سفرینا ۔ سلسلہ وار کہانی ۔ قسط نمبر 03

قسط نمبر 03

اس وقت رات کے دس بج رہے تھے اور سکندر شہر کے سرکاری ہسپتال کے قریب والی سڑک پر پنڈت کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔سکندر نے وقت گزاری کے لیے جیب سے سگریٹ اور لائیٹر نکالا ۔۔جیسے ہی لائیٹر سے شعلہ چمکا۔۔سکندے نے اپنی جانب قدموں کی آہٹ محسوس کی۔۔۔ایک ھیولا سا تھا جو سکندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔شاید پنڈت ہوگا۔۔یہ سوچ کر سکندر نے لائیٹر کے شعلے کو بجھا دیا۔۔۔
بالک میں نے دیر تو نہیں کر دی۔۔۔۔؟
نہیں بابا۔۔۔۔مجھے بھی آئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہیں۔۔۔اب آپ بتائیں کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔
تم اپنے ساتھ بوری تو لے آئے ہو نا۔۔۔۔؟
جی ۔۔یہ رہی۔۔۔سکندر نے پلاسٹک کی بوری پنڈت کے سامنے کر دی جو وہ گھر سے لے آیا تھا۔۔۔
شاباش بالک۔۔۔اچھا اب خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے آؤ اور یاد رہے آواز نہیں نکالنی۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔
پنڈت نے ہسپتال کے ساتھ والی گلی میں قدم رکھا۔۔۔چونکہ رات کا وقت تھا چاند نہ ہونے کی وجہ سے گھپ اندھیرا تھا۔۔لیکن ہسپتال کی عقبی دیوار کے ساتھ موجود بجلی کی کھمبے پر ایک سو والٹ کا بلب جل رہا تھا ۔۔جس کی وجہ سے ان دونوں کا ایک ھیولا سا بنا ہوا تھا۔۔پنڈت ک رخ بھی اس کھمبے کی جانب تھا۔۔۔۔جیسے جیسے وہ دونوں کھمبے کے قریب ہو رہے تھے ویسے ہی ان دونوں کے خدو خال واضح ہو رہے تھے۔۔۔دو سو قدم چلنے کے بعد اب وہ کھمبے کے نیچے پہنچ چکے تھے اور وہیں پر ہسپتال کی دیوار ختم ہو رہی تھی۔۔جیسے ہی وہ کھمبے کی دائیں جانب مڑے۔۔لوہے کا ایک چھوٹا سا دروازہ انکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔حیرت کی بات یہ تھی کہ رات کے اس پہر بھی وہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔شاید یہ ہسپتال کا عقبی دروازہ تھا جو ملازم استعمال کرتے تھے۔۔پنڈت نے آہستہ سے دروازہ کے ایک پٹ کو مکمل کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔۔سکندر بھی اس کے پیچھے بغیر آواز پیدا کیے اندر داخل ہو گیا۔۔۔ہسپتال کے عقبی جانب کو کھمبے کے بلب نے روشن کر رکھا تھا۔۔۔اس لیے ہسپتال میں اچھی خاصی روشنی تھی۔۔ یہ ہسپتال کی پارکنگ والی جگہ تھی اور اس وقت ایک پرانی ایمبولنس پارکنگ میں کھڑی ہوئی تھی۔۔۔پنڈت نے پارکنگ کی جانب قدم بڑھائے اور سکندر بھی اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔۔۔ایمبولنس کے قریب پہنچ کر پنڈت نے سکندر کو اشارہ کیا اور سکندر پنڈت کے قریب ہو گیا۔۔۔
بوری مجھے دو اور یاد رہے جب تک میں واپس نہ آؤں کوئی آواز نہیں نکالنی۔۔
سکندر نے ہاں میں گردن ہلانے میں ہی عافیت جانی۔۔پنڈت نے بوری لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے اور سکندر نے بوری پنڈت کو تھما دی۔۔۔
پنڈت سکندر کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا ۔۔اب سکندر تھا اور ویران ہسپتال ۔۔سکندر سوچ رہا تھا کہ اگر اس وقت کوئی انسان یہاں آ گیا تو وہ کیا جواب دے گا کہ کیوں وہ یہاں کھڑا ہوا ہے۔۔لیکن شکر ہے اب تک کوئی انسان نظر نہیں آیا تھا۔۔۔سکندر کا دل کر رہا تھا کہ سگریٹ جیب سے نکال کر سلگائے لیکن پنڈت کی ہدایت تھی کہ کوئی آواز نہیں نکالنی۔۔ایسا نہ ہو کہ لئیٹر کی آواز یا روشنی سے کوئی اس طرف آ جائے اس لیے خاموش کھڑا رہنا ہی بہتر تھا۔۔۔ابھی سکندر یہ سوچ ہی رہا تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دی جسے سن کر سکندر ایمولنس کے پیچھے چھپ گیا ۔۔قدم ایمبولنس کے قریب آ کر رک گئے۔۔۔
