اعظم صاحب شروع سے ہی کراچی میں سکونت پذیر تھے۔ ان کے بھائی بھی ساتھ رہتے تھے۔ یہ کنبہ چھ افراد پر مشتمل تھا۔ اعظم صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا، جس کا نام فہد تھا۔ اس کی نسبت چچازاد ثمینہ سے طے تھی۔ وہ بہت اچھی لڑکی تھی، مگر شکل سے دبتی ہوئی، سانولی رنگت اور معمولی نقش و نگار والی۔ اسی سبب دوسری لڑکیوں میں ممتاز نہ ہو پائی۔ خاندان کی تمام لڑکیاں جو شکل و صورت سے ثمینہ کے مقابلے میں بہتر تھیں، اسے دیکھ کر رعونت سے گردن تان لیا کرتی تھیں۔ یہ ثمینہ کی قسمت تھی کہ اس کا منگیتر بہت خوب صورت تھا۔ شکل و صورت کے لحاظ سے اپنے ہم عمر لڑکوں میں سب سے وجیہ، قد کاٹھ سے نمایاں نظر آنے والا اور شخصیت میں بھی بے مثال تھا۔ خاندان میں ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیا جاتا۔
لڑکا حسین ہو اور لڑکی معمولی صورت، یا لڑکی حسین ہو اور لڑکا کم صورت تب بھی اپنا ہے کہہ کر رشتے ناتے جوڑ لیے جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ان دونوں کے ساتھ ہوا۔ ثمینہ بہت خوش تھی اور اس بات پر فخر محسوس کرتی تھی کہ اس کی قسمت میں حسین شریکِ زندگی لکھا گیا ہے۔ البتہ اس رشتے پر فہد قطعی خوش نہیں تھا۔ خاندان میں بعض لوگ کنایوں میں اسے جتلاتے رہتے تھے کہ تمہاری منگیتر تمہارے معیار کی نہیں۔ وہ بدصورت، ان پڑھ اور بے عقل ہے۔ تم چاہو تو ایک سے ایک حسین لڑکی تمہیں مل سکتی ہے۔
لڑکپن میں جو بات ذہن میں بٹھا دی جائے، وہ عمر بھر نہیں نکلتی۔ فہد کو بھی اس بات کا بے حد قلق تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ثمینہ جیسی بے وقعت لڑکی اس کے ساتھ باندھ دی گئی ہے۔ مگر اعظم صاحب کا خاصا رعب تھا۔ کوئی ان کے سامنے بول نہیں سکتا تھا، تو فہد کی کیا مجال کہ چوں کر جائے! لیکن دل ہی دل میں وہ کڑھتا رہتا۔ وہ ان کے گھر بھی اسی وجہ سے نہیں جاتا تھا کہ وہاں ثمینہ ہوتی تھی، جو اسے دیکھتے ہی کھل اٹھتی، بھاگ بھاگ کر اس کے کام کرتی، آگے پیچھے دوڑتی۔ تب وہ اسے اور بھی بری لگتی۔ جی چاہتا کہ کہہ دے: آرام سے رہو، میں تم سے شادی وادی نہیں کرنے کا!لڑکپن کا دور گزر گیا۔
لڑکپن میں جو بات ذہن میں بٹھا دی جائے، وہ عمر بھر نہیں نکلتی۔ فہد کو بھی اس بات کا بے حد قلق تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ثمینہ جیسی بے وقعت لڑکی اس کے ساتھ باندھ دی گئی ہے۔ مگر اعظم صاحب کا خاصا رعب تھا۔ کوئی ان کے سامنے بول نہیں سکتا تھا، تو فہد کی کیا مجال کہ چوں کر جائے! لیکن دل ہی دل میں وہ کڑھتا رہتا۔ وہ ان کے گھر بھی اسی وجہ سے نہیں جاتا تھا کہ وہاں ثمینہ ہوتی تھی، جو اسے دیکھتے ہی کھل اٹھتی، بھاگ بھاگ کر اس کے کام کرتی، آگے پیچھے دوڑتی۔ تب وہ اسے اور بھی بری لگتی۔ جی چاہتا کہ کہہ دے: آرام سے رہو، میں تم سے شادی وادی نہیں کرنے کا!لڑکپن کا دور گزر گیا۔
