مولانا رومی کو سننے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ ایک دن ایک طوائف بھی انہیں سننے کے لیے مسجد پہنچ گئی۔ طوائف نے اس مقصد کے لیے اپنا حلیہ بدل لیا تھا، رومی کی گفتگو سننے کے دوران اس کے ایک پرانے گاہک نے اسے پہچان لیا، اس پر ایک شور مچ گیا کہ ایک طوائف مسجد میں موجود ہے۔ لوگوں نے اسے وہاں سے نکالا اور باہر لے آئے۔ ہجوم میں غصہ بڑھ رہا تھا طوائف کو لگا اب اسے وہیں کھڑے کھڑے سنگسار کر دیا جائے گا۔
اسی اثناء میں ایک درویش اس ہجوم کے قریب پہنچا اور چیخ کر بولا رک جاؤ! ہجوم ساکت ہو گیا۔" تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے تیس لوگ ایک کمزور عورت پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے۔ درویش بولا " ۔
مجمع میں سے کوئی بولا "یہ طوائف یہاں ایک مرد کے لباس میں آئی تا کہ ہم اچھے مسلمانوں کو دھوکہ دے سکے " ۔
تم لوگ مجھے یہ بتا رہے ہو کہ اس عورت کو اس لیے مارنا چاہتے ہو کہ یہ مسجد کیوں آئی تھی ؟ کیا یہ جرم ہے ؟" درویش کے لہجے میں اب طنز نمایاں تھا ۔
یہ طوائف ہے ، ہجوم میں سے کوئی چلایا ! مسجد میں اس کی کوئی جگہ نہیں ۔
ہجوم طوائف طوائف کے نعرے لگانا شروع ہو گیا ، ایک نے کہا آؤ طوائف کو مارتے ہیں ۔ لگتا تھا اس ایک فقرے نے درویش کے جلال کو مزید تیز کر دیا !
رک جاؤ ۔ یہ کہہ کر اس درویش نے طوائف کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی جانب کھینچ لیا ۔ طوائف درویش کے پیچھے چھپ گئی جیسے ایک چھوٹی سی بچی خطرہ دیکھ کر اپنی ماں کے پیچھ چھپ گئی ہو ۔ ہجوم کے سربراہ نے درویش سے کہا تم اس علاقے میں اجنبی ہو تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو تمہیں ہمارا پتہ نہیں ہے تم اس سے دور رہو ۔ کیا تمہارے پاس ایک طوائف کا دفاع کرنے سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے ؟
درویش ایک لمحے کے لیے خاموش رہا جیسے وہ اس سوال پر غور کر رہا ہو اس نے غصے کا اظہار نہیں کیا اور پر سکون رہا ۔ پھر کہا : " پہلے تم لوگ یہ بتاؤ کہ تم لوگ مسجد میں عبادت کے لیے جاتے ہو یا اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھنے؟ کیا مسجد میں خدا سے زیادہ اہم وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں تم تکتے رہتے ہو ؟ اگر تم لوگ خدا کی عبادت کرنے گئے تھے تو یہ عورت تم کو وہاں نظر ہی نہیں آنی چاہیے تھی ، حلیہ بدلنا تو دور کی بات ہے اگر اس نے کپڑے تک نا پہنے ہوتے تو پھر بھی وہ تم لوگوں کو نظر نہیں آنی چاہیے تھی۔ جاؤ لوٹ جاؤ اور رومی کا وعظ سنو اس کمزور عورت کو مارنے سے وہ کام زیادہ بہتر ہے ۔
دھیرے دھیرے ہجوم چھٹ گیا۔
طوائف کے ہوش ٹھکانے آئے تو وہ بولی '' اے درویش‘ میں آپ کا کیسے شکریہ ادا کروں‘‘۔ درویش بولا: تمہیں میرا کوئی شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے شکرگزار نہیں ہیں ۔
