ماسٹر مقبول نے نادیہ کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ وہ مختلف طریقوں سے اسے پریشان کرتا رہتا تھا۔ آخر ایک دن نادیہ نے تنگ آ کر اس کے خلاف ایک سنگین قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ کالج سے چھٹی کے بعد وہ اپنا رجسٹر اور نوٹ بک لے کر باہر نکلی اور ایک رکشے میں سوار ہوئی۔ رکشے والے کو پرانے قبرستان کی دوسری طرف پرانی آبادی کا ایڈریس بتایا۔ رکشے والے نے حیرانگی سے نادیہ کی طرف دیکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ قبرستان کی دوسری طرف جو لوگ رہتے ہیں وہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔ لیکن وہ خاموش ہو گیا اور رکشے کو لے کر اس پرانی آبادی والے علاقے کی طرف چلا گیا۔
قبرستان کی دوسری طرف کچھ مکان موجود تھے اور ایک طرف ایک پان سگریٹ کی دکان تھی۔ نادیہ نے اسے قادر بخش کے بارے میں پوچھا پہلے تو دکاندار نے بغور نادیہ کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا۔ پھر دکان کی پچھلی طرف سے ایک لڑکے کو آواز دی کہ جاؤ اس بی بی کو قادر بخش کے پاس چھوڑ آؤ۔ وہ 10 سالہ لڑکا نادیہ کو لے کر قادر بخش کے مکان کی جانب چل پڑا۔ دروازے کے پاس ہی اس لڑکے نے نادیہ کو چھوڑ دیا اور واپس چلا گیا۔ نادیہ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک 40 سالہ آدمی باہر نکلا۔ نادیہ نے اسے بتایا کہ شارق نے مجھے اپ کا ایڈریس اور نام بتایا تھا اس لیے میں ایک ضروری کام سے آپ کے پاس آئی ہوں۔ شارق کا نام سن کر قدر بخش الرٹ ہو گیا اور فوراََ دروازے سے پیچھے ہٹ گیا اور نادیہ کو اندر آنے کے لیے کہا۔ جب نادیہ اندر آگئی تو فوراََ اس نے دروازہ بند کر دیا وہ نادیہ کو لے کر ایک بوسیدہ سے کمرے میں آگیا اور اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ نادیہ نے ہاتھ میں پکڑے ہوا اپنا رجسٹر اور کاپیاں ایک طرف رکھ دی۔ شدید گرمی کی وجہ سے اسے پسینہ آ رہا تھا اور پیاس سے گلا بھی خشک ہو رہا تھا۔
قادر بخش نے فورا ٹھنڈے پانی کا گلاس نادیہ کو پیس کیا۔ جو نادیہ نے ایک ہی سانس میں پی لیا۔ قادر بخش نے نادیہ سے پوچھا: جی بی بی جی بتائیے کس کام سے آنا ہوا؟ شارق صاحب ہمارے جگری دوست ہیں یاروں کے یار ہیں۔ آپ کا جو کام بھی ہوگا ہم وہ کر دیں گے۔ نادیہ نے اسے بتایا کہ کیسے ماسٹر مقبول اسے روز روز تنگ کر رہا ہے اور کیسے وہ اس سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے۔ اس نے ماسٹر مقبول کے تمام تر گھٹیا کارنامے کھول کر قادر بخش کے سامنے رکھ دیے۔ قادر بخش گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے نادیہ کو یقین دہانی کروائی کہ آپ فکر نہ کریں آئندہ وہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا بلکہ وہ اس محلے میں بھی نظر نہیں آئے گا۔
ابھی وہ بیٹھے یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور دروازے پر دستک دی قادر بخش فورا اٹھا دروازے پہ گیا۔ آنے والے لڑکے نے اسے بتایا کہ استاد پولیس کا چھاپہ پڑ گیا ہے جلدی سے یہاں نکل جائیں وہ تمہیں تلاش کر رہے ہیں۔ قادربخش تیزی کے ساتھ واپس پلٹا کمرے میں آیا اور نادیہ کو بتایا کہ یہاں پولیس کا چھاپہ پڑ چکا ہے جلدی سے یہاں سے نکل جاؤ نہیں تو پولیس والے تمہیں بھی دھر لیں گے۔ یہ کہہ کر قادر بخش دیوار پھلانگ کر دوسری طرف کود گیا۔ نادیہ اس صورتحال سے گھبرا گئی کہ اگر وہ اس جگہ پر پولیس کے ہتھے چڑھ جاتی تو پھر اس کا بچنا محال تھا اور پولیس طرح طرح کے سوالات کر کے اس کی زندگی اجیرن کر دیتی۔ نادیہ فوراََ وہاں سے اٹھی اور تیزی سے چلتی ہوئی مکان کے پچھلی طرف گئی وہاں کی دیوار تھوڑی چھوٹی تھی اور اس کے پیچھے قبرستان کا علاقہ تھا۔ نادیہ کسی طرح وہ دیوار پھلانگ کر دوسری طرف اتر گئی اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے قبرستان والی پنگ ڈنڈی پر چلنا شروع ہو گئی۔ اسی گھبراہٹ کے عالم میں اس کا پیر مڑ گیا اور وہ نیچے گر گئی۔ لیکن وہاں رکنا خطرے میں ڈال سکتا تھا اس لیے نادیہ فورا اٹھی اور تیز تیز قدم چلتی ہوئی قبرستان سے نکل کر دوسری طرف پہنچ گئی جہاں پر گاڑیوں کی ورکشاپ کی دکانیں تھیں۔ ایک دکاندار نے اس عجلت میں نادیہ کو قبرستان سے باہر آتے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ عورت قادر بخش کے اڈے سے نکل کر ادھر آرہی ہے کیونکہ آئے دن قادر بخش کے اڈے پر پولیس کے چھاپے پڑتے رہتے تھے۔
وہ عورت تیزی سے سڑک پر آگئی وہ گھبرائی ہوئی تھی اور اس کی چال میں بھی لنگڑاہٹ تھی۔ ورکشاپ والے نے اس لڑکی کو بیٹھنے کے لیے ایک کرسی دی اور پانی کا گلاس دیا نادیہ نے جلدی سے پانی کا گلاس ختم کیا اور دکاندار سے کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے مجھے ایک رکشہ منگوا دیں تاکہ میں اپنے گھر جا سکوں ورکشاپ والا نیک دل انسان تھا اس نے اپنے لڑکے کو دوڑایا جو رکشہ لے آیا نادیہ رکشے میں بیٹھی اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔
نادیہ ایک نئی مصیبت میں پھنس چکی تھی۔جیسے گھر پہنچی اس کا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا وہ آتے ہی چارپائی پر ڈھیر ہو گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ سوچنے لگی: قادر بخش کے پاس جانے کا اس کا فیصلہ غلط تھا اسے جانا ہی نہیں چاہیے تھا اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہاں پہ پولیس کا چھاپہ پڑ سکتا ہے۔ اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتی تو جانے کتنی بدنامی ہوتی۔ یہ سوچ کر وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا تھا۔
اچانک ایک خیال نے اس کی رونگٹے کھڑے کر دیے اس کے پاس جو رجسٹر تھا وہ عجلت وہیں قادر بخش کے مکان میں چھوڑ آئی تھی ۔اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا تو رجسٹر میں اس کا نام اور کالج کا نام لکھا ہوا تھا اور پولیس فورا نادیہ تک پہنچ سکتی تھی۔ یہ سوچ کر وہ اس قدر گھبرائی کہ اپنے ہوش کھو بیٹھی اور ساری رات اس طرح رو رو کر گزار دی۔ اگلے دن اسے سخت بخار ہو گیا جس کی وجہ سے وہ کالج نہ جا سکی۔ تقریبا 3 بجے کالج کا ایک چپڑاسی اس کے گھر آیا دروازے پر دستک دی۔ نادیہ ہر آہٹ پر گھبرا جاتی تھی۔ آخر اس نے ہمت کر کے دروازہ کھولا تو کالج کا ملازم رحمت سامنے کھڑا تھا۔ نادیہ نے اسے اندر بلا لیا اور پوچھا کہ وہ کس کام سے آیا ہے؟ رحمت نے بتایا کہ آپ آج کالج نہیں آئی تو میڈم نے کہا کہ اپ کا پتہ کروں۔ نادیہ نے رحمت سے پوچھا اس کے علاوہ تو کوئی بات نہیں ہے نا رحمت نے کہا نہیں جی کوئی بھی بات نہیں ہے۔ بس آپ کا رجسٹر میڈم منگوا رہی تھی۔ اگر اپ وہ مجھے دے دیں تو میں انہیں لے کر واپس کالج چلا جاتا ہوں۔ رجسٹر کا نام سن کر نادیہ کے ہوش اڑ گئے۔ وہ گھبرا گئی اور گھبراہٹ میں اس کے منہ سے آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔ آخر اس نے ہمت کر کے رحمت کو بتایا کہ رجسٹرایک سہیلی کے گھر بھول آئی ہے۔ کل کالج آتے ہوئے وہ ساتھ لے آئے گی۔ اس کے بعد رحمت وہاں سے چلا گیا اور نادیہ اپنی قسمت پر پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اگلے دن ڈرتے ڈرتے نادیہ کالج پہنچی اور اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہو گئی تقریبا 11 بجے کے بعد اچانک ایک ملازمہ سٹاف روم میں نادیہ کو بلانے آئی کہ اسے پرنسپل میڈم بلا رہی ہیں۔ نادیہ اس کے پیچھے پیچھے پرنسپل آفس تک گئیں اور دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوئیں تو سامنے بیٹھے دو پولیس افسروں کو دیکھ کر اس کا خون خشک ہو گیا۔ لیکن جلد ہی نادیہ نے اپنے حواس پر قابو پا لیا پرنسپل میڈم نے نادیہ کو کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا اور اس کے بعد نادیہ کی حالت کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ دو پولیس افسران تم سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اور دیکھو ہمارے کالج کی عزت کا سوال ہے جو بھی معاملہ ہے اسے جلد از جلد نپٹا لو یہ کہہ کر پرنسپل میڈم اپنے آفس سے باہر چلی گئی۔
ان میں سے ایک پولیس افسر نادیہ سے مخاطب ہوا اس کے ہاتھ میں نادیہ کا رجسٹر موجود تھا جس پر اس کا نام اور کالج کا ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ انسپیکٹر نے کہا میڈم نادیہ یہ رجسٹر ہمیں ایک چرس فروش قادر بخش کے گھر سے ملا ہے جہاں پرسوں پولیس نے چھاپہ مارا تھا لیکن وہ فرار ہو گیا اب اپ یہ بتائیے کہ اپ کا یہ رجسٹر اس مکان میں کیا کر رہا تھا۔ نادیہ کا چہرہ پرسکون تھا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس طرح کے حالات آسکتے ہیں۔ اس لیے وہ مطمئن ہو گئی اور ایک ایسا جواب دیا جسے سن کر پولیس والے بھی حیران رہ گئے۔ نادیہ نے بتایا کہ جب وہ کالج سے واپس جا رہی تھی تو جس رکشے میں وہ بیٹھی یہ رجسٹر وہ اس رکشے میں بھول گئی تھی اور ہو سکتا ہے جس کا نام آپ لوگ بتا رہے ہیں یہ اسی کا رکشہ ہو اور وہ بندہ اس کا رجسٹر اپنے گھر لے گیا ہو۔ نادیہ نے مزید کہا کہ وہ کل سے اس رجسٹر کے گم ہونے پر بہت زیادہ پریشان تھی اپ کی بڑی مہربانی اگر اپ یہ رجسٹر مجھے واپس کر دیں تو میں اس پر اپنے روزمرہ کے اندر اج کر لوں گی۔
دونوں پولیس افسروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا وہ سمجھ گئے کہ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہوا ہو کیونکہ قادر بخش کے مکان پر اکثر رکشے والے آیا جایا کرتے تھے کیونکہ قادر بخش لوگوں کو رکشے کرائے پر دیتا تھا۔ ہو سکتا ہے کسی رکشے میں اس کا رجسٹر رہ گیا ہو اور وہ رکشہ قادر بخش کے گھر تک پہنچا ہو تو وہ رجسٹر قادر بخش کے گھر میں ہی رہ گیا ہو۔ پولیس والے وہاں سے چلے گئے اور نادیہ واپس سٹاف روم میں چلی گئی۔ کالج سے واپسی پر اس نے اپنے لیے کچھ فروٹ اور کچھ سبزیاں خریدیں اور واپس اپنے گھر پہنچ گئی۔ گھر آ کر اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ بروقت اس کی ذہانت کی وجہ سے وہ ایک بڑی مصیبت سے باہر نکل آئی تھی۔ نہیں تو پولیس والے تو بال کی کھال نوچ لیتے ہیں۔ اس نے اپنے لیے تازہ جیوس بنایا اس کے بعد اس کے دل و دماغ کو سکون محسوس ہوا۔
دو دن مزید گزر گئے اب ماسٹر مقبول کی طرف سے کسی بھی قسم کی کوئی حرکت یا بدتمیزی سامنے نہیں آئی تھی بلکہ وہ خود بھی سامنے نہیں آیا تھا۔ جب بھی شارق کا خیال آتا تو وہ فورا اس کو اپنے دماغ سے جھٹک دیتی تھی۔ کیونکہ اس کی وجہ سے وہ ایک بڑی مشکل میں پھنستے پھنستے بچ گئی تھی۔ جب وہ اس کے گھر آیا تھا تب بھی اس کی بدنامی ہو سکتی تھی اور جب وہ شارق کے کہنے پر قادر بخش کے پاس مدد کے لیے گئی تھی تو پولیس کا چھاپا پڑ جانے کی وجہ سے اس کی عزت مٹی میں مل سکتی تھی۔ لیکن ان تمام حالات سے نادیہ نے بڑے اچھے طریقے کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔
ایک دن ہمسایوں سے ایک عورت اس کے گھر آئی جس کی زبانی معلوم ہوا کہ دو دن پہلے پولیس کو ماسٹر مقبول کی تشدد شدہ لاش ملی ہے۔ کسی نے بڑی بے رحمی کے ساتھ اس کے دونوں ہاتھ پاؤں توڑ دیے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گیا تھا۔ اس عورت کی بات سن کر نادیہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے وہ پریشان ہو گئی کہ کہیں کوئی نئی مصیبت اس کے گلے نہ پڑ جائے۔ اس عورت کے چلے جانے کے بعد وہ دیر تک سوچتی رہی کہ یقینا قادر بخش نے یہ بات شارق تک پہنچا دی تھی اور شارق نے ہی یہ کارنامہ سر انجام دیا ہوگا۔ اسے یقین تھا کہ میرے قدر بخش کے گھر سے فرار ہونے کا واقعہ بھی شارق تک پہنچ چکا ہوگا اسے ڈر تھا کہ کہیں شارق پھر اس کے گھر نہ دھمکے۔
آخر وہی ہوا جس کا نادیہ کو ڈر تھا۔ اس رات 11 بجے جب وہ سونے کی تیاری کر رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جب وہ دروازے پہ گئی دروازہ کھولا تو شارق دروازہ دھکیلتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔
نادیہ اس کے اندر آنے سے گھبرا گئی۔ لیکن شارق نے اسے کمرے میں چلنے کو کہا جب دونوں کمرے میں پہنچے تو شارق کرسی پر بیٹھ گیا اور نادیہ کو چار پائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ شارق کو قادر بخش کی زبانی تمام واقعہ کا علم ہو چکا تھا لیکن وہ نادیہ کی زبانی سننا چاہتا تھا۔ نادیہ نے ماسٹر مقبول سے لے کر قادر بخش کے گھر چھاپا پڑنے تک اور پھر وہاں سے قبرستان کے راستے گھر پہنچنے تک کی تمام روداد شارق کو کہہ سنائی۔ اس کے ساتھ ہی کالج میں دو پولیس افسروں کے آنے اور اس سے سوالات کرنے والا معاملہ بھی شارق کے گوش گزار کر دیا۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے شارق سے کہا: خدا کے واسطے میری عزت کا کچھ خیال کریں میں بہت بری طرح سے پھنس چکی ہوں اور اس پریشانی نے میری راتوں کی نیند حرام کر دی ہے۔ شارق نے اسے تسلی دی کہ اب تمہیں کوئی پریشان نہیں کرے گا۔
باتوں ہی باتوں میں نادیہ نے محسوس کیا کہ شارق نظریں جھکا کر اس سے بات کر رہا تھ۔ا شارق کی یہ ادا نادیہ کو بہت پسند آئی۔ وہ مجرم تھا اور نہ جانے کن حالات سے گزرا تھا۔ لیکن اس کی تربیت کسی اچھی ماں نے کی تھی۔ آخر نادیہ نے اسے پوچھ ہی لیا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے اور ایسے حالات کا شکار کیسے ہوا؟ تو شارق نے خود پر بیتی تمام روداد نادیہ کو کہے سنائی۔ شارق کی داستان سن کر نادیہ کی انکھوں میں آنسو آگئے کہ ایک ایسا بچہ جسے اس کے ماں باپ کے قتل کے الزام میں 10 سال جیل کی ہوا کھانی پڑی اس پر کیا بیتی ہوگی۔
رات کا ایک بج رہا تھا نادیہ نے چائے بنائی خود بھی پی اور شارق کو بھی پلائی شارق نے اسے تسلی دی کہآج کے بعد وہ دوبارہ اس کی طرف نہیں آئے گا اور کوشش کرے گا کہ اس کی طرف کوئی بھی غلط نگاہ ڈالے یا اس کی عزت پر کوئی انگلی اٹھائے وہ اسے خود نپٹ لے گا۔ اتنا کہہ کر شارق وہاں سے اٹھ گیا اور تاریکی گلی میں اس کا وجود غائب ہو گیا۔ نادیہ دیر تک اپنی چارپائی پر بیٹھی شارق کو سوچے جا رہی تھی۔ شارق کہ لے کر اس کے دل میں اک عجیب سی ہلچل مچ گئی تھی۔ آخر اس نے دھڑکتے دل کو تھام لیا، اور نا چاہتے ہوئے بھی نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