اندھی محبت - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories

جب محافظ ہی لٹیرے بن جائیں تو انسان کہاں تک ہاتھ پاؤں مارسکتا ہے۔ کیا کر سکتا ہے ساری صورت حال کھل کر میرے سامنے آچکی تھی جبکہ پہلے خدشات تھے اور میں یہ بھی سمجھ رہی تھی یہ میرا وہم ہے وقار بہت اچھا انسان ہے.. خود کو سنبھا لو مشتاق ٹھیک ہے میں تمہاری بات سمجھ گئی ہوں ۔ میں نے حواس پر قابو پاتے ہوئے حالات کا پانسہ پلٹنا چاہا میرا اتنا کہنا تھا اس کی باچھیں کھل گئیں وہ ایک دم پھیل گیا۔ ثریا جب تم ساری بات سمجھ گئی ہو تو یہ اچھی طرح جان لو بیوی تم وقار کی رہو گی اور آج کے بعد وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ زور دار لکڑی اس کے سر پر لگی اور اس کے سر سے خون ابلنے اور بہنے لگا وہ دور جا گرا شاید وہ اس صورت حال کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتا تھا اور میں نے پہلے تو کوشش کی کہ وقت مل جائے اور پھر سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کروں گی لیکن جب اس کی بے ہودگی حد سے بڑھی تو مجھے مجبوراً موقع ملتے ہی یہ کرنا پڑا وہ گر پڑا تھا اس کا جسم خون سے لت پت ہو چکا تھا اور میں باہر نکل آئی۔ 
 
بے غیرت جا اپنے محبوب کو سنبھال جس کے لیے مجھے لایا تھا ۔ میں نے اپنے مجازی خدا سے کہا۔ یہ کیا کر دیا تو نے ثریا . اب کیا ہو گا اگر اُسے کچھ ہو گیا تو کہتے ہوئے وہ کچن کی طرف دوڑ پڑا اور میں بستر پر گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی مجھے کوئی نہ تھا چپ کرانے والا دلاسہ دینے والا حوصلہ دینے والا پھر میں بے ہوش ہوگئی تھی کچھ خبر نہیں تھی جب ہوش آیا تو شام کے دھندلکے ہر سو پھیل چکے تھے وہ دونوں غائب تھے میں گھر میں اکیلی تھی میرے سر میں ہزاروں آندھیوں نے طوفان برپا کر رکھے تھے اب میرا کیا بنے گا کیا انجام ہوگا کہاں جاؤں گی رات بھر اکیلی بیٹھی روتی اور سوچتی رہی کچھ کھایا پیا بھی نہیں وہ کہاں گئے اور میرے بارے میں ان کا ارادہ کیا ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ آخر کار یہ طے ہو گیا مرنا ہے اور صرف مرنا ہے ۔ لیکن سستی موت ہرگز نہیں کچھ قیمت لگوانی ہے مجھے خود کو سنبھالنا ہے اور حالات کا مقابلہ ٹھیک طریقے سے کرنا ہے نہیں تو اگر ذرا سی کمزوری اور نرمی میں نے برتی تو میرا سب کچھ تباہ ہونے کے بعد انجام کیا ہوگا سامنے تھا۔ اگلی صبح وقار شاید اسپتال سے آیا تھا چھوٹتے- ہی کہنے لگا۔ تم نے اچھا نہیں کیا وہ ہمارا محسن تھا اگر تم اس کی بات مان لیتی تو کیا فرق پڑتا . وقار تو اتنا بے غیرت ہوگا .. اس کے آگے میں کچھ سن نہ سکی و قار تو مجھے اس کے لیے لایا ہے یہ سچ ہے۔ میں نے کلیجہ تھام کر پوچھا۔ ہاں اس کے لیے لایا ہوں ۔

 وہ دھاڑا میں ذہنی توازن کھو بیٹھی قریبی چارپائی پر دھڑام سے گری میں بے ہوش ہو گئی تھی جب ہوش آیا تو وہ جا چکا تھا بے شک اسپتال ہی گیا تھا۔ جب سنبھلی ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی اور میں نے فیصلہ کر لیا میں اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے بھی وقار کو ایک موقع دینا چاہتی تھی ۔ شاید وہ اتنا مجبور و بے بس یا واقعی بے غیرت ہے اور وہ مجھے مفت کا گھسا پٹا مال سمجھ کر لے آیا ہے اب مجھے صرف دیکھنا یہ تھا کہ وقار مجبور ہے یا بے غیرت؟ شام کو وقار آ گیا۔ اس کی حالت ٹھیک نہیں اگر وہ مر گیا تو میں تجھے تھانے پہنچا دوں گا ۔ وہ غرایا۔ ٹھیک ہے وقار مجھے تھانے پہنچا دینا لیکن اگر میں مشتاق کی بات مان لوں تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ آخر میں تمہاری بیوی ہوں عزت ہوں تمہیں دکھ صدمہ نہیں ہو گا ؟ نہیں کچھ نہیں ہو گا یہ وقت کی مجبوری ہے ثریا ۔ وہ مجھے آمادہ دیکھ کر جھوم اٹھا جی ہاں یہ میرا مجازی خدا تھا۔ میری عزت کا محافظ اور اس کے لیے سات بھائیوں کی اکلوتی لاڈلی اور پیاری بہن بوڑھے والدین کی روشنی رات کی تاریکی میں سب کچھ چھوڑ کر آگئی تھی کہ وقار اداس نہ ہو میری وجہ سے وقار کو دکھ نہ پہنچے۔ مگر وقار کمرہ تو ایک ہی ہے ۔ میں اس بے غیرت کی انتہا دیکھنا چاہتی تھی بظاہر میرے لہجے میں آمادگی تھی۔ تو کیا فرق پڑتا ہے میں دوسری چار پائی پر ہوا کروں گا۔ وہ بڑے اعتماد و بردباری سے کہہ رہا تھا۔ اس کا مرجھایا ہوا اور افسردہ چہرہ ایک دم کھل اٹھا ۔ وقار تم ایک پورے گھرانے کو قبرستان پہنچا کر سکون سے جیو گے یہ نہ ہوگا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا اور اسے مزید ٹولنے لگی۔
 
 بے غیرتی کی تمام حدیں تو وہ پھلانگ ہی چکا تھا۔ وقار ایسا کیوں نہ کر لیں تم مجھے طلاق دے دو اور میں مشتاق سے ہی شادی کرلوں ؟ یہ ہو جائے تو بہت اچھا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں مانے گا ۔ وہ ایکدم کھو سا گیا۔ صرف اس لیے کہ مشتاق پتہ نہیں میری بیوی سے شادی کرے گا بھی یا نہیں ۔ فکر نہ کرو وقار مشتاق کو میں منا لوں گی تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ یہ سن کر ایکدم اچھلا اور بانہیں کھول کر مجھے سمیٹنا چاہا۔ نہیں وقار پیچھے ہٹ جاؤ مجھے مت چھوؤ اس لیے کہ آج کے بعد میں تمہاری نہیں مشتاق کی عزت اور بیوی ہوں ۔ منصوبے کو ہاتھ میں لینے ہوئے میں نے کہا۔ چلو بابا بن جانا اس کی بیوی آخری بار ہمارے سینے بھی لگ جاؤ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔ دل میں آئی اس کا قیمہ بنا کر چبا ڈالوں۔ اپنی عزت و ناموس غیرت کی اس قدر بھی کوئی ہے حرمتی کر سکتا ہے کم سے کم میرا ذہن تو ماننے کو تیار نہ تھا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا خود پر بڑی مشکل سے قابو پا رہی تھی کہیں ایسا نہ ہو میرا بنا بنایا پروگرام میری معمولی سی لغزش سے خاک میں مل جائے۔ آج شام تک مشتاق واپس آ جائے گا اس کا زخم کافی بہتر ہو گیا ہے میں اُسے خوش خبری سنانے جا رہا ہوں۔ جاتے جاتے اس نے کہا وہ کتنا خوش تھا وہ بےغیرتی کی تمام حدیں پھلانگ چکا تھا انسان اتنا گھٹیا بےغیرت کمینہ ہو سکتا ہے سوچ سوچ کر میں پاگل ہو رہی تھی آخر وقار ایسا کیوں کر رہا ہے ٹھیک ٹھاک مرد تھا اسے کیا ہو گیا میں تو کیا اگر اس کی بہن بھی ہوتی تو وہ دوست کے حوالے کر دینے میں فخر محسوس کرتا۔ اس دن میں جی بھر کر روئی ۔.

 باقی ماندہ عمر کا رونا میں ایک دفعہ رولینا چاہتی تھی۔ اور جب میرے اندر کا تمام غبار نکل گیا تو میں نے قسم کھائی آئندہ نہ روؤں گی نہ پریشان ہوں گی ۔ اب میں معصوم سیدھی سادھی ثریا نہیں تھی ایک بپھری ہوئی چنگھاڑتی شیرنی کا روپ دھار چکی تھی اب مجھے صرف ایک کام کرنا تھا اپنی بربادی کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنا اور وقار مشتاق کی زندگی کی قیمت اور وقت جتنا کم کر سکتی تھی کرنا تھیں مجھے خوشی تھی مشتاق اسپتال سے آج ہی آجائے اور آج ہی میں وقار کی پریشانی کم کر دوں لیکن افسوس مشتاق کو آنے میں مزید ہفتہ لگ گیا۔ وقار سمجھ رہا تھا کہ میں یہ سب کچھ بخوشی کرنے کو تیار ہوں جو وہ چاہتے تھے مجھے اور تو کوئی اتنا دکھ نہ تھا رہ رہ کر دکھ اس بات کا ہو رہا تھا کہ وہ وقار جسے میں جانے کیا سمجھا اور وہ کیا نکلا اور محض اس کی خاطر کتنے انسانوں کو تڑپتی سکتی موت دے دی تھی میں وقار کو اتنی آسانی سے کیسے معاف کر دیتی پھر مشتاق آگیا گھر میں نئی طرح کی رونقیں اٹھکھیلیاں کرنے لگیں۔ اب مجھے اگر تھوڑا بہت سکون مل سکتا تھا تو وہ صرف یہ ہی طریقہ تھا کہ ان دونوں سے انتقام لے کر خود تھانے چلی جاتی اور اقبال جرم کر لیتی۔

اس سے پہلے کہ میں اپنے منصوبے پر عمل کرتی میں کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی کہ ایک دن ایک نئے انکشاف نے میرے ذہن کے پر خچے اڑا کر رکھ دیے شاید وہ ضرورت سے زیادہ چالاک اور مکار تھے اور میں اتنی نادان تھی۔ ثریا بیگم و قار تو گھر پہنچ چکا ہے اسے اب بھول جاؤ اب تمہیں میرے اشاروں پر ناچنا ہوگا ۔ ایک دن مشتاق قہقہے لگاتا ہوا بولا لیکن ایک بات میری سمجھ سے باہر تھی اس نے میرے ساتھ کوئی بد تمیزی نہیں کی تھی۔ پہلے تو میں سمجھی یہ کوئی فراڈ ہے وقار ایسا ہرگز نہیں کر سکتا لیکن یہ حقیقت تھی وقار صاحب جا چکے تھے اور اب میں مشتاق کے رحم و کرم پر تھی ادھر مجھے اپنا منصوبہ خاک میں ملتا دکھائی دے رہا تھا وقار بھاگ گیا تھا میری آرزوؤں میرے ارمانوں کا قاتل تو وہ تھا، مجھے تو انتقام اس سے لینا تھا لیکن یہاں کامیابی پلٹ گئی تھی ۔ مشتاق سے میں نے کئی مرتبہ فریاد کی کہ مجھ سے شادی کر کے مجھے ہمیشہ کے لیے تحفظ دے دو میں بر باد تو پہلے ہی ہو چکی ہوں اب مجھ میں ہمت نہیں کوئی نیا صدمہ برداشت کرنے کا میں نے اپنے منصوبے سے دست بردار ہونے کی سوچ کر مشتاق سے درخواست کی۔
 
 تمہیں صرف میری داشتہ کے طور پر رہنا ہو گا شادی کے چکروں میں نہ پڑو میں تو پہلے ہی شادی شدہ ہوں ۔ وہ انتہائی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑبڑایا میں نے مشتاق کی بڑی منت سماجت کی لیکن وہ میری بے بسی پر قہقہے لگاتا۔ پہلے تو تمہیں زخمی کرنے کا مزہ چکھاؤں گا بعد میں سوچوں گا تمہارے ساتھ کیا کروں ۔ مجھے معاف کر دو مشتاق اتنے بڑے شہر میں میرا کوئی نہیں اب سوائے تمہارے ہاں ہاں یہ تو ہے تو میرے اشاروں پر ناچنے کے لیے تیار ہو جا اگر میری ہمدردی چاہیے تو ورنہ، ورنہ کیا مشتاق؟ میں مکمل طور پر ہتھیار پھینک چکی تھی جاننا چاہتی تھی وہ کیا چاہتا ہے۔ ورنہ تم خود ذمہ دار ہو اپنا سیاہ سفید سوچ لو کوئی زبردستی نہیں ۔ وہ میری بے بسی پر طنز کر رہا تھا۔ ٹھیک ہے چند دن مجھے سوچنے کی مہلت دو میں کوشش کروں گی تمہاری بات مان لوں یا پھر تمہارا گھر چھوڑ دوں ۔ میں کوئی فیصلہ کرنا چاہتی تھی لمحہ لمحہ سکتی زندگی سے تنگ آچکی تھی ۔ ٹھیک ہے سوچ لو ۔ کہہ کر وہ گھر سے باہر نکل گیا وہ سارا سارا دن باہر رہتا نجانے کیسی نوکری کر رہا تھا وہ … چند دن گزرے ہوں گے وہ کہنے لگا۔ تو پھر کیا سوچا ثریا رانی ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکی آج رات کی مہلت دے دو صبح ہوتے ہی میں تمہاری بات مان لوں گی یا یہ گھر چھوڑ دوں گی ۔

 میری بے بسی انتہا کو تھی۔ بالکل ٹھیک اس نے ایک شیطانی قہقہہ لگایا ۔ وہ جانتا تھا یہ کہاں جائے گی اسے میری بات ماننا پڑے گی جبکہ مجھے اپنی عزت کی پوری پوری قیمت وصول کرنا تھی میں اتنی سستی تو نہ تھی جتنی وہ سمجھ رہا تھا رات آدھی سے زیادہ ڈھیل چکی تھی دروازے پر دستک ہوئی یہ وہ رات تھی جس کی میں نے مہلت مانگی تھی۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو ہاتھوں میں پستول لیے دو نقاب پوش میرے سامنے تھے میں خوف سے لرز گئی لیکن جلدی سنبھل گئی اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے یا میں ان سے کچھ پوچھتی ۔ انہوں نے مجھے اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا۔ خبردار چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں۔ ایک نقاب پوش نے دھمکی دی اور پھر مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔ جب ہوش آیا تو میں ایک انتہائی قیمتی بیڈ روم میں تھی اور میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھا کوئی سگار پی رہا تھا۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر بولا ۔ دیکھولڑ کی تمہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں یہ بہت بڑا بنگلہ ہے جس کے بیڈ روم میں تم موجود ہو میں نے تمہیں ساٹھ ہزار میں خرید لیا ہے میں کبھی کبھار آیا کروں گا ماضی کو بھول جاؤ نئی زندگی سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرو یہاں پر تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی نوکر خدمت کے لیے حاضر ہیں ہر چیز تمہیں اشارہ کرنے پر مل جائے گی لیکن کوئی احمقانہ حرکت کرنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ پچھتاؤ گی۔

چوٹیں کھانے کی شاید اتنی عادی ہو چکی تھی کہ اس انکشاف سے کوئی مجھ پر بجلی نہ گری۔ تو میں ساٹھ ہزار میں فروخت کر دی گئی ہوں اس کے جانے کے بعد میں نے سوچا۔ چلو کوئی بات نہیں اور کچھ نہیں تو کم از کم گھر اور تحفظ تو مل ہی گیا ہے ۔ کافی دیر روتی اور سوچتی رہی پھر ایک چھناکے سے اٹھ بیٹھی چلو زندگی کو اپنے ارمان پورے کر لینے دو میں حالات سے ہر طور سمجھوتہ کروں گی یہ جو کوئی بھی ہے میری عزت کی دھجیاں بکھیرے گا لیکن گھر تحفظ تو دے گا ضرورتیں تو پوری کرے گا ایسے بھی تو میرے پاس کیا رہ گیا بس ایک صدمہ مجھے سنبھلنے نہیں دے رہا تھا۔ ایک شخص بھاگ گیا اور دوسرے نے ساٹھ ہزار وصول کر لیے اور خوش و خرم گھوم پھر رہے ہیں۔ 
 
چلو زندگی نے ساتھ دیا تو پھر کبھی سہی ہرحال میری زندگی کا مقصد صرف ایک ہی تھا ان دونوں سے انتقام لینا اور نہ مجھے جینے کی کوئی آرزو نہیں تھی۔ وہ سیٹھ صاحب ہفتے میں ایک دو دفعہ آتے اور پھر چلے جاتے اس نے میری عزت لوٹ کر جو مجھے عزت اور مقام دیا اس کا تو میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کئی قسموں کی گاڑیاں میرے لیے مختص کر دی گئیں تھیں نوکر میرے اشاروں پر ناچتے طرح طرح کے کھانے ضرورت کی ہر چیز دولت کے انبار میرے قدموں میں صرف معمولی سا تحفظ تلاش کرنے والی کو سب کچھ ہی تو مل گیا تھا لٹی ضرور تھی لیکن بھاری قیمت . کے عوض میں کافی مطمئن ہوگئی تھی گھر پر میرا مکمل کنٹرول تھا۔ میرا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہر طرح سے خدمت گار موجود تھے سال بھر کا عرصہ گزر گیا ۔ میری زندگی ایک ہی معمول پر گزر رہی تھی دکھ بانٹنے والا کوئی نہ تھا باقی سب کچھ تھا شام کو ڈرائیور مجھے سیر و تفریح کے لیے لے جاتا زندگی بڑی عجیب سے موڑ پر آگئی تھی لیکن مجھے سکون نہیں مل رہا تھا جبکہ عام حالات میں میری زندگی قابل رشک تھی ۔ زندگی مخصوص دائرے میں گھومتی رہی اور میرے اندر لاوا پکتا رہا آہستہ آہستہ کرنسی نوٹوں کی بدولت ڈرائیور کو میں نے قابو کر لیا تھا اور اس سے مشتاق کی خبر گیری کرواتی رہی اور جلدی یہ پتہ چل گیا مشتاق بھی سیٹھ صاحب کا کارندہ ہے لیکن اگر ایسا ہے تو سیٹھ صاحب نے ساٹھ ہزار اُسے کس لیے دیے وہ ایسے بھی اس سے چھین سکتے تھے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ شروع شروع میں میری نگرانی کی جاتی رہی لیکن شاید اب سیٹھ صاحب کو یقین ہو گیا تھا کہ بھاگے گی نہیں مجھے آزاد کر دیا گیا وہ یہ سمجھ رہے تھے اتنی عیاشی کی زندگی چھوڑ کر کہاں جائے گی ۔

  یہ تھی بھی حقیقت ایسی زندگی تو خوابوں میں دیکھنی بھی مشکل تھی لیکن میرے اندر جو آگ لگی تھی وہ تو کوئی نہیں جان سکتا تھا میں نے ڈرائیوری سیکھ لی تھی اور خود گھومنے پھرنے لگ گئی تھی سیٹھ صاحب جن کا نام طارق تھا کو یقین ہو گیا تھا اب یہ نہیں نہیں جائے گی اور پھر میں نے اداکاری کرتے ہوئے سیٹھ صاحب کا دل بھی جیت لیا تھا اگر میرے اندر انتقام کی آگ نہ لگی ہوتی تو یہ زندگی دنیا میں جنت تھی اور پھر یہ سیٹھ صاحب تھے بھی اتنے آزاد خیال کہ انہیں کسی چیز کی اتنی پرواہ نہیں تھی نجانے کیا کاروبار کرتے تھے ان کی دولت کے ڈھیر ہر طرف لگے تھے ہر کوئی ملازم عیاشی کر رہا تھا۔ لیکن مشتاق شاید کوئی عام سا کارندہ تھا ورنہ وہ اس معمولی سے مکان میں نہ رہ رہا ہوتا جبکہ دوسرے ملازم اچھے خاصے مالدار لوگ تھے دولت کی خوب ریل پیل تھی اس زندگی کو دھتکارنا اتنا آسان نہ تھا۔ لیکن میں اپنی بربادی کو کیسے بھول جاتی مجھے اپنے پورے گھر کا حساب لینا تھا اور پھر جب سیٹھ صاحب بیرون ملک ٹور پر گئے تو مجھے موقع مل گیا آپ کو شاید یقین نہ آئے اب میں وہ معصوم ثریا نہیں تھی جس نے وقار جیسے غلیظ آدمی کو افسردہ ہونے سے بچانے کے لیے گھر بار چھوڑ دیا تھا اب میرے اندر آندھیاں تھیں دنیا بھر کے طوفان امڈ آئے تھے اور پھر ایسے حالات سے جب پالا پڑے تو کوئی بھی انسان وحشی بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
جہاں جہاں سے میں گزری تھی مجھے آدم خور تو بننا ہی تھا ایک رات میں نے ضرورت کا سامان لیا گاڑی میں رکھا اور اللہ کا نام لے کر چل نکلی پہلے مشتاق کا پتہ کیا میری بدنصیبی کہ وہ اس دن گھر پر نہ ملا اب مجھے وقار کا پیچھا کرنا تھا گو یہ کام آسان نہیں تھا ہزاروں میل کا سفر مجھے تنہا کرنا تھا لیکن جب انسان زندگی داؤ پر لگا دے تو کچھ مشکل نہیں آسانیاں خود بخود ساتھ دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں انسان میں ہمت اور حوصلہ ہو تو منزلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ مجھے کسی طرح کا کوئی ڈر خوف نہیں تھا بس ایک دعا کر رہی تھی خدا سے کہ وقار تک پہنچنے کے لیے مجھے زندگی اور ہمت دینا کہیں راہوں میں زندگی ساتھ نہ چھوڑ جائے ذرا سا یہ خوف ضرور تھا وقار کا ایڈریس میرے پاس تھا مختار بھائی جب گھر خط لکھتے تھے تو میں پڑھتی رہتی تھی ان کے گھر کا پتہ مجھے اتنا یاد ہو گیا تھا جتنا اپنے گھر کا یاد نہ تھا وقار گھر ہی گیا ہوگا اور کہیں تو جانے کی صورت ہی نہ تھی۔ راستے میں ایک رات ایک جگہ میں نے قیام کیا اور پھر ایک رات اور ایک دن کا سفر کر کے میں وقار کے گھر کے قریب پہنچ چکی تھی میرے اندر کی عورت زخمی شیرنی کی طرح چنگھاڑ رہی تھی مجھے کسی چیز کا ذرا بھی خوف نہ تھا انتقام کی آگ شعلے برسا رہی تھی اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا عجیب اتفاق اسی دن وقار کی شادی کے شادیانے بجے تھے شام کے دھند لکے ہر سو پھیل چکے تھے اس کے گھر میں کافی لوگ جمع تھے ۔ یہاں کیا ہو رہا ہے ۔
 
 میں نے ایک عورت سے پوچھا گاڑی میں نے وقار کے گھر سے کافی دور کھڑی کی تھی۔ وقار کا نکاح ہو رہا ہے۔ مگر آپ کون ہیں؟ وہ عورت پوچھتے ہوئے مجھے گھورنے لگی ۔ میں بھی عورت ہوں ۔ یہ کہہ کر میں آگے نکل گئی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وقار مجھے دیکھ نہ لے گو کہ میں نے کافی حد تک حلیہ بدل رکھا تھا ادھر اُدھر ٹہلتے زیادہ دیر نہ لگی تھی کہ لوڈ شیڈنگ نے میری مشکل آسان کر دی تھی میں گھر کے اندر گھس گئی گیس وغیرہ جلنے تک میں ایک محفوظ جگہ چھپ چکی تھی مجھے کافی دیر چھپنا پڑا حسن اتفاق کہ جہاں میں چھپی تھی قریب ہی دلہن کا کمرہ تھا پھر وہ وقت آیا وقار صاحب سامنے سے آتے دکھائی دیے اور ساتھ والے کمرے میں داخل ہو گئے مجھے بڑی محفوظ جگہ مل گئی تھی عام طور سے مجھے کوئی خطرہ نہ تھا چہل پہل ختم ہو چکی تھی ۔ میں نے کھڑکی کے پٹ سے کان لگا دیے آواز آرہی تھی اور یہ آواز وقار کی تھی اسے میں کیسے بھول سکتی تھی یہ آواز تو روز قیامت بھی یاد رہے گی اور اس آواز کی خاطر میں نے کتنی بڑی قیمت دی تھی میں اُسے کیسے بھول سکتی تھی۔ نجمہ آپ کل تک میری بھابی تھیں اور قسمت کہ آج تم میری بیوی بن چکی ہو جہاں میں نے یہ زہر نگلا تمہیں بیوی بنانے کا وہاں تمہیں بھی ایک زہر نگلنا پڑے گا میں تم سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا سب کچھ بتا دینا چاہتا ہوں لیکن تمہیں دل مضبوط رکھنا ہوگا اور یہ راز رکھنا ہوگا نجمہ تمہارا سہاگ لوٹنے والا میں ہی ہوں جہاں مختار بھائی نوکری کرتے تھے وہاں سے ایک لڑکی کو میں نے اغوا کیا تھا۔ اور وہ لڑکی ہی میری کل کا ئنات ہے۔
اُسے میں ایک لٹیرے کے پاس کراچی چھوڑ کر آیا ہوں بہر حال وہ میری زندگی ہے میں اس کے بغیر جی نہیں سکتا اس لڑکی کو جہاں میں چھوڑ آیا ہوں وہ بہت ہی مکار فریبی اور دغا باز نکلا مجھے بڑا بھروسہ اور فخر تھا اس پر لیکن وہ کمینگی کی تمام حدیں پھلانگ گیا اس نے مجھے ہر طرح سے بلیک میل کیا مجھے وہ ہر روز پولیس کو بتا دینے کی دھمکی دیتا اس نے اس کے عوض میری بیوی کی عزت کو لوٹنا چاہا تو میں نے یہ کچھ بھی برداشت کر لیا بصورت دیگر ہمیں وہ بربادی دیکھنا پڑتی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور میں مجبور ہو گیا میرے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ ہی نہ تھا میں ثریا کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا چلو جیسی بھی حالت میں ملے گی مجھے منظور ہے۔ میں اُسے صبح لینے جا رہا ہوں اور یہ بھی بتادوں کہ ثریا کے بھائیوں نے بھائی مختار کو قتل کر دیا ہے صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے میرا پتہ نہیں دیا تھا میں نے ساری معلومات اکٹھی کر لی ہیں ثریا کے دو بھائی مختار بھائی کے قتل کے جرم میں جیل میں ہیں اس کے والدین مر چکے ہیں یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے ثریا کے اغواء ہونے کا اور باقی اس کے بھائی وہ جگہ ہی چھوڑ کر چلے گئے اور اب ثریا کا میرے سوا کوئی نہیں مجھے امید ہے کہ تم مجھے معاف کرتے ہوئے یہ وعدہ بھی کروگی کہ یہ راز رکھوگی ۔ وقار کی زبانی یہ کچھ سن کر آگے کچھ سننے کی مجھ میں ہمت ہی نہ تھی میں لڑکھڑائی گری اور میری چیخ نکل گئی پستول دور جا گرا چیخ کی آواز سن کر گھر میں بھگڈر مچ گئی ۔
 
 سب لوگ دوڑے آئے مجھے بس اتنا یاد ہے کہ وقار نے مجھے اپنے بازوؤں میں تھام کر چارپائی پر رکھ دیا پھر کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔ پھر جب ہوش آیا تھا تو میں اسپتال کے بیڈ پر تھی۔ جب کچھ ٹھیک ہوئی کچھ ہمت ہوئی تو میں نے وقار سے کہا۔ میں تمہیں قتل کرنے کے ارادے سے آئی تھی لیکن اب تمہیں محض بھائی مختار کی وجہ سے اور ان کی بیوی کے لیے زندہ چھوڑے جارہی ہوں۔ نہیں ثریا تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتیں ۔ وقار گگھیایا۔ یہ ٹھیک ہے کہ تمہارے پیار میں بہت بڑی قیمت دی ہے میں نے اور کسی حد تک تم بھی سچے اور مجبور تھے میں نے سب کچھ سن لیا ہے اور یقین کر لیتی ہوں لیکن اب میں کسی اور کی ملکیت ہوں اور میں اُسے چھوڑ سکتی ہوں نہ وہ مجھے چھوڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
 ساٹھ ہزار میں تمہارے مشتاق نے مجھے فروخت جو کر دیا تھا اور اب میں جو زندگی گزار رہی ہوں وہی میری اصل زندگی ہے لاکھ چاہو تو میں نہیں بھاگ سکتی، میں کسی کا گھر آباد کرنے کے قابل ہر گز نہیں نہ کرنا چاہتی ہوں ۔ تم آج بھی ثریا میرے لیے اتنی ہی عظیم ہو جتنی پہلے دن تھیں ۔ وقار میرے پاؤں پر زاروقطار رودیا لیکن یہ سب میرے اختیار میں نہیں اگر واقعی تمہیں مجھ سے پیار ہے تم سچے ہو تو اس سیٹھ سے ملو جس نے مجھے خرید کر دنیا جہاں کی نعمتیں دے رکھی ہیں ۔ وقار کو روتے چیختے چلاتے میں واپس آگئی۔ میں وہاں مرنا چاہتی تھی لیکن ابھی مجھے مشتاق سے حساب چکانا تھا والدین مر گئے دو بھائی جیل چلے گئے اور باقی وہ جگہ ہی چھوڑ کر چلے گئے اور بھائی مختار جیسے عظیم آدمی کی موت یہ سب کیسے برداشت کر لیتی میں مشتاق کا پیچھا ہی کر رہی تھی کہ ایک دن وقار آپہنچا اور سیٹھ صاحب کے سامنے گڑ گڑایا۔ 
 
سیٹھ صاحب نے مجھے اس کے حوالے کر دیا لیکن فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا اور میں نے سیٹھ صاحب کو خدا حافظ کہتے ہوئے وقار کا ہاتھ تھام لیا اور میں نے اس کو اپنی اور اپنے پیار کی جیت سمجھا اور وقار کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہو گئی۔ لیکن نجانے میرے بھائیوں کو کیسے اور کہاں سے پتہ چل گیا انہوں نے ایک دن وقار کو قتل کر دیا اور میں وہاں سے بھاگ گئی وہ مجھے بھی قتل کر دیتے اور آج کل میں پاگل کا روپ دھار کر مینٹل ہاسپٹل میں ہوں ۔ جو میرا انجام ہوا وہ ہر اُس لڑکی کا انجام ہوتا ہے جو اپنے والدین کی عزت کی دھجیاں اڑاتی ہیں کاش عبرت کا نمونہ بننے سے قبل ہم لڑکیوں کو سمجھ آجائے۔