اب ثمینہ سنجیدہ اور بردبار ہوگئی، مگر اس کے حسن میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا۔ تاہم وہ پرکشش ہو کر اچھی لگنے لگی تھی۔ قسمت کا لکھا کہ وہ اب بھی فہد کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ ادھر والدین تھے کہ جہیز اکٹھا کرنے کے چکر میں پڑ گئے تھے۔فہد نے ایک روز اپنی ماں سے کہہ دیا: میں ثمینہ سے شادی نہیں کروں گا۔ آپ چچا چچی کو بتا دیجئے۔ چچا چچی سے پہلے تو تیرے والد صاحب کو بتانا ہوگا اور ان کو منانا ہوگا۔ وہ جب یہ سنیں گے کہ تو ان کی بھتیجی سے شادی نہیں کر رہا پتا ہے، کیا کریں گے؟ پتا ہے؟ بس، اب آگے کچھ مت کہیے گا! میں جانتا ہوں کہ وہ یہی کہیں گے کہ میں فہد کو شوٹ کر دوں گا، تو کر ڈالیں۔
یہ قصہ تو ختم ہو جائے گا۔ بھلا ایسی لڑکی کے ساتھ کون اپنی تمام زندگی بسر کرے، جو اسے ایک آنکھ نہ بھاتی ہو؟ اس میں کیا خرابی ہے آخر؟ اندھی ہے، کانی ہے، لولی لنگڑی ہے، پاگل ہے یا جٹ گنوار ہے؟ ان میں سے کوئی عیب نہیں ہے تو پھر؟ میرے من کو اچھی نہیں لگتی اور دل پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ زبردستی تو اچھی نہیں ناں۔ اچھا، تو جا کر اپنا کام کر، میں مناسب وقت پر تیرے باوا سے بات کرنے کی کوشش کروں گی۔ فہد جانتا تھا کہ ماں اسے ٹال رہی ہے، وہ کبھی اس معاملے میں ابا سے بات نہ کرے گی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ کالج میں پڑھ رہا تھا۔ تبھی اس کی ملاقات سیمیں سے ہو گئی، جو اپنے نام کی طرح پہلی چاندنی سے بنی ہوئی لگتی تھی۔ ایسی حسین لڑکیاں کم دیکھنے میں آتی ہیں اور سیمیں تو حوروں جیسے حسن کی مالک تھی۔ فہد والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، باپ کا پیارا، ماں کا لاڈلا۔ وہ گاڑی پر کالج جاتا تھا۔
باپ کا بزنس خوب پھیلا ہوا تھا۔ فہد کی جیبیں ہر وقت نوٹوں سے بھری رہتی تھیں۔ کالج میں نت نئے فیشن کے سوٹ پہن کر جاتا۔ خوب صورت آدمی خوش لباس بھی ہو تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ گل نازاپنے حسن پر نازاں تھی۔ وہ ایک مغرور لڑکی تھی، مگر فہد کی باتوں میں آ گئی۔ دونوں میں دوستی ہو گئی اور یہ دوستی دولت کی بنیاد پر تھی۔ فہد حسن پرست اور سیمیں دولت پرست تھی۔ دونوں کی دوستی کا جوڑ ٹھیک بیٹھ گیا تھا۔ اس کے دل سے منگیتر کی بدصورتی کا قلق جاتا جا رہا تھا، اور گل نازکو جو دولت کی کمی کا غم کھائے جا رہا تھا، وہ اب نہیں رہا تھا۔ فہد نے پکا ارادہ کر لیا کہ چاہے جو بھی ہو، وہ اسی لڑکی کو اپنی دلہن بنائے گا۔ اس نے اس پری وش کے روپ میں اپنی زندگی کا ساتھی تلاش کر لیا تھا۔ وہ روز ہی اسے اپنی گاڑی میں سیر کرانے لے جاتا اور قیمتی تحفے خرید کر دیتا۔ گل نازبہت خوش تھی۔ اس نے وعدہ کر لیا کہ کسی صورت بھی ساتھ نہ چھوڑے گی۔ اس کا باپ فوت ہو چکا تھا، ماں بیمار رہتی تھی، گھر میں تین چھوٹی بہنیں تھیں۔ بھائی کہیں غیر ملک چلا گیا تو واپس نہ لوٹا۔ اسے گئے بھی دس سال گزر چکے تھے۔