کہاں ہو بالک۔۔۔پنڈت کی سرگوشی سنائی دی۔۔
یہاں۔۔۔سکندر پنڈت کی آواز سن کر ایمبولنس کے پیچھے سے باہر نکل آیا۔۔۔پنڈت کے کندھے پر وہی بوری تھی جو سکندر نے اسے دی تھی۔
شاید اس میں بچے کی مردہ لاش ہو۔۔۔سکندر نے سوچا۔۔۔
اب چلو یہاں سے۔۔۔کوئی آواز پیدا مت کرنا۔۔۔اور یہ پکڑو۔۔
پنڈت نے بوری سکندر کو تھما دی۔۔بوری کا وزن بڑھ چکا تھا جسے سکندر نے اپنے کندھے پر ڈال دیا ۔۔
سکندر لمبے لمبے قدم اٹھاتا پنڈت کے پیچھے چل پڑا۔۔اس وقت سکندر کے دل کی دھڑکنے کی رفتار بہت تیز تھی۔۔ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔۔پسینے کے موٹے موٹے قطروں نے قمیض بھی گیلی کر دی تھی۔۔۔لیکن حیرت ہے پنڈت کی چال میں بلا کا اطمینان تھا۔۔۔اس کا چہرہ پر سکون لگ رہا تھا۔۔۔اس وقت وہ ہسپتال کا عقبی دروازہ کراس کر کے کھمبے کے نیچھے پہنچ چکے تھے۔۔۔
اب یہاں سے تم اپنی سڑک پکڑو اور میں دوسری سمت پکڑتا ہوں۔۔تمہیں میں اسی جگہ ملوں گا جہاں تم نے چلہ کرنا ہے۔۔یاد رہے ۔۔تمہارے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔اور تم نے باقی کا سامان بھی اٹھا لیا ہے نا؟؟ پنڈت ابھی بھی ہلکی آواز میں بات کر رہا تھا
جی ۔۔۔آپ نے جو جو چیزیں بتائی تھیں میں نے سب اٹھا لی ہیں۔۔۔
شاباش۔۔بس اب چلو ۔۔میں تمہیں وہیں ملتا ہوں۔۔۔
یہ کہہ کر پنڈت نے اپنا رخ سڑک کی بائیں جانب کر لیا اور سکندر نے دائیاں راستہ پکڑ لیا۔۔۔
اب یہ کہاں جائے گا؟؟؟ سکندر نے دل میں سرگوشی کی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاطر کو رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔۔اس نے وزیر کرکوس کو تو کہہ دیا کہ پوری دنیا میں کہیں بھی کوئی چلہ کر رہا ہوگا وہ وہاں جائے گا اور دیکھے گا کہ چمکتی بجلی وہاں نظر آ تی ہے یا نہیں لیکن اب اسے اپنی بیوقوفی پر غصہ آ رہا تھا ۔۔۔کیونکہ اس طرح معلوم کرنے میں بہت وقت ضائع ہو گا۔۔۔
شاطر نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وزیر کرکوس نے اس بارے میں شاہ جنات کو تو نہیں بتا دیا اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور لمبا سا سانس لے کر وزیر کرکوس کے جسم کی خوشبو کو اپنے دماغ میں محسوس کرنے لگا۔۔۔چند سیکنڈ نہیں گزرے کہ وزیر کرکوس اس کے سامنے نظر آگیا۔۔۔وزیر کرکوس کہیں شاطر کی خوشبو نہ سونگھ لے اس لیے اس نے وزیر کرکوس سے تھوڑا فاصلہ رکھا۔۔۔ اس وقت وزیر کرکوس اپنی آرام گاہ میں لیٹا ہوا تھا۔۔۔یہ۔ دیکھ کر شاطر نے خوشبو سونگھنے کا سلسلہ منقطع کر لیا اور آنکھیں کھول لیں۔۔۔
وزیر کرکوس تو سو رہے ہیں۔۔اب کیسے پتا چلے گا کہ انہیں نے شاہ جنات سے بات کی ہے یا نہیں۔۔۔۔؟ شاطر نے خود کلامی کی
جیسے اندھیرے کمرے میں بلب چمکتا ہے ویسے ہی شاطر کے دماغ میں روشنی چمکی۔۔
اگر میں وہیں اس روشنی کا انتظار کروں جہاں میں اسے چھوڑ آیا تھا۔۔ہو سکتا ہے وہ روشنی ابھی وہیں ہو۔۔جیسی ہی وہ روشنی باہر نکلے گی۔۔میں اسکا پیچھا کر لوں گا اور پھر اس کا راز معلوم کر لوں گا۔۔۔ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔شاطر نے اپنے ہی سوال کا خود جواب دیا۔۔۔
ارے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔شاطر نے اپنے سر پر تھپکی ماری اور پھر اس نے اس سمندر کا سوچنا شروع کیا جہاں اس نے چمکتی روشنی کو چھوڑا تھا۔۔۔اب اس کی منزل وہ سمندر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفرینا نے شیطان اعظم کو گردن ہلا کر سلام کیا اور پھر روشنی کی صورت اختیار کر لی۔۔۔اب وہ آہستہ آہستہ کی آبادی کی جانب بڑھ رہی تھی لیکن ابھی اس نے ایک فرلانگ کا فاصلہ نہیں طے کیا کہ ایک خوشبو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی اس نے آگے جا کر تھوڑا غور کیا تو وہ خوشبو متواتر اس کے ساتھ ساتھ اڑ رہی تھی۔۔۔
یہ کون ہو سکتا ہے جو میرا پیچھا کرکے اپنی موت چاہتا ہو۔۔۔
سفرینا نے اپنی رفتار بڑھائی اور جب اسے لگا کہ وہ خوشبو اس سے دور ہے ۔۔اس نے زمین پر اتر کر دوبارہ انسانی روپ دھار لیا۔۔۔نزریک ہی ایک سایہ دار درخت تھا۔۔سفرینا اس کے نیچے جا کر کھڑی ہو گئی لیکن اب اس کا دماغ اور ناک اس خوشبو کے تعاقب میں تھے۔۔۔اور پھر جیسے ہی خوشبو قریب پہنچی ۔۔سفرینا نے خوشبو کی سمت میں روشنی پھینکی۔۔۔یہ کوئی ان دیکھا وجود تھا جو ہوا میں اڑ رہا تھا۔۔۔شاید کوئی جن ہے۔۔۔سفرینا نے سوچا
وہ وجود روشنی کی زد میں آ کر زمیں پر گر پڑا تھا اور سفرینا اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاطر کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ابھی اسے پہنچے کچھ ہی دیر ہوئی کہ وہی روشنی اسے سمندر کی سطح پر نظر آئی۔۔
پہلے کی طرح آج پھر کہیں شاطر اسے کھو نہ دے یہ سوچ کر شاطر نے روشنی کا پیچھا کرنا شروع کیا۔۔۔روشنی کے اڑنے کی رفتار آہستہ تھی اور اس کا رخ مغرب کی جانب تھا۔۔۔ابھی شاطر نے کچھ ہی پیچھا کیا کہ روشنی کی رفتار تیز ہو گئی۔۔۔یہ دیکھ کر شاطر نے بھی اپنی رفتار بڑھا لی۔۔لیکن روشنی کی رفتار بہت تیز تھی جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ دور ہوتی گئی اور پھر اچانک نظروں سے اوجھل ہو گئی لیکن شاطر نے سمت نہیں بدلی وہ بھی اپنی رفتار سے اسی سمت میں اڑ رہا تھا جس رخ روشنی اڑ رہی تھی۔۔۔لیکن روشنی کا اب کوئی وجود نہیں تھا۔۔۔شاطر اس باری اسے کھونا نہیں چاہتا تھا اگر اس بار بھی اس نے روشنی کو کھو دیا تووزیر کرکوس کے ہاتھوں اس کی بیعزتی پکی تھی۔۔شاطراپنی بیعزتی کا سوچ کر اڑ رہا تھا کہ اچانک سے اس کے آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا اور کوئی چیرتی سی چیز اس نے اپنے کندھے پر محسوس کی۔۔شاطر کے لیے اپنا وجود سنبھالے رکھنا مشکل ثابت ہوا ۔۔جس کی وجہ سے وہ زمیں پر گرنے لگا ۔۔اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں تو کبھی کھل رہی تھیں۔۔اور پھر دھڑام سے وہ زمیں پر آن گرا۔۔۔ایک مٹی کا گولا تھا جو اس کے گرنے کے بعد اٹھا تھا۔۔جب مٹی زمیں پر بیٹھ گئی تو وہ دیکھنے کے قابل ہوا۔۔ایک جسم چلتا ہوا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔شاطر نے اپنے کندھے کی جانب دیکھا۔۔۔اس کا زخم آہستہ آہستہ بند ہو رہا تھا جسے بھرنے میں ابھی چند لمحے لگنے تھے۔۔۔
وہ وجود اب شاطر کے پیروں کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔چونکہ سورج شاطر کے سر پر تھا ااس لیے وہ وجود واضح نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔
تم میرا پیچھا کیوں کر رہے تھے۔۔۔یہ ایک نسوانی آواز تھی جو شاطر کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔
اچھا تو وہ روشنی یہ تھی۔۔۔شاطر نے دل میں سوچا۔۔۔
ایک ضرب شاطر کی کمر پر پڑی جس سے اس کے جسم نے جھٹکا کھایا۔۔۔
تم نے کل کسی انسان کا قتل کیا تھا میں بس یہ جاننے آیا تھا کہ وہ روشنی کس چیز کی تھی۔۔شاطر نے جواب دینے میں ہی عافیت جانی۔۔۔
ہاہاہا ۔اچھا وہ۔۔۔وہ پاگل پتا ہے کیا کر رہا تھا۔۔۔سفرینا کو قابو کر رہا تھا۔۔سفرینا کو۔۔۔
تم جن ہو شاید،دیکھو تمہارا جو بھی نام ہےمیری تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے تمہاری زندگی اسی میں ہے کہ تم میرا پیچھا کرنا چھوڑ دونہیں تو اپنے موت کے زمہ دار تم خود ہوگے۔۔فلحال تمہارے لیے یہ سزا کافی ہے اب اگر تم میرے پیچھے آئے تو پھر یاد رکھنا تمہیں دوسرا موقعہ نہیں ملے گا ۔۔سفرینا نے شاطر کو دھمکی دی ۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا واپس مڑی اور پھر شاطر کے سامنے ایک روشنی کا جھماکہ ہوا جو تیز رفتار سے اڑنے لگا تھا۔۔۔سفرینا یہ نہیں جانتی تھی کہ شاطر اس کی خوشبو سونگھ چکا تھا۔۔۔
شاطر کا زخم بھر گیا تھا۔۔جسے دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ۔۔اس نے اپنی پرواز کا رخ محل کی طرف کر دیا۔۔۔
اس کی بیعزتی پکی تھی لیکن اب اس کے پاس ایک نام تھا۔۔سفرینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالک چلہ شروع کرنے سے پہلے میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔سفرینا کو دوست بنانا نا ممکنات میں سے ہے جس نے بھی سفرینا کو قابو کرنا چاہا وہ موت کی وادی میں چلا گیا۔۔جیسے ہی تم دائرے میں بیٹھ کر پڑھنا شروع کرو گے تمہیں ایسے خوفناک منظر دیکھنے کو ملیں گے کہ عام بندہ اگر دیکھ لے تو اس کا دل دھڑکنا بھول جائے ۔۔۔کالی طاقتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ سفرینا تمہاری غلامی میں آئے ۔۔۔اگر دو راتوں تک تم یہ سب برداشت کرتے رہے اور بچ گئےتو تیسری رات سفرینا تمہارے سامنے آئے گی لیکن وہ تمہارے قابو میں آنے کے لیے تمہارے سامنے کوئی ایسی شرط رکھے گی جسے تم پورا نہیں کر سکو گے اور شرط پورا نہ کرنے کا مطلب موت ہےاسی لیے میں تمہیں ایک بار پھر خبردار کر رہا ہوں کہ خود کو خوف میں مت ڈالنا وہ تمہیں جو بھی کہے وہ ضرور کرنا پھر ہی تم اسے قابو کر لو گے۔۔۔
پنڈت سکندر کو شہر سے دور ایک ویران جگہ پر لے آیا تھا یہ کوئی میدانی علاقہ تھا جس پر جگہ جگہ چھوٹی جھاڑیاں تھیں لیکن اس کے علاؤہ جو چیز تھی وہ ایک عجیب سی بدبو تھی۔۔۔ایسی بدبو جو گوشت کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔اس وقت رات کے گیارہ بج کر پینتالیس منٹ ہو رہے تھے اور پنڈت سکندر کو مستقبل میں ہونے والے خدشات سے آگاہ کر رہا تھا۔۔۔سکندر کے پاس اس وقت لال مرچ ، ماچس ، ایک چاقو اور بوری میں ایک بچے کی لاش تھی۔۔ پنڈت نے ایک صاف اور برابر جگہ ڈھونڈی اور پھر سکندر کی طرف اپنا چہرہ کر لیا۔۔
کیا کہتے ہو بالک ۔۔تیار ہو تم؟؟؟
جی بابا ۔میں تیار ہوں لیکن چلہ شروع کرنے سے پہلے میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ سے؟
پوچھو بالک۔۔ضرور پوچھو۔۔۔
آپ میری مدد کیوں کر رہے ہیں؟
کافی مشکل سوال پوچھ لیا ہے بالک۔ ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے لیکن میں تمیں سب سچ بتاتا ہوں۔۔۔
میں بھی تمہاری طرح ایک نوجوان اور ہنس مکھ انسان ہوا کرتا تھا پھر ایک دن میری ملاقات ایک پنڈت سے ہوئی جس سے مجھے سفرینا کے بارے میں پتا چلا۔۔اس وقت میرا خون گرم تھا ۔۔میں نے بغیر تصدیق کیے چلہ کرنے چل پڑا ۔۔وہ تو بھگوان کی کرپا تھی کہ میں بچ گیا لیکن سفرینا نے مجھ سے میری پیاری بیٹی اور بیوی لے لی۔۔۔اس چلاک چڑیل نے مجھ سے میری خوشیاں چھین لیں۔۔۔میں نے اپنے سامنے اپنی بیٹی اور بیوی کو مرتے دیکھا۔۔۔
پھر سفرینا آپ کے قابو میں نہیں آئی؟؟
نہیں بالک۔۔۔اس نے مجھے زندہ جانے دیا تا کہ میں اپنی بیوی بچوں کے غم میں روز مرتا رہوں اس کے بعد میں نے بہت سے چھوٹے چھوٹے جاپ کیے،سادھوں کی خدمت کی تب جا کر کچھ علم حاصل ہوا۔۔۔جب میں نے تمہیں دیکھا اور تمہارے بارے میں اپنے چیلوں سے معلوم کیا تو مجھے پتا چلا کہ تم میں وہ شکتی ہے جس سے تم سفرینا کو قابو کر لو گے۔تم بھی میری طرح اپنا سب کچھ ہار چکے ہو۔اب تم خود ہی دیکھ لو۔۔کل سے اب تک تمہیں نہ کوئی سوچ آئی اور نہ تم پریشان ہوئے۔۔یہ سفرینا تمہاری زندگی کو بدل کر رکھ دے گی لیکن بالک یاد رکھنا ۔۔تم سفرینا سے ہر کام کروا لینا لیکن اس پر کبھی بھروسہ نہ کرنا ۔۔۔وہ تمہیں مارنے کے لیے تم پر بہت سے داؤ چلائے گی لیکن اپنی زندگی میں تم جس طرح پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے تھے ویسے ہی سفرینا کو سنبھالے رکھنا ۔وہ آفت کی پڑیا ہے۔۔۔اچھا اب وقت شروع ہونے والا ہے تم جلدی سے دائرہ لگ کر بیٹھ جاؤ اور اپنا جاپ شروع کرو۔۔۔اچھا ایک بات اور۔۔اب میں تم سے کبھی نہیں مل سکوں گا،۔بھگوان تمہاری مدد کرے۔۔یہ کہہ کر پنڈت نے سکندر کے سر پر ہاتھ پیرا اور پھر اندھیری سمت میں چل پڑا۔۔۔۔
سکندر نے ہاتھ میں باندھی گھڑی کو دیکھا ۔۔بارہ بجنے میں دو منٹ باقی تھےاس نے جلدی جلدی چاقو نکالااور کچھ پڑھ کر چاقو پر پھونک ماری پھر جلدی سے صاف جگہ پر کھڑے ہو کر چاقو کی مدد سے دائرے کی صورت میں لکیر ماری۔۔بوری کو کھولا اور لاش کو باہر نکال لیا۔یہ کسی مسلمان بچے کی لاش لگ رہی تھی۔۔۔پتا نہیں کس کا بچہ ہوگا لیکن سکندر نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔لاش کو سامنے لٹا کر اس نے جلدی جلدی ماچس کی ڈبیا جھولی اور چار تیلیاں نکال کر ان کا کراس بنایا اور پھر تیلیوں کو بچے کے سینے پر رکھ دیا۔۔ لال مرچ نکال کر اس نے بچہ کی لاش کے گرد چھوٹا سا دائرہ لگایا۔۔اب تیاری مکمل تھی۔۔۔جیسے ہی سکندر نے گھڑی پر نظر ڈالی گھڑی نے بارہ بجنے پر چھوٹی سی بیپ کی آواز نکالی جسے سن کر سکندر آلتی پالتی مار کرزمیں پر بیٹھ گیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔اس کے لب ہلنا شروع ہو گئے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفرینا کی چوٹ کی وجہ سے شاطر کے زخم تو بھر گئے مگر اس کے اڑنے کی رفتار بہت کم تھی۔۔۔پہلے اس نے سوچا کہ وزیر کرکوس سے مل کر اسے سب کچھ بتائے لیکن جس طرح سے اس کی حالت تھی اس سے اڑا نہیں جا رہا تھا۔۔۔ایک سایہ دار جگہ دیکھ کر اس نے رکنے کا فیصلہ کیا اور پھر آہستہ آہستہ زمین پر آگیا۔۔۔ارد گرد نظر دوڑائی مگر وہاں خاموشی ہی خاموشی تھی۔۔شاطر نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دماغ میں وزیر کرکوس کا چہرا تصور کیا۔۔۔وزیر کرکوس جاگ گئے تھے لیکن اس وقت محل سے باہر کہیں جا رہے تھے۔۔۔
کہو شاطر کیسے یاد کیا ؟ وزیر کرکوس نے شاطر کی خوشبو سونگھ لی تھی
وزیر کرکوس آپ سے جانے کے بعد میں نے اس بجلی کا پیچھا کیا وہ اس وقت اندھیری طاقتوں سے ملنے گئی ہوئی تھی۔۔جیسے ہی وہ وہاں سے نکلی میں نے اس کا پیچھا شروع کر دیا لیکن اسے میری موجودگی کا پتا چل گیا جس پر اس نے مجھ پر حملہ کیا اور میں زمیں پر گر گیا۔۔۔وہاں میں نے اسے دیکھا وہ ایک لڑکی ہے جو اپنا نام سفرینا بتا رہی تھی۔۔اس نے مجھے پیچھے کرنے سے منع کیا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔سفرینا۔۔۔پہلے کبھی سنا نہیں ہے اس لڑکی کے بارے میں۔۔اور جب تم اس کا پیچھا کر رہے تھے تو خود کو حصار میں بند کر لینا تھا۔۔تم نے ایسا نہیں کیا اس وجہ سے اس نے تمہاری خوشبو سونگھ لی۔۔۔
جی یہی غلطی ہو گئی مجھ سے لیکن اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے۔۔اب پتا چل گیا ہے تو اب احتیاط کروں گا۔۔۔
یہی کرنا ہوگا تمہیں۔۔۔اور اب تمہارا کیا ارادہ ہے شاطر۔۔۔؟
وزیر کرکوس میں نے اس کی خوشبو سونگھ لی ہے اور اس کا نام بھی پتا چل گیا ہے اب آپ ہی مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں۔۔۔
