میری شادی اختر سے ہونے ہی والی تھی کہ میری ماں نے رولا ڈال دیا۔ وہ شروع سے اس رشتے کے خلاف تھیں۔ یہ بات نہ تھی کہ اختر میں کوئی عیب یا خرابی تھی وہ تو نہایت شریف اور باوقار تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ امی شروع سے ہی چاچی سے خار کھاتی تھیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ چچا کی آمدنی قلیل تھی۔ وہ ایک معمولی سرکاری ملازم تھے اور ان کے پانچ بچے تھے۔ ہر وقت ان کے گھر میں دال روٹی کے لالے پڑے رہتے، جبکہ والد صاحب کا بزنس اچھا چل رہا تھا اور ہمارے گھر میں خوشحالی کا راج تھا۔
ابو اپنے چھوٹے بھائی یعنی اختر کے والد سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کی باقاعده مالی مدد کیا کرتے تھے۔ میری والدہ کو یہ بات قطعی گوارا نہ تھی کہ ان کا شوہر اپنے بھائی کے کہنے پر خرچہ کرے۔ پس وہ اسی کارن بہانے بہانے چچی سے جھگڑتیں اور طعنہ زنی کرتی رہتی تھیں۔ شروع میں ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ جب والدہ اور چچی کے بیچ کشیدگی بڑھنے لگی تو ابو نے اس مسئلے کا حل نکالا کہ اپنے برابر والا مکان ان کو خرید کر دے دیا اور وہ نئے گھر میں سکونت پذیر ہوگئے۔ مردوں کے دل اور طرح کے ہوتے ہیں اور عورتیں کسی اور نہج پر سوچتی ہیں۔ خاص طور پر جب معاملہ جٹھانی اور دیورانی کا ہو۔ امی کو یہ قلق بھی تھا کہ کیوں ان کے شوہر نے بھائی کو مکان خرید کر دیا ہے۔ حالانکہ دونوں بھائیوں نے معاملات افہام و تفہیم سے حل کئے تھے۔ دادا مرحوم کے گھر میں دونوں بھائیوں کا حصہ برابر کا تھا۔ چچا نے اپنا حصہ ابو کو دے دیا جس کے عوض میرے باپ نے ان کو برابر والا مکان خرید کر دیا تاکہ دونوں کنبے سکون کے ساتھ علیحدہ رہیں اور عورتوں کی روزمرہ کی چخ چخ ختم ہو جائے۔
جو مکان چچا کو لے کر دیا تھا اس کی قیمت کچھ زیادہ تھی لہٰذا والد صاحب نے اپنے پلے سے رقم ڈال دی کہ بھائی جب تمہارے پاس سہولت ہو یہ رقم واپس لوٹا دینا، ورنہ کوئی بات نہیں۔ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ بڑے بھائی کی حیثیت سے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ تمہاری مدد کروں۔ میرا اور اختر کا رشتہ بچپن سے طے تھا۔ اختر ایک لائق لڑکا تھا۔ اسے پڑھنے کا شوق تھا اور وہ ان دنوں اپنی تعلیم کے آخری سال میں تھا جب ہماری شادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ اس بندھن میں ہماری پسند کا بھی دخل تھا اور ہم دونوں اپنی شادی کی شبھ گھڑی آنے پر خوش تھے، مگر میری ماں گھلتی جاتی تھیں۔ نہیں چاہتی تھیں کسی طور میری اختر سے شادی ہو۔ کہتی تھیں، فخر بھائی ہیں تو کیا ہوا، ہیں تو سدا کے مفلس… اک عمر گزری اور ان کے دن نہیں بدلے ، اب کیا پھریں گے۔ میں ہرگز بیٹی کا بیاہ ان بھوکوں، ننگوں میں نہ ہونے دوں گی۔ ان کے یہاں پیٹ بھر کھانے کو نہیں میری بیٹی کو کیا کھلائیں گے۔
ابا سمجھاتے کہ فخر کے ماشاء اللہ چار بیٹے ہیں۔ جب یہ کمانے لگیں گے، میرے بھائی کے گھر بھی دولت آجائے گی اور ان کے دلدر دور ہو جائیں گے۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ اختر کی تعلیم مکمل ہونے کو تھی اس کے بعد وہ کمانے لائق تھا۔ اس سے اچھا لڑکا ہماری لڑکی کو نہ ملے گا۔ یہ بات کئی بار میرے ابا نے امی کو سمجھائی مگر میری والدہ کا یہی جواب تھا کہ کمانے لگا تو پہلے کنبے کا برسوں بوجھ اٹھائے گا۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کو پالے گا۔ میری لڑکی کے لئے اس کے پلے کیا بچے گا۔ غرض وہ اسی طرح کی باتیں کرتیں اور اسی غم میں گھلتی رہتیں۔ ابا ان کی ایسی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
امی کو معلوم تھا کہ یہ اپنی سی کر گزریں گے ، لہذا انہوں نے ایک روز سوچی سمجھی اسکیم کے تحت چچی پر چوری کا الزام لگا دیا۔ میرے لئے جو زیور بنوائے تھے، چچی ہمارے گھر آئیں تو ان کو دکھائے، اور جب وہ چلی گئیں، شام کو والد سے کہا میں نے زیور طاہرہ کو دکھائے اور جب اس کے لئے چائے لینے گئی تو اس نے زیوروں میں سے دو انگوٹھیاں اور دو چوڑیاں نکال لیں۔ والد خاموش ہوگئے۔ ماں واویلا کرنے لگیں۔ وہ بولے۔ پندرہ روز بعد درخشاں کی شادی طے ہو چکی ہے، زیور اگر انہوں نے لئے بھی ہیں تو انہی کے گھر جانے تھے۔ میں تم کو اور بنوا دیتا ہوں۔ اس بات کو اپنے اور میرے درمیان بی ختم کردو، لیکن میری ماں نے تو رنگ میں بھنگ کی ٹھان لی تھی۔
ایسا رولا ڈالا کہ چچی اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں۔ والدہ نے جاکر دیورانی پر چڑھائی کردی کہ تم نے پندرہ دن کا بھی انتظار نہ کیا اور میری بیٹی کے زیور میرے ہی گھر سے لے اُڑیں۔ وہ ہکا بکا ہو گئیں۔ شوہر کے سامنے روئیں اور بولیں کہ ابھی سے یہ حال ہے بڑی بھابی نے مجھ کو چور بنا دیا ہے تو آگے میرے ساتھ کیا کریں گی۔ میں ہرگز ان کی بیٹی کو بہو نہ بنائوں گی۔ آپ یہ رشتہ ختم کردیں۔ یہ بیوی رو رو کر اس قدر نڈھال ہوئی کہ چچا اور ابو کو رشتہ ختم کرنا پڑا۔ دونوں بھائی تو غمزدہ تھے ہی، ہماری بھی جان پر بنی تھی کیونکہ اختر اور میں اس رشتے پر خوش تھے۔
خیر جو قسمت کا لکھا تھا ہو گیا اور رشتہ ختم کر دیا گیا۔ مجھ کو تو صدمے سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ اختر کا بھی یہی حال تھا۔ وہ بددل ہو کر گھر سے چلا گیا اور ہوسٹل میں رہنے لگا اور میں… میرے جسم میں اب صرف جان باقی تھی۔ جیسے روح نہ رہی تھی۔ اس دکھ سے نجات پانے کا بھی کوئی راستہ نہ تھا۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا، اور ایک سال کا عرصہ یونہی بیت گیا۔ اس دوران ایک دن ایسا آیا جب میری ماں کو ایک زہریلے کیڑے نے کاٹ لیا۔ ابتدا میں ہم نے یہ معمولی سمجھا، لیکن جلد ہی زخم نے سنگین صورت اختیار کر لی۔ ہم نے ہر ممکن علاج کروایا، حکیموں اور ڈاکٹروں سے رجوع کیا، مگر زخم بڑھتا گیا اور زہر جسم میں پھیلنے لگا۔ اس زہر کے باعث میری ماں کو شدید تکلیف ہوتی، وہ ہر وقت درد سے کراہتی اور چیختی رہتیں۔
ان کٹھن لمحوں میں ہمارے ساتھ اگر کسی نے خالص ہمدردی کا ثبوت دیا تو وہ میرے چچا اور چچی تھے۔ خاص طور پر میری چچی نے وہ محبت اور خدمت کی مثال قائم کی جو سگی بہنیں ہی دے سکتی ہیں۔ انہوں نے دن رات میری ماں کی تیمارداری کی، ان کا ہر طرح سے خیال رکھا، گویا اپنی جان کی پروا کیے بغیر وہ خدمت میں مصروف رہیں۔
زہر کے اثرات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ میری ماں کا پاؤں گلنے لگا۔ یہ منظر نہایت دردناک تھا۔ ان لمحوں میں، جب میری ماں خود کو بے بس اور کمزور محسوس کرتی تھیں، وہ بار بار چچی سے اپنے گزشتہ رویے کی معافی مانگتیں اور اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرتیں۔ اُن کے لہجے میں پچھتاوا بھی ہوتا اور شکریہ بھی۔
میری چچی ایک بڑی دل والی خاتون ثابت ہوئیں۔ انہوں نے میری ماں کی معذرت کو نہ صرف دل سے قبول کیا بلکہ ماضی کی تمام تلخیاں فراموش کر دیں۔ ان کے رویے میں نہ کوئی شکوہ تھا نہ ملال، صرف خالص انسانیت، شفقت اور درگزر کا جذبہ تھا
اختر نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایم بی اے کیا اور جلد ہی ایک بینک میں ملازمت حاصل کر لی۔ اپنی محنت اور قابلیت کے بل پر وہ ترقی کرتا گیا اور کچھ ہی عرصے میں منیجر کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ اب اس کے مالی حالات خاصے بہتر ہو چکے تھے، اور وہ زندگی میں ایک مضبوط مقام پر پہنچ چکا تھا۔
میری چچی ابتدا ہی سے مجھے اپنی بہو کے طور پر دیکھنا چاہتی تھیں۔ وہ ہمیشہ میرے لیے دل میں محبت رکھتی تھیں اور مجھے اپنے بیٹے کے لیے بہترین شریکِ حیات تصور کرتی تھیں۔ حالات کے بدلنے کے بعد، چچا اور چچی نے ایک بار پھر میرے رشتے کی بات کی۔ اس بار، میری ماں انکار نہ کر سکیں۔ وہ پہلے ہی اپنی غلطیوں اور ماضی کے فیصلوں پر نادم تھیں، اور شاید وقت نے اُنہیں سمجھا دیا تھا کہ بعض فیصلے اولاد کی خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
یوں، قدرت نے ایک بار پھر ہمیں ایک موقع دیا، اور میں اختر کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ میری محبت کو وہ انجام ملا جس کی میں خواہش مند تھی۔ اختر صرف میرے خوابوں کا ساتھی ہی نہیں، بلکہ ایک ایسا رفیق ہے جو میرے جذبات، میری قدروں اور میری خوشیوں کو سمجھتا ہے۔
اس تمام سفر میں ایک بہت بڑی نصیحت بھی چھپی ہے، خاص طور پر والدین کے لیے: ذاتی اختلافات، رنجشیں اور انا کے جھگڑے صرف اپنے تک محدود رکھنے چاہئیں۔ اولاد کو ان جھگڑوں میں گھسیٹ کر اُن کی زندگیوں کو متاثر کرنا مناسب نہیں۔ بعض اوقات ماں باپ اپنی نادانی میں اپنی اولاد کی خوشیاں چھین لیتے ہیں۔ محبت اگر سچی ہو، اور نیت صاف ہو، تو راستے ضرور کھلتے ہیں، اور بچھڑے رشتے پھر سے جڑ جاتے ہیں۔
(ختم شد)