باپ کا بزنس خوب پھیلا ہوا تھا۔ فہد کی جیبیں ہر وقت نوٹوں سے بھری رہتی تھیں۔ کالج میں نت نئے فیشن کے سوٹ پہن کر جاتا۔ خوب صورت آدمی خوش لباس بھی ہو تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ گل نازاپنے حسن پر نازاں تھی۔ وہ ایک مغرور لڑکی تھی، مگر فہد کی باتوں میں آ گئی۔ دونوں میں دوستی ہو گئی اور یہ دوستی دولت کی بنیاد پر تھی۔ فہد حسن پرست اور سیمیں دولت پرست تھی۔ دونوں کی دوستی کا جوڑ ٹھیک بیٹھ گیا تھا۔ اس کے دل سے منگیتر کی بدصورتی کا قلق جاتا جا رہا تھا، اور گل نازکو جو دولت کی کمی کا غم کھائے جا رہا تھا، وہ اب نہیں رہا تھا۔ فہد نے پکا ارادہ کر لیا کہ چاہے جو بھی ہو، وہ اسی لڑکی کو اپنی دلہن بنائے گا۔ اس نے اس پری وش کے روپ میں اپنی زندگی کا ساتھی تلاش کر لیا تھا۔ وہ روز ہی اسے اپنی گاڑی میں سیر کرانے لے جاتا اور قیمتی تحفے خرید کر دیتا۔ گل نازبہت خوش تھی۔ اس نے وعدہ کر لیا کہ کسی صورت بھی ساتھ نہ چھوڑے گی۔ اس کا باپ فوت ہو چکا تھا، ماں بیمار رہتی تھی، گھر میں تین چھوٹی بہنیں تھیں۔ بھائی کہیں غیر ملک چلا گیا تو واپس نہ لوٹا۔ اسے گئے بھی دس سال گزر چکے تھے۔
وہ خرچہ تو کیا، خط تک نہ بھیجتا تھا۔یہ لڑکی گویا اپنے حالات سے تنگ تھی۔ وہ اپنے گھر کی غربت کو کسی امیر زادے سے شادی کر کے دور کرنا چاہتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ فہد کی منگنی ہو چکی ہے۔ فہد نے اس سے یہ بات چھپائی ہوئی تھی۔ وہ کسی صورت اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ یہ معاملہ گھر والوں سے بالکل چھپا ہوا تھا۔ گل نازکے گھر والوں پر البتہ ہر بات عیاں تھی۔فہد اسے گھر چھوڑنے جاتا تھا اور کبھی لینے کے لیے بھی۔ گل ناز کے خاندانی پس منظر کا اسے کوئی علم نہ تھا، وہ تو بس اس لڑکی کی خوب صورتی پر مر مٹا تھا۔ گل نازکی ماں کو اس نے کہہ دیا تھا کہ وہ ان کے گھر کا فرد بننے کی آرزو رکھتا ہے۔ اس کی ماں بہت خوش تھی۔ یہ لوگ ایک غریب آبادی میں رہائش پذیر تھے۔ مکان اپنا تھا، مگر ذریعۂ آمدنی کوئی نہ تھا۔ البتہ اچھے وقتوں میں گل نازکے والد نے بینک میں بیوی کے نام کچھ رقم فکس کروائی تھی۔ اب اسی کا منافع ملتا تھا، جس سے بڑی تنگی سے گزر بسر ہو رہی تھی۔
غربت کوئی عیب نہیں، مگر ایک عذاب ضرور ہے۔ لیکن کچھ لوگ حالات کے ہاتھوں بک جاتے ہیں اور گل ناز کا گھرانہ بھی روایتوں سے بغاوت کے سفر پر گامزن تھا۔ اب ان کی اقدار بدل رہی تھیں۔ چار لڑکیوں کا بوجھ ایک بیوہ اور بیمار عورت نہیں سنبھال پا رہی تھی۔ بیٹیوں کو کالج پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ گل نازکے خواب اسے ہر وقت بے چین رکھتے تھے۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ صرف اور صرف کسی دولت مند نوجوان سے شادی کرے گی، جو اس کی ہر آرزو پوری کرے گا، اس کی بہنوں اور ماں کا سہارا بنے گا۔اور یہ فہد تھا، جو اس پر فریفتہ ہو چکا تھا۔ اسے گل نازکی ہر شرط منظور تھی۔ وہ بھول گیا تھا کہ والد روایت سے بغاوت پر اسے گھر سے نکال بھی سکتے ہیں۔ وہ بی اے تک یہ معاملہ گھر والوں سے چھپائے رکھنا چاہتا تھا۔ وہ کسی صورت گل نازکو کھونا نہیں چاہتا تھا اور کسی ایسے معجزے کے انتظار میں تھا، جس سے اس کے الجھے ہوئے حالات خود بخود سلجھ جائیں۔ اکثر نوجوان لڑکے لڑکیاں محبت کی نہ سلجھنے والی گتھی کے لیے معجزات ہی کے انتظار میں رہتے ہیں، بہت سوں کی تو زندگی اسی انتظار میں برباد ہو جاتی ہے، مگر ہونی ہو کر رہتی ہے۔ایک دن جب فہد، گل ناز کے ساتھ ایک سیرگاہ میں گھوم رہا تھا، تو اسے والد نے دیکھ لیا اور گھر جا کر خوب ہنگامہ کیا۔
غربت کوئی عیب نہیں، مگر ایک عذاب ضرور ہے۔ لیکن کچھ لوگ حالات کے ہاتھوں بک جاتے ہیں اور گل ناز کا گھرانہ بھی روایتوں سے بغاوت کے سفر پر گامزن تھا۔ اب ان کی اقدار بدل رہی تھیں۔ چار لڑکیوں کا بوجھ ایک بیوہ اور بیمار عورت نہیں سنبھال پا رہی تھی۔ بیٹیوں کو کالج پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ گل نازکے خواب اسے ہر وقت بے چین رکھتے تھے۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ صرف اور صرف کسی دولت مند نوجوان سے شادی کرے گی، جو اس کی ہر آرزو پوری کرے گا، اس کی بہنوں اور ماں کا سہارا بنے گا۔اور یہ فہد تھا، جو اس پر فریفتہ ہو چکا تھا۔ اسے گل نازکی ہر شرط منظور تھی۔ وہ بھول گیا تھا کہ والد روایت سے بغاوت پر اسے گھر سے نکال بھی سکتے ہیں۔ وہ بی اے تک یہ معاملہ گھر والوں سے چھپائے رکھنا چاہتا تھا۔ وہ کسی صورت گل نازکو کھونا نہیں چاہتا تھا اور کسی ایسے معجزے کے انتظار میں تھا، جس سے اس کے الجھے ہوئے حالات خود بخود سلجھ جائیں۔ اکثر نوجوان لڑکے لڑکیاں محبت کی نہ سلجھنے والی گتھی کے لیے معجزات ہی کے انتظار میں رہتے ہیں، بہت سوں کی تو زندگی اسی انتظار میں برباد ہو جاتی ہے، مگر ہونی ہو کر رہتی ہے۔ایک دن جب فہد، گل ناز کے ساتھ ایک سیرگاہ میں گھوم رہا تھا، تو اسے والد نے دیکھ لیا اور گھر جا کر خوب ہنگامہ کیا۔
ماں نے بیٹے سے پوچھا، تو فہد کو سچ کہنا ہی پڑا۔ بس پھر کیا تھا، اعظم صاحب اس قدر خفا ہوئے کہ انہوں نے کھڑے کھڑے بیٹے کو گھر سے چلے جانے کا حکم دے دیا۔ ماں نے وکالت کرنا چاہی تو انہوں نے کہا: اس کو جتلا دو کہ اسے ثمینہ سے شادی کرنا ہوگی، ورنہ یہ گھر چھوڑ دے۔ کوئی اور لڑکی ہمارے گھر بہو بن کر نہیں آئے گی۔مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، فہد نے باپ کے آگے سر جھکا دیا اور کچھ دنوں کے لیے اپنے ماموں کے گھر چلا گیا، جو ایک غریب آدمی تھا۔ وہ بے چارہ بال بچّے دار شخص ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھا۔ اس نے فہد سے کہا کہ جتنے دن چاہو میرے گھر رہو، لیکن تمہیں اپنے والد کو بہرحال راضی کرنا پڑے گا۔ جو فیصلہ انہوں نے کیا ہے، وہی قبول کرنا بہتر ہے۔ اگر انہوں نے غصے میں آ کر تم کو عاق کر دیا تو تم غربت کا جہنم برداشت نہ کر سکو گے۔ اس کی تپش بہت تکلیف دہ ہوگی۔ تم نے تمام عمر آرام کی زندگی بسر کی ہے؛ تم نہیں جانتے کہ جیب خالی ہو تو چند ٹکوں کے لیے انسان کی عزت نفس کو کیسے مجروح کیا جاتا ہے۔
یہ ساری رام کہانی اس جوشیلے جوان کے لیے لا یعنی تھی۔ وہ تو ہر حال میں گل نازسے کیے ہوئے وعدے نبھانا چاہتا تھا۔ ان دنوں فہد کافی پریشان تھا۔ جب گل ناز نے اس کی پریشانی اور خستہ حالی کو محسوس کیا تو سبب پوچھا۔ فہد اسے یہ سب کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا، تاہم چھپانے سے بھی بات بگڑ سکتی تھی، لہٰذا وہ گل نازکو اپنے ماموں کے ٹوٹے پھوٹے سرکاری کوارٹر میں لے گیا اور تمام حالات بتا دیے۔ اس وقت فہد کے ماموں بھی گھر پر موجود تھے۔ انہوں نے بھی لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا: بیٹی، دیکھو، شادی سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ فہد کے والدین تم سے شادی نہیں کرنے دیں گے۔ اگر اس نے ضد کر کے اپنی مرضی سے تمہارے ساتھ بیاہ کر لیا تو وہ تمہیں قبول نہیں کریں گے۔ کیا تم اس غربت میں گزارا کر پاؤ گی؟گل نازگم صم بیٹھی ساری باتیں سنتی رہی۔ اس نے سوچا کہ جس غربت سے نکلنے کی تدبیر کر رہی تھی، اگر یہاں بھی وہی غربت ملی تو پھر اس شادی سے کیا حاصل؟ یہ تدبیر بھی الٹی پڑ گئی۔
یہ ساری رام کہانی اس جوشیلے جوان کے لیے لا یعنی تھی۔ وہ تو ہر حال میں گل نازسے کیے ہوئے وعدے نبھانا چاہتا تھا۔ ان دنوں فہد کافی پریشان تھا۔ جب گل ناز نے اس کی پریشانی اور خستہ حالی کو محسوس کیا تو سبب پوچھا۔ فہد اسے یہ سب کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا، تاہم چھپانے سے بھی بات بگڑ سکتی تھی، لہٰذا وہ گل نازکو اپنے ماموں کے ٹوٹے پھوٹے سرکاری کوارٹر میں لے گیا اور تمام حالات بتا دیے۔ اس وقت فہد کے ماموں بھی گھر پر موجود تھے۔ انہوں نے بھی لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا: بیٹی، دیکھو، شادی سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ فہد کے والدین تم سے شادی نہیں کرنے دیں گے۔ اگر اس نے ضد کر کے اپنی مرضی سے تمہارے ساتھ بیاہ کر لیا تو وہ تمہیں قبول نہیں کریں گے۔ کیا تم اس غربت میں گزارا کر پاؤ گی؟گل نازگم صم بیٹھی ساری باتیں سنتی رہی۔ اس نے سوچا کہ جس غربت سے نکلنے کی تدبیر کر رہی تھی، اگر یہاں بھی وہی غربت ملی تو پھر اس شادی سے کیا حاصل؟ یہ تدبیر بھی الٹی پڑ گئی۔
وہ خاموش ہو گئی۔اس کے بعد گل نازکے رویّے میں کافی تبدیلی آ گئی۔ اب اس کا رویّہ سرد مہری لیے ہوتا تھا، جسے فہد نے محسوس کر لیا۔ وہ کچھ اکھڑی اکھڑی لگتی تھی۔ اس انداز نے فہد کے دل پر چوٹ سی لگا دی۔ جیب خرچ بند ہو جانے کی وجہ سے وہ پہلے ہی کافی پریشان تھا۔ وہ گل نازکے گھر کبھی خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا اور اب معمولی سا تحفہ بھی خرید کر نہیں دے سکتا تھا۔ پہلے وہ روز گاڑی میں سیر و تفریح کو جاتے تھے، اور اب یہ حال تھا کہ بس میں سفر کر کے اس کے گھر پہنچتا تھا۔ دولت انسان کی محبت کو آزماتی ہے۔ یہ وہ ترازو ہے جس میں آدمی کا ظرف بھی معلوم ہو جاتا ہے اور وفاداری بھی۔اُنہی دنوں فہد بیمار پڑ گیا۔ وہ گل نازکے گھر کئی دن تک نہ جا سکا۔
ماموں مقدور بھر علاج کروا رہے تھے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بال بچّے دار آدمی اپنی سکت سے زیادہ خرچ نہیں کر سکتا۔ فہد نے ماموں سے التجا کی کہ وہ گل نازکو فون کریں تاکہ وہ خود آ کر اس سے مل جائے، کیونکہ بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ چار دفعہ ماموں نے فون کیا تب جا کر گل نازآئی۔ دو چار منٹ بیٹھی، سرسری بات کی اور چلی گئی، جیسے کوئی کسی سے جان چھڑاتا ہے۔ وہ بھی اصل میں فہد سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ اس کے خوابوں میں فہد کے والد کی کوٹھی بسی ہوئی تھی، یہ کوارٹر نہیں، جہاں وہ بیمار پڑا تھا۔گل نازکا رویہ اس کے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ ہو گیا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس لڑکی پر اس نے ہزاروں روپے لٹائے، وہ بیماری اور غربت کے دنوں میں اسے یوں غیروں کی طرح ملنے آئے گی اور دو چار منٹ سرسری عیادت کر کے چلی جائے گی۔ وہ تو سمجھ رہا تھا کہ گل نازکہے گی: چلو میں خود تم کو ڈاکٹر کے پاس لے کر چلتی ہوں یا کم از کم دل جوئی کے دو چار بول ہی کہے گی۔
ماموں نے اس لڑکی کی بے مروتی کو محسوس کر لیا تھا، مگر وہ ایک جہاندیدہ اور بردبار انسان تھے، اس لیے چپ رہے۔ انہوں نے اگلے دن فہد کی حالت کا تذکرہ اس کے والد اعظم صاحب سے کیا۔ وہ بھی دل میں پشیمان تھے، لیکن اوپر سے یہی جتانے لگے کہ اب ہمارا اس سے کیا واسطہ؟ جب وہ ہماری نہیں سنتا تو اپنی آپ جائے۔ ماموں جانتے تھے کہ وہ دکھاوے کو ایسا کہہ رہے ہیں۔ البتہ ماں تو آئے بنا رہ نہ سکے گی اور ایسا ہی ہوا۔دوسرے دن فہد کی والدہ، بھائی اور بھابھی آ گئے۔ آتے ہی سب فہد کے گلے لگ گئے۔ ثمینہ بھی آئی تھی۔ وہ فہد کی حالت دیکھ کر بجھ کر رہ گئی۔ ماموں نے ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں غریب آدمی ہوں، جتنی جیب نے اجازت دی ہے، دوا دارو کر رہا ہوں، اب اور ہمت نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا ہے کہ اسپتال میں داخل کراؤ، بہت سے ٹیسٹ وغیرہ کرنے ہیں اور رقم میرے پاس نہیں ہے۔ کہیں بخار بگڑ کر مرض میں نہ بدل جائے۔ثمینہ نے اپنے سونے کے زیور، جو رومال میں باندھ لیے تھے، چوری سے لا کر ماموں کو دیے اور بولی: آپ کو قسم ہے، کسی کو نہ بتانا، لیکن اس کا علاج ضرور کروانا۔ بے شک وہ مجھ سے شادی نہیں کرتا، لیکن اچھا تو ہو جائے گا، میرے لیے یہی بہت ہے۔ ثمینہ کے جانے کے بعد ماموں نے وہ زیور فہد کو دکھائے اور سمجھایا کہ دیکھو، جو پیار کرتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں۔
ماموں نے اس لڑکی کی بے مروتی کو محسوس کر لیا تھا، مگر وہ ایک جہاندیدہ اور بردبار انسان تھے، اس لیے چپ رہے۔ انہوں نے اگلے دن فہد کی حالت کا تذکرہ اس کے والد اعظم صاحب سے کیا۔ وہ بھی دل میں پشیمان تھے، لیکن اوپر سے یہی جتانے لگے کہ اب ہمارا اس سے کیا واسطہ؟ جب وہ ہماری نہیں سنتا تو اپنی آپ جائے۔ ماموں جانتے تھے کہ وہ دکھاوے کو ایسا کہہ رہے ہیں۔ البتہ ماں تو آئے بنا رہ نہ سکے گی اور ایسا ہی ہوا۔دوسرے دن فہد کی والدہ، بھائی اور بھابھی آ گئے۔ آتے ہی سب فہد کے گلے لگ گئے۔ ثمینہ بھی آئی تھی۔ وہ فہد کی حالت دیکھ کر بجھ کر رہ گئی۔ ماموں نے ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میں غریب آدمی ہوں، جتنی جیب نے اجازت دی ہے، دوا دارو کر رہا ہوں، اب اور ہمت نہیں ہے۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا ہے کہ اسپتال میں داخل کراؤ، بہت سے ٹیسٹ وغیرہ کرنے ہیں اور رقم میرے پاس نہیں ہے۔ کہیں بخار بگڑ کر مرض میں نہ بدل جائے۔ثمینہ نے اپنے سونے کے زیور، جو رومال میں باندھ لیے تھے، چوری سے لا کر ماموں کو دیے اور بولی: آپ کو قسم ہے، کسی کو نہ بتانا، لیکن اس کا علاج ضرور کروانا۔ بے شک وہ مجھ سے شادی نہیں کرتا، لیکن اچھا تو ہو جائے گا، میرے لیے یہی بہت ہے۔ ثمینہ کے جانے کے بعد ماموں نے وہ زیور فہد کو دکھائے اور سمجھایا کہ دیکھو، جو پیار کرتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں۔
پیار کرنے والوں کی قدر نہ کرنا بھی بڑی غلطی ہے۔ ایسے پیاروں کو تو بدنصیب ہی کھوتے ہیں۔ گل نازکو تم سے پیار نہیں، اگر ہوتا تو وہ بھی اس کا ثبوت دیتی۔ اپنی دو سالہ دوستی کے دوران سچ بتانا، تم نے اسے کتنے زیور لے کر دیے ہیں؟ کم از کم بیس تولے کے زیورات اور ہزاروں کے قیمتی تحائف۔ میں نے اس کو بھی یہی کہا تھا کہ تمہارے علاج کے لیے میرے پاس رقم نہیں ہے اور اگر علاج نہ ہوا تو تمہاری جان بھی جا سکتی ہے، لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا، جب کہ ثمینہ یہ بات نہ سہ سکی۔ وہ تمہیں قسم بھی دے گئی کہ تمہیں پتا نہ چلے اور تمہارا علاج بھی اس کے زیور بیچ کر ہو جائے۔
یہ سن کر فہد کی آنکھیں کھل گئیں۔ یوں تو عورتوں کے بہت سے روپ ہوتے ہیں، لیکن اس کی زندگی میں عورتوں کے دو ہی روپ بڑا تجربہ لے کر آئے تھے۔ ایک بے وفائی کا اعلیٰ نمونہ تھا، تو دوسرا وفا کا، جو اس سے بڑھ کر دل نواز تھا۔ محبت کرنے والا آخری وقت تک دامن نہیں چھوڑتا۔فہد نے اپنے پیارے دوست سہیل کو گل نازکے گھر بھیجا کہ وہ اس کا عندیہ لے آئے، کیا کہتی ہے۔ اب تو شادی کے لیے وہ آزاد ہے، صرف دولت نہیں تو کیا ہوا؟ گل نازنے نہ صرف شادی سے معذرت کر لی بلکہ اسے مفلس، کنگال اور خدا جانے کیا کیا کہہ دیا۔ سہیل نے یہ باتیں آ کر فہد کو بتائیں تو اس کا دل کرچی کرچی ہو گیا۔
یہ سن کر فہد کی آنکھیں کھل گئیں۔ یوں تو عورتوں کے بہت سے روپ ہوتے ہیں، لیکن اس کی زندگی میں عورتوں کے دو ہی روپ بڑا تجربہ لے کر آئے تھے۔ ایک بے وفائی کا اعلیٰ نمونہ تھا، تو دوسرا وفا کا، جو اس سے بڑھ کر دل نواز تھا۔ محبت کرنے والا آخری وقت تک دامن نہیں چھوڑتا۔فہد نے اپنے پیارے دوست سہیل کو گل نازکے گھر بھیجا کہ وہ اس کا عندیہ لے آئے، کیا کہتی ہے۔ اب تو شادی کے لیے وہ آزاد ہے، صرف دولت نہیں تو کیا ہوا؟ گل نازنے نہ صرف شادی سے معذرت کر لی بلکہ اسے مفلس، کنگال اور خدا جانے کیا کیا کہہ دیا۔ سہیل نے یہ باتیں آ کر فہد کو بتائیں تو اس کا دل کرچی کرچی ہو گیا۔
یہ حقیقت بھی اس پر واضح ہو گئی کہ دولت کے بغیر آدمی کچھ نہیں رہتا۔وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح گھر میں قید پڑا تھا۔ کالج تو پہلے ہی چھوٹ گیا تھا اور گھر بھی چھوٹا۔ آج پتا چلا کہ جسے وہ توجہ کے قابل نہیں سمجھتا تھا اور جو ہمہ وقت اسے اپنے دل کے جھروکوں سے تکا کرتی تھی، وہ دل ہی دل میں اس سے کتنی محبت کرتی تھی۔ آج وہ خود اپنی نظر میں اپنے آپ کو گرا ہوا محسوس کرنے لگا۔اس نے ماموں سے کہا کہ آپ ابو کو منا کر لے آئیے یا مجھ کو ان کے پاس لے چلیں۔ میں ان سے معافی مانگ لوں گا۔ اب مجھے ہوش آ چکا ہے۔ جو برے وقت میں ساتھ دے، اصل ساتھی وہی ہوتا ہے۔
ماموں نے اعظم صاحب کو جا کر ساری صورتِ حال سمجھائی۔ وہ تو پہلے ہی بیٹے کے پاس آنے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ آئے، فہد کو گلے سے لگا لیا اور بولے: میرے لاڈلے! سمجھ لیا تم نے، اگر سونا پیتل اور پیتل سونا بن سکتا تو سبھی ساہوکار نہ ہو جاتے۔اس کے بعد فہد کی شادی ثمینہ سے ہو گئی۔ شادی کی رات وہ معمولی صورت والی لڑکی انتہائی حسین دکھائی دے رہی تھی، جس نے اپنا خلوص دکھا کر اس کا من جیت لیا تھا۔ وہ لڑکی، جسے فہد حقیر جانتا تھا، شادی کے بعد عمر بھر اس کے دل کی ملکہ بنی راج کرتی رہی۔ سچ ہے، ایک بے وفا عورت کے دیے زخم کو کوئی وفادار عورت ہی بھر سکتی ہے۔
.jpg)