ہممم۔۔۔۔اب اس کا پیچھا کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن کبھی کبھار اسے دور دور سے دیکھ لو اگر تو وہ انسانیت اور ہمارے خلاف کوئی کام کرتی ہے تو پھر مجھے بتاؤ ۔۔نہیں تو جو اس سے ٹکرائے گا وہی اس کا زمہ دار ہوگا۔۔۔
جی ٹھیک ہے وزیر کرکوس۔۔۔یہ کہہ کر شاطر نے آنکھیں کھول لیں اس کا رابطہ کٹ چکا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی چلہ شروع کیے تھوڑی ہی دیر گزری کہ آسمان پر بادل آگئے اور پھر اچانک سے زوردار بارش شروع ہو گئی تھی۔۔ ۔۔سکندر نے آنکھیں کھول لیں تو بارش کو برستے پایا لیکن حیرت کی بات تھی کہ بارش کا پانی دائرے میں نہیں گر رہا تھا۔۔۔اسے پنڈت کی بات یاد آگئی کہ چلہ میں تمہیں نظر کا دھوکا ہوگا اس لیے کسی بات پر دھیان نہ دینا بلکہ اپنی پڑھائی کرتے رہنا۔۔۔۔یہ سوچ کر سکندر نے دوبارہ اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔
او مورکھ! تم نے میری بکری تو نہیں دیکھی۔۔ آواز سن کر سکندر نے دوبارہ آنکھیں کھول لیں۔بارش رک چکی تھی مگر۔سامنے ایک دھوتی باندھے بوڑھا سا آدمی کھڑا تھا جس کے سر پر لمبی سی پگڑی تھی اور ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جو موذی جانوروں کو بھگانے کے کام آتا ہے
تم نے سنا نہیں ۔۔میں کیا کہہ رہا ہوں، میری ایک بکری گم ہو گئی ہے۔۔کالے رنگ کی ہے۔۔کہیں تم نے تو نہیں چھپا لی اگر ایسا ہے تو میری بکری مجھے واپس کر دو۔۔۔
سکندر کو یہ بھی نظر کا دھوکا لگ رہا تھا اس لیے اس نے یہاں بھی چپ سادھ لی۔۔۔
تم جواب کیوں نہیں دے رہے ۔۔گونگے ہو کیا۔۔۔دیکھو تم جو بھی ہو مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔۔مجھے بس میری بکری دے دو۔۔اگر تم نے نہیں اٹھائی تو مجھے صرف اتنا بتا دو کہ تم نے بکری کو دیکھا ہے یا نہیں؟
یہ ایک چال ہے ،اس چال میں مت پڑنا۔۔۔سکندر کے دل سے آواز آئی۔
لگتا ہے تم بہرے بھی ہو،مجھے تو تم شکل سے چور لگ رہے ہو۔۔سیدھی طرح بتاؤ کہ میری بکری دیتے ہو یا نہیں۔۔۔
سکندر اپنے جاپ میں مصروف رہا۔۔
میرا خیال ہے تم ایسے نہیں بتاؤ گے۔۔رکو میں تمہارا بندوبست کرتا ہوں۔۔۔یہ کہہ کر وہ بوڑھا آدمی سکندر کی جانب بڑھنے لگا۔۔۔اب سکندر کے دل میں بھی ڈر بیٹھ گیا تھا۔۔وہ سوچنے لگا کہ اگر یہ بوڑھا آدمی دائرے کے اندر آ گیا تو اس کا جاپ خراب ہو جائے گااور پھر اس کا کوئی بھروسہ بھی نہیں ۔۔کہیں یہ سچ میں ڈنڈہ نا مار دے۔۔۔
بوڑھا آدمی دائرے کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔
نہیں بتاؤ گے نا۔۔۔تو پھر یہ لو۔۔۔یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے ڈنڈا سیدھا کیا اور سکندر کی طرف پھینک دیا۔۔۔
ڈنڈے کو اپنی جانب آتے دیکھ کر سکندر نے آنکھیں بند کر لیں۔۔کچھ دیر کے بعد جب کچھ بھی نہ ہوا تو سکندر نے آنکھیں دوبارہ کھول دیں لیکن اب وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔لگتا ہے وہ بوڑھا بھی نظر کا دھوکہ تھا۔۔پتا نہیں اور کیا کیا ہونا ہے آج۔۔یہ سوچ کر سکندر نے آنکھیں بند کر لیں۔۔اب اس نے جلدی جلدی جاپ پورا کرنا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاطر کو چوٹ پہنچانے اور خبردار کرنے کے بعد سفرینا نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا اب اس کی منزل انسانی آبادیوں تھی۔۔اس کے پاس کوئی خاص مصروفیات نہیں تھی تو اس نے سوچا کہ انسانی آبادیوں میں جا کر وقت گزاری کرے۔۔۔چونکہ انسانی آبادی ابھی بہت دور تھی اس لیے سفرینا کو اپنے اڑنے کی رفتار بڑھانی پڑی۔۔۔
ایک طویل سفر کے بعد سفرینا کو دور دور سے بڑی بلڈنگز نظر آنے لگیں مگر شہر میں داخل ہونے سے پہلے سفرینا کا انسانی جسم میں آنا ضروری تھاجس کے لیے اس نے ایک ویران جگہ دیکھ کر اترنے کا سوچا ۔یہ کوئی پرانا گھر تھا جو اب کھنڈر کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
یہ جگہ ٹھیک ہے۔۔سفرینا نے دل میں سوچا اور رفتار کم کردی اور پھر روشنی صحن کے فرش پر آ لگی۔۔۔
سفرینا ایک خوبصورت سی لڑکی میں بدل چکی تھی جس کے جسم پر ایک شہزادی سا لباس تھا۔۔۔
اس نے گھر کے گیٹ سے گزر کر قدم باہر گلی میں رکھا۔۔۔یہ کوئی گلی نہیں تھی بلکہ سڑک تھی جس کے آخری سرے پر یہ پرانا سا گھر تھا اور دوسرا سرا شاید آبادی کو جا کر لگے گا۔۔۔چند سو قدم کی دوری پر سفرینا کو کچھ جھونپڑیاں لگی ہوئی نظر ہیں جس کے سامنے چند بچے ننگی حالت میں کھیل رہے تھے۔ بچوں نے جب ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھا تو وہ اپنا کھیل چھوڑ کر سفرینا کو دیکھنے میں مگن ہو گئے۔۔۔
سفرینا نے ایک نظر بچوں پر ڈالی اور پھر ناک کی سیدھ میں چلنے لگی۔ ۔کچھ دیر میں گھر نظر آنا شروع ہو گئے اور سفرینا سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے، کہاں جائے ؟؟
وہ دیکھو دوستوں لڑکی ۔۔۔
سفرینا کو آواز نے اپنی جانب کھینچ لیا۔۔یہ کچھ لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو اس وقت ایک چھوٹے سے میدان کے کنارے پر کھڑے تھے ۔۔ان کے ہاتھ میں لکڑی کے ڈنڈے تھے اور کچھ سامان بھی انہیں نے اٹھا رکھا تھا۔۔۔شاید وہ کوئی کھیل کھیلنے آئے تھے۔۔۔
سفرینا کو دیکھ کر لڑکوں نے آواز کسنا شروع کر دی لیکن سفرینا ان سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔
اچانک ایک لڑکا اپنا سامان دوسرے لڑکے کے ہاتھ میں تھما کر سفرینا کی جانب قدم بڑھانے لگا اور پھر نزدیک پہنچ کر سفرینا کے آگے کھڑا ہو گیا اور رستہ بند کر دیا۔۔
کون ہو تم اور اکیلی یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔لڑکے نے سوال پوچھا
دیکھو لڑکے تم جو بھی ہو میرے سامنے سے ہٹ جاؤ نہیں تو تمہارے لیے برا ہوگا۔۔۔۔سفرینا نے لڑکے کو خبردار کیا مگر لڑکا شاید سفرینا کو ایک عام سی لڑکی سمجھ رہا تھا۔۔۔
دوستوں دیکھو زرا اس لڑکی کو، دھمکی دے رہی ہے مجھے۔۔لڑکے نے یہ بات اپنے دوستوں سے کہی تھی
مجھے لگتا ہے کہ تم بن سنور کر اپنے یار سے ملنے جا رہی ہو ۔۔ارےمجھے بھی اپنا یار سمجھ لو جان من۔ ہمیں بھی اپنا کچھ وقت دے دو ، ہم بھی تمہارے چاہنے والوں میں سے ہے۔۔۔
اب لڑکے کی باتیں سفرینا کے لیے برداشت سے باہر ہو رہی تھی ا۔۔س نے لڑکے کو سبق سکھانے کے لیے آنکھیں بند کر لیں ۔۔ابھی اس کی آنکھیں بند ہوئیں کہ اس کے جسم سے ایک زور دار جھٹکا کھایا۔۔۔
ایک تو میں ان انسانوں کے بچوں سے بیزار ہو گئی ہوں جو ہر کوئی منہ اٹھائے سفرینا کو غلام بنانے چل پڑتا یے۔۔۔سفرہنا نے یہ بات اونچی آواز میں کہی تھی جسے لڑکے نے بھی سن لیا۔۔۔
دیکھو لڑکے تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی اس لیے میں تمہیں دس دنوں کی سزا دے رہی ہوں۔۔میں تمہارے ہاتھ اور پیر توڑ کر جا رہی ہو جو دس دن بعد خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے ۔۔یہ تمہارے لیے سبق ہوگا ۔۔آئندہ اکیلی لڑکی دیکھو تو اسے اپنی بہن سمجھنا۔۔۔جیسے ہی سفرینا کی بات مکمل ہوئی لڑکا زمیں پر گر گیا اس کے ہاتھ پیر الٹی جانب میں مڑ گئے تھے۔۔۔
جب تک اس لڑکے کے باقی دوست قریب آتے سفرینا بجلی کی شکل میں ڈھل چکی تھی اور پھر بجلی آسمان کی جانب اڑنے لگی۔۔۔کھلے آسمان میں پہنچ کر سفرینا نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور تصور میں اس جگہ کو دیکھنے لگی جہاں اسے قابو میں کرنے کے لیے وہ انسان بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
یہ جگہ اس کی دیکھی بھالی تھی آج سے چند سال پہلے بھی ایک ہندو آدمی نے یہیں اسے قابو میں رکھنے کے لیے چلہ لگایا تھا اور آج ایک اور انسان بھی اسی جگہ پر بیٹھا اس کی غلامی کا چلہ کاٹ رہا تھا۔۔۔
تم لوگوں نے آخر سفرینا کو سمجھ کیا رکھا ہے کہ جس کا دل چاہا وہ سفرینا کو غلام بنانے کے لیے چل پڑتا ہے۔۔۔۔
اس وقت سفرینا کے چہرے کو غصہ نے غضبناک بنا دیا تھا۔۔۔اس کی خوبصورت آنکھیں شعلے برسا رہی تھی،اگر وہ انسان اس کے سامنے ہوتا تو شاید سفرینا اسے زندہ چبا جاتی لیکن اس انسان کی خوش قسمتی کہ وہ سفرینا سے بہت دور بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
دیکھتی ہوں کہ تم کیسے مجھے اپنا غلام بناتے ہو۔۔۔یہ بات سفرینا نے آنکھیں کھول کر کہی تھی۔۔۔سفرینا نے اپنے جسم کو آگے کی جانب دھکا دیا اور پھر روشنی ایک سمت میں اڑنے لگی۔۔۔
_________________________________________
سکندر بند کرو یہ سب تمہیں اپنے بوڑھے ماں باپ کا واسطہ نہیں تو یہ لڑکی ہمیں مار ڈالے گی۔۔۔۔
ایک مانوس سی آواز سکندر کے کانوں سے ٹکرائی اور اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں۔۔۔
آگے کا منظر دیکھ کر سکندر کا دل حلق میں آن اٹکا ۔۔۔اس کے ماں باپ اور چھوٹا بھائی خون میں لت پت زمیں پر لیٹے ہوئے تھے اور ایک دس سال کی بچی ان پر خنجر سے وار کر رہی تھی۔۔۔
یہی ہیں نا تمہارے ماں باپ۔۔دیکھ لو جی بھر کے انہیں ۔۔آج یہ ان کی آخری رات ہے پھر تم انہیں کبھی زندہ نہیں دیکھ سکو گے۔۔۔بچی نے چنگاڑے ہوئے کہا۔۔۔
بیٹا ہمیں اس سے بچاو،یہ ہمیں مار ڈالے گی۔۔۔
چلاو اور چلاو،آج میں دیکھتی ہوئی تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے۔۔۔بچی کی دہشت ناک آواز سکندر کو سنائی دی۔۔
سکندر کے لب ہلنا بند ہو گئے تھے،اس کی آنکھیں پھترا سی گئی تھیں۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔۔کیسے اس کے ماں باپ اور بھائی یہاں تک آ گئے اور وہ زندہ ہیں۔۔یہ سب سوچ کر سکندر کا دماغ ماوف ہو گیا۔
تم سب کو کیا لگتا ہے کہ تمہارا بیٹا تمہیں مجھ سے بچا لے گا۔۔۔ہاہاہاہا ۔۔۔آج تم سب کی موت یقینی ہے۔۔۔کلمہ پڑھ لو تم سب ۔۔۔یہ کہہ کر بچی نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ سکندر کو بچی کے ہاتھ میں خنجر نظر آیا۔۔۔
یہ خونی منظر دیکھ کر سکندر کے چودہ طبق روشن ہو گئے،وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔اس کے لیے چلہ سے زیادہ ماں باپ اور بھائی عزیز تھے۔۔ابھی سکندر نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ سکندر کو پنڈت کی آواز سنائی دی۔۔۔
پاگل ہو گیا ہو کیا بالک،تمہارے ماں باپ تو بہت پہلے کے مر چکے ہیں۔۔یہ نظر کا دھوکہ ہے،چپ کرکے اپنا چلہ پورا کرو،یہ سب نظر کا فریب ہے۔۔۔
یہ سن کر سکندر نے اٹھتا قدم روک دیا اور پھر سکندر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔
وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور دوبارہ سے آنکھیں بند کرلی ۔۔اس کے لب پھر سے ہلنا شروع ہو گئے ۔۔۔
اچانک ایک زور دار چیخ سنائی دی ، سکندر نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے کوئی انسان نہیں تھا سب کچھ غائب ہو چکا تھا۔۔۔۔
پہلی رات اپنے اختتام کو ہونے والی تھی اور روشنی ہونی میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی۔۔
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں