پردیسی شہزادہ

Sublimegate Urdu Stories

بعض اوقات محرومیاں اور ناکامیاں انسان کی زندگی میں خود داخل نہیں ہوتیں، بلکہ یہ ہماری اپنی ناسمجھی اور نادانی کی پیدا کردہ بھی ہوتی ہیں۔ ہم ایسی جگہ کے بسنے والے ہیں جہاں برف پوش پہاڑوں کے اونچے اونچے سلسلے ہیں، خوبصورت وادیاں اور پر فضا مقامات ہیں، مگر زندگی اتنی آسان بھی نہیں۔ پھر بھی ہماری زندگی اتنی کٹھن نہیں تھی کیونکہ پھلوں کے باغات اور وافر زمین ہمارے پاس تھی، جس سے سال بھر کا گزارہ بآسانی ہوتا تھا۔

میرے بھائی کا نام جافان ہے۔ وہ اکلوتا، ہم سب کا پیارا اور راج دلارا بلکہ آنکھوں کا تارا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ اسے اپنے گھر میں کوئی تکلیف نہ تھی۔ وہ یہاں شہزادوں کی مانند راج کرتا تھا۔ یہاں کے نامی گرامی زمیندار کا بیٹا اور اعلیٰ خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ سچ یہ ہے کہ انسان کسی حال میں مطمئن اور خوش نہیں رہتا، مگر وہ بھی جانے کیوں اپنے گھر سے مطمئن نہ تھا۔ وہ طالب علم تھا اور اس کا کام بس تعلیم حاصل کرنا تھا، مگر یہاں تعلیم حاصل کرنا فضول بات سمجھتا تھا۔ دراصل وہ میدانی علاقے میں جا کر پڑھنا چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہاں کی پڑھائی میں جان نہیں ہے اور نہ ہی اچھے اساتذہ ہیں۔ 

مجھے یہاں نہیں پڑھنا بلکہ کسی بڑے شہر کے بڑے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھ کر ترقی کرنا ہے۔ بھلا اس سنسان پہاڑی علاقے میں میں کیونکر ترقی کر سکتا ہوں؟ بس ترقی کے خواب دل میں سجائے میرا بھائی اپنی خوبصورت اور ہری بھری جنت سے نکلا اور زمانے کی تلخی اور ٹھوکروں کا شکار ہو کر حالات کی کانٹوں بھری وادی میں جا گرا۔ میرے بھائی کا نام تو جافان ہے، مگر اسے کہتے شیر و ہیں، تو آگے کی داستان بھائی شیر و سے سنیے۔

اس وقت گہراسناٹا چھایا ہوا تھا اور چاند کہیں بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔ گرمی کا موسم تھا جس کی وجہ سے سب لوگ پریشان تھے۔ چاروں طرف اندھیرے اور خاموشی کا راج تھا، البتہ کہیں دور کبھی کبھی کسی کتے کے بھونکنے کی آواز کانوں میں آ جاتی، تو مردہ رات میں زندگی کا احساس جاگ جاتا تھا۔ میں ابھی تک جاگ رہا تھا۔ نجانے کون سا غم تھا جو مجھے ایسے جلا رہا تھا جیسے میں نے کوئی خطا کی ہے اور اب پچھتاوے کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہوں۔ ماضی کی ایک ایک بات مسل کی طرح میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی تھی۔ 

جب میں چھوٹا تھا تو کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ سبھی مجھ سے پیار کرتے تھے، تبھی ماں باپ کے پیار نے مجھے مغرور کر دیا تھا، مگر جب زندگی کی سختیوں کا ادراک ہوا، تو سارا غرور بھرے پہاڑ کی مانند گرنے لگا اور زندگی کو کسی سخت چٹان سے ٹکرانے کو دل چاہنے لگا۔ آرام دہ زندگی نے ایسا آرام طلب بنا دیا تھا کہ کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ سوتا تو اٹھنے کی سکت نہ ہوتی، بیٹھ جاتا تو کھڑے ہونے میں دقت محسوس ہوتی۔ یہ عیش پرستی کا نتیجہ تھا کیونکہ خوشحالی تھی اور کرنے کو کوئی کام نہیں تھا۔ پڑھائی کے سوا اور پڑھائی کے معیار سے میرا دل مطمئن نہیں تھا۔ جی چاہتا تھا کہ اسلام آباد، راولپنڈی کے تعلیمی ادارے دیکھوں، کراچی کے تعلیمی اداروں میں نام لکھواوں۔ لگتا تھا کہ میں اپنے اس قیمتی اور سنہرے وقت کو کھو رہا ہوں۔ 

بزرگ سمجھاتے کہ اپنے شہر میں ہی رہ کر تعلیم حاصل کرو، اپنا گھر چھوڑ کر کہیں نہ جاؤ، مگر میں جلد از جلد یہ پنجرہ توڑ کر نکل جانا چاہتا تھا۔مجھے اپنی ماں کے وہ شکستہ آنسو یاد ہیں ، جب میں منع کرتی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں ان کی نظروں سے دور جاؤں۔ بہن ہاتھ جوڑ کر کہتی تھی، بھیا!پردیس نہیں جانا، ہم تمہارے بغیر کیا کریں گے۔ والد نے مجھے بار بار سمجھایا، بیٹا! یہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ کس چیز کی کمی ہے؟ کھاتے پیتے ہو، سب رشتہ دار تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، آرام سے پڑھو اور جو کچھ کرنا ہے کرو۔ اپنے گھر کی مٹی میں بہت وزن ہوتا ہے۔ باہر نکلنے سے آدمی ہلکا ہو جاتا ہے۔ مگر مجھ پر تو بڑے شہر جا کر ترقی کرنے کا بھوت سوار تھا۔ میرا خیال تھا کہ چھوٹے شہر میں رہ کر آدمی ترقی نہیں کر سکتا۔

جب میں نے پوری طرح بوریا بستر باندھ کر جانے کا فیصلہ کر لیا، تو امی نے جا کر بزرگوں سے کہا کہ مجھے روکو۔ تب خاندان کے کچھ بزرگ بھی مجھے سمجھانے آئے، مگر میں کب بڑوں کی سنتا تھا؟ جو ان کی مانتا؟ میری عمر ہی کتنی تھی؟ میں سترہ اٹھارہ برس کا نوجوان تھا، جس کے اپنے جذبات تھے۔ میں ان بزرگوں کی عمر کے مطابق تو نہیں سوچ سکتا تھا۔ بس پھر میں نے اپنا گاؤں ہی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ جس رات مجھے جانا تھا، مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ ہواؤں کے ختنوں اور پتوں سے سائیں سائیں کرتی ہوئی چل رہی تھی۔ 

یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ جب سب سو گئے، تو میں اٹھ بیٹھا اور سوچا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ شہر کیسے جاؤں؟رقم تو جیب میں نہیں، پھر یاد آیا کہ کل ابا جان نے امی کو کچھ رقم دی تھی، جو انہوں نے میرے سامنے اپنی صندوقی میں رکھ دی تھی۔ میں وہ رقم نکال کر گھر سے نکل گیا۔ اپنی تعلیمی اسناد میں نے پہلے ہی ایک بیگ میں رکھ لی تھیں۔ بیگ اٹھا کر میں ماں کی چارپائی کی طرف گیا۔ ان کے ہونٹ دیئے کی مدھم روشنی میں ہل رہے تھے، گویا میری حفاظت کی دعا مانگ رہے تھے۔ میں نے ایک الوداعی نظر سب پر ڈالی اور گھر سے نکل گیا۔ 

ابھی صبح نہیں ہوئی تھی۔ چلتے چلتے میں ہائی وے پر آ گیا، جو گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ہر طرف سناٹا اور خاموشی تھی، کسی پرندے یا انسان کی آواز تک سنائی نہیں دے رہی تھی۔ بس صبح کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میرے بالوں کو چھو کر گزر رہے تھے اور میرے چہرے کو خوشگوار انداز سے تھپتھپا رہے تھے۔ وہ مجھ کو پردیس جاتے ہوئے غالباً خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ جب میں روڈ پر پہنچا، تو صبح کا اجالا ہر سو پھیل چکا تھا۔ پرندوں کی دلکش اور سریلی آوازوں نے دل میں سکون کی کیفیت بھر دی تھی۔ ایک طرف یہ ڈر تھا کہ کہیں والد صاحب کو پتہ نہ چل جائے کہ میں گھر چھوڑ کر نکل آیا ہوں۔ وہ مجھے پکڑنے آ جاتے۔ دوسری طرف جس گاڑی کا بے چینی سے انتظار تھا، اس کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ خدا خدا کر کے وہ کوچ آئی، جس پر مجھے سوار ہونا تھا۔ میں نے شکر ادا کیا، گاڑی کو روکا، آخری بار اپنے گاؤں پر غمزدہ دل سے نگاہ ڈالی اور جلدی سے اس میں سوار ہو گیا۔

تقریباً ایک گھنٹے میں میرے گاؤں سے گاڑی شہر پہنچ گئی۔ جلدی سے میں بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہوا اور ٹکٹ خرید لیا۔ انہوں نے دوپہر ایک بجے والی گاڑی کا ٹکٹ دیا، تو میں ایک کیفے میں جا کے بیٹھ گیا۔ مسافروں کے لیے یہ کیفے کھلا تھا۔ اوپر پردہ پڑا تھا، مگر اندر چا ئے مل رہی تھی۔ میں نے سحری نہیں کی تھی، اس لیے روزے کی نیت بھی نہیں کی تھی، لہٰذا میں نے چائے پی تاکہ کچھ حواس بحال ہوں۔ پھر مقررہ وقت پر گاڑی میں بیٹھ گیا اور جب شہر پہنچا، تب ہوش آیا کہ اب گاڑی سے اترنا ہے۔ گاڑی سے اتر کر میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کہاں جاؤں؟ کہاں رہوں؟ کیونکہ یہاں میں اجنبی تھا۔ کئی لوگ اپنے اپنے عزیزوں کے ساتھ تھے، میں اکیلا کھڑا تھا۔ 

مجھے خوش آمدید کہنے والا کوئی تھا اور نہ خدا حافظ کہنے والا۔خدا پر توکل کر کے میں ایک اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر اپنی سوچوں میں گم رہا کہ میری برابر والی نشست پر ایک معزز اور بااحترام شخص آ کر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ روشن اور ہشاش بشاش تھا۔ اس نے پوچھا، بیٹا! کہاں جا رہے ہو؟میں نے بتایا کہ اسلام آباد بورڈ کا کام ہے۔ اس نے پوچھا، کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے اپنے گاؤں کا نام بتایا تو اس نےکہا کہ وہ میرے گاؤں کے ساتھ والے گاؤں کا رہنے والا ہے۔ یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے میری مدد کا یقین دلایا تو مجھے سکون مل گیا۔ جب ہم ایک جگہ اترے، اس شخص نے ٹیکسی لی، مجھے ساتھ بٹھایا اور ہم اقبال ٹاؤن پہنچے، جہاں اس کا گھر تھا۔ 

وہ شادی شدہ اور بال بچے دار تھا۔ ان لوگوں نے میری آؤ بھگت کی، کھانا کھلایا۔ اس معزز آدمی نے مجھے مشورہ دیا کہ بیٹھو، تم تھک گئے ہو، آرام کرو۔ صبح تمہارے مائیگریشن سرٹیفکیٹ کے لیے چلیں گے۔ اگلی صبح چچا محمود کے ساتھ ہم بورڈ گئے، جہاں اپنے دوست کے توسط سے انہوں نے میرا کام کروا دیا۔ رات کو چچا محمود مجھے اسٹیشن چھوڑنے آئے اور چناب ایکسپریس میں بٹھا دیا۔ گاڑی نو بجے شب روانہ ہوئی۔

کراچی میں میرا ایک دوست ندیم رہتا تھا اور ایک کزن بھی، اس کے علاوہ کسی اور کا پتا میرے پاس نہیں تھا۔ جب گاڑی اسٹیل مل کراس کرنے لگی، تو میرے ساتھ بیٹھے مسافر نے پوچھا کہ بھائی، آپ نے کراچی میں کہاں جانا ہے۔ میں نے بتایا کہ پرانا حاجی کیمپ، وہاں میرا کزن کام کرتا ہے، لیکن راستہ معلوم نہیں، میں پہلی بار جا رہا ہوں۔ اس نے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ کینٹ اسٹیشن پر مسافر گاڑی سے اترنے لگے۔ جب میں اپنے ہم سفر کے ساتھ اترا تو ایک عجیب سی گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ کہاں وہ چھوٹی سی جگہ اور کہاں یہ اتنا بڑا شہر! میں لوگوں کے ازدحام کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ آخر ہم اسٹیشن سے نکل آئے اور پرانے حاجی کیمپ جانے والی ویگن میں بیٹھ گئے۔ مجھے یہ شہر عجیب سا لگ رہا تھا، اونچی اونچی عمارتیں، کشادہ سڑکیں اور بے پناہ رش۔ پہاڑوں کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ جب ہم حاجی کیمپ پہنچے تو وہ اجنبی مجھے خدا حافظ کہہ کر چلا گیا، کیونکہ وہ صرف مجھے چھوڑنے کے لیے یہاں تک آیا تھا، ورنہ اسے تو کورنگی جانا تھا۔ میں اپنے گرد و پیش کو دیکھ کر حیران و پریشان تھا کہ اب کیا کروں؟ کوئی جان پہچان نہ تھی۔ میری پریشانی بڑھنے لگی۔

 سب اپنے کاموں میں مصروف تھے، کسی کو کسی سے واسطہ نہ تھا۔ میں نے اپنے کزن مادر بھائی کو تلاش کرنے کے لیے تمام دکان داروں سے اس کے بارے میں پوچھا، مگر سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ دن بھر ایسے ہی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ جب بہت تھک گیا تو ایک پان والے سے پوچھا کہ بھائی، کوئی ہوٹل ملے گا؟ اس نے قریب ہی ایک ہوٹل کا بتایا۔ میں وہاں پہنچا، منیجر کو رقم دی، تو اس نے کمرے کی چابی دے دی۔ رات ہو چکی تھی۔ میں تھکن سے چور بستر پر گرا اور سو گیا، یہ سوچ کر کہ کل کی فکر کل کروں گا، آج تو سو لوں۔ صبح جب آنکھ کھلی تو دیوار پر نظر پڑی۔ وہاں لکھا تھا کہ "میں پچیس اگست کو گھر سے بھاگ کر کراچی آیا تھا۔ یہاں آتے ہی جیب کٹ گئی۔ شکر ہے کچھ رقم علیحدہ سے بیگ کے اندرونی حصے میں رکھ کر سی لی تھی۔ ایک ماہ کراچی میں ٹھوکریں کھاتا رہا، مگر کوئی نوکری نہ ملی۔ اب میں بہت اداسی کے ساتھ واپس گاؤں جا رہا ہوں اگر کوئی میری طرح آئے، تو تاکید ہے کہ وہ کراچی کی تلخیاں برداشت کرنے سے پہلے گاؤں لوٹ جائے۔ اس میں اس کا اور اس کے ماں باپ کا بھلا ہے۔ فقط، گل پشاوری۔"

 یہ پڑھ کر مجھے اپنا واقعہ یاد آ گیا۔ چونکہ میں بھی اسی طرح گھر سے بھاگ کر آیا تھا، لیکن ابھی تک کسی نقصان کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

بہرحال، ناشتہ کر کے میں ویگن میں بیٹھ کر دوبارہ قادر بھائی کی تلاش میں نکل گیا۔ اتفاق سے ایک پرانا کلاس فیلو مل گیا۔ میں اتنا خوش ہوا، جیسے دنیا جہاں کی دولت مل گئی ہو۔ بڑھ کر گلے سے لگا اور اپنی ساری بپتا سنائی، تو اس نے تسلی دی اور کہا کہ وہ قادر بھائی کو جانتا ہے، کہاں رہتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں، چلو آؤ۔ وہ مجھے لے کر میرے کزن کے پاس آیا۔ اب میری خوشی دو چند ہو گئی اور سکون ملا کہ میں بے آسرا نہیں ہوں۔ میں قادر بھائی کے ساتھ ہوٹل آیا، بل ادا کیا اور بیگ اٹھا کر ان کے ساتھ چلا آیا۔ 

رمضان المبارک کے دس روز باقی تھے۔ قادر بھائی نے کہا کہ گل شیر، تم ابھی آرام کرو، عید کے بعد تمہارے لیے نوکری تلاش کروں گا۔ عید کے بعد انہوں نے مارکیٹ میں ایک دکان پر مجھے کام دلوا دیا۔ پھر رہائش کا مسئلہ بھی حل کر دیا اور میرے گھر والوں کو خط لکھا کہ فکر نہ کریں، گل شیر میرے پاس ہے۔ ایک ہفتے میں والد صاحب کا جواب موصول ہوا۔ انہوں نے لکھا کہ عزیزم، تم خود سوچو، جس طریقے سے ہمیں چھوڑ کر گئے ہو، ہم نے جان لیا ہے کہ تم نے ماں باپ کو کچھ نہیں سمجھا۔ بچپن سے اب تک جس طرح لاڈ پیار سے تمہیں پالا اور تم سے جو امیدیں وابستہ کیں، تم نے ان سب کو خاک میں ملا دیا۔ 
بس ایسی ہی دل گرفتہ باتیں تھیں، جن سے صفحات بھرے ہوئے تھے۔ خط پڑھ کر میرے آنسو بہنے لگے، مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ اب تو میں ان سے میلوں دور آ چکا تھا۔ ایک ماہ کام کیا، پھر کسی وجہ سے سیٹھ ناراض ہو گیا، تو میں نے کام چھوڑ دیا اور قادر بھائی کے ساتھ کام پر لگ گیا۔ مگر ان کا سیٹھ اور بھی سخت تھا۔ بات بات پر تنخواہ کاٹ لیتا۔ میں نے ایک ماہ بعد وہ کام بھی چھوڑ دیا، کیونکہ ایسے ماحول سے میں کب آشنا تھا؟ پھر ایک مشہور برگر کمپنی میں نوکری ملی، مگر یہاں تنخواہ بہت کم تھی۔ آٹھ گھنٹے کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ جب پہلے دن ڈیوٹی ختم کر کے جانے لگا، تو آرڈر ملا کہ برتن اور فرش بھی دھو کر جانا ہے۔ یہ سن کر جیسے بجلی مجھ پر گر گئی۔ بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ والدین کے گھر تو تنکا بھی نہیں اٹھایا تھا، اور آج تقدیر، بلکہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے برتن دھونے پر مجبور ہونا پڑا۔ اب کیا کر سکتا تھا؟ یہ کام بھی کرنا ہی پڑا۔

اس دن سے توبہ کر لی کہ آئندہ کسی کام کو حقیر نہیں سمجھوں گا۔ ایسے چھوٹے موٹے کام کر کے بھی جیب خالی رہتی تھی۔ تنخواہ اتنی کم تھی کہ بمشکل ایک وقت کی روٹی کا بندوبست ہو پاتا، پھر بھی ہر ماہ قرضہ چڑھتا جا رہا تھا۔ گھر سے خرچہ کس منہ سے منگواتا؟ ایک دن کھانے کو کچھ ملتا تو اگلے دن فاقہ کرنا پڑتا۔ روز بروز میری حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی جو چہرہ گلاب کی طرح کھلا کھلا ہوتا تھا، وہ زرد اور پژمردہ ہو چکا تھا۔ کمزوری بڑھتی جا رہی تھی۔ گاؤں میں پھل دیکھ کر دل نہیں للچاتا تھا حالانکہ ہر طرف ڈھیر لگے ہوتے تھے، اور یہاں جب دکانوں اور ٹھیلوں پر پھل دیکھتا تو دل للچا جاتا، مگر خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔ جب سروس پر جاتا تو کالج سے لیٹ ہو جاتا، اور اگر کالج وقت پر جاتا تو ڈیوٹی سے لیٹ ہوتا، پھر تنخواہ سے پیسے کٹ جاتے۔ ان الجھنوں نے ذہن کو مفلوج کر دیا تھا۔ میں بہت شکستہ دل اور پژمردہ ہو کر کام کر رہا تھا۔

ایک دن بہت ضروری کام آن پڑا۔ سوچا آدھا دن کام کر کے چھٹی مانگ لوں گا۔ دوپہر بارہ بجے منیجر سے درخواست کی تو اس نے بدتمیزی سے بات کی، اور میری مجبوری پر رحم کرنے کے بجائے مجھے نوکری سے نکال دیا۔ جو کام میں پہلے کر چکا تھا، اس کی اجرت بھی ضبط کر لی اور سخت بے عزتی کے ساتھ دفتر سے نکال دیا۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، بھاری قدموں سے سڑک پر چل رہا تھا اور ذہن میں ماں باپ کی شفیق صورتیں گردش کر رہی تھیں۔ سوچ رہا تھا کہ اگر بڑوں کی بات مان لیتا تو آج اس قدر خوار نہ ہوتا۔ زخمی ہرن کی طرح لڑکھڑاتا ہوا ایک پارک میں جا پہنچا، اور ایک جھاڑی کے نیچے دبک کر آنسو بہانے لگا۔ 
اتنا رویا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ اچانک میرے ذہن میں اپنے گاؤں کے ایک جاننے والے کا خیال آیا جو حب چوکی میں ٹائلز کی فیکٹری میں سپر وائزر تھا۔ میں اسی وقت وہاں گیا۔ اس نے دلاسا دیا اور وعدہ کیا کہ وہ میری نوکری کے لیے پوری کوشش کرے گا۔ تب مجھے کچھ ڈھارس ملی اور میں اپنے کرائے کے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔ اس رات مجھے نیند نہیں آئی، کروٹیں بدلتے صبح ہو گئی۔ دن بھر کہیں نہ نکلا۔ شام چھ بجے ایک دوست آیا اور بتایا کہ تمہاری نوکری کا بندوبست ہو گیا ہے۔ یہ سن کر کچھ سکون ملا، سوچا چلو، زیادہ نہیں تو کم از کم کھانے پینے کا خرچ تو نکلے گا۔اب میں فیکٹری میں محبت اور شفقت کے ساتھ کام کرنے لگا۔ صبح تڑکے سے شام پانچ بجے تک محنت کرتا، پھر شام کو کالج جاتا اور رات نو دس بجے واپس آتا۔ اس کے بعد رات دو تین بجے تک پڑھتا رہتا۔ جون میں نوکری کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ امتحانات سر پر تھے اور پیپرز دینے تھے۔

ایک سال بعد گھر سے خط آنے لگے کہ واپس آ جاؤ۔ والدین کی التجائیں، بہن کی منت سماجت نے مجبور کر دیا، اور ایک دن میں نے اپنے گاؤں لوٹ جانے کا تہیہ کر لیا، جہاں سے آنسو بہا کر نکلا تھا۔ وہ دن بھی آ گیا، جب میں واپس اپنے خوبصورت گاؤں پہنچا۔ ٹھنڈی، صاف ستھری، والہانہ ہوائیں اور پانی کی تیز دھاریں گنگنا کر میرا استقبال کر رہی تھیں۔ گاؤں کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی میرے آنسو بہنے لگے۔ جانے وہ خوشی کے آنسو تھے یا ندامت کے؟ شام کے پانچ بجے تھے جب میں نے پہاڑوں کے درمیان واقع اپنے پتھروں سے بنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ والدین دروازے پر آ گئے۔ مجھے دیکھ کر ماں دھاڑیں مار کر میرے گلے لگ گئیں۔ باپ اور بہن بھی رو رہے تھے۔ میں ماں باپ کے قدموں میں گر گیا۔ آج معلوم ہوا کہ ظالم دنیا کی بے رحمی سے بچانے والی ہستیاں صرف ماں باپ ہی ہوتے ہیں، جو اپنا سکون قربان کر کے اولاد کو سکون دیتے ہیں، مگر اولاد کو اس کا احساس دیر سے ہوتا ہے۔

میں نے والدین کے پیر پکڑ کر معافی مانگی۔ دوبارہ گلگت میں داخلہ لیا اور پڑھائی شروع کر دی۔ یہاں جو سکون تھا، وہ اور کہیں نہ تھا۔ اب میں ہر لڑکے کو یہی نصیحت کرتا تھا کہ بھائی، اپنے گھر کا سکون چھوڑ کر کبھی نہ جانا۔ اگر جانا ہی ہو، تو والدین کی مرضی اور دعاؤں کے ساتھ جانا تاکہ تم در بدر نہ پھرو۔ میرے بھائی نے یہ سب کچھ دیکھ کر سبق سیکھا، تعلیم حاصل کی، پھر کھیتی باڑی سنبھال لی اور اپنے فروٹ کے باغات کی دیکھ بھال کر کے خوب روپیہ کمانے لگا۔ امی ابو نے بھائی کی پسند سے اس کی شادی بھی کر دی۔ 
آج بھائی اپنے گھر میں خوش ہے اور پردیس کے نام سے بھی کان کو ہاتھ لگا لیتا ہے۔ کہتا ہے: سچ ہے، اپنے گھر میں عزت ہے، باہر تو آدمی تنکے سے بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔بھائی کی کہانی سن کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ پردیس کو “پردیس” کیوں کہا جاتا ہے، اور یہ کہ پردیس کی پوری، اپنے دیس کی آدھی سے بھی بدتر ہے۔ آج کل ہمارے نوجوان، ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دے کر غیر قانونی طریقے سے دیارِ غیر جاتے ہیں، جان گنوا بیٹھتے ہیں، گرفتار ہو جاتے ہیں یا خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اگر جانا ہو تو جائز طریقے سے، ہنر سیکھ کر، باعزت طریقے سے جائیں؟ ورنہ پردیس نہ جائیں، کیونکہ اپنا دیس ہی بھلا ہے۔