بھیانک کھیل - دوسرا حصہ

urdu font stories online 14
 

شفاعت علی کے ماں باپ 1965، کی جنگ میں ہلاک ہو گئے۔ کھیت کھلیاں اوراپنا سب کچھ لٹا کے اپنی جان بچاتا ہوا وہ اک ہسپتال پہنچا تھا۔ تب شیر محمد نے اسے اپنی گھر میں پناہ دی تھی اور اپنا بیٹا بنا لیا۔ شفاعت علی جوانی کو پہنچا تو شیر محمد نے اپنی بھانجی سکینہ سے اس کی شادی کر دی۔ پھر سکینہ نے جب ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا تو اس کا نام شارق رکھا گیا۔ 

 شارق بہت قسمت والا تھا ۔ جب پیدا ہوا تو اس کے باپ شفاعت علی کی فروٹ کی معمولی دکان چمک اٹھی اور اچھی آمدن آنا شروع ہو گئی۔ شفاعت علی نے وہ دکان خرید لی اور کام بڑھا لیا لیکن ساتھ ہی اک  مصیبت ان کے گلے پڑ گئی۔ ان کے محلے میں اک وکیل تھا اس نے چال بازی سے جعلی کاغذات بنا لیئے اور دکان کے اصل مالک ہونے کا دعوی کر دیا۔ لیکن اس کی چالبازی کھل کر سامنے آ گئی اور سلمان نامی وکیل ہار گیا، لیکن دل میں اتتقام لینے کی ٹھان لی۔

شفاعت علی کا بیٹا شارق بارہ سال کا ہو چکا تھا۔ وہ سرخ و سفید رنگ کا گول مٹول پیارا سا بچہ تھا۔ اللہ نے اسے بہت ذہانت دی تھی۔ پڑھائی کیساتھ ساتھ باپ کیساتھ کاروبار بھی دیکھتا تھا۔

 وہ سردیوں کا موسم تھا بارشیں شروع ہوچکی تھیں۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ شفاعت علی نے دکان بند کی اور بیٹے کیساتھ گھر چلا گیا۔ رات بارہ بجے کے لگ بھگ وہ سونے کے لیے لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد شفاعت علی کو لگا کہ باہر کوئی ہے، کیونکہ اس نے دھب دھب کی آواز سنی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ باہر گہری تاریکی تھی اور بارش بھی ہو رہی تھی۔ وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نقاب پوش نے رائفل کا بٹ اس زور سے مارا کی اس کی چیخ نکل گئی۔ ایک اور سایہ دیوار کی آڑ سے نکل کے سامنے آ گیا اس کی ہاتھ میں خنجر تھا۔اس نے خنجر کا بھرپور وار کیا اور خنجر دستے تک شفاعت کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ اس کی منہ سے نکلنے والی دوسری چیخ پہلی سے زیاد ہ کربناک تھی۔

اسی لمحے بادل گرجے لیکن کمرے میں لیٹی سکینہ نے اپنے شوہر کی چیخ سن لی۔ وہ ننگے پیر باہر دوڑی آئی، دو نقاب پوش اس کے شوہرپر حملہ آور تھے۔ وہ اپنے شوہر کو بچانے کے لیے دوڑی تو اک تیسرا نقاب پوش خنجر لیے دیوار کی آڑ سے نکلا اور سکینہ کے پہلو میں خنجر سے وار کیا۔ اپنے زخموں کی پرواہ کیے بنا وہ شوہر کی طرف لپکی۔ دونوں میاں بیوی چیختے رہے اور حملہ آور خنجروں اور رائفل کے بٹ سے ان پر حملے کرتے رہے۔ ان کی چیخیں بادلوں کی گھن گرج میں دب گئیں۔

