قبرستان ۔ پہلا حصہ

قبرستان
تحریر: ڈاکٹر عبدالرب بھٹی
ٹائپنگ: جیا نشاط
پہلا حصہ
سسکتی ہوئی آسیبی رات کا سناٹا، شکستہ و نیم پختہ قبروں پر کڑیالے ناگ کی طرح سرسرا رہا تھا۔ جا بجا کھلے ٹنڈ منڈ پیڑوں کی شاخوں سے ہوائیں ٹکراتیں تو یوں لگتا جیسے پورا قبرستان ہولے ہوئے سانس لے رہا ہو... ایک نا قابل بیان سی نحوست ان پیڑوں پر طاری تھی۔
یہ بھارت کے شہر احمد آباد کا مضافاتی علاقہ تھا۔ یہ پراسرار اور دہشت ناک واقعہ اس وقت کا ہے جب سمندر پار سے بدیشی سامراج ابھی تاجروں کا بھیس بھر کر برصغیر پر قابض نہیں ہوئے تھے... ان دنوں احمد آباد سے بڑودہ تک ممبا دیوی کے پراسرار پجاریوں کی بہتات تھی۔ چکروتا اور ہریدوار کے نیم پہاڑی گھنے جنگلات میں لوگ اپنے چہروں پر بھبھوت مل کر ماتھے پر سیندور کا نقشہ کھینچے کئی مہنیے جاپ الاپ میں مصروف رہتے تھے۔ قبرستان کے آس پاس مسلم آبادی بھی تھی ۔ قبرستان سے شمال کی طرف کافی آگے شمشان گھاٹ تھا۔ قبرستان کے تین اطراف میں گھنا جنگل اور چوتھی سمت تمبا کو اور کپاس کے کھیت تھے۔
قبرستان کے بالکل وسط میں ایک جھونپڑی کے اندر سے روشنی چھوٹ رہی تھی۔ لالٹین کی یرقان زدہ روشنی ان دونوں افراد کے لرزیدہ ساۓ جھونپڑی کی شکتہ دیوار پر متحرک کئے ہوۓ تھی۔ ان میں ایک بوڑھا رحیمو اور دوسرا اس کا جوان بیٹا رمو تھا۔ وہ بوسیدہ فرش پر بیٹھے، ایک بڑے سے تھیلے کے اندر انسانی ہڈیوں کے پنجر ڈال رہے تھے۔ پھر بوڑھے رحیمو نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ایک انسانی کھوپڑی تھیلے کے اندر ڈالی اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر جب تک اس نے اپنے کان میں اثکی ہوئی بیڑی نکال کر سلگائی تب تک اس کا بیٹا رمو بھی اپنا ’’کام‘‘ ختم کر کے تھیلے کے
سرے کو ستلی کی مدد سے بند کر چکا تھا۔ جھونپڑے کے اندر ایک نا قابل برداشت بو پھیلی ہوئی تھی۔ مگر یہ دونوں گورکن باپ بیٹے اس بدبو سے بے نیاز تھے۔ بوڑھے رحیمو نے نصف بیڑی پینے کے بعد رمو کی طرف بڑھائی اور کانپتے ہوۓ بولا۔’’اس بار تو صرف ایک تھیلا بھر سکا ہے۔ اب اس موٹے گورکھے کی جھاڑ تو ہی سننا" رمو نے جوابا بیڑی کا کثیف دھواں فضا میں اگلا اور بولا ۔’’ تو ہم کیا کریں بابو.؟ جتنی ہڈیاں جمع ہوسکیں ہم نے کر دیں۔ اب ہم اپنی ہڈیاں تو اس تھیلے میں بھر کر دینے سے رہے بیٹے کی بات سن کر بوڑ ھے رحیمو کو غصہ آ گیا اور بولا۔’’ تجھے پھاگن رلیاں منانے سے فرصت ملے تو ہڈیاں جمع ہونگیں ناں. سارا دن تو تو ممبا دیوی کے مندر کے چکر لگا تا رہتا ہے۔ بھلا تیرا ہندوؤں کے مندر میں کیا کام؟“ باپ کی بات سن کر رمو جیسے چٹخارا بھر تے ہوئے بولا ۔’’ارے بابو.... میں تو وہاں گونگلو اور اچار کھانے جا تا ہوں ۔ سچ بابو. بڑے مزے کے ہوتے ہیں.... میرے تو منہ میں پانی بھر آیا۔‘‘
"بس، بس. پتہ ہے مجھے تو وہاں کس واسطے جا تا ہے... سارا دن ودوا - ناریوں کو دیکھتا ہے وہاں جا کر‘‘ رحیمو نے ہاتھ نچا کر کہا تو رمو جھینپ کر کھی کھی کرنے لگا
پھر ٹھیک اسی لمحے جھونپڑی کے باہر ہلکی سی آہٹ ہوئی اور ٹاٹ کے جھولتے پر دے کا نچلا سرا ذرا سرکا اور ایک موٹے جنگلی بلے جیسے جانور کا خوفناک چہرہ نمودار ہوا. کوئی اور ہوتا تو اس کریہہ صورت جانور کو دیکھ کر خوف سے سمٹ جاتا مگر رمو نے اسے دیکھتے ہی بڑے معنی خیز انداز میں اپنی بانچھیں پھیلا دیں اور پچکار کر اس بد ہیئت جانور کو اندر بلالیا۔ وہ بھی شاید اس انداز سے مانوس تھا لہذا فورا ہی اندر آ گیا۔ یہ لگ بھگ ساڑھے چار فٹ لمبا بجو تھا جو اب رمو کی گود میں اپنا سر رگڑتے ہوۓ وسط میں رکھے انسانی ہڈیوں سے بھرے تھیلے کو بھو کی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔ رمو بڑے پیار سے اس کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا ۔
"کچھ نہیں ہے اس تھیلے میں. اس کا سارا گوشت تو تو پہلے ہی نوچ کر چٹ کر چکا ہے"
اس کی بات شاید بجو نے سمجھ لی تھی۔ اب وہ جس پر اسرار انداز میں وارد ہوا تھا. اسی طرح ایک انگڑائی لیتے ہوئے خاموشی سے باہر نکل گیا۔ اس کے نکلتے ہی رحیمو پہلی بار توصیفی لہجے میں اپنے بیٹے سے بولا۔
"ساری جندگی (زندگی میں تو نے ایک یہی ڈھنگ کا کام کیا ہے رے... کہ اس آدم خور کوسدھار لیا ہے۔“
ہاں بابو. ورنہ جس قسم کا کام ہم کرتے ہیں اس کے بغیر تو بڑی مشکل ہو جاتی ہمیں۔۔۔‘ رمو نے باپ کی تائید کی۔
مگر اس کی ایک بات خراب ہے۔‘‘ رمو بولا۔” جب یہ زیادہ بھوکا ہوتا ہے تو کمبخت قبر سے مر دہ نکال کر گوشت کے ساتھ اس کی ہڈیاں بھی چبا ڈالتا ہے۔‘ رمو نے باپ کی بات پر کوئی تبصرہ نہ کیا پھر تھوڑی دیر گزری تھی کہ با ہر انہیں کسی کے مخصوص انداز میں کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ اس آواز پر دونوں ہی ٹھٹھکے تھے۔
