معصوم کلی

Sublimegate Urdu Stories

آج سے پندرہ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میں تعلیم مکمل کر چکی تو مجھے سلائی سیکھنے کا شوق ہوا۔ امی جان سے اجازت لے کر قریبی سلائی کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ سلائی سینٹر کی ہیڈ مسٹریس اور مالکہ بہت ہی اچھی خاتون تھیں۔ ان کا نام آصفہ تھا۔ ادھیڑ عمر کی، اخلاق و محبت کا پیکر تھیں، لیکن اسکول ٹائم میں وہ بہت سنجیدہ رہتیں، تبھی سب لڑکیاں ان سے ڈرتی تھیں۔

لڑکیوں کو کوئی کام ہوتا، تو وہ خود نہ جاتیں، بلکہ مجھ کو بھیجتیں۔ میں میڈم سے بالکل نہیں ڈرتی تھی۔ آصفہ باجی مجھ سے بہت محبت سے بولتی تھیں اور جو کام میں لے کر جاتی، وہ کر دیتی تھیں۔ آصفہ باجی اکیلی تھیں۔ گھر میں اور کوئی نہ تھا، سوائے ایک بیٹی شگفتہ کے ، جو آٹھویں میں پڑھتی تھی اور بہت لاڈلی تھی۔ یہ لڑکی ماں کے کنٹرول میں تھی۔ کبھی کوئی غلط بات نہیں کرتی تھی۔ ماں کا کہنا مانتی تھی۔ اس کی زیادہ سہیلیاں بھی نہ تھیں۔ بس ہر وقت اپنا دھیان پڑھائی میں لگائے رکھتی تھی۔

شگفتہ خوبصورت تھی، تاہم اس کو اپنے خوبصورت ہونے کا احساس نہیں تھا۔ نہ وہ سنور کر رہتی، کپڑے بھی سادہ اور معمولی پہنتی تھی۔ اس کے باوجود چودھویں کے چاند کی مانند چمکتی تھی۔ وہ اسکول چارد اوڑھ کر جاتی تھی۔ کالی چادر میں اس کا گورا چہرہ پر نور نظر آتا تھا۔ اس کے چہرے پر اتنی معصومیت برستی تھی کہ کوئی شخص اس معصوم مکھڑے پر میلی نظر ڈالنے سے پہلے لرز جاتا تھا۔ جن لوگوں کے خیالات نیک ہوتے ہیں، ان کے چہرے بھی روشن اور پر نور نظر آتے ہیں، کیونکہ اچھے خیالات کا عکس چہرے پر ضرور پڑتا ہے۔ ایسا ہی شگفتہ کا حال تھا۔ وہ اچھی سوچ والی لڑکی تھی۔ کبھی کسی کا برا نہیں چاہتی تھی ، نہ کسی کی برائی ہم نے اس کے منہ سے سنی تھی۔

ان کا گھر ہماری گلی سے تیسری گلی میں تھا۔ اسی گلی میں ہماری خالہ کا مکان بھی تھا۔ ہم اکثر خالہ کے گھر جاتے تھے۔ ان سے ہی ہمیں خالہ آصفہ کی زندگی کی کہانی پتا چلی تھی۔ آصفہ باجی نے صرف میٹرک پاس کیا تھا، اس کے بعد سلائی کا ڈپلومہ کورس کیا اور گھر بیٹھ گئیں۔ ان کے والدین چاہتے تھے کہ بیٹی کو ملازمت مل جائے تا کہ وہ کچھ اپنا جہیز بنا سکے کیونکہ یہ پیسے والے لوگ نہیں تھے۔ آصفہ کی والدہ کا خیال تھا کہ اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھانجے سے کر دیں۔ ان کا بھانجا بھی اتنا امیر نہیں تھا۔ برابر کے لوگ تھے، لیکن آصفہ باجی کے والد کا خیال تھا کہ بیٹی کو امیر گھر میں بیاہنا چاہئے، تاکہ ان کی بچی عیش کرے اور ماں باپ کے گھر کی غربت کو بھول جائے۔

عبد اللہ ان کا جگری دوست تھا۔ آصفہ کے باپ کے اپنے دوست سے بیٹی کے رشتے کی بات کی، تو عبد اللہ نے اپنے بیٹے جمیل کا رشتہ پیش کر دیا۔ ان دنوں جمیل شہر میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ وہ خوبصورت تھا اور تعلیم یافتہ بھی، ایسا رشتہ تو نصیب سے ملتا ہے۔ آصفہ کے والدین خوش ہو گئے اور عبد اللہ کو ہاں کر دی۔ اس نے بھی اپنے بیٹے سے پوچھے بغیر رشتہ طے کر دیا۔ جب جمیل چھٹیوں میں گھر آیا۔ باپ نے اس کو بتا دیا کہ میں نے تمہاری شادی اپنے دوست اظہر کی بیٹی آصفہ سے طے کر دی ہے۔ جمیل یہ سن کر پریشان ہو گیا کیونکہ اس نے اپنے لئے شہر کی ایک لڑکی ماہم کو پسند کر لیا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

عبد اللہ نے کہا۔ بیٹے، میں کسی شہری لڑکی کو بہو نہیں بناؤں گا۔ تمہیں میری لاج رکھنی ہو گی۔ اظہر میرا بچپن کا دوست ہے اور میں اسے زبان دے چکا ہوں۔ آصفہ خوبصورت ہے ، سلیقے والی ہے ، اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اب وہی میری بہو بنے گی ۔ تم شہری لڑکی کا خیال دل سے نکال دو۔ باپ کے بہت اصرار پر جمیل خاموش ہو گیا۔ اگر چہ دل سے اس رشتے پر راضی نہ تھا۔ بہر حال شہر آکر اس نے اپنی پسند سے شادی کر لی اور گھر والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔ ادھر عبد اللہ نے شادی کی تاریخ مقرر کر دی اور جمیل کو خط لکھ کر بلا لیا۔ وہ گھر پہنچا تو شادی کی تیاریاں زور شور سے ہو رہی تھیں۔ مقررہ تاریخ پر اس کی شادی آصفہ سے ہو گئی۔ ابھی تک کسی کو اس کی شہر والی شادی کا علم نہیں تھا۔ جمیل کی پہلی بیوی کو بھی اس کی دوسری شادی کا علم نہ ہو سکا۔ وہ یہی سمجھی کہ وہ اپنے ماں باپ سے ملنے گاؤں گیا ہوا ہے۔ جمیل شادی کے تیسرے روز واپس شہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد آصفہ بہت پریشان ہو گئی۔ وہ اس کا انتظار کرتی رہتی، مگر وہ مہینوں نہ آتا۔ بہانہ کرتا کہ چھٹی نہیں ملتی۔ اس طرح سال گزر گیا۔ وہ ایک آدھ بار ہی گھر آیا۔ آصفہ کو خدا نے لڑکی عطا کی، جس کا نام شگفتہ رکھا گیا۔ بیٹی کی پیدائش کا خط دے کر آصف نے خصوصی طور پر گھر سے ماموں کو بھیجا کہ خط جمیل کو دستی دے کر آنے کا کہے تا کہ کم از کم اپنی نو مولود بیٹی کو تو آکر دیکھ جائے۔

اُن دنوں جمیل پر باہر جانے کی دھن سوار تھی۔ اسی سلسلے میں وہ اکثر گھر سے غائب رہتا تھا۔ اتفاق سے جب ماموں اس کے آفس پہنچا، وہ نہ ملا تو وہ اس کے آفس سے گھر کا پتا کرنے کر وہاں چلا گیا۔ نوکر نے بتایا صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ اس نے خط لے لیا اور ماموں واپس آگیا۔ خط نوکر نے ما ہم کو دے دیا۔ جب اس نے خط پڑھا تو اسے بڑا صدمہ ہوا کہ صاحب نے دوسری شادی گاؤں میں کر رکھی ہے اور مجھے پتا بھی نہیں لگنے دیا۔ وہ غصے میں اسی وقت اپنی بیٹی کو لے کر میکے چلی گئی۔ جب جمیل گھر پہنچ تو نوکر نے خط دیا اور بتایا کہ بیگم صاحبہ میکے چلی گئی ہیں۔ وہ سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ گمبھیر ہے۔ 
 
وہ اسی وقت بیوی کے میکے پہنچا۔ ماہم نے رورو کر برا حال کر رکھا تھا۔ جمیل نے اس کو منانا چاہا اور واپس گھر چلنے کو کہا۔ اس نے شرط رکھ دی کہ پہلے گاؤں والی بیوی کے طلاق دو، پھر چلوں گی ورنہ کبھی بھی تمہارے ساتھ نہ رہوں گی۔ جمیل کو ماہم سے بہت محبت تھی۔ وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا تھا، لہذا اس نے یہ شرط منظور کر لی اور آصفہ کو طلاق بھجوا دی۔ اُدھر آصفہ خوش تھی کہ جمیل کو خط ملے گا تو یقینا وہ بیٹی کے لیے آئے گا، مگر میاں صاحب کے آنے کی بجائے ، طلاق آ گئی۔ خدا جانے کیسے اس نے یہ صدمہ برداشت کیا؟ وہ سخت بیمار ہو کر میکے واپس آ بیٹھی۔ وقت آخر ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ آصفہ نے بھی یہ صدمہ سہ لیا کیونکہ اس کو اپنی بیٹی کے لئے زندہ رہنا تھا۔ جب بیٹی پانچ برس کی ہو گئی، تو وہ اس کو لے کر شہر آ گئی اور کرایے کا مکان لے کر اس میں سلائی سینٹر کھول لیا۔ یہاں اردگرد سلائی کا کوئی اسکول نہیں تھا، لہذا اس کا سینٹر خوب چل پڑا اور معقول آمدنی سے وہ زندگی کی گاڑی کھینچنے لگی، ساتھ ہی وہ اپنی بچی کی پرورش بھی احسن طریقے سے کر رہی تھی۔
اُنہی دنوں زیادہ روپیہ کمانے کے لالچ میں جمیل بیرون ملک منشیات کے الزام میں دھر لیا گیا۔ وہ پردیس میں جیل کاٹ رہا تھا، جبکہ آصفہ باجی مردانہ وار زندگی کے مسائل سے نبرد آزما تھیں۔ ہمیں آصفہ باجی کی کہانی پتا چلی تو اور زیادہ ان سے ہمدردی ہو گئی۔ اب ہم اکثر خالہ جان کے گھر جاتے، تو امی کے ساتھ آصفہ باجی کے گھر بھی ہو آتے تھے۔

آصفہ باجی کے محلے میں ایک غریب خاندان نزدیک ہی رہتا تھا۔ لڑکا رکشہ چلاتا تھا، والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ صرف ایک بہن اور بہنوئی تھے ، یہ ان کے پاس رہتا تھا، اس کا نام بدر تھا۔ بدر روز شگفتہ کو اسکول جاتے دیکھتا، اشارے کرتا اور آوازیں کستا، مگر وہ بیچاری بچی نظریں جھکا کر نکل جاتی، کسی سے ذکر نہ کرتی۔ پھر وہ کسی بچے کے ہاتھ شگفتہ کو پرچے بھیجنے لگا۔ وہ غریب سہمی ہوئی تھی، پھر بھی چپ رہی، مگر وہ باز نہ آیا اس کی چپ سے اور شیر ہوتا گیا۔ ایک دن پرچے میں لکھا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تم سے شادی کروں گا۔ اگر تم نے میرے سوا کسی اور سے بات بھی کی، تو اچھا نہ ہو گا۔ وہ بیچاری ڈر گئی اور آخر ماں کو بتا دیا کہ یہ کافی دنوں سے پریشان کر رہا ہے اور پرچے بھیجتا ہے اور اب یہ لکھا ہے۔ ماں کو بہت صدمہ ہوا اور غصہ بھی آیا کہ اس کی یہ ہمت ، وہ فوراً اس کی بہن کے پاس گئیں اور کہا۔ اپنے بھائی کو سمجھا لو ، یہ ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔ اگر باز نہ آیا تو اس کا انجام اچھا نہ ہو گا۔ بہن نے بدر کو ڈانٹا۔ کہا کہ استانی صاحبہ آئی تھیں۔ وہ کہہ گئی ہیں تم اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ، ورنہ پولیس کے ہاتھوں مار کھاؤ گے، لیکن اس پر تو جنون سوار تھا۔
اگلے دن جب شگفتہ اسکول گئی ہوئی تھی۔ اس نے نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے اور ایک تیز نیا چھرا خریدا، پھر شگفتہ کی واپسی کے انتظار میں گلی کے موڑ پر چھپ کر کھڑا ہو گیا۔ دو پہر کے وقت گلی میں سناٹا تھا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں تھے۔ وہ بس سے اتر کر آئی اور اپنے گھر کی طرف مڑنے لگی تو بدر نے چھرا اس کے دل کے پاس اتنے زور سے مارا کہ اس کی چیخیں نکل گئی۔ جو دو لڑکیاں اس کے ساتھ تھیں ، وہ ڈر کر کسی کے گھر میں گئیں۔ چیخ سن کر لوگ بھاگے ہوئے آئے ، کافی رش لگ گیا۔ اب جو دیکھا تو شگفتہ خون میں نہائی ہوئی، زمین پر پڑی تھی۔ جلدی سے انہوں نے اس کو اٹھایا اور اسپتال لے جانے لگے ، مگر اس نے تو اسی وقت دم توڑ دیا اور اپنے خالق سے جا ملی۔

یہ منظر دیکھ کر سب حیران و پریشان کھڑ رہ گئے۔ جاننے والے رو رہے تھے، کیونکہ سبھی کو معلوم تھا کہ یہ محلے کی نیک ، شریف اور بے حد معصوم بچی تھی۔ باپ بھی سر پر نہ تھا تو سبھی خیال کرتے تھے۔ اسی وقت کسی نے یہ افسوس ناک خبر ماں کو جا کر سنائی تو وہ اسکول سے دوڑی آئی اور روتے روتے بے ہوش ہو گئی۔ سب نے مشکل سے سنبھالا۔
بدر خود اسی وقت کھانے پیش ہو گیا کہ یہ لو چھرا۔ میں نے آج اپنی محبت کو قتل کر دیا ہے، مجھے گرفتار کر لو۔ پولیس والوں نے اس کو فوراً گرفتار کر لیا۔ کافی دنوں مقدمہ چلا۔ بہنوئی نے بہت کوشش کی وہ بچ جائے، مگر وہ بچ نہ سکا اور اسے پھانسی کی سزا ہو گئی۔ اس کی بہن نے اپیل کی ، مگر کچھ نہ ہو سکا، پھر ایک صبح وہ اس کی لاش گھر لے آئے۔ اس کی بہن کا رونا دیکھا نہ جاتا تھا، مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ خدا کو یہی منظور تھا کہ قاتل پھانسی پائے ، سو وہ پھانسی پا ہی گیا۔ پھانسی سے پہلے بدر نے وصیت کی تھی کہ اس کو شگفتہ کی قبر کے پاس دفن کیا جائے، مگر آصفہ باجی نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اسے شگفتہ کی قبر سے بہت دور دفنایا گیا ۔ یوں اس کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔

اس بات کو پندرہ سال ہو گئے ، لیکن جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو دل دہل جاتا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا محبت ایسی بھی ہوتی ہے ؟ سچ ہے ، محبت کرنا کم ظرفوں کو زیب نہیں دیتا۔ جو کسی سے محبت کرتے ہیں، خود قربان ہو جاتے ہیں، لیکن جس سے محبت کرتے ہیں اس کے ناموس پر آنچ نہیں آنے دیتے، کیا اس کی جان لے لیں۔