شارق چیخوں کی آواز سن کر اٹھ گیا تھا۔ وہ بھی کمرے سے نکل کر باہر دوڑا، باہر کا منظر دیکھ کر وہ خوف ذدہ ہو گیا لیکن وہ ڈرنے کی بجائے اپنے ماں باپ کی مدد کے لیے دوڑا مگر ایک حملہ آور نے اس قدر زور دار ٹھوکر رسید کی کہ وہ چیختا ہوا دور پانی میں جا گرا۔ ایک حملہ آور اس کی جانب لپکا لیکن اس کی ماں نے زخموں کے باوجود اس حملہ آور کا پیر پکڑ لیا۔ سکینہ مسلسل چیخ چیخ کر شارق کو بھاگ جانے کا کہ رہی تھی۔ شارق کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ان سفاک انسانوں کے مقابلے میں اپنے ماں باپ کی مدد نہیں کر سکتا۔ وہ اٹھ کر چھت پر جانے والی سیڑھیوں کی طرف دوڑا۔

بارش کچھ اور تیز ہو گئی۔ اک نقاب پوش نے چلا کر کہا۔ پکڑو اس سپولیے کو، وہ بھاگ رہا ہے۔ ایک حملہ آور اس کے پیچھے بھاگا۔ شارق سنبھل کر چھت کیطرف دوڑا لیکن پچھے آنے والا حملہ آور بری طرح پھسلا اور نیچے جا گرا، جب تک وہ سنبھل کے واپس آتا شارق دور نکل گیا۔ لڑکے کا بھاگ جانا ان کے لیے خطرناک تھا وہ اس دوہرے قتل کا چشم دید گواہ تھا۔ اس کے ماں باپ ساکت ہو چکے تھے اور حملہ آور جا چکے تھے کیونکہ لڑکا پورا محلہ اکھٹا کر لیتا تو ان کا بچنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن شارق ان کو پہچان نہیں سکتا تھا کیونکہ انہوں نے نقاب سے چہرے چھپا رکھے تھے۔

شارق دور چھپا سب دیکھ رہا تھا، وہ دور نہیں گیا تھا، بلکہ واپس لوٹ کر چھپ کر بیٹھ گیا تھا، جب وہ نکل گئے تو شارق چھت سے نیچے اترا اور اپنی ماں کی لاش سے لپٹ گیا، اس کی ماں کے سینے میں ابھی تک خنجر پیوست تھا۔ اس کا باپ بھی ذخموں سے چور ہو کر ختم ہو گیا تھا۔ شارق نے پوری قوت لگا کر خنجر اپنی ماں کے سینے سے نکالا تو خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ وہ ماں سے لپٹ گیا اور بے ہوش ہو گیا۔

صبح چھے بجے بارش بند ہو گئی۔ شارق جس لڑکے کیساتھ سکول جاتا تھا وہ شارق کو ساتھ لیکر جاتا تھا، اس دن بھی جب وہ گھر میں داخل ہوا تو صحن میں لاشیں اور خون دیکھ کر چیختے ہوئے اپنے گھر دوڑا اور اپنے باپ کو بتایا، پوری محلے میں بات پھیل گئی اور سب جمع ہو گئے۔ دیکھا تو لڑکا ابھی زندہ تھا، اسے کوئی زخم نہیں تھا۔ ان میں سلمان وکیل بھی تھا، اسے موقع مل گیا اور سب کو بتانے لگا کہ یہ لڑکا باغی ہو گیا تھا اور اپنے ماں باپ سے بھی لڑتا رہتا تھا، آج اس نے اپنے ماں باپ کا قتل کر ڈالا۔ اس نے پولیس کو بھی کال کر دی، معاملہ اس کے کنٹرول میں تھا، کوئی بھی محلے میں اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا اس لیے سب نے لا علمی کا اظہار کیا۔ سلمان نے پولیس کو ساری رودار سنا ڈالی اس نے کچھ اور لوگوں کر بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا اور بولا۔ دیکھو سب لڑکے کو ہوش میں لاؤ اس کے ہاتھ میں خنجر ہے، اسی نے قتل کیا ہے۔

شارق کو ہوش آگیا تھا۔ پولیس والے اسے گرفتار کر کے لے گئی۔ تمام ثبوت اس کے خلاف تھے اس لیے اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی اس کے پیچھے پیچھے بھی وکیل سلمان کاہاتھ تھا۔ وہ ان کی دکان اور مکان ہتھیانا چاہتا تھا۔ لیکن عدالت نے محلے کے ایک معزز آدمی سلطان کر شارق کا سرپرست مقرر کیا اور دکان اور مکان اس کی نگرانی میں دے دیا۔ جیل میں شارق کا رویہ، اس کے خلاف استغاثہ کی بیانات سے باکل مختلف تھا۔

سخت گیر اور سنگ دل جیلر کو بھی شارق کی معصومیت پر ترس آگیا تھا۔ اس کی زندگی جیل میں بہت سارے قیدیوں کے ساتھ گزری تھی۔ جیل میں معمولی چور اور جیب کتروں سے لے کر خطرناک ڈاکو اور قاتل بھی آتے تھے کبھی کبھار کسی بے گناہ کو بھی جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر جیل بھیج دیا جاتا تھا۔ جیلر جیل میں قیدیوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھا وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ کس کے ساتھ کس قسم کا سلوک رکھنا چاہیے اگرچہ جیل میں انے والا ہر دوسرا قیدی اپنے اپ کو بے گناہ کہتا تھا لیکن جیلر ان کی شکل سے ہی اندازہ لگا لیتا تھا کہ کون جھوٹا اور کون سچا ہے۔ شارق نے جیل میں آ کر کئی روز تک زبان نہیں کھولی تھی وہ عجیب سی نظروں سے قیدیوں کو دیکھتا رہا نہ جانے کیوں جیلر کو اس سے ہمدردی ہو گئی تھی اور جب شارق نے ز بان کھولی تو اس نے اپنے بارے میں یا اپنے ماں باپ کے قتل کے بارے میں ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکالا تھا۔ جیلر نے شارک سے کوئی مشقت کا کام لینے کی بجائے اسے دفتر میں چپراسی کی حیثیت سے رکھ لیا اور جب شارق نے پڑھنے لکھنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تو اسے کتابیں بھی مہیا کر دیں۔

جیل میں آنے کے ڈھائی سال بعد شارک نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو وہ بہت خوش تھا اور جب اس کا رزلٹ جیلر نے دیکھا تو اسے بھی بہت خوشی ہوئی۔ شارق پر بعض اوقات عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی وہ گمسم بیٹھا رہتا اور چہرے پر عجیب سے تاثرات ابھرآتے۔ اسے اپنی انکھوں کے سامنے خون ہی خون پھیلا ہوا نظر آتا۔ ماں باپ کے خون میں لت پت لاشیں۔ زخموں سے چور لاشیں۔ دو تین نقاب پوش ادھر ادھر بھاگتے دکھائی دیتے تھے۔

شارق پر جب بھی ایسی کیفیت طاری ہوتی اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا وہ ٹکٹکی لگا کر آسمان کو گھورتا رہتا اور اس کی آنکھوں میں ویرانی ہوتی جن میں بالاخر انسو ابھر آتے۔

 دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے برسوں میں بدلتے رہے شارق نے جیل میں ہی بی اے کا امتحان پاس کر لیا تو نیک چال چلن اور حصول تعلیم کی وجہ سے شارق کو نہ صرف جیل میں بہت سی سہولتیں مل گئی تھیں بلکہ اس کی سزا بھی کم ہو گئی تھی۔ اب وہ 22 سال کا ایک بھرپور جوان تھا۔ جب وہ جیل میں آیا تو اس کی عمر 12 سال تھی۔ اس نے جیل میں 10 سال کاٹے تھے۔ کچھ عرصہ سے جیلر نے اسے اپنے بنگلے کی ڈیوٹی سے ہٹا کر دوبارہ جیل میں بلا لیا تھا یہاں بھی اس سے ہلکے پھلکے کام لیے جاتے تھے۔ اس روز وہ دفتر کے سامنے پودوں کی کیاریوں کو پانی دے رہا تھا کہ ایک ایک پولیس والا اس کے قریب آ کر رک گیا اور بولا شارق تمہیں جیلر بلا رہے ہیں۔ شارق نے پانی والی بالٹی ایک طرف رکھ دی اور وارڈن کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

 دفتر میں پہنچ کر جیلر نے اسے کہا کہ شارق تمہیں یہاں آئے ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا ہے تو شارق نے بتایا کہ دس سال ایک مہینہ اور 17 دن۔ تو جیلر نے کہا کہ آخر تمہیں اپنے جرم کا احساس ہے تو شارق نے کہا کہ میں نے تو کوئی جرم ہی نہیں کیا تھا۔ کون بے وقوف اپنے پیاروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے؟ میرے ماں باپ ہی میرا سب کچھ تھے میں نےتو باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا۔ راستوں کی اونچ نیچ کو بھی نہیں سمجھتا تھا بھلا انہیں کیسے قتل کر سکتا تھا؟

جیلر نے اسے بتایا کہ اس کی سزا مکمل ہو چکی ہے اور اب وہ گھر جا سکتا ہے وہ اس بات پر حیران ہوا لیکن جیلر نے اسے سمجھایا کہ سزا کم ہونے کے پیچھے تمہارے اچھے کردار اور اخلاق ایک بہت بڑی وجہ تھی اس لیے تمہیں وقت سے پہلے رہا کیا جا رہا ہے تاکہ تم اپنی زندگی شروع کر سکو۔

 شارق جیل سے نکلا اور سیدھا اپنے گھر گیا جہاں اس کے ماں باپ کو قتل کیا گیا تھا وہ رات اس کے لیے بھیانک رات تھی اور آج کے دن وہ اپنے اس ویران گھر کے اندر کھڑا تھا اس کی انکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس نے گھر کی صفائی کروائی اور تمام سامان  درست کیا اور گھر کو رہنے کے قابل بنایا۔ پھر وہ ساتھ ہی محلے میں سلطان کے گھر گیا جس کو عدالت نے اس کے گھر اور مکان کا نگران مقرر کیا تھا گھر کے دروازے پر دستک دینے کے بعد ایک عورت نے دروازہ کھولا وہ مریم سلطان کی بیوی تھی۔ مریم سلطان کے ساتھ ایک دو دفعہ جیل میں شارق سے مل چکی تھی اس لیے اس نے شارق کو پہچان لیا اور اپنے گھرکے اندر لے گئی۔  گھر میں اس کی جواں سالہ بیٹی رضیہ نے چائے بنائی اور پھر اس کے بعد مریم نے تمام حساب کتاب اور چیک بک اور اس کے علاوہ جتنے بھی روپے پیسے کا حساب تھا وہ شارک کو دے دیا۔

 شارک حیران ہوا کہ اتنی ایمانداری کے ساتھ ان لوگوں نے اس کے مکان اور دکان کو سنبھال رکھا تھا۔ شارک کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا اور اس کے بعد وہاں سے نکل کر اپنے گھر آگیا گھر کے لیے کچھ ضروری سامان اور فرنیچر خریدنے کے بعد اس نے گھر کو رہنے کے قابل بنا لیا اب وہ سوچ رہا تھا کہ کوئی کاروبار شروع کرے کیونکہ اس کے بینک اکاؤنٹ میں دو لاکھ سے زیادہ کی رقم موجود تھی۔ وہ واپس مریم کے گھر آیا اور اس سے مشورہ کرنے لگا کہ کیا کیا جائے۔

 اچانک محلے میں شور اٹھا شارق دوڑ کر باہر ایا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور شعلے اٹھ رہے ہیں تمام سامان فرنیچر جو نیا لے کے آیا تھا وہ جل کر راکھ ہو گیا کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ آگ کس نے لگائی ہے لیکن شارق سمجھ گیا تھا کہ اس کے دشمنوں کو پتہ چل چکا ہے کہ وہ گھر آگیا ہے اب وہ اس کے اوپر قاتلانہ حملے بھی کریں گے اور اسے تنگ بھی کریں گے۔

 شارق نے اپنے مکان کے جلنے کی رپورٹ تھانے میں لکھوا دی کہ کسی نے اس کے گھر میں آگ لگا دی تھی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس کے ساتھ گئے تاکہ وہ وہاں پہ گواہی دے سکیں۔ تھانیدار نے رپورٹ درج کر لی اور یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی ملزموں کو گرفتار کر لیا جائے گا شارق واپس آگیا اور اس رات وہ اپنے جلے ہوئے مکان میں موجود تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب زندگی کو کیسے اگے لے کے جانا ہے کیسی زندگی اور موت کے درمیان وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بچ کے رہے گا یا ان سے بدلہ لے گا۔ شارق نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو ضرور ڈھونڈے گا اور ایک عبرت ناک موت دے گا۔

شارق جب سے مریم کے گھر آ جا رہا تھا محلے والوں نے مختلف قسم کی باتیں بنانا شروع کر دیں کہ گھر میں جوان لڑکی ہے اور غیر مرد کو گھر بٹھا رکھا ہے لیکن مریم نے کسی کی بات کی پرواہ نہ کی وہ شارق کو اپنا بیٹا سمجھتی تھی اور شارق بھی رضیہ کو اپنی بہن مانتا تھا کیونکہ بچپن میں وہ اکٹھے کھیلا کرتے تھے مریم نے شارق کو مشورہ دیا کہ جو دکان کرائے پہ  ہے اس دکان کو واپس لے کر وہاں کوئی اپنا کاروبار شروع کر لینا چاہیے۔ شارک کو یہ تجویز بہت پسند ائی

اسی دن شارق دکان پر پہنچ گیا۔ دکان کا مالک ایک صحت مند انسان تھا اور دکان میں مختلف قسم کے فروٹس اچھے طریقے کے ساتھ سجے ہوئے تھے۔ شارق نے اپنا تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ اب وہ خود اس دکان میں کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہے اسی لیے ایک ماہ کے اندر اس کی دکان کو خالی کر دے۔ اس ادمی نے حامی بھر لی کہ ایک ماہ کے اندر وہ کوئی اور دکان دیکھ لے گا اور ان کی دکان خالی کر کے دے دے گا۔ اسی دوران ایک آدمی اس دکان پہ آیا اس نے کچھ پیسے دکاندار کی مٹھی میں دیے اور دکاندار نے ایک سفید پڑیا اس کے ہاتھ میں تھما دی اور اس نے فورا جیب میں ڈال لی اور وہاں سے چلا گیا۔

 شارق یہ سارا معاملہ دیکھ رہا تھا لیکن وہ اس بات کو سمجھ نہ سکا اسی طرح شارق کی موجودگی میں دو تین لوگ اور بھی آئے اور کچھ پیسے دکاندار کی مٹھی میں تھماتے اور چوری چوری کچھ پڑیا جیب میں ڈال کے چلے جاتے ہیں لیکن شارق نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا اور واپس گھر آگیا اسی طرح وقت گزرتا رہا اور ایک ماہ کے بعد جیسے ہی دکان خالی ہوئی شارق نے بھی اس دکان کے اندر فروٹس وغیرہ کا کاروبار شروع کیا اور ایک دوست اور جاننے والے کی مدد سے اس نے اپنی دکان سیٹ کر لی۔ لیکن ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ پھر وہی لوگ آنا شروع ہو گئے جو کچھ پیسے کے بدلے کوئی پڑیا وغیرہ لینا چاہتے تھے لیکن شارق ان کو ڈانٹ کر بھگا دیتا تھا کہ اس کے پاس کسی قسم کی کوئی پڑیا نہیں ہے۔

 شارق کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ لوگ کس پڑیا کی بات کرتے ہیں ایک دن اس کی دکان کے سامنے ایک خوبصورت کارآ کر رکی جس میں سے دو تگڑے نوجوان باہر نکلے اورشارق کی دکان پہ آگئے اور انہوں نے کہا کہ اس دکان پر پہلے جو آدمی کام کرتا تھا وہ ساتھ میں ہمارا کام بھی کرتا تھا اور ہم اسے اچھے پیسے دیتے تھے۔ ہمارے بہت سارے کسٹمر اس دکان پہ آرہے ہیں لیکن تمہارے آنے سے کسٹمر پریشان ہو رہے ہیں اس لیے تم نے بھی وہی کام کرنا ہے جو پہلے والا آدمی کرتا تھا۔ شارق پریشان ہو گیا کہ وہ پہلے والا ادمی کیا کام کرتا تھا۔ تو انہوں نے بتایا کہ سفید پڑیا بیچنی ہے صبح مال اپ کو دے جایا کریں گے اور شام کو اپ نے ڈیرے پر پیسے جمع کروانے ہوں گے اپ کو اپ کا کمیشن ملتا رہے گا۔

 شارق غصے میں آگیا وہ سمجھ گیا کہ یہ چرس یا افیون کی بات کر رہے ہیں جو کہ ایک نشہ ہے۔ شارق نے سختی سے منع کر دیا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گا وہ آدمی خاموشی سے وا پس کار میں چلا گیا کار میں ایک پہلوان نما انسان بیٹھا ہوا تھا اس سے جا کے اس نے بات کی تو وہ خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلے گئے لیکن شارق سمجھ گیا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔

شیرا پہلوان اس علاقے کا نامی گرامی بدمعاش تھا۔ وہ شارق کی دکان پہ گیا اور اس کے آدمیوں نے جب شارق کو پیشکش کی کہ وہ اپنی دکان پر ان کا مال بیچے لیکن اس نے انکار کر دیا تو شیرا پہلوان اس وقت واپس اپنے ڈیرے پہ چلا گیا لیکن اس نے سوچ لیا کہ وہ شارق کو سبق ضرور چکھائے گا اور اپنی مرضی کا بندہ اس دکان پر بٹھائے گا۔ اگلے دن جب شارق اپنی دکان پر پہنچا اور کچھ کسٹمرز کو فروٹ دے رہا تھا کہ اچانک ایک پولیس کی گاڑی اس کی دکان کے سامنے رکی۔ انسپیکٹر تیزی کے ساتھ دکان میں داخل ہوا اور شارق کو گریبان سے پکڑ کر کاؤنٹر سے نیچے اتار لیا اور اپنے ماتحتوں کو کہا کہ وہ جا کر اس کی دکان کی تلاشی لیں۔ انسپیکٹر نے گھور کر شارق سے کہا کہ تم یہاں پر فروٹس کے ساتھ ساتھ چرس کا دھندا کرتے ہو اور ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تمہاری دکان میں چرس موجود ہے۔

 اسی دوران اس کے ماتحت چرس کا ایک بیگ نکال کے لے ائے جو شاید انہوں نے خود ہی رکھا تھا یا اپنے ساتھ لے کے آئے تھے۔ شارق حیران ہوا اور پریشانی کی حالت میں انسپیکٹر کو بتانے لگا کہ اس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا نہ ہی وہ اس طرح کی چرس یا افیون اپنی دکان میں بیچتا ہے وہ تو صرف فروٹ کی ایک دکان ہے اور اس کے کسٹمر اچھی طرح جانتے ہیں۔ لیکن انسپیکٹر اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا وہ گھسیٹتا ہوا شارق کو اپنے ساتھ لے گیا تھانے میں شارق کو بند کر دیا گیا اور شیرا پہلوان کے کہنے پر انسپیکٹر نے اس رات شارق کو بہت مارا یہاں تک کہ اس کا جسم لہو لہان ہو گیا
٭٭٭٭
شارق اپنے خوفناک ماضی کو یاد کرتے کرتے سو گیا تھا اب سہیل نے رات کے وقت آ کر اسے جگایا تو وہ پسینے میں شرابور ہو چکا تھا سہیل نے اسے کہا کہ رات کے نو بج چکے ہیں آپ اٹھ جائیں اور نیچے آ کر کھانا کھا لیں۔ شارق اٹھ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اس کا ماضی کتنا کرب ناک تھا اور کن کن لوگوں نے اس کی زندگی کو اجیرن بنا دیا تھا۔ شیرا پہلوان کے کہنے پہ جب انسپیکٹر نے اس کو پھنسا کر گرفتار کیا تو اس وقت مریم اس علاقے کے کونسلر کے پاس گئی اور اس کی منت سماجت کرنے لگی کونسلر ایک اچھا آدمی تھا وہ انسپکٹر کے پاس گیا اور اس کے کہنے پہ انسپیکٹر نے شارق کو چھوڑ دیا۔

 شارق زخموں سے چور تھا اور اس کے منہ سے بھی خون بہہ رہا تھا یہ کچھ ایسے حالات تھے جن میں شارق بری طرح پھنس چکا تھا وہ چرس کے دھندے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا ایک سادہ سی زندگی گزارنا چاہتا تھا لیکن یہ لوگ اسے اس فیلڈ میں پھنسانا چاہتے تھے۔ اگلے دن پھرشارق اپنی دکان پہ گیا اور اپنا روزمرہ کا کام کرنے لگا۔ لیکن پھر وہی دو لوگ آگئے اور اس سے کہا کہ ڈیرے پہ چلو شیرہ پہلوان تمہیں بلا رہا ہے ۔ اب شارق کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا وہ ان کے ساتھ وہاں پہ چلا گیا تھا وہاں پہ جا کے شارق کو معلوم ہوا کہ وہ اس دھندھے سے باہر نہیں نکل سکے گا اگر وہ ان کا کہنا نہیں مانے گا تو وہ اس کو تنگ کرتے رہیں گے۔ شارق نے سوچ لیا کہ وہ ان لوگوں کے اندر رہتے ہوئے ان کو ختم کرے گا اور اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو بھی تلاش کرے گا اس لیے اس نے ان کے ساتھ کام کرنے کی حامی بھر لی تھی۔

شارق کو ان کے سرغنہ ماجھے گجر سے ملوایا گیا ماجھے گجر نے اسے تلقین کی کہ ہمارے دھندے میں دھوکہ مت دینا اگر دھوکہ دو گے تو ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے اور پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرنا۔ شام کو جتنے بھی پیسے کماؤ ڈیرے پر جمع کروا دینا۔ شارق خاموشی سے واپس اپنی دکان پہ آگیا وہ سوچ رہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کیسے کام کرے گا۔ اس کا ارادہ معصوم لوگوں کی جان لینے کا نہیں تھا لیکن اس کے علاوہ شارق کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا شارق نے سوچ لیا کہ وہ ان کے دھندے کو ختم کرے گا اس لیے اس نے ایک جاننے والے سے مل کر اس علاقے کے ڈی ایس پی کے ساتھ رابطہ کیا اور اس ڈی ایس پی کو تمام معلومات فراہم کرنے لگا اور اس طرح ڈی ایس پی نے شارق کی بتائی ہوئی جگہ پر اس رات چھاپا مارا تھا۔ وہ ادھ جلی حویلی کے اندر سارے لوگ تہ خانے میں موجود تھے کیونکہ شارق کو تہ خانے کا پتہ نہیں تھا اس لیے وہ چھاپہ ناکام ہو گیا تھا اور وہاں سے شارق بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگا تھا۔

شارق اس وقت اپنے دوست سہیل کے ہوٹل کے اوپر والے خفیہ کمرے میں موجود تھا اور آنے والے دنوں کے بارے میں پلاننگ کر رہا تھا۔ شارق نے سوچا کہ سب سے پہلے وکیل سلمان کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہیے کہ وہ بتا سکتا ہے کہ اس رات اس کے والدین کو کس نے قتل کیا تھا۔ ہو سکتا ہے سلمان وکیل براہ راست اس کے ماں باپ کے قتل میں ملوث ہو۔ شارق نے اپنی پوری منصوبہ بندی کر لی تھی وہ نہ صرف اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو ڈھونڈنے میں لگا تھا بلکہ اس کا ٹکراؤ ماجھے گجر سے بھی ہو چکا تھا۔ ماجھا گجر بھی شارق کے خون کا پیاسا ہو چکا تھا کیونکہ شارق ماجھے گجر کا کروڑوں کا مال غائب کرچکا تھا ۔