بھیانک کھیل - چھٹا حصہ (آخری)

Urdu Font Stories 47

شارق نے روپوشی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ سلطان اکبر کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا کیونکہ اس وقت وہ پولیس کے ساتھ معاملات طے کرنے میں مصروف تھا۔ جیسے ہی پولیس کے ساتھ معاملات طے ہو جاتے۔ شارق منظر عام پر آ سکتا تھا۔ دوسری طرف نادیہ بھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھی۔ اس کی سوچوں میں شارق بس چکا تھا اور جانے انجانے میں اس کی محبت نادیہ کے دل میں گھر کر چکی تھی۔

 ایک تیسری آنکھ جو شارق اور نادیہ کے معمولات پر نظر رکھے ہوئے تھی وہ تھی ماجھا گجرکی خطرناک آنکھ۔ ماجھا گجر انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ اس نے شارق کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے اپنے خاص بدمواشوں کو مقرر کر رکھا تھا آخری دفعہ ماجھا گجر کے لوگوں نے شارق کو نادیہ کے گھر جاتے دیکھا تھا۔ جب اس کی اطلاع ماجھا گجر کو دی گئی تو اس نے سوچا کہ ابھی اسے ڈھیل دیتا ہوں اور پھر شارق اور اس سے وابستہ ہر انسان کو موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔ ماجھا گجر نے شارق کو پھنسانے کے لیے ایک نیا پلان بنایا۔ اس نے اپنے خاص بندے فردوس سے کہا کہ اس لڑکی کے بارے میں مکمل معلومات اکٹھی کرو۔ کون ہے؟ کیا کرتی ہے؟ کہاں کہاں آتی جاتی ہے؟ اگر ہم اس لڑکی کو اٹھا لیں گے تو شارک خود چل کر ہمارے پاس آئے گا۔ پھر شارک کے سامنے اس کے چاہنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار کر میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لوں گا اس طرح میرے دل میں ٹھنڈک پڑ جائے گی۔

فردوس نے کچھ لوگوں کے ساتھ نادیہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دیں اور ماجھا گجر کو ان تمام معلومات سے آگاہ کر دیا ماجھا گجر نے نازیہ کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ یہ ایک طوفانی رات تھی شاید بارش ہو سکتی تھی کبھی کبھی آسمان پر بجلی چمکتی اور تھوڑی دیر کے لیے روشنی پھیل جاتی تھی پھر ہر طرف اندھیرا چھا جاتا تھا۔ اچانک کچھ نقاب پوش اس گلی میں داخل ہوئے جس میں نادیہ کا گھر تھا۔ نادیہ تمام باتوں سے بے فکر اپنے گھر میں چارپائی پر لیٹی ہوئی شارق کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔ وہ شارق سے ملنا چاہتی تھی تاکہ اسے اپنے بارے میں بتا سکے اور شارق کے بارے میں جان سکے کہ وہ کہاں ہے؟ وہ شارق کے بارے میں کچھ فکر مند بھی تھی۔ کیونکہ شارق جن راستے پہ چل رہا تھا ان راستے پر صرف موت ہی مل سکتی تھی۔ نادیہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ شارق سے مل کر اس کو سمجھائے کہ وہ اس برائی کے راستے سے ہٹ جائے اور ایک اچھے انسان کی زندگی بسر کرے تو وہ دونوں مل کر ایک اچھا مستقبل بنا سکتے ہیں۔ نادیہ انہی خیالات میں گم تھی کہ اچانک اس کے کانوں میں ایک دھک کی آواز پڑی جیسے کوئی انسان دیوار پھلانگ کر اندر کود تا ہے۔ نادیہ نے اسے اپنا وہم جانا اور بستر پر لیٹی اپنے خیالات میں گم سم چھت کو تکے جا رہی تھی۔

نادیہ کی غفلت کی وجہ سے وہ نقاب پوش اس کے گھر میں داخل ہو چکے تھے۔ وہ آہستہ سے کمرے کے دروازے کے پاس پہنچے۔ کمرے میں جھانک کے دیکھا تو ایک خوبصورت لڑکی بستر پر دراز تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ دو نقاب پوش گھر میں داخل ہو چکے تھے اور تین نقاب پوش باہر گلیوں میں چھپے بیٹھے تھے۔ گھر میں داخل ہونے والے دو نقاب پوشوں میں سے ایک کے پاس تیز دار خنجر تھا اور دوسرے نے اپنی کمر کے ساتھ ایک پستول اڑس رکھا تھا۔ خنجر بردار دروازے کو دھکیلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور آن کی آن میں نادیہ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ وہ چلاّ نہ سکے۔ 

نادیہ اس آفت سے گھبرا گئی۔ پہلے تو وہ سمجھی شاید شارق آیا ہے لیکن شارق ایسا رویہ نہیں اپنا سکتا تھا یہ کوئی اور تھا۔ جب اس کی نظر اس نقاب پوش پر پڑی وہ چلّانا چاہتی تھی لیکن نقاب پوش نے اس کے منہ پر اس زور سے ہاتھ رکھا تھا کہ وہ چلاّ نہ سکی اور چیخ اس کے حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ دوسرے پستول بردار نقاب پوش نے نادیہ کی کنپٹی پر پستول رکھا اور اسے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ نادیہ سمجھ گئی کہ اب اگر یہ چیختی چلّاتی ہے تو یہ لوگ اس کا کام تمام کر دیں گے۔ اس لیے وہ خاموش ہو گئی خنجر بردار نے نادیہ کے منہ پر ایک رومال رکھا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد نادیہ بے ہوشی کی حالت میں چلی گئی۔

 ان میں سے ایک نقاب پوش نے نادیہ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آئے۔ باہر کا دروازہ کھول کر جھانگ کے دیکھا تو گلی خالی اور سنسان تھی۔ لیکن ان کے ساتھی باہر موجود تھے۔ باہر چھپے ہوئے تینوں بدمعاش ایک جیپ میں سوار تھے۔ انہوں نے جیپ دروازے کے سامنے روکی نادیہ کو جیپ میں ڈالا اور فوراََ اس گلی سے فرار ہو گئے۔

کافی دنوں سے شارق روپوش تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ نادیہ سے جا کے ملے لیکن سلطان اکبر کی ہدایت کے مطابق وہ یہ قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کیونکہ جب تک پولیس سے معاملات طے نہ ہو جاتے شارق باہر نہیں نکل سکتا تھا ۔آخر کارایک دن سلطان اکبر نے شارق کو بتایا کہ پولیس کے ساتھ معاملات طے ہو چکے ہیں اور کچھ پیسوں کے لین دین اور دو تین گرفتاریاں دے کر معاملہ رفع دفع کروا دیا ہے۔ اس کے بعد شارک منظر عام پر آ سکتا تھا۔ لیکن ابھی بھی اسے احتیاط کی ضرورت تھی۔کیونکہ ماجھا گجر کہیں چھپ کر بیٹھا تھا اور زخمی شیر کی طرح کسی وقت بھی خوفناک حملہ کر سکتا تھا۔ اس لیے شارق کو پولیس سے کوئی فکر نہیں تھی لیکن ماجھا گجر کی طرف سے کسی بھی قسم کا کوئی حملہ ہو سکتا تھا۔ 

آخر ایک رات شارق کا صبر جواب دے گیا۔ اس نے نادیہ کے گھر جانے کا فیصلہ کیا رات 10 بجے کا وقت تھا وہ مارکیٹ سے پیدل گزرتا ہوا ایک چوک پر پہنچا۔ جہاں اسے ایک رکشہ مل گیا۔ رکشہ خالی تھا اس کا ڈرائیور ساتھ بنے ہوئے پان سگرٹ کے کھوکے سے سگرٹ خرید رہا تھا۔ شارق نے اسے مخاطب کیا کہ کیا وہ جانے کے لیے تیار ہے؟ رکشہ ڈرائیور فوراََ رکشے میں آ کر بیٹھ گیا اور شارق کی بتائی ہوئی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد شارق اس گلی میں پہنچا جس گلی میں نادیہ کا گھر تھا۔ رکشے والا واپس چلا گیا اور گلی کے آخر میں جب شارق نادیہ کے گھر کے سامنے پہنچا تو ایک بڑا تالا دیکھ کر اس کا چہرہ اداس ہو گیا وہ پریشان ہو گیا کہ رات کے اس وقت نادیہ کہاں جا سکتی ہے؟ لیکن پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کالج سے چھٹیاں لے کر وہ گھر اپنے ماں باپ سے ملنے گئی ہو۔ یہ سوچ کر اداس اور پریشان دل لیے وہ واپس پلٹ آیا اور سلطان اکبر کے ڈیرے پر پہنچ کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک آدمی اس کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ ایک بری خبر ہے ماجھا گجر منظر عام پر آ چکا ہے اور تمہارے لیے ایک اطلاع ہے۔ یہ آدمی بھی سلطان اکبر کا خاص بندہ تھا اس نے ایک نمبرشارق کو بتایا کہ اس نمبر پر اپ رابطہ کریں ماجھا گجر آپ سے بات کرنا چاہتا ہے۔

 شارک پریشان ہوا کہ یہ ماجھا گجر اچانک کہاں سے ٹپک پڑا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اب بھیانک کھیل شروع ہونے والا ہے۔ زندگی اور موت کے اس کھیل میں شارق بہت پہلے داخل ہو چکا تھا۔ اس لیے اس نے نمبر لے لیا۔ سلطان اکبر کے ڈیرے میں ایک کمرہ آفس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جس میں ٹیلی فون موجود تھا شارق نے ٹیلی فون پر نمبر ملایا اور دوسری طرف جانی پہچانی آواز سن کر ہیلو کہا: دوسری طرف ماجھاگجر فون پر موجود تھا۔ شارق نے ماجھے گجر سے کہا: مجھے معلوم ہے تم اپنے بھائی کا انتقام لینا چاہتے ہو اور میں نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچاؤں گا سکون سے نہیں بیٹھوں گا اور میرے ماں باپ کے قاتلوں میں تم بھی شامل ہو۔ ماجھے گجر نے ایک قہقہہ لگایا اور شارق کو بتایا کہ موت کے اس بھیانک کھیل میں اب چند گھڑیاں باقی ہیں۔ بہت جلد تم اور تمہارا ہر چاہنے والا موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ شارق کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ماجھا گجر شارق کے کن پیاروں کی بات کر رہا ہے؟ آخر ماجھا گجر نے اسے نادیہ کے بارے میں بتایا کہ وہ اسے اٹھا کر اپنے ڈیرے پر لے گئے ہیں اور اس ڈیرے کا کسی کو پتہ بھی نہیں تھا۔ ماجھا گجر نے اپنا ٹھکانہ ایک ایسی جگہ بنا لیا تھا جس کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہ تھی۔ نادیہ کا نام سن کر شارق کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ وہ جانتا تھا نادیہ بے قصور ہے اس کا شارق اور ماجھے گجر والے معاملے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس لیے شارق نے ماجھے گجر سے کہا کہ اگر تمہیں انتقام لینا ہے تو سامنے آ کر لو نادیہ بے قصور ہے اسے عزت و احترام کے ساتھ جہاں سے اٹھایا ہے وہی پہنچا دو۔ اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ اگر اس پر تھوڑی سی بھی آنچ آئی یا کوئی ہاتھ اس کی جانب بڑھا تو خدا کی قسم وہ زندگی ختم کر دوں گا اور ان ہاتھوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔

ماجھا گجر نے ایک اور قہقہہ لگایا اور شارق سے کہا میرے کچھ مطالبات ہیں اگر ان کو پورا کر دو گے تو نادیہ کو کچھ نہیں کہا جائے گا اس کی عزت بھی محفوظ رہے گی اور اسے واپس اس کے گھر پہنچا دیا جائے گا میرا پہلا مطالبہ ہے کہ تم خود کو میرے حوالے کر دو دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے علاقے سے تم اور سلطان اکبر نکل جاؤ وہاں میں اپنا چرس کا کاروبار کروں گا اگر میری یہ شرائط منظور ہیں تمہیں نادیہ کو رہا کر دوں گا اور اس کے گھر پہنچا دوں گا اگر نہیں تو پھر موت کے اس بھیانک کھیل میں خون خرابہ بھی ہوگا اور عزت کی دھچکیاں بھی اڑیں گی۔

شارق شیر کی طرح دھاڑا لیکن ماجھے گجر نے کہا: شارق باؤ ابھی تم غصے میں ہو اس لیے ٹھنڈے دماغ سے سوچو اور مجھے آگاہ کر دینا یہ کہہ کر ماجھے گجر نے فون بند کر دیا۔ شارق گہری سوچ میں پڑ گیا۔ وہ نادیہ کو لے کر بہت پریشان ہو رہا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ اس معصوم لڑکی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ بیچاری ایسے ہی اپنی عزت گنوابیٹھے گی یا جان سے جائے گی۔ لیکن شارق نادیہ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر سکتا تھا۔ اس نے فورا سلطان اکبر سے رابطہ کیا اور ساری صورتحال اسے بتائی۔ سلطان اکبر نے کہا اچھی بات ہے کہ ماجھا گجر منظر عام پر آگیا ہے اب بہت جلد اس کو بھی ٹھکانے لگا دیا جائے گا اور اس کا پورا گینگ ختم کر کے اس علاقے سے اس کا نام و نشان بھی مٹا دیں گے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ نادیہ اس کے قبضے میں ہے نادیہ کو بھی بچانا ہے اور ماجھے گجر کو بھی کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اچھی خاصی منصوبہ بندی کرنی ہوگی کچھ ایسا پلان بنانا ہوگا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

شارق نے سلطان اکبر کی بات سننے کے بعد جواب دیا۔ ہمارے پاس پلان بنانے کا وقت بالکل نہیں ہے اس سے پہلے کہ ماجھا گجر کوئی نئی چال چلے ہمیں آج رات اس کی اڈے کو تلاش کرنا ہوگا اور آج ہی رات اس کا قصہ تمام کرنا ہوگا۔ سلطان اکبر نے بغور شارق کے چہرے کا جائزہ لیا۔ شارق کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں۔ سلطان اکبر سمجھ گیا کہ اس کے دل میں اپنے ماں باپ کے قاتل کے لیے انتہائی نفرت موجود ہے۔ سلطان اکبر نے اپنے ادمیوں کو ہدایات دے دیں۔

سلطان اکبر کا نیٹ ورک پورے علاقے میں پھیلا ہوا تھا۔ اس لیے اس کے آدمی اس علاقے کے چپے چپے سے واقف تھے۔ سلطان اکبر کی ہدایات کے بعد اس کے آدمی پورے علاقے میں پھیل گئے اور ماجھا گجر کے اڈے کی معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔ رات کے تین بج چکے تھے شارق اور سلطان اکبر بیٹھے اپنے آدمیوں کی اکٹھی کی جانے والی معلومات اور ماجھے گجر کے بارے میں مختلف قسم کی انفارمیشن کا تجزیہ کر رہے تھے۔ لیکن ابھی تک ماجھے گجر کے اڈے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں آئی تھی۔

 آخر سلطان اکبر کے ایک آدمی کی کال موصول ہوئی۔  اس نے اپنے شک کا اظہار کیا کہ کچھ مشکوک قسم کی سرگرمیاں ایک حویلی نما گھر میں دیکھی گئی ہیں اور ہو سکتا ہے وہاں پر ماجھا گجر اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود ہو۔ سلطان اکبر نے اس آدمی کو مکمل معلومات لینے کا کہا۔ اس آدمی نے تھوڑی دیر کے بعد پھر فون کر کے اس بات کی اطلاع دی کہ ماجھا گجر اپنے آدمیوں کے ساتھ اس حویلی میں موجود ہے۔ یہ حویلی ماجھے گجر کے ایک پرانے دوست کی تھی جو کہ کچھ عرصہ سے بیرون ملک مقیم تھا۔ شارق اور سلطان اکبر اپنے چند آدمیوں کے ہمراہ ماجھے گجر کے اس نئے اڈے پر پہنچ گئے۔ دور سے ہی گاڑیوں کی لائٹس آف کر دی گئی اور ان کے انجن بند کر دیے گئے۔ سلطان اکبر اور شارق نے اپنی اپنی رائفلیں سنبھال لیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ پیدل ہی اس حویلی کی جانب بڑھنے لگے۔

 باہر سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے حویلی میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ لیکن تھوڑے انتظار کے بعد انہیں حویلی کے اندر کچھ ہلچل محسوس ہوئی۔ کچھ آدمی اس حویلی کے سامنے والے دروازے سے کچھ دور خفیہ طور پر چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ لوگ اس حویلی کے پچھلی طرف دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ شارق ان آدمیوں کے ساتھ حویلی کے پچھلے دروازے کی جانب گیا جہاں پر دیوار پھلانگ کے وہ اندر داخل ہو سکتے تھے اور سلطان اکبر اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ حویلی کے سامنے والے دروازے کے سامنے موجود کچھ درختوں کی اڑ لے کر پوزیشن سنبھال کر بیٹھ گئے کیونکہ اگر اس دروازے سے ماجھا گجر اور اس کے ساتھی فرار ہوتے تو ان کو موت کی نیند سلایا جا سکتا تھا۔ اس کاروائی میں صرف ایک گھنٹہ لگا شارق اور اس کے ساتھیوں نے حویلی میں داخل ہو کر وہاں موجود تمام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس وقت اس حویلی میں ماجھا گجر کے ساتھ چار ساتھی موجود تھے۔ جن پر قابو پانا بہت زیادہ آسان تھا ماجھا گجر شدید زخمی ہو چکا تھا اور ایک تہ خانے سے نادیہ برامد کر لی گئی۔ 

شارق نادیہ کو لے کر فوراََ وہاں سے واپس آگیا۔ جبکہ سلطان اکبر وہیں موجود رہا۔ سلطان اکبر نے وہاں موجود تمام افراد کی لاشوں کو اور ماجھے گجر کو ہلاک کرنے کے بعد اسی حویلی کے اندر گڑھا کھود کر دفن کر دیا اور اس ساری حویلی کو آگ لگا دی۔ صبح فجر کی اذان کے وقت وہ پوری حویلی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں تھی۔ شارق نے اپنے ساتھیوں کو ڈیرے پہ جانے کے لیے کہا اور خود نادیہ کو لے کر اس کے گھر کی جانب چل پڑا۔ گھر کے دروازے پر ابھی تک تالا پڑا ہوا تھا۔ نادیہ نے ہمسائے کے دروازے پر دستک دی اس وقت صبح کی روشنی نمودار ہو چکی تھی۔ ہمسائی نے نادیہ کو اندر بلا لیا اور خفا ہونے لگی کہ بھلا کوئی اس طرح اپنا دروازہ کھلا چھوڑ کر کہیں جاتا ہے؟ آج کل کے چور  اچکے گھر سے تمام سامان لے اڑتے ہیں۔ نادیہ نے اس ہمسائی عورت کا شکریہ ادا کیا اور چابی لے کے واپس آگئی۔ گھر کا دروازہ کھولا اور شارق کے ساتھ گھر میں داخل ہو گئی۔

 نادیہ کی حالت کافی ابتر تھی۔ نادیہ نے شارق سے کہا: میں آپ کے لیے چائے بناتی ہوں۔ لیکن شارق نے کہا نہیں۔  میں چلتا ہوں۔  اپنا خیال رکھنا۔ نادیہ نے بہت اصرار کیا لیکن شارق بعد میں ملنے کا کہہ کر اس کے گھر سے چلا آیا۔ نادیہ نے اپنا حلیہ درست کیا نہا کر تازہ دم ہو کر اپنے لیے چائے بنائی۔ ناشتہ کیا اور ایک ہفتے کے بعد دوبارہ کالج چلی گئی۔

کالج سے چھٹی کے بعد جب نادیہ واپس گھر جانے لگی تو اسے شارق نظر آگیا۔ جو کالج کے باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے شارق کو دیکھ کر خوشی سے ہاتھ ہلایا اور اس کی جانب بڑھ گئی۔ شارق اسے لے کر ایک قریبی ریسٹورنٹ میں گیا جہاں انہوں نے بہت ساری باتیں کی اور دوپہر کا کھانا بھی کھایا۔ نادیہ نے شارق کو اس راستے سے ہٹنے اور ایک اچھے مستقبل کی جانب بڑھنے کے لیے بہت ساری باتیں سمجھائیں لیکن شارق نے کہا کہ میں جسکا مسافر ہوں اس پر واپسی کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ میرا خیال دل سے نکال دو۔ میں بھی تمہیں پسند کرتا ہوں لیکن زندگی کا ساتھی نہیں بن سکتا ۔کسی وقت بھی پولیس کی گولی مجھے موت کی نیند سلا سکتی ہے۔ میں ساری زندگی بھاگتا رہوں گا۔ کسی ایک جگہ پر نہیں بیٹھ سکوں گا۔ یہ باتیں سن کر نادیہ کا دل افسردہ ہو گیا وہ جانتی تھی کہ شارق کٹھن راستوں کا مسافر ہے یا تو نادیہ سب کچھ چھوڑ کر اس کے راستے پر اس کے ساتھ چل پڑتی یا پھر اپنی زندگی الگ بنا لیتی۔

نادیہ اور شارق نے اپنی اپنی زندگی کے راستوں پہ چلنے کا فیصلہ کیا۔ شارق اپنی دنیا میں واپس لوٹ گیا اور نادیہ اپنے معمول کی زندگی میں واپس آگئی۔ کچھ دنوں کے بعد وہ واپس اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی اس کے ماں باپ نے اس کی شادی کر دی اس کے خاوند کے ریفرنس سے ہی اس کا تبادلہ دوسرے شہر میں ہو گیا۔ نادیہ اکثر جب کبھی اکیلی بیٹھتی تو شارق کے بارے میں سوچا کرتی تھی کہ شارق کہاں ہوگا؟ کس حال میں ہوگا؟ زندہ بھی ہوگا یا پولیس کی کسی اندھی گولی نے اسے موت کی نیند سلا دیا ہوگا؟