ہائے اللہ، کتنی پیاری دلہن ہے، بالکل گڑیا حسیں۔ جو کوئی بھی اسے دیکھتا، بے اختیار اس کے منہ سے نکل جاتا۔ دھان پان سی، چھوئی موئی، شرمائی سی، چاند سا مکھڑا سرنگوں کیے ہر آنے والے کو کن آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی بہت تعریف سنی تھی، تبھی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ میری شادی صرف آٹھ دن پہلے ہوئی تھی، اس لیے میں ان کے ہاں نہیں جا سکتی تھی۔
جب ہماری شادی کو کچھ دن گزرے، تو میں ایک تقریب میں شریک ہوئی اور پاس بیٹھی خاتون سے پوچھا کہ گل خان کی دلہن کون سی ہے؟ اس نے مسکرا کر بتایا کہ وہ سامنے کھڑی ہے۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کی معصومیت پر پیار آ گیا۔ نئی نویلی دلہن یوں بچیوں کے ساتھ باتوں میں مشغول تھی جیسے میکے کی سہیلیوں میں گھری ہو، اسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ ہے۔
وہ سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی مگر اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ منے کھیلنے میں مصروف تھی۔ گل خان بھی موجود تھے، میں نے ہنس کر پوچھا کہ بھائی گل خان، ایسے گڑیا کہاں سے لائے ہو؟ اس کی عمر کم ہے اور تم نے اسے شادی کے بندھن میں باندھ لیا ہے، کیا وہ گھریلو ذمہ داریاں پوری کر پائے گی؟ وہ بولا کہ یہ ذمہ داریاں پورا کرے گی یا نہیں، پر یہ تو سارا دن گڑیوں سے کھیلتی ہے یا سوئی رہتی ہے۔ ہاں، اس کے آنے سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ جب میں فیکٹری سے واپس آتا ہوں تو یہ دروازہ کھول دیتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کھانا پکاتی تو ہو گی؟ اس نے کہا توے پر روٹی ڈال لیتی ہے مگر پلٹنا مجھے پڑتا ہے کیونکہ صائمہ کہتی ہے میرا ہاتھ جلتا ہے، کچھ کام وہ کرتی ہے اور کچھ میں۔ اس کے آنے سے گھر میں خاص رونق آ گئی ہے۔ باجی، آپ جانتی ہیں کہ والدین کے فوت ہونے کے بعد میں خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگا تھا، بڑی بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ بھی کبھار آتی تھیں۔
اچھا بھیا، جب چھوٹی سی دلہنیاں لائے ہو تو صبر کرو، آہستہ آہستہ یہ سب کام سیکھ لے گی۔ میں نے صائمہ کے معصوم چہرے کی طرف دیکھا جو دوپٹے پر لگے ستاروں کی بیل سے کھیل رہی تھی اور سوچا کہ نو دس سال کی یہ بچی ہنڈیا پر کانا سیکھ چکی ہوگی، روٹی پکانے میں ہاتھ جلتا ہے تو سالن بنانے میں نرم ہتھیلیاں اور کلائیاں جلنا تو فطری تھا۔ پانچ برس گزر گئے، ایک دن میکے گئی تو سنا کہ گل حسان کی بیوی کے ہاں بچی ہوئی ہے، وہ بمشکل چودہ برس کی تھی اور بچی کی ماں بھی بن گئی تھی۔ معصوم بچی نے ممتا کا روپ بھی دیکھ لیا تھا۔ میں بچی کو دیکھنے گئی تو صائمہ پہلے سے زیادہ سیانی ہو چکی تھی، ایک بردبار لڑکی نظر آتی تھی، بھولی بھالی صورت پر سیانا پن آ چکا تھا اور زمانے کے نشیب و فراز سے واقف تھی۔ شوہر اس سے بیس برس بڑا تھا لیکن وہ اس کی ایسی خدمت کرتی تھی کہ حیرت ہوتی تھی۔
ایک کم سن لڑکی کیا اتنی عقل مند ہو سکتی ہے کہ اس کی روش میں ڈھل جائے اور ایک اچھی بیوی بن جائے ؟ گل حسان نے ضرور اس کو بہت پیار دیا ہو گا، تبھی وہ خوش نظر آتی تھی۔ گھر آنے والے مہمانوں کو وہ بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہتی تھی۔ ان کا گھر مثالی تھا۔ پھر جانے اس آشیانے کو کس کی نظر لگ گئی کہ گل خان جو دوسروں کو عقل کی باتیں سکھاتا تھا۔، چوری کے الزام میں پولیس نے اس کو گرفتار کر لیا۔ اس کو بہت مار پڑی اور سر پر چوٹیں آئیں۔ بالاخر وہ بے گناہ ثابت ہو گیا، تو اسے رہا کر دیا گیا، لیکن اب اس کا دماغی توازن متاثر ہو چکا تھا۔ وہ پولیس کی مار کھا کر نارمل انسان نہ رہا تھا۔
بعض اوقات وہ انتہائی ظلم و تشدد پر اتر آتا اور اس کے ظلم کا نشانہ بیچاری صائمہ بنتی تھی۔ کبھی وہ اسے بے تحاشا مارتا اور کبھی کہیں جانا ہوتا تو اسے اپنے ساتھ لے جاتا۔ اسے خوف تھا کہ کوئی ذکی کو اس سے چھین لے گا۔ ایک دن اس نے صائمہ سے کہا کہ میرے ساتھ جامن توڑنے کے لئے چلو۔ وہ بولی، گھر کا سارا کام پڑا ہے۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی، تم اکیلے جائو۔ یہ سنتے ہی وہ اسے مارنے لگا۔ بیچاری ڈر کے مارے جانے کو تیار ہو گئی اور چلتے وقت شوہر سے بولی۔ ذرا ٹھہرو، برقع اوڑھ لوں۔ جواب ملا۔ کوئی ضرورت نہیں برقع اوڑھنے کی۔ بس ایسے ہی میرے ساتھ چلو۔ بیچاری خوف کے مارے ننگے پائوں اس کے ساتھ چلنے لگی۔ اپنی دھن میں شوہر خدا جانے کدھر نکل گیا۔
یہ غریب اس کی اجازت کے بغیر بل نہیں سکتی تھی، لہذا بیٹھے بیٹھے اکڑ گئی۔ بھوک پیاس کے مارے برا حال تھا۔ اتنے میں ایک آوارہ قسم کا شخص ادھر آنکلا اور ذکی کو دیکھ کر بولا۔ ایک خوبصورت لڑکی اور اکیلی ؟ تم کیا کر رہی ہو ، آئو چلو میرے ساتھ ۔ یہ سن کر صائمہ گھبرا کر رونے لگی۔ شوہر کا کچھ پتا نہیں تھا کہ کسی جانب نکل گیا میں لڑکی نہیں، دو بچوں کی ماں ہوں ۔ بد قسمتی یہاں لے آئی ہے۔ کسی نے آج تک میرا چہرہ نہیں دیکھا۔ یہ میری بد نصیبی ہے کہ میں یہاں بغیر پردے کے بیٹھی یہ سن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور اس نے معافی مانگی، کہنے لگا۔ بہن میں تم کو اکیلا دیکھ کر کوئی بری عورت سمجھا تھا۔ اتنے میں گل خان واپس آتا دکھائی دیا۔ صائمہ نے کہا۔ بھائی یہاں سے جائو۔ میرا شوہر ذہنی مریض ہے۔ اگر اس نے تم کو مجھ سے بات کرتے دیکھ لیا، تو مجھے مار ڈالے گا۔ وہ آدمی تو چلا گیا، مگر گل کو شک ہو گیا کہ اجنبی میری بیوی سے باتیں کر رہا تھا۔ اس نے صائمہ کو گھر لے جا کر بہت مارا، وہ مرتے مرتے بچی۔
پڑوسیوں نے آکر بتایا کہ ہم نے صائمہ کے رونے چلانے کی آوازیں سنی ہیں۔ تب میں خیریت معلوم کرنے اس کے گھر گئی۔ گھر میں ہر طرف خاموشی صائمہ کو آواز دی۔ اس نے کراہ کر جواب دیا۔ باجی اندر آجائو۔ وہ کمرے میں چار پائی پر لیٹی ہوتی تھی۔ پاس ہی اس کے بچے سور ہے تھے۔ میں نے سوال کیا۔ صائمہ کیا بات ہے؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ اور یہ تمہارے پائوں کو کیا ہوا ہے ؟ میری بات سن کر وہ رونے لگی، بولی۔ گل خان نے مجھے بے قصور زادی ہے اور میرے پائوں پر بیلچا مارا ہے، جس کی وجہ سے یہ سوج گیا ہے۔ بہت درد ہے۔ میری بچی بھی بیمار ہے، مگر میں چل پھر نہیں سکتی، چار پائی سے اٹھ بھی نہیں سکتی۔
میں نے دیکھا کہ اس کا پاؤں بہت زخمی تھا، جس پر اس نے ہلدی لگا کر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ پوچھا تم ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جاتیں ؟ ایک تو مجھ سے چلا نہیں جاتا، دوسرے گل خان کب گھر سے باہر نکلنے دیتا ہے۔ جب جاتا ہے، دروازے پر تالا لگا کر جاتا ہے، تاکہ باہر نہ جا سکوں۔ وہ اب کہاں ہے ؟ دوا کھا کر چھت پر گیا تھا، اس کی دوا میں نشہ ہوتا ہے۔ یقینا گہری نیند سو رہا ہو گا۔ آج تو بیرونی دروازہ کھلا کھتا؟ ہاں ، وہ کبھی کبھی دروازہ بند کرنا بھول جاتا ہے۔
میں نے کہا۔ عجیب شخص ہے، کبھی اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے اور کبھی تم کو گھر میں قید کر دیتا ہے۔ واقعی وہ ذہنی مریض ہے جو بات ذہن میں آئے وہی کرتا ہے۔ اب وہ مجھ پر بہت ظلم کرنے لگا ہے۔ خدشہ ہے کسی دن جان سے مار نہ دے۔ صائمہ نے دکھ سے فریاد کی۔ تم میکے کیوں نہیں چلی جاتیں ؟ میرا میکہ نہیں ہے، میرا تو کوئی نہیں ہے۔ گل خان نے مجھے پچاس ہزار روپے کے عوض میرے چچا سے خرید اٹھتا اور جو چیز بک جاتی ہے وارث کی نہیں رہتی۔ وہ خریدنے والے کی ہو جاتی ہے۔ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ گل حنان زینے سے اتر آیا۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں شاپر تھا۔ یہ لو، پکا کر کھا لینا اور بچوں کو بھی کھلا دینا۔ اب جلدی کرو، مجھے بھوک لگی ہے۔ اس نے میری موجودگی کو نظر انداز کر دیا۔
گل خان سوجی لے کر آیا ہے۔ شاید اس کا دل حلوہ کھانے کو چاہ رہا ہے۔ میں نے شاپر میں جھانک کر کہا۔ یہ سوجی نہیں ، آدھا کلو آٹا ہے۔ یہ روز ایسے ہی آدھا کلو آٹا لاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اگر میں زیادہ آٹا لائوں گا تو یہ کسی کو دے دے گی، حالانکہ باجی میں کس کو دوں گی ؟ میرے گھر کون آتا ہے ؟ بس ایسے ہی ہر بات پر شک کرتا ہے۔ کیا ہمسائے تمہاری مدد نہیں کرتے ؟ وہ اگر کوئی چیز دیں، تو ان کو گالیاں دیتا ہے ، اس لیے وہ اب ہماری زندگی میں مداخل نہیں کرتے۔ اس کی حالت اور اس کی باتیں سن کر دیکھ ہوا۔ صائمہ بیچاری تو اٹھ بھی نہ سکتی تھی ، روٹی کیسے پکاتی۔ میں نے آٹا گوندھ کر روٹی پکا دی کیونکہ گل خان دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ گیا تھا۔
سوچنے لگی کہ آدھا کلو آٹے میں یہ مظلوم کیا کرتی ہو گی۔ بمشکل دو بچوں کے ساتھ میاں کا پیٹ بھرتا ہو گا، پھر وہ ذہنی مریض تھا، کسی کی مدد بھی قبول نہ کرتا تھا۔ صائمہ کو اکثر روکھی روٹی کے چند ٹکڑے پانی سے نگلنے پڑتے تھے۔ جب میں جانے لگی تو صائمہ اصرار کرنے لگی کہ باجی ابھی مت جائیے۔ میں نے جواب دیا کہ تیرے میاں کا کچھ بھروسہ نہیں۔ ابھی اس کو دورہ پڑے تو مجھے ہی دھکے دے کر نکال دے گا۔ ہاں یہ تو ہے۔ ابھی چپ ہے، شاید اس وقت دوا کھا کر کچھ سکون میں ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں چلی آئی مگر ذہن پر بڑا بوجھ تھا ۔ وہ دن نگاہوں میں پھر رہا تھا، جب صائمہ کو دلہن کے روپ میں پہلے دن دیکھا تھا۔ اسے کچھ پتا نہ تھا کہ اس کی زندگی میں کتنے دشوار دن آنے والے ہیں۔ کئی روز تک اس کے بارے سوچتی رہی کہ وقت نے تھوڑے ہی عرصے میں اس کی حالت بدل ڈالی تھی۔
رنگت پیلی اور چہرے پر جگہ جگہ جھائیاں پڑ چکی تھیں۔ وہ اپنی عمر سے بڑی نظر آنے لگی تھی۔ روز روز کوئی عورت مار کھائے، دہشت میں دن رات گزارے اور اس کی دادرسی کرنے والا بھی کوئی نہ ہو، تو اس کے دل کی کیا حالت ہو گی۔ دہشت کی وجہ سے وہسہمی رہتی۔ کسی کے گھر جا کر مدد بھی طلب نہ کر سکتی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ جب گل خان صحیح حالت میں ہوتا، تو اس کو بہت پیار کرتا، معافیاں طلب کرتا، روتا، ہاتھ جوڑتا کہ تم کبھی مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ میرا اس دنیا میں تمہارے سوا کوئی نہیں ہے اور یہ سچ تھا که گل خان کا صائمہ کے سوا کوئی نہ تھا۔ جب وہ بیماری ہو اٹھتا تھا، تو رشتے داروں نے آنا جانا ختم کر دیا کیونکہ وہ ہر ایک کو شبہے کی نظر سے دیکھتا تھا کہ کہیں کوئی اس سے اس کی بیوی اور بچے چھین نہ لے جائے۔ اسی سبب وہ گھر آنے والے کی بے عزتی کرتا تھا اور بیوی بچوں کو تالے میں رکھتا تھا-
گل خان فروٹ کا کام کرتا تھا۔ اب اس کا کاروبار بہنوئی نے سنبھال لیا تھا، جو اس بزنس کی وجہ سے امیر ہو چکا تھا۔ ہر ماہ گل خان کی بہن اس کو کچھ رقم دے جاتی، جس سے وہ گھر چلاتا تھا۔ اس کی ذہنی کیفیت کے پیش نظر اسے علاج کی ضرورت تھی۔ جب موڈ ضحیح ہوتا ، وہ خود ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا اور جب دماغی حالت ٹھیک نہ ہوتی، دوائیں پھینک دیتا۔ کہتا کہ ڈاکٹر نے زہر دے دیا ہے تا کہ میں مر جائوں اور وہ میری صائمہ کو لے جائے۔ وہ کئی بار صائمہ سے معافی مانگ چکا تھا کہ تم کو مارتے وقت مجھے پتا نہیں چلتا کہ کیا کر رہا ہوں۔ اس بار معاف کر دو، آئندہ نہیں کروں گا۔ وہ بیچاری معاف نہ کرتی تو کیا کرتی، کہاں جاتی ؟ جب دکھ قابل برداشت نہ ہوتا۔ بہت روتی اور پولیس والوں کو بد دعائیں دیتی کہ جنہوں نے مار مار کر اس کے خاوند کی ایسی حالت کر دی تھی۔
لوگ اس کا حال دیکھ کر ترس کھاتے تھے مگر کوئی اس کو ان دکھوں سے نجات دلانے کے لئے عملی قدم نہ اٹھاتا تھا۔ وہ تنہانہ تھی، دو بچوں کا ساتھ تھا جس کا وارث ان کا باپ تھا۔ ایک دن، ایک ہمسائے نے ابو سے کہا کہ صائمہ ہماری بچیوں کی طرح ہے۔ اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ گل خان اچھا آدمی تھا، ہم اس کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ حالات نے اس کو بیمار کر دیا ہے۔ ہمیں صائمہ اور اس کے بچوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ابو نے جواب دیا کہ اگر ہم صائمہ اور بچوں کو سے جدا کریں گے، تو یقینا وہ پاگل ہو جائے گا کیونکہ ذہنی مریض ہونے کے باوجود وہ اپنی بیوی اور بچوں کو ہی سرمایه حیات سمجھتا ہے۔
اس کا علاج کسی کے پاس نہیں تھا کیونکہ وہ کسی کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتا تھا۔ گالیاں دیتا، شک کرتا، ہر کسی پر الزام دھر تا کہ تم لوگوں نے ہی چوری کا پرچہ کٹوا کر مجھے پولیس سے مار پڑوائی تھی۔ اس کے ذہن سے اس و ہم کو کوئی نہیں نکال سکتا۔ پھر ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ ابو نے مایوسی کا اظہار کیا تو پڑوسی کی ہمت بھی جواب دے گئی۔ کچھ دن گزرے تھے کہ پتا چلا، صائمہ گھر سے غائب ہے۔ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے گئی ہے۔ گل خان پر رد عمل تو ہونا تھا۔ وہ چیخنے چلانے لگا کہ میری خوبصورت بیوی کو نجانے کون نابکار بھگا کر لے گیا ہے اس نے میرے بچوں کو بھی اغوا کر لیا ہے۔ میں اس کا خون پی جائوں گا، پھر ایسے ہی گلیوں میں مارا مارا پھرنے لگا اور بیوی بچوں کے غم میں پورا پاگل ہو گیا۔
پڑوسی حیران تھے کہ صائمہ کہاں گئی۔ اس کا کوئی بھی نہ تھا۔ کوئی کہتا کہ اس نے بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگادی ہو گی۔ اپنی زندگی سے تنگ تھی، خود کشی کر لی ہو گی۔ کون کسی کو تلاش کرتا ہے ؟ محلے والوں میں سے کسی نے اس کو تلاش نہ کیا۔ الٹا سب نے یہی کہا کہ شکر ہے اپنی اور بچوں کی جان بچا کر چلی گئی ، ورنہ یہ نیم پاگل ظالم شوہر اس کو کسی دن مار ہی ڈالتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گل خان پاگل ہونے کے باوجود صرف صائمہ کو مارتا تھا، اسی پر شک کرتا تھا، مگر اپنے بچوں کو نہیں مارتا تھا۔ تاہم اپنے سامنے ماں پر تشدد ہوتے دیکھ کر بچوں کی بھی ذہنی حالت متاثر ہو رہی تھی۔ کافی دن وہ گلیوں میں بیوی بچوں کو تلاش کرتا رہا۔ وہ بڑ بڑا تا تھا کہ کوئی میری صائمہ کو لا دے۔ کسی ظالم نے اس کو مجھ سے چھین لیا ہے۔ کبھی کہتا کہ اب آئے گی تو نہیں ماروں گا، وہ اسی لیے کہیں چھپ گئی ہے۔ وہ اس کا نام لے لے کر پکارتا تھا۔ اس نے دوا کھانا چھوڑ دی تھی۔ اس کے نزدیک جانے کی جرات کوئی نہ کرتا۔ ہر کوئی اس سے ڈرتا تھا کہ یہ پاگل ہے، پتھر اٹھا کر مار دے گا۔
یونہی گلیوں میں پھرتے پھرتے ایک روز وہ گم ہو گیا اور دوبارہ نظر نہیں آیا۔ کافی دن اس کا گھر کھلا پڑا رہا۔ بہن بہنوئی کو اطلاع ملی کہ گل خان غائب ہو گیا ہے ، تب وہ آئے اور گھر کو تالا لگا کر چلے گئے۔ وہ دن اور آج کا دن اس کے گھر میں تالا پڑا ہوا ہے۔ صائمہ کا پتا چلا اور نہ اس کے بچوں کا ، گل جان بھی لوٹ کر نہ آیا۔ خدا جانے اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
میں پولیس والوں سے التجا کروں گی کہ وہ دوران تفتیش ہر ایک کو یوں بیدردی سے نہ مارا کریں، کیونکہ کچھ لوگ بے گناہ ہوتے ہیں۔ جب ان کے پندار کا شیشہ ٹوٹتا ہے تو وہ خود بھی ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ ہر ملزم کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہیے کیونکہ اس طرح اچھے اور صحت مند ذہن کے لوگ بھی عمر بھر کے لئے بیکار و بر باد ہو جاتے ہیں۔
(ختم شد)