آ گیا وہ موٹا گورکھا۔ ریمو کے منہ سے بے اختیار نکلا پھر اس نے بیٹھے بیٹھے بلند آواز میں اسے پکارا۔" آ جاؤ لالہ جی۔ اپنا مال لے جاؤ اندر آ کر“ اس کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ معا ٹاٹ کا پردہ ہٹا اور ایک موٹا سا تو ندیل شخص اندر داخل ہوا جس نے خاکی رنگ کی ڈھیلی ڈھالی پتلون پہن رکھی تھی۔ اندر داخل ہو تے ہی اس نے اپنی ناک پر رومال رکھ لیا تھا۔ شاید اندر پھیلی ہوئی ناگوار بو نے اس کے دماغ کی رگیں جلا ڈالی تھیں۔ وہ خاصا عجلت میں دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن اس کی نظر تھیلے پر پڑی تو وہ بولا ۔
یہ کیا..؟ صرف ایک
ہاں لالہ جی.! آج تو ایک ہی لے جاؤ۔ اگلی بار دو، تین دے دیں گے ‘‘ اس بار رمو نے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔ پھر جب اس نے زمین سے وہ ہڈیوں کا تھیلا اٹھا کر اپنی جیب سے چند بڑے نوٹ نکالتے ہوۓ رمو کی طرف بڑھاۓ تو وہ خاصے شکایتی لہجے میں دونوں باپ بیٹوں کو مخاطب کر کے بولا۔
پچھلی بار تم نے مجھے بہت پرانا مال دیا تھا
بلکل خستہ ہڈیاں تھی نکالتے نکالتے ہی بھر بھرا کر ٹوٹ گئی تھیں ۔“
اس کی بات سن کر رحیمو جیسے جان چھڑاتے ہوۓ اس سے بولا۔ "لالہ جی.! فکر نہ کرو. اس بار مال تازہ ہے۔ اس لئے یہ شکایت نہ ہووے گی “ تھوڑی دیر بعد گورکھا ناگواری سے اپنا سر جھٹکتا ہوا جھونپڑی سے نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی دونوں باپ بیٹوں نے بھی سونے کی ٹھانی اور وہیں میلی سی بوسیدہ دری بچا کر لیٹ گئے ۔
بوڑھے رحیمو کا یہ جدی پشتی پیشہ تھا۔ قبریں کھودنا. لیکن پچھلے کچھ عرصے سے اس نے اپنے اس پیشے کو داغدار کر ڈالا تھا۔ کچھ اس لئے بھی کہ اب اس کام میں اس کی گزر بسر نہیں ہو پاتی تھی ۔ اس کی بیوی ایک طویل مرض سے لڑتی سسکتی بالآخر زندگی ہار بیٹھی تھی۔ اس کے علاج معالجے کے لئے رحیمو کے پاس پیسے نہ تھے ۔ رمو بھی اس وقت ناسمجھ تھا۔ جب رحیمو کو خود اپنی بیوی کی قبر کھودنا پڑی تو اس کے ہاتھ زندگی میں پہلی بار قبر کھودتے وقت کپکپار ہے تھے... لیکن جیسے تیسے اس نے اپنی بیوی کے لاشے کو دفتایا، پھر انہی دنوں جب اس نے اپنے اس منحوس پیشہ گورکنی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہنے کا ارادہ کیا تو ایک دن رات کو ایک موٹا گورکھا اس کے پاس آیا اور اسے ایک پراسرار اور گھناؤنے کام کی ترغیب دیتے ہوۓ بدلے میں بہت سے روپوں کا لا پچ دیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے’’کام‘‘ سے پہلے ہی خاصی رقم پیشگی بھی تھما دی تھی ۔ بس پھر کیا تھا. رحیمو نے ایک بار پھر پھاؤڑا اور کدال سنھبال لیا تھا. لیکن اب وہ مردے دفنانے کے ساتھ ساتھ ایک گھناؤ نا کام کرنے لگا تھا۔ وہ رات کی پراسرار تاریکی میں قبریں کھود کر مردوں کی ہڈیاں نکال کر جمع کرنے لگا۔ ٹھیک سات دن بعد وہ گورکھا آ کر اس سے انسانی ہڈیوں کا تھیلا لے جاتا اور ایک خاصی رقم اس کی جھولی میں ڈال جاتا تھا۔ رحیمو نے پہلے تو یہی سوچ کر اس گھناؤنے کام کی ابتداء کی تھی کہ کچھ رقم جمع کرنے کے بعد وہ یہ دھندا چھوڑ دے گا۔ لیکن اسے ابناس’’ کام‘ کا ایسا چسکا پڑا تھا کہ وہ اسے ترک نہیں کر سکا بلکہ اب اس نے رفتہ رفتہ اس
’’کام‘‘ میں اپنے بیٹے رمو کو بھی شامل کر لیا تھا۔ وہ گورکھا ان ہڈیوں کا کیا کرتا تھا.. یہ دونوں باپ بیٹا نہیں جانتے تھے۔ ایک بار رمو نے یونہی موٹے گورکھے سے پوچھ لیا تھا کہ وہ ان انسانی ہڈیوں کا کیا کرتا ہے؟ تو جوابا اس نے گھور کر اسے کرخت لہجے میں کہا تھا۔ بٹو. اپنے کام سے کام رکھ۔ تاہم پھر اس نے مکروہ بنسی کے سے انداز میں سرسری سا بتا بھی دیا تھا کہ وہ ان ہڈیوں کو ڈاکٹری پڑھانے والے کالجوں کو فروخت کرتا
شروع شروع میں تو دونوں باپ بیٹے خوب ’’مال‘‘ جمع کر کے گور کھے کے حوالے کرتے رہے لیکن پھر رفتہ رفتہ یہ مال کچھ ناپید سا ہونے لگا تھا۔ ظاہر ہے روز تو مر دے دفن نہیں ہوتے تھے۔ جو پچھلے تھے، وہ یہ لوگ ادھیٹر چکے تھے... اب ’’مال‘‘ حاصل کرنے کا زیادہ تر انحصار نئے فن ہونے والے مردوں پر تھا۔ ان کا ماس ( گوشت و آلائش) ادھیڑ نے میں انہیں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تا.لیکن یہ مسئلہ بھی قبرستان کے بجو نے حل کر ڈالا تھا۔ رمو نے جانے کس طرح اسے سدھا لیا تھا۔ اب جیسے ہی کوئی نئی لاش دفن ہوتی ، یہ دونوں باپ بیٹے آدھی رات کے وقت قبر پر پہنچ جاتے۔ بجو بھی ان کے ہمراہ چیتے کی طرح انگڑائیاں لیتا ہوا خراماں خراماں چلا آ تا اور بڑی صفائی سے قبر کے اندر جھانکتا اور اپنی تھوتھنی میں مردے کے پاؤں کے انگوٹھے کو دبوچ کر اسے پورا کا پورا باہر نکال لا تا اور جلدی جلدی سارا گوشت چٹ کر جا تا ۔ پھر اس کے بعد دونوں گورکن باپ بیٹے ہڈیوں کے اس پنجر کو اپنے ساتھ لے جاتے۔
اساڑھ شروع ہو چکا تھا۔ یہ درمیانے موسم کی رات کا ذکر تھا۔ رحیمو اور رمو دم بخود سے بیٹھے پر ہول سناٹے میں بیڑی پی رہے تھے کہ اچا نک جھونپڑی کے باہر کچھ لوگوں کے باتیں کرنے کی آوازیں ابھریں، پھر ساتھ ہی کسی نے زور سے پکارا۔’’ارے بھئی کوئی ہے اندر قبر کھدوانی ہے۔ میت آئی ہے۔ یہ آواز سن کر اندر بیٹھے دونوں باپ بیٹوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ پھر ریمو کھانستا ہوا باہر نکلا تو چند لوگوں کو باہر کھڑے پایا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں لالٹینیں بھی تھیں ۔
کدھر کھدوانی ہے قبر رحیمو نے اپنے لہجے میں بیزاری سموتے ہوۓ کہا۔
ارے بھئی ہمیں کیا پتہ. جگہ تو تم ہی بتاؤ گے ۔‘ ایک شخص نے جوابا کہا تو رحیمو سر ہلا تا ہوا دوبارہ جھونپڑی میں آیا اور بیٹے سے بولا۔’’ چل اٹھ .. لاش آئی ہے۔ اٹھا پھاوڑا۔ اس کے لہجے سے دبی دبی مسرت عیاں تھی ۔
اس کے بعد رحیمو نے ایک بدنما بانس پر جھولتی ہوئی لالٹین اٹھائی اور باہر آ کر ایک شخص سے بولا ۔’’ آؤ... میرے ساتھ .. ادھر کونے میں ایک جگہ خالی ہے “ مذکورہ شخص نے اس کی بات سن کر پھر اپنے ساتھ کھڑے کچھ لوگوں کو میت لانے کا کہا جو انہوں نے قریب ہی رکھی تھی ۔ پھر یہ سب لوگ بوڑھے رحیمو کے عقب میں چل پڑے
پھر مطلوبہ جگہ پہنچ کر یہ لوگ رک گئے ۔ رمو بھی ان سے آ ملا تھا۔ چند قبروں کے بیچ ایک جگہ خالی تھی۔ رمو اپنے کام میں جت گیا۔ باقی سارے لوگ دائرے کی صورت - میں کھڑے ہو گئے ۔ان سب لوگوں کے چہروں پرنم ناک خاموشی طاری تھی۔ دونوں باپ بیٹے مل کر قبر کھودنے میں مصروف تھے ۔ بھیدوں بھری ڈراؤنی رات دبے پاؤں گزر رہی تھی ۔ فضا کے ہولناک سناٹے میں ہوائیں بین کرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ پھر جب لاش کو لحد میں اتارا جانے لگا تو وہاں موجود چند غم زدہ لوگ بے اختیار رو پڑے۔ انہیں لاش کا آخری دیدار کرایا جا رہا تھا۔ لاش کو قبر میں اتارنے کے بعد سب نے مل کر اس پر مٹی ڈالی اور پھر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر لوٹ گئے ۔ رحیمو اور رمو بھی اپنا سامان سمیٹ کر جھونپڑی میں آ گئے ۔۔ دونوں نے تیز پتی کی چائے بنا کر پی ۔ پھر بیڑی سلگا کر دم بہ خود سے بیٹھ گئے۔ وہ شاید اپنی تھکان اتار کر خود کو اصل کام‘‘ کے لئے دوبارہ چاق و چو بند کر رہے تھے۔ اثناۓ راہ. ٹاٹ کا پردہ ہٹا اور منحوس شکل والا بجو جھومتا ہوا اندر آ کر دونوں باپ بیٹوں کو گھور نے لگا۔ تب رحیمو اپنے بیٹے سے بولا ۔’’ چل اٹھ اپنا کام کر . پہلے دن کام نمٹانا آنسان ہوتا ہے
رمو نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے تھیلا سنبھالے اٹھ کھڑا ہوا۔ رحیمو نے ختم ہوتی بیڑی کے جلدی جلدی دو تین کش بھرے اور ٹوٹا پاؤں تلے مسل کر باہر آ گیا۔
رمو بھی لالٹین اٹھاۓ اس کے ساتھ ہولیا۔ بجو کی چندی چندی آنکھوں میں عجیب پراسراری چمک ابھری. اور وہ بھی جنگلی بلے کی طرح انگڑائی لے کر چل دیا۔ ذرا دیر بعد ہی یہ سب اس تازہ قبر کے پاس موجود تھے۔ بجو نے سب سے پہلے اپنا ’’کام‘ سرانجام دیا۔ ذرا دیر بعد ہی وہ لاش کو انگو ٹھے سے اپنے پاؤں میں دباۓ قبر سے باہر کھینچ لایا۔ رحیمو اور رمو نے جلدی جلدی لاش کا کفن کھولاںوہ لاش کسی عورت کی تھی۔
اس کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ رمو کی جیسے ہی عورت کے چہرے پر نظر پڑی اس کا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ وہ چہرہ ہی ایسا تھا.... انتہائی حسین اور خوبصورت... ذرا ہاتھ لگے تو میلا ہو جاۓ ۔ ایسا حسین چہرہ اس نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ وہ ذرا دیر تک بڑی محویت سے اس کا چہرہ تکنے لگا۔ بے اختیار اس کا جی چاہنے لگا... کاش یہ زندہ ہوتی۔‘ پھر اسے اس کی موت کا بے حد دکھ ہونے لگا۔ ایسے کیا دیکھ رہا ہے۔ کیا شادی کرے گا اس سے . اتار اس کا کفن . معا اس کی سماعت سے باپ کی آواز ٹکرائی اور وہ ذرا چونکا پھر اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے لاش سے کفن اتار دیا۔ ایسے میں رمو کے ہاتھ جب اس عورت کی لاش سے ٹکراۓ تو اس کا وجود گرم محسوس ہوا۔ آج سے پہلے بھی کسی لاش کے وجود میں ایسی گرمی کا احساس نہ ہوا تھا۔ اس نے جب بھی کسی لاش کو چھوا تھا وہ برف کی طرح سرد اور کڑک ہوتی تھی۔ دہ یک دم اٹھ کھڑا ہوا اور باپ سے بولا ۔”بابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ زندہ ہے۔ اس کی بات سن کر رحیمو بیٹے کی طرف گھور کر قدرے سخت لہجے میں بولا۔’’ یہ کیا بکواس کر رہا ہے تو .. ہٹ میں دیکھتا ہوں ۔‘‘ یہ کہتے ہوۓ رحیمو نے لاش کے سینے پر ہاتھ رکھا پھر کان لگائے ۔ دل کی دھڑکنیں سننے کی کوششیں کیں مگر وہاں اسے سانسوں کا زیرو بم محسوس نہ ہوا۔ اس کے بعد اس نے لاش کی ایک آنکھ کھول کر پتلی میں جھانکا اور کھڑا ہو گیا۔
پاگل ہو گیا ہے تو ۔۔ یہ مردہ ہے ۔‘ مگر رمو نے بھی اپنی تسلی کرنا ضروری سمجھا۔ اب اسے بھی لاش میں زندگی کی ذرا بھی رمق محسوس نہ ہوئی ۔ رات دبے پاؤں گزر رہی تھی اور آسمان پر پورا طباق چاند بھی جوبن پر تھا۔ رمو بھی اب سیدھا کھڑا ہنوز محویت کے عالم میں لاش کو تکے جا رہا تھا۔ پھر جیسے ہی بجو نے لاش پر جھپٹنا چاہا.رمو نے اسے ایک زور دار لات رسید کر دی۔ بجو بلبلا تا ہوا دور جا پڑا۔ قریب کھڑا رحیمو بیٹے کی اس عجیب حرکت پر چونک سا گیا اور رمو سے درشت لہجے میں بولا۔
ارے کیا کرتا ہے۔ کیوں بجوکو مارتا ہے . نوچنے دے نا اسے گوشت.۔۔ نہیں بابو..... میں اس لاش کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔‘‘ رمو نے عجیب سے سپاٹ لہجے میں کہا اور رحیمو کو ایسا محسوس ہونے لگا جیسے اس کا بیٹا پاگل ہو گیا ہو۔ وہ اس بار حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
یہ کیا کہہ رہا ہے تو ؟‘‘
میں سچ کہ رہا ہوں او. بس میرا جی نہیں چاہ رہا ایسی سندر اور خوبصورت عورت کی لاش کی بے حرمتی کرنے کو. میں اسے دوبارہ کفن میں لپیٹ کر قبر میں اتاروں گا ۔‘ رمو نے اس بار قطعیت سے کہا تو رحیمو جھجک کر بولا۔ تجھے کیا ہو گیا ہے رے. کیا تو اس لاش پر عاشق ہو گیا ہے؟‘‘
وت کچھ بھی سمجھ لے بابو. مگر میں اس لاش کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گا۔“ ۔
رمو نے اٹل لہجے میں کہا۔۔ وہ اب عجیب انداز میں ہانپنے لگا تھا۔ رحیمو کو اپنے بیٹے پر پاگل ہونے کا شبہ ہونے لگا۔ اس نے لالٹین اٹھا کر اسے رمو کے چہرے کے ذرا قریب کیا تو وہاں اسے عجیب دیوانگی کے تاثرات نظر آۓ۔ ایک لمحے کو اس کا باپ بھی اپنے بیٹے کی اس عجیب وغریب کیفیت پر ڈر سا گیا۔ تاہم وہ ایک گہری سانس خارج کر کے چپ ہو رہا۔ ادھر وہ بجو رمو کی لات کھا کر ایک طرف کو دبک گیا تھا اور اپنی چندی چندی چمکدار آنکھوں سے رمو کی طرف غصے سے دیکھ رہا تھا۔ رمو نے اس لاش کو دوبارہ جیسے تیسے کفن میں لپیٹا اور پھر قبر میں اسے دوبارہ دفنا دیا۔ اس کے بعد اس نے قریب بیٹھے بجو کو پکڑا اور باپ کے ساتھ واپس جھونپڑی میں آ گیا۔ سب سے پہلے اس نے بجو کو ایک کونے میں رسی کی مدد سے ایک کھری چار پائی کے پاۓ سے باندھ دیا۔ رحیمو بڑے غور اور خاموشی سے بیٹے کی حرکات دیکھے جا رہا تھا۔ رمو چپ چپ سا تھا۔ اس کے بعد وہ سونے کے لئے زمین پر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کرنے کے باوجود... رمو کی نظروں سے ایک ثانیے کے لئے بھی اس عورت کی لاش کا خوبصورت چہرہ محو نہیں ہوا تھا۔
رات دبے پاؤں گزر رہی تھی۔ جانے کس پہر رمو کی آنکھ لگ گئی ۔لیکن پھر اچا نک اس کی آنکھ کھل گئی۔ سبب وہ دلدوز چیخ تھی جس نے رموکو جگا دیا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا ہو۔ چیخ قبرستان کے مشرقی حصے سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ اگلے ہی لمحے دوبارہ وہی لرزہ خیز چیخ ابھری تھی جس نے بالآخر اٹھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس نے پہلے اطراف کا جائزہ لیا تو بری طرح چونک گیا۔ وہاں نہ اس کا باپ رحیمو تھا اور نہ ہی وہ بجو، جسے اس نے چار پائی کے ایک پائے کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ دونوں کو غائب پا کر رمو ذرا ٹھٹھکا اور پھر جھونپڑی سے نکل کر دیوانہ وار چیخ کی سمت دوڑا رات کی تاریکی نے چہار اطراف ایک ہو کا عالم طاری کر رکھا تھا۔ رمو کا دل سینے میں زور زور سے دھڑک رہا تھا یوں جیسے پنجر تو ڑ کر باہر آ گرے گا۔ اوپر آسمان کے، کہیں کونے میں اٹکے ملگجے سے چاند کی مدھم روشنی میں وہ اردگرد پھیلی بدہیئت قبروں کے درمیان بنے ٹیڑھے میٹڑھے کچے راستے پر تقریبا دوڑا چلا جا رہا تھا۔ پھر وہ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر بری طرح ٹھٹھکا۔ اس کے قدم مشینی انداز میں جامد ہو چکے تھے مگر اس کا پورا وجود سر تا پا کپکپا رہا تھا۔ چہرے پر دہشت سمٹ آئی تھی۔ آنکھیں بھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ سامنے ایک دلدوز اور ہولناک منظر موجود تھا۔ وہ منظر ہی ایسا تھا، کسی ذی ہوش کے ہوش گم کر دینے والا. اس عورت کی قبر ادھڑی پڑی تھی ۔ یہ اس خوبصورت عورت کی قبرتھی جس کی لاش کی بے حرمتی کرنے سے رمو نے اپنے باپ کوسختی سے منع کر دیا تھا۔ بجو اور باپ کو جھونپڑی سے غائب پا کر رمو کے دل میں پہلا خیال یہی ابھرا تھا کہ اس کے باپ نے اس کے
سوتے ہی بجو کو لے کر اپنا ’’کام‘‘ شروع کر دیا ہوگا۔ مگر یہاں کا تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ ادھڑی ہوئی قبر سے اس حسین عورت کی لاش نکالی جا چکی تھی جو پاس ہی بے سدھ انداز میں چاروں شانے چپت مگر صحیح سالم پڑی تھی۔ سفید بے داغ کفن اس کے حسین چہرے سے ہی نہیں. بلکہ جسم سے بھی کافی سرک گیا تھا۔ آنکھیں بند تھیں.مگر زیادہ کریہہ انگیز اور دل دہلا دینے والا منظر ایک اور تھا ۔ اس لاش کے ذرا پرے رمو کا پالتو بجو مٹی میں پڑے بے جان جسم کو بری طرح ادھیڑ رہا تھا اور یہ بے جان لاشہ رمو کے باپ رحیمو کا تھا.!
رمو کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کا پالتو بجو اس کے باپ کی ایسی حالت بھی کر سکتا ہے۔ بجو کی آنکھیں تاریکی میں تیز واٹ کے دو بلبوں کی طرح روشن تھیں۔ ایسے میں اس کا لمبوترا چہرہ اور بھی ڈراؤنا محسوس ہو رہا تھا۔ رمو اس منظر سے خوف زدہ ہو کر واپسی کی سمت دوڑا اور بالآخر اپنی جھونپڑی میں آ کر دم لیا۔ وہ پھولی ہوئی سانسوں کو ہموار کرنے کی غرض سے لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اثنائے راہ اچانک ہی باہر آسمان پر بادلوں کی خوفناک گڑ گڑ اہٹ گونجی اور ان کی آن میں موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔ ساتھ ہی رہ رہ کر بجلی بھی کڑکنے لگی ۔ تیز سراٹے دار ہواؤں کا زور بھی بتدریج بڑھنے لگا تھا۔ ٹاٹ کا پردہ تیز ہواؤں کے باعث ٹوٹ کر اندر بوسیدہ فرش پر آ پڑا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ رمو کو بری طرح ایک انجانے خوف نے جکڑ لیا تھا۔ اپنے بابو کی اندوہناک موت اور اس کی لاش کو بجو کی خوراک بننے کا دکھ بھی جانے کدھر دب گیا تھا. اپنے بابو کے عبرتناک انجام کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عنقا ہوتی جا رہی تھی ۔ باہر بدروحوں کی طرح چیختی چلاتی ہواؤں نے جانے کیوں اس کے حواس مختل کر دیئے تھے۔ وہ کسی انجانے اور نا قابل بیان خوف کے زیر اثر کپکپا رہا تھا۔ لالٹین کب کی بجھ چکی تھی۔ البتہ باہر رہ رہ کر چمکنے والی بجلی کی تیز روشنی میں جھونپڑی کے کھلے چوکھٹے کا روشن روشن سایہ بڑا پراسرار منظر پیش کر رہا تھا۔ معا پھر کیا ہوا رمو کی سہمی ہوئی خوفزدہ نگاہوں نے جھونپڑی کے دروازے پر کسی کا سایہ دیکھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے ذرا آگے کھسک کر دروازے کی سمت دیکھا تو جیسے بت بن گیا۔ مجھونپڑی کے دروازے پر اس حسین عورت کی لاش کھڑی تھی ۔کفن میں لپٹی زندہ لاش. آنکھیں اس کی بند تھیں.مگر اس کے بار یک گلابی ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ تھی۔
رمو کا تو جیسے دل رک گیا۔ سانس بھی اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی تھی۔ آنکھیں مارے دہشت کے اس قدر پھیل گئی تھیں جیسے ابھی حلقوں سے باہر ابل پڑیں گی۔ دفعتہ بجلی کا زور دار کڑکا ہوا اور لاش نے یکدم اپنی آنکھیں کھول دیں اور ادھر رمو اس دہشت ناک منظر کی تاب نہ لاتے ہوۓ ایک چیخ کے ساتھ زمین پر گرتا چلا گیا۔
رات اندھیری اور پر سکوت تھی۔ طوفان بادو باراں کے بعد قبرستان میں سناٹے اور ہو کا عالم کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہا تھا۔ اطراف کی قبروں پر ٹنڈ منڈ پیڑوں کی سوکھی شاخوں سے بارش کا پانی قطروں کی صورت لپک رہا تھا۔ رات آخری پہر میں داخل ہو چکی تھی ۔ رمو کی ”جھونپڑی سے ذرا دور مغربی سمت میں قبرستان کی چارفٹ شکتہ دیوار پر نصب لکڑی کا سالخوردہ دروازہ ہولے ہولے چرچڑا رہا
بارش کے بعد آسمان بالکل صاف اور روشن ہو گیا تھا۔ مدھم سی پراسرار چاندنی میں ایک سایہ قبرستان کے اس شکستہ گیٹ سے اندر داخل ہو رہا تھا۔ یہ جھکی جھکی کمر والا ایک باریش بوڑھا تھا جس نے لمبا چغہ پہن رکھا تھا۔ جس کے جھریوں بھرے چہرے پر ایک عجیب سا نور پھیلا ہوا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ایک تسبیح تھی اور اس کی کپکپاتی انگلیاں دانوں کو گھما رہی تھیں ۔ اس بوڑھے کے چہرے پر قدرے تشویش اور پریشانی کے تاثرات تھے۔ اس کی سفید گھنی بھنوؤں سے ڈھکی ہوئی آ نکھیں متلاشی انداز میں ادھر ادھر گھوم رہی تھیں ۔ اس کے بائیں ہاتھ لاٹھی نما عصا تھا جسے وہ قبرستان کی گیلی مٹی پر ٹیکتا ہوا اندر داخل ہو رہا تھا۔ پھر وہ ایک کھلی ہوئی کیچڑ زدہ قبر پر پہنچ کر رک گیا اور بڑے غور سے قبر کی طرف دیکھنے لگا۔ یہ اسی حسین عورت کی قبرتھی جس کے قریب ہی ایک انسانی پنجر بھی موجود تھا۔ یہ رمو کے بدنصیب باپ کی لاش تھی جس کا سارا گوشت بجو اور دیگر جانور نوچ کر چٹ کر چکے تھے۔ اس حسین عورت کی لاش غائب تھی۔ اس بوڑھے کی آنکھوں میں اب تشویش کے ساۓ مزید گہرے ہو گئے تھے۔ پھر اس کے کپکپاتے ہونٹوں سے آواز ابھری۔ یہ بہت برا ہوا. انجنا کو کس نے قبر سے نکال.۔ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔۔۔ یا اللہ حق کی خیر فر ما. باطل کو رسوا کر..۔
اس کے بعد وہ بوڑھا لاٹھی ٹیکتا ہوا غیر معمولی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ پھر وہ رمو کی جھونپڑی کے پاس آ کر رک گیا۔ اس کے بعد جب وہ جھونپڑی کے درواز ے
سے اندر داخل ہوا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ سامنے بوسیدہ زمین پر ایک انتہائی پر جمال عورت بیٹھی، رمو کا سر اپنی گود میں لئے اسے ہوش میں لانے کے جتن کر رہی ہے۔ جب اس بوڑھے پر اس عورت کی نگاہ پڑی تو وہ بری طرح چونک گئی۔ انجنا. یہ شخص معصوم ہے. چھوڑ دے اسے اور چلی چل یہاں سے دفعتا وہ بوڑ ھا درشت لہجے میں اس عورت کو مخاطب کر کے بولا ۔ انجنا نامی یہ وہی عورت تھی جسے دیکھ کر رمو بے ہوش ہو کر گر پڑا تھا۔ بوڑھے کی بات پر انجنا کے سرخ وسفید اور حسین چہرے پر پہلے برہمی پھر یکلخت معنی خیز تاثرات ابھرے اور پھر اس نے آہستگی سے پہلے رمو کا سر گود سے زمین پر تکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی اب اسکے دلکش بدن پر کفن کی بجاۓ زرق برق لباس نظر آ رہا تھا۔ وہ خاصی سرو قد اور دلنشیں خدوخال کی عورت تھی ۔ وہ اب بوڑھے کی طرف ناگن جیسی آنکھوں سے گھورتی ہوئی بولی۔ تم ہار گئے ہو... عالی شاہ! بہتر یہی ہے کہ خاموشی کے ساتھ چلے جاؤ. تمہارا ہمارا کوئی جھگڑ انہیں ہے۔
ہرگز نہیں. اے شیطان عورت.! میں اس معصوم انسان کوتم لوگوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا۔ میں پھر کہتا ہوں دفعان ہو جاؤ یہاں سے...“ بوڑھے نے جواباً انجنا سے پر جلال لہجے میں کہا
پھر دفعتاً ہی بوڑھے کو اپنے عقب میں ایک تیز قہقہا سنائی دیا۔ وہ جلدی سے اپنے عقب میں گھوما تو چونک گیا۔ جھونپڑی کے دروازے پر ایک دراز قد اور سیاہ روشخص موجود تھا۔ اس نے گیروے رنگ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ اس کے سیاہ ماتھے پر
ترشول کا تلک تھا۔ اس کی گول گول قدرے ابلتی ہوئی آنکھوں میں شیطانی چمک اور کالے بد ہیئت ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ قہقہہ اس نے ہی لگایا تھا۔ اس نے کھر کھر اتے لہجے میں بوڑھے کو مخاطب کر کے کہا۔
’’عالی شاه...! اپنی شکست تسلیم کر لو ۔ تمہاری لاکھ کوششوں کے باوجود انجنا کو اب آتماشکتی حاصل ہو چکی ہے۔ تو اب اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چلا جا خاموشی سے۔
"شیطان کی رسی خدا دراز ضرور کرتا ہے. گر چھوڑ تا نہیں ہے ۔ تم لوگوں کا انجام بھی اب قریب ہی ہے ۔ عالی شاہ نامی اس بزرگ نے پجاری کو گھورتے ہوۓ کہا اور پھر اپنا عصا سنبھالتا وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی پجاری اور انجنا نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور ان کے چہروں پر عجیب سی شیطانی مسکراہٹ رقصاں ہو گئی تھی۔ تب وہ پجاری انجنا سے تہنیتی لیجے میں بولا ۔
تمہیں نئے جیون کے ملنے کی بدھائی ہو انجنا. اب تمہارا کام آسان ہو جاۓ گا
ہاں.مبا پچاری! یہ سب تمہاری کوششوں کے کارن ہوا ہے۔ تم نے مجھ جیسی ادنی داسی کا بڑا بھلا کیا ہے۔ اب میں اپنے دشمنوں سے اچھی طرح بدلہ لے سکوں گی۔ انجنا نے ممبا پیچاری سے تشکر آمیز لہجے میں کہا مگر اس کے انداز میں آتش انتقام کی چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔
نہیں.. اس میں تمہاری تپسیا بھی شامل تھی ۔‘‘ ممبا پجاری نے کھر دری آواز میں کہا اور مزید بولا ۔’’لیکن انجنا! تمہیں پھر بھی اس بڈھے عالی شاہ سے ہوشیار رہنا ہو گا۔ کم بخت اب بھی تمہیں باندھنے کی شکتی رکھتا ہے۔ اس نے اس قبرستان کے گرد ایک حصار کھینچ دیا ہے اور تم وہ حصار توڑ کر یہاں سے نہیں نکل سکتیں ۔ تم اس چھوکرے رمو سے نہایت چالاکی سے کام لینا. اور براہ راست اس بڑھے عالی شاہ سے ٹکرانے کی بجاۓ اسے آگے رکھنا۔“ اس کی بات سن کر انجنا کے حسین چہرے پر مکارانہ مسکراہٹ عود کر آئی اور وہ ایک نگاہ بے ہوش پڑے رمو کی طرف دیکھ کر ممبا پجاری سے بولی۔
”اس کی تم چنتا نہ کرو۔۔۔ میں اسے اپنی حسین زلفوں کے جال میں اس طرح جکڑ
لوں گی کہ یہ خود ہی عالی شاہ کے خون کا پیاسا ہو جائے گا۔ تم ابھی جاؤ کہیں اسے ہم پر شک نہ ہو جاۓ۔ میں اسے ہوش میں لانے کے بعد کام پر لگاؤں گی۔‘‘ انجنا کی بات سن کر ممبا پجاری اپنے موٹے کالے ہونٹوں پر مکروہ مسکراہٹ بکھیرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
رمو کی آنکھ کھلی تو صبح نمودار ہو چکی تھی۔ اس کی جب آنکھ کھلی تو وہ اپنے سامنے ایک حسین عورت کو دیکھ کر بری طرح ٹھٹھک گیا۔ وہ اس حسین عورت کو پہچان گیا تھا۔ پہلے تو اسے اپنے سامنے زندہ سلامت پا کر خوف زدہ ہوا مگر پھر ایک خیال کے تحت اس کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس عورت کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو اتر ے ہوۓ تھے
اور لکش چہرے پر دکھ کے تاثرات کھلے ہوۓ تھے۔ وہ عورت اب سسکیاں بھرتے ہوۓ رونے لگی تھی۔ وہ چار پائی پر بیٹھی تھی۔ رموا سے روتا دیکھ کر بے چین سا ہو گیا اور پوچھا. تم کون ہو؟ اور کیوں رو رہی ہو؟“
فورا اٹھ کر اس کی جانب بڑھا اور بولا ۔
انجنا نے اپنی سیاہ اور نمناک پلکیں اٹھا کر رمو کی طرف ایک نظر دیکھا اور گلوگیر لہجے میں بولی۔’’میرا نام پروین ہے۔ میرے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ کیا. کیا تم میری مددنہیں کر سکتے ؟
اس کی بات سن کر رمو کا دل بے اختیار پسیج گیا اور وہ اپنا کپکپاتا ہوا ایک ہاتھ اس کے کاندھے پر آہستگی سے دھر تے ہوۓ بولا۔. تمہارے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے. مجھے بتاؤ. میں تمہاری ضرور مدد کروں گا ۔“
انجنا نے یک دم خوش ہو کر کہا اور رمو کا ہاتھ اپنے نرم و نازک ہاتھوں میں لے لیا۔ ایک حسین و جمیل عورت کا قرب رمو کو شاداں کئے دے رہا تھا۔ انجنا اپنے چہرے پر گہری غمناکی طاری کرتے ہوۓ بتانے لگی ۔’’میں ایک غریب باپ کی بیٹی ہوں. اور مجھ سے دھوکے سے ایک سندر داس نامی شخص نے شادی کر لی تھی۔ اور جب اس کا دل مجھ سے بھر گیا تو اس نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ مجھے مردہ سمجھ کر اس نے یہاں زندہ گاڑ دیا لیکن...‘ اتنا کہ کر وہ دوبارہ سکنے لگی تو رمو کا دل بھی بھر آیا اور وہ ملائمت سے بولا ۔
لیکن کیا؟
سندر داس کا ایک بوڑھا جاسوں میری جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ اس نے مجھے یہاں زندہ سلامت دیکھ لیا ہے۔ اب وہ سندر داس کو ساری حقیقت بتا دے گا اور پھر وہ مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا۔. یہ بوڑھا. جادو کا ماہر ہے۔ تم بالکل مت گھبراؤ پروین۔ میں ہوں ناں۔ میں تمہاری خاطر اپنی جان بھی قربان کر دوں گا۔ رمو نے جوشیلے لہجے میں کہا اور انجنا کی آنکھیں یک دم چمک اٹھیں اور وہ بے اختیار رمو کے قریب ہو گئی۔ رمو اس کی گھنیری زلفوں کی ہوشر با مہک سے بے حال سا ہونے لگا۔ ک.... کیا تم مجھ سے شادی کرو گے... مجھے... مجھے ایک سہارے کی ضرورت ہے۔ مجھے پورا یقین ہے تم جیسے بہادر نو جوان کی بیوی بن کر میرا کوئی کچھ نہیں اڑ سکتا
اس کی بات سن کر رمو پر جیسے شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہونے لگی۔ وہ خواب وخیال میں بھی ایسی حسین عورت کو حاصل کرنے کی تمنا نہیں کر سکتا تھا۔ ”ہاں...ہاں. میں تم سے ضرور شادی کروں گا۔ اس نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔ انجنا کے ہونٹوں پر جوابا دلآویز مسکراہٹ پھیل گئی اور آنکھوں میں ایک خاص چمک ابھر آئی ۔مگر پھر وہ اپنے لہجے میں تشویش لا تے ہوۓ بولی۔’’لیکن مجھے.. اس بوڑھے جادوگر سے ڈر لگتا ہے۔ اس نے مجھ پر عمل کر کے... مجھے اسی قبرستان کی چار دیواری تک محصور کر دیا ہے۔ ظاہر ہے... ہمارا نکاح... اس قبرستان میں تو نہیں ہو سکتا ناں... یہ کام تو. یہاں سے نکلنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ انجنا نے نہایت مکارانہ ناز و انداز سے کہا اور رمو کی جوش و غصے کے مارے سانس پھولنے لگی۔ یہ سب مکار انجنا کے لہجے کی کارستانی تھی۔
ایک حسین و جمیل عورت کے منہ سے رموکو’’بہادر نو جوان‘‘ کا خطاب ملنا اور پھر شادی پر رضا مند ہونا ، ایسے میں رمو کا سینہ پھول جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی ۔ لہذا رمو جوشیلے لہجے میں اپنا سینہ تان کر بولا ۔
”پروین.! تم فکرمت کرو۔ میں ہوں ناں. میں اس بوڑھے جادوگر سے اچھی طرح نمٹ لوں گا۔‘‘ اس کی بات سن کر مکار انجنا کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ پھر ذرا دیر بعد رموقدرے شرماتے اور لجاتے ہوۓ انداز سے بولا ۔ کیا واقعی تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘
رموکو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔ پروین (انجنا ) جیسی حسین و جمیل عورت اس کی بیوی بننے کو تیار تھی ۔ رمو کی بات پر انجنا نے ایک خاص ادا کے ساتھ اس کی جانب دیکھا
اور رمو نے اس کی خوبصورت آنکھوں میں خمار آلود پیغام کو محسوس کر کے اپنی نظریں جھکا دیں...تو انجنا ایک قاتل ہنسی ہنس کر بولی۔
رمو..! میری بات کا یقین کرو۔ میرا بس چلے تو میں ابھی تمہارے ساتھ جا کر کسی قریبی مسجد میں نکاح پڑھوا لوں.مگر جب تک وہ بوڑھا جادوگر ختم نہیں ہو جا نا ہماری شادی نہیں ہوسکتی ‘‘
”ٹھیک ہے۔. تم بے فکر رہو پروین۔ اسے آنے دو۔ میں اس سے نمٹ لوں گا اچھی طرح.‘‘ رمو نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔
درحقیقت وہ اب بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس بوڑ ھے عالی شاہ سے نمٹنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا جو ان کے بیچ دیوار بنا ہوا تھا۔ رمو کا دل بے چین ہوا جا رہا تھا۔ اس نے کچھ سوچتے ہوۓ انجنا سے کہا۔
”پروین.! ہوسکتا ہے اس بڈھے نے تمہیں یونہی ڈرایا ہو۔ آؤ... میرے ساتھ۔ ہم ابھی یہاں سے نکل چلتے ہیں۔
انجنا نے ایک نظر اس کی جانب دیکھا۔ یک ثانیے اس کے چہرے پر سوچ کی لکیریں ابھریں اور پھر وہ اس کے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئی۔ رمو اور انجنا. دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ قبرستان کے شکتہ گیٹ پر پہنچ کر رک گئے۔ رمو نے قدرے چونک کر انجنا کی طرف دیکھا۔ انجنا کے حسین چہرے پر عجیب سا خوف اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ رک کر خوفزدہ سی نظروں سے نیچے زمین کی طرف تکنے گی۔
کیا ہوا پروین؟ آؤ..... ڈرونہیں۔ میں ہوں نا ساتھ۔‘ رمو نے اس کا حوصلہ بڑھایا تو پروین (انجنا ) نے ڈرتے ڈرتے ایک قدم گیٹ سے باہر نکالا تو اگلے ہی لمحے وہ ایک تیز چیخ کے ساتھ اچھل کر پیچھے کی جانب یوں جا پڑی جیسے اس کو کسی نے زور سے دھکا دیا ہو۔
رمو بھی ایک لمحے کو پریشان سا ہو گیا۔ انجنا کو یوں گرتے دیکھ کر وہ بھی کافی حد تک
خوفزدہ سا ہو گیا تھا۔ مگر ایک خوبصورت عورت کے سامنے وہ اپنا خوف ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ بھی ایسی عورت کے سامنے جو اس کے ساتھ بیاہ کرنے پر تیارتھی ۔ لہذا وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوۓ بجلی کی سرعت کے ساتھ زمین پر گری انجنا کی طرف لپکا۔
پھر انجنا کوسنھالنے کے دوران اس نے دیکھا کہ اس کا ایک پاؤں ایڑی کی طرف سے جھلس کر سیاہ پڑ چکا تھا۔ انجنا کے گورے چٹے پاؤں کی یہ حالت دیکھ کر پہلی بار رمو کے دل و دماغ میں بوڑ ھے جادوگر کے خلاف نفرت کا الاؤ سلگا۔ دیکھ لیا نا تم نے. بوڑھے نے کس طرح اپنے جادو کے ذریعے میرا یہاں سے نکلنا ناممکن بنا رکھا ہے۔ اگر میں نے پھر دوبارہ اس منحوس قبرستان سے باہر قدم نکالنے کی کوشش کی تو جل کر راکھ ہو جاؤں گی۔ انجنا نے تقریبا کراہتے ہوۓ روہانسی آواز میں کہا۔
بھلا رمو کو یہ کیونکر منظور ہوتا کہ انجنا جیسی حسین عورت کا یہ حشر ہو۔ لہذا اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی کے آثار نمایاں ہونے لگے اور دل ہی دل میں بڑھے جادوگر کو ٹھکانے لگانے کے منصوبے پر غور کرنے لگا۔ میں اسے اب ہلاک کر کے ہی دم لوں گا تم فکر نہ کرو پروین. رمو نے مضبوط اور اٹل لہجے میں کہا اور انجنا کو سہارا دیتے ہوئے واپس جھونپڑی میں لے آیا۔
مکار انجنا کے خوبصورت گورے گورے پاؤں پر دھبہ دیکھ کر رمو کا غصہ آسمان کو چھونے لگا تھا اور انجنا پر اسے ترس بھی آنے لگا تھا۔ بہر طور اب تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس بوڑھے جادوگر کو ہلاک کر کے ہی چھوڑے گا۔ وہ اسے اپنی راہ کا کانٹا سمجھنے لگا تھا۔
اس اثناء میں رمو نے کچھ پتوں کا لیپ تیار کر کے انجنا کے جلے ہوۓ پاؤں پر مل دیا اور پھر کچھ سوچ کر بولا ۔’’پروین... ایک بات تو بتاؤ، کیا مجھ جیسا ایک عام آدمی اس بوڑھے جادوگر کو ہلاک کر سکے گا؟‘‘
بالکل تم یہ کام کر سکتے ہو ۔ بلکہ تم ہی تو اسے ہلاک کرنے کی سکت رکھتے ہو۔“ اس کی بات پر انجنا فورا بولی اور پھر جیسے اچانک اسے احساس ہوا کہ اسے دوسرے طریقے سے رمو کو جواب دینا چاہئے تھا تا ہم تیر کمان سے نکل چکا تھا لہذا رمو اس کی بات پر قدرے چونک کر انجنا سے بولا ۔ ” کیا مطلب...؟ میں بھلا ایک جادوگر کو ہلاک کرنے کی کس طرح سکت رکھتا ہوں؟‘‘ رمو نے کہا اور پھر جیسے اپنی بات پر اسے سبکی اور بزدلی کا احساس ہوا تو وہ دوبارہ بولا ۔’’بہر حال..تم مت گھبراؤ پروین... میں اس کا پتا صاف کر کے ہی دم لوں گا۔
اس کی بات سن کر مکار انجنا نے اطمینان کا سانس لیا اور مخموری مسکراہٹ کے ساتھ رمو کی جانب تکنے لگی۔ پھر لوہا گرم دیکھتے ہوئے اس کے قریب آئی اور بولی ۔’’یہ سب ضروری ہے رمو. کیونکہ اس بوڑ ھے جادوگر کے مرنے کے بعد ہم دونوں شادی کر سکتے ہیں ۔ نہیں تو وہ کمینہ سندر داس اس بوڑ ھے جادوگر کی مدد سے مجھے ہلاک کروا دے گا۔‘‘ رمو اب سنجیدگی سے عالی شاہ کوقتل کرنے کے منصوبے پر غور کرنے لگا۔
جاری ہے
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں