قبرستان ۔ دوسرا اور آخری حصہ

 

قبرستان
تحریر: ڈاکٹر عبدالرب بھٹی
ٹائپنگ: جیا نشاط
دوسرا اور آخری حصہ
یہ اسی دن کی خاموش اور اجاڑ پر اسرار شام کا ذکر تھا۔ رمو اور انجنا. آپس میں میٹھی میٹھی باتوں میں مشغول تھے۔ انجنا اب اسے پوری طرح عالی شاہ کے قتل پر آمادہ کر چکی تھی۔ اثنائے راہ انجنا ذرا چونکی۔ اس کے چہرے پر اب عجیب سی بے چینی اور گھبراہٹ کے تاثرات عود کر آۓ۔ پھر وہ سرسراتے لہجے میں رمو سے بولی
رمو.! کوئی اس طرف آ رہا ہے. شاید وہی جادوگر ہے۔ یہ کہتے ہوۓ وہ جھونپڑی سے باہر آ گئی اور رموبھی باہر نکل آیا۔ سامنے عالی شاہ موجود تھا جو قہر آلود نظروں سے انجنا کو گھورے جا رہا تھا۔ پھر مکار انجنا نے دھیرے سے پاس کھڑے رمو سے سرگوشی کی۔ رمو.! ہوشیار ہو جاؤ ۔“
یہ سننے کی دیر تھی کہ رمو غصے سے پھنکتا ہوا جھونپڑی کے اندر آیا اور اس نے اپنی کدال اٹھالی۔ ادھر اچانک اسے باہر انجنا کے گڑگڑانے کی آواز آئی ۔ وہ شاید عالی شاہ سے مخاطب تھی۔
”میرا پیچھا چھوڑ دو... خدا کے لئے میں اب رمو کے ساتھ پرسکون زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں۔ رمو، انجنا کی گریہ زاری پر کڑھنے لگا اور ساتھ ہی اس کا غصہ بھی سوا ہونے لگا۔ اس وقت اسے باہر سے جادوگر کی قہر آلود آواز سنائی دی۔ وہ انجنا سے کہہ رہا
اپنی گندی زبان پر خدا کا نام مت لا تو ایک شیطانی روح ہے اور جہنم تیرا مقدر ہے۔“
تب رمو نے بنا سوچے سمجھے اپنی کدال اٹھائی اور آن کی آن میں وہ عالی شاہ کے سر پر پہنچ گیا۔ پھر اس سے پہلے کہ عالی شاہ کچھ سمجھتا... رمو نے دونوں ہاتھوں سے کدال تھام کر عالی شاہ کے سر پر دے ماری. کدال کے وار سے عالی شاہ کی کھوپڑی چٹخ گئی اور وہ جب تیورا کر زمین پر گرا تو بے اختیار اس کے لبوں سے’اللہ‘ نکلا۔ وہ مر چکا تھا۔ رمو عالی شاہ کی زبان سے ’اللہ‘‘ سن کر بری طرح لرز گیا۔ اس کا غصہ اب ہوا ہو چکا تھا۔ کدال اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور اس پر ہیبت ناک کپکپاہٹ طاری ہو گئی۔ مگر اس کے عقب میں کھڑی انجنا کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوگئی تھی ۔
بابا عالی شاہ کدال کے ایک ہی وار سے مر چکا تھا۔ رمو کے ہاتھ سے کدال چھوٹ کر گر چکی تھی ۔ وہ سر تا پا لرزہ براندام تھا۔ اس کی نظریں بابا عالی شاہ کے چہرے پر جیسے جم کر رہ گئی تھیں۔ بابا عالی شاہ کے لبوں سے برآمد ہونے والے آخری لفظ ’’اللہ‘ نے رموکو اندر سے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
پاس کھڑی مکار انجنا نے بھی یہ لفظ سن لیا تھا۔ اس نے شاطر نظروں سے رمو کے چہرے کی طرف دیکھا۔ گویا اس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہو۔ اسے رمو کے خاموش چہرے پر الجھن آمیز تاثرات نظر آۓ ۔ پچھتاوے کی جھلک بھی اس کی پھٹی پھٹی آنکھوں میں کروٹیں لے رہی تھی۔ ایسے میں فوراً انجنا نے رمو کو مزید کسی سوچ میں مبتلا نہ ہونے دیا اور بولی۔ ’’رمو! تمہیں کیا ہو گیا ہے۔...جلدی کرو... اس جادوگر کی لاش کو قبر کھود کر یہیں دفنا رو“
رمو انجنا کی بات سن کر چونکا پھر الجھن آمیز پریشانی سے بولا۔ پروین. تم تو کہتی تھیں کہ یہ بڈھا کوئی جادوگر تھا مگر مرنے سے پہلے اس نے ’’اللہ‘ کا نام کیوں لیا تھا؟“
یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے انجنا کو یک دم پریشان کر ڈالا تھا۔ تاہم وہ رمو کی جانب نشیلی نگاہوں سے دیکھتے ہوۓ معصوم لہجے میں بولی۔ رمو. تم واقعی سیدھے سادے انسان ہو۔ یہ بھی اس جادوگر کی ایک چال تھی۔ تمہارا ذہن بھٹکانے اور... مجھ سے بد دل کر نے کی ... تم بھول گئے، مجھے بھی ایک ایسے ہی شیطان نے دھوکے سے لوٹا تھا۔۔۔۔۔۔ اور جب مجھے اس کی اصلیت کا پتہ چلا تو اس نے اس جادوگر کی مدد سے مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔“ انجنا نے اتنا کہا پھر اپنے حسن کے جال کا گھیرا رمو کے گرد مزید تنگ کر دیا۔ اس کے نرم و گداز مہکتے دمکتے قرب نے رمو کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو ناکارہ بنا ڈالا۔ انجنا اپنے لہجے میں دنیا جہان کی شیرینی سمیٹتے ہوۓ دوبارہ بولی۔ . رمو. اگرتمہیں میری بات کا یقین نہیں تو...ابھی میرے ساتھ چلو، میں تمہیں اس بد بخت سندر داس کے گھر لئے چلتی ہوں. تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا. مجھے دیکھ کر اس کی حالت کیا ہوتی ہے۔“ انجنا کی بات سن کر ایکا ایکی رمو کو احساس ہوا کہ اس نے یہ بات کہہ کر شاید پروین کا دل دکھایا تھا اور اس پر شبہ کیا تھا۔ لہذا وہ پروین کا دل رکھتے ہوۓ ملائمت سے بولا۔
نہیں پروین ایسا نہیں ہے۔ مجھے تم پر تمہاری محبت پر پورا یقین ہے۔ اب تم جو کہو گی میں وہی کروں گا ۔“
انجنا کی آنکھیں اس بات پر یکدم چمک اٹھیں۔
’’بدھائی ہو۔۔۔ بدھائی ہوانجنا تمہاری راہ کا سب سے بڑا کانٹا بھی نکل گیا۔ اب تم اپنے دشمنوں سے جی کھول کر انتقام لے سکتی ہو۔“ ممبا پجاری نے مسرت بھرے لہجے میں انجنا سے کہا اور جوابا انجنا کے دلکش ہونٹوں پر سفاک مسکراہٹ رقصاں ہوگئی۔
اس وقت رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ ہر طرف سناٹا طاری تھا. جھونپڑی کے ایک کونے میں چار پائی پر پڑا رموخراٹے لے رہا تھا اور انجنا دروازے کے پاس ممبا پجاری کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ بولی۔
ہاں ممبا. اب سندر داس اور اس کی چہیتی شکنتلا میرے انتقام سے نہیں بچ سکتے ۔ میں تو سب سے پہلے ان کے بچے راجو کا کلیجہ کھاؤں گی ان دونوں کی نظروں کے سامنے. پھر میں انہیں سسکا سسکا کر ماروں گی۔“ یہ کہتے ہوۓ انجنا کا حسین چہرہ بھیانک ہوتا چلا گیا اور اس کی باچھوں سے دو نوکیلے لمبے لمبے دانت نظر آنے لگے۔
