بدقسمت بہو کا انجام

روزی نے جب تک ہوش نہیں سنبھالا تھا، اسے جمعرات کے دن چڑھاوے کے بتاشوں کا صبح سے انتظار رہتا تھا۔ پیر صاحب کے مزار پر جو لال پیلے گز گز بھر کے ٹکڑے، جو ان کے عقیدت مند بطور چادر چڑھا جاتے تھے ، ان کا گھونگھٹ لگا کے وہ اپنے خیال میں بالکل دلہن بن جاتی تھی۔ پھر ایک دن ایکا ایک اس کا ذہن جاگ اٹھا اور وہ بغاوت پر آمادہ ہو گئی۔ محلے کی ایک ہم عمر لڑکی روزی کی بہت پیاری سہیلی تھی۔ روزی کے گھر اکثر گھروں سے چنے اور دسویں بیسویں کا زردہ پلا کو آ جاتا تھا، جسے کھاتے وقت وہ اپنی سہیلی کو ضرور یاد رکھتی تھی۔ 
 
ایک دن جب شام ہونے کو آئی اور وہ سہیلی گلی کوچے میں ملی ، نہ تالاب کے کنارے نظر آئی تو روزی نے ماں کی نظر بچا کر ایک رکابی میں تھوڑا سازردہ نکالا اور کاغذ سے ڈھک کر اس کے گھر پہنچ گئی۔ وہ بیچاری صبح سے بخار میں پڑی تھی۔ روزی نے اس کے قریب جا کر رکابی سے کاغذ ہٹایا اور بڑے پیار سے کہا۔ ”دیکھ ! میں دو پہر سے تیرے لئے چاول رکھے ، تجھے ڈھونڈ رہی تھی۔“ اسی وقت اس لڑکی کی ماں باورچی خانے سے نکل کر آئی اور غصے سے پوچھا۔ روزی ! کیا ہے تیرے ہاتھ میں ..؟ کیا کھلا رہی ہے لائبہ کو … ؟ کچھ نہیں خالہ، تھوڑ ازردہ ہے ، لائبہ کو بہت پسند ہے۔روزی نے گھبرا کر کہا۔ کہاں سے آیا زردہ …؟ لائبہ کی ماں نے اور بھی بگڑ کر پوچھا۔ پ پتا نہیں، آبا کہیں سے لائے ہیں۔ “ روزی نے ہکلا کر کہا۔ دیکھ بے شرم ! میں پہلے ہی تجھ سے کہتی تھی کہ اس فقیر کی چھوکری کے ساتھ نہ کھیلا کر… شیخ ہو کر اب ہماری اوقات یہ رہ گئی کہ مردوں کے نام کا کھانا کھائیں ؟ اس مرتبہ لائبہ کی ماں اپنی بیٹی سے مخاطب ہوئی۔ روزی نے حیرت اور کچھ خفگی سے آنکھیں پھاڑیں۔ خالہ ہم کیوں فقیر ہوتے … ! ہم کیا سڑک پر بھیک مانگتے ہیں ؟“ تم سے تو سڑک پر بھیک مانگنے والے اچھے ہوتے ہیں۔ تمہاری تو ذات ہی فقیر ہے ، قبر کھودنے اور مردوں کے نہلانے والوں کے ہاتھ کا تو چھوا بھی کھانا منع ہے۔ لائبہ کی ماں نے بڑی حقارت سے کہا اور روزی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

اس کی دل کی گہرائیوں سے ایک چیخ اٹھی، جو حلق تک پہنچ کر گھٹ گئی۔ شدید ذلت کے احساس نے اس کے ننھے سے وجود کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ زردہ کی پلیٹ اٹھا کر تیزی سے اپنے گھر کی طرف بھاگی۔ اسے خوف تھا، جیسے اس کا کوئی راز کھل گیا ہے اور راستے میں جو بھی اسے دیکھے گا، زور زور سے فقیر نی، فقیر نی“ کہہ کر چلائے گا۔ لائبہ کی ماں جھوٹی ہے۔ میں ماں سے جا کر اس کی شکایت کروں گی۔“ ماں سے شکایت کا نتیجہ اور بھی برا نکلا۔ اس کی ماں نے نہ صرف اسے گالیاں دیں بلکہ دو ہاتھ بھی لگائے کہ تو اس شیخانی کے گھر جا کر کیوں مرتی ہے۔… ! جب دیکھو گھر سے کھانا چرا کے ادھر ادھر بانٹتی پھرتی ہے۔ روزی اس وقت تو چپ ہو گئی مگر اس کے دل کی خلش بڑھتی گئی۔ لائبہ کی ماں نے اپنی بیٹی کو مولوی صاحب کے پاس پڑھنے بٹھا دیا، یوں اس کا روزی کے ساتھ گھومنا پھر نا بند ہو گیا۔ روزی نے اس بات کو بھی اپنی ذلت سمجھا اور اسے اپنے ماں باپ کے پیشے اور ان کے وجود سے گھن آنے لگی۔ ایک مرتبہ جب اس کی ماں کئی گھنٹے بعد گائوں کے ایک گھر سے لوٹی تو اپنی چادر میں لیٹے ہوئے کپڑوں میں سے ایک پھول دار ریشمی قمیض نکال کر اس کو دکھائی۔ یہ قمیض گریبان سے دامن تک چاک تھی۔ 
 
