حضرت سفیان ثوری اور موت کا فرشتہ


حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس وقت ملک الموت دل کی رگ چھوتے ہیں اس وقت آدمی کا لوگوں کو پہچاننا موقوف ہو جاتا ہے زبان بند ہو جاتی ہے اور انسان دنیا کی سب چیزوں کو بھول جاتا ہے اگر اس وقت آدمی پر موت کا نشہ سوار نہ ہو تو تکلیف کی شدت سے پاس والوں پر تلوار چلانے لگے  کچھ روایت میں آتا ہے کہ جس وقت سانس حلق میں ہوتا ہے اس وقت شیطان اس کو گمراہ کرنے کی انتہائی کوشش کرتا ہے ایک روایت میں آتا ہے کہ مالک الموت نمازوں کے اوقات میں آدمیوں کی جستجو کرتے ہیں اور خبر رکھتے ہیں اگر کسی شخص کو نماز کے اوقات کا اہتمام رکھنے والا پاتے ہیں تو مرتے وقت اس کو خود ہی کلمہ طیبہ کی تلقین کرتے ہیں اور شیطان کو اس کے پاس سے ہٹا دیتے ہیں مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مرنے کے قریب ہوتا ہے اس وقت اس کی ہم مجلسوں کی صورتیں اس کے سامنے کی جاتی ہیں۔ اگر اس کا اٹھنا بیٹھنا نیک لوگوں کے پاس ہوتا ہے تو یہ مجمع سامنے لایا جاتا ہے اور فاسق و فاجر لوگوں کے پاس ہوتا ہے تو وہ لوگ سامنے لائے جاتے ہیں۔ حضرت یزید بن شجرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہی بات نقل کی گئی ہے۔ربیع ایک عبادت گزار آدمی بصرہ میں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص مرنے لگا لوگ اس کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کر رہے تھے اور اس کی زبان سے نکل رہا تھا شراب کا گلاس تم بھی پی مجھے بھی پلا ، تو بھی پی مجھے بھی پلا۔ اسی طرح اہواز میں اس شخص کا انتقال ہو رہا تھا تو لوگ اس کو لا الہ الا اللہ کہتے تھے اور وہ کہہ رہا تھا دس دس روپے.. اس کے بالمقابل جن لوگوں نے مرنے کی تیاری کر رکھی تھی۔ وہ دنیا میں موت کو یاد رکھتے تھے اس کے لیے کچھ کارنامے کر رکھے تھے ان کی موت ایسی ہی تھی جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کا تحفہ بتایا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا ان کی بیوی کہہ رہی تھی: ہائے افسوس! تم جا رہے ہو اور وہ کہہ رہے تھے کہ کیسے مزے کی بات ہے کیسے لطف کی بات ہے کل کو دوستوں سے ملیں گے. حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملیں گے ان کے ساتھیوں سے ملیں گے. حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کا جب انتقال کا وقت قریب تھا تو فرمایا اللہ تجھے معلوم ہے کہ میں دنیا میں زیادہ دن رہنا چاہتا تھا مگر نہ اس وجہ سے کہ مجھے دنیا سے محبت تھی نا اس وجہ سے کہ یہاں نہریں اور باغ گاؤں ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ میں گرمیوں کی دوپہر میں روزے کا لطف اٹھاؤ اور دین کے لئے مشقت میں اوقات گزاروں اور نیک لوگوں کے حلقوں میں شریک ہوا کروں۔ حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کا جب انتقال ہونے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے کہا کہ رونے کی کیا بات ہے تم جا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملو گے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال اس حال میں ہوا کہ تم سے راضی تھے۔فرمانے لگے.. میں نہ موت کے ڈر سے رو رہا ہوں اور نہ دنیا کو چھوڑنے سے۔ بلکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے ایک عہد لیا تھا کہ دنیا سے انتفاع ہمارا صرف اتنا ہوں جتنا مسافر کا توشہ میں اس عہد کو پورا نہ کر سکا لیکن جب ان کے گھر کا سامان دیکھا گیا تو دس درہم سے کچھ زیادہ تھا یہ تھی وہ کل کائنات جس کی زیادتی پر رو رہے تھے اس کے بعد انہوں نے تھوڑا سا مشک منگوایا اور بیوی سے فرمایا کہ اس کو بستر پر پھینک دو میرے پاس ایسی جماعت آرہی ہے جو انسان ہیں نہ جن ہیں اللہ تعالی ہمیں بھی ایسی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے جب ہم اس دنیا کو چھوڑ رہے ہوں ہمیں کسی بھی قسم کا رنج و ملال نہ ہو بلکہ اپنے رب سے ملاقات کا شوق ہو۔۔۔ آمین یا رب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے