دھوکے باز دوست

Urdu Font Stories - 220

ہم کل چار بہن بھائی تھے۔ راحیلہ باجی، شمر بھائی، ندا آئی اور میرا نمبر آخری تھا۔ ہم سب ہی ان دنوں پڑھ رہے تھے۔ راحیلہ باجی نے بی اے کے پیپر ز دیئے تو ان کی شادی ہو گئی۔ ندا آپی نے میٹرک کیا تھا۔ ان کا داخلہ ایک قریبی کا لج میں ہو گیا۔ یہ انگلش میڈیم کالج تھا جبکہ آپی نے اردو میڈیم اسکول سے پڑھا تھا۔ ان کی انگریزی کمزور تھی۔ کالج میں سب انگلش بولتے لہٰذاوہ پریشان رہنے لگیں۔

 گھر میں کوئی پڑھانے والا نہ تھا۔ والد صاحب ٹیوشن کے خلاف تھے جبکہ ثمر بھائی کی انگلش بہت اچھی تھی، انہوں نے انگلش میڈیم سے پڑھا تھا۔ صرف وہی آپی کو پڑھائی میں مدد دے سکتے تھے مگر وہ کچھ لا ابالی سے تھے ، روز ہی کہتے ، پڑھادوں گا مگر نہیں پڑھاتے تھے۔ ندا باجی اب کم پڑھتیں اور گھر کا کام کاج زیادہ کر تیں۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے، یہ شریفوں کا محلہ تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے والے مکان میں ایک زمیندار فیملی رہتی تھی۔ ان کی ایک لڑکی میری سہیلی بن گئی جس کا نام صائمہ تھا۔ وہ پہلے گائوں میں رہا کرتے تھے ، وہاں کے ماحول میں لڑکیوں کے لئے پابندیاں زیادہ تھیں۔ 

ایک سال قبل صائمہ کے ابونے شہر میں رہنے کا فیصلہ کیا اور یہ لوگ ہمارے محلے میں آبسے۔ صائمہ خوش شکل اور اچھے اخلاق کی تھی لیکن یہاں اس کی کوئی سہیلی نہ تھی۔ ہمار امکان ان کی رہائش سے قریب ترین تھا لہٰذا وہ میری سہیلی بن گئی۔ اس نے ہمارے اسکول میں داخلہ لیا اور ہم اکٹھی اسکول آنے جانے لگیں۔ ان دنوں میری منگنی چازاد یوسف سے ہو گئی جن کا گھر بھی ہمارے محلے میں تھا۔ یوسف واقعی یوسف کہلانے کا مستحق تھا۔ وہ خوبصورت لڑکا تھا۔ قریبی رشتہ داری کے باوجود وہ ہمارے گھر زیادہ نہیں آتا تھا۔ اس کی بہن حسنہ کبھی کبھی آجاتی تو صائمہ کی اس کے ساتھ بھی سلام دعا ہو گئی۔ زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔

ایک روز میں کالج سے آئی تو ندا آپی نے بتایا کہ راحیلہ باجی آئی ہیں۔ میں خوشی سے نہال دوڑی ہوئی امی کے کمرے میں گئی۔ وہ وہاں نہ تھیں ، تب ہی بھائی کے کمرے میں پہنچی، باجی وہاں بھی نہ ملیں۔ وہ باتھ روم میں تھیں۔ کمرے میں ایک نوجوان بیٹھا تھا، مجھے دیکھ کر تعظیماً کھڑا ہو گیا اور سلام کیا۔ جواب دے کر پلٹ آئی۔ باجی کو امی کے کمرے میں پایا۔ پوچھا کہ بھائی کے کمرے میں کون بیٹھا ہے۔ میرا دیور سر فراز ہے۔ تمہارے دولہا بھائی کو چھٹی نہیں ملی تو اس کے ساتھ آگئی ہوں۔ کھانے کے کمرے میں کچھ لینے گئی تو دوبارہ مڈ بھیڑ ہو گئی۔ اس نے مجھے دیکھا تو میں نے نظریں چرا لیں، محسوس ہوا جیسے زیر لب مسکرارہا ہو، میری جھینپ دیکھ کر۔

اگلے دن صائمہ ملی میں نے بتایا کہ ہماری باجی شادی کے بعد دوسری بار آئی ہیں اپنے دیور کے ساتھ ۔ دیور کیسا ہے ؟ صائمہ نے سوال کیا۔ میں نے غور سے اس کی شکل نہیں دیکھی، باجی کی شادی غیروں میں ہوئی ہے نا۔ پہلی بار وہ آیا ہے۔ اچھا.. وہ ہنس دی۔ تم کیوں دیکھو گی بھلا۔ تم کو کسی کو دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جس کو یوسف ثانی مل جائے وہ کسی کو دیکھے کیوں۔ میں نے اس کے مذاق کا کوئی جواب نہ دیا۔ شام کو وہ ہمارے گھر آدھمکی۔ سامنے سر فراز نظر آ گیا تو اس کی آنکھوں میں چیتے جیسی چمک آگئی ۔ اس لمحے وہ مجھے صائمہ نہیں لگ رہی تھی، وہ مجھے ایک عجیب قسم کی لڑکی لگی ۔

 آنا فانا سر فراز سے گھل مل گئی ، خود آگے بڑھ کر اس سے باتیں کرنے لگی۔ میں اس کی جرات پر حیران تھی کہ ہم تو بہن کے سسرال والوں سے بات بھی نہ کرتے تھے۔ ہمارے گھر کا ماحول ایسا ہی تھا۔ اگلے روز جب مجھے اسکول میں ملی تو کہنے لگی تمہاری باجی کے دیور بہت اچھے لگے ۔ اس نے منت کی کہ اس کا خط سر فراز کو دوں۔ انکار کیا، پیچھے پڑگئی اور اس قدر زچ کیا کہ خط ہی لینا پڑا۔ گھر آئی تو سب ہی کھانا کھا رہے تھے اور سرفراز صحن میں ہاتھ دھو رہا تھا۔ میں نے خط اس کو تھمادیا۔ وہ مجھے حیرت سے دیکھتارہ گیا اور میں تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس روز میں تمام دن سرفراز کا سامنا کرنے سے گھبراتی رہی کیونکہ حیا بھی تو ایک فطری چیز ہے۔ اگلے دن اسکول گئی، پھر صائمہ سر ہو گئی۔ دوستی کا واسطہ دینے لگی۔ 

دوستی کی خاطر بہار مان لی۔ جو نہیں چاہتی تھی، کرنا پڑا۔ وہ مجھے خط دیتی اور میں سر فراز کو موقع پاتے ہی تھما دیتی۔ یہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ ایک دن سر فراز کو خط دیتے ہوئے ابا جان نے دیکھ لیا اور میری شامت آگئی ۔ صائمہ کا نام لیتے ڈر رہی تھی کہ وہ کہیں گے ، تم نے اس کا بھی خط کیوں دیا؟ والد صاحب نے باجی راحیلہ کو یہ کہہ رخصت کیا کہ آئندہ میرے گھر دیور کے ہمراہ مت آنا۔ میں سمجھی معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا کیونکہ میں نے صائمہ کا نام نہ لے کر اس کو بچالیا تھا کہ وہ میری سہیلی تھی۔ ورنہ تو والد صاحب اسے بلا کر بے عزتی کرتے مگر میری خود غرض دوست نے اپنے بچائو کیلئے یہ بات میری ہونے والی نند یعنی یوسف کی بہن سے کہہ دی کہ طیبہ ، سرفراز کو خط دیتے ہوئے پکڑی گئی ہے ۔ بلکہ اس کے والد نے اسے اسکول جانے سے بھی روک دیا ہے۔ 

عمارہ نے اپنے بھائی یوسف کو بتایا کہ تمہاری منگیتر تو اپنی بہن کے دیور کو چاہتی ہے اور اسے خطوط لکھتی ہے۔ یہ بات محلے میں پھیل گئی اور یوں صائمہ کی لگائی ہوئی آگ میں میر اسب کچھ جل گیا۔ اس دوست نے صرف اپنی بقا کی خاطر کہ میں کسی سے کچھ کہہ نہ دوں، میری زندگی اجاڑ دی۔ میری منگنی ٹوٹ گئی۔ صائمہ کی دوستی نے مجھے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا اور خود کو صاف بچالیا۔ پچھتاتی تھی کہ کیوں اس پر بھروسہ کیا۔ دوست بنانے سے پہلے اس کی فطرت کو نہ سمجھا اور یہ دوستی میر اسب کچھ لے ڈوبی … یوسف سے میرا بچپن جڑا تھا اور وہ میری پسند تھا۔ اس کے ساتھ منگنی پر بے حد خوش تھی۔

ابھی یہ گھائو ہر اتھا کہ ایک اور واقعہ ہو گیا۔ میرا بھائی ذیشان شروع سے ہنس مکھ تھا۔ تب ہی اس کے جلد دوست بن جاتے تھے لیکن زیرک اس کا بہت بچپن سے دوست تھا۔ جب وہ پانچویں میں پڑھتے تھے تب سے زیرک ہمارے گھر آیا کرتا۔ شمر کو زیرک پر بھروسہ تھا۔ ساتھ کالج میں داخلہ لیا اور جب ٹیسٹ کی تیاری کرنی ہوتی، دونوں مل کر پڑھتے تھے۔ گھر میں صرف زیرک کو آنے کی اجازت تھی۔ باقی سارے دوست دروازے پر دستک دیتے اور باہر ہی رہتے۔ ندا آپی اکثر ثمر بھائی کو کہتی بھائی مجھے پڑھا دیا کر ولیکن بھائی کو اپنے دوستوں سے ہی فرصت نہ تھی۔ یہ بات البتہ زیرک کے دل پر اثر کرتی تھی۔ 

ایک روز اس نے ثمر سے کہا۔ دوست ! اگر تم نہیں پڑھا سکتے تو اجازت دو کہ میں ندا کو پڑھا دیا کروں۔ بڑے شوق سے … وہ خاصی کند ذہن ہے۔ اگر تم میں حوصلہ ہے تو سر کھپا کر دیکھ لو، اس کی کھوپڑی میں کچھ آئے گا نہیں۔ اگلے روز سے امی سے اجازت لے کر زیرک نے ندا کو پڑھانا شروع کر دیا۔ پہلے صرف اتوار کو بھائی کے پاس آتا تھا، اب روز شام کو آدھ گھنٹہ ندا کو پڑھانے لگا۔ اس بات پر کسی نے بھی اعتراض نہ کیا کہ ثمر کو سب اپنے گھر کے ایک فرد جیسا ہی سمجھتے تھے۔ زیرک کو پڑھاتے ایک ماہ ہی ہو ا تھا کہ ایک روز مجھے آپی کی انگلش بک سے ایک صفحہ ملا۔ ابھی میں پڑھ ہی رہی تھی آپی کمرے میں آگئیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا پڑھ رہی ہو ؟ یہ ایک خط لکھا ہے آپ کے نام ، وہی پڑھ رہی ہوں۔ تبھی آپی کا رنگ اڑ گیا اور انہوں نے کاغذ کو میرے ہاتھ سے جھپٹنے کی کوشش کی۔ اس وقت ثمر بھائی بھی کمرے میں آگئے تو میں نے خط کو فورا اپنے پیچھے چھپانے کی سعی کی۔ بھائی نے کہا۔ طیبہ ، یہ کیا ہے ؟ کیا چھپارہی ہو مجھ سے؟ بھائی میری جانب آگئے۔ میں نے صفحہ گرادیا اور خاموش رہی۔ 

انہوں نے مجھے اسے پھینکتے دیکھ لیا تھا۔ جھک کر اٹھا لیا اور تحریر دیکھتے ہی ان کا رنگ بدل گیا۔ ظاہر ہے کہ بچپن سے ساتھ پڑھتے تھے ، فورا زیرک کی تحریر پہچان لی تھی۔ خط پڑھا تو آپی کو غضب ناک نگاہوں سے گھور کر بولے۔ اچھا تو پڑھنے کی بجائے خط و کتابت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے ؟ آپی نے جواب دیا۔ میں تو تم سے کہتی تھی بھائی مجھے پڑھا دو مگر تم ہی نے زیرک کو مجھے پڑھانے کو کہا۔ میں سانے پڑھنے کیلئے کہا تھا، عشق کرنے کیلئے نہیں کہا تھا۔ بھائی کی بات سن کر میر اسر شرم سے جھک گیا۔ پہلے ہی صائمہ کی لگائی آگ سے میری منگنی ٹوٹی تو وہ دکھی تھے اور اب دوسری بہن کا قصہ سامنے تھا۔ خیر نہ جانے کیا سوچ کر زیادہ کہے بغیر وہ کمرے سے نکل گئے۔ 

اگلے دن کا لج نہ گئے ، سارا دن کمرے میں بند رہے، شاید کہ کالج میں دوست سے جھگڑا کرنانہ چاہتے تھے۔ شام کو حسب معمول زیرک آگیا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ شمر بھائی ہی دیکھنے گئے۔ زیرک کو دیکھ کر آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کہا، کیا آج کے بعد تمہیں میرے گھر کے اندر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ؟ تم میرے بچپن کے دوست تھے۔ تم کو اپنے بھائی کی طرح سمجھتا تھا۔ معلوم نہ تھا کہ آستین کے سانپ ہو۔ تم نے میری بہنوں کو اپنی بہنیں نہ سمجھا۔ اس وقت بھائی اس قدر غصے میں تھا کہ جذبات میں آکر زیرک کے منہ پر ایک تھپڑ تھپڑ مار دیا اور بولا۔ بس اتناہی کافی ہے۔ دوست نہ ہوتے تو جان سے مار دیتا۔ 

چلے جائو اور آج کے بعد پھر کبھی مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔ اس کے بعد بھائی ثمر نے وہ کالج چھوڑ دیا اور ایک دوسرے کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس وجہ سے ان کی تعلیم بھی متاثر ہوئی کیونکہ پہلا کالج تو نمبر ون تھا اور اب جس کالج میں داخلہ لیا تھا، وہ اتنا اچھانہ تھا لیکن کبھی کبھی بھائیوں کو نادان بہنوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ندا آپی کو دکھ ہوا کہ نہیں۔ معلوم نہیں کیونکہ ان کی آنکھوں پر تو اس وقت عشق کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ مجھے بہت زیادہ قلق تھا کیونکہ پہلے بھی سر فراز کو خط دینے پر مجھے مجرم سمجھا گیا مگر دکھ تو والد اور بھائی کو اٹھانا پڑا۔ خواہ انہوں نے مجھے صحیح سمجھا یا غلط۔ بعد میں بہن راحیلہ نے مدد کی تھی۔ سرفراز سے پوچھا تو اس نے خطوط باجی کو دکھا کر کہا تھا کہ صائمہ نے لکھے ہیں، طیبہ نے نہیں۔ بے شک تحریر دیکھ لیں۔ 

سرفراز کی میں دل سے مشکور تھی۔ بے شک منگنی مشکور تھی۔ بے شک ٹوٹنے کا صدمہ ہوا لیکن والد اور بھائی کے دل سے یہ بوجھ تو ہلکا ہوا کہ خطوط میں نے نہیں لکھے تھے۔ البتہ یوسف کی بہن اور صائمہ نے جو بات محلے میں پھیلائی، اس کا ملال ضرور تھا کیونکہ لوگوں کے منہ پر کون ہاتھ رکھ سکتا ہے۔ بھائی نے آپی کو کہا کہ اب تم کا لج نہ جائو گی کیونکہ والدین کی عزت کا پاس نہ کیا تم نے۔ زیرک میرا دوست تھا تم تو میری بہن تھیں، میرا ہی خیال کر لیا ہوتا ؟ ایک ہفتہ تک آپی روتی رہیں تب امی نے زیرک کو سمجھایا کہ اسے معاف کر دو۔ ایک کو گھر بٹھا لیا حالانکہ وہ بے گناہ تھی، اب دوسری کے ساتھ تو رعایت کرو۔ ندا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گی۔ سالانہ امتحان ہونے والے ہیں اور اس نے بہت محنت کی ہے ، اسے پرچے دینے دو۔ کسی طرح امی جان نے منت سماجت کر کے شمر کو منالیا۔
شمر بھائی تو مان گئے مگر آپی کب ماننے والی تھیں۔ ایک چھوٹے لڑکے کے ذریعے زیرک نے پھر ان سے رابطہ کر لیا اور دونوں نے گھر سے باہر رابطہ بحال رکھا۔ زیرک شاید ندا آپی کی کمزوری بن گیا تھا۔ وہ آپی کے کالج کے چکر لگاتا اور یہ اس سے ملنے کسی ایسی جگہ چلی جاتیں کہ جہاں دونوں کو زمانہ نہ دیکھ سکے۔ کالج کی تعلیم مکمل ہو گئی تو ابو نے ثمر بھائی کو پڑھنے کیلئے یونیورسٹی بھیج دیا اور وہ لاہور چلے گئے۔ اب ندا کو کس کا ڈر تھا۔ زیرک سے دوستی اتنی گہری ہو گئی کہ غلط مراسم لکھوں تو بے جانہ ہو گا۔ ان کو خود پر قابور ہا اور نہ اپنے قدموں پر میں ان کی غلطیوں کو خاموشی سے دیکھتی تھی اور کچھ نہ کر سکتی تھی۔ نہیں چاہتی تھی وہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں۔ 

ان کے بارے میں ان کی ایک کلاس فیلو سے خبریں ملتی رہتی تھیں۔ غرض آپی نے تعلیم کے تقدس کا خیال کیا اور نہ اپنے والدین کی عزت کا … آخر کارایسی مصیبت میں پھنس گئیں کہ عزت کے ساتھ جان بھی جانی تھی۔ مجھے ساری باتوں کا علم تھا لیکن امی کو نہ بتاتی۔ اگر بتادیتی تو ابو ، ندا آپی کے ساتھ امی کو بھی شوٹ کر دیتے۔ بالآخر ایک دن ندا آپی ، زیرک کے ساتھ گھر سے چلی گئیں اور دونوں نے عدالت میں نکاح پڑھوالیا۔ وہ ایک دوسرے شہر جابسے ۔ ان کے اچانک غائب ہو جانے سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ محلے والے تو پہلے ہی میری منگنی ٹوٹنے کی باتیں کرتے تھے۔ والد بہت پریشان تھے، شمر بھائی یونیورسٹی ہاسٹل میں تھے۔ والد نے سوچا کہ اسے لاہور اطلاع کی تو نجانے اس پر کیا گزرے۔ جب گھر آئے گا تو بتادوں گا۔ محلے میں یہی بات پھیلا دی کہ ندا بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لاہور چلی گئی ہے۔ وہاں اسے یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے۔ میں نے اور امی نے گھر سے نکلنا بند کر دیا کہ کوئی ہم سے ندا کے بارے میں سوال نہ کرے۔

شمر بھائی گھر آئے، والد نے ان کو تحمل کی تلقین کی اور کہا کہ ندا تو چلی گئی۔ اسے مرا ہوا سمجھ لو لیکن اب اگر تم نے کوئی ایسا ویسا قدم اٹھایا تور ہی سہی عزت بھی جاتی رہے گی۔ بہتر ہے ہم یہ گھر فروخت کر کے لاہور شفٹ ہو جائیں۔ بڑی مشکل سے ثمر بھائی نے اپنے جذبات کو قابو میں کیا۔ خاموشی سے واپس یونیورسٹی چلے گئے۔ والد نے گھر فروخت کرنے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ ایک پراپرٹی ڈیلر کے ذریعے بالآخر گھر کو فروخت کر دیا گیا اور ہم لوگ لاہور آگئے۔ اس واقعے کو دس برس گزر گئے۔ ثمر بھائی کو لاہور میں ہی ایک اچھی جاب مل گئی تھی، میری شادی بھی لاہور میں ہو گئی ، راحیلہ باجی پہلے ہی یہاں رہتی تھیں۔ ہمارا اپنے شہر سے کوئی واسطہ نہ رہا۔ 
ایک روز شمر بھائی، ان کی بیوی اور امی لبرٹی میں شاپنگ کرنے گئے تو اچانک ندا آپی اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ نظر آگئیں۔ وہ سامنے سے آرہی تھیں۔ جب قریب آئیں ، امی کو دیکھ کر رک گئیں ، و کو دیکھ کر رک گئیں، قریب آکر گلے لگنا چاہا۔ امی تو ماں تھیں شاید گلے لگا لیتیں لیکن ثمر بھائی ساتھ تھے۔ اپنی جگہ بت بنی کھڑی تھیں۔ زیرک بھی شرمندہ تھا۔ گردن جھکائے دھیرے سے بولا۔ امی جان …. مجھے معاف کر دیں، ہم سے غلطی ہو چکی تھی۔ اگر میں ندا سے شادی نہ کرتا تب بھی آپ کی عزت پر بن جاتی۔ ہمارے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ ثمر نے میرے منہ پر تھپڑ مار کر مجھے سمجھا دیا تھا کہ اب اس گھر سے میں رشتے کی امید نہ رکھوں۔ ثمر بھائی بولے۔ تو تم نے تھپڑ کا یہ بدلہ لیا کہ میری بہن کو بھگا کر اس سے کورٹ میرج کر لی؟ ویسے بھی ہم نے مر جانا تھا تو تم نے یوں بھی ہم کو مار دیا۔ اس وقت ثمر بھائی کی حالت دیدنی تھی۔ وہ بے بس سے کھڑے تھے اور لہجہ ایسا تھا جیسے فریاد کر رہے ہوں۔