کیسی اچھی قمیض ہے… میں بانو کی مشین پر سلوادوں گی، تم اسے عید پر پہن لینا۔ روزی کی ماں نے خوش ہو کر کہا۔ روزی کو ایسا لگا جیسے اس کے تلوؤں میں آگ لگی ہے اور شعلے بھڑک کر اس کے سراپا کو جھلسا رہے ہیں۔ میں پہنوں گی اس قمیض کو مردے کے اوپر سے اتری ہوئی قمیض کو تو خود کیوں نہیں پہنتی ..؟ تیرا بس چلے تو مردے کا کفن بھی اتار کے مجھے پہنا دے“ اس نے لیک کر ماں کے ہاتھ سے قمیض چھینی اور تار تار کر دی۔ ماں نے چولہے سے آدھ جلی لکڑی اُٹھائی اور اسے دھمکایا تو روزی نے جو بھی منہ میں آیا، بکنا شروع کر دیا۔ یوں بھی وہ گائوں کی عام لڑکیوں کی طرح تو تڑاخ کرتی تھی مگر آج وہ اس طرح مقابلے پر آئی کہ ماں کو پلو پھیلا کر اسے کوسنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ وہ جوں جوں بڑی ہوتی گئی، ماں باپ سے جھگڑا اور بہن بھائی کو پیٹنے کا سلسلہ بھی بڑھتا گیا۔ گھر کا ہر فرد اس سے نالاں ہو گیا۔ ایک روز اس کی ماں نے اپنی پڑوسن سے کہا۔ ” اب تم اب تم ہی بتائو آپا ! یہ کمبخت کہتی ہے کہ ہم اپنا کام چھوڑ دیں، تو پھر ہم کیا کریں … ! فاقے کریں ؟ اور جب باپ دادا کے زمانے سے ہم گائوں کے مردے ٹھکانے لگاتے آئے ہیں تو اب کام چھوڑ کر کیا ہماری ذات بدل جائے گی ؟ یہ رہے گی فقیرنی کی فقیر نی… کوئی سید زادی تو نہیں بن جائے گی۔“ روزی کی صورت شکل بری نہیں تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس میں نکھار آ رہا تھا۔ آس پاس کے شہر اور گائوں کے برادری والے پیغامات بھی بھیجنے لگے تھے مگر وہ حیادار لڑکیوں کی طرح خاموش رہنے والی کہاں تھی .. وہ فقیروں میں بیاہ کر جانے پر کسی طرح آمادہ نہیں تھی۔ اس کے ماں باپ پر ایک ایک پل بھاری ہو رہا تھا۔ ماں بیٹی میں اچھی خاصی دشمنی شروع ہو گئی تھی۔

اسی دوران روزی کی خالہ دوسرے شہر سے آئی تو ماں نے اسے اپنی پریشانی کا حال سنایا۔ پوری داستان سن کر اس نے کہا۔ مت فکر کر، میں خود تجھ سے اس بارے میں بات کرنے والی تھی۔ تجھے تو پتا ہے ، میرے سر کے بڑے بھائی بیسیوں سال پہلے اپنا شہر چھوڑ کر گوجرانوالہ جابسے تھے۔ وہاں کسی کو بھی پتا نہیں کہ ان کیا ذات برادری ہے۔ لوگ انہیں مرزا جی کہتے ہیں، مگر شادی بیاہ تو آخر اپنی ہی برادری میں ہو گا۔ آج کل وہ اپنے پوتے کے لئے رشتہ تلاش کر رہے ہیں۔ لڑکا چوڑیوں کی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ روزی کے لئے یہ رشتہ باکل ٹھیک رہے گا۔ “ جب خالہ نے روزی کو یقین دلایا کہ گوجرانوالہ میں کسی کو کان و کان خبر نہ ہو گی کہ اس کے ماں باپ اپنے گائوں میں کیا کام کرتے ہیں تو اس نے شادی کی ہامی بھر لی اور پھر رخصت ہو کر گوجرانوالہ چلی گئی۔ یوں تو سچ تھا کہ روزی کے سسرال والے شیشے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور پیشہ لوگ تھے اور کوئی اس کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا مگر میکے میں ماں سے لڑ لڑ کر روزی کی زبان کھل چکی تھی اور صبر و برداشت کا مادہ اس کے مزاج میں نہیں تھا، اس لئے جلد ہی ساس سے تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ شادی کے سال بھر بعد اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور دوسرے سال بیٹا ہوا۔ ساس کو شکایت تھی کہ روزی محض اپنے بچوں میں لگی رہتی ہے ، گھر کے کاموں میں ہاتھ نہیں بٹاتی۔ روزی کے پاس ان الزامات کا ایک ہی جواب تھا کہ بڑھیا مجھ سے جلتی ہے۔وقت گزرتا گیا۔ اس دوران وہ کئی بار اپے میکے آئی مگر یہاں وہ مرزا جی کی بہو کے نام سے نہیں پکاری جاتی تھی۔ سب یہی کہتے تھے کہ شادو فقیر کی لونڈی سسرال سے آئی ہے۔
 روزی کو اب بھی ان الفاظ سے پھریری آتی، اس لئے وہ دس پندرہ دن سے زیادہ نہ رکتی تھی۔ اس کے دادا سسر تو اس کی شادی کے چند ماہ بعد ہی گزر گئے تھے مگر جب بس کے ایک حادثے میں اس کے سسر کا بھی انتقال ہو گیا تو دفعتاً اس کی ساس نے طے کیا کہ روزی منحوس ہے ، وہ سب کو کھا رہی ہے۔ اب بڑھیا کا بیشتر وقت اس کو کوسنے دینے اور اپنے خاوند کی یاد میں روتے گزرتا تھا اور روزی گلا پھاڑ پھاڑ کر پڑوسیوں کو سناتی کہ ساس میری چوڑیوں کو دیکھ دیکھ کر جلتی ہے۔ اس کا بس چلے تو میں بھی اسی کی طرح ہو جائوں۔ روزی کا خاوند منظور طبیعتاً خاموش مزاج اور صلح پسند تھا، پھر اسے بچوں سے بھی محبت تھی۔ بڑا لڑکا تو اس کے ساتھ فیکٹری بھی چلا جاتا تھا۔ بیٹی بھی اس قابل ہو گئی تھی کہ جب وہ گھر آئے تو روٹی نکال کر اس کے سامنے رکھ دے۔ اگر چہ چھوٹا بیٹا چھ سال کا ہو گیا تھا مگر ماں کے لاڈ پیار میں کچھ بگڑ گیا تھا۔ وہ صبح سے شام گلی کوچوں میں کھیلتا، گالیاں بکتا اور طرہ یہ کہ سب سے چھوٹی اولاد ایک دائم المریض بیٹی تھی، جو سال بھر کی ہونے کو آئی مگر ہر وقت پلنگ پر پڑی روتی رہتی تھی۔ روزی کے خاوند کے لئے گھر کا ماحول بڑا تکلیف دہ ہو رہا تھا۔ اس نے جب سے کمانا شروع کیا، اپنے باپ کی طرح سارے پیسے ماں کے ہاتھ میں دیتا تھا مگر سسر کی موت کے بعد روزی نے قیامت ڈھادی کہ بڑھیا کو کیا حق ہے اس پیسے کو ہاتھ لگانے کا۔

ماں بیوی کی اس جنگ میں منظور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ایک دن اس نے لاتوں اور گھونسوں سے روزی کی اچھی طرح مرمت کر دی۔ روزی کے لئے یہ تجربہ بالکل نیا تھا۔ منظور برابھلا تو کہتا تھا، مگر اس طرح مارتا نہیں تھا۔ پہلے تو روزی نے جی بھر کر ساس کو گالیاں دیں اور پھر میاں کو گھر چھوڑنے کی دھمکی دی۔ جب اس کی دھمکی کو منظور نے کوئی اہمیت نہ دی تو جوش میں روزی نے چاروں بچوں کو ساتھ لیا اور بس میں بیٹھ کر لاہور پہنچ گئی۔ وہ یہ بھول گئی کہ ”مرزا جی کی بہو ہفتہ نہ عشرہ کو ماں باپ سے ملنے نہ نہیں آئی، بلکہ شاد و فقیر کی بیٹی سسرال چھوڑ میکے آ پڑی ہے۔ ماں کا حال دیکھا کہ باپ بیمار رہنے لگا ہے ، اب کیسے اور پھاوڑے چلانا اس کے بس کا کام نہیں رہا، جو ان بھائی گھر سے بھاگ کر کراچی چلا گیا ہے اور وہاں ٹیلر ماسٹر بن گیا، کبھی گھر آتا ہے اور نہ مالی امداد کرتا ہے۔ اب تو پیر صاحب کے مزار پر منت مراد کا جو تھوڑا بہت مل جائے ، اس میں گزارا ہو جاتا تھا۔ 
 
ماں نے دو چار دن روزی کا غم سننے سے زیادہ اپنا دکھڑا رونے میں گزارے، پھر یہ بات واضح کر دی کہ اس طرح چار بچے لے کر وہ میکے میں روٹیاں نہیں توڑ سکتی۔ روزی کو احساس ہوا کہ خاوند کا گھر چھوڑ کر اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ کیا وہ ذلت اٹھا کر واپس چلی جائے۔ ابھی وہ فیصلہ بھی نہ کر پائی تھی کہ ایک دن اور قیامت ٹوٹی۔ اس کی بڑی بیٹی بلو، چھوٹی بچی کو کندھے سے لگائے دوڑتی چلاتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی۔ اماں …. اماں ابا آئے تھے۔“ کہاں ہیں وہ …؟ واپس چلے گئے اور منور کو بھی ساتھ لے گئے۔ ہم سب جہاں بس رکتی ہے ، وہاں کھیل رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ پیڑ کے نیچے ابا کھڑے ہیں۔ انہوں نے منور کو بلایا اور کہنے لگے کہ میں تجھے لینے آیا ہوں۔ میرے ساتھ گھر چل۔ میں نے کہا کہ میں بھی گھر جائوں گی تو ابا کہنے لگے کہ میں تیری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا اور اپنی ماں سے کہہ دینا کہ میرے لئے وہ مر چکی ہے۔ اگر اس نے بھی قدم بھی رکھا تو گولی سے مار دوں گا۔ اتنے میں بس آ گئی اور ابا منور کا ہاتھ پکڑ کر بس میں چڑھ گئے۔ 
روزی نے کھڑے کھڑے پچھاڑ کھائی اور رونے لگی۔ تب اس کی ماں نے کہا۔ لے ، اب میری چھاتی پر مونگ دھل۔ تجھ جیسی کا دنیا میں گزارا نہیں ہے۔ ہم فقیروں میں تیرا کیسے گزر ہو گا ! تو تو مرزا جی کے محل سے بھی خالی ہاتھ نکل آئی۔ اب کما اور کھلا اپنے پلوں کو… روزی کی زندگی کا یہ موڑ بڑا کرب ناک تھا۔ اس نے میکے یا سُسرال میں کبھی مزدوری کی تھی اور نہ اس کا ڈھنگ آتا تھا، مگر کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اب گائوں کی عورتوں کے ساتھ وہ محنت مزدوری کے لئے جانے لگی۔ کبھی آلو کی کاشت کا کام ہے تو کہیں دھان کا ۔ وہ شام ڈھلے تک کھیت کھلیانوں میں کام کرتی اور جب گھر لوٹتی تو گود کی سوکھی ہوئی بچی کو روتا اور ماں کو چیختا ہوا پاتی کہ بلو ڈھینگ کی ڈھینگ ہو گئی ہے مگر اتنی تمیز نہیں کہ بہن کو سنبھال لے۔ یہ غلاظت میں لتھڑی ہوئی، میرے کانوں کے پردے پھاڑتی ہے۔ بہتر ہے مر جائے تو پنڈ چھوٹے۔ روزی کے بازو دن بھر کی مشقت سے پھوڑے کی طرح دکھتے اور ٹانگیں شل ہو جاتیں۔ اسے یہ بھی دھیان نہیں رہتا کہ بلو سے پوچھے ، صبح جانے سے پہلے جو پچاس روپے دُودھ لانے کو دے گئی تھی ، وہ دُودھ بچی کے حلق سے اترا بھی یا نہیں۔ وہ مونجھ کی ٹوٹی چار پائی پر لیٹتی تو منور کا چہرہ کچھ دیر کو اس کے ذہن پر چھا جاتا۔ پتا نہیں وہ کیسا ہو گا…!

