کو دیکھتے ہیں خوف سے کانپنے لگا۔ملاح کو گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ ملاح اس راز کو چھپا نہ سکا اور اقرار کیا کہ یہ قتل میں نے ہی کیا تھا۔ بادشاہ نے ملاح سے اس درندگی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ مجھے ایک گانا گانے والی عورت پسند آگئی جو محفلوں میں جاکر اپنی آواز کا جادو جگاتی تھی۔ وہ ایک رئیس کی لونڈی تھی۔رائیس اسے محفلوں میں لے جاتا تھا وہ گانا گاتی تو لوگ شراب کے نشے میں اس کے قریب جاتے اور اس کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر رائیس کسی کو منع نہیں کرتا اور نہ ہی غصہ کرتا۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوا میں نے رائیس سے اس لڑکی کا ہاتھ مانگا اس نے کہا کہ تیری اوقات نہیں کہ تو یہ لونڈی خریدے۔
میں نے کہا تجھے منہ مانگی قیمت دونگا رائیس بہت لالچی تھا اس نے جو لونڈی کی قیمت بتائی وہ بہت زیادہ تھی مگر میں نے پھر بھی ہاں کردی۔ میں نے اپنی پانچ کشتیاں بیچ دی اور کچھ دینار جمع کئے ہوئے تھے۔ اپنا سب کچھ دے کر میں نے لونڈی خرید لی۔ اسے اپنے گھر لے آیا اور اس سے شادی کرلی، شادی کی پہلی رات میں نے اس سے کہا کہ میں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے تجھے حاصل کیا ہے اب کوئی تجھے چھونے کی جرات نہیں کر پائے گا وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے محنت مزدوری کرکے ایک نئی کشتی خرید لی اور اپنی بیوی کو ہر لحاظ سے خوش رکھا۔ خود کھانا تیار کرکے اسے اپنے ہاتھ سے کھلاتا اور اسے ہر قسم کی آسائش میسر کرنے کی کوشش کرتا۔ سردیوں کی ایک رات میں نیند سے بیدار ہوا تو وہ اپنے کمرے میں موجود نہیں تھی مجھے بہت فکر ہوئی وہ پورے گھر میں موجود نہیں تھی۔آس پاس کے گھروں سے بھی کوئی خبر نہ ملی تو میں ڈر گیا۔ ساری رات میں اسے تلاش کرتا رہا مگر وہ مجھے کہیں نہ ملیں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں چلی گئیں میری طرح اس کا بھی کوئی اپنا نہیں تھا۔
ایک مہینہ گزر گیا لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا ایک دفعہ میری کشتی میں کچھ لوگ سوار ہوئے اور آپس میں کہہ رہے تھے کہ لونڈی نے کیا کمال کی آواز پائی ہے مجھے تو اس کی آواز نے مدہوش کر دیا تھا اور میں نے بے قابو ہو کر اسے گلے سے لگا لیا دوسرے مسافر نے کہا تجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا رائیس کو غصہ آسکتا تھا پہلے نے کہا جب لڑکی کو خود کوئی اعتراض نہیں تو رائیس کو غصہ کیوں آتا۔ میں رائیس کے پاس روانہ ہوا تو دیکھا کہ میری بیوی رائیس کے ساتھ بدکاری میں مصروف تھی میں وہاں سے واپس آگیا اور دریا کے کنارے ایک موقع کی تلاش میں بیٹھ گیا۔کئی دنوں بعد رائیس میری بیوی کے ساتھ وہاں سے گزرا تو دو میں نے چھپ کر رائیس کے سر پر وار کر دیا، اور رائیس بے ہوش ہوگیا۔ میں نے اپنی بیوی کو پکڑا اور ایک سنسان جنگل میں لے آیا۔
میں نے اسے قتل کیا اور پھر اس کے جسم کے ٹکڑے کر ڈالے اور چمڑے کے تھیلوں میں اس کے جسم کے مختلف حصوں کو ڈال کر اوپر سے اینٹیں ڈال کر پانی میں پھینک دیا تاکہ وہ ہمیشہ پانی کی تہہ میں رہے۔ بادشاہ نے کہا بے شک تیری بیوی نے تیرے ساتھ دغا کیا مگر تم نے ایک غیر انسانی سلوک کیا ہے جس کی تجھے ضرور سزا ملے گی بادشاہ نے اسے سولی پر لٹکا دیا اور دس دن تک اس کی لاش دربار کے مرکزی دروازے پر لٹکائے رکھیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔ کیوں کہ قریش کے لوگوں نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنے پتھر برسائے کہ آپ کے جوتے مبارک خون سے بھر گئے تھے تو جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ اجازت دیں تو میں ان پر یہ دو پہاڑ گرا دو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جبرائیل یہ لوگ مجھے نہیں جانتے اللہ تعالی ان کو ہدایت دے گا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے غصے پر قابو رکھیں۔ کیونکہ بعض دفعہ غصے میں انسان بہت ہی غلط فیصلے کر جاتا ہے جس کا بعد میں پچھتاوا رہتا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں