ویران حویلی کا انتقام - آخری حصہ

Sublimegate Urdu Stories

جب حمزہ نے آنکھیں کھولیں، تو وہ اپنے  بستر پر تھا۔ صبح کی روشنی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی، اور پرندے چہچہا رہے تھے۔ کیا یہ سب خواب تھا؟ اس نے جلدی سے اپنی کلائی دیکھی۔ وہاں ایک عجیب سا نشان تھا، وہی نشان جو اس مہر پر تھا۔ حمزہ نے ایک گہری سانس لی اور کھڑکی سے باہر دیکھا۔ کہیں دور، جیسے کوئی اسے دیکھ رہا تھا
اور وہ آنکھیں... وہ دہکتی آنکھیں، ایک لمحے کے لیے نمودار ہوئیں اور پھر غائب ہو گئیں۔ حمزہ نے اپنی آنکھیں بند کیں اور ایک گہری سانس لی، مگر وہ احساس اب بھی اس کے ساتھ تھا۔ وہ دہکتی آنکھیں، وہ سرگوشیاں، وہ بھیانک رات—سب کچھ جیسے اس کے ذہن میں قید تھا۔ مگر وقت گزرتا گیا، اور دھیرے دھیرے وہ خوفناک یادیں مدھم ہونے لگیں۔

چھ مہینے بعد، حمزہ کی زندگی میں خوشی کا ایک نیا باب شروع ہونے والا تھا۔اس کی شادی طے ہو چکی تھی۔ لڑکی کا نام نوشین تھا، اور وہ ایک خوش اخلاق اور نرم مزاج لڑکی تھی۔ حمزہ نے خود کو یقین دلایا کہ اب اس کی زندگی معمول پر آ رہی ہے، کہ شاید وہ سب کچھ محض ایک وہم تھا۔
شادی کی رات سب کچھ عام لگ رہا تھا۔ ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی، اور بارات کا قافلہ روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ حمزہ، سفید شیروانی میں ملبوس، خوش نظر آ رہا تھا، مگر اس کے دل کے کسی کونے میں ایک عجیب سا اضطراب تھا، جیسے کچھ غلط ہونے والا ہو۔

جب وہ نوشین کے کمرے میں داخل ہوا، تو وہ عروسی لباس میں شرمیلی سی بیٹھی تھی۔ حمزہ کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ وہ آہستہ سے اس کے قریب بیٹھا۔
"نوشین، مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم آخرکار ایک نئی زندگی شروع کر رہے ہیں۔"
نوشین نے نظریں جھکائے مدھم آواز میں کہا، "کیا واقعی نئی زندگی، حمزہ؟"
حمزہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ "کیا مطلب؟"

نوشین نے آہستہ سے سر اٹھایا، اور جیسے ہی حمزہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، اس کے دل کی دھڑکن تھم گئی وہ آنکھیں! وہی دہکتی ہوئی، انگاروں جیسی آنکھیں جو اس نے اس رات دیکھی تھیں! حمزہ نے خوف سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، مگر نوشین نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اس کی گرفت برف کی طرح ٹھنڈی تھی۔ "تم نے سوچا تھا کہ تم مجھ سے بچ جاؤ گے؟ کہانی ختم نہیں ہوئی، حمزہ..." اس کی آواز میں وہی سرگوشی تھی جو حمزہ نے اس ویران ریسٹ ہاؤس میں سنی تھی۔
حمزہ ہانپتے ہوئے جاگ اٹھا۔ پسینے میں شرابور، وہ گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ کمرہ وہی تھا، مگر نوشین اس کے پاس نہیں تھی۔
"یہ... خواب تھا؟" اس نے خود سے کہا۔

مگر پھر اس کی نظر آئینے پر پڑی—جہاں نوشین کھڑی تھی، مگر اس کا عکس نہیں تھا! "نوشین!" حمزہ نے کانپتی ہوئی آواز میں پکارا۔ نوشین نے آہستہ سے مڑ کر اسے دیکھا، اور اس کے ہونٹوں پر ایک بھیانک مسکراہٹ ابھری۔
"سو گئے تھے، حمزہ؟ لیکن میں تو جاگ رہی تھی... تمہارے انتظار میں۔"
شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا، مگر حمزہ کو نوشین کے رویے میں کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا۔ کبھی وہ رات کے اندھیرے میں کھڑکی کے پاس کھڑی رہتی، کبھی بےسبب بند دروازے سے باتیں کرتی، اور کبھی وہ چیزیں جانتی جو اسے معلوم نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔

ایک رات، حمزہ نے اسے آدھی رات کے وقت باہر جاتے دیکھا۔ وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل دیا۔ نوشین آہستہ آہستہ باغ میں جا رہی تھی، اور اس کے قدم زمین پر ایسے پڑ رہے تھے جیسے وہ ہوا میں تیر رہی ہو۔ پھر اچانک، وہ رک گئی۔
"تم چھپنے کی کوشش کر رہے ہو، حمزہ؟" وہ بولی، بغیر پیچھے دیکھے۔
حمزہ کا دل دھڑک اٹھا۔ "نوشین... تم اس وقت باہر کیا کر رہی ہو؟"
نوشین نے آہستہ سے گردن موڑی، اور اس کا چہرہ دھند میں گھرا ہوا لگنے لگا، جیسے وہ حقیقت میں موجود ہی نہ ہو۔ "میں تو وہیں ہوں، جہاں سے میں نے کبھی جانا نہیں تھا، حمزہ۔" اچانک، ہوا تیز چلنے لگی، درختوں کی شاخیں آپس میں ٹکرانے لگیں، اور فضا میں ایک سرگوشی گونجی "ہم دیکھ رہے ہیں... کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی..." حمزہ نے آنکھیں بند کیں، مگر جب اس نے دوبارہ دیکھا—نوشین غائب ہو چکی تھی!

حمزہ کا خوف اب بڑھنے لگا تھا۔ اس نے نوشین کے بارے میں تحقیقات شروع کیں۔ جب وہ اس کے ماضی کے بارے میں جاننے نکلا، تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ نوشین کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا! نہ اسکول، نہ کالج، نہ خاندان!
"یہ کیسے ممکن ہے؟" حمزہ نے سر پکڑ لیا۔
پھر اسے ایک پرانی تصویر ملی، جس میں ایک اور لڑکی تھی ۔ وہی چہرہ، وہی آنکھیں، مگر نام مختلف تھا... نورا!
اب حمزہ کو یقین ہو چکا تھا کہ نوشین اور نورا میں کوئی تعلق ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ وہ کون تھی؟ اور اس کا مقصد کیا تھا؟
رات کے وقت، جب نوشین سو رہی تھی، حمزہ نے ایک بار پھر اس کا عکس آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی
مگر اس بار، آئینہ خالی تھا!
اور پھر، اچانک، نوشین کی آنکھیں کھل گئیں۔
"حمزہ..." اس کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
حمزہ کے جسم میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
"اب تمہیں سب کچھ جاننا ہوگا...
حمزہ کا سانس رکنے لگا۔ نوشین کی آواز میں وہی سرگوشیاں شامل تھیں جو اس نے پہلے بھی سنی تھیں۔ وہ بستر پر بے حس و حرکت لیٹی تھی، مگر اس کی آنکھیں—وہی دہکتی ہوئی، انگاروں جیسی آنکھیںحمزہ کو گھور رہی تھیں۔
"کیا... کیا مطلب؟" حمزہ نے مشکل سے اپنے لرزتے ہونٹوں سے پوچھا۔
نوشین کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ ابھری۔ "تم نے حقیقت جاننے کی کوشش کی، حمزہ۔ اب تم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں کون ہوں... اور کیوں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔"
اچانک کمرے کی روشنیاں بجھ گئیں۔ گھپ اندھیرے میں حمزہ نے صرف نوشین کی سرخ چمکتی آنکھیں دیکھی۔

"تم کون ہو؟" حمزہ نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
نوشین کی ہنسی کمرے میں گونج اٹھی، جیسے کسی دور دراز ویرانے سے آ رہی ہو۔ "میں وہ ہوں جو کبھی نورا تھی... مگر اب میں صرف ایک سایہ ہوں، ایک انتقام کی بھٹکتی ہوئی روح۔"
"انتقام؟ کس سے؟" حمزہ کے حلق میں خشکی اتر آئی۔
"تم سے، حمزہ!" نوشین نے غصے سے کہا اور لمحہ بھر میں وہ بستر سے اٹھ کر حمزہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ "تم نے میرے ساتھ وہی کیا جو تمہارے آباؤ اجداد نے میری ماں کے ساتھ کیا تھا۔ تمہیں نہیں معلوم، مگر تم اس خاندانی لعنت کا حصہ ہو، جو کئی صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔"
حمزہ کا دماغ سن ہو گیا۔ "کیا بکواس کر رہی ہو؟ میں نے تمہیں کبھی نقصان نہیں پہنچایا!"
نوشین نے سرد آواز میں کہا، "یہی تمہاری بھول ہے۔ میرے وجود کا ہر لمحہ تمہارے خاندان کی اس غلطی کا انتقام لینے کے لیے وقف ہے۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ تم وہ بھول سدھارو۔"
اچانک، کھڑکی کے باہر زوردار گرج چمک ہوئی، اور کمرہ جھٹکے سے لرزنے لگا۔ آئینے میں حمزہ نے اپنا عکس دیکھامگر نوشین کا عکس اب بھی غائب تھا!
"تم... تم کوئی عام انسان نہیں ہو!" حمزہ چیخا۔
نوشین کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ ابھری۔ "اب تمہیں حقیقت معلوم ہو چکی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا تم اسے قبول کر پاؤ گے؟ یا پھر وہی غلطی دہراؤ گے جو تمہارے آبا نے کی تھی؟"
حمزہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اس کے کانوں میں ایک مانوس سرگوشی گونجی—
"کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، حمزہ... بلکہ یہ تو اب شروع ہوئی ہے!"

حمزہ نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا، جیسے حقیقت اور وہم کے درمیان الجھ گیا ہو۔ اس کے قدم خودبخود پیچھے ہٹنے لگے، لیکن دیوار سے جا ٹکرائے۔ نوشین آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں سرخ چمک مزید گہری ہوتی جا رہی تھی۔
"حمزہ، تم بھاگ نہیں سکتے۔" نوشین نے مدھم مگر لرزا دینے والی آواز میں کہا۔ "تمہیں اپنی تقدیر قبول کرنی ہوگی۔"
"نہیں!" حمزہ چلایا اور دروازے کی طرف دوڑا، مگر دروازہ خودبخود بند ہو گیا۔ جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے اسے مقفل کر دیا ہو۔
اچانک، کمرے میں دھواں سا بھرنے لگا۔ نوشین کی شبیہ دھند میں گھلتی جا رہی تھی۔ حمزہ کو لگا جیسے وہ حقیقت سے کسی اور دنیا میں داخل ہو رہا ہے۔
پھر، ایک پراسرار آواز گونجی۔ "حمزہ... کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے خاندان نے میرے ساتھ کیا کیا تھا؟"

کمرے کی دیواروں پر دھندلی شبیہیں ابھرنے لگیں۔ ایک قدیم حویلی کا منظر سامنے آیا۔ ایک نوجوان لڑکی، نورا، سفید لباس میں بھاگ رہی تھی، اس کے پیچھے مشعلیں لیے کچھ لوگ تھے۔ نورا چیخ رہی تھی، گڑگڑا رہی تھی، مگر ان لوگوں نے اسے ایک تالا بند کمرے میں دھکیل دیا اور دروازہ بند کر دیا۔
"یہ تمہارے دادا تھے، حمزہ... جنہوں نے میری ماں کو اس کمرے میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا!" نوشین کی آواز غصے سے کانپ رہی تھی۔
حمزہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "یہ... یہ سچ نہیں ہو سکتا!"
"یہی سچ ہے، اور اب تمہیں اس ظلم کا خمیازہ بھگتنا ہوگا!" نوشین نے کہا اور اس کی آنکھیں مزید دہکنے لگیں۔

حمزہ کی سانس تیز ہو گئی۔ "میں اس سب کا حصہ نہیں ہوں! یہ میرے بزرگوں کی غلطی تھی! مجھے کیوں سزا دے رہی ہو؟"
نوشین ایک لمحے کے لیے رکی۔ کمرے کی فضا میں ایک سرد خاموشی چھا گئی۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا، "اگر تم واقعی بے گناہ ہو، تو ثابت کرو... لیکن یاد رکھو، وقت کم ہے، حمزہ۔ یا تو تم یہ لعنت ختم کرو، یا یہ تمہیں ختم کر دے گی۔"
اچانک کمرے کا دروازہ جھٹکے سے کھل گیا۔ ہوا تیز ہو گئی، اور نوشین غائب ہو چکی تھی۔
حمزہ نے لرزتے ہوئے قدم بڑھائے اور دروازے کے باہر جھانکا۔
حمزہ کا سانس رکنے لگا۔ نوشین کی آواز میں وہی سرگوشیاں شامل تھیں جو اس نے پہلے بھی سنی تھیں۔ وہ بستر پر بے حس و حرکت لیٹی تھی، مگر اس کی آنکھیںوہی دہکتی ہوئی، انگاروں جیسی آنکھیں حمزہ کو گھور رہی تھیں۔
"کیا... کیا مطلب؟" حمزہ نے مشکل سے اپنے لرزتے ہونٹوں سے پوچھا۔
نوشین کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ ابھری۔ "تم نے حقیقت جاننے کی کوشش کی، حمزہ۔ اب تم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں کون ہوں... اور کیوں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔"

اچانک کمرے کی روشنیاں بجھ گئیں۔ گھپ اندھیرے میں حمزہ نے صرف نوشین کی سرخ چمکتی آنکھیں دیکھی۔
"تم کون ہو؟" حمزہ نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
نوشین کی ہنسی کمرے میں گونج اٹھی، جیسے کسی دور دراز ویرانے سے آ رہی ہو۔ "میں وہ ہوں جو کبھی نورا تھی... مگر اب میں صرف ایک سایہ ہوں، ایک انتقام کی بھٹکتی ہوئی روح۔"
"انتقام؟ کس سے؟" حمزہ کے حلق میں خشکی اتر آئی۔
"تم سے، حمزہ!" نوشین نے غصے سے کہا اور لمحہ بھر میں وہ بستر سے اٹھ کر حمزہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ "تم نے میرے ساتھ وہی کیا جو تمہارے آباؤ اجداد نے میری ماں کے ساتھ کیا تھا۔ تمہیں نہیں معلوم، مگر تم اس خاندانی لعنت کا حصہ ہو، جو کئی صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔"
حمزہ کا دماغ سن ہو گیا۔ "کیا بکواس کر رہی ہو؟ میں نے تمہیں کبھی نقصان نہیں پہنچایا!"
نوشین نے سرد آواز میں کہا، "یہی تمہاری بھول ہے۔ میرے وجود کا ہر لمحہ تمہارے خاندان کی اس غلطی کا انتقام لینے کے لیے وقف ہے۔ اور اب وقت آ گیا ہے کہ تم وہ بھول سدھارو۔"
اچانک، کھڑکی کے باہر زوردار گرج چمک ہوئی، اور کمرہ جھٹکے سے لرزنے لگا۔ آئینے میں حمزہ نے اپنا عکس دیکھا۔ مگر نوشین کا عکس اب بھی غائب تھا!
"تم... تم کوئی عام انسان نہیں ہو!" حمزہ چیخا۔
نوشین کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ ابھری۔ "اب تمہیں حقیقت معلوم ہو چکی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا تم اسے قبول کر پاؤ گے؟ یا پھر وہی غلطی دہراؤ گے جو تمہارے آبا نے کی تھی؟"
حمزہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اس کے کانوں میں ایک مانوس سرگوشی گونجی
"کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، حمزہ... بلکہ یہ تو اب شروع ہوئی ہے!"

حمزہ نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا، جیسے حقیقت اور وہم کے درمیان الجھ گیا ہو۔ اس کے قدم خودبخود پیچھے ہٹنے لگے، لیکن دیوار سے جا ٹکرائے۔ نوشین آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کی آنکھوں میں سرخ چمک مزید گہری ہوتی جا رہی تھی۔
"حمزہ، تم بھاگ نہیں سکتے۔" نوشین نے مدھم مگر لرزا دینے والی آواز میں کہا۔ "تمہیں اپنی تقدیر قبول کرنی ہوگی۔"
"نہیں!" حمزہ چلایا اور دروازے کی طرف دوڑا، مگر دروازہ خودبخود بند ہو گیا۔ جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے اسے مقفل کر دیا ہو۔
اچانک، کمرے میں دھواں سا بھرنے لگا۔ نوشین کی شبیہ دھند میں گھلتی جا رہی تھی۔ حمزہ کو لگا جیسے وہ حقیقت سے کسی اور دنیا میں داخل ہو رہا ہے۔
پھر، ایک پراسرار آواز گونجی۔ "حمزہ... کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے خاندان نے میرے ساتھ کیا کیا تھا؟"
کمرے کی دیواروں پر دھندلی شبیہیں ابھرنے لگیں۔ ایک قدیم حویلی کا منظر سامنے آیا۔ ایک نوجوان لڑکی، نورا، سفید لباس میں بھاگ رہی تھی، اس کے پیچھے مشعلیں لیے کچھ لوگ تھے۔ نورا چیخ رہی تھی، گڑگڑا رہی تھی، مگر ان لوگوں نے اسے ایک تالا بند کمرے میں دھکیل دیا اور دروازہ بند کر دیا۔
"یہ تمہارے دادا تھے، حمزہ... جنہوں نے میری ماں کو اس کمرے میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا!" نوشین کی آواز غصے سے کانپ رہی تھی۔
حمزہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ "یہ... یہ سچ نہیں ہو سکتا!"
"یہی سچ ہے، اور اب تمہیں اس ظلم کا خمیازہ بھگتنا ہوگا!" نوشین نے کہا اور اس کی آنکھیں مزید دہکنے لگیں۔
حمزہ کی سانس تیز ہو گئی۔ "میں اس سب کا حصہ نہیں ہوں! یہ میرے بزرگوں کی غلطی تھی! مجھے کیوں سزا دے رہی ہو؟"
نوشین ایک لمحے کے لیے رکی۔ کمرے کی فضا میں ایک سرد خاموشی چھا گئی۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا، "اگر تم واقعی بے گناہ ہو، تو ثابت کرو... لیکن یاد رکھو، وقت کم ہے، حمزہ۔ یا تو تم یہ لعنت ختم کرو، یا یہ تمہیں ختم کر دے گی۔"
اچانک کمرے کا دروازہ جھٹکے سے کھل گیا۔ ہوا تیز ہو گئی، اور نوشین غائب ہو چکی تھی۔

حمزہ نے لرزتے ہوئے قدم بڑھائے اور دروازے کے باہر جھانکا۔
حمزہ کی سانس بے ترتیب ہو چکی تھی۔ اس نے نوشین کی سرخ آنکھوں میں دیکھا، جو اب دھیرے دھیرے اپنی انسانی شکل کھو رہی تھیں۔ اس کا چہرہ دھند میں ڈھلنے لگا، اور اس کے گرد سائے لہرانے لگے۔

"نوشین... یا نورا... تم آخر ہو کون؟" حمزہ نے کانپتی آواز میں پوچھا۔
نوشین کے لبوں پر مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ "میں وہ ہوں جسے تم بھول نہیں سکتے، اور میں وہ ہوں جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ مگر اب وقت آ گیا ہے، حمزہ..." اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور حمزہ کو محسوس ہوا جیسے پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوب رہا ہو۔
اچانک، دروازہ زور سے کھلا اور ایک مانوس آواز گونجی۔ "نہیں! اسے چھوڑ دو!"
حمزہ نے سر اٹھا کر دیکھاوہ ایک بوڑھا فقیر تھا، جس سے وہ برسوں پہلے ایک ویران درگاہ میں ملا تھا۔ فقیر نے اپنا ہاتھ اٹھایا، اور ایک روشنی کمرے میں پھیل گئی۔ نوشین کی چیخ گونجی، اور اس کے وجود کے گرد لپٹے سائے منتشر ہونے لگے۔

"تمہارا وقت ختم ہو چکا ہے!" فقیر نے زوردار آواز میں کہا۔
نوشین نے حمزہ کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے دکھ ابھرا، اور پھر وہ دھند میں تحلیل ہونے لگی۔ "یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی، حمزہ میں واپس آؤں گی" اور اگلے ہی لمحے وہ غائب ہو گئی۔
حمزہ زمین پر گر پڑا، اس کی سانسیں بے ترتیب تھیں۔ فقیر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ "یہ ایک آزمائش تھی، بیٹا۔ بعض محبتیں حقیقت نہیں ہوتیں، بلکہ وہ سایہ ہوتی ہیں، جو ہمیشہ پیچھا کرتی ہیں۔ لیکن تم آزاد ہو گئے ہو۔"
حمزہ نے آنکھیں بند کیں، اور پہلی بار، اس نے اپنے دل کو ہلکا محسوس کیا۔