نادیہ ایک عجیب کشمکش میں مبتلا تھی وہ سوچ رہی تھی کہ اگر محلے میں کسی کو اس بات کا پتہ چل گیا کہ اس رات کوئی بدمعاش اس کے گھر ٹھہرا ہوا تھا تو یقینا اس سے اس کی عزت کا کباڑا ہو سکتا تھا۔ وہ ایسی تو نہ تھی۔ لیکن اس پر کئی باتیں بن سکتی تھیں۔اس نے ایک نظر اس نوجوان کی جانب دیکھا جس کے چہرے پر شیو بڑھی ہوئی تھی اور اس کی پنڈلی سے خون رس رہا تھا۔ وہ ایک کرسی پر ڈھیر ہو گیا تھا۔ نادیہ ایک طرف سمٹ کر خاموشی کے ساتھ بیٹھی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی اور ساتھ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ کہ اگر اس بدمعاش نے اس کی عزت کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی تو اپنی جان دے دے گی یا اس بدمعاش کی جان لے لے گی۔
ساتھ ساتھ ایک سوچ اس کے دماغ میں گردش کر رہی تھی کہ اگر صبح فجر کے وقت یہ چلا گیا تو اچھا ہوگا لیکن اگر نہ گیا تو محلے میں بنی ہوئی عزت خاک میں مل جائے گی کیونکہ صبح آٹھ بجے اسے کالج پہنچنا ہوتا تھا اور اسے کچھ دیر پہلے دودھ والا دودھ دینے بھی آتا تھا۔ اس طرح اگر وہ کالج نہ جا سکتی تو محلے سے کوئی عورت دروازے پر تالا نہ دیکھ کر اس کے گھر اس کی خیریت دریافت کرنےآسکتی تھی۔ یا یہ بھی ہو سکتا تھا کہ کالج سے بھی کوئی ملازم اس کی خیریت معلوم کرنے کے لیےآ سکتا تھا۔
رات کے دو بج رہے تھے۔ وہ نوجوان کرسی پہ بیٹھا اونگھنے لگا کبھی کبھی اس کا سر ایک طرف ڈھلک جاتا لیکن پھر اچانک وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جاتا اس کے زخموں سے کافی خون بہنے کی وجہ سے اس پر نقاہت طاری تھی۔ نادیہ بغور اس کو دیکھے جا رہی تھی اس کے چہرے پر معصومیت تھی۔ وہ شکل سے بدمعاش یا آوارہ نہیں لگ رہا تھا بلکہ کسی مجبوری کی وجہ سے ان حالات کو پہنچا تھا۔ اگر وہ بدمعاش برا ارادہ رکھتا یا کسی برے ارادے کے ساتھ اس کے گھر میں داخل ہوتا تو اب تک اس کی عزت پر حملہ کر چکا ہوتا۔ لیکن ابھی تک اس بدمعاش نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا جس سے نادیہ کو تھوڑی ڈھارس باندھی کہ یہ اس کی عزت پر حملہ نہیں کرے گا۔
تھوڑی دیر کے بعد نادیہ نے محسوس کیا کہ نوجوان گہری نیند میں سو چکا ہے اور پستول اس کی گود میں پڑا تھا۔ اگر نادیہ چاہتی تو پستول اٹھا کر اس انسان کو گرفتار کروا سکتی تھی یا پھر باہر جا کر محلے والوں کو اکٹھا کر سکتی تھی۔ لیکن کسی چیز نے اسے روک دیا۔ وہ تھی اس نوجوان کی شرافت اور سادگی۔ جو اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ کیونکہ ابھی تک اس نے نادیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا اور اگر نادیہ اسے گرفتار کروا دیتی تو ہو سکتا ہے وہ انتقام کی آگ میں اسے جانی نقصان پہنچا سکتا تھا اس لیے اس نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔
صبح ہوئی اور شارق کی آنکھ کھل گئی تو اس نے دیکھا کہ لڑکی کمرے میں موجود نہیں تھی۔ وہ فورا سیدھا ہوا اور اپنا پستول اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں گیا۔ جو کچن کے طور پر استعمال ہوتا تھا کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر کمزوری طاری ہو رہی تھی۔ وہ کچن میں داخل ہوا تو لڑکی ناشتہ بنا رہی تھی۔ شارق نے اس کی جانب دیکھا اور اس لڑکی نے شارق کی جانب دیکھا تو لڑکی نے کہا: آپ زخمی ہیں۔ بیٹھ جائیں کمزوری بھی محسوس ہو رہی ہوگی۔ میں اپ کو ناشتہ بنا دیتی ہوں اور اس کے بعد آپ کے زخم کے اوپر پٹی بھی باندھ دوں گی۔ اس کے بعد اپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔
رات کے دو بج رہے تھے۔ وہ نوجوان کرسی پہ بیٹھا اونگھنے لگا کبھی کبھی اس کا سر ایک طرف ڈھلک جاتا لیکن پھر اچانک وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جاتا اس کے زخموں سے کافی خون بہنے کی وجہ سے اس پر نقاہت طاری تھی۔ نادیہ بغور اس کو دیکھے جا رہی تھی اس کے چہرے پر معصومیت تھی۔ وہ شکل سے بدمعاش یا آوارہ نہیں لگ رہا تھا بلکہ کسی مجبوری کی وجہ سے ان حالات کو پہنچا تھا۔ اگر وہ بدمعاش برا ارادہ رکھتا یا کسی برے ارادے کے ساتھ اس کے گھر میں داخل ہوتا تو اب تک اس کی عزت پر حملہ کر چکا ہوتا۔ لیکن ابھی تک اس بدمعاش نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا جس سے نادیہ کو تھوڑی ڈھارس باندھی کہ یہ اس کی عزت پر حملہ نہیں کرے گا۔
تھوڑی دیر کے بعد نادیہ نے محسوس کیا کہ نوجوان گہری نیند میں سو چکا ہے اور پستول اس کی گود میں پڑا تھا۔ اگر نادیہ چاہتی تو پستول اٹھا کر اس انسان کو گرفتار کروا سکتی تھی یا پھر باہر جا کر محلے والوں کو اکٹھا کر سکتی تھی۔ لیکن کسی چیز نے اسے روک دیا۔ وہ تھی اس نوجوان کی شرافت اور سادگی۔ جو اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ کیونکہ ابھی تک اس نے نادیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا اور اگر نادیہ اسے گرفتار کروا دیتی تو ہو سکتا ہے وہ انتقام کی آگ میں اسے جانی نقصان پہنچا سکتا تھا اس لیے اس نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔
صبح ہوئی اور شارق کی آنکھ کھل گئی تو اس نے دیکھا کہ لڑکی کمرے میں موجود نہیں تھی۔ وہ فورا سیدھا ہوا اور اپنا پستول اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا اور اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں گیا۔ جو کچن کے طور پر استعمال ہوتا تھا کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے اس پر کمزوری طاری ہو رہی تھی۔ وہ کچن میں داخل ہوا تو لڑکی ناشتہ بنا رہی تھی۔ شارق نے اس کی جانب دیکھا اور اس لڑکی نے شارق کی جانب دیکھا تو لڑکی نے کہا: آپ زخمی ہیں۔ بیٹھ جائیں کمزوری بھی محسوس ہو رہی ہوگی۔ میں اپ کو ناشتہ بنا دیتی ہوں اور اس کے بعد آپ کے زخم کے اوپر پٹی بھی باندھ دوں گی۔ اس کے بعد اپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔
شارق سمجھ گیا کہ لڑکی اسے نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اس لیے وہ واپس کمرے میں آگیا اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ لڑکی نے اسے ناشتہ کروایا اور اس کے بعد فرسٹ ایڈ بکس سے پٹیاں نکالیں۔ اس کے پیر پر جو زخمی تھا اور خون رسنے کی وجہ سے خون جم چکا تھا لڑکی نے اسے صاف کیا اور پٹی باندھ دی۔
نادیہ نے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر میں دودھ دینے والا آئے گا تو مجھے باہر جانا پڑے گا اس لیے تم بے فکر ہو جاؤ میں کسی سے تمہارا کوئی ذکر نہیں کروں گی۔ لیکن خدا کے واسطے یہاں سے خاموشی سے چلے جاؤ۔ میری بہت بدنامی ہوگی۔ اس محلے میں میں ایک سال سے رہ رہی ہوں اور بہت سارے لوگ مجھے جانتے ہیں۔
شارق خاموشی کے ساتھ اس کی باتیں سنتا رہا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی وہ دونوں چونک گئے شارک نے اپنا پستول ہاتھ میں پکڑ لیا اور دروازے کی اڑ میں کھڑا ہو گیا اور لڑکی کو اشارہ کیا کہ وہ خاموشی سے دیکھے کہ دروازے پر کون ہے اور خبردار اگر کسی کو اس کی موجودگی کے بارے میں بتایا تو۔ لڑکی نے کہا ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں باہر کون آیا ہے۔ لڑکی نے اپنا دوپٹہ درست کیا اور دروازے پہ چلی گئی دروازے پر دو پولیس والے موجود تھے جو کہ محلے والوں سے کچھ کچھ کر رہے تھے۔ نادیہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
نادیہ نے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر میں دودھ دینے والا آئے گا تو مجھے باہر جانا پڑے گا اس لیے تم بے فکر ہو جاؤ میں کسی سے تمہارا کوئی ذکر نہیں کروں گی۔ لیکن خدا کے واسطے یہاں سے خاموشی سے چلے جاؤ۔ میری بہت بدنامی ہوگی۔ اس محلے میں میں ایک سال سے رہ رہی ہوں اور بہت سارے لوگ مجھے جانتے ہیں۔
شارق خاموشی کے ساتھ اس کی باتیں سنتا رہا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی وہ دونوں چونک گئے شارک نے اپنا پستول ہاتھ میں پکڑ لیا اور دروازے کی اڑ میں کھڑا ہو گیا اور لڑکی کو اشارہ کیا کہ وہ خاموشی سے دیکھے کہ دروازے پر کون ہے اور خبردار اگر کسی کو اس کی موجودگی کے بارے میں بتایا تو۔ لڑکی نے کہا ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں باہر کون آیا ہے۔ لڑکی نے اپنا دوپٹہ درست کیا اور دروازے پہ چلی گئی دروازے پر دو پولیس والے موجود تھے جو کہ محلے والوں سے کچھ کچھ کر رہے تھے۔ نادیہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
ایک پولیس والے نے نادیہ سے پوچھا کہ رات کو ایک خطرناک مجرم اس علاقے میں کہیں چھپ گیا ہے اگر اپ کے گھر میں آیا ہو یا آپ کو اس کے بارے میں کچھ بھی پتہ ہو تو ہمیں ضرور اطلاع دیجئے گا۔ نادیہ نے کہا: نہیں یہاں کوئی بھی نہیں آیا اور اگر کوئی آیا بھی تو میں اطلاع کر دوں گی۔ وہ دونوں پولیس والے محلے میں دوسرے گھروں سے پوچھ گچھ کے لیے آگے بڑھ گئے۔ نادیہ کمرے میں واپس آئی اس کے چہرے پر ہوائیں اڑ رہیں تھیں۔ اسے بتایا کہ پولیس ابھی تک تمہیں ڈھونڈ رہی ہے۔ شارق کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا وہ سوچنے لگا۔ اس نے نادیہ سے کہا کہ میں یہاں سے تب تک نہیں جا سکتا جب تک کہ خطرہ ٹل نہ جائے ہو سکتا ہے مجھے آج یہاں رکنا پڑ جائے۔ اس کی بات سن کر نادیہ مزید پریشان ہو گئی وہ چاہتی تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے یہ نوجوان یہاں سے چلا جائے۔ کیونکہ اس کی موجودگی اس کی عزت کو تار تار کر سکتی تھی اور وہ انجانے میں ایک ایسے انسان کو پناہ دے بیٹھی تھی جو کہ مجرم تھا تو مجرم کو پناہ دینے والی بھی مجرم بن سکتی تھی۔
اس لیے نادیہ اس بات سے بہت زیادہ خوفزدہ تھی نادیہ نے فوراََ کہا نہیں اپ کو چلے جانا چاہیے کیونکہ اگر میں کالج نہ گئی تو کالج سے کوئی یہاں میرا پوچھنے کے لیے آ سکتا ہے کیونکہ کالج کی کچھ فائلیں میرے پاس پڑی ہیں اس کے علاوہ اگر دن کو کسی نے دروازہ کھلا دیکھ لیا یا باہر تالا لگا ہوا نہ دیکھا تو یقینا کوئی عورت اس محلے سے میرا پوچھنے کے لیے آ سکتی ہے کیونکہ بہت ساری عورتوں سے میری جان پہچان ہے۔ اس لیے اگر کسی کو بھی تمہاری موجودگی کا پتہ چل گیا تو میری بہت بدنامی ہوگی۔
آخر کچھ دیر سوچنے کے بعد نادیہ نے اس نوجوان سے کہا کہ میں کالج چلی جاؤں گی اگر تم یہاں رکنا چاہتے ہو تو رک جانا لیکن میں باہر سے تالا لگا کر جاؤں گی تاکہ میری غیر موجودگی میں کوئی گھر میں نہ آئے اور تمہاری موجودگی کا پتہ بھی نہ چل سکے۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ لڑکی پر اعتبار کرنا چاہیے یا نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ شارق کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ شارق راضی ہو گیا کہ ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن میرے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتائیے گا۔ آٹھ بجے نادیہ تیار ہو کر کالج چلی گئی اور باہر سے تالا لگا گئی۔ شارق گھر میں موجود تھا اور ارد گرد تمام چیزوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی پر اعتماد کر کے اس نے کوئی غلطی تو نہیں کی اگر لڑکی چاہتی تو پولیس کو بتا سکتی تھی اور پولیس اس کو پکڑ کے لے جاسکتی تھی۔ شارق کافی دیر یہی سوچتا رہا اور مختلف قسم کے خیالات اس کے دماغ میں اتے رہے۔ اس کے زخم پر مرہم پٹی ہو جانے کی وجہ سے خون رسنا بند ہو گیا تھا۔ شارق چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب یہاں سے کیسے نکلا جائے تو وہ رات ہونے کا انتظار کر نے لگا کیونکہ رات کی تاریکی میں وہ اس گھر سے نکل کے جا سکتا تھا۔
انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ شارک کی انکھ لگ گئی اور جانے کب تک وہ سوتا رہا۔ اچانک ایک آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی تو دروازے میں نادیہ کھڑی تھی جو کالج سے واپس آچکی تھی اس کے ہاتھ میں چکن اور کچھ سبزیاں بھی تھیں جو اس نے کچن میں رکھ دی اور واپس شارق کے پاس آگئی۔ شارق نے اس سے پوچھا کہ کیا باہر محلے میں ابھی تک پولیس والے گشت کر رہے ہیں یا نہیں؟ تو اس نے بتایا کہ فی الحال تو کوئی بھی نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ رات کوپولیس والے پھر اس محلے کا چکر لگائیں۔ لیکن آج رات لازمی طور پر اسے اس گھر سے جانا ہوگا۔
شارق نے نادیہ کا شکریہ ادا کیا اور اسے یقین دلایا کہ زندگی میں کسی بھی مشکل وقت میں اس کے کام آ سکتا ہوں۔ نادیہ نے خاموشی کے ساتھ اس کی بات سن لی اور کچن میں کھانا بنانے لگی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ کھانا کھانے کے بعد شارق نے محسوس کیا کہ اب اس کا زخم بہتر ہو رہا ہے۔ گولی اس کی پنڈلی کو چیرتی ہوئی گزر گئی تھی اس لیے معمولی زخم تھا لیکن چلنے پھرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ آخر رات کو جب ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ شارق نے رات کا کھانا کھا لینے کے بعداس نے کہا اب میں ہیاں سے جانا چاہتا یوں لیکن اس سے پہلے تم باہر جا کر یہ دیکھو کہ گلی میں کوئی پولیس والا موجود ہے یا نہیں۔ تاکہ جب اس کے گھر سے نکلے تو کوئی اسے دیکھ نہ لے اور اگر کوئی دیکھ لیتا تب بھی اس کی بدنامی ہو سکتی تھی۔ نادیہ نے دروازے سے باہر جا کر گلی میں جھانک کر دیکھا تو گلی سنسان تھی اس وقت کوئی بھی گلی میں موجود نہیں تھا کیونکہ رات کے 10 بجے کا وقت ہو رہا تھا اس نے شارق کو بتایا تو شارخ خاموشی کے ساتھ گھر سے نکل گیا اور تاریک گلی میں ہوتا ہوا مین روڈ پر آگیا۔
آخر کچھ دیر سوچنے کے بعد نادیہ نے اس نوجوان سے کہا کہ میں کالج چلی جاؤں گی اگر تم یہاں رکنا چاہتے ہو تو رک جانا لیکن میں باہر سے تالا لگا کر جاؤں گی تاکہ میری غیر موجودگی میں کوئی گھر میں نہ آئے اور تمہاری موجودگی کا پتہ بھی نہ چل سکے۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ لڑکی پر اعتبار کرنا چاہیے یا نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ شارق کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ شارق راضی ہو گیا کہ ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن میرے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتائیے گا۔ آٹھ بجے نادیہ تیار ہو کر کالج چلی گئی اور باہر سے تالا لگا گئی۔ شارق گھر میں موجود تھا اور ارد گرد تمام چیزوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی پر اعتماد کر کے اس نے کوئی غلطی تو نہیں کی اگر لڑکی چاہتی تو پولیس کو بتا سکتی تھی اور پولیس اس کو پکڑ کے لے جاسکتی تھی۔ شارق کافی دیر یہی سوچتا رہا اور مختلف قسم کے خیالات اس کے دماغ میں اتے رہے۔ اس کے زخم پر مرہم پٹی ہو جانے کی وجہ سے خون رسنا بند ہو گیا تھا۔ شارق چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب یہاں سے کیسے نکلا جائے تو وہ رات ہونے کا انتظار کر نے لگا کیونکہ رات کی تاریکی میں وہ اس گھر سے نکل کے جا سکتا تھا۔
انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ شارک کی انکھ لگ گئی اور جانے کب تک وہ سوتا رہا۔ اچانک ایک آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی تو دروازے میں نادیہ کھڑی تھی جو کالج سے واپس آچکی تھی اس کے ہاتھ میں چکن اور کچھ سبزیاں بھی تھیں جو اس نے کچن میں رکھ دی اور واپس شارق کے پاس آگئی۔ شارق نے اس سے پوچھا کہ کیا باہر محلے میں ابھی تک پولیس والے گشت کر رہے ہیں یا نہیں؟ تو اس نے بتایا کہ فی الحال تو کوئی بھی نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ رات کوپولیس والے پھر اس محلے کا چکر لگائیں۔ لیکن آج رات لازمی طور پر اسے اس گھر سے جانا ہوگا۔
شارق نے نادیہ کا شکریہ ادا کیا اور اسے یقین دلایا کہ زندگی میں کسی بھی مشکل وقت میں اس کے کام آ سکتا ہوں۔ نادیہ نے خاموشی کے ساتھ اس کی بات سن لی اور کچن میں کھانا بنانے لگی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ کھانا کھانے کے بعد شارق نے محسوس کیا کہ اب اس کا زخم بہتر ہو رہا ہے۔ گولی اس کی پنڈلی کو چیرتی ہوئی گزر گئی تھی اس لیے معمولی زخم تھا لیکن چلنے پھرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ آخر رات کو جب ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ شارق نے رات کا کھانا کھا لینے کے بعداس نے کہا اب میں ہیاں سے جانا چاہتا یوں لیکن اس سے پہلے تم باہر جا کر یہ دیکھو کہ گلی میں کوئی پولیس والا موجود ہے یا نہیں۔ تاکہ جب اس کے گھر سے نکلے تو کوئی اسے دیکھ نہ لے اور اگر کوئی دیکھ لیتا تب بھی اس کی بدنامی ہو سکتی تھی۔ نادیہ نے دروازے سے باہر جا کر گلی میں جھانک کر دیکھا تو گلی سنسان تھی اس وقت کوئی بھی گلی میں موجود نہیں تھا کیونکہ رات کے 10 بجے کا وقت ہو رہا تھا اس نے شارق کو بتایا تو شارخ خاموشی کے ساتھ گھر سے نکل گیا اور تاریک گلی میں ہوتا ہوا مین روڈ پر آگیا۔
وہاں سے جاتے ہوئے شارق نادیہ کو اپنا ایڈریس بتا کے گیا تھا کہ اگر کسی بھی قسم کی کوئی مشکل آئے تو اس جگہ وہ اس سے رابطہ کر سکتی تھی۔ شارق کے چلے جانے کے بعد نادیہ نے گھر کا دروازہ بند کیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ایک بہت
بڑی مصیبت سے چھٹکارہ مل گیا تھا۔
شارق کے چلے جانے کے بعد نادیہ نے سکھ کا سانس لیا لیکن وہ رات بھر سو نہیں سکی تھی وہ اس نوجوان کے بارے میں سوچتی رہی ۔اس کی معصومیت کے بارے میں اور اس کے ان حالات کے بارے میں جن کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچا تھا۔ شکل سے وہ شریف انسان لگ رہا تھا لیکن حالات کے دھارے میں بہتا ہوا وہ برائی کے راستے پہ چل نکلا تھا۔ آخر نادیہ نے ان تمام خیالات کو دماغ سے جھٹک دیا اور سونے کے لیے بستر پر لیٹ گئی۔ نادیہ کی زندگی کے اندر ایک کربناک حقیقت تھی اسی محلے میں ایک ماسٹر مقبول نامی انسان رہتا تھا جس نے نادیہ کو شادی کی پیشکش کی تھی۔ اس کی بیوی فوت ہو چکی تھی کوئی اولاد بھی نہ تھی اس لیے وہ چاہتا تھا کہ نادیہ اس سے شادی کر لے۔ اس کا چال چلن ٹھیک نہیں تھا اس لیے نادیہ نے اس کی پیشکش ٹھکرا دی لیکن وہ بضد تھا کہ وہ شادی نادیہ سے ہی کرے گا نہیں تو وہ اسے بدنام کر دے گا۔ نادیہ کو یہ بات بالکل پسند نہیں آئی تھی اس لیے اس انسان کی وجہ سے اکثر اسے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اگلے دن جب وہ کالج جانے کے لیے گھر سے باہر نکلی تو ماسٹر مقبول اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ نادیہ کو اس بات کا بہت خطرہ رہتا تھا کہ اس انسان کی وجہ سے اس کی زندگی برباد نہ ہو جائے۔ بدنامی کا کلنگ اس کے منہ پہ نہ لگ جائے۔ وہ ایک اچھی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ لیکن حالات اسے کسی اور طرف لے کے جا رہے تھے۔ آخر ماسٹر مقبول نے اسے راستے میں روک لیا اور اسے پوچھا کہ تم نے میری پیشکش کیوں ٹھکرا دی۔ مجھ سے شادی کر لو میں تمہیں بہت خوش رکھوں گا لیکن نادیہ نے کوئی جواب نہ دیا اور رکشے میں بیٹھ کر کالج کی جانب روانہ ہو گئی دوپہر کو جب وہ کالج سے واپس آئی تو حد ہو گئی تھی وہ بھی اس کے پیچھے اس کے گھر میں داخل ہو گیا اور دست درازی کرنے لگا۔ نادیہ کو اس پہ بہت غصہ آیا اس نے ایک تھپڑ کھینچ کے اس کے گال پردے مارا۔
ماسٹر مقبول غصہ میں آ گیا۔ اتنے میں محلے کی ایک عورت گھر میں داخل ہوئی جو ماسٹر مقبول کو دیکھ کر غصے میں آگئی اور اس کو گالیاں دیتے ہوئے اسے گھر سے باہر نکال دیا۔ اس عورت نے نادیہ سے کہا کہ یہ بندہ ٹھیک نہیں ہے اسے گھر میں داخل نہ ہونے دیا کرو اس سے تمہاری بدنامی ہوگی۔ نادیہ نے بتایا کہ یہ زبردستی میرے گھر میں داخل ہو گیا تھا اور میری عزت پر ہاتھ ڈال رہا تھا آخر وہ دن بھی خاموشی سے گزر گیا۔ نادیہ اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ وہ ماسٹر مقبول سے اپنی جان کیسے چھڑائے۔
آخر اس کے ذہن میں شارق کی بات آگئی کہ کسی بھی مشکل وقت میں وہ اس کا ساتھ دے سکتا تھا۔ نادیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ شارق کے ذریعے اس انسان سے اپنا پیچھا چھڑائے گی۔ اس کے پاس شارق کا دیا ہوا ایڈریس بھی تھا۔ جہاں سے وہ مدد لے سکتی تھی۔ نادیہ نے کچھ سوچا اور اس کے بعد شارق سے مدد لینے کا فیصلہ کیا وہ ایڈریس پرانے قبرستان کے دوسری طرف ایک پرانی آبادی کا تھا۔ جہاں قادر بخش نامی شخص کے ذرئیعے شاقک کو پیغام بھیج سکتی تھی۔ نادیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ وہاں قادر بخش سے ملے گی اور اپنی اس پریشانی کے بارے میں اسے بتائے گی ہو سکتا ہے ماسٹر مقبول سے اس کا پیچھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے
شارق اس رات پولیس سے نظر بچا کرسلطان اکبر کے ڈیرے پر پہنچ گیا جو اس کے لیے محفوظ تھا۔ سلطان اکبر کے تمام ساتھی جو اس کے ساتھ گئے تھے وہ ہلاک ہو گئے تھے اور شیرا پہلوان اور اس کے بہت سارے آدمی بھی مارے گئے تھے صرف ماجھا گجر وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔ سلطان اکبر نے شارق کو گلے لگا لیا اور مبارکباد دی کہ تم نے ان ظالموں کا قلعہ قمہ کر دیا ہے باقی بات رہی ماجھا گجر کی تو اس سے وہ خود نمٹ لے گا۔ شارک زخمی تھا اس لیے اس کو آرام کرنے کے لیے کمرے میں بھیج دیا گیا۔ سلطان اکبر نے تاکید کی کہ کچھ دن باہر نہ نکلے۔ کیونکہ پولیس مختلف جگہوں پر شارق کی تلاش کے لیے چھاپے مار رہی تھی۔