ممبا۔پچاری بھی اس کی بدلتی شکل دیکھ کر مکروہ انداز میں ہنسنے لگا پھر بولا ۔
اچھا اب تم... اس احمق رمو سے بھی جان چھٹرا لو۔ اس سے ہم نے جو کام لینا تھا وہ لے لیا. اب اس کا کانٹاصاف کرو ۔“
نہیں ممبا..! ابھی مجھے اس سے اور کام بھی لینا ہے۔ شہر جانے کے لئے مجھے ابھی اس کے سہارے کی ضرورت ہے۔‘‘ انجنا نے کہا اور پھر ذرا دیر بعد ممبا پجاری اثبات میں اپنا سر ہلا تا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
رمو کے اطراف میں گہری دھندی چھائی ہوئی تھی۔ اسے اپنا وجود دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پھر معا اسے دھند میں ایک نورانی چہرہ نظر آیا جسے دیکھ کر وہ کانپ گیا۔ یہ نورانی چہرہ بابا عالی شاہ کا تھا۔ ان کی دودھیا گھنی بھنوؤں سے ڈھکی ہوئی آنکھیں بند تھیں اور با ریش چہرے پر بلا کا سکون چھایا ہوا تھا۔ پھر ان کے ہونٹ متحرک ہوئے۔۔۔۔۔۔ وہ رمو سے مخاطب تھے۔ بیٹے. میں نے تمہیں اپنا خون معاف کیا اور اللہ تعالی بھی تجھ پر رحم فرماۓ ۔“ بابا عالی شاہ کے الفاظ پر رمو کے دل میں اب خوف کی بجاۓ ایک درد سا سمٹ آیا۔ پچھتاوے کا درد پھر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو امڈ آۓ۔ یہ احساس ندامت کے آنسو تھے۔ جب وہ بولا تو اس کی آواز میں واضح طور پر ارتعاش تھا۔ .! مجھے معاف کر دیا. میں تمہارا مجرم. تمہارا قاتل ہوں۔ میں نے ایک عورت کی خاطر بے گناہ آپ کی جان لے لی۔
”میری بات غور سے سنو... دفعتہ بابا عالی شاہ نے رمو کی بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔’’اب بھی وقت ہے... ہوشیار ہو جاؤ۔ وہ چالاک عورت درحقیقت ایک دھتکاری ہوئی گندی بدروح ہے ۔ وہ ایک منتقم مزاج روح ہے۔ تمہیں بڑی چالا کی کے ساتھ اس کا خاتمہ کرنا ہوگا. ورنہ تمہاری زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وہ تمہارے ساتھ مل کر سب سے پہلے سندر داس، اس کی بیوی شکنتلا اور اس کے چھوٹے بچے کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے گی ۔ مگر اس کے انتقام کی آگ پھر بھی سرد نہ ہو گی اور پھر وہ ہر نئے نویلے شادی شدہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو اپنے نہ ختم ہونے والے انتقام کا نشانہ بناتی رہے گی۔ مگر تم ایسا نہیں ہونے دینا۔ اس نیک کام میں تمہاری بخشش ہے
بابا عالی شاہ اتنا کہہ کر خاموش ہوۓ تو رمو جوشیلے لہجے میں بولا۔ میں ایسا ہی کروں گا۔ اس بد ذات عورت کوختم کر کے ہی رہوں گا۔لیکن ا. کیا آپ مجھے یہ بتاؤ گے کہ پروین ایسا کیوں چاہ رہی ہے۔ وہ آخر ہے کون؟ وہ اپنا انتقام لینے کے لئے کیوں بے چین ہے؟‘‘ رمو کے استفسار پر بابا پر جلال لہجے میں بولے۔
’’ہاں.تمہیں یہ بتانا بھی ضروری ہے تا کہ تم اس کی اصل حقیقت جان او... لیکن سب سے پہلے یہ بات جان لو کہ اس بد ذات عورت کا نام پروین نہیں ... انجنا ہے ۔ وہ سندر داس کی بیوی تھی۔ پھر اس کی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں بنی . اس میں بھی زیادہ قصور خود انجنا کا ہی تھا۔ وہ ایک آزاد خیال لڑ کی تھی جبکہ سندر داس ایک شریف آدمی تھا۔ بعد میں اس نے انجنا کے کرتوتوں سے تنگ آ کر اسے طلاق دے دی اور شکنتلا سے دوسری شادی کر لی۔ انجنا غم و غصے سے پاگل ہوگئی۔ پھر نجانے کس طرح اس نے ممبا پچاری سے راہ و رسم استوار کئے ۔ ممبا پجاری ایک شیطان شخص ہے اور کئی پراسرار قوتوں کا مالک ہے۔ اس نے انجنا کو آتما شکتی دلانے کا وعدہ کرتے ہوۓ اسے نصیحت کی کہ آتما شکتی حاصل کرنے سے پہلے ایک کڑی شرط پوری کرنا ہوگی. یعنی انجنا کواپنی زندگی کا خود اپنے ہاتھوں خاتمہ کرنا پڑے گا. تا کہ دوبارہ وہ ایک نیا جنم لے سکے لیکن اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ مرنے کے بعد اس کا شریر صیح سلامت رہے. جس کے لئے یہ ضروری تھا کہ۔۔۔ وہ پہلے کسی مسلمان شخص کی بیوی بن جاۓ تا کہ جب انجنا اپنی زندگی کا خاتمہ کرے تو اسے قبر نصیب ہو سکے۔ بہ صورت دیگر اس کی لاش کو جلتی ہوئی چتا پر رکھ دیا جاۓ گا۔ یوں آتما شکتی کی شرط پوری نہیں ہو سکے گی اور تا عمر آتما شکتی حاصل نہیں کر سکے گی. لہذا انجنا نے ممبا پیچاری کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ایک مسلمان شخص سے شادی رچا لی اور اپنا نام بھی انجنا سے بدل کر پروین رکھ لیا. پس شادی کے بعد انجنا نے ممبا پچاری کے کہنے کے مطابق اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ پھر ممبا پچاری نے انجنا کے مردہ شریر پر عمل کیا مگر میں اس کی راہ میں آ گیا۔ مگر تمہاری نادانی کی وجہ سے انجنا ووبارہ زندہ ہو گئی۔ جس کی سزا تمہارے بابو نے بھی بھگت لی اور بعد میں انجنا نے بڑی چالاکی سے تمہیں بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور میرا بھی خاتمہ کر ڈالا ۔ مگر اب تم ہوشیار رہنا. انجنا اب کسی بھی وقت تمہیں بھی ہلاک کر سکتی ہے۔ بابا عالی شاہ نے اتنا کہا اور خاموش ہو گئے۔ رمو یہ ساری کتھا سن کر بڑا حیران و پریشان ہوا۔ تب وہ بولا۔ بابا.! میں اب انجنا کا کس طرح مقابلہ کروں گا۔ کیونکہ وہ تو اب ایک شیطانی روح کا روپ دھار چکی ہے۔“
رمو کی بات سن کر بابا عالی شاہ نے کہا۔’’اس کے لئے اب تمہیں بھی ذرا ہوشیاری اور چالا کی سے کام لینا ہو گا ۔ تم ایسا کرنا قبرستان کے باہر میری کٹیا ہے.تمہیں وہاں ایک تعویذ ملے گا. تم سب سے پہلے اسے اپنے دائیں بازو پر باندھ لینا. اس کے بعد کسی طرح سندر داس کے ہاں جاتا اور اسے انجنا سے خبر دار کرنے کی کوشش کرتا. پھر اس قبرستان کے باہر کہیں ایک گڑھا کھودنا اور انجنا کو اس کے اندر دھکیل کر اسے آگ لگا دینا۔ اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے جل کر بھسم ہو جاۓ گی ۔‘‘ اس کے بعد بابا عالی شاہ کا چہرہ غائب ہو گیا۔
رمو نے ہڑ بڑا کر اپنی آنکھیں کھولیں تو اس وقت صبح ہو چکی تھی۔ چند لمحے تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ مگر پھر ذہن پر ذرا زور دینے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ اس نے کوئی خواب دیکھا تھا اور بابا عالی شاہ سے وہ ہم کلام ہوا تھا۔
پہلے تو اسے اپنے خواب پر یقین نہ آیا مگر پھر دھیرے دھیرے اسے یقین واثق ہونے لگا کہ اس کا خواب بالکل سچا تھا۔ تب اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ عالی شاہ بابا کی نصیحت پر ضرور عمل کرے گا۔ اسے اب اپنے کئے پر پچھتاوا ہونے لگا تھا کہ اس نے بے گناہ بابا عالی شاہ کو موت کے گھاٹ اتارا لیکن اب وہ اپنے اس بھیانک جرم کا ازالہ انجنا کو ہلاک کرنے کی صورت میں کرنا چاہتا تھا۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو انجنا اس کے قریب ہی موجودتھی۔ رمو نے اس پر ذرا بھی شک نہ ہونے دیا اور اس کے ساتھ اس طرح پیش آتا رہا جیسے وہ اس کا دیوانہ ہو۔ اس کے بعد رمو. چالا کی کے ساتھ قبرستان سے باہر نکل آیا اور اکیلا بابا عالی شاہ کی بتائی ہوئی کٹیا کی طرف چل دیا۔ کٹیا پہنچ کر اس نے وہ تعویذ ڈھونڈا اور اسے فورا اپنے دائیں باز و پر باندھ کر اوپر قمیص پہن لی۔ اب اس نے اس وقت شہر جا کر سندر داس سے ملنے کا ارادہ کیا اور واپس قبرستان لوٹنے کی بجاۓ سیدھا شہر جانے والی لاری میں سوار ہو گیا۔
بابا نے رات والے خواب میں رمو کوسندر داس کے گھر کا پتہ بتا دیا تھا۔ کالونی پہنچ کر بس سے اتر آیا۔ احمد آباد شہر خاصا بھرا پرا تھا۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی ۔ ہندو گھرانے بھی کافی آباد تھے۔ رمو اب سندر داس کا گھر ڈھوند نے لگا۔ اس دوران اچانک اسے شک گزرا کہ کوئی اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ ایک لمبا تڑنگا اور موٹا کالا شخص تھا۔ کئی بار اس نے اس شخص کو اپنی جانب تیز نظروں سے گھورتے ہوۓ بھی محسوں کیا۔ یہ ممبا پیجاری تھا۔ مگر رمو اسے نہیں پہچانتا تھا۔ اس لئے اس نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہ دی اور بالآخر ذرا دیر بعد وہ سندر داس کے دروازے پر کھڑا کال بیل بجا رہا تھا ۔۔ دروازہ ملازم نے کھولا تھا۔ سر سے پاؤں تک رمو کا جائزہ لینے کے بعد اس نے قدرے بیزاری سے پوچھا۔ کس سے ملنا ہے؟‘‘
میں .. سند ر داس سے ملنا چاہتا ہوں ۔‘‘ رمو نے قدرے جھجکتے ہوۓ کہا۔
وہ تو اس وقت گھر پر نہیں ہیں ۔‘‘ ملازم نے کہا۔ کوئی بات نہیں، میں ان کا انتظار کر لوں گا۔ دراصل مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے۔“
”اس وقت صرف ان کی پتنی گھر پر موجود ہیں..تم پھر کسی وقت آ جانا ۔‘‘ ملازم نے بیزار کن انداز میں جواب دیا اور واپس مڑنے لگا تو رمو نے اسے روکا۔ ” مجھے ان کی پتنی سے ملوا دو ۔ اس کی بات سن کر ملازم نے ایک بار پھر رک کر رمو کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور پھر چبھتی ہوئی آواز میں بولا ۔’’ارے ببا تمہیں صاحب سے بات کرنی ہے۔ ان کے آنے کا انتظار کرو۔ اب جاؤ یہاں سے رمو کو اس کے انداز تخاطب پر غصہ تو بہت آیا مگر وہ ضبط کرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں دوبارہ بولا۔
دیکھو. مجھے جو ضروری بات تمہارے صاحب سے کرنی ہے وہی ان کی پتنی سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بہت ضروری ہے. ورنہ بعد کی ذمہ داری تم پر عائد ہوسکتی ہے
ابھی رمو نے اتنا ہی کہا تھا کہ اندر سے ایک نسوانی آواز ابھری۔نارو.کون ہے باہر؟؟
بي بي جی...! کوئی غریب سا آدمی ہے، کہہ رہا ہے مجھے صاحب سے بہت ضروری کام ہے۔ مجھے تو کوئی بھکاری دکھائی دیتا ہے ۔‘‘ نارو نامی اس ملازم نے رمو کو چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا تو رمو کا ایک بار پھر خون کھولنے لگا لیکن اس سے پہلے کہ رمو اس ملازم کو آڑے ہاتھوں لیتا اندر سے وہی نسوانی آواز ابھری۔ اس نے نارو کو سرزنش کی۔
بری بات نارو! اس طرح نہیں کہتے. ہٹو میں دیکھتی ہوں ۔“ اور تب نارو کے عقب سے ایک دبلی پتلی سندر سی عورت دکھائی دی۔ دودھ کی طرح سفید رنگت اور ماتھے پر بند یا۔ اس نے ہلکے گیروے رنگ کی ساڑھی بڑے سلیقے سے باندھ رکھی تھی ۔ اس کی گود میں ایک چھوٹا پیارا سا بچہ بھی تھا۔ رمو نے اسے سلام کیا پھر بولا ۔’’ مجھے شری سندر داس سے بہت ضروری بات کرنی تھی۔ کیا .آپ ان کی پتنی ہیں؟“
ہاں۔ میں ان کی پتنی ہوں۔ کہو کیا بات کرنی ہے؟‘‘ اس عورت نے جواب دیتے ہوۓ پوچھا۔
رمو انداز ہ لگا چکا تھا کہ یہی عورت شکنتلا ہے جس سے سندر داس نے دوسری شادی کی تھی۔ وہ شکنتلا کی بات سن کر تھوڑی دیر کے لئے متردد ہوا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس سے کس طرح بات شروع کرے اور وہ بھی دروازے پر موجود کھڑے کھڑے. تاہم اس کی مضطربانہ کیفیت کا اندازہ لگاتے ہوئے شکنتلا نے رمو کو اندر بلا یا.اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔ رمو ملازم کے ساتھ چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں آ گیا۔ سندر داس کا گھر کافی بڑا اور خوبصورت تھا۔ ہر چیز سے خوش سلیقگی اور نفاست عیاں تھی۔ڈرائنگ روم بھی بیش قیمت اشیاء سے مزین تھا۔ رمو ایک صوفے پر قدرے سکڑ سمٹ کر بیٹھ گیا۔ ذرا دیر بعد ہی شکنتلا دوبارہ نمودار ہوئی ۔ اس نے اب ایک پھولدار چادر اوڑھ رکھی تھی۔ وہ ایک صوفے پر براجمان ہوکر رمو کی طرف مستفسرانہ نگاہوں سے تکنے گی۔
رمو نے ذرا کھنکار کر گلا صاف کیا پھر بولا ۔’’میرا نام رمو ہے۔ میں دراصل .. آپ لوگوں کو ہوشیار کرنے آیا تھا۔ کوئی آپ لوگوں کی جان کا دشمن ہے اور رمونے اتناہی کہا تھا کہ پاس کھڑا نارو اسے گھورتے ہوۓ شکنتلا سے بولا۔ بي بي صاحبہ! مجھے تو یہ کوئی بہروپیا لگے ہے۔ آپ نے خواہ مخواہ ہی اسے اندر بلا لیا۔
”تم خاموش رہو نارو ۔ شکنتلا نے ایک بار پھر نارو کو جھڑکا۔ وہ خلاف توقع ایک سمجھدار اور نڈر خاتون تھیں... لیکن اس کے باوجود اس کے حسین چہرے پر رمو کی بات سے پریشانی سی ہو یدا ہورہی تھی ۔ تاہم اس نے پوچھا۔ کھل کر بات کرو. تم کیا کہنا چاہتے ہو اور تم ہمیں کس سے اور کیوں خبر دار کرنا چاہتے ہو؟ تمہیں کس نے یہاں بھیجا ہے؟‘‘ شکنتلا کے منہ سے سوالات کی یلغار نے رموکو ایک لمحے کے لئے بدحواس سا کر دیا۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ ذرا سنبھلا اور پھر تھوڑی دیر کچھ سوچنے کے بعد بالآخر اس نے ساری رام کتھا شکنتلا کے گوش گزار کر ڈالی۔ حسب توقع وہاں موجود نارو کو رمو کی اس رام کہانی پر ذرا یقین نہیں آیا لیکن شکنتلا کے چہرے سے یکدم خوف اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات ابھر آۓ۔ نارو رمو کے بارے میں پھر کوئی گستاخانہ سا تبصرہ کرنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہ کر سکا کہیں دوبارہ مالکن کی ڈانٹ نہ پڑ جاۓ ۔ بہرطور شکنتلا کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اس نے رمو کی کہانی کو جھٹلایا نہیں ہے اور کافی دیر تک گم صم بیٹھی رہی۔ قریب کھڑا نارو برے برے منہ بنا کر رمو کی طرف گھورے جا رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ رموکو یہاں سے چلتا کر دے۔ اثناۓ راہ گھر کی کال بیل گنگنا سٹھی۔’’لو صاحب بھی آ گئے ۔ اچھا ہی ہوا۔‘‘ نارو معنی خیز لہجے میں بولا اور دروازے کی طرف لپکا۔ وہ خاصا سر چڑھا اور منہ پھٹ واقع ہوا تھا۔ رمو نے اندازہ لگا لیا کہ سر چڑھانے میں گھر کے مالک سندر داس کا ہی ہاتھ ہوگا
تھوڑی دیر بعد جب نارو کے ساتھ ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس خوبرو شخص اندر داخل وا تو وہ رمو کوایسی نظروں سے گھورنے لگا جیسے اسے کھا جائے گا۔ رومو کو اندازہ ہوگیا کہ نارو نے ہی اس کے کان کھرے ہوں گے۔
کون ہوتم..؟ اور یہاں کس لئے آۓ ہو؟‘‘ اس نے درشت لہجے میں پوچھا۔ اس دوران شکنتلا اور رمو بھی کھڑے ہو چکے تھے ۔ رمو بے چارہ سندر داس کے اس رویے پر بوکھلا سا گیا۔
م..... میں..... وہ...‘ اس کے لبوں سے اتنا ہی نکلا تھا کہ سندر داس کرخت لہجے میں اس کی بات کاٹ کر بولا ۔ اے مسٹر..۔ میں تم جیسے اچکوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اب یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ۔‘‘ سندر داس کی بات سن کر شکنتلا نے اپنے شوہر سندر داس سے کچھ کہنا چاہا مگر سندر داس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے بھی چپ رہنے کو کہا۔ رمو کا کام پورا ہو چکا تھا وہ وہاں سے نکل آیا۔ وہ مطمئن تھا کہ اس نے سندر داس کی پتنی شکنتلا کو صورت حال سے خبر دار کر دیا تھا اور وہ یقینا بعد میں آرام سے اپنے پتی کو بھی قائل کر لے گی۔
☆☆☆☆☆☆☆
انجنا. میں نے خود اپنی آنکھوں سے رمو کو سندر داس کے گھر جاتے دیکھا ہے ۔‘‘ ممبا پچاری نے سامنے مضطرب کھڑی انجنا سے کہا۔ اس کے لہجے میں پریشانی کا عنصر غالب تھا۔
سمجھ میں نہیں آ رہا، آخر رمو یوں اچانک سندر داس کے گھر کیوں جا پہنچا۔ اسے تو اس کا گھر بھی معلوم نہ تھا۔‘‘
انجنا نے بھی پریشان ہو کر کہا۔ اس کی بات سن کر ممبا پجاری نے قدرے توقف کے بعد پر خیال انداز میں کہا۔
مجھے تو لگتا ہے رموکوکسی نے بہکایا ہے۔ لیکن ممبا..! کیا تم اس بات کا کھوج نہیں لگا سکتے کہ رمو سندر داس کے پاس کس لئے گیا تھا ؟‘‘ انجنا نے پوچھا۔
اس میں اب کیا شک رہ جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے رموسندر داس کے پریوار کو تم سے خبر دار کرنے ہی گیا ہو گا۔ تم ایسا کرو چالاکی سے پہلے رمو سے پوچھنے کی کوشش کرنا کہ وہ آج سارا دن کہاں غائب رہا ہے۔ اگر وہ جھوٹ بولے تو سمجھ جانا. وہ تمہاری اصل حقیقت سے واقف ہو چکا ہے۔ تب پھر اس کے ساتھ سختی سے نمٹ لیں گے۔ بعد میں وہ خود ہی اگل دے گا‘‘ ممبا پجاری نے انجنا کو سمجھاتے ہوئے کہا اور جوابا انجنا پر خیال انداز میں اپنے سر کو اثباتی جنبش دینے لگی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں شعلے سے رقصاں ہونے لگے تھے۔ اس کے چہرے سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ آج رمو کا حساب بے باق کر کے چھوڑے گی۔
پھر اس دوران رمو آ پہنچا۔ اپنی جھونپڑی میں ایک پجاری کو دیکھ کر وہ بری طرح
چونکا۔ تم کہاں گئے تھے؟‘‘ معا انجنا نے رمو کو گھور تے ہوئے کہا تو رمو نے بہ غور انجنا کے چہرے کا جائزہ لیا۔ اسے انجنا آج کچھ بدلی بدلی سی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے لہجے پر وہ متحیر بھی ہوا تھا۔ کچھ اس وجہ سے بھی کہ کہیں انجنا کو اس پر کسی قسم کا شک تو نہیں ہو گیا۔ لیکن اب رموکو بھی اس کی پروانہیں رہی تھی۔ اس لئے وہ کندھے اچکا کر لاپروائی سے بولا ۔’’ایسے ہی ذرا شہر گیا تھا گھو منے کو جی چاہا تھا آج۔‘‘ تم شہر گھومنے گئے تھے یا سندر داس کے گھر... انجنا نے چبھتے ہوۓ لہجے میں کہا تو رمو کا دل بے اختیار زور زور سے دھڑ کنے لگا۔ اسے اندازہ ہونے لگا کہ اب کسی بھی وقت انجتا اپنی کینچلی بدلنے والی تھی۔ اپنے بھیانک روپ میں اسے خوف زدہ بھی کر سکتی تھی لیکن رمو نے بھی دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ذرا نہیں ڈرے گا۔ اسے تسلی تھی کہ اس کے پاس بابا عالی شاہ کا کراماتی تعویذ ہے۔ تاہم پھر وہ بھی جوابا غصیلے لہجے میں انجنا کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔
ےم. کیا کہہ رہی ہو اور کس لہجے میں مجھ سے بات کر رہی ہو؟ میں بھلا سندر داس کے پاس کیا کرنے جاؤں گا؟‘‘
اس کی بات سن کر انجنا نے معنی خیز انداز میں قریب کھڑے ممبا پچاری کے چہرے کی طرف دیکھا اور جوابا ممبا پجاری نے بھی اس کی جانب تکتے ہوۓ دھیرے سے اپنا سر معنی خیز انداز میں ہلایا اور پھر اگلے ہی لمحے رمو نے اپنی زندگی کا بھیانک ترین منظر دیکھا۔ انجنا کا حسین چہرہ ایکا ایکی مسخ سا ہونے لگا. اتنا کہ سیاہ پڑ گیا. لمبے خوبصورت ریشمیں گیسو سکڑ سمٹ کر میلی چیکٹ جٹاؤں کی صورت اختیار کر گئے ۔ آنکھوں کے دیدے پھیل کر باہر نکل آۓ اور اس کے منہ سے لمبی کالی دو شاخہ زبان باہر کو لپکنے لی۔ ایک لمحے کو رمو کا دل انجنا کی بدلی ہوئی ڈراؤنی شکل وصورت پر دہل کر رہ گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے اس نے دل ہی دل میں اللہ کے نام کا ورد کرنا شروع کر دیا۔ اس اثناء میں قریب کھڑے ممبا پجاری نے اپنا ترشول والا ہاتھ بلند کر کے خوفناک قہقہہ لگایا اور انجنا کا سر اس کے کاندھے پر گھومنے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے حلق سے کر یہہ انداز میں قہقہے خارج ہونے لگے۔
اس دہشت ناک منظر سے رمو ایک بار پھر دہل گیا۔ اگلے ہی لمحے انجنا کے حلق سے خرخراتی ہوئی آواز بلند ہوئی ۔ وہ رمو کی جانب شعلہ بار نگاہوں سے گھور تے ہوۓ بولی۔ تم سندر داس کے پاس اسے ہوشیار کرنے گئے تھے ۔ میں سب جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو“
اس کی بات سن کر رمو کو بھی جیسے ایکا ایکی جوش آ گیا۔ اللہ کے نام کا ورد اور بابا عالی شاہ کے دیئے ہوۓ تعویذ نے رموکو کافی حوصلہ مند اور بے خوف سا بنا دیا تھا....لہذا وہ بے خوفی کے ساتھ انجنا کے ڈراؤ نے چہرے کی طرف تکتے ہوۓ بولا۔
’’ہاں... میں تمہاری اصل حقیقت سے واقف ہو چکا ہوں ۔ تم نے میرے ہاتھوں ایک اللہ والے بزرگ با با عالی شاہ کا ناحق خون کروایا۔ پر اب میں تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔“
رمو کی بات سن کر جیسے انجنا غصے سے بھر گئی۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنا منہ کھولا اور اس کی دو شاخہ زبان لپلپاتی ہوئی باہر نکلی اور کسی خوفناک اژدھے کی طرح رمو کے چہرے کے سامنے تھرکنے گی۔ وہ اژدھا نما سانپ کسی بھی وقت رمو کے چہرے کو ڈس سکتا تھا لیکن...رمو نے اسی وقت اللہ کا نام لیا اور تعویذ والے بازو پر ہاتھ رکھ دیا۔ اگلے ہی لمحے اژدھے کو یوں جھٹکا لگا جیسے اس کی گردن کسی غیبی گرفت میں آ گئی ہو۔ پھر وه اژدها نما زبان.انجنا کے منہ سے نکلتی چلی گئی حتی کہ انجنا بھی جھٹکا کھا کر چیختی ہوئی زمین بوس ہوتی چلی گئی۔ اس اثناء میں قریب کھڑا ممبا پجاری ترشول لہرا تا جارحانہ انداز میں رمو کی طرف بڑھا۔ رمو نے اللہ کا نام لے کر ممبا پجاری کے ہاتھ سے ترشول کھینچ لیا اور پھر نجانے رمو کے وجود میں اتنی طاقت کیسے آ گئی کہ اس نے اگلے ہی لمحے وہ ترشول ممبا پجاری کے مثکے کی طرح ابھرے سیاہ پیٹ میں پیوست کر دیا۔ ممبا پجاری کے حلق سے ذبح ہوتے بیل کی سی آواز ابھری اور وہ زمین بوس ہو کر تڑپنے لگا اور ذرا دیر بعد ہی ساکت ہو گیا۔
ادھر انجنا بری طرح چیخ چلا رہی تھی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی اژدها نما لمبی موٹی زبان کو تھامے کسی غیبی گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ ادھر رمو پر جیسے خون سوار تھا۔ وہ انجنا کی طرف لپکا مگر اگلے ہی لمحے ایک گونجدار پر جلال آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی اور اس کے انجنا کی طرف بڑھتے ہوئے قدم رک خبردار.. اس چنڈال سے دور رہو۔ اسے مت ہاتھ لگانا... رمو اس آواز پر چپکا کھڑارہا اور خاموشی سے انجنا کی شکل دیکھنے لگا۔ پھر اگلے ہی لمحے جیسے اس کی اژدھا نما زبان کو کسی نے درمیان سے کاٹ ڈالا۔ انجنا کے حلق سے دل خراش چیخ ابھری اور ادھ کٹی خون آلود زبان جب اس نے واپس اپنے منہ کے اندر کھینچی تو اس کا سیاہ رو چہرہ. اور کالے ہونٹ خون سے سرخ ہو کر اسے مزید ڈراؤ نا بنا رہے تھے۔ اس کے بعد انجنا چینی چلاتی جھونپڑی سے باہر نکل گئی۔
ممبا پجاری کو ہلاک کرنے کے بعد رمو کی آتش انتقام کو قدرے ٹھنڈک پہنچی تھی مگر ابھی وہ انجنا کو اپنے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بے چین تھا ۔ اسے اپنا وہ خواب یاد آنے لگا جس میں بابا عالی شاہ نے اسے نصیحت کرتے ہوۓ بتایا تھا کہ انجنا جیسی شیطانی روح کا کس طرح خاتمہ ہو گا۔ اس کے لئے اسے ایک سلگتا ہوا گڑھا کھودنے کی ضرورت تھی جس کے اندر انجنا کو دھکیلنا تھا لیکن رمو جانتا تھا کہ اس مشقت طلب کام میں دو تین گھنٹے لگ جائیں گے۔ لہذا اس نے سب سے پہلے گڑھا بنانے کا ارادہ کیا اور پھر قبرستان کے باہر کوئی مناسب جگہ دیکھ کر کھدائی شروع کر دی۔ اس روز ایک عجیب واقعہ ہوا۔ وہ تقریبا نصف کام کر چکا تھا۔ جب وہ تھکا ہارا شام گئے اپنی جھونپڑی میں لوٹا تو لیٹتے ہی اسے نیند آ گئی لیکن پھر اچانک رات کے نجانے کس پہر اس کی آنکھ کھلی تو کوئی بڑی ملائمت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ رمو نے چونک کر لالٹین کی روشنی میں دیکھا۔ وہ بابا عالی مشاہ تھے اور بڑی پر جلال سی نظروں سے اس کی جانب تکے جارہے تھے۔ رمو ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ بابا عالی شاہ کو زندہ سلامت اپنے سامنے دیکھ کر پہلے تو رمو ذراٹھٹھکا اور پھر اگلے ہی لمحے اس کے چہرے سے خوشی پھوٹنے لگی۔
آپ زندہ ہو۔‘‘ بے اختیار رمو کے ہونٹوں سے الفاظ پھسلے۔
جوابا بابا عالی شاہ اپنے باریش چہرے پر مسکراہٹ بکھیر کر بولے۔ ہاں بیٹا. میں زندہ ہوں اور تمہیں ایک بات سے خبر دار کرنے آیا ہوں۔ وہ یہ کہ تم اپنے بازو سے یہ تعویذ اتار دو۔ میں تمہیں دوسرا تعویذ دے دوں گا۔
بابا عالی شاہ کی بات سن کر رموکو اچھنبا سا ہونے لگا تاہم وہ الجھ کر عالی شاہ سے بولا۔
بابا. یہ تعویذ آپ ہی نے تو دیا تھا۔ اب آپ ہی اسے اتروانے کا کہہ رہے ہیں۔
رمو کی بات پر بابا عالی شاہ کے چہرے پر کچھ اضطراب آمیز تاثرات ابھرے اور تب رمو نے بہ غور عالی شاہ کے چہرے کا جائزہ لیا اور نجانے اس کے دل میں کیا آئی کہ اس نے فورا اپنے بازو پر بند ھے تعویذ پر ہاتھ رکھ کر اللہ کا نام لیا۔ پھر اگلے ہی لمحے ایک محیر العقول واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ بابا عالی شاہ کے حلق سے اچانک ایک غیر انسانی چیخ بلند ہوئی اور وہ رمو کے قریب سے اس طرح دور ہو کر پرے جا گرا جیسے کسی نے اسے پکڑ کر پرے اچھال دیا ہو۔ اس کے بعد رمو نے ایک اور حیرت ناک منظر دیکھا۔ آنا فانا بابا عالی شاہ کی ہیئت مجموعی تبدیل ہونے لگی اور اگلے ہی لمحے اب وہاں مکار انجنا کھڑی تھی۔رموسمجھ گیا کہ یہ مکار انجنا ہی تھی جو بابا عالی شاہ کا روپ دھار کر دھوکے سے اس کے بازو سے تعویذ اتروانا چاہتی تھی ۔اصلی روپ میں آتے ہی انجنا اب غائب ہو چکی تھی۔ رمو نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ اس شیطانی روح کی چال میں نہیں آیا تھا۔ اسے اچھی طرح اس بات کا اندازہ تھا کہ جب تک بابا عالی شاہ کا یہ تعویذ اس کے پاس ہے وہ شیطانی روح انجنا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
رمو اپنا کام مکمل کر چکا تھا۔ اب اسے انجنا کی تلاش تھی۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ کوندا اور یہ سوچ کر اسے بری طرح پچھتاوا سا ہونے لگا کہ وہ بابا عالی شاہ کی ہدایت کے مطابق سندر داس اور اس کے خاندان کو انجنا کی شیطانی روح سے خبر دار کرنے گیا تھا۔ اسے دوبارہ ان لوگوں کی بہر صورت خبر گیری کرنی چاہئے تھی کیونکہ سندر داس نے رموکو بہروپیا جان کر دھتکار دیا تھا۔ یقینا وہ انجنا کے شیطانی جال میں پھنس سکتا تھا۔ یہ سوچتے ہی رمو کا دل بے قرار سا ہو گیا اور اس کی نظروں کے سامنے سندر داس کی معصوم پتنی بشکنتلا اور اس کا ننھا گول مٹول سا پیارا بچہ گھوم گیا۔ بس پھر کیا تھا رمو نے اسی وقت لاری پکڑی اور شہر آ گیا۔ شدید گرمیوں کا موسم تھا۔ رمو نے جیسے ہی لاری سے اتر کر دھن راج کالونی کا رخ کیا. معاً ہی چند ڈنڈا بردار خاکی نیکر پہنے دو پولیس والوں نے اسے پکڑ لیا. رمو بے چارہ اس افتاد پر پریشان سا ہوگیا اور وہ ارے. ارے کرتا ہی رہ گیا مگر وہ دونوں پولیس والے اسے تھانے لے گئے اور تھانے دار کے سامنے پیش کر دیا۔ تھانے دار کا نام انسپکٹر گوبند رام تھا۔ وہ ایک پینتیس چالیس سالہ تجربہ کار انسپکٹر تھا۔ اس کی رنگت گوری تھی اور وہ درمیانے قد کا شخص تھا۔ تمہارا نام رمو ہے؟‘‘ اس نے اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے ہوۓ ہاتھ میں پکڑے رول کا اشارہ رمو کی طرف کر کے قدرے درشت لہجے میں پوچھا۔
ہاں.لیکن. مجھے کس جرم میں یہاں لایا گیا ہے؟‘‘ رمو نے چلا کر کہا تو انسپکٹر گوبند رام سیاہ رول کو اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتے ہوۓ بولا۔
شری سندر داس کی پتنی شکنتلا کے قتل کے جرم میں..۔
رمو اس کی بات سن کر دھک سے رہ گیا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں انسپکٹر صاحب؟‘‘ بے اختیار رمو کے ہونٹوں سے الفاظ پھسلے ۔
ایک لمحے کوتو اسے اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔
’’لیکن میں نے یہ قتل نہیں کیا بلکہ میں تو خود انہیں خبر دار کرنے آیا تھا۔
’’بہت چالاک مجرم دکھائی پڑتے ہوتم..‘‘ انسپکٹر گوبند رام رمو کی بات پر اسے کھوجتی نظروں سے گھور تے ہوۓ بولا۔
اس کے ہونٹوں پر زہر خند مسکراہٹ عود کر آئی تھی۔ پھر وہ استہزائیہ انداز میں دوبارہ بولا۔
”کسی کو قتل کرنے سے پہلے بہت اچھا گراؤنڈ بناتے ہو۔ ذرا اس بدروح کے بارے میں مجھے بھی وہ کہانی سناؤ جوتم نے سندر داس اور ان کی سورگ باشی پتنی شکنتلا کو سنائی تھی ۔“
انسپکٹر گو بند رام کے تشکیک بھرے انداز گفتگو نے رمو کو پریشان سا کر کے رکھ دیا تھا۔
درحقیقت اسے معصوم شکنتلا کی موت کا بے حد دکھ ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا یہ اسی انجنا کی شیطانی روح کی کارستانی تھی لیکن اس وقت الٹی آنتیں گلے آ پڑی تھیں۔ اس سے وہ جلد چھٹکارہ پانا چاہتا تھا لہذا بولا۔ انسپکٹر صاحب! میری بات پر یقین کرو... انجنا ایک بد روح ہے۔ وہ سندر داس کے پورے پریوار سے انتقام لینا چاہتی ہے لیکن میرے پاس اس بدروح کو ہلاک کرنے کی طاقت موجود ہے۔ اس لئے آپ بجاۓ مجھے گرفتار کرنے کے سندرداس اور ان کے بچے کی جانیں بچانے کی فکر کر یں۔‘رمو اتنا کہہ کر خاموش ہوا اور انسپکٹر بغور رمو کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے زہر خند لہجے میں بولا ۔ ”ہونہہ. ایک ایسی آتما کوتم ہلاک کرو گے جو پہلے ہی سے شریر چھوڑ چکی ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہاں سے آزاد ہو کر تم اب سندر داس اور اس کے بچے کو قتل کرنا چاہتے ہو
رمو نے جوابا کچھ کہنے کے لئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ انسپکٹر گو بند رام نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا رول زور سے ٹیبل پر مارتے ہوۓ کہا۔’’بند کرو اپنی بکواس. اور مجھے صاف صاف بتاؤ تمہاری سندر داس سے کیا دشمنی ہے اور تم نے اس کی پتنی کا خون کیوں کیا؟‘‘ انسپکٹر کے گر جدار لہجے نے رمو کو عجیب مخمصے میں ڈال دیا پھر وہ بے چارہ ڈرتے ڈرتے بولا۔
انسپکٹر صاحب... آپ ایسا کریں سندر داس کو یہاں بلا لیں ۔
اس نے ہی تو سب سے پہلے تمہارے خلاف پرچہ کٹوایا ہے۔ تم نے ان کی پتنی کو تو پورا پورا بے وقوف بنالیا تھا مگر سندر داس کو تو تم پر اسی دن سے ہی شک ہو گیا تھا کہ تم وہاں کسی اور ہی مقصد کے لئے آۓ تھے۔‘‘ انسپکٹر گوہند رام نے کھا جانے والی نظروں سے رمو کی طرف گھورتے ہوۓ کہا۔’’سندر واس تو تمہیں دیکھتے ہی تمہاری بوٹیاں نوچ لے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ مجھے اصل حقیقت سے آگاہ کر دو“ انسپکٹر نے رمو پر جال پھینکنے کی کوشش کی
لیکن رمو بے چارہ کیا کرتا وہ تو قطعاً بے گناہ تھا۔ وہ خاموش رہا۔ مگر انسپکٹر گوبند رام اس کی خاموشی کا کچھ اور مطلب سمجھا اور ذرا دیر بعد دانت پیستے ہوۓ بولا ۔’’تم ایسے زبان نہیں کھولو گے ۔ تمہیں ڈرائنگ روم کی سیر - کرانی پڑے گی۔ یہ کہتے ہوۓ انسپکٹر گوبند رام نے قریب کھڑے ان دونوں
کانسٹبیلوں سے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
اسے لے جاؤ. ہند کردو. رات کو اسے تیج سنگھ کے حوالے کرنا پڑے گا۔ اس پہاڑ کے سامنے تو بڑے بڑے سور ماؤں کا سرمہ بن جایا کرتا ہے ۔‘‘ یہ سنتے ہی ان دونوں نے حیران پریشان کھڑے رموکو دبوچ لیا اور وہ بے چارہ اپنی بے گناہی میں چیختا چلاتا رہ گیا لیکن اس کی کسی نے نہ سنی۔
اس کے بعد رمو کو لاکر میں ڈال دیا گیا۔ بے چارہ رمو جب چیخ چیخ کر تھک گیا تو ناچار نڈھال ہو کر حوالات کی سیلن زدہ دیوار سے ٹیک لگا کر سالخوردہ سے فرش پر بیٹھ گیا۔ اسے خود سے زیادہ سندر داس اور اس کے معصوم بچے کی جانوں کی فکر تھی۔ وہ دل ہی دل میں خدا سے سے دعائیں مانگ رہا تھا کہ کاش سندر داس کو عقل آ جاۓ اور اس پر شک کرنے کی بجاۓ اسے آزاد کر دے تا کہ وہ جلد از جلد انجنا کا خاتمہ کر سکے۔
پھر اس رات کو ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ رمو کی دعا شاید قبول ہوگئی تھی۔ دو کانسٹبیل خاموشی سے آۓ اور اسے قید خانے سے نکال کر دوبارہ انسپکٹر گوبند رام کے کمرے میں لے آۓ۔ وہاں ایک اور شخص بھی انسپکٹر کے سامنے والی کرسی پر براجمان تھا اور خاصا مضطرب نظر آ رہا تھا۔ رمو اسے دیکھ کر چونک سا گیا۔ وہ سندر داس تھا۔ خلاف توقع اس کے پریشان حال بشرے پر اس وقت گہرا اضطراب طاری تھا۔ رموکو دیکھتے ہی وہ فورا اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
تم وہی ہو نا. جو اس دن گھر آۓ تھے میرے۔ اس نے قدرے لڑکھڑاتے لہجے میں کہا اور رمو قدرے متحیر ہو کر اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔
ہاں.ہاں. میں وہی ہوں لیکن میں نے تمہاری بیوی کا خون نہیں کیا ہے ۔
ہاں...ہاں..... مجھے معلوم ہو گیا ہے...... مجھے پتہ چل گیا ہے.... یہ ساری کارستانی مورکھ انجنا کی ہے۔
اتنا کہہ کر وہ انسپکٹر گوبند رام کی طرف متوجہ ہوا اور معذرت خواہانہ انداز میں بولا ۔’’انسپکٹر صاحب آ. آپ کی بڑی مہربانی. میں رمو کے خلاف اپنی رپورٹ واپس لیتا ہوں اور میں اس وقت اسے اپنے ساتھ سے جانا چاہتا ہوں۔
انسپکٹر گوبند رام نے خاموشی سے اپنے کندھے اچکا دیئے اور وہ رمو اور سند داس کو اس طرح دیکھنے لگا جیسے دونوں پر اسے پاگل پن کا شک ہو۔ بہرطور. سندر داس رمو کو اس وقت اپنے گھر لے آیا۔ رمو کو اس کے دوستانہ رویے پر حیرت اور خوشی بھی ہوئی۔
بہرطور سندر داس نے رمو سے پہلے معذرت کرتے ہوۓ اپنے رویے کی معافی مانگی پھر قدرے آزردہ لہجے میں بولا۔رمو... کاش اگر میں تمہاری باتوں پر بھروسہ کر لیتا تو آج میری شکنتلا زندہ ہوتی . لیکن اس بات کا احساس مجھے اچانک ہی ہوا۔ انجنا کی شیطانی آتما رات کو میرے بیڈ روم میں آئی تھی ۔ اس نے شیطانی قہقہے لگاتے ہوۓ مجھے بتایا کہ شکنتلا کو اس نے گلا دبا کر ہلاک کیا تھا تو میں بجاۓ خوفزدہ ہونے کے طیش میں آ گیا لیکن بہر حال وہ ایک شیطانی آتما تھی، میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اگر چاہے تو مجھے بھی اس وقت ہلاک کر سکتی تھی لیکن وہ مجھے اذیتیں دے دے کر مارنا چاہتی ہے۔ پہلے وہ میری پتنی اور پھر میرے معصوم بچے راجو کو میری نگاہوں کے سامنے ہلاک کرے گی اور بعد میں مجھے بھی زندہ نہیں چھوڑے گی۔ اس وقت تو وہ چلی گئی مگر میں پریشان ہو گیا۔
پھر اچانک مجھے تمہارا خیال آیا اور میں تم سے ملنے کے لئے بے چین ہو گیا۔ اس دوران انسپکٹر گوبند کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے تمہارے خلاف کی گئی رپورٹ کے مطابق تمہیں گرفتار کر لیا ہے اور یوں میں تمہیں چھڑانے آن پہنچا۔ پر بھگوان کے لئے اگر تم مسلمان ہو تو... اللہ کی خاطر مجھے اور میرے بچے کو اس شیطان انجنا سے بچالو۔‘‘
اتنی تفصیل بتا کر سندر داس بے اختیار بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ رموکو اس پر بڑا ترس آیا اور وہ آ ہستگی کے ساتھ دوستانہ انداز میں اس کے کاندھے پر ہاتھ دھرتے ہوۓ بولا ۔’’الحمد للہ میں مسلمان ہوں اور مجھ پر یہ فرض ہے کہ تمہیں ایک شیطانی قوت سے بچانے کی کوشش کروں ۔“
اتنا کہتے ہوۓ رمو نے اسے انجنا کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنے کے سلسلے میں مختصراً آگاہ کر دیا۔ نیز اسے یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچے سمیت اس کے ساتھ چل کر رہے جب تک انجنا کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں. سندر داس فی الفور راضی ہو گیا۔ اس وقت رمو ہی اسے اپنا نجات دہندہ نظر آ رہا تھا۔ بہرطور سب سے پہلے انہوں نے وہاں سر جوڑ کر ایک منصوبہ بنایا اور پھر رمو اور سندر داس اپنا تھوڑا بہت ضروری سامان باندھ کر بچے سمیت چل پڑے۔ رمو بھی یہی چاہتا تھا کہ جب تک انجنا کا خاتمہ نہیں ہو جا تا ان دونوں باپ بیٹوں کی زندگی اس کے پاس محفوظ رہ سکتی تھی۔ دوسری سب سے اہم بات یہ بھی تھی کہ ان دونوں کی رمو کے ہاں موجودگی کی وجہ سے رمو اور انجنا کا سامنا بہت جلد ہوسکتا تھا رمو کو انجنا کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہرطور زندگی سبھی کو عزیز ہوتی ہے. بے چارے دونوں باپ بیٹے اپنا آرام دہ گھر چھوڑ کر رمو کی اس قبرستان والی جھونپڑی میں آن بسے۔ انجنا کو پھانسنے کا انہوں نے ایک منصوبہ تشکیل دے دیا تھا جس پر انہوں نے آج ہی عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس سے پہلے سندر داس کے بیٹے راجو کو کسی محفوظ جگہ منتقل کرنے کا مسئلہ آن کھڑا ہوا تھا کیونکہ کوئی بعید نہ تھا کہ انجنا اس معصوم کو نقصان پہنچا دیتی۔ لیکن پھر ذرا سوچ بچار کے بعد یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ رمو نے اس بچے کو بابا عالی شاہ کی کٹیا سے ذرا دور ایک درگاہ کے مجاور کے حوالے کر دیا۔ وہ بابا عالی شاہ کا بھی معتقد تھا۔ بہر طور سب سے پہلے رمو اور سندر داس نے مل کر گڑھے کے اندر اور باہر خشک گھاس اور ٹہنیاں پھیلا دیں۔ پھر شہر سے لاۓ ہوۓ مٹی کے تیل کا آدھا کنستر اندر الٹ دیا اور باقی قریب ہی جھاڑیوں میں چھپا دیا۔ اب انہیں انجنا کا انتظار تھا۔ وہ رات انہوں نے جھونپڑی میں ہی گزار دی اور کوئی غیر معمولی واقعہ ظہور پذیر نہ ہوا۔ یہ اس سے اگلی رات کا ذکر تھا. سندر داس اور رمو جھونپڑی میں چار پائی پر بیٹھے تھے۔ باہر چاندنی چٹکی ہوئی تھی اور گہرا پر ہول سکوت چھایا ہوا تھا۔ منصوبے کے مطابق رمو نے سندر داس کو باہر چلنے کا اشارہ کیا۔ اس دوران سندر داس نے رمو سے پوچھا۔ ’’رمو! کیا تمہیں یقین ہے کہ انجنا اس طرح ہمیشہ کے لئے ہلاک ہو جاۓ گی؟ کیونکہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ ایسی پراسرار طاقتوں والی بدروحیں بھلا ایسے عام طریقے سے کیونکر نابود ہوسکتی ہیں۔ اس کی بات سن کر رمو ہولے سے مسکرا کر بولا ۔
’’سندر جی! درحقیقت ایسی طاقتور بلاؤں کی جانیں محض چھوٹی چیزوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ مگر اصل بات ان کا کھوج لگانا ہوتا ہے اور وہ کھوج میں لگا چکا ہوں۔ اس لئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ انجنا کی موت کا راز آگ میں جل کر بھسم ہونے میں ہی ہے۔‘‘ رمو نے اتنا کہا اور خاموش ہو گیا۔
سندر داس کو بھی قدرے تسلی ہوئی۔ وہ دونوں اب جھونپڑی سے نکل کر قبروں کے درمیان بنی چاندنی میں چمکتی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر چل رہے تھے. پھر قبرستان کے شکتہ گیٹ پر رمو خود ٹھہر گیا اور سندر داس کو آگے روانہ کر دیا۔ اسے روانہ کرتے ہی رمو کا دل جانے کیوں انجانے خدشے کے تحت دھڑکنے لگا۔ اسے اس بات کا بہ خوبی احساس تھا کہ سندر داس اس وقت ’’چارے‘‘ کی سی حیثیت رکھتا تھا۔ دفعتاً رمو کو ایک تیز اور غیر انسانی چیخ سنائی دی۔ اس کا دل یکبارگی دھڑ کا۔ پھر اس نے چیخ کی سمت دوڑ لگا دی اور تھوڑی دور جانے کے بعد وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا دل اچھل کر حلق میں آن اٹکا۔
کیا دیکھتا ہے... اسی ڈراؤنی صورت انجنا نے سندر داس کی گردن دبوچ رکھی تھی اور اپنے لمبے لمبے نوکیلے دانت اس کی گردن میں گاڑنے کے لئے بڑھا رہی تھی۔ بے چارہ سندر داس اس خوف و دہشت سے بری طرح کپکپا رہا تھا۔ اس وقت رمو نے اللہ کا نام لے کر اپنے بازو پر بندھے تعویذ پر ہاتھ رکھا اور انجنا پر چھلانگ لگا دی۔ اس کے انجنا سے ٹکرانے کی دیر تھی کہ انجنا کو جیسے کرنٹ لگا۔ اس نے ایک کر یہہ چیخ کے ساتھ سندر داس کو چھوڑ دیا۔ ٹھیک اس وقت رموسندر داس کو مخاطب کر کے زور سے چلایا۔ ’’گڑھے کی طرف بھاگو۔“ سندر داس انجنا کی گرفت سے آزاد ہوتے ہی رمو کی ہدایت پر دوڑ پڑا اور توقع کے عین مطابق انجنا اپنے ’’شکار‘ کو فرار ہوتا دیکھ کر اس کے عقب میں دوڑی اور پھر رمو
انجتا کے عقب میں ہولیا۔ وہ دل میں یہی دعائیں مانگ رہا تھا کہ سندر داس کمال ہوشیاری کے ساتھ انجنا کو ۔ گڑھے میں دھکیل دے اور پھر یہی ہوا۔ جیسے سندر داس کو اندازہ ہوا کہ وہ اب گڑھے کے قریب پہنچ چکا ہے تو اس نے اس کے اوپر چھلانگ لگا دی۔ ادھر بے تحاشا دوڑتی اور شیطانی قہقہے لگاتی ہوئی انجنا کا جیسے ہی پاؤں گڑھے کے او پر آیا تو اگلے ہی لمحے اسے یوں لگا جیسے اس کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ وہ گڑھے کے اندر ہی گری تھی۔ اس کے عقب میں آتے رمونے آنا فانا قریب رکھے کنستر کوگڑھے میں بھری خشک جھاڑیوں کے اندر دبی انجنا کے او پر انڈیل دیا اور پھرتی کے ساتھ ماچس نکال کر دیا سلائی دکھا دی۔ آن کی آن میں خشک جھاڑیوں نے آگ پکڑ لی اور انجنا کی درد ناک چیخوں سے پورا جنگل گونجنے لگا۔ آگ تیزی کے ساتھ بلند ہوتی جا رہی تھی۔ شعلے تھے کہ آن کی آن میں آسمان سے باتیں کرنے لگے ۔سندر داس اور رمو دم بہ خود بھڑ کتے ہوۓ شعلوں پر نگاہ گاڑے ہوۓ تھے۔ رفتہ رفتہ انجنا کی چیخیں آنی بند ہو گئیں اور فضا میں ایک عجیب چراند سی پھیل گئی۔ پھر اس کے بعد آگ ٹھنڈی پڑنے لگی۔انجنا جل کر بھسم ہو چکی تھی۔
رمو نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کا ضمیر اب مطمئن تھا کیونکہ اس نے ایک انسان کو ایک موذی بلا سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ دلا دیا تھا۔
•●•●•●•●•●•●•●•●•
ختم شد
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں