لاابالی سا لڑکا

Sublimegate Urdu Stories

فضا میں ایک عجیب سا بوجھل پن طاری تھا۔ وہ ٹیرس پر ایک ستون سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ موبائل فون کان سے لگا ہوا تھا اور لہجہ نہایت محتاط تھا۔میری بات غور سے سنو، ماہین! صبح آٹھ بجے واک کے لیے نکلنا ہے۔ ٹھیک آٹھ بجے۔ تمہارے گھر سے پارک کا فاصلہ صرف دس منٹ کا ہے۔ اس بار سامنے والے گیٹ سے اندر مت جانا… ہاں، وہیں سے جہاں سفیدے کے درخت ہیں۔ہالہ ٹھیک وہیں کھڑی ہوگی، اور میں وہیں سے تمہیں پک کروں گا۔ نو بجے تک کورٹ بھی کھل جاتا ہے۔ احمر ہے ناں؟ اُس نے تمام انتظامات کر رکھے ہیں۔ بس ایک، ڈیڑھ گھنٹے کی بات ہے۔

آہٹ سن کر اس نے جلدی سے فون پر ہاتھ رکھ دیا۔ سائرہ (بہن) چلی آ رہی تھی۔ اس کی رکی ہوئی سانس باہر نکلی۔بھیا! میں نے آپ کا کمرہ تیار کر دیا ہے۔ ساری صفائی خود کی ہے، رضیہ سے کچھ نہیں کروایا۔ بیڈ شیٹ اور پردے بھی بدل دیے ہیں۔ آپ دیکھ لیں، اگر کچھ اور کروانا ہو تو بتا دیجیے۔نہیں، شکریہ! تم جا کر سو جاؤ، باقی میں خود دیکھ لوں گا۔پھر اس نے دوبارہ فون پر سے ہاتھ ہٹا لیا۔ کوئی نہیں تھا۔ چھوٹی سائرہ ہے، اس کو اعتماد میں لے رکھا ہے میں نے۔ یہاں تمہارا بہت ساتھ دے گی۔ اماں ابا ابھی مزید یو کے میں ہی رکیں گے۔ طاہر (بھائی) کی بیوی کی ڈیلیوری کے بعد ہی واپس آئیں گے۔ تب تک، کچھ نہ کچھ حالات سازگار ہو ہی جائیں گے۔باقی تمہاری طرف کیا صورت حال ہے، وہ تمہیں خود ہی دینی ہوگی۔اچھا اچھا، کیا ملازمہ آ رہی ہے؟ ٹھیک ہے، پھر بات کریں گے۔اس نے فون بند کیا۔ دو چار گہری سانسیں لیں، شرٹ کا اوپری بٹن کھولا۔ تھوڑا سکون محسوس ہوا تو اپنے کمرے کا رخ کیا۔ دروازہ کھولا تو سحر زدہ رہ گیا۔

سائرہ نے اس کی توقع سے بڑھ کر کمرے کو سجایا سنوارا تھا۔ ہلکے گلابی رنگ کی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی تھی، اور اسی رنگ کے نفیس پردے کھڑکیوں پر لٹک رہے تھے۔ ایک طرف خوبصورت سی چھوٹی میز رکھی تھی، جس پر نازک سا کرسٹل کا جگ اور گلاس رکھے تھے۔ ٹی وی لاؤنج سے دو بید کی کرسیاں بھی اٹھا کر لائی گئی تھیں، جو بیڈ کی دوسری جانب رکھی گئی تھیں۔ کمرے کی فضا خوشبوؤں سے معطر تھی۔اس نے اشتیاق سے در و دیوار کو دیکھا اور مستقبل میں آنے والے حسین لمحوں کا تصور کر کے مسکرا دیا۔پھر اس نے کمرے کو لاک کیا اور سونے کے لیے نیچے آ کر ٹی وی لاؤنج کا رخ کیا۔ صبح جلدی اٹھنا تھا۔ آنے والے وقت کا خیال کر کے ایک عجیب سی سنسنی پورے وجود میں پھیلتی جا رہی تھی۔

ساری رات کروٹیں بدلتے گزری۔ گھڑی بھر کے لیے آنکھ لگی، مگر علی الصبح ہی الارم نے جگا دیا۔ نیند کی کمی کے باعث سر بھاری ہو رہا تھا۔ چائے کی شدید طلب محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے منہ ہاتھ دھو کر خود ہی کچن کا رخ کیا۔ابھی آٹھ بجنے میں کافی وقت باقی تھا۔ اس نے کڑک والی چائے تیار کی۔ جیسے ہی کپ تھام کر باہر نکلا، لاؤنج میں کسی کے دھیرے دھیرے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اس وقت تک تو ڈرائیور بھی نہیں آتا تھا۔اس نے ٹی وی لاؤنج کی کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔ سیاہ ٹریک سوٹ میں ملبوس کوئی شخص گیٹ کھول کر باہر جا رہا تھا۔ہیں، اس وقت یہ کونوہ دروازہ کھول کر باہر آیا۔ سامنے سے سائرہ چلی آ رہی تھی۔ ہاتھوں میں سرخ گلابوں کا ایک بُوکے تھاما ہوا تھا۔ 

دوپٹہ لاپروائی سے گلے میں ڈال رکھا تھا، اور ٹراؤزر کے پائنچے اوپر کو مڑے ہوئے تھے۔ اُسے سامنے دیکھ کر سائرہ ذرا بھی نہیں گھبرائی۔ بے نیازی سے گزر کر جانے لگی تو اُس نے پکارا سائرہ، کون آیا تھا باسط۔ میری برتھ ڈے تھی نا، تو وش کرنے آیا تھااس نے پورے اعتماد سے جواب دیا اور ایک طرف سے نکلتی چلی گئی۔وہ وہیں کھڑا رہ گیا، جیسے ساکت ہو گیا ہو۔باسط… بمشکل یاد آیا کہ وہ ابا کے ایک دوست کا بیٹا تھا۔ شاید اس کا رشتہ سائرہ کے لیے آیا ہوا تھا، مگر اماں ابا نے ابھی کچھ طے نہیں کیا تھا۔ باسط ایک لا ابالی سا لڑکا تھا، تعلیم بھی ادھوری تھی۔ خود اس کی بھی رائے باسط کے حق میں نہیں تھی، مگر حالات کچھ ایسے ہو چکے تھے کہ باسط سائرہ تک اس حد تک رسائی حاصل کر چکا تھا کہ یوں دھڑلے سے گھر آ کر وش کر رہا تھا — یہ جانتے ہوئے بھی کہ اماں ابا گھر پر موجود نہیں ہیں۔اور سب سے زیادہ حیرت اسے سائرہ کے بے خوف اور ہٹ دھرم انداز پر ہو رہی تھی۔ بھائی کے سامنے اسے ذرا برابر جھجک یا لحاظ محسوس نہ ہوا۔ کتنے اعتماد سے وہ بُوکے لیے اندر چلی گئی تھی۔وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ہوا اندر آیا اور صوفے پر جیسے ڈھ سا گیا۔ چائے کے کپ سے بھاپ اٹھنی بند ہو چکی تھی، مگر اب اسے اس کی پروا بھی نہ تھی۔ چائے کی طلب ختم ہو چکی تھی۔ ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔
ادھر ماہین تیار ہو رہی تھی، جب موبائل کی بیپ سنائی دی۔ اسے ایک وائس میسج موصول ہوا تھا۔جانِ دل ماہین میری بات غور سے سنو۔ کچھ فیصلے انسان صرف اپنی ذاتی خوشی کے لیے کرتا ہے، اپنے دل کی خواہش پر،جانِ دل اپنی چاہت کے لیے۔ شاید اس لمحے اُسے صرف اپنی ذات سے غرض ہوتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی ذات محض ایک اکیلا وجود نہیں ہوتی۔ وہ بہت سے رشتوں سے جڑی ہوتی ہے، اور اس کے ہر فیصلے سے وہ سب رشتے متاثر ہوتے ہیں۔مجھے بھی اس بات کا ادراک بہت دیر سے ہوا۔ میں اُن لوگوں میں سے تھا جو پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ مگر آج جب میں نے اپنی بہن کی آنکھوں میں اپنے لیے وہ پہلے والا احترام، لحاظ، سب کچھ غائب دیکھا… تو میرے قدم ٹھٹک کر رک گئے۔ 
میں اپنے فیصلے کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سوچ کر کانپ گیا۔میری طرح تمہاری بھی دو چھوٹی بہنیں ہیں۔ وہ بھی یقیناً اسی طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔آج گھر کا ماحول کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا، لیکن جب اماں ابا واپس آئیں گے، تو میں ایک بار پھر سب کچھ سنوارنے کی کوشش کروں گا۔ اگر تمہارا میرا ساتھ، میرا امن، نصیب میں ہوا، تو ضرور ہو گا۔ اور اگر نہیں، تو میں یہ مان لوں گا کہ ہماری زندگی کے سوال نامے میں یہ والا راستہ تھا ہی نہیں۔مجھے امید ہے کہ تم بھی محبت، وفا، وعدے اور عہد کو ایک لمحے کے لیے ایک طرف رکھ کر، اُن رشتوں کے بارے میں ضرور سوچو گی جو تم سے جُڑے ہیں۔ نیک تمناؤں کے ساتھ۔

 (ختم شد)

اگر کہانی پسند آئی ہو تو فیس بک کمنٹ میں ضرور بتائیں۔ شکریہ