طوائف نے نام پوچھا تو وہ درویش شمس تبریز نکلا درویش بولا کچھ لوگ اچھی زندگی شروع کرتے ہیں لیکن کچھ اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں تم بھی انہی لوگوں میں سے لگتی ہو جو اپنا رنگ کھو بیٹھے ہیں۔ کیا تم دوبارہ اپنی اصلی ذات کے ساتھ جڑنا نہیں چاہو گی؟ تمہارا رنگ اس لیے بگڑ گیا ہے کیونکہ ان تمام برسوں میں تم نے اپنے آپ کو یہ یقین دلایا ہے کہ تم اندر اور باہر سے آلودہ ہو چکی ہو۔ طوائف بولی: میں واقعی اچھی نہیں ہوں۔ مجھے علم نہیں، میں کیسے کچھ کما کر اپنی زندگی گزاروں۔ درویش بولا: میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک دن ایک طوائف نے گلی میں ایک کتے کو پیاسا دیکھا۔ کتا سورج کی تیز دھوپ میں بے بس لیٹا تھا اور سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ اس طوائف نے اپنا جوتا اتارا اور اس میں ایک قریبی کنویں سے پانی بھر کر لائی، کتے کو پلایا اور چلی گئی۔ اگلے دن طوائف کی ایک صوفی سے ملاقات ہو گئی، جونہی اس صوفی نے اسے دیکھا تو اس نے آگے بڑھ کر اس طوائف کے ہاتھ چومے۔ طوائف کو ایک دھچکا لگا۔ صوفی بولا؛ تم نے جو ہمدردی کتے کے ساتھ دکھائی تھی وہ خدا کو اتنی پسند آئی کہ تمہارے سارے گناہ بخش دیے گیے ہیں۔ یہ واقعہ سن کر طوائف بولی: اگر میں پورے شہر کے پیاسے کتوں کو پانی پلاؤں تو بھی میرے گناہ معاف نہیں ہونگے۔ شمس بولا: تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟ یہ تو صرف خدا کو پتہ ہے۔ کون نیک اور کون گنہگار ہے۔ اور تم کیسے کہہ سکتی ہو جنہوں نے تمہیں آج مسجد سے دھکے دے کر نکالا ہے وہ خدا کے بہت قریبی ہیں اور تم خدا سے دور ہو۔
طوائف بولی: ان مردوں کو یہ بات کون بتائے گا؟ درویش بولا: بات تم انہیں بتاؤ گی۔ وہ بولی: آپ کا خیال ہے وہ میری بات سنیں گے؟ وہ لوگ تو مجھ سے نفرت کرتے ہیں. درویش بولا: اگر تم چاہتی ہو کہ دوسرے تمہارے ساتھ مختلف انداز میں سلوک کریں تو پھر سب سے پہلے تمہیں اپنے سلوک کو تبدیل کرنا پڑے گا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں کہ تم اپنے آپ سے محبت کر سکوں۔کچھ عرصے بعد وہ بھاگ کر رومی کے گھر چلی گئی جہاں شمس تبریز ٹھہرے ہوئے تھے۔رومی کا خاندان پریشان ہوگیا سب کو رومی کی ساکھ کی فکر ہوگی کہ لوگ کیا کہیں گےکہ ایک طوائف ان سے ملنے آئی ہے۔ رومی شمس تبریز سے واپس لوٹے تو انہیں اس مہمان کے بارے میں بتایا گیا۔ رومی کو ایک دھچکا لگا اور بولے: تم یہ کہہ رہے ہو ایک طوائف ہم سے ملنے آئی ہے؟ ایک طوائف ہمارے گھر کے صحن میں موجود ہے؟ کوئی بولا: جی وہ کہتی ہے اس نے گناہ کی زندگی ترک کر دی ہے وہ طوائف خانے سے بھاگ آئی ہے تاکہ خدا کو تلاش کر سکے۔شمس تبریز بولے: یہ یقینا وہی طوائف ہوگی۔ اس کی آواز میں خوشی واضح تھی۔گھر کے کسی فرد نے کہا: لوگ کیا کہیں گے ہمارے گھر کی چھت کے نیچے ایک طوائف آئی ہوئی ہے. شمس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا کیا ہم سب ایک چھت کے نیچے نہیں رہے. بادشاہ, ملکہ,کنواری ہو یا طوائف سب ایک آسمان کے نیچے ہی تو رہتے ہیں۔ ایک بار حضرت شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا کسی طوائف کا جنازہ پڑھایا جا سکتا ہے؟ تو حضرت کا جواب نہایت فکر انگیز تھا فرمایا: اگر طوائف کے پہلو میں پڑے رہنے والے کا پڑھا جا سکتا ہے تو طوائف بیچاری کا کیا قصور ہے کہ اس کا جنازہ نہ پڑھا جاسکے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیک راہ پر چلنے کی توفیق دے آمین یا رب العالمین
0 تبصرے