کبھی اپنی ماں کو بھی یاد کرتا ہو گا یا اپنے بابا اور دادی کے ساتھ خوش ہو گا، لیکن بچھڑے ہوئے بیٹے کی یاد بھی اس کے ذہن کو دیر تک بیدار نہ رکھ پاتی اور بے ہوشی جیسی نیند اس کے حواس پر چھا جاتی۔ کل جب صبح اس کی آنکھ کھلی تو برابر میں پڑی بچی اس کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ روزی کا دل تڑپ گیا۔ اس نے سوچا کہ یہ کمبخت تو ہڈیوں کا ڈھانچا رہ گئی ہے۔ آج شام کو مزدوری ملے گی تو اسے حکیم کو دکھا کر دوا لائوں گی۔ وہ کئی دن سے زمیندار کے کھلیان میں چنے برسا رہی تھیں۔ آج کام ختم کر کے شام کو مزدوری ملنا تھی۔ اُس نے کندھا ہلا کر بلو کو جگایا۔ اٹھ جا ! دن چڑھ آیا ہے۔ آج بھولے سے پچاس روپے کا دودھ لے آنا۔ شام کو آکر پیسے دے دوں گی، اس وقت نہیں ہیں۔ تقریبا گیارہ بجے بلو کھلیان پہنچی۔ ”اماں ! اماں … منی مرگئی۔ روزی نے چنوں سے بھرا ہوا چھبڑا سر سے اتار کر پیچھے رکھ دیا۔ کیا بکتی ہے۔“ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں سمجھی تھی کہ سورہی ہے مگر نانی کہہ رہی ہے کہ مرگئی ۔ روزی خاموش کھڑی ٹکٹکی باندھے خلا میں دیکھ رہی تھی۔ بلو نے اسے جھنجھوڑا۔ چل نا اماں ، نانی بلا رہی ہے۔“ روزی چونکی۔ 
کیا کروں وہاں جائے میرے پاس تو کفن کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ بچی کی موت نے ایک طرح گھر کے ہر فرد کا بوجھ ہلکا کر دیا مگر روزی کے دل میں غصے کا طوفان ابل پڑا۔ اسے منظور پر غصہ تھا، جس نے اس بیمار بچی پر اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا تھا۔ اپنی ماں پہ غصہ تھا جو دن رات بچی کو گالی کو سنے دیتی تھی اور اپنے اوپر تو انتہائی تھا کہ کام سے لوٹ کر کبھی اس بد نصیب بچی کو گود میں لے کر پیار کرنے کی سکت بھی نہ پاتی تھی۔ جس دن روزی کو مز دوری نہیں ملتی تھی ، اس دن وہ دن بھر بلوا اور انوار کو مارتی ، اپنی ماں سے لڑتی اور مری ہوئی بچی اور بچھڑے ہوئے منور کو یاد کر کے زور زور سے روتی محلے اور پڑوس والے بھی اس ہنگامے سے نالاں ہو گئے تھے۔ منور کو اس کا باپ لے گیا، چھوٹی بچی کو اللہ پاک نے اس دُکھ سے چھٹکارا دیا، بلو کو بھی دن بھر بیمار بہن کو کندھے پر لادنے سے نجات مل گئی اور انوار نے سارے گائوں میں آوارہ گردی، پتنگ اُڑانے اور گولیاں کھیلنے میں وقت گزارنا شروع کر دیا۔ کئی مرتبہ شکایت بھی آئی کہ انوار نے ٹھیلے والوں سے پھل اچک لئے ہیں، حلوائی کی دُکان سے مٹھائی چراتا بھی پکڑا گیا۔ ہر شکایت پر روزی آسمان کی طرف منہ اُٹھا، پلو پھیلا کر کہتی۔ تجھے ڈھائی گھڑی کا ہیضہ آئے، تو مجھے چین سے مر نے بھی نہیں دے گا۔ روزی کی ماں جہاں جاتی اس کا رونا لے بیٹھتی۔ ہمارے تو نصیب پھوٹ گئے ہیں۔ اپنے کھانے کا ٹھکانہ نہیں ، اب اس مسٹنڈی کو کہاں سے بھریں اور اس کے لونڈے نے تو ناک ہی کٹوادی ہے۔ اب اس بڑھاپے میں چوری کا داغ بھی لگ گیا۔ “ نظام الدین کی لڑکی حامدہ اپنے بھتیجے کے عقیقے میں آئی ہوئی تھی۔ اس نے کہا۔ ” اس کا دوسرا بیاہ کیوں نہیں کر دیتیں….؟

ابھی تو جوان ہے۔ کون کرے گا بیاہ اس سے …؟ روزی کی ماں نے چڑ کر کہا۔ ہائوسنگ کالونی میں جہاں ہمارا گھر ہے ، وہیں کونے پر ایک پٹواری ہے۔ رہنے والا تو کسی گائوں کا ہے مگر بہت دن سے ہائوسنگ کالونی میں دُکان چلاتا ہے۔ خوب کمائی ہے۔ وہ خود کسی بیوہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے کہ روٹی پکا دے، پھر ساس نند کا بھی جھگڑا نہیں اکیلا ہی رہتا ہے۔ کون سی برادری سے ہے ؟“ اب برادری کنبے کو چھوڑو۔ شہروں میں کوئی نہیں پوچھتا. پہلی بیوی چھوڑ گئی ہے ، شاید اولاد نہیں تھی۔ میں نے زیادہ تو سنا نہیں مگر آدمی اچھا ہے۔ اس کا ٹھکانہ ہو جائے گا تو پھر اللہ کا واسطہ ! تم بات چلائو اور روزی سے بھی کہہ دو کہ ہمیں بخش دے۔“ روزی کے سامنے جب حامدہ نے یہ بات چھیڑی تو اس نے رو کر کہا۔ ” تم مجھے یہاں سے لے جا کر جھونک دو تو میں اُف نہ کروں گی، مگر اب یہاں رہنا، دوزخ سے بھی بُرا ہے۔“ پورا مہینہ بھی نہ گزرا ہو گا، جو روزی نے دوبارہ سُرخ گولڈ اور کرن لگا ہوا جوڑا پہنا اور ہاتھوں میں ہری چوڑیاں پہن کر اپنے نئے خاوند ایوب کے ساتھ بس میں سوار ہو گئی۔ بلو اور انوار بھی اس کے ساتھ چلے گئے۔ 
 
ایوب پٹواری، برا آدمی نہ تھا۔ روزی کے ساتھ محبت اور فراخ دلی سے پیش آتا مگر بلو اور انوار کو اپنی اولاد ماننے کو کسی طرح آمادہ نہ تھا۔ بلو کو خود بھی ایوب سے چڑ ہو گئی۔ اسے اپنا باپ منظور یاد آتا تھا، جو کبھی کبھار فیکٹری سے لوٹتے وقت مٹھائی یا پھل لے کر گھر آتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ منور کو زیادہ حصہ ملتا تھا مگر یہ بھی نہ تھا کہ بیوی کے ساتھ الگ بیٹھ کر کھا پی لے اور بلو محض ، خالی چھلکے اٹھانے کو رہ جائے۔ یہ بات روزی کو بھی اچھی نہ لگتی تھی مگر اب وہ کسی قیمت پر بھی خاوند سے جھگڑا کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ تپتی دوپہر اور کڑاکے کی صبح ، مزدوری کے تصور سے اس کی جان جاتی تھی – ایوب کسی گائوں کا رہنے والا تھا۔ مہینہ میں ایک بار دو چار دن کو گھر جاتا تھا، مگر کبھی اس نے روزی کو ساتھ لے جانے کی خواہش کی اور نہ روزی کو کسی گائوں میں قدم رکھنے کی حسرت تھی۔ آرام سے دو وقت کی روٹی نصیب ہو جاتی تھی۔ پورا سال بھی نہ گزرا ہو گا کہ وہ امید سے ہو گئی۔ ایوب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ بیوی کی خاطر مدارات بڑھ گئی۔ 
کھٹی میٹھی چیزوں کے علاوہ الائچی پڑے ہوئے پان بھی دُکان سے لانے لگا۔ بلو کو سوتیلا باپ تو برالگتا ہی تھا ، اب ماں سے بھی خار کھانے لگی اور جس طرح ماں کو دادی نانی کے ساتھ گالی گلوچ کرتے سنا تھا، خود بھی وہی عمل دہرانے لگی۔ روزی یوں تو ہر اعتبار سے خوش تھی، مگر بلو کی جلی کٹی باتیں اور انوار کی غنڈہ گردی نے اس کا ناطقہ بند کر دیا تھا۔ ایوب سے کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی اور بچوں کو مارتی تو وہ چیخ چلا کر سارا محلہ سر پر اٹھا لیتے۔ بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو ایوب اس کو اسپتال لے گیا۔ ایوب کی ایک رشتہ کی چچی ہائوسنگ کالونی میں رہتی تھی ، اسی نے روزی کو دلہن بنا کر گھر اُتارا تھا اور وہی زچہ بچہ کی دیکھ بھال کو اسپتال ساتھ گئی۔ روزی کا یہ پانچواں بچہ تھا مگر اس کی پیدائش ہر بچہ سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ تین دن تک اذیت میں مبتلا رہنے کے بعد اس نے ایوب کے بیٹے کو جنم دیا۔ ایوب کے پاس ساری دُنیا کی دولت آجاتی تو اس وقت سب لٹا دیتا۔ روزی کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ کہیں کی ملکہ ہے اور ایوب اس کا زر خرید غلام ۔

اسپتال سے گھر لوٹتے ہی ایوب نے کہہ سُن کر چچی کو روک لیا کہ تھوڑے دن ہنڈیا روٹی کر دیں۔ روزی نے ٹھنڈے گرم پانی میں ہاتھ ڈالا تو کہیں بچے کو زکام نہ ہو جائے۔ روزی نے پہلے اتنا اصلی گھی اور میوے نہیں کھائے اور نہ کبھی ایسا بالائی پڑا دودھ پیا تھا، جو اس مرتبہ نصیب ہوا۔ بچہ تین چار مہینہ کا ہوا تو پھول کر گیند ہو گیا اور روزی پر بھی وزن چڑھ گیا۔ وہ بے انتہا خوش تھی۔ بچہ بہت خوبصورت تھا اور اس کو دیکھتے ہی کھل جاتا تھا۔ وہ گھنٹوں اسے گود میں لئے تکتی رہتی تھی۔ جب سے وہ ایوب کے ساتھ ہائوسنگ کالونی آئی تھی ، لوٹ کر ماں باپ کی دہلیز پر نہیں گئی تھی اور نہ انہوں نے پلٹ کر اس کی خبر لی تھی۔ ایک دن اطلاع پہنچی کہ اس کے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ جلدی سے سامان باندھوں دو پہر کی بس سے چلتے ہیں۔ ایوب نے کہا۔ روزی جھجکی۔ اب جا کر کیا کروں گی … ! بچہ بہت چھوٹا ہے۔ بچے کا اللہ مالک ہے۔ دنیا کیا کہے گی کہ باپ کے مرنے میں بھی نہیں آئی … تم ساتھ چلو گے ؟ میں وہاں زیادہ نہیں رکوں گی … ہاں، ہاں… میں بھی چلوں گا۔ وہ آخر میرے سسر تھے۔ روزی نے جلدی جلدی سامان باندھا اور بچوں کو لے کر ایوب کے ساتھ چل دی۔ مرنے والے باپ کا چہرہ یاد آیا تو آنسو بہنے لگے۔ ایوب نے کہا۔ لائو ، بچہ میری گود میں دے دو۔ تم سامان لے کر بلو اور انوار کے ساتھ بس میں بیٹھو، میں ٹکٹ خریدتا ہوں۔ روزی نے بلو اور انوار کے ہاتھ میں پوٹلی اور بکس پکڑایا اور خود دیگر سامان لے کر آگے بڑھی۔ سڑک پر اس کے میکے کا ایک نوجوان اسے پہچان کر اس کی طرف بڑھ آیا۔ ارے روزی آیا تم اب جارہی ہو؟ شاد چچا کا گور و کفن تو کل شام ہو گیا۔ تمہارا بھائی تو اب تک نہیں آیا۔ چلو جلدی کرو، بس سیٹی دے رہی ہے۔ مسافروں سے کھچا میچ بھری بس میں وہ بمشکل چڑھ پائی۔ رحمت بھائی ! ذراد دیکھنا، میرے میاں بیٹھے ہیں ؟ بچہ بھی انہی کے پاس ہے۔ 

بس چل دی تھی۔ تمہارے میاں … ! روزی آیا، میں تو انہیں پہچانتا نہیں۔ ارے بھیا ! ابھی تو میرے ساتھ ہائوسنگ کالونی سے آئے ہیں۔ تمہارے سامنے ہی تو ہم بس سے اترے ہیں۔ روزی آپا کیا وہ چھوٹا بچہ کندھے سے لگائے بس سے اترا تھا ؟ کیا وہ تمہارا میاں تھا۔ مگر وہ تو فوراً ہی ہائوسنگ کالونی جانے والی دوسری بس میں چڑھ گیا تھا۔ کہاں ہے وہ بس … وہ بس تو فوراہی چل دی تھی، جب آپ اس بس میں بیٹھ گئی تھیں۔ روزی نے کھڑے کھڑے اپنا آپ پیٹ لیا۔ یہ کیا ہو گیا اللہ ! یہ کیسے ہو گیا ؟ جب وہ گھر میں داخل ہوئی اور بلک بلک کر روتے ہوئے ماں سے لیٹی تو اس کے ذہن میں مردہ باپ نہیں اپنے شیر خوار بچے کا خیال تھا۔ وہ رات اور پھر اس کے بعد کتنی ہی راتیں ، انگاروں پر گزریں۔ صبح کو وہ جنونی کیفیت میں ماں اور بچوں کو بتائے بغیر بس اڈے پر پہنچ گئی اور ہائوسنگ کالونی چل دی۔ وہ اپنی مرضی سے تو باپ کے مرنے پر نہیں آئی تھی، ایوب نے اصرار کیا تھا اور وہ تو اس سے محبت کرتا تھا۔ کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہیں تھا، پھر اس نے ایسا کیوں کیا …؟کالونی پہنچی تو دکان بند تھی۔ گھر کے دروازے پر اسی طرح تالا لگا ہوا تھا، جیسے وہ کل چھوڑ کر گئی تھی۔ ایوب کہاں گیا ؟ بچے کو کہاں لے گیا … ؟ اب کہاں تلاش کروں ؟ اسے پھر ایوب کی چچی کا خیال آیا۔ وہ رکشہ لے کر وہاں گئی۔ ارے تو واپس آگئی ؟ چچی نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ چی ! پتا نہیں وہ میرا بچہ لے کر کہاں چلے گئے۔ گھر پر تو تالا پڑا ہوا ہے۔“ روزی نے رو کر کہا۔

گھر پر بچہ کیا خود پالتا گائوں لے گیا ہو گا۔ انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا۔ تم مجھے گائوں کا پتا بتائو ، میں وہیں چلی جائوں گی۔“ گانوں کیا کرنے جائے گی ؟ سوکن کی جوتیاں کھانے … سوکن …؟ مگر وہ تو اسے برسوں ہوئے چھوڑ چکے ہیں۔ ایوب کیا پاگل ہے جو اپنی بیاہتا کو چھوڑ دے گا … ! وہ اس کی خالہ کی بیٹی ہے۔ “ روزی دم بخود رہ گئی۔ مگر وہ بچہ تو میرا ہے…! تو کیا ایوب کا نہیں ! اس کی بیوی میں کیا کمی ہے ، بس ایک اولاد کی حسرت تھی۔ آخر زمین، جائیداد کا وارث بھی اللہ چاہیے ہوتا ہے ، اللہ نے وہ بھی دے دیا۔
 
 مگر ایوب میرے بچے کو نہیں چھین سکتا۔ میں مہر کادعویٰ کروں گی۔ پورے تین ہزار کا مہر بندھا تھا۔ ایوب نے ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ کیا تو نے اپنے پہلے شوہر سے طلاق لی تھی، جو ایوب سے نکاح ہوتا …؟ تو ایوب کی بیوی ہی نہیں تو پھر مہر کا دعویٰ کسی کرے گی ؟ بھولی عورت ! شکر کر تیرے اور تیرے بچوں کے دو سال چین سے گزر گئے۔ کیسی فاقہ ماری آئی تھی اور اب کیسی سانڈھ ہو رہی ہے۔ جا، ٹائم سے اپنے گھر ، اب اِدھر کا رخ نہ کرنا۔ چچی نے ہنس کر بڑے طنز سے کہا۔ اس نے چچی کے پائوں پکڑ لئے مگر اس نے گائوں کا پتا نہ بتایا۔ جب روزی میکے واپسی پلٹی تو اسے پتا چلا کہ اپنی ہی لاش اپنے بے جان کندھوں پر اٹھانا کیسا اذیت ناک ہوتا ہے۔ لاہور آکر اس نے زمیندار کے گھرانے میں کھانا پکانے کی نوکری کر لی اور بلو کو بھی ساتھ لگا لیا۔ 
 انوار حسب معمول گلیوں میں آوارہ پھرتا رہتا۔ روزی جب تنہا ہوئی تو اپنے دونوں گم شدہ بیٹوں کو یاد کر کے روتی رہتی۔ وقت گزرتا گیا اور بلو جوان ہو گئی۔ رشتہ بھی طے ہو گیا ، مگر روزی کے پاس کیا تھا جو ڈھنگ کا جہیز دے کر اس کو رخصت کرتی۔ روزی تو نے بلو کے باپ کو بھی شادی کی اطلاع دے دی ؟ کسی نے اس سے پوچھا۔ نہیں کیا خبر کرتی، انہوں نے پلٹ کر بھی اپنے بچوں کا حال نہیں پوچھا۔ میرا بیٹا تک مجھ سے چھین لیا۔ اس نے سرد آہ بھری۔ بیوقوفی کی باتیں مت کرو، آخر وہ بلو کا باپ ہے۔ کیا پتا وہ جہیز میں تیری مدد کرے۔ اگر وہ شادی میں آئے گا تو تیرے بیٹے کو بھی ساتھ لائے گا۔ اس خیال نے روزی کی رگوں میں نیا خون دوڑا دیا۔ وہ دوڑتی ہوئی منشی جی کے یہاں گئی اور منظور کے نام مفصل خط لکھوایا۔ اگر منظور اور منور شادی کے وقت نہ پہنچے تو کوئی بلو کو ڈولی میں بٹھانے والا بھی میسر نہ ہو گا۔ منظور بھائی آگئے ہیں۔ میں نے انہیں ابھی بس سے اترتے دیکھا ہے۔ بارات سے ایک دن قبل پڑوسی نے آکر بتایا۔ میر امنور بھی تو آیا ہو گا …! یہ تو مجھے معلوم نہیں ہے۔ منظور بھائی ضرور بس کی چھت سے سامان اتروا ر ہے تھے۔
 
 کچھ دیر بعد ہی منظور پہنچ گیا۔ وہ بیٹی کے لئے مسہری بستر اور بر تن لایا تھا۔ روزی نے کواڑ کی آڑ میں کھڑے ہو کر پو چھا۔ تم منور کو ساتھ نہیں لائے …؟ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، بخار آگیا تھا۔ منظور نے رکتے ہوئے کہا۔ تو کیا میرے نصیب میں اپنے بچے کی صورت دیکھنا بھی نہیں۔ نہیں، نہیں. ایسا کیوں کہتی ہو ؟ ذرا بلو کے بیاہ سے نبٹ لو، پھر جی بھر کے منور کو دیکھ لینا۔ آخر وہ تمہاری اولاد ہے۔ جب بلو اور مہمان رخصت ہو گئے تو اس کا منظور سے سامنا ہوا۔ روزی! میرا کہا مانو تو اپنے گھر چلو۔ منور کئی مہینے سے بیمار ہے ، اب تو اماں بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔ بس میں اکیلا کام کرنے والا ہوں۔ بازار کی روٹیاں کھا کھا کے پیٹ بھی ٹھیک نہیں رہتا اور آنکھوں سے دُھندلا نظر آنے لگا ہے۔ ڈاکٹر موتیا کی بیماری بتاتا ہے۔ انوار میری جگہ لگ گیا تو میں آپریشن کرا لوں گا۔ روزی نے ایک لمحہ بھی سوچ بچار نہیں کیا اور بولی۔ کب چلو گے یہاں سے … پورے راستے وہ منور کا تصور کرتی رہی۔
 
 وہ تو میری صورت بھی بھول چکا ہو گا اور میں اسے کیسے پہچانوں گی ؟ انیس سال میں تو آٹھ نو سال کا کھلنڈرا لڑکا بھی تو انا جو ان بن جاتا ہے۔ منور واقعی ماں کی شکل بھول چکا تھا۔ روزی کو دیکھ کر اس نے تعجب کا اظہار تو کیا مگر خوشی کا نہیں….. اور روزی، جیسے تو انا جو ان کو دیکھنے کی منتظر تھی، اس نے ایک لاغر اور کمزور لڑکے کو دیکھا، جسے روز بخار آتا تھا اور وہ رات بھر کھانستا تھا۔ وہ جی جان سے منور کی تیمار داری میں لگ گئی۔ ڈاکٹروں نے ایکسرے کروایا تو معلوم ہوا کہ اس کو تپ دق ہو گئی ہے۔ علاج مہنگا تھا اور منظور کی محدود کمائی میں گھر بھی چلانا تھا۔ روزی کے پاس دو چار چاندی کے زیور تھے جو ایوب نے بیٹے کے پیدائش کی خوشی میں بنوا کے دیئے تھے ، جنہیں روزی نے اپنے اچھے بُرے وقت کے لئے اٹھارکھے تھے۔ اب منور کے علاج میں وہ ایک ایک کر کے فروخت ہو گئے۔
سات آٹھ مہینے وہ دن رات منور کی پٹی سے لگی رہی۔ اسے اپنے کھانے اور سونے کا بھی ہوش نہ تھا۔ اکثر جو کھانا منور چھوڑ دیتا، وہی کھا لیتی ۔ وہ سو جاتا تو اس کی پائنتی پر ہی سکڑ کر لیٹ جاتی۔ رفتہ رفتہ منور کی طبیعت سنبھلتی گئی، وزن بڑھنے لگا اور چہرے پر رونق آگئی۔ اس دوران میکے سے کسی پڑوسی نے اس کی ماں کے مرنے کی خبر کا فون کروادیا تھا مگر وہ منور کو چھوڑ کر کسی طرح جاتی …. اور اب لاہور لوٹ کر جانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا۔ جس دن منور کا نیا ایکسرے دیکھ کر ڈاکٹر نے اسے مکمل صحت مند قرار دیا، روزی نے پورے محلے میں مٹھائی بانٹی، مزار پر چادر چڑھائی اور شکرانے کا روزہ رکھا، پھر ایکا ایک اپنی تھکن کا احساس ہوا تو اس کی اپنی طبیعت گری گری رہنے لگی۔ اگر بیٹوں کی شادیاں ہو جائیں تو وہ چین سے آرام کر سکتی ہے۔“ یه روزی کا خیال تھا۔ 
 
منظور نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور نارنگ میں اپنے رشتہ داروں کو فون کیا۔ بھلا کمائو لڑکوں کے لئے رشتوں کی کیا کی…! دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے دونوں بیٹوں کے لئے دو بہنیں بیاہ لائی۔ شادی کی تیاری اور مہمانوں کی بھاگ دوڑ میں وہ بالکل نڈھال ہو گئی، اسے بخار آنے لگا، مگر نئی دلہنیں کیسے چکی چولہا کر تیں … روزی دن بھر بخار میں رہتی اور چولہے میں جھلستی رہتی۔ اسی دوران منظور نے موتیا بند کا آپریشن کروالیا۔ اس کی خدمت بھی روزی کے ذمہ تھی۔ اس کو اپنی حالت پر تعجب تھا کہ ذرا سی محنت اور تھوڑے سے کام کاج سے بھی اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا ہے اور چکر آجاتا ہے ، پھر شام سے ہلکا ہلکا بخار اور رات کھانسی کا ٹھکا. وہ گھر گئی۔ شکر ہے گھر میں بیٹے بہوئیں موجود تھیں لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ منظور کی آنکھوں کا آپریشن بگڑ گیا۔ اب موٹے چشمے کے باوجود اسے بہت دھندلا دکھائی دیتا تھا۔ منور تو پہلے سے فیکٹری میں ملازم تھا، منظور نے اپنی جگہ انوار کا نام لکھوادیا، یوں دونوں کے پیسے سے گھر چلنے لگا۔
 
 روزی کی طبیعت کسی طرح ٹھیک نہیں ہوئی تو وہ منظور کے ساتھ اسی ڈاکٹر کے پاس گئی جس نے منور کا علاج کیا تھا۔ ڈاکٹر کو تشخیص میں زیادہ دیر نہ لگی۔ بی بی ! تمہیں بھی ٹی بی ہو گئی ہے۔ ایکسرے کرواتا ہوں مگر وہی دوائیں کھانا ہوں گی۔ لگتا ہے تم نے اپنے بیٹے سے پر ہیز نہیں کیا۔ یہ لگنے والی بیماری ہے، تمہیں مکمل آرام کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر نے رپورٹیں دیکھنے کے بعد اس کے کان میں گو یا صور پھونکا۔ منظور نے دونوں بیٹوں کو ڈاکٹر کا فیصلہ سنادیا کہ اب روزی کا علاج کروانا ہو گا۔ دونوں بیٹے خاموش رہے مگر بہوئوں نے اسی دن روزی کے بر تن علیحدہ کر دیئے اور گھونگھٹ سر کا کر باورچی خانہ خود سنبھال لیا۔ بڑی بہو کے بچہ ہونے والا تھا۔ منور نے اس سے کہہ دیا تھا کہ ماں کے قریب نہ جانا۔ روزی سہمی ہوئی اپنے بچوں کا طرز عمل دیکھ رہی تھی۔ ایک دن انوار نے کہا۔ ”اماں ! ڈاکٹر کہتا ہے ، یہ چھوت کی بیماری ہے۔ اب چھوٹے سے گھر میں پر ہیز کیسے ہو گا، پھر بھائی نے الٹا سیدھا کچھ کہہ دیا تو ہم سب سے جھگڑا ہو گا۔ اس سے تو اچھا ہے تم ابا کے ساتھ لاہور چلی جائو۔ وہاں نانی کا گھر خالی ہو گا وہیں اپنا علاج کروالینا۔ ہم سے جو ہو سکے گا ، خرچہ بھیجتے رہیں گے۔
 جب اچھی ہو جائو تو چلی آنا- روزی کے تو سارے احساسات ہی ختم ہو چکے تھے، وہ بولی۔ تم جیسا کہو گے ویسا ہی کروں گی ۔ وہاں لاہور میں ماں کی موت کے بعد روزی کا بھائی کراچی سے آیا اور گھر بیچ کر واپس چلا گیا۔ اب وہاں کوئی اور بسا ہوا تھا۔ آخر کار منظور کو زمیندار کے پاس میں چوکیدار کی نوکری اور رہنے کو ایک کو ٹھری مل گئی، مگر روزی کے علاج کی کوئی تدبیر پھر بھی نہ بنی۔ وہ اب اٹھتے بیٹھتے کھانستی۔ منظور کو روٹی پکانی نہیں آتی تھی۔ اس کی تو آنکھیں بھی خراب ہو چکی تھیں۔ بستی والے ترس کھا کے کھانے پینے سے مدد کرنے لگے۔ ایک دن منظور نے لجاجت سے کہا۔ ”روزی! تیرا تو خیر یہ میکہ ہے۔ یہاں سب لوگ تیرے باپ بھائی کی طرح ہیں تجھے بھوکا نہیں رکھیں گے اور دوا دارو بھی کرادیں گے مگر میں تو پردیسی ہوں ، کب تک ایسے مانگ مانگ کر کھائوں گا اس سے تو اچھا ہے ، میں بچوں کے پاس ہی چلا جائوں۔ تھوڑے دن بعد پیسوں کا انتظام کر کے واپس آ جائوں گا۔ ٹھیک کہتے ہو ، جاؤ، اپنے بچوں کے پاس چلے جائو۔
 
 روزی نے لیٹے لیٹے ہی نظر اٹھائے بغیر کہا۔ روزی کو تیز بخار چڑھا ہوا ہے۔ دن میں دو ایک بار کوئی نہ کوئی آکر کھانا پانی پوچھ جاتا ہے مگر اس کو ٹھری میں کوئی زیادہ دیر نہیں رکتا۔ اس کے محلے والے اکثر سوئم، چالیسویں کا کھانا اسے دے جاتے ہیں۔ ابھی پرسوں ہی اس کی پڑوسن اپنے چند پرانے جوڑے اسے دے گئی کہ جو قمیض روزی کئی دن سے پہنے ہوئے تھی ، وہ اب جگہ جگہ سے کھی چکی تھی، بہر حال وہ خود کو کبھی تنہا نہیں پاتی۔ ماضی کے دُھندلے سایے، ہمیشہ اس کے گرد و پیش منڈلاتے رہتے ہیں۔ اب اگر کوئی اسے فقیرنی کہہ بھی دے تو اس کو کیا فرق پڑنا تھا بھلا ۔۔

sublimegate urdu stories

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories Urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں, urdu short stories, emotional urdu stories

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے