گاؤں میں چچا کے گھر کے ساتھ ایک صاحب رہتے تھے۔ سبھی انہیں میاں جی کہا کرتے تھے۔ وہ نہایت نیک اور عبادت گزار انسان تھے۔ کسی کی مصیبت دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور جو کچھ ممکن ہوتا، فوراً مدد کے لیے آگے بڑھتے۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں، سارہ اور ماریہ۔ سارہ کی پیدائش کے وقت ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ میاں جی نے دونوں بیٹیوں کو ماں اور باپ بن کر پالا۔ کئی لوگوں نے انہیں دوبارہ شادی کا مشورہ دیا، مگر انہوں نے قبول نہ کیا۔ جب بیٹیاں جوان ہو گئیں تو انہوں نے دونوں کے رشتے طے کر دیے۔ سارہ کی شادی اس کے پھوپھی زاد بھائی سمیر سے ہوئی، جبکہ ماریہ ایک کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہی گئی۔
ماریہ اپنے گھر میں خوش تھی، لیکن سارہ کی زندگی دکھوں کا سمندر بن گئی۔ سمیر دراصل سارہ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ نایاب نامی ایک لڑکی سے محبت کرتا تھا، جو ایک ماڈل گرل تھی اور آزاد خیالات رکھتی تھی۔ مگر والدین کے دباؤ پر مجبور ہو کر سمیر کو سارہ سے شادی کرنی پڑی۔ شادی کے بعد بھی وہ نایاب سے تعلق قائم رکھے رہا۔ سارہ ہر لحاظ سے اچھی بیوی تھی، مگر جب مرد کسی اور کے عشق میں گرفتار ہو، تو اپنی بیوی خواہ کتنی ہی اچھی ہو، بری لگنے لگتی ہے۔ یہی حال سمیر کا بھی تھا۔ وہ سارہ کو نہ پسند کرتا تھا، نہ عزت دیتا۔ گھر کا سکون برباد ہو گیا۔
ایک سال بعد سارہ کے ہاں ایک خوبصورت بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام کنول رکھا گیا۔ وہ واقعی کنول کے پھول جیسی حسین تھی۔ سارہ کی جان اس بچی میں بستی تھی۔ اس نے اپنی ساری محبت، اپنی ساری توجہ، اپنی ساری زندگی کنول کے لیے وقف کر دی۔ یہاں تک کہ وہ اکثر کہا کرتی، میں سارہ نہیں، کنول ہوں۔ سب لوگ اس پر ہنستے، مگر وہ دل سے یہ بات کہتی۔ سارہ دن رات یہ دعا کرتی رہتی
اے اللہ، میرے شوہر کے دل میں میرے لیے رحم ڈال دے۔ وہ مجھ سے اور میری بیٹی سے محبت کرے۔ اگر وہ غلط راہ پر ہے تو ہدایت عطا فرما۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمیر کا رویہ مزید بگڑتا گیا۔ وہ چڑچڑا اور سنگدل ہو گیا۔پھر ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ سارہ جوتے پالش کرنا بھول گئی، اور سمیر نے اسی بات کو بہانہ بنا کر اسے طلاق دے دی۔ نایاب کی پہلی شرط یہی تھی کہ اگر وہ شادی کرنا چاہتا ہے تو پہلے بیوی کو طلاق دے۔ سمیر نے بھی اس دیوار کو گرا دیا تاکہ نایاب سے شادی کر سکے۔ جب طلاق کے کاغذات سارہ کے ہاتھ میں آئے تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہ در و دیوار سے لپٹ کر روتی، دروازہ تھام کر باہر نکلنے سے انکار کرتی، مگر سمیر نے اس پر ترس نہ کھایا۔ اس نے کنول کو چھین کر، سارہ کو گھر سے نکال دیا۔ سارہ روتی پیٹتی اپنے باپ کے گھر پہنچی۔
میاں جی نے جب بیٹی کو اس حال میں دیکھا، تو ان کا دل بیٹھ گیا، مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ نہ داماد سے لڑنے گئے، نہ بہن بہنوئی سے کوئی شکوہ کیا، نہ کسی کے سامنے شکایت کی۔ سارہ کو طلاق سے زیادہ کنول سے بچھڑ جانے کا دکھ تھا۔ وہ ہر وقت بیٹی کو یاد کرتی۔ بخار میں تپتی، مگر کنول کا نام لیتی رہتی۔ وہ بیٹی کے غم میں تڑپتی، سلگتی رہتی۔ کبھی سرد پانی سے نہا کر صحن میں بھیگے کپڑوں کے ساتھ بھاگتی، اور چیخ چیخ کر کہتی میری کنول کہاں ہے، مجھے میری بیٹی چاہیےاب تو حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسے پاگل پن کے دورے پڑنے لگے۔ کبھی ہنسنے لگتی، کبھی رونے لگتی، اور کبھی پتھروں سے باتیں کرتی۔ میاں جی اندر ہی اندر ٹوٹتے جا رہے تھے۔ بیٹی کا علاج تو دور، وہ کسی سے سارہ کی حالت کا تذکرہ بھی نہ کرتے۔ دکھ درد بانٹتے بھی تو کس سے؟ ان کا تھا ہی کون؟
اب سارہ نے عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیں۔ کبھی وہ ہنستی، کبھی روتی، کبھی سیڑھیوں سے چھلانگیں لگانے لگتی۔ یوں گرتی تو شدید چوٹیں لگ جاتیں۔ رفتہ رفتہ اس کے حواس کھوتے گئے۔ اب اس کے چہرے پر وحشت برسنے لگی تھی۔ گھر کے کاموں سے اسے کوئی غرض نہ تھی۔ کھانا سامنے رکھا ہوتا تو نوالہ عجیب طریقے سے منہ میں ڈالتی، تھوڑا سا کھا پاتی، باقی گرا دیتی۔ اس کی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی چلی گئی۔ وہ گھر سے باہر گلیوں میں دوڑنے لگی، تب میاں جی بہت زیادہ پریشان ہو گئے۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ اسے گھر کی کسی کوٹھری میں بند کر دیں۔ پہلے تو وہ اس بات پر آمادہ نہ ہوئے، لیکن جب سارہ کو اپنی ستر پوشی کا بھی ہوش نہ رہا، تو میاں جی نے تنگ آکر اسے کمرے میں بند کر دیا۔
اب وہ سارا سارا دن دروازہ پیٹتی اور چلاتی۔ کھڑکی سے میاں جی کھانا دیتے، تو وہ کھانا پھینک دیتی اور کہتی دروازہ کھولو، مجھے کنول کے پاس جانے دو، مجھے اپنی بیٹی کے پاس جانا ہے۔ باپ سمجھاتے سارہ، صبر کرو۔ مگر وہ چلاتی میں سارہ نہیں، کنول ہوں۔ ایک روز میاں جی بیٹی کی پریشانی کا بوجھ دل و ذہن پر لیے سڑک پر جا رہے تھے کہ پریشان خیالی میں ایک بس کے نیچے آ گئے اور موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اب سارہ کا اس دنیا میں کوئی نہ رہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ماریہ، جو اس کی سگی بہن تھی، جب ہماری بچی نے اسے فون پر کہا کہ تم آ کر سارہ کو لے جاؤ، تو اس نے مجبوریاں گنا دیں۔ کہنے لگی
میرے شوہر منع کرتے ہیں، پاگل کو گھر میں رکھنے سے ہمارے بچوں پر برا اثر پڑے گا اور گھر کے دیگر لوگ بھی پریشان ہوں گے۔ حالانکہ وہ ایک بھرے پرے سسرال میں رہتی تھی۔ میاں جی کی زندگی میں ہی اس کے ساس سسر اور شوہر نے اس پر میکے آنے پر پابندی لگا دی تھی۔
میاں جی نے بھی یہ پابندی مان لی تھی کیونکہ وہ ماریہ کا گھر اُجاڑنا نہیں چاہتے تھے۔باپ کے مرنے کے بعد سارہ اکیلی کمرے میں بند رہتی۔ پڑوسی صبح شام آ کر اسے کھانے پینے کی چیزیں دے جاتے۔ چند روز اس کی خبر گیری کو آتیں، کہ برابر والا گھر انہی کا تھا۔ وہ اسے نہلاتیں، باتوں میں لگا کر کپڑے بدلواتیں۔ کبھی تو وہ ہر بات چپ چاپ مان لیتی، اور کبھی بگڑ جاتی، تب اُسے قابو میں کرنا مشکل ہو جاتا۔ تبھی چچا جان سارہ کے سابق شوہر سمیر کے پاس گئے اور کہاتمہارے طلاق دینے سے اس بیچاری کی یہ حالت ہو گئی ہے، اور تم یہاں مزے سے دوسری شادی کر کے زندگی گزار رہے ہو۔ کچھ تو خوفِ خدا کرو۔ یوں تو تم دونوں کا رشتہ ختم ہو چکا ہے، مگر وہ تمہاری بچی کی ماں تو ہے۔ کم از کم اسی رشتے کا پاس رکھ لو۔ تمہارا بھی کوئی فرض بنتا ہے۔ اس کا علاج کرواؤ، یا پاگل خانے داخل کروا دو، یا کم از کم اسے اس کی بیٹی سے ملوا دو، تاکہ اس کا بے قرار دل کچھ سکون پائے۔انہوں نے تھوڑی بہت لعن طعن بھی کی۔ سمیر وعدے کرتا، مگر آتا نہ تھا۔
پڑوسی بیچارے اپنی حد تک سارہ کا خیال رکھتے۔ اس کے کمرے میں چاقو، چھریاں، کیل، کانٹے، ماچس جیسی کوئی چیز نہیں رکھتے تھے تاکہ وہ خود کو نقصان نہ پہنچا سکے۔مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے؟ایک دن شاید دروازہ کھلا رہ گیا اور وہ باہر بھاگ نکلی۔ ایک بچہ ماچس لیے جا رہا تھا۔ سارہ نے ماچس لینے کے لیے بچے کو ڈرایا، وہ ڈر کر ماچس پھینک کر بھاگ گیا۔ سارہ ماچس کی ڈبیا اٹھا کر گھر لے آئی اور چولہا جلا لیا۔ چولہے سے اس کے کپڑوں نے آگ پکڑ لی۔جب اس کے چلانے کی آوازیں سنائی دیں تو لوگ دوڑ کر آئے۔ دیکھا کہ اس کے کپڑوں میں آگ لگی ہے اور وہ صحن میں ادھر ادھر بھاگ رہی ہے۔ بڑی مشکل سے اس پر کمبل ڈال کر آگ بجھائی گئی، مگر وہ کافی جھلس چکی تھی۔ اسپتال لے جایا گیا، مگر وہ جانبر نہ ہو سکی۔ کسی نے اس کے سابقہ شوہر کو اطلاع دی۔ جانے کیا سوچ کر وہ میت پر آ گیا۔ شاید اس لیے کہ میاں جی کے مکان سے بیٹی کا حصہ حاصل کر سکے۔ لیکن جب اس نے سارہ کی جلی ہوئی لاش دیکھی تو بہت دکھی ہوا اور رونے لگا۔ حالانکہ اس کے ظلم ہی نے سارہ کو اس انجام تک پہنچایا تھا۔وہ آج کنول کو بھی ساتھ لایا تھا، جس کی دید کو سارہ زندگی بھر ترستی رہی۔ جس کے غم میں پاگل ہو کر مر گئی، اس کی میت کا دیدار کرانے اسے لایا گیا، مگر کیا فائدہ؟ جب جیتے جی ماں، بچی سے نہ مل سکی، تو اب دیدار کا کیا حاصل؟ دیدار کو ترسنے والی آنکھیں تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی تھیں۔
سمیر نے نایاب سے شادی تو کر لی، مگر جس نے آنکھ ہی ایسے ماحول میں کھولی ہو، جہاں عزت بھی پیسوں میں بکنے کے لیے رکھی جاتی ہو، اسے محبت نہیں، دولت عزیز ہوتی ہے۔ نایاب کو بھی دولت سے محبت کی تربیت ملی تھی۔ جب سمیر کو کاروبار میں نقصان ہوا اور غربت سر پر منڈلانے لگی، تو نایاب نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔اس بات کا سمیر کو بہت دکھ ہوا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ باوفا بیوی کو چھوڑنے کی سزا تو آخرکار ملنی ہی تھی۔ سمیر نے اپنا دکھ ایک دوست کو سنایا، تو اُس نے اپنی بہن کا رشتہ دے دیا۔ وہ اسکول ٹیچر تھی۔ اس عورت نے سمیر کا گھر تو بسایا، لیکن سارہ کی بیٹی کنول کو ماں کا پیار نہ دے سکی۔ کنول بے چاری باپ کے گھر میں غیروں کی طرح سہم کر رہتی تھی۔ یہ ایک عجیب کہانی ہے۔ سارہ کی ماں اس کے بچپن میں چل بسی، اور سارہ کی بیٹی بچپن میں اس سے جدا کر دی گئی۔ گویا دونوں کی قسمت میں ممتا کی محبت نہیں لکھی گئی تھی۔ہاں، ماریہ کو جب باپ کے گھر سے حصہ ملا، تو اس نے آدھا مکان کنول کے نام کر دیا۔ اس طرح خالہ اور بھانجی کے درمیان ایک رشتہ مضبوط ہو گیا۔جب ماریہ کے ساس سسر کا انتقال ہو گیا، تو وہ میاں جی کے مکان میں آ کر سکونت پذیر ہو گئی اور کنول کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔ سمیر نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ جس بچی کو اس نے ماں سے جدا کیا تھا، اُسے خالہ کے پاس ہی رہنے دے، تاکہ خالہ کے پیار کے ساتھ ساتھ مکان پر بھی اُس کا حق قائم رہے۔