 امی نے شمر کا بازو تھاما اور آگے لے گئیں۔ بولیں۔ بس بیٹا جو ہماری قسمت میں تھا، ہو چکا۔ اب کچھ فائدہ نہیں ہے۔ جھگڑا بھی کرو گے تو اپنی ہی عزت خراب ہو گی۔ ندا نے اپنی پسند سے شادی کر لی ہے۔ اب خوش ہے یاد کھی، ہم سے تو کچھ علاقہ نہیں ہے۔ وہ اب تین بچوں کی ماں ہے اور بچوں کا قصور نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ ہے اور بچوں کا قصور نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اس کو ایک خواب سمجھ کر بھلادیں۔ شمر بھائی کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر عقلمندی کا تقاضا تھا صبر کرنا، سو صبر کیا۔ سوائے صبر چارہ بھی کیا تھا۔ ایک سال بعد ندا آپی نے مجھے فون کیا۔ جانے کیسے میرا نمبر تلاش کیا۔ 

بہر حال جب میں نے پوچھا۔ اب تو خوش ہو، خوشی پوری کر لی اپنی ؟ تب آہ بھر کر بولیں۔ طیبہ ، کیا بتائوں کہ خوش ہوں یا نا خوش … جیسی زندگی ہے ، اب تو گزار نی ہے۔ اپنی کرنی ہے، خود بھرتی ہے۔ زیرک کچھ زیادہ اچھا انسان نہیں ہے، مالی طور پر بھی مستحکم نہیں ہے۔ غریبی، امیری ہر طرح کے حالات عورت گزار لیتی ہے لیکن اگر شوہر صحیح نہ ہو تو پھر زندگی بہت تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ میں جیسی زندگی گزار رہی ہوں، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ جائز ذرائع سے زیرک کی آمدنی نہیں آتی بلکہ غلط کاموں سے کماتا ہے۔ عیاش بھی ہے ، غلط قسم کی عورتوں سے دوستی اور باہر راتیں گزار نا اس کا مشغلہ ہے۔ جو کماتا ہے، شراب و شباب کی محفلوں کی نذر کر آتا ہے۔ بچوں کی خاطر سب عذاب سہہ رہی ہوں۔ اگر زیرک سے جھگڑ لوں تو بچوں کا کیا ہو گا۔
مجھے بہن کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا اور میں نے کہا۔ ندا ! تمہارے جانے کے بعد ابو نے تمہارا غم ایسا دل کو لگا لیا کہ بیمار رہنے لگے تھے، بالآخر وفات ہو گئی۔ پوچھا، تم تو خوش ہو طیبہ ؟ ہاں ! اللہ کا شکر ہے۔ مجھے والدین نے اپنی دعائوں کے ساتھ رخصت کیا تھا۔ میرے شوہر بہت اچھے انسان ہیں، خوشحال بھی ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔ تبھی ندانے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ کاش میں بھی والدین کی دعائوں کے ساتھ رخصت ہوتی تو شاید آج ایسے برے حال میں زندگی نہ گزار رہی ہوتی۔ طیبہ ، میرے لئے دعا کرنا کہ زیرک سدھر جائے، باقی ماندہ زندگی اچھی گزرے۔ زیرک سدھرا یا نہیں، نہیں معلوم کیونکہ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ کینیڈا چلی گئی اور پھر ندا سے رابطہ قائم نہ ہو سکا۔