انوکھے سسرالی

Sublimegate Urdu Stories

رانی میری بچپن کی سہیلی تھی۔ ہم دونوں زندگی کے ہر دور میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹ لیا کرتی تھیں۔ وہ شروع سے ہی ملنسار، خوش اخلاق اور قوتِ برداشت سے مالا مال لڑکی تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے خوب لاڈ پیار میں پلی بڑھی تھی۔ خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئی، لہٰذا تمام جائیداد کی تنہا وارث تھی۔ والدین کے علاوہ رشتہ دار بھی اس پر جان چھڑکتے تھے اور اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات حرفِ آخر کا درجہ رکھتی تھی۔

اتنے ناز سے تربیت پانے والی لڑکیاں اکثر خود پسند اور خود سر ہو جاتی ہیں، جبکہ رانی نے کبھی اپنے دل میں ایسی فرسودہ عادات کو جگہ نہ دی۔ اتنے بڑے زمیندار گھرانے کی ہو کر بھی محلے کی غریب لڑکیوں سے دوستی رکھتی تھی۔ کبھی اس نے اپنی امارت اور ہماری غربت کا موازنہ کر کے ہماری دل شکنی نہیں کی۔ رانی کی امی کو ہم خالہ جی کہتے تھے۔ انہوں نے بھی کبھی بیٹی کو غریب لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے سے منع نہیں کیا۔ میں نے بارہا محسوس کیا کہ رانی فیاض دل اس لیے ہے کہ اس کے والدین نہایت رحم دل اور سخی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تمام سہیلیوں کے بیچ ایسے دمکتی جیسے نیلگوں آسمان پر جھلملاتے ستاروں کے جھرمٹ میں چاند۔

ہم سب کی نظروں میں اس کی زندگی قابلِ رشک تھی۔ نہایت لاڈ پیار میں گزرا بچپن، اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لڑکپن، اچھی خواہشات کی تکمیل سے بھرپور جوانی، اور پھر ایک کامیاب ازدواجی زندگی  یہ سب قدرت کی ایسی عنایات تھیں جو رانی کی خوش اخلاقی کا انعام تھیں۔

ریاض، اس کے تایا کا بیٹا تھا جس سے رانی کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ وہ دبئی میں انجینئر کے عہدے پر فائز تھا۔ دونوں اپنی زندگی کے سفر پر نہایت مسرور و مطمئن تھے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ دبئی جا چکی تھی۔ میری بھی شادی ہو گئی اور میں اپنے شوہر کے ہمراہ جدہ چلی گئی۔ شادی کے بعد بھی میرا رانی سے رابطہ قائم رہا۔ وہ مجھے خط اور ٹیلی فون کے ذریعے خیریت سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔

ریاض اس کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ زندگی میں کسی شے کی کمی نہ تھی، تاہم پانچ سال گزرنے کے بعد بھی اولاد جیسی نعمت سے محروم تھی۔ سچ ہے، زندگی پھولوں کی سیج نہیں۔ غم اور خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ اس دنیا سے کوئی انسان تمام خواہشات کی تکمیل کے ساتھ نہیں جاتا، بلکہ کوئی نہ کوئی حسرت ناتمام ضرور دل میں دبا کر اس دارِ فانی سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔

اس دوران ریاض نے رانی کا بہت علاج کرایا۔ بڑی سے بڑی لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا، مگر مراد پوری نہ ہو سکی۔ رانی مجھے اپنے شوہر کے بارے میں لکھتی تھی کہ روبی، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ ریاض مجھے اتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے کبھی اولاد نہ ہونے کا طعنہ نہیں دیا۔ سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ ان کے خلوص اور پیار میں کبھی کمی نہیں آئی۔ وہ اس بات سے بھی پریشان نہیں ہوتے کہ ان کی جائیداد کا کوئی وارث نہیں ہوگا۔

تاہم، رانی خود اس مسئلے پر پریشان رہنے لگی تھی اور اکثر مجھے اپنے خدشات سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔ ساتھ ہی کہتی تھی کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو وہ ہم دونوں پر ضرور کرم کرے گا۔ جب اس نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے تو ہمیں ہر حال میں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اصل میں ریاض اسے سمجھاتا اور تسلیاں دیتا رہتا تھا، پھر بھی جانے کیوں وہ مطمئن نہ ہوتی اور کہتی کہ کاش ہمارے پیار سے سینچے ہوئے شجرِ محبت کو پھل پھول لگ جائیں۔

ریاض کی والدہ اور بہنوں کو بھی اس چمن میں پھول کھلنے کی تمنا تھی، مگر وہ روایتی ساس اور نندیں نہ تھیں جو رانی کو اس ناکردہ گناہ کی سزا دیتیں یا ریاض کو اس سے بد دل کرتیں۔ وہ سب دعائیں کرتے تھے کہ یا رب کریم، ہماری رانی کی گود ہری کر دے۔

ایک دن اچانک رانی نے مجھے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ وہ اور ریاض پاکستان آئے ہوئے ہیں کیونکہ تایا جی کی صحت کافی خراب ہے۔ اس نے کہا کہ اگر تم ملنے آ سکو تو بہت اچھا ہوگا۔ ان دنوں میں بھی اپنے شہر آئی ہوئی تھی۔ اگلے دن ہی اس سے ملنے چلی گئی۔

جب میں نے رانی کو دیکھا جسے میں دنیا کی کامیاب اور خوش قسمت عورت سمجھتی تھی تو وہ سراپا حسرت بنی نظر آئی۔ مجھ سے ملتے ہی اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ لیے اس نے میرا استقبال کیا۔ میں نے کہا، رانی، تم نے ہمیشہ ہمیں خوش رہنے کا درس دیا، خود تم نے یہ کیسا روگ پال لیا ہے؟

کافی دیر تک اس کے پاس بیٹھی، تسلی دیتی رہی۔ شام کو اس کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر والدین کے گھر واپس آ گئی۔ اسی رات رانی کے والد، جو کافی بیمار تھے، وفات پا گئے۔ میں دوبارہ ان کے گھر گئی۔ رانی کا رو رو کر برا حال تھا، کیونکہ وہ صرف اس کے والد ہی نہیں بلکہ تایا بھی تھے۔ ریاض بھائی بہت مغموم تھے۔ وہ رانی کی طرف سے تو مضبوط نظر آئے، لیکن اُس دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جس نے ان جیسے مضبوط انسان کے دل میں چھید کر دیا۔

والد کی وفات کے چھ سات دن بعد، جمعرات کے دن، ریاض کی والدہ نے شام کے وقت بیٹے کو بلا کر کہا کہ بیٹا، شام ہونے کو ہے۔ جلدی جلدی کھانے پر فاتحہ پڑھوا کر روٹی کسی غریب یتیم کو دے آؤ۔ یاد رکھنا، چالیس دن تک بلا ناغہ شام سے پہلے کسی یتیم بچے تک روٹی ضرور پہنچانا کیونکہ اولاد ہی والدین کی روحوں کو ثواب پہنچاتی ہے۔ساتھ ہی ماں کی سسکیاں نکل گئیں۔ بیٹا، دعا کرو، کوئی بے اولاد نہ مرے، کیونکہ پھر انسان کا نام لیوا کوئی نہیں رہتا۔ اس کا نشان مٹ جاتا ہے۔ماں نے یہ بات جذبات کی رو میں کہہ دی، مگر یہ بات ریاض کے دل پر گہرا اثر کر گئی۔ وہ خاموش خاموش رہنے لگے۔

والد کی وفات کے دو ماہ بعد انہیں واپس دبئی جانا تھا۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ رانی، میرا خیال ہے کہ امی جان کی دلجوئی کے لیے تمہیں کچھ عرصہ یہیں رہنا چاہیے۔یوں شوہر کی خوشنودی کی خاطر وہ ٹھہر گئی اور ریاض بھائی اکیلے دبئی چلے گئے۔

ایک سال گزر گیا۔ شروع دنوں میں وہ باقاعدگی سے بیوی کو خط لکھتے رہے، مگر پھر آہستہ آہستہ ان کے معمول میں تبدیلی آ گئی۔ اب تو دو دو ماہ گزر جاتے، ان کا خط نہ آتا، اور اگر آتا بھی تو بے حد مختصر ہوتا۔ رانی ان کے رویے پر خاصی بددل ہو گئی تھی، مگر اس نے شوہر کی وفا پر کبھی شک نہ کیا بلکہ مصروفیات سمجھ کر خاموش رہی۔ایک دن اس کے انجانے خدشات نے حقیقت کا روپ دھار لیا..

ریاض نے بیوی کو خط میں لکھا رانی! ابا جان کی وفات کے بعد سے جب سے یہاں آیا ہوں، دل بہت بے چین ہے۔ کئی بار سوچا کہ اپنے دل کی بات تم پر آشکار کر دوں، مگر ہمیشہ یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں کہ میری بات سن کر تم جیسی وفا شعار بیوی کے دل پر کیا گزرے گی۔ اس سے پہلے کہ میں تمہاری نظروں میں گر جاؤں، مر جانا بہتر سمجھتا ہوں۔لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اگر مر گیا تو اس دنیا میں کون ہوگا جو میری روح کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ کرائے گا؟ یہ بھی سوچتا ہوں کہ ربِّ عزّت نے ہمیں تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ کون سی ایسی چیز ہے جو ہمارے پاس نہیں؟ ان سب نعمتوں کے ساتھ اگر ایک اولاد بھی عطا کر دیتا تو اس کے خزانے میں کیا کمی آ جاتی؟مانتا ہوں کہ ایسا سوچنا کفرانِ نعمت ہے، مگر کیا کروں؟ عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ بچوں کے نہ ہونے سے زندگی بالکل بے کیف لگتی ہے۔ معاف کرنا، میں نے دل کی ساری بات کھول کر بیان کر دی ہے۔ اب تمہاری رائے لینا چاہتا ہوں کہ تم اس بارے میں کیا کہتی ہو؟میں تمہاری موجودگی میں دوسری شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر ایک خلش ہے جو تیر کی طرح میرے سینے میں پیوست ہو چکی ہے۔ بے شک ہمارے بعد جائیداد کے وارثوں کی کمی نہ ہو گی، مگر ہماری بخشش کے لیے فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

یہ خط پڑھ کر رانی بہت روئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا:روبی، بتا! میں اس خط کا کیا جواب دوں؟میں نے اسے چند باتیں سمجھائیں، تب اس نے اپنے شوہر کو خط لکھا اور مجھے دکھایا:میرے سرتاج! صد سلامت رہو۔میرا ایمان ہے کہ سب سے بڑھ کر انسان کے اپنے اعمال ہوتے ہیں، جو بندے کے کام آتے ہیں۔ پھر یہ سوچیں آج آپ کو کیوں بے قرار کر رہی ہیں؟ کیا ہمارے آبا و اجداد اپنے ساتھ کچھ لے کر گئے؟ اگر کچھ لے کر گئے، تو وہ صرف اور صرف ان کے اعمال تھے۔ یہی اعمال ان کے کام آئے۔تو پھر ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری جائیداد کا کوئی وارث ہو تاکہ ہمارا نام باقی رہے؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر انسان اس دنیا میں رہ کر کچھ ایسے کام کر جائے جن میں خلقِ خدا کی خدمت شامل ہو، تو وہ مرنے کے بعد بھی صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔ یاد رہنے کے لیے صرف اولاد ہی ضروری نہیں۔
جب یہ خط ریاض کو موصول ہوا، جانے اس پر کیا اثر ہوا کہ ادھر مکمل خاموشی چھا گئی۔ دو ماہ گزر گئے، رانی کی پریشانی قابلِ دید تھی۔ اپنے پیارے شوہر کے خط کے انتظار میں وہ بیمار پڑ گئی۔رانی کی ساس نے بیٹے کو فون کر کے بہو کی بیماری کی اطلاع دی تو ریاض کا جواب آیا:میں تمہیں اپنے دل کی حالت لکھتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوں، کیونکہ میرا ضمیر مطمئن ہے اور مجھے ذاتِ باری تعالیٰ پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہ جسے چاہے دے، اور جس سے چاہے لے لے۔لیکن یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ دنیا میں اولاد انسان کے لیے قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے۔ اگر نیک اولاد ہو تو دین و دنیا سنور جاتی ہے، اور اگر وہ برائی کے راستے پر چل پڑے تو والدین مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ لوگ پھر والدین کو بھی اولاد کے نام پر اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے۔مگر اولاد کی آرزو ہر حال میں باقی رہتی ہے۔میں تمہاری طرف سے پریشان ہوں، کیونکہ شاید تم نے میرے خط کا اثر بہت زیادہ لے لیا ہے، یا شاید تم نے بھی اولاد کی کمی کو دل میں بساکر روگ پال لیا ہے۔ہمارے ہاں اولاد نہیں ہوئی تو اس میں تمہارا کیا قصور؟ نہ میں تمہیں الزام دیتا ہوں، نہ تمہیں سزا دینا چاہتا ہوں۔مرد اگر دوسری شادی صرف اولاد کے لیے کرتے ہیں تو وہ قابلِ معافی ہوتے ہیں، تاہم میں ہرگز تمہیں دکھی نہیں دیکھ سکتا۔اگر میرا بس چلے تو میں دنیا کی ساری خوشیاں تمہارے قدموں پر نچھاور کر دوں، مگر مجھے بچوں سے بھی پیار ہے۔

ریاض کے اس خط سے اس کے دل کی محرومی اور بچوں کی شدید خواہش کا اظہار ہوتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اب زیادہ دن اس خواہش کو دبا نہیں پائے گا، اور دوسری شادی کی اجازت کے لیے بیوی پر دباؤ ڈالے گا۔

پھر سنا کہ وہ پاکستان آ رہا ہے۔ میں حالات جاننے کے لیے رانی کے گھر گئی۔ وہ گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں مصروف تھی۔ اس کی اپنے شوہر سے والہانہ محبت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اگر ریاض نے آ کر اس کے سارے خواب توڑ دیے تو کیا ہوگا؟اور وہی ہوا جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ ریاض کی آمد کے دو تین دن بعد ہی رانی کی خوشیوں پر اوس پڑ گئی۔ اس کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا اور اس سے اجازت مانگ رہا تھا۔ وہ اولاد کی نعمت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا کیونکہ رانی بانجھ تھی۔اس میں اس کا کوئی قصور نہ تھا، مگر عورت ہی ہمیشہ اس کی سزا پاتی ہے، حالانکہ یہ سب کچھ قدرت کی طرف سے ہوتا ہے۔
اس نے غمناک دل سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دے دی تاکہ اپنے شوہر کو خوش اور مطمئن دیکھ سکے۔ ساس نے ایک لڑکی غریب خاندان سے پسند کی، جو ان کی دور کی رشتہ دار بھی تھی۔ غریب لڑکی کو اس لیے چُنا گیا کہ وہ رانی کی تابعدار رہے گی۔شوہر بہت مشکور تھا۔ اس نے بھی کہا کہ وہ عمر بھر رانی کا احسان نہیں بھولے گا، اور ہمیشہ اس کا وفادار رہے گا۔اب رانی اندر سے گھلنے اور مرنے لگی۔ اس کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہو رہی تھی، جیسے کوئی اندر ہی اندر اسے کھا رہا ہو۔ بالآخر وہ شدید بیمار ہو گئی۔جن دنوں اس کی ساس نئی بہو لانے کی تیاریوں میں مصروف تھی، رانی دن بہ دن ختم ہوتی جا رہی تھی۔

ایک دن ریاض زیورات کا ڈبہ ہاتھ میں لیے خوشی خوشی گھر آیا۔ آتے ہی رانی کے پاس گیا اور بولا:دیکھو، جیسا سیٹ اُس کے لیے ہے، تمہارا اس سے بھی بہتر ہے۔ لو، دیکھو تو سہی۔رانی نے شوہر کے اصرار پر مخملی ڈبے کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو ریاض کو وہ ہاتھ لکڑی کا سا محسوس ہوا۔ یکدم اسے جیسے بجلی کا جھٹکا لگا۔ اس نے غور سے رانی کے چہرے کی طرف دیکھا وہاں کچھ بھی باقی نہ تھا۔ وہ ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔ آنکھوں کے چراغ بھی بجھ چکے تھے۔ریاض کے دل پر جیسے کوئی تیز دھار چیز چل گئی۔ اولاد کی خواہش پوری کرنے کی جستجو میں، دوسری شادی کے انتظامات میں ایسا الجھ گیا تھا کہ اسے مدتوں سے رانی کی حالت پر توجہ دینا یاد ہی نہ رہا۔میرے خدا! میں نے اس کی کیا حالت کر دی۔ایک لمحے کو وہ رکا، اور پھر خود سے شرم سار ہو گیا۔
اس نے زیورات کے ڈبے ایک جانب رکھ دیے اور ماں سے کہہ دیا:میں دوسری شادی نہیں کر رہا۔ اگر اولاد نہیں ہوتی تو یہ خدا کی مرضی ہے۔ میں اپنی رانی کو دکھ کی آگ میں جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔

انہی دنوں ریاض کی بھابھی نے چوتھے بچے کو جنم دیا تھا۔ ریاض نے بھابھی کے پاؤں پکڑ لیے اور اس سے بچہ مانگ لیا۔ پھر وہ بچہ لے کر رانی کی جھولی میں ڈال دیا۔آج اس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ رانی تندرست، توانا اور خوش باش زندگی گزار رہی ہے۔ اس نے آج تک اس بچے کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کی حقیقی ماں نہیں ہے۔خدا ہر عورت کو رانی جیسا شوہر اور ساس نندیں عطا کرے۔