بھیانک کھیل - تیسرا حصہ

Urdu Font Stories 4
 
برائی کے اس خطرناک راستے کا انتخاب شارق نے اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا۔ شیرا پہلوان اور پولیس نے شارق کو اس راستے پہ ڈال دیا تھا۔ شارق ایک اچھے انسان کی زندگی بسر کرنا چاہتا تھا لیکن حالات اور دشمنوں کی سازشوں نے اسے مجرم بننے پر مجبور کر دیا۔ اس دن بھی شارق صبح صبح اپنی فروٹس کی شاپ میں بیٹھا گاہک کو فروٹ تول کے دے رہا تھا۔ اس کے ساتھ  کام کرنے والا ایک لڑکا بھی تھا۔ اچانک کچھ لوگ گاڑی میں آئے اور شارق کی دکان میں توڑ پھوڑ کرنے لگے انہوں نے پھلوں کی ٹوکریاں اٹھا کر باہر پھینک دی اور ہاکی کےوار سے اشارے کو بھی زخمی کر دیا۔ وہاں پہ موجود دوسری دکانوں کے لوگوں نے بچ بچاؤ کرایا اور شارق کی جان بچ گئی اس طرح وہ لوگ توڑ پھوڑ کرنے کے بعد وہاں سے فرار ہو گئے۔
 
 شارق بہت پریشان تھا کہ آخر وہ کیا کرے؟ کچھ لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد وہ تھانے چلا گیا اور اس ساری توڑ پھوڑ اور نقصان کی رپورٹ تھانے میں لکھوا دی شرک نے واضح بتایا کہ اس توڑ پھوڑ کے پیچھے نام گرامی بدمعاش شرا پہلوان کا ہاتھ ہے اور وہی اس کو پریشان کر رہا ہے۔

دوسرے دن شام کے وقت ایک پولیس کی گاڑی شارق کی دکان کے سامنے رکی اور چھ سات پولیس والی شارق کی دکان میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے بھی وہی کیا۔ تلاشی کی نام پر  توڑ پھوڑ کی اور چرس بیچنے کے الزام میں شارق کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ شارق ان تمام حالات سے بہت پریشان تھا وہ ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا تھا وہ بے گناہ اور بے قصور انسان تھا۔ لیکن شیرا پہلوان اور پولیس نے مل کر اس کی زندگی برباد کر دی تھی۔ اس رات انہوں نے شارق پر بہت تشدد کیا اور شیرا پہلوان بھی وہاں موجود تھا۔ شیرا پہلوان نے اسے کہا یا تو وہ اس دکان  کوچھوڑ دے یا پھر چرس کے کاروبار میں اس کا ساتھ دے اور اپنا کمیشن وصول کرتا رہے نہیں تو اس کو سکون سے جینے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن شارک نے انکار کر دیا اسے موت قبول تھی وہ لوگوں میں زہر نہیں بانٹ سکتا تھا۔
 
 شیرا پہلوان کا غصہ  ساتوں آسمان پر پہنچ گیا۔ اس نے انسپیکٹر کو شارق کے حوالے سے ہدایات دیں اور وہاں سے چلا گیا۔ اگلے دن شارق کو عدالت میں پیش کیا گیا اور چرس بیچنے کے الزام میں دو ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل اشارہ کے لیے کوئی نئی جگہ نہیں تھی وہ تقریبا 10 سال پہلے بھی جیل میں گزار چکا تھا۔ جیل میں شارق کی ملاقات ایک ایسے انسان سے ہوئی جس نے اس کی زندگی بدل کے رکھ دی۔ ایک رات شارق اپنے حالات سے مجبور ہو کر افسودہ بیٹھا تھا کہ ایک انسان اس کے قریب آگیا۔ اس نے شارق کے بارے میں بہت ساری معلومات پہلے سے لے رکھی تھیں اس کا نام سلطان اکبر تھا اس نے شارق کے کندھے کو تھپتھپایا اور اس سے کہا: میں جانتا ہوں کہ تم جن حالات سے گزر رہے ہو اور جو لوگ تمہارے زندگی برباد کرنے پہ تلے ہوئے ہیں مجھے سب معلوم ہے لیکن تمہارے پاس اب کوئی راستہ نہیں ہے تمہیں ایک ایسے راستے پہ چلنا ہے جس پر چلتے ہوئے تم بادشاہ بن سکتے ہو اور ان لوگوں کو سبق سیکھا سکتے ہو۔ اگر تمہیں زمانے سے لڑنا ہے تو پھر وہ گرو جو زمانہ کہتا ہے اور ان کے درمیان رہتے ہوئے ان سے اپنا انتقام لو۔ شارق سمجھ گیا تھا کہ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے اس نے سلطان اکبر سے اپنے بارے میں کچھ نہ چھپایا اور تمام باتیں جو اس کے ساتھ بیت چکی تھی وہ کھول کر اس کے سامنے رکھ دیں۔
 
 سلطان اکبر نے اسے بتایا کہ وہ جیسے ہی دو ماہ کے بعد رہا ہوگا فورا میرے پاس چلا آئے۔ سلطان اکبر نے اسے اپنا ایڈریس دیا اور وہاں سے چلا گیا۔ سلطان اکبر اگلے دن رہا ہو کر باہر چلا گیا۔ وہ بھی ایک نامی گرامی چرس ڈیلر تھا دو ماہ کے بعد شارق جب جیل سے رہا ہوا تو وہ اپنے گھر جانے کی بجائے ایک چائے کے کھوکے پر بیٹھ گیا اس کا حلیہ بہت برا تھا وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا اس کی دکان اور گھر دونوں برباد ہو چکے تھے۔ شارق کے پاس اب ایک ہی راستہ تھا کہ وہ سلطان اکبر کے پاس جائے اور اس سے مدد لے۔ آخر وہ ایک تانگے میں بیٹھ کر سلطان اکبر کے بتائے ہوئے ایڈریس پر چلا گیا۔ راستے میں اتر کر تھوڑی دور پیدل چلا اور ایک پان سیگرٹ کی دکان سے اس نے سلطان اکبر کے بارے میں پوچھا۔ پان سیگرٹ کی دکان والے آدمی نے شارق کو پہلی دفعہ اس علاقے میں دیکھا تھا۔
 
 اس نے شارق سے کہا کہ اگر تمہیں مال چاہیے تو میں دے دیتا ہوں تمہیں سلطان اکبر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن شارق نے اسے بتایا کہ سلطان اکبر اس کا دوست ہے اور وہ اس سے ملنا چاہتا ہے تو اس دوکاندار نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں پر اس کا ڈیرا ہے وہاں چلے جاؤ۔ شارق چلتا ہوا ڈیرے کے دروازے کے قریب پہنچا کہ اچانک دروازے ان کی اڑ سے ایک نقاب پوش نکل کے سامنے آگیا۔ اس نے چادر کی بکل مار رکھی تھی اس نے اشارے کو روکا اور پوچھا تم کدھر جا رہے ہو؟ تمہیں کیا چاہیے؟ شارق نے اسے بتایا کہ وہ سلطان اکبر سے ملنا چاہتا ہے اور اس کا دوست ہے اور سلطان اکبر نے ہی اسے اس جگہ کا ایڈریس دیا ہے۔ شلطان اکبر کو بتاؤ شارق جیل سے رہا ہو کر آ گیا ہے۔ اس ادمی نے شارق کی لباس کو تھپتھپا کر چیک کیا۔ تلاشی لی کہ کہیں شارق کے پاس کوئی آتشی اسلحہ نہ ہو اس کے بعد اس کو لے کر ڈیرے کے اندر چلا گیا۔ ڈیرے کے اندر سلطان اکبر موجود تھا جس نے گرم جوشی کے ساتھ شارق کا استقبال کیا اور دونوں آئندہ آنے والے دنوں کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے لگے۔

چرس کی دنیا کے بے تاج بادشاہوں میں سلطان اکبر، شرا پہلوان اور ماجھا گجر شامل تھا۔ ماجھا گجر اور شیرا پہلوان دونوں بھائی تھے۔ ان کی سلطان اکبر سے کبھی بھی نہیں بنتی تھی لیکن مال کے لین دین میں وہ کھرے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے مال خرید تے، اسے اور اپنے اپنے علاقے میں کام کرتے تھے۔ سلطان اکبر نے شارق کو کچھ مال دے کر ماجھے گجر کے پاس بھیجا تھا۔ ماجھے گجر نے کروڑوں روپے کا مال سلطان اکبر سے خریدا تھا اور اپنے علاقے میں بیچنا چاہتا تھا۔ شارق ایک طرف تو ایک ڈی ایس پی کے ذریعے ان تمام لوگوں کو پکڑوانا چاہتا تھا اور دوسری طرف وہ خود ان کے گروہ میں شامل تھا۔ اس رات شارق نے یہی کیا تھا ڈی ایس پی کے ذریعے اس نے ہونے والے رابطے کا پہلے سے ہی سے ڈی ایس پی کو بتا دیا تھا کہ فلاں حویلی میں بہت سارا مال شارق ماجھے گجر کو دینے والا ہے جس کے پیسے وہ سلطان اکبر کو پہلے دے چکا تھا۔ شارق نے وہ دن سہیل کے ہوٹل میں اوپر والے کمرے میں گزارا۔ پھر رات کی تاریکی میں سلطان اکبر کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔

سلطان اکبر جانتا تھا کہ شارق جیسا بہادر نوجوان اسے کبھی نہیں ملے گا اس لیے اس نے شارق کو اپنے گروہ میں شامل کر لیا اور اسی یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کے ماں باپ کی قاتلوں سے انتقام لینے میں اس کی مدد کرے گا۔  شارق سب سے پہلے تو اس وکیل سلمان سے بدلہ لینا چاہتا تھا اس سے ہی پتہ چل سکتا تھا کہ اس کے والدین کو کس نے قتل کیا تھا۔ ایک رات سلطان اکبر کے لوگ وکیل سلمان کو اٹھا کر ڈیرے پر لے ائے۔ ڈیرے میں ایک تہ خانہ تھا جس کا پتہ کسی کو بھی نہیں تھا اس تہہ خانے میں کروڑوں کا مال اور روپے پیسے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ہزاروں جرس کے سفید پیکٹ دیکھ کر شارق حیران رہ گیا۔ وہ وکیل سلمان کو اس نے خانے میں لے گئے اور باندھ دیا۔
 
 وکیل سلمان شارق کو اپنے سامنے دیکھ کے خوف سے تھر تھر کانپنے لگا اس کے دل میں چور تھا آخر اس نے اپنی زبان کھول دی اور شارق کو وہ سب بتا دیا جو اس رات ہوا تھا۔ سلمان وکیل کے مطابق شارق کے ماں باپ کو قتل کرنے کے پیچھے ماجھے گجر اورشیرا پہلوان کا ہاتھ تھا۔ شارق کی طرح اس کے باپ نے بھی ماجھے گجر کا مال بیچنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے انہوں نے ایک رات شارق کے ماں باپ کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا اور قتل کی اس واردات میں وکیل سلمان بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔ شارق کا غصہ ساتوں آسمان پر پہنچ گیا۔ اس نے کہا کہ وہ سب سے پہلے ماجھے گجر اور شیرا پہلوان سے اپنا انتقام بھرپور ارادہ کر لیا۔  شارق نے سلطان اکبر سے کہا کہ وکیل سلمان کو بھوکا پیاسا اس تہ خانے میں رکھیں تب تک جب تک یہ مر نہ جائے۔

رات کے 11 بجے کا وقت تھا شارق سلطان اکبر کے کچھ لوگوں کے ساتھ شیرا پہلوان اور ماجھے گجر کے ڈیرے پر حملہ آور ہونے والا تھا۔ شارق کو اطلاع ملی تھی کہ ماجھے گجر اور شرا پہلوان کے ڈیرے پر بہت کم لوگ ہیں اور آسانی کے ساتھ ان کو شکار کیا جا سکتا ہے۔ رات 12 بجے کے قریب وہ اس ڈیرے کے قریب پہنچ چکے تھے ڈیرا تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور انہیں امید تھی کہ شیراہ پہلوان اور ماجھا گجر دونوں بھائی اس ڈیرے کے اندر موجود ہیں اور شراب و شباب کی محفل جمی ہوئی ہے۔ شارق پنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا ڈیرے کے دروازے کے قریب پہنچ گیا لیکن دروازے سے داخل ہونے کی بجائے انہوں نے پچھلی طرف سے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے کا منصوبہ بنا لیا۔ ڈیرے میں دس بارہ لوگ موجود تھے اور شارق کے ساتھ صرف چار لوگ تھے وہ لوگ ڈیرے میں داخل ہوئے اور اہستہ اہستہ اگے بڑھتے ہوئے ایک خاص کمرے کے سامنے جا کے رک گئے کمرے کے اندر چھ لوگ موجود تھے جن میں ماجھا گجر شیرا پہلوان اور چار مقامی لوگ شامل تھے جو چھٹے ہوئے بدمعاش لگ رہے تھے۔ باقی لوگ باہر پہرا دے رہے تھے شارق کے سر پر خون سوار تھا وہ اپنے ماں باپ کا بدلہ لینا چاہتا تھا اس لیے للکارتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور ان لوگوں پر حملہ کر دیا۔
 
 گولیوں کی آواز سے ڈیرا گونج اٹھا شارق کے ہاتھوں بہت سارے لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے لیکن افر تفری میں ماجھا گجر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا شیرا پہلوان مارا گیا اور چاروں مقامی لوگ بھی خون میں لت پت پڑے تھے۔ گولیوں کی آواز سے باہر موجود لوگ جو پہرا دے رہے تھے وہ بندوق تا نے کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے شارق اور اس کے ساتھیوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں شارک کے ساتھیوں نے شارق کا بھرپور ساتھ دیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور ایک ایک کر کے مارے گئے۔ شارک زخمی ہو چکا تھا اس کے پاؤں پر گولی لگی تھی لیکن اس نے اس ڈیرے پہ موجود باقی تمام افراد کو ختم کر دیا۔

ایک گھنٹہ سے زیادہ کی لڑائی میں اس ڈیرے کے اندرپندرہ لاشیں پڑی تھیں کہ اچانک پولیس کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا اور پولیس نے ڈیرے پر دھاوا بول دیا۔ شارق تیزی کے ساتھ پچھلی دیوار پھلانگ کر باہر گلی میں کود گیا لیکن پولیس نے اسے کودتے ہوئے دیکھ لیا اور اس کا پیچھا کرنے لگے۔ شارق تیزی کے ساتھ گلیوں میں دوڑتا جا رہا تھا لیکن زخموں کی وجہ سے اسے دوڑنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ پولیس اس کے پیچھے تھی اور وہ اگے اگے دوڑ رہا تھا شارق کوشش کر رہا تھا کہ وہ کسی طرح پولیس کو چکما دے دے اور ان سے دور نکل جائے لیکن وہ زیادہ دور نہیں جا سکتا تھا کیونکہ زخموں سے خون رسنے کی وجہ سے وہ کمزور ہو رہا تھا اور پولیس موت بن کر اس کے پیچھے تھی۔
 
 ایک ہی رات میں اتنے لوگوں کی موت کوئی عام بات نہ تھی۔ آخر شارق دیوار پھلانگ کر ایک گھر کے اندر داخل ہو گیا شارق کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا وہ زیادہ دور تک بھاگ نہیں سکتا تھا اس لیے اس نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کے کیا تھا دیوار پھلانگنے کے بعد جیسے ہی وہ نیچے گرا وہ درد سے کرانے لگا لیکن بغیر آواز پیدا کیے وہ رینگتا ہوا دروازے کے پاس پہنچا۔ دروازے سے اندر داخل ہونا خطرناک تھا، گھر کے افراد چیختے چلاتے تو باہر موت بن کر گھومتی پولیس شارق کو گولیوں سے چھلنی کر دیتی۔ شارق نے تھوڑی دیر انتظار کیا، باہر گلی میں دوڑتے قدموں کی آواز سے اس کا دل دھک سے رہ گیا، وہ اٹھا اور ایک کھلی کھڑکی سے اندر جھانکا۔ یہ گھر کا کچن تھا۔ وہ کچن میں داخل ہوا اور ایک رومال سے اپنے زخمی پاؤں کو باندھ لیا، گولی پنڈلی کو چھیدتی ہوئی گزر گئی تھی۔

شارق نے آہستہ سے کچن کا دروازہ کھولا اور ملحقہ کمرے میں داخل ہوا یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ اس کمرے میں ایک تن تنہا اکیلی لڑکی بستر پر سو رہی تھی شاید وہ گہری نیند میں تھی اور باہر بھاگتے دوڑتے قدموں کی آواز اور چلنے والی گولیوں کا اسے پتہ نہیں تھا۔ شارق خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ وہ اس لڑکی کے قریب چلا گیا اور اس کے سر پر پستول تان لیا۔
٭٭٭٭

نادیہ ایک غریب گھر کی لڑکی تھی لیکن تعلیم کے حصول کے لیے اس نے بہت محنت کی تھی۔ ماں باپ نے بھی اس کا شوق دیکھتے ہوئے اپنا پیٹ کاٹ کر اسے تعلیم دلوائی اور آخر کار اللہ تعالی نے ان کی سن لی اوراسے ایک کالج میں لیکچرار کی نوکری مل گئی۔ لیکن یہ نوکری دوسرے شہر میں تھی اسی لیے نادیہ کو ایک گھر کرائے پر لینا پڑا۔ یہ اچھا محلہ تھا اورمحلے کے لوگ بہت اچے اخلاق کے حامل تھے اس لیے نادیہ کو زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ بہت محنتی اور عقلمند لڑکی تھی۔ والدین جلد ہی اس کی شادی کرنا چاہتے تھے اس لیے ایک دور کے کزن کے ساتھ اس کی منگنی کر دی گئی تھی اور جلد ہی اس کی شادی ہونے والی تھی لیکن اس کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے اس کی زندگی کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اس رات نادیہ اپنے روز مرہ کے کاموں سے تھک ہار کر اپنے بستر پر سو چکی تھی کہ اچانک جب اس کی آنکھ کھلی تو ایک شخص اس پر پستول تانے کھڑا تھا نادیہ کی روح کانپ گئی کہ اچانک یہ مصیبت کہاں سے آٹپکی وہ ایک بہادر لڑکی تھی لیکن ایسے حالات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس کے سامنے جو انسان پستول تانے کھڑا تھا وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا جس کی شیو بڑی ہوئی تھی لیکن اس کے پاؤں سے خون رس رہا تھا

نادیہ نے جلدی سے اپنا دوپٹہ درست کیا۔ وہ اپنے سامنے اس بدمعاش کو دیکھ کر خوفزدہ تھی۔ شارق نے اسے خاموش رہنے کا کہا تھوڑی دیر ایسے ہی گزر گئی۔ آخر شارق اس کے قریب ہوا اور وہ ڈر کر تھوڑی پیچھے ہٹ گئی۔ شارق نے کہا میرا ارادہ تمہیں مارنے کا یا کچھ غلط ارادہ نہیں ہے۔ میرے پیچھے کچھ دشمن لگے ہوئے ہیں جن سے بچنے کے لیے میں نے تمہارے گھر میں پناہ لی ہے میں صبح ہونے تک یہاں رکوں گا اور اس کے بعد یہاں سے چلا جاؤں گا۔ اس دوران تم نے اگر کسی قسم کی کوئی آواز نکالی یا کسی کو مدد کے لیے بلایا تو میں بنا سوچے سمجھے تمہیں گولی مار دوں گا۔ شارق کے ارادے دیکھ کر لڑکی گھبرا گئی اور وہ خاموش ہو کر چاپائی پر ایک طرف سمٹ کر بیٹھ گئی۔ شارق چارپائی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب حالات کے ساتھ کیسے نپٹا جا سکتا ہے کیونکہ اس وقت پولیس اس کے پیچھے تھی اور ماجھا گجر بھی فرار ہو چکا تھا۔ شارق نے اس کے بھائی شیرا پہلوان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا تو وہ اس بات کو کیسے بھول سکتا تھا یقینا وہ لوٹ کر ضرور آتا اس طرح شارق کئی طرف سے بری طرح پھنس چکا تھا۔ ایک طرف پولیس اس کے پیچھے تھی جو اس رات ہونے والے قتل عام کا مجرم اسی کو سمجھ رہی تھی اور دوسری طرف ماجھا گجر اس کے خون کا پیاسا ہو گیا تھا.